سحر انصاری ::::: کسی بھی زخْم کا، دِل پر اثر نہ تھا کوئی ::::: Sahar Ansari

طارق شاہ

محفلین
غزلِ

سحر انصاری

کسی بھی زخْم کا، دِل پر اثر نہ تھا کوئی
یہ بات جب کی ہے، جب چارہ گر نہ تھا کوئی

کسی سے رنگِ اُفق کی ہی بات کرلیتے
اب اِس قدر بھی یہاں مُعتبر نہ تھا کوئی

بنائے جاؤں کسی اور کے بھی نقشِ قدم
یہ کیوں کہوُں کہ مِرا ہمسفر نہ تھا کوئی

گُزر گئے تِرے کُوچے سے اجنبی کی طرح
کہ ہم سے سِلسِلۂ بام و در نہ تھا کوئی

جسے گُزار گئے ہم بڑے ہُنر کے ساتھ
وہ زندگی تھی ہماری ، ہُنر نہ تھا کوئی

عجِیب ہوتے ہیں آدابِ رُخصتِ محفِل !
کہ اُٹھ کے وہ بھی چَلا، جِس کا گھر نہ تھا کوئی

ہُجومِ شہر میں شامِل رہا، اور اُس کے بعد
سحر! اُدھر بھی گیا میں، جِدھر نہ تھا کوئی

پروفیسر سحر انصاری
 
Top