سبق ۔۔۔۔۔ از س ن مخمور

loneliness4ever

محفلین

سبق
س ن مخمور

” یار !! کہاں ہوتم؟؟ نہ کوئی فون نہ ای میل، بھائی مانا فون تم اس لئے نہیں کرتے ہوگے کہ بیلنس ضائع ہوگا مجھ سے بات کر کے، چلو خیر ہے مگر کم از کم ای میل پر تو رابطہ رکھ سکتے ہو، عجیب نامعقول انسان ہو، معلوم نہیں انسان بھی ہو یا ۔۔۔۔۔۔“

” اے اے !! اتنی مدت بعد بات ہو رہی ہے اور تم نے شکوے ، شکایت کرنے کی عورتوں والی عادت اب تک نہیں چھوڑی، یار اب تو تم گھر میں ایک عدد بیوی بھی لے آئے ہو اب یہ کام اس پر چھوڑ دواور الحمداللہ باپ بھی بن چکے ہو پھر بھی یہ عورتوں والی عادت نہیں چھوڑتے“

اس سے پہلے میرا دوست تنویر کسی بھی صورت رابطہ نہ رکھنے پر مزید میری کھینچائی کرتا میں نے الٹا اسکو آڑے ہاتھوں لینا شروع کردیا۔ اور بنا رکے بولتا ہی گیا۔

” میاں جب تم جیسے دوست ہوں تو کس کم عقل کو رابطہ کرنے کا دل چاہے گا“

میری اس بات پر دوسری جانب سے زور دار قہقہہ میرے کان میں گونجا

”سدھر جاﺅ، اتنا عرصہ گزر گیا تمہاری باتیں وہی ہیںمگران ہی باتوں کی وجہ سے تو تم کو چھوڑنے کا دل نہیں کرتا، تمہارے تو کان ایک میں کیا باقی تمام دوست بھی کھینچیں گے، اب بزدلوں کی طرح آنے سے منع مت کر دینا“

” بھائی کیا کہہ رہے ہو کچھ پلے نہیں پڑا، کہاں آنا ہے؟ کون کو ن آرہا ہے؟ آخر پروگرام کیا ہے؟؟“

میں نے تنویر کی بات سن کر اس سے مزید وضاحت طلب کی۔

” یار! پروگرام بہت شاندار ہے ہم سب اتوار کی شام سلمان کے گھر اکٹھے ہو رہے ہیں وہاں سے کہیں باہر کسی ریسٹورینٹ تک چلیں گے وہی امریکن سسٹم کے تحت“

”ہا ہا ہا!!! مولوی بڑے تیز ہواپنے مطلب کے لئے امریکہ کی پیروی کر تے ہو اور ویسے اللہ اللہ کرتے ہو۔کوئی نہیں میرے حصے کے روپے بھی تم ہی دو گے سمجھے ،تب ہی مابدولت جلوہ افروز ہونگے“

” شاعر صاحب آپ حکم کریں تو خادم آپ کے گھر بھی آجائے آپ کو لینے کے لئے؟؟“

” نہیں نہیں یار وہ تمہارے راستے سے ہٹ کر ہو جائے گا میں آجاﺅں گا“

”کیسے آﺅ گے؟؟“
”ویسے ہی جیسے پہلے آتا رہا ہوں یعنی عوامی گاڑی سے“

”یار کہو تو میں لینے آجاﺅں گا، بس سے آنے جانے میں دیر ہونے کا چانس بہت ہوتا ہے“

”چانس !!! میاں کیا آدھا تیتر اور آدھا بٹیر کر رہے ہو، اردو میں انگریزی کا تڑکا کیوں لگاتے ہو، سیدھا سیدھا بول دو وقت پر نہ پہنچنے کااندیشہ رہتا ہے“

”اچھا جناب غلطی ہو گئی، آپ آئیں تو اردو پر ایک کلاس لے لیجائیے گا ہم سب کی“

” جنازہ نکال دو گے تم تواردو اور استاد کا“

”معاف کر د یجئے بھیا، آپ کو فون کر کے غلطی ہو گئی، ہمارے گناہ زیادہ ہو چکے ہیں اس لئے ہم تمام دوستوں کی گزارش ہے جناب سے کہ اتوار کی شام بن کر قہر ِ خداوندی ہماری محفل میں جلوہ افروز ہوں اور جیتے جی ہم تمام دوستوں کو اپنے اپنے گناہوں کی کچھ سزا یہاں بھگتنے کا موقع فراہم فرمائیں۔تا کہ ہماری قبروں کی تاریکی میں کچھ کمی واقع ہو سکے، عین نوازش ہوگی“

”ہا ہا ہا!! واہ بہت خوب۔۔۔۔ آتا ہوں میں ، لیتا ہوں سب کی خبر، ان شاءاللہ پھر اتوار کو ملاقات ہوگی، اللہ حافظ“

اور ہم دونوں دوستوں نے ہنستے مسکراتے موبائل فون پرقائم رابطہ منقطع کر دیا۔ اورمیں ایک خوشگوار احساس کے ساتھ ، اسکول اورکالج میں گزرے دوستوں کے ساتھ لمحات کو یاد کرتا آفس کے کام میں مشغول ہوگیا۔اس پندرہ منٹ کی ایک فون کال کے سبب میرا چوبیس گھنٹوں پر مشتمل دن خوشگوار ہو گیا ۔ مجھے خود اندازہ نہیں رہا تھا کہ گزرے وقتوں کی خوشگوار یادیں آج بھی اتنی طاقتور ہیں کہ موجودہ وقت کی گود میںمیرے واسطے پڑی کتنی ہی پریشانیوں کے سامنے دیوار بن کر کھڑی ہو گئیں ۔ میںاس دن آفس اور جیب کی ہرپریشانی سے مسکرا کر ، آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرتا رہا، دنیا کے بیشتر جھمیلوں میں الجھے ہروقت اپنی ہی پریشانیوں اور ذمے داریوں میں گھیرے خود ساختہ تنہائی کا شکار ہوئے وجود میں جیسے زندگی کی بیشمار لہرئیں امڈ آئی تھیں۔ میں خوش تھا بہت خوش اور آج آفس میں وقت کیسے گزرا معلوم ہی نہیں ہوا۔ آفس میں دن تمام ہونے کا احساس اس وقت ہوا جب میں نے گھر واپسی کے لئے آفس وین میں بیٹھ کر کچھ وقت آرام کی خاطرآنکھیں بند کیں۔

٭٭٭

”معلوم ہے آج کس سے بات ہوئی میری؟؟“

میں نے گھر میں داخل ہوتے ہی جاندار سلام کے بعد عاشی سے سوال کیا،

” ہمم ، لگتا ہے اپنی کسی یونیورسٹی کی سہیلی سے بات ہوئی ہے جناب کی“

عائشہ نے میرے ہاتھ سے خالی ٹفن لیتے ہوئے میرے خوشگوار موڈ کی مناسبت سے مسکراتے ہو ئے مجھے چھیڑا۔

” بیگم صاحبہ !!آپ توہمیشہ ہم پرجرمانہ اور مقدمہ کرنے کی فکر میںرہتی ہیں، مگریقین جانیں آپ خود اس بات کا موقع نہیں دیتیں، ہمارے دل پر ایسے قابض ہیں کہ اب ہم کو اپنا دل بھی آپ ہی کا لگتا ہے، ذرا تو کسی کے لئے جگہ چھوڑ دیں، پورے دل پر قابض ہوئے بیٹھیں ہیں۔ ویسے آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ہمیشہ کی طرح آپکا اندازہ غلط رہا ہے۔“

” اچھا حضور پھر ہم بھی سنیں کس سے جناب کی بات ہوئی ہے آج ، جس کے اثرات ہم کو بھی محسوس ہو رہے ہیں۔“

عائشہ نے میرے انداز کی بھرپور نقل کرتے ہوئے استفسار کیا۔

” بھئی آج میرے اسکول کے دوست تنویر کا فون آیا تھا،وہ۔۔۔“

میں نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے ننھے رمیض کو سوتے دیکھ کر اپنی بات ادھوری چھوڑ دی اور ہونٹوں پر انگلی رکھ لی۔ عاشی میری کیفیت سے محظوظ ہو رہی تھی اور خوش تھی۔ آخر خوش کیوں ناں ہوتی کئی ہفتوں بعد آفس سے واپسی پر میرا چہرہ کھلا ہوا تھا، موڈ خوشگوار تھا ۔اور یہ بات اسکے لئے بہت خوشی اور سکون کا باعث تھی، دن بھراکیلے تمام گھر اورننھے رمیض کے کاموں میں الجھی شام کو جب وہ میرا اداس چہرہ دیکھتی تو اسکی آنکھوں میں چمکتا امید کا ہر سورج غروب ہو جاتا۔ مگر آج کی صورتحال مختلف تھی، میری خوشی اس کی خوشی تھی وہ مجھے دیکھ کر کھل سی گئی تھی۔

”شش، آہستہ بولیں ۔ شہزادے میاں ابھی آپ کے آنے سے چند منٹ قبل ہی تو سوئے ہیں۔ اٹھ گئے تو آپ ہی سنبھلیں گے، مجھے تو آج ننھے نے رسوئی کے کام بھی پورے کرنے نہیں دئیے ہیں“

عائشہ نے مجھے خبردار کیا۔ میں نے سرہلایا اور اسکوہاتھ تھام کر دوسرے کمرے میں لے آیا۔ اور خوشی خوشی تنویر سے ہونے والی گفتگو کا خلاصہ اس کو سنایا۔

” جائیں گے ناں آپ؟؟ “

میرے خاموش ہوتے ہی عائشہ نے سوال کیا۔

”ضرورضرور، ایک عرصہ ہو گیا تمام دوستوں سے ملے۔ مجھے تو تنویر سے بات کرنے کے بعد سے انتظار ہے کہ اتوا ر جلدی سے آجائے۔ اب پیر سے اتوار تک کا سفرطویل لگے گا۔“

میں رات گئے تک گزری یادوں کی خوشگوار پھوار کے خمار میں رہا اور عاشی میری خوشی کے خمار میں۔

٭٭٭

موبائل فون کی بیقرار پکار نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیااور میں مجبوراََ آفس کے کاموں کے سمندر کی تہہ سے سطح پر آگیا۔

”السلام علیکم! کیا حال ہیں جناب کے؟“

میں نے دوسری جانب موجود دوست سے اسکی خیریت دریافت کی۔

” اللہ کا احسان ہے یار، ذرا جلدی سے اپنے آنے کا کنفرم کرو ، تنویر نے کہا ہے کہ میں تمام دوستوں کو فون کرکے ریمائنڈ کروا دوں اور کنفرم کر لوں پروگرام“

دوسری جانب موجود سلمان نے بات کا جواب دیا۔

” بھیا!! وعلیکم السلام بھی کہہ دیتے تو کچھ نیکیاں ہی کما لیتے۔ خیر کس پروگرام کی بات کر رہے ہو“

ننھے رمیض کی ویکسین پر آنے والا خرچا اور آفس کے کام دماغ پر ایسے مسلط تھے کہ میں پچھلے پانچ دن کے اپنے انتظار کو بھی بھول گیا جو میں بیقراری سے کاٹ رہا تھا۔

” ماشا ءاللہ ، لگتا ہے شاعری کے ساتھ ساتھ پروفیسری بھی شروع کر دی ہے تم نے“

”اوہ یار معاف کرنا ،بس کام میں الجھا ہوا تھا اس لئے بے خیالی میں تھا ۔ کل کا پروگرام ہے ناں ، یار میری طرف سے پکا سمجھو۔ میں تمہارے گھر وقت پر پہنچ جاﺅں گا ان شاءاللہ“

”اوکے بھائی پھر کل ملتے ہیں“

یہ کہتے ہوئے سلمان نے رابطہ منقطع کر دیا۔مگر میں کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ مجھے اپنا انتظار سراسرغلط اور بلا جواز لگنے لگا۔اب میں سوچنے لگا کہ مجھ سے بھول ہو گئی مجھے ملنے کی حامی نہیں بھرنی چاہئیے تھی۔آج سلمان سے بات کرکے ایک یہ ہی خیال ذہن میں گردش کر نے لگا کہ مجھے اپنے دوستوں سے ملاقات نہیں کرنا چاہیئے۔اس خیال کے پیچھے جانے کتنی ہی وجوہات نے مجھے اداس کر دیا ۔ میں خاموشی کے گہرے سمندر میں اتر گیا۔جیسے تیسے آفس میں وقت گزارااور گھر کو روانہ ہوا۔

٭٭٭

”خیریت تو ہے آپ جب سے آفس سے آئے ہیں کافی چپ ہیں ؟؟“

عائشہ نے رات کے کھانے کے برتن اٹھا تے ہوئے آخر میری خاموشی کی بابت پوچھ ہی لیا۔

”نہیں ایسی کوئی بات نہیں ، بس تھکن ہے“

” آپ سے شادی ہوئے ڈھائی سال ہو چکے ہیں ، میں اتنا تو جان جاتی ہوں کہ کب آپ تھکے ہوئے ہیں اور کب اداس۔ اور آج تو آپ ایسے اداس ہیں کہ میں اتنی دیر تک سوچتی ہی رہی کہ آپ سے کیسے بات کروں اس اداسی کے بارے میں۔خیر تو ہے کس کی نظر لگ گئی میرے سر تاج کو؟؟“

عائشہ کی بات پر میں مسکرا دیا، ایک نعمت ہی تو ہے آج کی دور میں ایسی سلجھی ، سمجھ دار اور ہر حال میں ساتھ نبھانے والی بیوی مگر میںاپنے پاس نہ ہونے والی دوسری نعمتوں کی چاہت میں غمگین ہورہا تھا۔

” بولیں ناں ، جواب دیں“

عائشہ نے رمیض کو گود میں لیتے ہوئے اپنے سوال کا جواب چاہا۔

”عاشی !! میں نہیں جا رہا کل اپنے دوستوں سے ملنے“

”ارے ، ایسا کیوں کہہ رہے ہیں آپ؟؟ پچھلے پانچ دن سے تو آپ بیقرار تھے اتوار کا انتظار کر رہے تھے اور اب جب کل اتوار ہے تو آپ کہہ رہے ہیں کہ نہیں جائیں گے، آخر کیوں؟؟؟“

” بس عاشی، میں وہاں جاﺅں گا تو اور اداسی لے کرواپس آﺅں گا، وہ لوگ کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور میںاب تک وہیں جہاں سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ تم جانتی ہو میں کسی کی کامیابی سے نہیں جلتا مگر اپنے حال کو دیکھتا ہوں تو دل کڑھ جاتا ہے،اپنے پرانے ساتھیوں کی ہر ترقی پر میں خوش ہوں مگر جب ان سے ملوں گا تو اپنے حال کو بہتر کرنے کی ہر کوشش محض سرابوں کے پیچھے بھاگنالگے گی۔میرا اور ان کازندگی بسر کاکرنے کا انداز بہت مختلف ہے، میں اب ان کی محفل میں سب سے کم تر ہوں۔وہ اب اونچی سو سائٹی والے ہیں اور میں مڈل کلاس ۔ میں کبھی اونچی سوسائٹی کا نہیں بننا چاہتا ، مگر میرا بھی دل چاہتا ہے کہ میں کرائے کے اس دو کمرے کے فلیٹ سے نکل کر اپنے گھر میں جاﺅں، اپنی ، تمہاری ،اپنے شہزادے کی ضروریات پوری کرتے ہوئے آنے والے کل کو نہیں سوچوں، کبھی تو ایسا ہو کہ میں گن گن کر اپنی تنخواہ خرچ نہ کروں، کبھی تو ہو میں کھل کر پھیلی ہوئی ہتھیلیوں پر سکوں کی جگہ نوٹ رکھ سکوں۔مجھے اپنی زندگی کا انداز نہیں بلکہ اپنے اندر سے موجود محدود وسائل اور آمدنی کے خوف سے چھٹکارا پانا ہے تاکہ میں اپنے لئے، اپنے رشتے داروں کے لئے اور یوں ہی گلی گلی پھرتے بھیک مانگتے ہوئے بچوں کے لئے کچھ کر سکوں۔ میں وہاں جاﺅں گا تو واپس اداسی ہی لےکر آﺅں گا۔“

” ایسا نہ کہیں ۔آپ خود تو کہتے ہیں کہ الحمداللہ ہم بہت سے لوگوں سے اچھے ہیں پھر ایسی باتیں کیوں سوچتے ہیں؟؟ دوستی میں کس نے کہا ہائی اور مڈل سو سائٹی کا فرق ہوتا ہے۔ دوست تو دوست ہوتا ہے چاہے کسی بھی کلاس سے اسکا تعلق ہو۔برائے مہربانی آپ ایسا نہ سوچیں ۔ یاد کریں آپ زبان دے چکے ہیں ۔ اپنے دوستوں سے کہہ چکے ہیںجانے کا، پھر پیچھے مت ہٹیں۔ جب آپ کے دوست کبھی آپ کو نہیں بھولتے ، سوسائٹی کے واضح فرق کے باوجود تو آپ کیوں ایسا سوچیں۔ اور جیب کی کشادگی تو نصیب کی بات ہے۔ ہمارے نصیب میں ہواتو ضرور ملے گی۔ نہیں ہوئی تو ہم کو کوئی دے نہیں سکتا ۔ اللہ کا شکر ہے محدود آمدنی میں بھی، اس مہنگائی میں بھی کسی کے آگے ہاتھ تو نہیں پھیلانا پڑتا۔ میں کچھ نہیں جانتی آپ جائیں گے اور ہنسی خوشی جائیں گے“

عاشی نے جیسے اپنا فیصلہ سنا دیا ۔ میری باتوں نے اسکو بھی زنجیدہ کر دیا تھا ۔ امید اور ناامیدی کے درمیان یہ کشمکش کبھی مجھے اداس کر دیتی تھی تو کبھی عائشہ کو اور ہم دونوںہی ہمیشہ ایک دوسرے کی یوں ہی ہمت بندھاتے تھے۔

٭٭٭

دوسرے دن نہ چاہتے ہوئے بھی میں مقررہ وقت پر اپنے دوست سلمان کے گھر پہنچ گیا۔گھر کے باہر چمچماتی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ خلاف ِ توقع تمام دوست پہلے ہی موجود تھے اور میرا ہی انتظار کر رہے تھے۔دوستوں کی نوک جھونک اپنے عروج پر تھی اور میں وہاں حاضر ہو کر بھی حاضر نہ رہا۔ میرا ذہن جو کبھی ظاہرکی جانب مائل نہیں ہوا تھا آج ہونے لگا میں اپنے دوستوں کی کلائیوں پر بندھی گھڑیاں ، ہاتھوں میں پکڑے مہنگے موبائل اور ان کے بیرون ِ ملک سیر سپاٹوں کے قصوں میں الجھ گیا تھا۔ان میں سے اکثر کو کبھی میں نے میتھس تو کبھی فزکس پڑھائی تھی۔ بعض سے تو میرا نتیجہ اسکول ، کالج ، یونیورسٹی میں بہتر سے بھی بہترین رہا تھا۔مگر جانے کیوں اتنا بڑا فرق تھاکہ میں رکشہ ، ٹیکسی ، بس کا محتاج اور ان کے پاس وہ وہ گاڑیاںہیں جن کے ماڈل تک مجھے معلوم نہیں۔مجھے جو حاصل نہیں تھا ،میں اس کی محرومی کے سوگ میں مبتلا ہو گیا۔شاید محرومی کے اس سمندر میں غرق ہو کر مکمل طور سے اپنے آپ کو ، اپنے ایمان کو خراب کر بیٹھتا کہ غرق ہوتے وجود کو لہروں نے سطح سمندر پر اٹھا پھینکا۔گفتگو کرتے کرتے ساجدنے مجھے ہاتھ مارتے ہوئے کہا

” او میاں گم صم چاچا بن گئے ہو تم۔۔۔ ہا ہا ہا ۔۔۔ دیکھو اس خوشی میں میں بھی کرنے لگا شاعری“

میں نے گرم جوشی سے اس کو بیٹے کی ولادت کی مبارکباد دی۔ساجدکی ہم تمام دوستوں میں پہلے شادی ہوئی تھی چار سال ہونے کو آرہے تھے اور اس کی پہلی اولاد ابھی چار ماہ کی بھی نہیںہوئی تھی۔وہ بہت خوش تھا۔ آخر خوش کیوں ناں ہوتا تین دفعہ کے مسکیرج کے بعد اولاد جیسی نعمت اس کو عطا ہوئی تھی۔ابھی میں یہ ہی سوچ رہا تھا کہ ذہن پکار اٹھا اب اس نعمت کا بھی تو موازنہ کر ۔۔۔ واقعی محرومی کے سمندر میں غرق ہوتے ہوئے وجود کو لہروں نے سمندر کی سطح پر لا چھوڑا تھا۔ میں تو الحمداللہ ڈیڑھ سالہ بیٹے کا باپ تھا۔اللہ پاک نے میری پہلی مانگ میں ہی مجھے یہ نعمت عطا فرمائی تھی۔میں رب کی نعمت کی ناشکری کے خوف سے لرز گیا۔ دل میں خیال آیا اللہ اگر میری اس سوچ سے خفا ہو گیا تو ۔۔۔۔۔ میں کانپ اٹھا۔ مگر تھوڑے وقت تک ہنس بولنے کے بعد میں پھر محرومی کے سائے میں جا بیٹھا۔کتنا پیسہ ہے ان لوگوں کے پاس ، کہاں کہاں نہیں گھماتے پھرتے اپنے گھر والوں کو اور میں صبح آفس اورشام کو دو کمروں کی کھولی ہی تک محدود ہوکر رہ گیا ہوں۔ابھی ان سوچوں کی سیاہی سے من سیاہ ہونے کو تھا کہ میرے دوست سمیر کی بات نے اندھیروں میں میرے لئے روشنی پیدا کر دی۔بڑے ہی افسردہ لہجے میں میرے دوست نے کہا

”یار !! گزرا وقت بہت اچھا تھا، سکون تھا۔ اب تو کتنا ہی مل جائے مالک کا شکر تو ہے مگر وہ سکون نہیں اور سکون ہو بھی کیسے ؟؟؟ جب ماں ہی اذیت ناک تکلیف میں مبتلاہو“

یہ کہتے ہوئے اس کی آواز بھرا گئی۔ آنکھیںپر نم ہوگئیں ۔ ہم سب دوستوں نے فکرمندی سے آنٹی کی خیریت دریافت کی تو معلوم ہوا کہ اُن کے دونوں گردے خراب ہو چکے ہیں ۔ ہفتے میں ایک دن کے وقفے سے ان کا ڈئےلسس ہوتا ہے۔بس سمیرکے لئے لال ہرے نوٹ اپنی ماں کی زندگی کو بڑھانے کے لئے ضروری بن چکے ہیں۔نہ کھل کر ہنس پاتا ہے وہ اور نہ جی پا رہاہے۔میں ایک بار پھر کانپ اٹھا۔ سمیر کو درپیش تکلیف کا سن کر رنجیدہ ہوگیا مگر اس خیال سے پشیمان ہوگیا کہ دو کمروں کی زندگی محل جیسے گھر والے سے تو کہیں بہتر اور شاندار ہے ۔ میر اذہن ایسی کسی بیماری کے سبب الجھا تو نہیں رہتا۔ وقتی پریشانیاں اپنی جگہ مگر دل و دماغ کو سکون تو رب نے عطا کیا ہوا ہے۔اور میں پرسکون زندگی جیسی نعمت پر شکر کرنے کے بجائے ۔۔۔۔۔۔اب مجھے اپنے آپ پرغصہ آنے لگا تھا۔میں محرومی کے سائباں سے نکل کر امید اور لگن کی تیز اورٹھنڈی روشنی میں آبیٹھا۔ اور دوستوں کی محفل کا لطف لینے لگا ۔ ابھی کچھ وقت ہوا تھا کہ دوبارہ شیطان نے آن گھیرا۔ اپنے دوستوں کی باتوں ، ان کی زندگی کو طور طریقوں پر غور کرتے ہوئے میں پھر محرومی کے سمندر میں غوطے کھانے لگا۔جیسے بھی ہے چار دن کی زندگی روپے پیسہ ہونے کی وجہ سے عیاشی میں تو گزر رہی ہے۔ کل کی فکر نہیں۔ خوب مزے میں ہیںیہ لوگ۔ میں ایسی ہی باتیں سوچ رہا تھا کہ باہر چل کر کھانے کا پروگرام طے پا گیا۔ تمام دوست دو گاڑیوں میں بیٹھ کر ریسٹورنٹ کی جانب چل دئیے۔گاڑی میں خیالات تک کو یخ کرتے اے سی کی موجودگی نے میرے ذہن کو مزید مفلوج کر دیا۔میرے اوپر محرومی کا عفریت اپنا تسلط پوری طرح قائم کر چکا تھا۔ میں اداسی کی خاموش ردا اوڑھ چکا تھا۔قریب تھا کہ میں ان اندھیروں میں مکمل طور سے گم ہوجاﺅں قدرت نے ایک بار پھر مجھے تھامنا چاہا۔مجھے درپیش مشکل کو دور کرنے میں میری مدد کر نا چاہی۔ریسٹورنٹ پہنچ کر ہم تمام دوست کھانے کا آڈر دیکر خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ عدنان نے اپنی جیب نے انسولین انجیکٹر سے اپنے آپ کو انسولین لگائی تو ہم دوستوں کو خبر ہو ئی عدنان پچھلے سال سے ذیابطیس یعنی شوگر کے مرض میں مبتلا ہو چکا ہے۔ اور اکثر اوقات اس کے جسم میں شوگر کی مقدار حد سے تجاوز کر جاتی ہے اس لئے انسولین کے استعمال کے ساتھ ساتھ وہ کئی مہینوں سے سخت پرہیز بھی کر رہا ہے اور اس بیماری کے سبب عدنان نے اپنے اوپر کتنے ہی پھل، میٹھی چیزوں کوحرام کیا ہوا ہے۔اب کی بار قدرت نے میرے منہ پر زور دار طمانچہ ہی رسید کیا تھا۔میں معمولی تنخواہ کمانے والا شخص آزاد تھا ، کھانے کی ہر شے میں کھا سکتا تھا۔ اور میٹھا تو میری کمزوری تھا۔میں سخت نادم اور پشیمان ہوگیا۔میری آنکھیں نم ہو گئیں۔ مجھے اپنی ایک ایک سوچ پر ندامت ہو نے لگی۔ میں نے دل ہی دل میں اپنے رب کی ہر عطا پر شکر ادا کیا جو اس نے مجھے بخشی تھی۔ اور جس کی میں قدر اس انداز سے نہیں کرتا تھا جس انداز سے مجھے کرنا چاہیئے تھی۔اللہ نے کسی کو کوئی شے عطا کی تھی تو کسی کو کچھ۔ میرے دوست اگر دنیا کے مال کی فکر سے آزاد تھے تو دوسری فکروں نے ان کو گھیرا ہوا تھا۔ مگر ان کی زبان پر اللہ کا شکر تھا۔ان کو بیماری ملی ہوئی تھی تو بھی وہ اللہ کے شکر گزار تھے کہ اس نے اتنا پیسہ تو دیا ہے کہ وہ بیماری کا علاج تو کر سکتے ہیں اگر ملک کے کتنے ہی غریب لوگوں کی مانند ان کی جیب بھی خالی ہوتی تو بیماری کا علاج تو درکنار ۔ جینا بھی محال ہو جاتا۔وہ تمام پریشانیوں کے باوجود زندگی سے بھرپور تھے اس لئے نہیں کہ ان لوگوں کے پاس مال تھا ، بینک بیلنس تھا بلکہ اس لئے کہ ان کی زبان پر اللہ کا شکر تھا۔وہ اپنی زندگی سے ناراض نہیں تھے۔ وہ قدرت کی عطا میں خوش تھے۔ میں نے اس ملاقات میں ان سے زندگی ہنسی خوشی گزارنے کا وہ سبق سیکھا تھا جس کو یاد کرکے میں زندگی کے کسی امتحان میں فیل نہیں ہو سکتا تھا۔ میں اب پوری طرح اپنی زندگی سے مطمئن تھا۔اپنے دوستوں سے ملاقات کے ان آخری لمحوں کو میں نے خوب رنگین کر دیا۔ تمام دوست میرا ریکارڈ لگا رہے تھے کہ کھانا سامنے آتے ہی میں چارج ہو چکا ہوں اور خوب چہکنے لگا ہوں ۔ اور یہ سچ بھی تھامجھے اس ملاقات نے زندگی سے بھر دیا تھا۔میں خوش تھا بہت خوش۔ اور جب مجھے میرے دوستوں نے میرے دوکمروں کے فلیٹ پر چھوڑا تو ان تما م سے گلے ملتے ہوئے مجھے صرف یہ احساس تھا کہ میں اور وہ دوست ہیں۔ اللہ نے کسی کو دیکر آزمایا ہے اور کسی کو نہ دیکر۔ ضروری بات یہ ہے کہ انسان زندگی گزارتے ہوئے اپنے آپ کو حاصل چیزوں کی قدر کرتا ہے اور اللہ کاشکر گزار رہتا ہے یا جو نعمتیں اسکو حاصل نہیں ان سے محرومی کے روگ کو عمر بھر کے لئے اپنے سینے میں جگہ دیتا ہے۔ میں یہ جان چکا تھاکہ پرسکون زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہے کہ نعمتوں کو حاصل کرنے کی تگ ودو تو کی جائے مگر ان کی محرومی کو روگ نہ بنائے۔ جو پاس نہیں ہے اس کی فکر میں گھلنے کے بجائے جو کچھ اللہ پاک نے انسان کو عطا کیا ہے اس پر شکر ادا کرے اور اللہ کی دی ہوئی ہر نعمت کی قدر کرے تب ہی ایک پرسکون اور کامیاب زندگی بسر کی جاسکتی ہے۔

س ن مخمور
 
مرکزی خیال بہت اچھا ہے
کہیں کہیں تحریر پر گرفت کی کم ہے کچھ املا کی غلطیاں بھی ہیں بہرحال تحریر نے دل اور دماغ پر گہرے اثرات چھوڑے اور یہ ہی لکنے والے کی کامیابی ہے
اللہ کرے زور قلم زیادہ
 

نبیل

تکنیکی معاون
وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّ۔هُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوا ۖ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ ۚ وَاسْأَلُوا اللَّ۔هَ مِن فَضْلِهِ ۗ إِنَّ اللَّ۔هَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ﴿٣٢

اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو جو کچھ مَردوں نے کمایا ہے اُس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق اُن کا حصہ ہاں اللہ سے اس کے فضل کی دعا مانگتے رہو، یقیناً اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ (4:32)
 

سلمان حمید

محفلین
سچ کہا، "اللہ نے کسی کو دیکر آزمایا ہے اور کسی کو نہ دیکر"
اگر ہم حاصل کیے گئے پر شکر ادا کرنا سیکھ جائیں تو لاحاصل چیزوں پر صبر کرنا بھی سیکھ جائیں گے :)
بہت اچھے خیالات کو قلمبند کیا ہے آپ نے۔ خوبصورت کہانی ہے۔
 
Top