سب ہار دیا - ارشاد عرشی ملک

رانا

محفلین
اس بار تو دل کی بازی میں اے جانِ جاں، سب ہار دیا
زر ہار دیا، سر ہار دیا، ظاہر پہناں، سب ہار دیا

جب عشقِ حقیقی نے دل کے دروازے پر آ دستک دی
جاں سحر زدہ سی اُٹھ بیٹھی جو کچھ تھا جہاں، سب ہار دیا

تھیں وصل کی راہیں تنگ بہت سو بھاری گٹھڑپھینک دئیے
دنیا کی ہوس دنیا کی متاع اک بارِ گراں، سب ہار دیا

جب عشق نے پوچھا چپکے سے، چلنا ہے تو چل اب دیر نہ کر
میں ننگے پاؤں دوڑ پڑی پوچھا نہ "کہاں" سب ہار دیا

اب تیرے در پر رونا ہی اس دل کو تسلی دیتا ہے
وہ رونق میلے دنیا کے وہ عشق بُتاں سب ہار دیا

ہو عشق بھی اور خوداری بھی دنیا کی متاع ہو پیاری بھی
یہ طرز نہیں اک عاشق کے شایان شاں سب ہار دیا

جب ہم بھی ترے اور جاں بھی تری پھر بھاؤ تاؤ ٹھیک نہیں
اور عشق کوئی بیوپار نہیں سو سود و زیاں سب ہار دیا

کچھ پھندے تھے مضبوط بہت اور دل کو جکڑے رکھتے تھے
اب رشتے ناطے دنیا کے اک وہم و گماں، سب ہار دیا

اللہ کی طلب کے دعوؤں میں لفاظی ایک "فضولی" ہے
تصدیق عمل سے کی جس نے کھولی نہ زباں سب ہار دیا

اک آن سے اُس نے پوچھا تھا کیا ہار کی بازی کھیلو گی؟
میں نعرہ مار کے بول اُٹھی ہاں ہاں مری جاں سب ہار دیا

لہجے کی کھنک، لفظوں کی چمک سب گذرے دور کا قصہ ہیں
وہ تانا شاہی طبیعت کی، وہ شوکت وشاں سب ہار دیا

وہ دن بھی عرشی بیت گئے جب طرز بیاں میں جادو تھا
اب لفظ ہیں گونگے ہونٹوں پر ناں ہوں، ناں ہاں سب ہار دیا
 

فاتح

لائبریرین
واہ واقعی بے انتہا خوبصورت کلام کا انتخاب کیا ہے آپ نے۔ بہت شکریہ!
ایک تو آپ گٹھڑ کو گٹھر لکھ گئے ہیں اور دوسرا درج ذیل شعر میں واوین کے مقامات درست نہیں۔ انھیں شاید یوں ہونا چاہیے:
جب عشق نے پوچھا چپکے سے "چلنا ہے تو چل، اب دیر نہ کر"
میں ننگے پاؤں دوڑ پڑی، پوچھا نہ "کہاں؟" سب ہار دیا​
 
Top