سرحدِ شہر ِقناعت سے نکالے ہوئے لوگ

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
سرحدِ شہر ِقناعت سے نکالے ہوئے لوگ
کیا بتائیں تمہیں کس کس کے حوالے ہوئے لوگ

اپنی قیمت پہ خود اک روز پشیماں ہونگے
سکّہء وقت کی ٹکسال میں ڈھالے ہوئے لوگ

آئینوں سے بھی نہ پہچانے گئے کچھ چہرے
آتشِ زر میں جلے ایسے کہ کالے ہوئے لوگ

کب سے ہے میرے تعاقب میں دہن کھولے ہوئے
ایک عفریت شکم جس کے نوالے ہوئے لوگ

تم سے بچھڑے ہیں تو ہر موڑ پہ ٹکراتے ہیں
سنگِ دشنام کے مانند اُچھالے ہوئے لوگ

راحت ِ سایہ میں بیٹھیں گےتو بجھ جائیں گے
ہم کڑی دھوپ میں سورج کے اُجالے ہوئے لوگ

اے مرے شہر ِتمنا تری سرحد سے پرے
جی رہے ہیں تری نسبت کو سنبھالے ہوئے لوگ


ظہیر احمد ظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مارچ ۲۰۱۲

ٹیگ: محمد تابش صدیقی فاتح کاشف اختر سید عاطف علی
 
Top