سب کچھ ہے وہی نئے برس میں ۔ اختر عثمان

فرخ منظور

لائبریرین
سب کچھ ہے وہی نئے برس میں
ہم آج بھی ہیں اسی قفس میں

بس یاد ہے ان لبوں کی جنبش
شعلہ سا کھلا تھا جیسے خس میں

اس چشمِ جہت نگر کے صدقے
ڈوبے نہیں حرفِ کم نفس میں

ہم اور نوائے نے و نوحہ
تم اور وفا جفا کی قسمیں

ہر پھر کے انہی کی آڑ روئے
کچھ لفظ تھے اپنی دسترس میں

معلوم تھی سرخ روئی اپنی
کیا سنگ تھا دستِ داد رس میں

وہ اس کی صدا تھی یا نہیں تھی
جی آج تلک ہے پیش و پس میں

اس رشکِ سمن سے کیا بتائیں
کیا فرق ہے عشق اور ہوس میں

ہم کون ، کہاں کمالِ قدرت؟
سب کچھ ہے اسی نظر کے مَس میں

ان نے تو نگاہ بھر ہی دیکھا
تارے سے چہک اٹھے کلس میں

اے سَر نہایت روایت
ہم توڑ نہیں سکے یہ رسمیں

یوں فاتحِ عالمیں تو ہیں ہم
اک عشق نہیں ہے اپنے بَس میں

اندوہِ فسانہء جدائی
کیا اور بھلا سنا جرس میں


اختر عثمان
 
Top