سب سے چھپا کے درد جو وہ مسکرا دیا

فاروقی

معطل
سب سے چھپا کے درد جو وہ مسکرا دیا
اسکی ہنسی نے آج مجھے تو رلا دیا

لہجے سے اٹھ رہی تھی یوں داستانِ درد
چہرہ بتا رہا تھا کہ سب کچھ گنوا دیا

آواز میں‌تھا کرب، آنکھوں میں نمی تھی
اور کہہ رہاتھا میں نے تو سب کچھ بھلا دیا

جانے کیا لوگوں سے تھیں اسے شکایتیں
تنہائیوں کے دیس میں خود کو بسا دیا

خود بھی تو وہ بچھڑ کر ادھورا سا ہو گیا
مجھ کو بھی اس ہجوم میں تنہا بنا دیا
 

مغزل

محفلین
بہت خوب۔۔
فاروقی صاحب بہت خوب کلام پیش کیا ہے ۔
مطلع پر ایک شعر یاد آگیا بچپن میں کہیں پڑھا تھا۔

دیکھا مجھے تو ترکِ تعلق کے باوجود
وہ مسکرا دیا یہ ہنر بھی اسی کا تھا۔

سلامت رہیئے ۔،
اور یونہی خوشیاں بکھیرتے سمیٹتے رہیئے۔
والسلام
 

مغزل

محفلین
کیا بات سے سبز پری صاحبہ ۔۔ خوب حسنِ انتخاب ہے واہ
آپ کی باذوق سماعتوں بصارتوں کی نذر:

دکھ سب کے مشترک تھے مگر حوصلے جدا
کوئی بکھر گیا تو کوئی مسکرا دیا
 
Top