سراب

فرذوق احمد

محفلین
سراب
وہ اِک لمحہ جب تم نے مجھے دِل سے نکالا تھا
کئی صدیوں پہ بھاری تھا
میں اس لمحے ہجر کی بے مہر گلیوں میں جبیں آسماں سے ٹوٹ کر بِکھرے ہوئے
راہ و رسم محبت کے لہو میں تربہ تر ذرے
جمع کرنے کو نکلا تھا
میں اس لمحے کی گردِش میں وجودِ عشق کا اِک بے کفن لاشہ
لرزتے کانپتے ہاتھوں پہ پھیلائے
بگولے کی طرح رقصاں
ہر اِک کوچے سے گزرا ہوں
ہر اِک دہلیز پہ میں نے صفِ ماتم بِچھائی
مگر کوئی نہ بولا
کسی نے بڑھ کر میرے ہجر کا چہرہ نہہیں دیکھا
کوئی نوحہ نہیں لکھا
میری آواز کی سب دستکیں اور آہیں بے فیض ٹھری ہے
سو اب میں لوٹ آیا ہوں
میرے پاؤں کو اب بھی اِک جگہ رکنے نہیں دیتی ہے
---------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
یہ نظم پتا نہیں کس کی ہے ،،مگر مجھے بہت پسند ہے اور مجھے امید ہے کہ آپ سب کو بھی پسند آئے گی
 
Top