سانحہ لیاقت باغ - پیپلزپارٹی کےاپنے لیڈر کیا کہتے ہیں ؟

جوش

محفلین
پیپلزپارٹی نے ابھی تک بے نظیر شہادت کی ایف آئی آر درج نہیں کرائی، سینیٹر صفدر عباسی

کراچی (ٹی وی رپورٹ) پیپلزپارٹی کے رہنما اور سینیٹر صفدر عباسی نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے ابھی تک بینظیر بھٹو کی شہادت کی ایف آئی آر درج نہیں کرائی ہے۔ وہ جیو کے پروگرام میرے مطابق میں ڈاکٹر شاہد مسعود سے گفتگو کر رہے تھے۔ پروگرام میں سپریم کورٹ بار کے سابق صدر اعتزاز احسن اور مسلم لیگ کے رہنما ایاز امیر بھی شریک تھے۔ پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے کہا کہ محترمہ آج زندہ ہوتیں تو افتخار چوہدری ضرور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہوتے ۔ جبکہ ایاز امیر کا کہنا تھا کہ محترمہ زندہ ہوتی تو کیا ہوتا یہ کہنا مشکل ہے۔ جیو نیوز کے پروگرام میرے مطابق میں شہید بے نظیر بھٹو کے بعد پاکستان اور نئے عالمی منظر نامے کے تناظر میں خطے میں کھیلے جانے والے امریکی کھیل کے حوالے سے ڈاکٹر شاہد مسعود سے گفتگو کرتے ہوئے محترمہ بینظیر بھٹو کے دیرینہ ساتھی سینیٹر صفدر عباسی کا کہنا تھا کہ محترمہ کی شہادت کے ایک سال بعد ان کی کمی اب بھی محسوس ہوتی ہے میں سمجھتا ہوں کہ ایسی متحرک شخصیت کی صرف طبعی موجودگی کی ہی نہایت اہمیت تھی۔ ان کے ساتھ گزارے ہوئے آخری ڈھائی ماہ نہایت اہم اور تمام سیاسی زندگی کا نچوڑ تھے۔ 18 اکتوبر کو ان کی واپسی کے بعد انہوں نے جس طرح سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا قابل ستائش ہے،ان کی مشرف کے ساتھ جو بھی مفاہمت تھی وہ پاکستان میں صاف اور شفاف انتخابات کے حوالے سے تھی ان کا مطمعٴ نظر یہ تھا کہ ایک موقع ہمیں ملا ہے اور پاکستان میں جمہوریت کی واپسی اسی طرح ممکن ہو گی۔افتخار چوہدری کی بحالی کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کا عوام سے وعدہ تھا ، ان کا خیال تھا کہ ایوان میں ان کے جانے تک اتنی اکثریت ہو جائے گی کہ اداروں کی بحالی ممکن ہو سکتی پارلیمنٹ کی بالا دستی بھی قائم ہو اور عدلیہ کو بھی آزادی ہو اور جسٹس افتخار چوہدری بھی بحال ہو جائیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ محترمہ ہوتیں تو بھوربن اعلامیے پر ضرور عمل ہوتا۔محترمہ کی میثاق جمہوریت کی کمٹمنٹ پر عمل کے لیے پیپلز پارٹی کو سوچنا پڑے گا،محترمہ کے قتل کی سرکاری ایف آئی آر کٹی ہے جب کہ پارٹی کی طرف سے آج تک پارٹی یا ان کی فملی کی طرف سے کوئی کوشش نہیں کی گئی۔مجھے ایک ہی زخم یاد پڑتا ہے جس میں دماغ باہر نکلا ہوا تھا اور سر کی ہڈی کو بھی نقصان پہنچا تھا، ڈاکٹر کی رپورٹ بھی جو سامنے آئی تھی یہی تھی۔ سپریم کورٹ بار کے سابق صدر چوہدری اعتزاز احسن نے پروگرام ''میرے مطابق''میں بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ میرا خیال ہے کہ صفدر عباسی صاحب درست فرما رہے ہیں، ہوا یوں کہ 18اکتوبر کے سانحہ کی ایف آئی بھی ذرا مشترک ہے کیونکہ یہ ایف آئی آر محترمہ نے خود درج کرائی تھی ایک سندھ کی عبوری حکومت نے کرائی تھی اور ایک محترمہ نے جسمیں سردار لطیف کھوسہ صا حب نے انکی معاونت کی سانحہ کارساز کے180 شہدا کی ایف آئی آر کٹانے کے لیے محترمہ نے خود ایک درخواست دی اور سندھ حکومت کی جانب سے کرائی گئی ایف آئی آر کو رد کیا۔ سیشن جج نے اجازت دی کہ سانحہ18اکتوبر کی ایف آئی آر درج کی جائے محترمہ کے اپنے دستخط کے تحت ۔اس کے بعد حکومت ہائی کورٹ میں معاملہ لے گئی اور سیشن جج کے حکم کو ہائی کورٹ نے معطل کردیا، اسکے بعد پیپلز پارٹی کی اپنی حکومت آگئی تو محترمہ کی اپنی حکومت بعد از شہادت تو پھر ایف آئی آر پر دیا جانے والا ہائی کورٹ کا حکم واپس لیا گیا۔ لیکن لیاقت باغ والے حادثے میں محترمہ خود شہید ہوئیں اس واقعے میں جہاں تک مجھے اطلاعات ملی تھیں کہ لیاقت باغ والے سانحہ پر روزنامچہ میں کچھ رپورٹس درج کی گئیں ہیں لیاقت باغ والے متعلقہ تھانے میں،میں تو 18اکتوبر کی کرائی گئی ایف آئی آر کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا اس پر بہت حیران ہوتا ہوں، اگر محترمہ آج زندہ ہوتیں تو افتخار چوہدری ضرور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہوتے ،میری نگاہ میں محترمہ نے کبھی اپنی تحریری لفظ سے انکار نہیں کیا میں نے ان میں ایسی کوئی بات نہیں دیکھی کہ وہ وعدہ کریں اور پھر جائیں۔پروگرام میرے مطابق میں سینیئر صحافی ایاز امیر کا کہنا تھا کہ محترمہ ہوتیں تو کیا ہوتا یہ کہنا بہت مشکل ہے، ان کا تجربہ، ذہانت اور قابلیت ان کا انداز گفتگو وہ یقیناً جو آج کل ہم دیکھ رہے ہیں اس سے بہت مختلف ہوتا۔ زرداری صاحب اورمحترمہ میں ایک رشتہ ضرور تھا لیکن کہاں یہ اور کہاں وہ ، کم از کم یہ شرمندگیاں نہ ہوتیں جو ابھی دیکھنے کو مل رہی ہیں کہ کسی بیرونی وفود سے ملاقاتوں پر یہ پتہ نہیں چلتا کہ موجودہ قیادت کی جانب سے کس طرح کے الفاظ کی ادائیگی ہو گی، اس پورے جیوڈیشل ایشو اور افتخار چوہدری صاحب کے حوالے سے ان کا انداز مختلف تھا، انہوں نے دیکھا کہ ہوائیں کس طرف کی ہیں اور پھر چیف جسٹس صاحب کے گھر کے سامنے کہا کہ جھنڈا یہاں پر لہرایا جائے گا اور یہ بحال ہوں گے ۔جہاں تک آصف زرداری صاحب کا بھی تعلق ہے کہ مارچ اپریل تک تو ان کے رویے سے بھی پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ اس چیز سے ہٹیں گے، زیادہ متحرک تو وہ لگ رہے تھے ظاہر اور باطن کی تبدیلی کا ہمیں بعد میں پتہ چلا۔
 
پتہ نہیں لوگ اتنے خود غرض کیوں ہوتے ہیں۔ چوہدری کی ضد ہی پکڑ لی ہے ۔ حالانکہ یہ چوہدری ہی ہے جو فوج کو قانونی سہارا دیتا رہا۔ پھر یہ کیوں‌بحال ہو۔ گیا سو گیا۔
اگر محترمہ نے یہ فرمایا تھا کہ چوہدری کے گھر پر پرچم لہرائیں گے تو ضرور ہی ہے کہ پورا ہو؟ محترمہ نے تو یہ بھی کہا ہے کہ کوئی بے گھر نہ ہو، ہر ایک کو روزگار ملے۔ کرپشن نہ ہو، شیعہ دھشت گرد ہو یا سنی یا مہاجر یا پنجابی سب کو سزا ملے ۔ یہ سب کیوں پورا نہیں ہورہا ۔اس کو کوئی پوچھتا نہیں۔ بس چوہدری چوہدری کی رٹ لگارکھی ہے۔
 
پتہ نہیں لوگ اتنے خود غرض کیوں ہوتے ہیں۔ چوہدری کی ضد ہی پکڑ لی ہے ۔ حالانکہ یہ چوہدری ہی ہے جو فوج کو قانونی سہارا دیتا رہا۔ پھر یہ کیوں‌بحال ہو۔ گیا سو گیا۔
اگر محترمہ نے یہ فرمایا تھا کہ چوہدری کے گھر پر پرچم لہرائیں گے تو ضرور ہی ہے کہ پورا ہو؟ محترمہ نے تو یہ بھی کہا ہے کہ کوئی بے گھر نہ ہو، ہر ایک کو روزگار ملے۔ کرپشن نہ ہو، شیعہ دھشت گرد ہو یا سنی یا مہاجر یا پنجابی سب کو سزا ملے ۔ یہ سب کیوں پورا نہیں ہورہا ۔اس کو کوئی پوچھتا نہیں۔ بس چوہدری چوہدری کی رٹ لگارکھی ہے۔[/quote

درست کہا جناب نے ویسے بھی وعدے وعدے ہی ہوتے ہیں کوئی قرآن یا حدیث نہیں کہ ضرور ہی پورے ہوں ۔۔ یہ میں نہیں کہتا صدر مملکت خداداد پاکستان جناب محترم آصف علی زرداری کا فرمان عالی شان ہے ۔

محترمہ کی وفات پر انکے کٹر سیاسی مخالفین کو بھی دلی دھچکہ لگا تھا اور ان ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے تھے جو انہیں غدار اور نہ جانے کیا کیا نام دیتے تھے کیونکہ انہیں اپنی زبان کا پاس تھا ۔ وہ جو کہتی تھیں اسے کرنے کی ایسی کوشش کرتی تھیں جو مخلصانہ ہو یا نہ ہو مخلصانہ نظر ضرور آتی تھی ۔ مگر جناب صدر مملکت خداداد پاکستان جناب آصف علی زرداری میں ان کی شخصیت کا 10 فیصد بھی نہیں ہے ۔ ویسے کیا محترمہ کی وصیت کا پورا ہونا کوئی لازمی امر تو نہیں تھا ۔ بالکل ویسے ہی جیسے تحریری معاہدوں کا پورا ہونا کوئی لازمی امر نہیں تھا ۔ مگر ہم بھی کیا بتا رہے ہیں اور کسے بتا رہے ہیں ۔ ۔۔۔! معذرت جناب ہمت علی صاحب غلطی ہوگئی کہ سچ بول بیٹھے یہاں بھی ۔

ویسے چلن نہیں ہے کہ سچ بات کیجئے
لوٹیں وطن جو ان کی مدارات کی جیئے
عدالت ۔ شجاعت ۔ وطن کی حفاظت۔۔!
بھلاکر انہیں پھر شکوہ حا لات کی جیئے


ہماری قوم اور کر بھی کیا سکتی ہے ۔

فوج ۔۔۔۔۔۔ لٹیری تھی مگر اب درستگی کی طرف گامزن
حکومت ۔۔۔ لٹیری اور ہیجڑا۔۔۔ تھی ہے اور رہے گی
عوام ۔۔۔۔۔۔۔ باتیں اور صرف باتیں۔۔۔۔۔ کام کی باری حکومت کو دیکھتے ہیں ۔ حقوق کی طالب مگر فرائض سے فرار کی خواہشمند۔
بیورو کریسی ۔۔۔۔ کام چوری کے بہانے ۔ ملک و قوم کی خدمت نہیں بس نوکری کر رہے ہیں ۔
پولیس ۔۔۔۔ سوائے معدودے سب سرکاری بدمعاش ۔ کچھ جگہوں پر درست باقی پر حکومت کی صرف نوکری کر رہے ہیں ۔ چاکری کرنے کو اور بہت سے آقاؤں کی کرتی ہے ۔
عدلیہ ۔۔۔۔۔۔ مرحومہ اور معدومہ اور حیلے بہانوں سے اسکے بال و پر کاٹے جارہے ہیں
تعلیم ۔۔۔۔۔۔ تجارت یا پھر صرف کاروائی
کاروبار ۔۔۔۔ فقیری ۔ ادھار اور خلوص سے عاری
صحافت ۔۔۔ کاروبار




واہ یہ ہے میرا پاکستان ۔ ہمت کرتا ہوا پاکستان


پھر بھی ہم کل سے مایوس نہیں ۔ قوموں کی زندگی میں ایسے لمحات ضرور آتے ہیں جب مایوسی عروج پر ہوتی ہے مگر اس مایوسی کے دامن سے ہی امید کا سورج طلوع ہوتا ہے اور قوم 61 برس سے اس سورج کے "انتظار" میں صوفے پر لیٹی پان سگریٹ اور چائے پھونک رہی ہے ۔
 
حقیقت وہی ہے جو میں نے لکھی ہے۔ چوہدری بحال نہیں‌ہونے کا۔
اپ بھی میم میم مغل کی طرح‌بونگیاں ماررہے ہیں جو میری سمجھ میں تو نہیں اتیں اتنی کنفیوژڈ ہوتیں ہیں‌کہ بس۔
 
حقیقت وہی ہے جو میں نے لکھی ہے۔ چوہدری بحال نہیں‌ہونے کا۔
اپ بھی میم میم مغل کی طرح‌بونگیاں ماررہے ہیں جو میری سمجھ میں تو نہیں اتیں اتنی کنفیوژڈ ہوتیں ہیں‌کہ بس۔

کیا آپ چاہتے ہیں کہ شخصی مخاصمت اس فورم میں بھی شروع ہو جائے ۔ مجھے نہیں لگتا کہ‌آپ کبھی بونگیاں مارتے ہونگے لہذا میرے دوسرے دوستوں کے متعلق الفاظ کا استعمال کرنے سے پہلے یہ سوچ لیا کیجئے کہ آپ کی رائے کی آزادی وہاں کتم ہوتی ہے جہاں سے کسی دوسرے کی شخصیت شروع ہوتی ہو ۔ براہ کرم الفاظ کا استعمال محتاط کیا کیجئے ۔ کیونکہ ہم ایسی کوئی حرکت نہیں کرنا چاہتے کہ آپ کا دل دکھے ۔ لیکن سچ بونگی کب سے ہونے لگا ۔۔؟ شاید جب سے حکومت پاکستان پر کسی زر دار کی زرداری قائم ہوئی ہو ۔۔۔!
 
کیا آپ چاہتے ہیں کہ شخصی مخاصمت اس فورم میں بھی شروع ہو جائے ۔ مجھے نہیں لگتا کہ‌آپ کبھی بونگیاں مارتے ہونگے لہذا میرے دوسرے دوستوں کے متعلق الفاظ کا استعمال کرنے سے پہلے یہ سوچ لیا کیجئے کہ آپ کی رائے کی آزادی وہاں کتم ہوتی ہے جہاں سے کسی دوسرے کی شخصیت شروع ہوتی ہو ۔ براہ کرم الفاظ کا استعمال محتاط کیا کیجئے ۔ کیونکہ ہم ایسی کوئی حرکت نہیں کرنا چاہتے کہ آپ کا دل دکھے ۔ لیکن سچ بونگی کب سے ہونے لگا ۔۔؟ شاید جب سے حکومت پاکستان پر کسی زر دار کی زرداری قائم ہوئی ہو ۔۔۔!

پتہ نہیں اپ کہاں‌کی ہانک رہے ہیں۔ میں پھر اپ کو یاد دلاتا ہوں کہ چوہدری نہیں‌بحال ہونے کا ۔
باقی زرداری کی اپ زرداری سے پوچھیں۔
 
پتہ نہیں اپ کہاں‌کی ہانک رہے ہیں۔ میں پھر اپ کو یاد دلاتا ہوں کہ چوہدری نہیں‌بحال ہونے کا ۔
باقی زرداری کی اپ زرداری سے پوچھیں۔



منتظمین سے گذارش ہے کہ مندرجہ بالا پوسٹس کو پڑھ کر فیصلہ کیا جائے کہ بونگیاں اور ہانکنے کی کیا تعریف ہے اور کیا بلاوجہ ایسا لہجہ اختیار کرنا مناسب ہے یا نہیں
 

جوش

محفلین
حقیقت وہی ہے جو میں نے لکھی ہے۔ چوہدری بحال نہیں‌ہونے کا۔
اپ بھی میم میم مغل کی طرح‌بونگیاں ماررہے ہیں جو میری سمجھ میں تو نہیں اتیں اتنی کنفیوژڈ ہوتیں ہیں‌کہ بس۔

بونگیاں ہوش مند لوگ نہیں مرد خر مار رہے ہیں جن کو 200 سے زیادی میڈیکل رپورٹ زہنی بیمار ثابت کرتی ہیں، اور اسی بیماری کے عالم میں انھوں نے پاکستان کو "مرد بیمار" کا خطاب دیا ہے۔ یہ "عقل مند" پوری دینا کی کانفرسوں میں اپنی بیوی کی تصویر دکھا دکھا کر بونگیاں مارتا ہے۔
 

جوش

محفلین
ابو شامل کا بلاگ سے اقتباس زرداری کے "مرد بیمار" لفظ استعمال کرنےپر



"محترم صدر آصف علی زرداری نے گزشتہ ہفتے فرانس کے معروف اخبار “لی فیگارو” کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہا ہے کہ

پاکستان ایشیا کا مرد بیمار ہے، اس لیے یورپی ممالک اس کی مدد کریں”

(انٹرویو فرانسیسی زبان میں ہے، گوگل ٹرانسلیٹ کی مدد سے اسے انگریزی میں ترجمہ کر کے پڑھا جا سکتا ہے)۔اس تاریخی بیان نے ان کے دیگر کارناموں کو ہر گز نہیں گہنایا، بلکہ ان کے سنہرے اقوال کی فہرست میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

یہ تاریخ میں پہلا موقع ہوگا جب کسی سربراہ نے اپنے ملک کے لیے “مردِ بیمار” کی اصطلاح استعمال کی۔ اس سے قبل موصوف بھارتی طیاروں کی خلاف ورزی کے باوجود اسے “تکنیکی غلطی” قرار دینے اور جماعت الدعوۃ جیسی جماعتوں پر بے محل پابندیاں لگانے کے اقدامات جیسی صریح غلطیاں کر چکے ہیں جس کی کسی سربراہ سے توقع نہیں کی جا سکتی۔

بہرحال اب آپ یہ انٹرویو ملاحظہ کیجئے اور ذیل میں “مرد بیمار” کی اصطلاح کا وہ تاریخی پس منظر بھی ملاحظہ کر لیجئے جس کے باعث ہم اس اصطلاح کے استعمال پر معترض ہیں۔

19 ویں صدی میں خلافت عثمانیہ تیزی سے زوال پذیر تھی لیکن اس کا وجود روس کی بڑھتی ہوئی قوت کے خلاف یورپ کی دیگر طاقتوں کے مفاد میں تھا۔ عظیم طاقتوں کا یہی مفاد اس کی بقا کا ضامن دکھائی دیتا تھا لیکن درحقیقت اس سے سلطنت اپنا اختیار، وجود اور حیثیت سب کھوتی جا رہی تھی۔ سلطنت اور روس کے درمیان مخاصمت کی ایک وجہ تو دونوں ملکوں میں مسلم اور عیسائی آبادی کا بڑی تعداد میں موجود ہونا تھا۔ روسی سلطنت بارہا سلطنت عثمانیہ میں عیسائی رعایا کی محافظ ہونے کا دعویٰ کرتی اور جن جنگوں میں اس کو فتوحات حاصل ہوئیں ان میں کیے گئے معاہدوں میں یہ شق ضرور شامل ہوتی کہ وہ سلطنت عثمانیہ کی عیسائی رعایا کی محافظ ہوگی۔ دوسری جانب روس اور سلطنت عثمانیہ کے سرحدی علاقوں میں مسلمانوں کی بڑی تعداد بھی رہتی تھی جو روس کے توسیع پسندانہ عزائم کے باعث ہر وقت ایک بڑے خطرے کا سامنے کیے ہوئے تھی۔ اس طرح دونوں سلطنتوں میں ہر وقت چپقلش چلتی رہتی اور بالآخر 19 ویں صدی میں دونوں ملکوں کے درمیان طویل جنگیں ہوئی جنہیں تاریخ میں روس-ترک جنگیں یا Russo-Turkish Wars کہا جاتا ہے۔ ان جنگوں کے نتیجے میں خلافت عثمانیہ کا زوال اور تیز ہو گیا اور روسی دیو تیزی سے مشرق و مغرب میں مختلف علاقوں کو نگلتا چلا گیا۔ یورپ کی بڑی طاقتیں برطانیہ اور فرانس روس کی اس تیز رفتار توسیع کو بہت بڑا خطرہ سمجھتی تھیں کیونکہ اس سے ایک جانب جہاں علاقے میں ان کے مفادات کو براہ راست ٹھیس پہنچ رہی تھی وہیں دوسری جانب ایشیا اور افریقہ میں ان کے مقبوضات کا رابطہ بھی منقطع ہو سکتا تھا اور اپنے مقبوضہ علاقوں کی راہ میں روس جیسی عظیم قوت حائل ہونے کا واضح مطلب یہی تھا کہ یورپی قوتیں اپنی سونے کی چڑیاؤں سے محروم ہو جائیں۔ یہی وہ وجہ تھی جس کے باعث برطانیہ اور فرانس نے روس کے مقابلے میں سلطنت عثمانیہ کی حمایت کی۔

سلطنت عثمانیہ اپنے محل وقوع کے اعتبار سے انتہائی اہمیت کی حامل تھی اور مالی و دفاعی اعتبار سے کمزوری اسے روس کے مقابلے میں تر نوالہ بنا رہی تھی۔ “بدقسمتی” سے اسلام اور عیسائیت کے لیے مقدس ترین مقامات بھی اسی سلطنت میں (بیت المقدس میں) واقع تھے اور یوں عیسائی رعایا کے محافظ قرار دیے جانے کے معاملے پر فرانس اور روس میں چپقلش ایک اور جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔روس کے خلاف سسلطنت عثمانیہ، برطانیہ اور فرانس نے مل کر جنگ (جنگ کریمیا) میں حصہ لیا اور عالمی تجارتی آبی گزرگاہوں پر روسی اثر و رسوخ کے خاتمے میں کامیاب ہو گئیں۔

اس جنگ کے دوران روس کے زار نکولس اول نے ایک یادگار جملہ ادا کیا تھا جو تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا اور آج تک بطور اصطلاح جملہ رائج ہے۔ انہوں نے برطانوی سفیر کے ایک مکتوب میں سلطنت عثمانیہ کے بارے میں یہ کہا:

عثمانی سلطنت ایک مردِ بیمار ہے، بہت زیادہ بیمار، ایک ایسا “مرد” جو ضعف وشکستگی کی حالت تک پہنچ چکا ہے

اس طرح “مردِ بیمار” کی یہ ایسی اصطلاح وجود میں آئی جو آج بھی ان ممالک کے لیے استعمال کی جاتی ہے جو دفاعی و مالیاتی اعتبار سے عالمی قوتوں کے رحم و کرم پر ہوں۔ درحقیقت یہ ایک ایسا طعنہ تھا جو ایک ملک کے سربراہ نے اپنے دشمن ملک کے لیے استعمال کیا بلکہ اگر واضح الفاظ میں کہا جائے کہ جنگی تناؤ کے دوران حوصلہ پست کرنے کے لیے دشمن ملک کو گالی دی گئی۔

اب یہ ڈیڑھ صدی کے بعد یہ کارنامہ ہمارے صدر نے انجام دیا ہے کہ اپنے ہی ملک کو اس گالی کا حقدار قرار دیا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
منتظمین سے گذارش ہے کہ مندرجہ بالا پوسٹس کو پڑھ کر فیصلہ کیا جائے کہ بونگیاں اور ہانکنے کی کیا تعریف ہے اور کیا بلاوجہ ایسا لہجہ اختیار کرنا مناسب ہے یا نہیں

یہ لب و لہجۃ کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ لیکن کیا کیا جائے ہمت صاحب بہت دفعہ سمجھایا ہے۔ باتوں سے عمر رسیدہ بھی لگتے ہیں، پھر بھی نہ سمجھیں تو کیا کیا جا سکتا ہے۔
 

زین

لائبریرین
ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے سے محفل کا ماحول خراب ہوسکتا ہے اور یہ ذمہ داری منتطمین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس طرح کی ہتک آمیز پیغامات کو حذف کریں‌
ٹھیک ہے وہ بزرگ ہے ہمیں ان کا احترام ہےلیکن انہیں‌بھی تو دوسروں کا احترام کرنا چاہیئے اب بزرگ ہونے کا مطلب یہ تو نہیں‌کہ کچھ بھی کہہ دے ۔
 

جوش

محفلین
ارے بھائی بیمار ذہن سے بیمار باتیں ہی نکلیں گی ناں۔

یمارے زہنی مریض لیڈرکی باتوں پر پر سفیر احمد صدیقی کا جنگ اخبار میں کالم

واہ! واہ! کیا خوب بیان دیا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہیں۔ یہ ایسا انکشاف ہے جس سے عقل دنگ رہ گئی ہے۔ دشمن نے ہمیں مار مار کر ادھ موا کردیا ہے (مشرقی پاکستان اور جنگی کیمپوں کے حوالے سے) اور بین الاقوامی برادری میں رسوا اور ذلیل کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی لیکن ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ بھارت ہمارا دشمن نہیں۔ ہمارے صدر صاحب فرماتے ہیں کہ ممبئی میں دہشت گردی کے نتیجے میں بھارت کا طرزعمل محض جذباتی ردّعمل تھا۔ کیا عالی مرتبت بھارت کی ازلی عناد اور دشمنی جو سقوط ڈھاکہ پر منتج ہوئی اسے بھول گئے ہیں؟ کیا زرداری صاحب پنڈت جواہر لال نہرو کے یو این او میں کیے ہوئے وعدے بھول گئے ہیں کہ کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے گی تاکہ کشمیری اس بات کا فیصلہ کریں کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا ہندوستان میں ضم ہونا چاہتے ہیں۔ سیاچن میں بھارتی فوج گھس جاتی ہے اور اس ارادے سے گھستی ہے کہ جب بھی موقع ملا وہ بلتستان اور گلگت پر قابض ہو جائے گی۔ کیا بھارت کی اس حرکت کو ہم دوستی کا نام دیں۔ڈپلومیسی بہت نازک اور اچھی چیز ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم بھونڈی ڈپلومیسی اختیار کرتے ہوئے اپنا تشخص ہی کھو بیٹھیں۔ مثلاً صدر محترم بھارت کو خوش کرنے کے لئے یہ فرماتے ہیں کہ: ”ہم (ہندو اور مسلمان) ایک ہی مٹّی کے بنے ہوئے ہیں۔“
کیا ہمیں یہ بات دہرانے کی ضرورت ہے کہ ان کی بود و باش، لباس، طور طریقے، رہن سہن مسلمانوں سے اتنے جدا اور مختلف ہیں جیسے قطب شمالی اور قطب جنوبی۔ میں حیران ہوں کہ انہیں مسجد اور مندر میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ اگر یہ کہنا درست ہے کہ ہم ایک ہی خمیر سے بنے ہوئے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ گاندھی جی ٹھیک ہی کہا کرتے تھے کہ: "How can a group of converts claim a separate homeland."
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم ایک ہی مٹی کے بنے ہوئے ہیں تو پھر کیا خدانخواستہ دو قومی نظریہ ایک ڈھونگ تھا اور جدوجہد پاکستان "An Exercise in Futility" ۔ کیا دس ملین مسلمانوں نے حصول پاکستان کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا وہ بھی ان کی بھول تھی اور پاکستان کے نام پر کرہٴ ارض پر وقوع پذیر ہونے والی سب سے بڑی ہجرت بھی لاحاصل تھی۔ مائی لارڈ اگر ہم ایک مٹّی کے بنے ہوئے ہوتے تو گاندھی اور نہرو ہمیں متحدہ ہندوستان میں اقلیت کا درجہ دینے پر کیوں مصر تھے۔ اگر ہم ایک ہی خمیر کے بنے ہوئے ہیں تو مسلمانوں کے لئے گائے ایک مقدس جانور تو نہیں ہے۔ پھر ہم ایک جیسے کیوں کر ہوئے۔ کس زاویئے سے کس منطق کی رو سے۔ جب کسی دو شے کی مماثلت پیش کی جاتی ہے تو ان دو چیزوں میں کوئی مشابہت کا ہونا لازمی ہے۔ زرداری صاحب مذہب، ثقافت، تہذیب و تمدن، معاشرتی اقدار سب کو اپنے ایک نا مناسب بیان سے ضم کر دینا چاہتے ہیں۔ مجھے بے حد افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ زرداری صاحب عجیب عجیب اندازے (Guess work) لگانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ ”بلاشبہ پاکستانی بھارت کے 4800 ٹینکوں کو نہیں بھول سکتے جنہوں نے ہماری سرحد کو عبور کیا تھا۔“ "This is totally wrong." بھارت نہ تو 1965ء میں اتنے ٹینک ہماری سرحدوں پر لایا تھا اور نہ ہی 1971ء میں۔ یہ بھارت کی Capability سے باہر ہے۔ میدان جنگ میں ٹینک رجمنٹ لڑتی ہیں جس میں 48 ٹینک ہوتے ہیں اور پاک بھارت جنگی تناظر کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو بیک وقت پورے محاذ پر 10 سے 12 ٹینک رجمنٹ میدان کارزار میں لائی جا سکتی ہیں۔ ایک ٹینک رجمنٹ جب حرکت میں آتی ہے تو اس کے لئے Space یعنی مناسب خالی جگہ کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ایک خاص Approach پر حرکت کر رہی ہوتی ہے۔ اپنی مرضی سے دائیں بائیں نہیں مڑسکتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر بھی 4800 ٹینکوں کے ساتھ کبھی کسی یورپی قوم پر حملہ آور نہیں ہوا تھا۔ 1965ء میں چونڈہ (سیالکوٹ) میں ہندوستان اور پاکستان کے مابین ٹینکوں کی بڑی خوفناک جنگ لڑی گئی تھی۔ کہتے ہیں اس معرکے میں ٹینک سے ٹینک ٹکرا رہے تھے۔ یہ وہی محاذ تھا جہاں میجر ضیاء الدین عباسی شہید نے جام شہادت نوش کیا تھا۔ یہاں بھی غالباً بھارت کی تین ٹینک رجمنٹ اور ہماری دو ٹینک رجمنٹ گتھم گتھا تھیں۔ ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے لیڈروں کے منہ میں جو آتا ہے بغیر سوچے سمجھے بول دیتے ہیں۔ مثلاً زرداری صاحب نے بھارتی جنگی جہازوں کے بارے میں جنہوں نے ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تھی کہا کہ بھارتی جنگی جہازوں کی یہ تیکنیکی خامی تھی۔بھارت نے ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کی، اس کا ردعمل ہماری فضائیہ کی قیادت کی طرف سے آنا چاہئے تھا کہ وہی سب سے بہتر پوزیشن میں تھے کہ کیا کہنا ہے کیا نہیں کہنا ہے۔ ایک فرانسیسی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے عزت مآب صدر پاکستان نے فرمایا کہ ”ان کی اہلیہ اپنی قبر سے ہماری رہنمائی کر رہی ہیں“ لیکن حیرت ہے کہ شہید بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کا پتا چلانے کے لئے ایک اعلیٰ سطحی تفتیشی ٹیم کا قیام ایک سراب کیوں ہے؟ کیا پاکستان میں ایسے تفتیشی ماہر موجود نہیں؟ یہاں تو کچھ پولیس افسروں نے شعبہٴ جرائم میں پی ایچ ڈی کیا ہوا ہے، ان کی خدمات کیوں نہیں حاصل کی جاتیں ۔ کیوں یو این او سے تفتیش کرانے کی واجبی سی کوشش کی جا رہی ہے۔ بے نظیر کے قتل پر مصطفےٰ زیدی کا یہ شعر یاد آ رہا ہے۔
”میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے“
ہم تو بھارت کے سامنے بھیگی بلی بنے ہوئے ہیں…کیوں؟ اس کا جواب بہت سادہ ہے۔ ہماری قیادت بہت کمزور ہے۔ کاش لیاقت علی خان زندہ ہوتے تو ہوا میں اپنا مکّا لہرا کر بھارت کو للکارتے کہ مکر و فریب، چالبازی اور مکاری کا یہ کھیل بند کرو۔ یہاں تو معاملہ ہی الٹا ہے، بھارت بکواس کیے جا رہا ہے اور ہماری قیادت کہہ رہی ہے ہمیں امید ہے کہ بھارت ہم پر فضائی حملہ نہیں کرے گا۔ یواین او میں بھارت نے ہماری رفاہی تنظیموں کے خلاف قرارداد منظور کرا لی اور امریکا میں ہمارے محترم سفیر جو گفتارکے غازی ہیں اور اقوام متحدہ میں ہمارے مستقل مندوب جناب حسین ہارون منہ دیکھتے رہ گئے۔ مجھے حیرت ہے انہیں اب تک اپنے عہدے سے سبکدوش کیوں نہیں کیا گیا۔
 

Dilkash

محفلین
ھمت علی کی کسی پوسٹ کے سامنے اب تک میں نے کم از کم کوئی شکریہ کا ٹیگ نھیں دیکہا۔
کیا وہ اتنا سچ بولتی ہے/بولتا ہے کہ کسی سے بھی نگلا نہیں جاتاا؟؟؟
ویلڈن۔۔۔ ہمت علی ہمت کر اور سچ کا بھرم رکھ۔
 

جوش

محفلین
پتہ نہیں اس رپورٹ میں کتنا سچ ہے، لگتا ہے لوٹ مار شروع ہو چکی ہے۔

fgrp_titlestory.gif
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
سدا خوش رہیں ۔ آمین
1970 سے 2009 آچلا ۔۔ حیران ہوں پاکستان کو کوٰیی ایسا لیڈر نہیں ملا ،،
جو اپنی مدت اقتدار پوری کر کے عزت سے رخصت ہوا ہو۔۔
قاٰید اعظم ۔(میری جیب کے سکے کھوٹے ہیں)
سچ کہہ گٰے آپ ۔۔
لیاقت علی خاں مرحوم کے علاوہ کوٰی ایسا رہنما نظر نہیں آتا ۔۔
جس کے دامن پر دھبے نہ نظر آتے ہوں۔
ہر آنے والے سے نیک امید رکھتے ہیں ۔ اور پھر کچھ دنوں بعد اس کی ہر بات ہمیں بری لگتی ہے ۔
اور پھر دل چاہے خطابات و ا لزامات سے نواز کر کرسی سے اتار دیتے ہیں۔
کاش کوٰیی سچا مرد آہن نصیب ہو میرے پاک وطن کو آمین
لیکن کیسے نصیب ہو کہ ۔۔
ہم ذاتی انفرادی طور پر خود تو بدلتے نہیں ۔۔ اور امید کرتے ہیں سب بدل جاٰیں۔
سوہنی دھرتی پاکستان سدا آباد رہے آمین
نایاب
 

Dilkash

محفلین
شاھین صہبائی کا نام سب کو معلوم ہے۔ کئی سال تک جنرل مشرف کی حکومت کے خلاف انٹر نیٹ پر ساوتھ اشین ٹربیون کے نام سے ان لائن اخبار نکالتے رہے ھیں۔پی پی پی کے حامی تصور کئے جاتے ھیں۔سٹرانگ نقطہ نظر رکھنے والے صحافی ھیں ۔اجکل غالبا دی نیوز کا ایڈیٹر ھے۔ذیل میں انکا لکھا ھوا تجزیہ ملاحظہ کیجئیے ۔

Asif Ali Zardari will Hang Himself with his Own Rope

Zardari Gang of the hijacked PPP will be toppled very soon.

By Shaheen Sehbai

Washington DC, USA, 26 December 2008 (InformPress.com) - The one
question that I am repeatedly asked by everyone, believing that I have
been quite close to [Pakistan Peoples Party (PPP) Co-Chairman] Asif
Ali Zardari during his days of self-exile and forced expulsion from
politics for many years, is how long he and his [PPP] Government will
survive.

It is hard to answer this very loaded and complex question asked
almost on a daily basis, especially when people think everyone who
comes to Washington DC from Pakistan knows something more than they
do. So I have decided to pen down my answer.

The 10 biggest blunders that will ultimately take him [Asif Ali
Zardari] down can be listed as follows, though the full list may be
too long:

1. Failure to show any enthusiasm to track down Benazir's killers. The
mysterious and tragic apathy shown by him [Asif Zardari] towards her
assassination is a sore in every heart. The top PPP leadership every
evening sits in cosy drawing rooms and speaks in derisory language
about what he is doing and how.

2. Failure to support the judiciary [illegally] sacked by [Pakistan
Army's ex-tyrant General (R) Pervez] Musharraf and adopting a hostile
attitude towards [Pakistan Supreme Court Chief] Justice Iftikhar
[Muhammad] Chaudhry. He lost the chance to build grand support.

3. Unnecessary and grossly counter-productive support shown for
[illegal Chief] Justice Abdul Hameed Dogar.

4. Failure to make any move towards repealing the [unlawful] 17th
Amendment and strengthening Parliament. In fact, he [Asif Zardari] has
taken the system to a super-presidential model with a [PPP] Prime
Minister now cribbing regularly about his lack of powers.

5. Betraying his political coalition partners [PML-N, MQM, ANP, JUI-F]
by refusing to follow the Charter of Democracy and cheating them with
false promises.

6. Opening himself and his [PPP] party to blackmail by smaller
coalition parties [MQM, ANP, JUI-F] to an extent that the entire [PPP]
Government has become a hostage, thus unable to take any major
initiative.

7. Boasting about his capacity to get economic and financial aid from
the so-called friends of Pakistan, making repeated visits to world
capitals and finally, opting for the most damaging and least
acceptable option of going to the IMF, thus admitting failure.

[Conditions Attached to IMF "Bailout" will Exacerbate Slump and
Poverty in Pakistan]
http://www.wsws.org/articles/2008/dec2008/paki-d16.shtml

8. Keeping petty political bickering alive in Punjab through a
nonsensical presence of [PPP] Governor Salman Taseer, a [corrupt
Dictator] Musharraf appointee.

9. Turning into a widely disliked person in Pakistan within months by
letting [Criminal] Musharraf go scot-free and adopting all his sins
and drawbacks.

10. Humiliating and then forcing loyal PPP leaders into submission.

My considered opinion is that the present Zardari-led [PPP] set-up
will not last long as it has been structured on a wrong and distorted
political premise as a result of which the key players, who have
emerged as main power wielders were never in the picture, neither of
Benazir Bhutto's PPP, which actually got the votes and won the seats
in the February 18 [2008] elections, nor anyone else. And these new
players have failed to establish their political legitimacy and moral
authority through their actions after coming to power.

These [Zardari Gang's] power players do not have any political
ideology, they do not believe in the established principles of
democracy and parliamentary process enshrined in the [Pakistan]
Constitution and most important of all, they do not have a following
among the masses, which is necessary for any political government
worth its name.

What has happened is that in extraordinary turbulent circumstances,
the Zardari Group of the PPP has taken over the party [Benazir
Bhutto's PPP], out-manoeuvring the others through opportunities
created by circumstances followed up cleverly by a web of deceit,
chicanery, and in some specific cases simple lies and cheating. Taking
full advantage, Zardari formed a group of his cronies who had nothing
to do with the PPP or its politics for years. Who could imagine that
Rehman Malik, Farooq Naek, Babar Awan, Salman Farooqi, Husain Haqqani,
[Abdullah] Hussain Haroon, Dr. Asim, Dr. Soomro, Riaz Laljee, Siraj
Shamsuddin, Zulfikar Mirza, Agha Siraj Durrani and many other smaller,
but tainted friends and associates of Zardari would suddenly take over
every important position and start calling the shots?

The above statements may seem bold, and to some, outrageous, but each
one of these statements can be substantiated with specific and
undeniable examples and proof. Of course, Zardari and his cronies will
deny this, screaming from every rooftop that he is genuine and
represents the people's will. But does, or will, anyone believe him?

To begin with, in the chaos that followed Benazir's death, Asif Ali
Zardari took over the party (PPP), the government, the Parliament, the
presidency and the judiciary. That was some achievement but the way he
did it angered friends and foes alike. That is why he has been
grappling with an enormous trust deficit, both domestically and
abroad.

Has any Prime Minister, who was elected unanimously, or a President,
who secured a two-thirds majority, ever looked so insecure that he had
to repeatedly use questionable tactics to get his way through? Why is
it that despite such strong support in Parliament, he [Asif Zardari]
is working overtime every day to keep and tighten his hold on those
state institutions not yet under his thumb - like the ISI, the
Pakistan Army and some parts of the media?

His attempt to take over the ISI were foiled but he was asking for too
much, too early. But given his nature, he will try again to control
not just the ISI, but will also try to stuff the superior courts with
[pro-PPP] jiyala judges loyal to him and, if he gets the chance for
which he will try his best, he will try to stuff the top [Pakistan]
Army hierarchy with his loyal [pro-PPP] generals.

This is where Zardari will be stopped. That point may come as quickly
as he tries to grab power. So in a way his own survival is in his own
hands. But knowing Zardari, I can predict he cannot stop himself. The
unfortunate fact is that he cannot fathom what the judges [lawyers]
movement has done to the body politic of the country and he cannot
imagine what transformation the [Pakistani] media has brought in the
thinking of every man and woman in the country. He still lives in the
1990s and cannot come out of that syndrome.

Step by step he has dismantled every pillar that [assassinated PPP
Chairwoman] Benazir Bhutto had painstakingly tried to build to
strengthen politicians vis-a-vis the generals. In the many years that
he was in New York, I never heard him discuss the Charter of Democracy
or why the powers of the [Pakistan] President should be cut. He would
always discuss either some business deal or how he had outclassed
other politicians in petty whimsical games. He never talked about any
vision of a grand politically stable and strong Pakistan.

The illusion that he has become stronger than General Musharraf thus
cannot make him a visionary overnight. As I know him, he is capable
only to use these powers for his personal survival and security. But
when an all-powerful Musharraf made mistakes, none of his powers could
rescue him. Zardari has started by committing blunders.

He has survived so far because people expected a change and had to
give him time. The safe window of opportunity that had opened up with
the PPP victory was his safety valve, but for how long? He started
when everyone wanted to give him time. Instead of building on that
reservoir of sympathy, support and hope, he has gone back on every
promise he made publicly.

No one is yet ready to destabilise the current political [PPP] set-up
and Zardari has been given a rope, in fact a longish rope, obviously
to hang himself with. What worries me is that he has not proved
himself competent to rise to the occasion, has shown no urge or
capacity to grow into the huge shoes that he so suddenly finds himself
in and somehow he does not envision the broader canvas of politics,
and lives with all the fears and insecurities of the era of the 1990s
and his days of captivity. Thus he is using the rope with intense
energy to tie himself up in knots and form a noose around his neck.

If all the above answer the question how long will he last, the next
universal question everybody asks is: how will he be removed as he has
all the numbers?

This is an easy question to answer. By his acts [Asif Ali] Zardari has
not endeared himself to anyone in the 10 months of his rule. The
initial honeymoon with the PML-N apart, now his own party [PPP] is on
the brink of imploding. December 27 [2008] will be a crucial date. How
and on what issue the party cracks up is moot, but pressure from the
opposition, a wink from the right quarters and one major blunder by
Zardari is all it will take. It took an all-powerful Musharraf not
even a few weeks to go down; Zardari is just learning the tricks to
survive.

After all the humiliation, what are Benazir Bhutto loyalists like
Aitzaz Ahsan doing in the PPP?

[When will PPP leader Aitzaz Ahsan reform the PPP of Benazir Bhutto,
become the new President or new Chairman of the new PPP, defeat the
Zardari Gang of PPP and then become the next Prime Minister or
President of Pakistan?]

[Mr. Shaheen Sehbai, an eminent Pakistani journalist, is Group Editor
of The News International based in Pakistan.]​
 

جوش

محفلین
حقیقت وہی ہے جو میں نے لکھی ہے۔ چوہدری بحال نہیں‌ہونے کا۔
اپ بھی میم میم مغل کی طرح‌بونگیاں ماررہے ہیں جو میری سمجھ میں تو نہیں اتیں اتنی کنفیوژڈ ہوتیں ہیں‌کہ بس۔

جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ یہ بات پپلز پارٹی کے وہ لوگ بھول چکے ہیں جو کہ بندر کر طرح آصف مداری کی ڈگڈگی پر ناچ رہے ہیں ۔۔۔

آنکھیں بند کرنے سے رات نہیں ہو جاتی۔۔۔۔۔ چوہدری بحال ہو چکا ہے۔۔۔۔۔ پاکستان زندہ باد۔۔۔
 
Top