شفیق خلش :::::سدِّبابِ جبر کو، دِیوار و در بالکل نہ تھا:::::Shafiq-Khalish

طارق شاہ

محفلین

1.jpg


سدِّبابِ جبر کو، دِیوار و در بالکل نہ تھا
جو سُکوں حاصل اِدھر ہے وہ اُدھر بالکل نہ تھا

تھا غضب کا دَور جس میں گھر بھی گھر بالکل نہ تھا
کون تھا مُثبت عمل جو در بَدر بالکل نہ تھا

حاکمِ وقت ایک ایسا تھا مُسلّط قوم پر
جس پہ، باتوں کا کسی کی، کُچھ اثر بالکل نہ تھا

حق شناسی، نوجوانی سے ودِیعت تھی اِسے
تھا مفکّر ہی شررؔ آشفتہ سر بالکل نہ تھا

دیکھتا ہُوں اُس شرر کو شُعلہ اِک بھڑکا ہُوا
راست گوئی میں جسے پہلے بھی ڈر بالکل نہ تھا

آبشاروں سے لطیف احساس کے آمُوزگار
تھے وہاں وافِر، کوئی اِن سا مگر بالکل نہ تھا

حلفِیہ کہتا ہُوں سب سے، تھا مُعلّم یہ مُحِب
آبیاری سے جوغافِل لمحہ بھر بالکل نہ تھا

* تا ابد زندہ شررؔ، اُن کا صلیب اور سائبان
شک مجھے لاحق خلشؔ کُچھ اَس امر بالکل نہ تھا
------
* اپنے کالج ( اُردو کالج اب یونیورسٹی) کے نہایت شفیق اور مُحِب اُستاد جناب یونس شررؔ صاحب کی کتاب صلیب اور سائبان کی تقریبِ پزیرائی کے لیے لکھی غزل۔
شفیق خلشؔ
 
Top