غزلِ
سحر انصاری
کسی بھی زخْم کا، دِل پر اثر نہ تھا کوئی
یہ بات جب کی ہے، جب چارہ گر نہ تھا کوئی
کسی سے رنگِ اُفق کی ہی بات کرلیتے
اب اِس قدر بھی یہاں مُعتبر نہ تھا کوئی
بنائے جاؤں کسی اور کے بھی نقشِ قدم
یہ کیوں کہوُں کہ مِرا ہمسفر نہ تھا کوئی
گُزر گئے تِرے کُوچے سے اجنبی کی...