فاروقی
معطل
سب سے چھپا کے درد جو وہ مسکرا دیا
اسکی ہنسی نے آج مجھے تو رلا دیا
لہجے سے اٹھ رہی تھی یوں داستانِ درد
چہرہ بتا رہا تھا کہ سب کچھ گنوا دیا
آواز میںتھا کرب، آنکھوں میں نمی تھی
اور کہہ رہاتھا میں نے تو سب کچھ بھلا دیا
جانے کیا لوگوں سے تھیں اسے شکایتیں
تنہائیوں کے دیس میں خود کو بسا دیا
خود بھی تو وہ بچھڑ کر ادھورا سا ہو گیا
مجھ کو بھی اس ہجوم میں تنہا بنا دیا
اسکی ہنسی نے آج مجھے تو رلا دیا
لہجے سے اٹھ رہی تھی یوں داستانِ درد
چہرہ بتا رہا تھا کہ سب کچھ گنوا دیا
آواز میںتھا کرب، آنکھوں میں نمی تھی
اور کہہ رہاتھا میں نے تو سب کچھ بھلا دیا
جانے کیا لوگوں سے تھیں اسے شکایتیں
تنہائیوں کے دیس میں خود کو بسا دیا
خود بھی تو وہ بچھڑ کر ادھورا سا ہو گیا
مجھ کو بھی اس ہجوم میں تنہا بنا دیا