سبحان اللہ ۔۔۔۔

کیا واقعی ہمارے طالب علم اس حد کو چھو چکے ہیں۔۔۔۔۔!

  • ہاں

    Votes: 0 0.0%
  • نہیں

    Votes: 6 100.0%

  • Total voters
    6

بھلکڑ

لائبریرین
  • سبحان اللہ۔۔۔ گل نوخیز اختر

    میں کل سے دھاڑیں مار مار کر ہنس رہا ہوں اور زارو قطار قہقہے لگارہا ہوں۔میرا ایک دوست پرائیویٹ سکول میں ٹیچر ہے اور میٹرک کی اردو کی کلاس پڑھاتاہے ‘ اس نے اپنے سٹوڈنٹس کا ٹیسٹ لینے کے لیے انہیں کچھ اشعار تشریح کرنے کے لیے دیے۔ جواب میں جو سامنے آیا وہ اپنی جگہ ایک ماسٹر پیس ہے۔ املاء سے تشریح تک سٹوڈنٹس نے ایک نئی زبان کی بنیاد رکھ دی ہے۔میں نے اپنے دوست کی اجازت سے اِن پیپرز میں سے اپنے کالم کے لیے نقل ماری ہے‘ اسے پڑھئے اور دیکھئے کہ پاکستان میں کیسا کیسا ٹیلنٹ بھرا ہوا ہے۔ سوالنامہ میں اس شعر کی تشریح کرنے کے لیے کہا گیا تھا

    بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
    تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں

    ایک ذہین طالبعلم نے لکھا کہ’’اِس شعر میں مستنصر حسین تارڑ نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے انہوں نے ایک دن سوچا کہ کیوں نہ فقیر بن کے پیسہ کمایا جائے‘ لہٰذا وہ کشکول پکڑ کر ’چونک‘ میں کھڑے ہوگئے ‘ اُسی ’چونک ‘ میں ایک مداری اہل کرم کا تماشا کر رہا تھا ‘ شاعر کو وہ تماشا اتنا پسند آیا کہ وہ بھیک مانگنے کی ’باجائے‘ وہ تماشا دیکھنے لگ گیا اور یوں کچھ بھی نہ کما سکا۔۔۔!!!‘‘اگلا شعر تھا

    رنجش ہی سہی ‘ دل ہی دُکھانے کے لیے آ
    آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ

    مستقبل کے ایک معمار نے اس کی تشریح کچھ یوں کی کہ’’یہ شعر نہیں بلکہ گانا ہے اور اس میں ’مہندی حسن‘ نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اے میرے محبوب تم میرا دل دُکھانے کے لیے آجاؤ لیکن جلدی جلدی مجھے چھوڑ کے چلے جانا کیونکہ مجھے ایک فنکشن میں جانا ہے اور میں لیٹ ہورہا ہوں۔۔۔‘‘ تیسرا شعر تھا۔۔۔!!!

    کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا
    میں تو دریاہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

    ایک لائق فائق طالبہ نے اس کی تشریح کا حق ادا کر دیا۔۔۔پورے یقین کے ساتھ لکھا کہ ’’یہ شعر ثابت کرتا ہے کہ شاعر ایک کافر اور گنہگار شخص ہے جو موت اور آخرت پر یقین نہیں رکھتا اور خود کو دریا کہتا پھرتاہے ‘اس شعر میں بھی یہ شاعر یہی دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ دریا ہے لہذا مرنے کے بعد بحرِ اوقیانوس میں شامل ہوجائے گا اور یوں منکر نکیر کی پوچھ گچھ سے بچ جائے گا‘ لیکن ایسا ہوگا نہیں کیونکہ آخرت برحق ہے اور جو آخرت پر یقین نہیں رکھتا اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اللہ اسے ہدایت دے۔آمین۔۔۔!!!اگلا شعر یہ تھا۔۔۔!!!

    مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
    جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

    ایک سقراط نے اس کو یوں لکھا کہ ’’اس شعر میں شاعرکوئے یار سے لمبا سفر کرکے راولپنڈی کے ’فیض آباد‘ چوک تک ’پونچا‘ ہے لیکن اسے یہ مقام پسند نہیں آیا کیونکہ یہاں بہت شور ہے‘ شاعر یہاں سے نکل کر ٹھنڈے اور پرفضا مقام ’دار‘ پر جانا چاہتا ہے اور کہہ رہاہے کہ بے شک اسے سوئے مارے جائیں‘ وہ ہر حال میں ’دار ‘ تک پہنچ کر ہی دم لے گا۔۔۔!!!‘‘ اگلا شعر یہ تھا۔۔۔!!!

    خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
    خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

    جواب تھا کہ ’’یہ شعر وصی شاہ کا ہے اور اس میں انہوں نے بڑی ’محارت‘ سے یہ بتایا ہے کہ ہمیں چاہیے کہ ہم خود کو زیادہ سے زیادہ بلند کرلیں‘ اونچی اونچی بلڈنگیں بنائیں تاکہ خدا سے اتنے قریب ہوجائیں کہ خدا آرام سے ہم سے پوچھ لے کہ اے میرے بندے آخر تم اور کتنی ’اُنچی‘ منزلیں بنانا چاہتے ہو۔۔۔؟؟؟‘‘ اگلا شعر پھر بڑا مشکل تھا ۔۔۔!!!
    سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو
    ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے

    نئی تشریح کے ساتھ اس کا ایک جواب کچھ یوں ملا کہ ’’اس شعر میں حامد میرنے اپنی مصروفیات کا رونا رویا ہے‘ وہ دن بھر مصروف رہتے ہیں‘ رات کو ٹی وی پر ٹاک شو کرتے ہیں‘ ان کی نیند بھی پوری نہیں ہوتی ‘ ہر روز شیو کرتے ہوئے اُنہیں’ٹک‘ بھی لگ جاتاہے اور اتنی زور کا لگتا ہے کہ وہ سارا دن روتے رہتے ہیں اور روتے روتے سو جاتے ہیں لہٰذا وہ اپنی فیملی سے کہہ رہے ہیں کہ میرے سرہانے آہستہ بولا کرو‘‘۔اگلا شعر پھر ایک نیا امتحان تھا۔۔۔!!!

    محبت مجھے اُن جوانو ں سے ہے
    ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

    ایک محنت کش سٹوڈنٹ نے اس کی بہترین تشریح کرتے ہوئے لکھا کہ ’’اس شعر میں شاعر کہتا ہے کہ مجھے صرف سلمہ ستارے کا کام کرنے والے جوان اچھے لگتے ہیں اور مجھے محبت بھی انہی سے ہے کیونکہ وہ سارا سارا دن کھڈی پر کمند ڈال کر سوئی دھاگے سے کپڑوں پر ستارے لگاتے ہیں اور اسی چکر میں اپنی آنکھیں بھی خراب کر بیٹھتے ہیں۔۔۔‘‘۔
    آخری شعر یہ تھا۔۔۔!!!

    نشیمن پر نشیمن اس طرح تعمیر کرتا جا
    کہ بجلی گرتے گرتے آپ ہی بیزار ہوجائے

    علامہ اقبال کے اس شعر سے بھرپور انتقام لیتے ہوئے ایک لڑکی نے لکھا کہ
    ’’اس شعر میں شاعر لوڈشیڈنگ سے بہت تنگ نظر آتاہے اور لگتا ہے شاعر کے گھر میں نہ UPS ہے نہ چارجنگ والا پنکھا‘ اسی لیے وہ کہہ رہا ہے کہ حکومت کوفوری طور پر‘ نشیمن یعنی کہ بڑے بڑے ڈیم بنانے چاہئیں تاکہ لوڈشیڈنگ سے بیزار عوام کو کچھ ریلیف مل سکے‘ اس شعر میں شاعر نے ڈھکے چھپے لفظوں میں واضح کر دیا ہے کہ جب تک ’کالا باغ نشیمن‘نہیں بنے گا‘ بجلی کا ’ماسالا‘ حل نہیں ہوگا۔
میں نے فیس بک کہ ایک صفحہ پر یہ تحریر پڑی اور میں سوچ رہا ہون کے کیا واقعی طالب علم ایسا لکھ دیتے ہیں یا صفحے چلانے والے کسر نفسی سے کام لیتے ہیں۔۔۔۔کچھ زیادہ ہی ایگزاجیریشن ہو گئی ۔۔۔۔
نایاب باباجی غدیر زھرا عینی شاہ نیلم عائشہ عزیز محسن وقار علی مقدس سید زبیر زبیر مرزا نیرنگ خیال محمد احمد سید شہزاد ناصر امجد میانداد
 

نیلم

محفلین
یہ تحریر پہلے میں نے شئیر کی ہے گل نوخیز اختر والے دھاگے میں اور پھر شمشاد بھائی بھی شئیر کرچکے ہیں :)
 

بھلکڑ

لائبریرین
زیب داستان کے لئے مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے
بہرحال اسے مزاحیہ مضمون کے طور پر پڑھا جا سکتا ہے
اچھا یہ ایک مضمون ہے۔۔۔۔۔۔۔
میں واقعی سمجھا کہ راوی کا دوست استاد بھی ہوگا اور اس قسم کے ٹیسٹ بھی آئے ہوں گے۔۔۔۔۔۔ہیہیہ :LOL::LOL::LOL: سیریسلی۔۔۔۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
میں کل سے دھاڑیں مار مار کر ہنس رہا ہوں اور زارو قطار قہقہے لگارہا ہوں۔​
اس بے تکے جملے کی پہلی قرات پر جو تعجب ہوا، دوسری پر اس سوچ کے ساتھ کچھ کم ہو گیا کہ آہا! یہ تو میاں بھلکڑ ہیں بیچارے بھول گئے ہوں گے کہ قہقے مارکر ہنسا جاتا ہے اور دھاڑیں مارمارکر رویا جاتا ہے۔ لیکن مضمون پڑھنے کے بعد اس جملے کو تیسری بار جب پڑھا تو کوئی حیرانی نہ رہی ۔ اس جملے کی منطقیت ظاہر ہو گئی اور یہ اپنے معنیٰ کا ابلاغ بدرجہ اتم کر رہا تھا۔
مضمون پڑھ کر جو تشویش ہوئی تھی، وہ یہ جان کر خوشی میں تبدیل ہو گئی کہ یہ کوئی امرِ واقعی نہیں بلکہ ایک افسانہ محض ہے۔ لیکن صاحب تسلیم کرنا پڑے گا کہ افسانہ بھی ایسا کہ جس پر امرِ واقعہ ہونے کا گماں ہوتا ہے۔
چونکہ پہلی بار پڑھنے کا موقعہ ملا۔ مزہ آگیا۔
 

بھلکڑ

لائبریرین
بھئی اکثر اشعار کی تشریح تو لگتا ہے نیرنگ خیال نے عسکری کے ساتھ مل کے کی ہے
اوراس میں کچھ عمل دخل شہزاد وحید اور حسیب نذیر گِل کا بھی لگتا ان لڑکوں کو بھی اس کا کریڈٹ دیا جائے:)
پہلے د ۔ و کا تو واقعی عمل دخل ہے۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ وہ قدرتاََ ایسے واقعہ ہوے ہیں کہ اچھی بھلی سنجیدہ گفتگو کو مزاح میں تبدیل کردیتے ہیں۔۔۔۔۔:D:p
 
یہ تو خیر اسک مذاق تھا، لیکن میں ایک ایسے شخص سے واقف ہوں جس نے آٹھویں جماعت کے اسلامیات کے پیپر میں کچھ اسی قسم کے عجیب و غریب جوابات دئیے تھے۔
موصوف کے ایک خولو کا نام علاوالدین تھا اور انکے پانچ چھ اور بھائی بھی تھے جن میں سے ایک کا نام عماد الدین بھی تھا جنکو عرفِ عام میں مادّا کہا جاتا تھا۔
سوال تھا کہ " الصلٰوۃ عماد الدّین" کا ترجمہ و تشریح کریں تو موصوف نے لکھا :
مادّا علاؤالدین کا چھوٹا بھائی ہے۔
انکے ٹیچر نے وہ پیپر ہمارے گھر بحجوادیا کیونکہ ہماری ہی سفارش سے موصوف کو گورنمنٹ اسلامیہ ہائی سکول مصری شاہ سے اٹھوا کر گورنمنٹ سلیم ماڈل ہائی سکول لوئر مال لاہور میں داخل کروایا گیا تھا۔
اور بھی کافی عجیب حرکتیں کیں موصوف نے اس کلاس میں :p:D
 
Top