سائنس کیا ہے؟

شعیب

محفلین
سائنس کی ایک اہمیت اور بھی ہے جسے ہم روحانی اہمیت کہہ سکتے ہیں ۔ اس اہمیت کا دار و مدار اس پر ہے کہ سائنس کس حد تک انسانی عقل اور سوجھ بوجھ کے دریچے کھولتی ہے یا نئے رشتے پیدا کرنے میں کہاں تک معاون بنتی ہے ۔ ان نئے نئے پیدا کئے رشتوں سے ایک نئی قوت کا احساس ہوتا ہے ۔ عام طور پر یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ سائنس کا اصل مقصد ہماری سوجھ بوجھ اور علم میں اضافہ کرنا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی ہمیں ایک نئی قوت کا احساس بھی ہوتا ہے لیکن جو جذبہ اسان کو بھر پور عمل کے لئے تیار کرتا ہے وہ سائنس ہی سے پیدا ہوتا ہے اس اعتبار سے جو لوگ زندگی میں عملی زندگی پر زور دیتے ہیں وہ صحیح معنوں میں سائنسداں کہے جاسکتے ہیں ویسے اس میں شک نہیں کہ علم کے ساتھ عمل کا پہلو ہر انسان کے ساتھ وابستہ ہے لیکن عمل سے لگاؤ اور اس کی شدت ہر انسان میں مختلف ہوتی ہے تو سائنسداں ایک حد تک سائنٹفک نظریہ رکھتا ہے کیونکہ وہ سائنس ہی کے ذریعہ زندگی کے سب کام کاج کے بارے میں سوچتا سمجھتا ہے ۔

پرانے زمانے میں سائنسی عمل کو شخصی ملکیت سمجھا جاتا تھا ۔ آج کل اس کے معنی خاصے بدل گئے ہیں ۔ آج ہر سائنسی کھوج ہر سائنسی عمل اور ہر سائنسی معلومات بنی نوع انسان کا حق بن چکی ہے، سائنس کی ہر کھوج، ہر نتیجہ ہر منزل، ہر تجربہ دنیا کے کیلئے ہے ۔ آج کی سائنس کسی ایک سرکار یا کسی ایک ادارے کی جاگیر نہیں ۔ یہ تو علم کا بہتا دریا ہے جو چاہے دو گھونٹ پی لے اور اگر آدمی علم اور عقل رکھتا ہو اور عمل کو زندگی کا اصول بنانے کا قائل ہو تو اس بہتے دریا سے لگاتار پیتا جائے اور اپنی سوجھ بوجھ اور کھوج سے علم کے ایسے چشمے تلاش کرتا جائے جو اس کے شوق کی پیاس بجھا سکیں اور دوسروں کو بھی پیاس بجھانے کی دعوت دے سکیں ۔

سائنس ہماری مالی اور سماجی ترقی میں بڑا ہاتھ بٹاسکتی ہے ۔ ویسے بھی کتنے موضوعات ایسے ہیں جو دراصل ہماری روزانہ زندگی کے موضوعات ہماری زندگی سے الگ تصور نہیں کئے جاسکتے ۔ اگر ایسے موضوعات کے متعلق ہمیں بالکل معلومات نہ ہوں تو ظاہر ہے کہ ہم اپنی روزانہ زندگی کے گونا گوں پہلوؤں کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتے ۔ چنانچہ ہمارے ارد گرد جس زاویے جس ڈھنگ سے سائنس کا عمل یا اس کا رشتہ ہماری سماجی یا گھریلو زندگی سے جڑتا ہے اس کا علم ہمارے لئے ایک حد تک ضروری ہے ۔ سائنسی معلومات پڑھے لکھے لوگوں کے لئے اتنی ہی ضروری ہیں جتنی ان کے لئے زندگی کی دوسری باتوں کا علم ۔

موجودہ دور سائنس کا دور کہے یا مادہ کا اس میں ٹھوس نتیجوں اور حقیقتوں کو اہمیت حاصل ہے ۔ ہر شخص جانتا ہے کہ سورج ایک سیارہ ہے جو سائنسی نظریہ کے مطابق ہزاروں سیاروں میں سے ایک سیارہ ہے ۔ ان دنوں نئی کھوج کی بدولت سورج اور دوسرے سیاروں کے متعلق نئی نئی باتیں اور معلومات سامنے آرہی ہیں ۔ کچھ سیارے ایسے بھی ہیں جن کی روشنی کو سطح زمین تک پہنچنے میں کئی ہزار سال کا عرصہ درکار ہے ۔ اس سلسلے میں مزید تحقیق جاری ہے ۔ آئے دن نئی معلومات موصول ہورہی ہیں ۔ کیوں کہ آج کا سائنسداں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنے میں منہمک ہے ۔

ایک لگا بندھا تصور یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے ۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ دوسرے کرّوں پر بھی کچھ انسان و حیوان آباد ہیں ۔ سائنس کی کھوج جاری ہے اور آئندہ دنوں میں کئی نئی باتیں معلوم کرنے کے وسیلے کئے جائیں گے کہ آیا دوسرے کرّوں پر کوئی انسانی مخلوق آباد ہے اور ان کروں پر فضا کی کیفیت کرّہ زمین کی طرح ہے یا نہیں کیا شمسی توانائی کو بروئے کار لایا جاسکتا ہے یا نہیں ۔

ایک اور خیال لگ بھگ تین سو برسوں سے انسان کے ذہن پر مسلط ہے کہ مادہ اور توانائی دو الگ الگ اشیا ہیں، ہاں ان کے درمیان ایک رشتہ ضرور ہے ۔ آج کے ایٹمی دور میں سائنس نے اس خیال کو ایک دم بدل دیا ہے اور یہ ماننے پر مجبور کردیا ہے کہ مادہ توانائی ایک ہی شے کے دو مختلف روپ ہیں ۔ آج کل یہ خیال بھی ماند پڑگیا ہے کہ مادہ صرف قدرت کی ہی دین ہے ۔ آج مادہ کو ریڈیائی اشعاع (ریڈیشن) سے پیدا کیا جاسکتا ہے ۔ خلا کی طرف دھیان لے جائیے تو آج کا دور منوانے پر مصر ہے کہ خلا کا پھیلاؤ دن بدن بڑھ رہا ہے خلا کی طرف کئی اڑانیں پچھلے برسوں میں کی گئیں جیسے چاند کی طرف زہرہ کی طرف اور اب اسکائی لیب ہر ایک کی زبان پر ہے ۔

آج سائنس میں وقت اور خلا کے بارے میں دن بدن نئی نئی باتیں نئی رائیں نئے خیال ابھر رہے ہیں ۔ آج کے مشہور سائنسداں آئین سٹائن نے وقت اور خلاء کے بارے میں نئے نئے خیالات دیئے ہیں خاص طور پر اس کے نظریہ انسانیت نے ہر ایک کو حیرت میں ڈال دیا ہے کہ کائنات میں ہر شئے اضافی ہے یعنی آپ کسی شے کو دیکھ کر یہ دعوی نہیں کرسکتے کہ آپ جو کچھ دیکھ یا سمجھ رہے ہیں وہی درست ہے وہ شے اس کے مختلف بھی ہوسکتی ہے جو کچھ آپ کو نظر آرہی ہے نئے نئے تصورات سائنسی انکشاف اور تحقیق کی روشنی میں یہ بہت ضروری ہے کہ سائنسی معلومات کو عام فہم زبان میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے سائنس پرانی توہمات کی جگہ نئی ٹھوس حقیقتوں کو جگہ دیتی ہے ۔ گھسے پٹے خیالات کی جگہ تازہ اور آزمائے ہوئے خیالات کو جنم دیتی ہے اور لطف یہ ہے کہ سائنس سب کچھ منطق اور ناپ تول سے دیتی ہے ۔ آئندہ دنوں میں سائنس مزید نئے تصورات اور نئے خیالات کو نئے انکشافات دے گی ۔

شکریہ ۔ روزنامہ منصف حیدرآباد سنڈے ایڈیشن
 
تعریف

سائینس کی ایک مستند سی تعریف کچھ یوں ہوا کرتی تھی :

موجودہ معلومات کی بنیاد پر حقائق کو پرکھنا اور حاصل کردہ معلومات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے منطق بندی کرنا سائینس کہلاتا ہے۔

ذرا دیکھیں تو ہماری زندگی میں کہاں سائینس کا عمل دخل نہیں۔
یہ اور بات ہے کہ ہمارے چچاطالب کا قول تھا کہ “ پتر سائینس لڑاگیاہیں“۔
 

دوست

محفلین
سائنس ایک اور طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ جہاں یہ منطق کی بنیاد پر حقائق کو پرکھتی ہے وہیں یہ خالق کے ہونے کا ثبوت بھی فراہم کری ہے۔ آج ہمارے جسم میں ہونے والی دریافتیں، ہماری زمین اور کائنات کے حیرت انگیز توازن اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ کوئی ہے۔ اسی لیے تو اللہ فرماتا ہے
“زمین اور آسمان کی پیدائش اور رات اور دن کے آنے جانے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں“
لیکن یہ بات بھی ہے کہ سائنس حرفِ آخر نہیں ۔ کہیں جا کر یہ بھی فیل ہو جاتی ہے اس کی عام سی مثال ماورائی دنیا ہے روحانیت کہہ لیں۔ کیونکہ سائنس صرف ان چیزوں کو پرکھ سکتی ہے جو مادی ہوں ۔
مگر اس کی ذات کے جلوے سائنس سے ماورا بھی نظر آتے ہیں اس لیے سائنس حرفِ آخر نہیں یہ تو خود تغیر پذیر ہے۔ ہر لمحہ ہر آن ایک نیی دریافت پرانے پر پانی پھیر دیتی ہے ایک نیا نظریہ کھڑا کرنا پڑتا ہے۔ چناچہ سائنس کائنات کو انسان کی محدود عقل اور فہم کے مطابق سمجھنے کی کوشش کرتی ہے یا اس کو سمجھنے کے لیے نظریات فراہم کرتی ہے مگر یہ نظریات بھی مکمل نہیں ہوتے۔
 

اجنبی

محفلین
میرے خیال میں یہ کہنا کہ سائنس مذہب سے الگ ہے یا فیل ہوجاتی ہے ، غلط ہے ۔ یہ دراصل ہماری غلطی ہوتی ہے کہ ہم اس چیز کو درست طریقے سے سمجھ نہیں پاتے اور اپنی کج فہمی کو سائنس کی غلطی قرار دے دیتے ہیں ۔ ایک مسلمان کے طور پر میرا ایمان ہے کہ قرآن مجید میں اس پوری کائنات کی تمام اشیا کے متعلق علم ہے ، بات صرف سمجھنے اور سوچنے کی ہے ۔ کچھ عرصہ پہلے تک میں بھی سوچتا تھا کہ قرآن صرف ایک مذہبی کتاب ہے جو صرف اللہ اللہ کرنا سکھاتی ہے ، مگر اب جب میری اپنے دوست معظم عباس کے ساتھ اس موضوع پر بحث ہوئی تو میں آہستہ آہستہ اس حقیقت کو سمجھنے لگ پڑا کہ قرآن مجید واقعی ایک سائنسی کتاب ہے ، اور یہ ہمیں نماز روزے کے علاوہ طبیعات اور مابعدالطبیعات سب کے متعلق بتاتی ہے ۔ اس بارے میں پھر لکھوں گا ۔
:a2:
 
سائنس اور مذہب

سائنس اور مذہب۔ یہ ایک بہت ہی دلچسپ موضوع ہے۔

ماضی کے علماء دین (ارسطو وغیرہ) نے اُس دور کے سائنسدانوں مثلاً گلیلیو کے ساتھ جو کچھ کیا، اس کے بعد سائنسدانوں کا ان سے اور دین سے چِڑنا لازمی سی بات ہے۔

البتہ بعد میں اس کائنات کی وسعتوں کو دیکھ کر سائنسدانوں کو بھی خدا کا یقین کرنا ہی پڑ گیا۔ ابھی تازہ اطلاع آئی ہے کہ سائنسدان ڈارون کی بندر تھیوری پر شک کا اظہار کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ انسان کی تخلیق خدا کا ہی کارنامہ ہوسکتا ہے۔ لنک ہٰذہ پر یہ خبر ملاحظہ کرئیے:

http://livescience.com/othernews/ap_051018_dover_update.html

آخر میں آئن اسٹائن کے قول پر اپنی تقریر کا اختتام کروں گا:

Science without religion is lame, religion without science is blind
 
درست

آئین سٹائین نے بہت پتے کی بات کی ہے
کہ مذہب کو بھی اگر منطق سے دور کردیا جائے تو رہ جاتی ہے چنگریزی والی بات ہے۔ اور سائینس تو نام ہی مطق، فکر اور پیش بندی کا ہے اب اس میں اغلاط کا ہونا ایک فطری امر ہے اور اس میں بی علم کا قصور نہیں بلکہ انسانی کم علمی کا۔ محترم ڈاکٹر قدیر نے یورپ سے علم حاصل کیا اور پاکستان میں آکر ایٹم بم بنا دیا یوں تو پاکستان میں لیکن اگر انکو کہیں کی سڑک بنا دیں تو شاید نہ بنا سکیں جبکہ ہمارے ایک پاکیستانی دوست مرزا ضیاّ جرمنی کے صوبہ بون کے موٹر وے کے چیف انجئنیر ہیں مگر وہ ایٹم بم چاہتے ہوئے بھی نہیں بنا سکیں گے۔

واضع رہے کہ دونوں صاحبان جرمنی کی آخن یونیورسٹی سے ہی فارغ التحصیل ہیں جو ہالینڈ کے بارڈر کے قریب ہے
 

زیک

مسافر
سائنس اور مذہب

شارق مستقیم نے کہا:
ابھی تازہ اطلاع آئی ہے کہ سائنسدان ڈارون کی بندر تھیوری پر شک کا اظہار کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ انسان کی تخلیق خدا کا ہی کارنامہ ہوسکتا ہے۔ لنک ہٰذہ پر یہ خبر ملاحظہ کرئیے:

http://livescience.com/othernews/ap_051018_dover_update.html

ایک تو ایسی خبروں پر پتہ نہیں کیوں لوگ یقین کرنے لگتے ہیں۔ جناب اس "سائنسدان" کی بات بالکل بیکار ہے اور سائنس سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ ان حضرت کا کہنا ہے کہ ان کی سائنسی تھیوری کی جو definition ہے اس کے مطابق astrology بھی سائنس کا حصہ ہے۔ اور ان کی intelligent design میں ویسے کوئی سائنس نہیں ہے۔

ہم اس بات ہو مان کیوں نہیں لیتے کہ evolution سائنس کی ایک مانی ہوئی تھیوری ہے؟
 

جیسبادی

محفلین
تفصیل؟

شارق مستقیم نے کہا:
جیسبادی نے کہا:
اس سلسلے میں ڈاکٹر ماریس کی کتاب پڑھنے کے قابل ہے۔ اس کا اردو ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہے۔


اردو ترجمہ کس نام سے ہے اور پبلشر وغیرہ کی کوئی تفصیل؟

گوگل کرنے پر یہ لنک ملا ہے۔ امید ہے کہ پاکستانی بازار میں دستیاب ہو گی۔
 

جیسبادی

محفلین
سائنس اور مذہب

ہم اس بات ہو مان کیوں نہیں لیتے کہ evolution سائنس کی ایک مانی ہوئی تھیوری ہے؟
میری رائے ہے کہ ہمیں سائینس کے علاوہ سائینس فِکشن بھی پڑھنا چاہیے تاکہ ہماری فکر وسیع ہو اور ہم نئی سوچ کو جگہ دے سکیں۔ سائینس دانوں کی آنکھیں بند کر کے تقلید کرنا کوئی عقلمندی کی بات نہیں۔ جہاں تک انٹیلیجینٹ ڈیزائن اور ایولوشن کی بحث ہے یہ موجودہ بائبل کے پیرو عیسائیوں اور زیادہ آزاد خیال عیسائیوں کی اندرونی لڑائی ہے، ہمارا اس میں اُلجھنے کا کوئی فاٰئیدہ نہیں۔
 

زیک

مسافر
سائنس اور مذہب

جیسبادی نے کہا:
میری رائے ہے کہ ہمیں سائینس کے علاوہ سائینس فِکشن بھی پڑھنا چاہیے تاکہ ہماری فکر وسیع ہو اور ہم نئی سوچ کو جگہ دے سکیں۔ سائینس دانوں کی آنکھیں بند کر کے تقلید کرنا کوئی عقلمندی کی بات نہیں۔

سائنس اور سائنس فکشن دو مکمل طور پر مختلف چیزیں ہیں۔ معلوم نہیں آپ نے انہیں کیوں ملا دیا۔

سائنس دانوں کی اندھی تقلید تو نہیں کرنی چاہیئے مگر ہر علم سے متعلق اس کے ماہرین ہی سے پوچھا جاتا ہے۔ کیا آپ کے خیال میں یہ غلط ہے؟
 

جہانزیب

محفلین
سائنس اور مذہب

زکریا نے کہا:
سائنس اور سائنس فکشن دو مکمل طور پر مختلف چیزیں ہیں۔ معلوم نہیں آپ نے انہیں کیوں ملا دیا۔

سائنس دانوں کی اندھی تقلید تو نہیں کرنی چاہیئے مگر ہر علم سے متعلق اس کے ماہرین ہی سے پوچھا جاتا ہے۔ کیا آپ کے خیال میں یہ غلط ہے؟
:lol: یہ ضروری تو نہیں زکریا بھائی اب ارد گرد دیکھیں مذہب کے حوالے سے ہم عالموں کو مولوی کہہ کر مسترد کر دیتے ہیں۔
 
نکتہ

جہانزیب نے کہا:
یہ ضروری تو نہیں زکریا بھائی اب ارد گرد دیکھیں مذہب کے حوالے سے ہم عالموں کو مولوی کہہ کر مسترد کر دیتے ہیں۔

یہ بھی بہت عمدہ نکتہ لائے ہیں کہ ہم ویسے تو ہر مسئلے کے حل کے لئے اس شعبے کے ماہرین کے پاس دوڑتے ہیں مگر دینی معاملات میں علماء کرام کو سائڈ میں کر دیتے ہیں۔

ویسے اوپر جس ربط کا حوالہ دیا تھا اس سے صرف یہ بتانا مقصود تھا کہ مادہ پرست سائنسدانوں کے منہ پر بھی بعضے نامِ خدا آ ہی جاتا ہے۔
 

اجنبی

محفلین
سب سے پہلے تو سائنس کی تعریف کی جائے کہ یہ ہوتی کیا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ اس میں کون کون سے علوم آتے ہیں ۔ تیسری بات یہ کہ جن علوم کو ہم آرٹس کہتے ہیں انہیں سائنس میں شمار کیوں نہیں کیا جاتا ۔ چوتھی بات یہ کہ علمائے کرام سائنسی (یعنی کائنات) سے متعلقہ علوم پر تحقیق کیوں نہیں کرتے اور پھر ان سے اس طرح کےسوالات کیوں نہیں پوچھے جاتے ۔ (ویسے اس ضمن میں امام جعفر صادق ) کا ذکر کرنا ضروری ہے ۔ امام صاحب جابر بن حیان کے استاد اور کئی سائنسی ایجادات کے موجد تھے ۔ مزید سوالات بعد میں ۔اور پھر ان پر گفتگو ہوگی ۔
 

زیک

مسافر
قدیر احمد نے کہا:
سب سے پہلے تو سائنس کی تعریف کی جائے کہ یہ ہوتی کیا ہے ۔ دوسری بات یہ کہ اس میں کون کون سے علوم آتے ہیں ۔ تیسری بات یہ کہ جن علوم کو ہم آرٹس کہتے ہیں انہیں سائنس میں شمار کیوں نہیں کیا جاتا ۔ چوتھی بات یہ کہ علمائے کرام سائنسی (یعنی کائنات) سے متعلقہ علوم پر تحقیق کیوں نہیں کرتے اور پھر ان سے اس طرح کےسوالات کیوں نہیں پوچھے جاتے ۔ (ویسے اس ضمن میں امام جعفر صادق ) کا ذکر کرنا ضروری ہے ۔ امام صاحب جابر بن حیان کے استاد اور کئی سائنسی ایجادات کے موجد تھے ۔ مزید سوالات بعد میں ۔اور پھر ان پر گفتگو ہوگی ۔

سائنس کیا ہوتی ہے۔ ایک اور

آپ کے باقی سوالات وغیرہ ایک لمبی بحث اور تحریر مانگتے ہیں جس کا میرے پاس فی‌الحال میرے پاس وقت نہیں ہے۔ پھر کبھی سہی۔ مگر بحث صرف سائنس پر کروں گا مذہب پر نہیں۔ مذہب پر بات یہاں بہت بدمزگی پیدا کر دے گی۔
 
Top