سائنس اور مذہب کے اس ٹکراؤ پر آپکی رائے؟

رانا

محفلین
زیادہ تفصیل میں جائے بغیر (کم از کم فی الحال) میری رائے یہ ہے کہ یہ طعن اسلام یا حدیث پر ہونے کی بجائے اعتراض کا رخ اس کو بیان کرنے والی شخصیت "جناب ابوہریرہ" کی طرف ہونا چاہیے۔
جناب ابو ہریرہ پر یہ تنقید پہلے سے موجود ہے کہ وہ کعب بنا الاحبار سے روایت کرتے ہیں، جو کہ اسرائیلیات بیان کرتے ہیں۔
اس موضوع کی تفصیل کے لیے علیحدہ تھریڈ ہونا چاہیے۔
یہ تو پھر آپ نے وہی بات کردی جو میں کہتا ہوں کہ جہاں حدیث کے الفاظ اسلام یا حدیث پر طعن محسوس ہوں اور خدا اور رسول کی شان کے مطابق نہ نظر آئیں یا قرآن سے معارض نظر آئیں تو وہاں چاہے وہ صحیح بخاری ہی کی روایت کیوں نہ ہو اس کے مطابق قرآن کی تشریح کرنا غلط ہوگا۔باقی تفصیل میرے شروع کے مراسلوں میں موجود ہے۔
 
آخری تدوین:
90 فٹ؟ ہاہاہا! اسکا کوئی حوالہ؟

نوٹ: اس مراسلے میں میرے مخاطب صرف سعودی مفتیان ہیں۔
حضرت آدم کے 60 ہاتھ یا 30 گز کی روایت جو سعودی مفتیان کی طرف سے پیش کی جاتی ہے صرف اس لئے کہ وہ صحیح بخاری میں ہے اور اسے ضعیف قرار نہیں دیا جاسکتا تو اس حوالے سے وضاحت تو میں اپنے اس مراسلے میں الگ سے کرچکا ہوں کہ اگر ہم قرآن کو حدیث پر قاضی نہیں بنائیں گے تو پھر یہی ہوگا کہ محدثین جو کہ انسان ہی ہوتے ہیں اور ان سے نادانستگی میں غلطی ہوسکتی ہے لیکن ان کی غلطی کو اگر ہم قرآن پر نہ پرکھیں گے تو وہ ہمیں اللہ اور رسول کی طرف ایسی باتیں منسوب کرنے پر مجبور کردے گی جو ان برگزیذہ ہستیوں کی شان کے خلاف ہے۔ اگر اس دور کے انسان کو اتنا ہی لمبا مانا جائے تو پھر یہ مفتیان ذرا غور ہی کرلیتے کہ آج چھ فٹ کے انسان کی چار چھ انچ لمبی نلکی ہوتی ہے۔ تو تیس گز یعنی 90 فٹ کے انسان کی چالیس سے پچاس انچ بنتی ہے یعنی قریب پانچ فٹ یا دو گز کے قریب۔ تو وہ بیچارہ تو پھر ٹانگ سے باندھ کر ہی چلتا پھرتا ہوگا۔ ستر پوشی تو پھر نام ہی کی ہوئی۔ بیچارے کو اکڑوں بیٹھ درخت سے پھل اتارنے پڑتے ہوں گے۔ ہ الگ بات کہ ایک درخت کا پھل اسکے پورے دن کی خوراک پر ہی خرچ ہوجاتا۔ ۔ اور درخت کی چھاؤں سے ویسے ہی محروم کہ اپنے قد سے اونچے درخت ہر جگہ تو درخت ملنے سے رہے یعنی دن کو لازمی سائے سے محرومی ٹھہری۔ پھر رہنے کے لئے اگر گھانس پھونس کا جھونپڑا بھی بنائے تو اتنا اونچا کہ جو 90 فٹ کے آدمیوں کے لئے کافی ہو گھانس پھونس کی مدد سے یہ کوئی آسان کام تونہیں۔ اگر پتھروں کا مکان بنانا چاہے تو دس فٹ اونچی دیوار بھی پتھروں کو ہموار کرکے ایسے گارے کے بغیر ممکن نہیں جو انہیں اپنی جگہ پر جما سکے۔ پھر سو ڈیڑھ سو فٹ کا مکان ان پتھروں سے تیار کرنا کیا آسان رہا ہوگا اور گارا بھی ایسا کہ اتنا دیو ہیکل آدمی اس کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھے تو ڈھے ہی نہ جائے۔ یہ سب سوال وہ ہیں جو سائنس کی پیداوار نہیں۔ بلکہ ایک انسان خود ہی غور کرے تو سائنس سے قطع نظر یہ تسلیم کرنا مشکل ہوجائے گا۔ اور قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ درجہ بدرجہ ہر چیز کو ترقی دیتا ہے ہر چیز میں یہی اصول کارفرما نظر آتا ہے۔ نفس واحدہ سے پیدائش شروع کرکے پھر لاکھوں کروڑوں سال میں جاکر انسان کی تکمیل تو اس اصول پر پوری اترتی ہے کہ زندگی کا آغاز ہو ایک خلیہ پیدا ہوتا ہے کروڑوں سال میں پھر اس سے درجہ بدرجہ ترقی پاکر ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے انسان اپنی موجودہ حالت کو پہنچے۔ لیکن یہ سوچنا کہ یکدم 90 فٹ کا انسان پیدا کرکے پھر آہستہ آہستہ اسے چھوٹا کرتے چلے جانا یہ کس اصول پر ٹھہرے گی۔ ارتقاء تو تسلیم نہیں کرنا مفتیان نے لیکن یہ کیا ایک قسم کا ریورس ارتقا نہیں مانا جارہا؟ اگر یکدم ہی پیدائش ٹھہری اور مکمل تو پہلے ہی کیوں نہ نارمل انسان کی لمبائی پر پیدا کردیا۔ کیوں نہ اس ریورس ارتقا کی بجائے وہی ارتقا مان لیا جائے جو قرآن کی شان کے بھی مطابق ہے اور درجہ بدرجہ ترقی دینے کے قرآنی اصول پر بھی پورا اترتا ہے۔
بھائی یہیں پڑھا ہے ۔ میں نے تو اس بات کو سمجھنے کے لئے سوال کیا تھا
 

مہوش علی

لائبریرین
یہ تو پھر آپ نے وہی بات کردی جو میں کہتا ہوں کہ جہاں حدیث کے الفاظ اسلام یا حدیث پر طعن محسوس ہوں اور خدا اور رسول کی شان کے مطابق نہ نظر آئیں یا قرآن سے معارض نظر آئیں تو وہاں چاہے وہ صحیح بخاری ہی کی روایت کیوں نہ ہو اس کے مطابق قرآن کی تشریح کرنا غلط ہوگا۔باقی تفصیل میرے شروع کے مراسلوں میں موجود ہے۔
نہیں، میں نے تو جناب ابوہریرہ اور اسلام کے مابین انصاف کی بات کی ہے۔
یہ روایات اگر جناب ابوہریرہ کی جگہ کسی اور نے بیان کی ہوتیں جس پر یہ اسرائیلیات اور کعب بن الاحبار کا الزام نہ ہوتا۔۔۔ یا پھر بہت سے اشخاص سے یہ مروی ہوتیں، تو پھر اسکا طعن اسلام کی طرف آتا۔ مگر موجودہ صورتحال مختلف ہے، اور اس صورت میں حدیث سسٹم کا انکار کر کے منکر حدیث نہیں بننا ہے، بلکہ حدیث سسٹم کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور اس سٹینڈرڈ کو تسلیم کرنا ہے جس کی طرف پہلے سے اشارہ موجود ہے کہ جناب ابوہریرہ کعب بن الاحبار سے اسرائیلیات روایت کرتے تھے۔
 

مہوش علی

لائبریرین
بحث بہت لمبی ہوتی جارہی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ اب تکرار شروع ہوکر پانی میں مدھانی چلانے والی بات تک آپہنچی ہے۔ اس لئے میں اب اپنی حد تک اس بحث کو سمیٹنے کی کوشش کروں گا کہ موقف تو کافی حد تک دونوں کا سامنے آچکا ہے تو کہیں تکرار سے دھاگہ کچھڑی نہ بن جائے۔


احادیث کے بارے میں اپنا موقف اوپر کئی مراسلوں میں پیش کرچکا ہوں لیکن اسکے باوجود میرے بارے میں آپ کی رائے تبدیل نہ ہوسکی تو اب مزید تکرار کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔


مجھے حیرت ہوئی کہ آپ اس قتل مرتد کی حدیث کو صحیح سمجھتی ہیں اس رعایت کے ساتھ کہ یہ حکم خاص حالات کے لئے تھا۔ بہرحال اس حدیث کا مضمون پورا درج کردیتا ہوں۔
’’ عکرمہ سے مروی ہے کہ بعض زندیق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے پیش کئے گئے تو آپ نے انہیں زندہ جلا دیا۔ حضرت ابن عباس تک یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ اگر میں ہوتا تو میں انہیں ہرگز نہ جلاتا رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ اس مناہی کے مطابق کہ اللہ کے عذاب سے (کسی کو) عذاب نہ دو بلکہ میں انہیں قتل کردیتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے مطابق کہ جو اپنا دین بدل دے اُسے قتل کردو۔‘‘
(جامع صحیح بخاری کتاب استتابۃ المرتدین و المعاندین باب حکم المرتد و المرتدۃ)

اب آپ اسے صحیح تسلیم کرتی ہیں تو یہ طے ہوا کہ
1- حضرت علی نے بعض زندیقوں کو زندہ جلا دیا تھا۔
2- انہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا بھی علم نہ تھا کہ اللہ کے عذاب سے کسی کو عذاب نہ دو۔

حضرت علی جیسے جلیل القدر صحابی کے متعلق یہ دونوں باتیں میرا دل تسلیم نہیں کرتا۔ بلکہ یہ حدیث حضرت علی کو بدنام کرنے کے لئے گھڑی گئی ہے جیسے ابھی ظاہر ہوجائے گا۔
آپ کی یہ بات درست ہے کہ صحاح ستہ کی دیگر کتب میں بھی ملتی ہے یعنی بخاری، ترمذی، ابو داؤد، النسائی اور بن ماجہ میں بھی۔ اس لئے مستند ٹھہری کہ صحاح ستہ کے پانچ مجموعوں میں درج ہے۔ لیکن اس میں کچھ مسائل ہیں:
1- صحاح ستہ کی ہرکتاب میں اس حدیث کا سلسلہ ایک ماخذ پر جاکر ختم ہوتا ہے اور اسے اُس سے ماخوذ قرار دیا ہے اور وہ ہے ’’عکرمہ‘‘۔
2- اس میں کلام نہیں کہ ایک ہی ماخذ پر ختم ہونے والی حدیث بھی صحیح اور مستند ہوسکتی ہے۔ لیکن بہرحال اس درجہ قابل اعتماد تو قرار نہیں دیا جاسکتا جو ایک سے زیادہ قابل اعتبار سلسلوں سے مروی ہوں۔
3- اب جب کہ ثابت ہوگیا کہ اس حدیث کو ایک شخص عکرمہ نے آگے پھیلایا ہے اور سب نے اسی سے سُنی ہے تو عکرمہ کا چال چلن دیکھنا زیادہ ضروری ٹھہرا ۔ عکرمہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ کا ایک غلام تھا اور شاگرد بھی۔ اور شاگرد بھی ایسا جس پڑھائی سے دل اُچاٹ تھا۔ اپنی اس حیثیت کی اس نے خود تصدیق کی ہے کہ حصول علم کے بارہ میں اس کی عدم دلچسپی اور بلا اجازت مسلسل غیر حاضری پر حضرت ابن عباس بہت برافروختہ ہوجایا کرتے تھے۔ مزید برآں عکرمہ حضرت علی کا مخالف تھا اور خوارج کی طرف میلان رکھتا تھا۔ جب عباسیوں کا دور شروع ہوا تو عکرمہ کو حضرت علی سے مخاصمت اور خوارج کے ساتھ اس کی راہ و رسم کے باعث ایک بالغ نظر عالم کی حیثیت سے بہت شہرت ہوئی۔
4- ذہبی کا بیان ہے کہ چونکہ عکرمہ خوارج میں سے تھا اس لئے اُس کی بیان کردہ احادیث مشکوک اور ناقابل اعتبار ہیں۔ ارتداد کی سزا کے بارہ میں سند کا درجہ رکھنے والے امام علی بن المدائنی کی بھی عکرمہ کے بارہ میں یہی رائے ہے۔ یحیٰ بن بکر کہا کرتے تھے کہ مصر، الجزائر، اور مراکش کے خوارج عکرمہ کے موید اور پکے ساتھی تھے۔ ایک بہت بڑے عالم دین یحیٰ بن سعید الانصاری نے عکرمہ کی ناقابل اعتبار حیثیت کی بنا پر اس کی شدید مذمت کی ہے اور یہاں تک کہا ہے کہ وہ ایک کذاب تھا۔ عبداللہ بن حارث نے ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ وہ علی بن عبداللہ بن عباس سے ملنے گئے تو دیکھا عکرمہ کو ایک کھمبے سے جکڑ کر باندھ رکھا ہے۔ انہوں نے دلی صدمہ کا اظہار کیا کہ عکرمہ اپنی شہرت اور عزت کی وجہ سے ایسے ظالمانہ سلوک کا مستحق تو نہیں ہے تو علی بن عبداللہ بن عباس نے کہا کہ عکرمہ اس قدر گستاخ واقع ہوا ہے کہ اسے میرے مرحوم والد ابن عباس کی طرف سراسر جھوڑی اور من گھڑت باتیں منسوب کرنے میں بھی کوئی عار نہیں۔ عکرمہ کے چال چلن پر علی بن عبداللہ بن عباس سے بڑھ کر کس کی گواہی معتبر ہوسکتی ہے۔
5- حیرت نہ ہونی چاہئے کہ احادیث جمع کرنے میں اولین کا شرف رکھنے والے فقہ کے نامور بزرگ امام مالک جنہیں پوری اسلامی دنیا میں عزت و احترام اور تعظیم و تکریم کا بہت بلند مقام حاصل ہے فرمایا کرتے تھے کہ عکرمہ کی بیان کردہ احادیث سراسرغیر معتبر ہیں۔
6- درج زیل علماء نے علی الاعلان کہا ہے کہ عکرمہ میں مبالغہ آرائی کا میلان کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ امام یحیٰ بن سعید الانصاری، علی بن عبداللہ بن عباس، عطا بن ابی ربیعہ۔

سویہ ہے وہ شخص جس کی اکیلی گواہی اور سند کے ساتھ مذہب تبدیل کرنے والوں کی زندگی اور موت کا معاملہ اٹکا ہوا ہے اور تاقیامت اٹکا رہے گا۔ کیونکہ اس کی روایت صحیح بخاری میں درج ہو کر صحیح کے درجے پر فائز ہوگئی۔ یہی موقف میں بار بار پیش کررہا تھا کہ صحیح بخاری کا مقام اپنی جگہ لیکن اگر کوئی حدیث قرآن کے خلاف ہو تو چاہے صحیح بخاری میں ہی کیوں کہ ہو اسے قرآن پر پرکھا جائے گا نہ کہ اس کے مطابق قرآن کی تشریح کی جائے گی۔آپ نے اسی لئے اسے صحیح تسلیم کرلیا کہ آپ کے نزدیک صحیح بخاری میں کوئی ضعیف حدیث ہو ہی نہیں سکتی۔ جبکہ میرے نزدیک قرآن پر پرکھنا تو بہت بعد میں آتا اندرونی شواہد ہی اسے مشکوک بنا رہے ہیں کہ حضرت علی کا زندیقوں کو زندہ جلادینا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان آگ کے عذاب سے لاعلم ہونا۔ اور پھر حدیث کے عمومی الفاظ جو سب سے فصیح العرب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کئے جارہیں کہ جو کوئی اپنا دین بدل دے۔ اس فقرے میں تو مسلمان اور اسلام کے ساتھ ہر شخص اور مذہب آگیا۔

آپکو غلط فہمی ہے کہ میں صحیح بخاری یا کسی حدیث کے مجموعے کو "صحیح" قرار دے رہی ہوں۔ نہیں، میرا اعتراض جناب ابوہریرہ کی اسرائیلیات پر بھی ہے، اور عکرمہ کے حوالے سے بھی میرا یہ ہی نظریہ ہے کہ وہ بغض رکھتا تھا اور جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ میں تو اس روایت پر دونوں طرح سے جرح کرتی ہوں، سند کے اعتبار سے بھی اور حالات کے حوالے سے بھی (جیسا کہ اوپر میں نے بیان کیا ہے)۔ نیز مرتد والی روایت فقط عکرمہ سے مروی نہیں بلکہ ابن مسعود سے بھی مروی ہے اور دیگر روایات بھی پیش کی جاتی ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ آپ نے انکا تذکرہ کیوں نہیں کیا؟ (مثلا یہ لنک)

میں اسکی تو قائل ہوں کہ حدیث پر جرح کی جائے، اسکے سٹینڈرڈز بہتر بنائے جائیں ۔۔۔۔۔ مگر میں اسکے ساتھ اسکی بھی قائل ہوں کہ حدیث کو نکال کر ہر کسی کو قران کے آیات کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، وگرنہ نتیجہ خوارج جیسا نکلے گا جہاں وہ قرآن کو بھی اور حدیث کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوں گے۔ یہ لوگ شتر بے مہار ہیں، کوئی قاعدہ قانون نہیں اور جو فتنے اس سے پیدا ہوئے ہیں، انکی تفصیل پچھلے مراسلے میں میں لکھ چکی ہوں۔
 
آخری تدوین:
اگر صرف سوچ بچار کرنے سے اور عقلی گھوڑے دوڑانے سےمعرفتِ الٰہیہ حاصل ہوسکتی تو پھر اللہ کو انبیاء و مرسلین کو مبعوث کرنے اور ان پر اپنا کلام نازل فرمانے کی کیا ضرورت تھی؟
یار لوگ جن نکات کی بنیاد پر قرآن کی من مانی تشریح کر رہے ہیں، انہی نکات کی بنیاد پر انکی اپنی تشریح و تفسیر کا شیش محل منہدم ہوجائے تو پھر ان نکات کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟
معرفت الٰہیہ بغیر سوچے سمجھی اندھی تقلید سے بھی حاصل نہیں ہوتی۔ اگر یہ کام اتنا آسان ہوتا تو آج ہمارے مدرسوں میں پڑھنے والے لاکھوں طالب علموں میں سے ہر سال صلحاء، اولیاء اور فقہا نکل رہے ہوتے :)
میرے مراسلے میں ایسا کچھ نہین ہے جس سے وہ نتیجہ برآمد کیا جائے جو آپ نے کیا۔۔۔
 

مہوش علی

لائبریرین
از رانا صاحب:
خلیفہ جس کا جانشین ہوتا ہے اسکے ضابطہ اخلاق اور شریعت کو جاری کرتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ شریعت انسان کے لئے ہی ہے اس لئے وہ اسے انسانوں پر ہی نافذ کرے گا۔ انسان زمین پر موجود تھے۔ اللہ تعالیٰ نے شریعت ان میں نازل کرنی تھی۔ تو کسی کو تو اپنی نبوت کے لئے منتخب کرنا ہی تھا کہ جس کو شریعت وحی کرتا۔ تو اس نے آدم کو ان میں سے منتخب کیا اور اس پر اپنی شریعت نازل کی۔

آپ نے اصل سوال کا جواب نہیں دیا اور 2 چیزوں (خلافت اور شریعت) کو گڈ مڈ کرنا شروع کر دیا ہے۔
میرا سوال یہ تھا کہ کہ کیا اللہ کی خلافت فقط دوسرے انسانوں پر تھی، یا پھر دیگر تمام مخلوقات پر؟ جب آپ تسلیم کر لیں گے کہ خلافت دیگر مخلوقات بشمول فرشتوں پر بھی ہے، تو پھر آپکا یہ اعتراض رفع ہو جائے گا کہ زمین پر دیگر انسان ہونے چاہیے تھے جن پر آدم کی خلافت کا ذکر ہوتا۔

نیز شریعت کی بات پر بھی آپ نے براہ راست جواب نہیں دیا۔ میرا سوال یہ تھا کہ انسان کو خلیفہ بنا کر اللہ نے زمین پر اتار دیا، مگر آپ دعوی کر رہے ہیں کہ آدم کے زمین پر آنے سے قبل ان انسانوں میں کوئی عقل و شعور ہی نہیں تھا اور وہ جانوروں کی طرح تھے، اس لیے خلیفہ ہونے کے باوجود ان پر کوئی ضابطہ اخلاق نہ تھا۔

چلئے آپ نے یہ تو تسلیم کیا کہ کوئی قاعدہ ہونا چاہئے ورنہ تو اندھیر نگری مچ جائے گی کہ جس کا دل چاہے گا اللہ کے اتارے گئے الفاظ میں سے جمع کے صیغے کو واحد اور واحد کو جمع کرتا چلا جائے گا۔ آپ کے نزدیک قاعدہ وہ احادیث ہیں جن میں حضرت آدم کا بطور پہلا انسان پیدا ہونا بیان ہے۔ کچھ کچھ اتفاق رائے تو پیدا ہو رہا ہے ہم دونوں کے درمیان یہ بھی غنیمت ہے۔

جی ہاں، مگر آپ نے پھر میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔ آپ ہم پر تو قاعدے کی شرط لگا رہے ہیں، مگر خود قرآنی مطالب نکالنے کے لیے اپنے وقت پر آپ شتر بے مہار بن رہے ہیں، کہ جب چاہا تو آدم کو جنت سے نکالتے ہوئے ذاتی نام بنا دیا، اور جب چاہا تو آدم کے ذاتی نام کو تبدیل کر کے صفاتی نام پر آ گئے۔ کیسے؟

جب چاہا تو دعوی کر دیا کہ حدیث کی روشنی میں قرآن نہیں سمجھنا، مگر جب چاہا تو حدیث تو ایک طرف رہی کشف کی روشنی میں قرآن کی تفسیر شروع کر دی؟ کیسے؟ کیا آپکو اپنے یہ ڈبل سٹینڈرڈز نظر آ رہے ہیں؟
ہم پر تو اعتراض ہے کہ جمع کے صیغے کو واحد کر لیا ۔۔۔۔ مگر جب قرآن نے واحد کا صیغہ "یا بنی آدم" استعمال کیا، تو کشف کی بنیاد پر اسے 40 آدموں کی اولاد بنا دیا۔ فالعجب!!! آپ کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ اس کشف کے بہانے کی بجائے براہ راست قرآن سے ثابت کریں کہ اس آیت میں جس آدم کو جنت سے نکالنے کا تذکرہ ہے وہ واحد نہیں بلکہ جمع تھے؟

چلیں آپ کا دل اگر نو سوپچاس سال تک حضرت نوح کو زندہ رکھنے اور تبلیغ کرانے پر ہی تسلی پاتا ہے تو آپ اپنا عقیدہ رکھنے میں آزاد ہیں جو چاہیں رکھیں۔
شکریہ۔ مگر یہاں ہم تسلی کی بات نہیں، بلکہ "دلیل" کی بات کر رہے تھے۔ کیا قرآن سے آپکے پاس کوئی دلیل ہے کہ نوح علیہ السلام کی عمر 100 سال تھی، اور نیز یہ کہ اس آیت میں 950 سال انکی عمر نہیں، بلکہ انکے پیغام کی عمر بتلائی جا رہی ہے؟
نیز کیا اللہ نے کسی اور نبی کے تعلیمات کا دورانیہ بتلایا ہے کہ وہ کب تک انکی قوم میں رہیں؟ کیا نئے نبی کی آمد کے بعد یہ تعلیمات ختم ہو گئیں، یا پھر قوم پر عذاب آنے کے بعد یہ تعلیمات ختم ہو گئیں؟ تو پھر 950 سال کے بعد کونسے نبی نے آ کر یہ تعلیمات ختم کیں؟ یا پھر 950 سال کے بعد کون سے طوفان نے آ کر یہ تعلیمات ختم کیں؟

قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے عقل بھی استعمال کرنی ضروری ہے اور عقل ہی منع کررہی ہے اسے عالمی تسلیم کرنے پر کہ جب کوئی تخصیص قرآن نے نہیں کی تو کیوں عقل سے دور ہی سوچا جائے اور ایک علاقے پر آباد لوگوں پر عذاب لانا ہو لیکن پوری زمین پر طوفان لائے بغیر اس چھوٹے سے علاقے کو سبق نہ سکھایا جاسکتا ہو اور ایسے لاینحل سوالات پیدا ہونے دئیے جائیں جن کے جواب صرف قیاس پر مبنی ہوں کہ کیا ثبوت ہے کہ نوح کی بستی کے علاوہ بھی کہیں انسان آباد تھے یعنی آدم کے بعد ہزار برس میں یہ ایک بستی یا شہر انسانوں سے بھرا تھا باقی زمین کی زمین خالی تھی۔ آپ کے نزدیک قرآن نے تخصیص نہیں کی تو ٹھیک ہے آپ بھی نہ کریں۔ بہرحال آپ اپنا عقیدہ رکھنے میں آزاد ہیں۔

قرآن آپکی اور ہماری عقل سے زیادہ عقلمند ہے۔ اگر یہ واقعہ عام نہ ہوتا، تو پھر قرآن کو ہماری عقلوں کی ضرورت نہ تھی کہ اسے "مخصوص" کرتا۔
ادھر ہماری بحث ماننے یا نا ماننے کی نہیں تھی، بلکہ اپنے دعوے پر دلیل اور ثبوت پیش کرنے کی تھی۔

باقی سورۃ الاعراف پر میں اپنے دلائل پہلے ہی پیش کر چکی ہوں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
رانا صاحب!
مجھے ڈر تھا کہ "پہاڑوں کا بادلوں کی طرح اڑنے" والا سائنسی موضوع ہماری دوسری بحث میں دب کر رہ جائے گا۔ چنانچہ ایک بار پھر آپ سے درخواست ہے کہ اس نکتے کی وضاحت فرمائیے کہ اسکا موجودہ سائنس سے کیا تعلق ہے۔


پہاڑوں کے بادلوں کی طرح حرکت کا مسئلہ

از رانا صاحب:
دیکھیں قرآن نے کہا تھا کہ پہاڑ تمہیں ساکت لگتے ہیں لیکن درحقیقت بادلوں کی طرح چل رہے ہیں۔ اب 1400 سال میں اگر کسی کو اس سے زمین کی گردش کا نکتہ نہ دکھائی دیا تو کیا اب حرام ہوگیا کہ اس سے زمین کی گردش اخذ کی جائے!!

رانا صاحب، یہ آپ نے انتہائی حیرت انگیز بات کی ہے۔ اور آپ تنہا نہیں ہیں، بلکہ آج ذاکر نائیک جیسے بے تحاشہ لوگ ہیں جو کہ یہ عجیب و غریب دعوی کر کے اسلام کو سائنس کا اعجاز قرار دے رہے ہیں اور اس دعوے کو بڑے فخر سے غیر مسلموں کے سامنے پیش کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔

یا حیرت!!!!

قرآن نے تو صاف کہا ہے کہ یہ پہاڑ جامد و ساکت ہیں۔

سورۃ الحجر:
وَالْأَرْضَ مَدَدْنَاهَا وَأَلْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ شَيْءٍ مَّوْزُونٍ ﴿١٩
ترجمہ: اور ہم نے زمین کو پھیلا دیا اور اس میں پہاڑ (میخوں کی طرح) گاڑ دیے اور اس میں ہر قسم کی چیزیں نپی تلی اگائیں۔

مگر اسکے باوجود یہ "آج" کے مجاہد سائنس کو اسلام کا تابع ظاہر کرنے کے لیے دعوی کرتے ہیں کہ قرآن کہہ رہا ہے کہ پہاڑ بادلوں کی طرح چل رہے ہیں۔ اور اپنے اس مقصد کے لیے یہ لوگ قرآن کی آیت 27:88 استعمال کرتے ہیں۔ (معذرت کے ساتھ) مگر پتا نہیں انکی عقل کہاں گھاس چرنے گئی ہوئی ہے کیونکہ یہ آیت 27:88 اور اس سے قبل کی آیت 27:87 خود یہ گواہی دے رہی ہیں کہ پہاڑ تو جامد و ساکت ہیں، مگر جب قیامت آئے گی اور صور پھونکا جائے گا تو صرف اس قیامت والے دن یہ پہاڑ بادلوں کی طرح چل رہے ہوں گے۔

سورۃ النمل:
وَيَوْمَ يُنفَخُ فِي الصُّورِ فَفَزِعَ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَمَن فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَن شَاءَ اللَّ۔هُ ۚ وَكُلٌّ أَتَوْهُ دَاخِرِينَ ﴿٨٧﴾وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَهِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ ۚ صُنْعَ اللَّ۔هِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ ۚ إِنَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَفْعَلُونَ ﴿٨٨
ترجمہ:
اور کیا گزرے گی اس روز جب کہ صُور پھونکا جائے گا اور ہَول کھا جائیں گے وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، سوائے اُن لوگوں کے جنہیں اللہ اس ہَول سے بچانا چاہے گا، اور سب کان دبائے اس کے حضور حاضر ہو جائیں گے۔ آج تو پہاڑوں کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خوب جمے ہوئے ہیں، مگر اُس وقت یہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہوں گے، یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہو گا جس نے ہر چیز کو حکمت کے ساتھ استوار کیا ہے وہ خوب جانتا ہے کہ تم لوگ کیا کرتے ہو۔

اس طرز عمل پر انتہائی انتہائی تعجب ہے کہ یہ قرآنی آیت تو بذات خود پہاڑ کو خوب جما ہو جامد و ساکت بیان کر رہی ہیں، اور فقط قیامت کے روز انکا بادلوں کی طرح اڑنا بیان کر رہی ہیں، مگر احمدی حضرات، اور ذاکر نائیک کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے اسلامی مجاہد، جو اسلام کے دفاع کے نام پر اسے سائنس کا کرشمہ قرار دے رے ہیں، وہ بند آنکھوں سے اس آیت کے سیاق و سباق کو نظر انداز کر کے الٹا اس سے زمین کی گردش ثابت کر رہے ہیں۔ فالعجب۔
 

رانا

محفلین
بھائی یہیں پڑھا ہے ۔ میں نے تو اس بات کو سمجھنے کے لئے سوال کیا تھا
خالد بھائی اس بات کا تذکرہ مہوش بہنا نے اس دھاگے کے سب سے پہلے مراسلے میں کیا تھا۔ اور پھر اس مراسلے میں سعودی مفتیان کے حوالے سے مزید وضاحت دی تھی۔ وہاں 30 گز کا ذکر تھا جو نوے فٹ بنتے ہیں۔
 

الشفاء

لائبریرین
زیادہ تفصیل میں جائے بغیر (کم از کم فی الحال) میری رائے یہ ہے کہ یہ طعن اسلام یا حدیث پر ہونے کی بجائے اعتراض کا رخ اس کو بیان کرنے والی شخصیت "جناب ابوہریرہ" کی طرف ہونا چاہیے۔
نہیں، میں نے تو جناب ابوہریرہ اور اسلام کے مابین انصاف کی بات کی ہے۔
یہ روایات اگر جناب ابوہریرہ کی جگہ کسی اور نے بیان کی ہوتیں جس پر یہ اسرائیلیات اور کعب بن الاحبار کا الزام نہ ہوتا۔۔۔ یا پھر بہت سے اشخاص سے یہ مروی ہوتیں، تو پھر اسکا طعن اسلام کی طرف آتا۔ مگر موجودہ صورتحال مختلف ہے، اور اس صورت میں حدیث سسٹم کا انکار کر کے منکر حدیث نہیں بننا ہے، بلکہ حدیث سسٹم کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور اس سٹینڈرڈ کو تسلیم کرنا ہے جس کی طرف پہلے سے اشارہ موجود ہے کہ جناب ابوہریرہ کعب بن الاحبار سے اسرائیلیات روایت کرتے تھے۔

حضرت ابو سعید خددری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عبرت نشان ہے کہ

لا تسُبّو اصحابی ، فوالذی نفسی بیدہ لو انّ احدکم انفق مثل اُحُد ذھبا ما ادرک مُدّ احدہم ولا نصیفہ۔ (صحیح بخاری و مسلم و ترمذی)
میرے صحابہ کو برا مت کہو ، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو ان (صحابہ) کے ایک سیر بلکہ آدھے سیر کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔۔۔

ترمذی شریف میں ارشاد ہوتا ہے کہ
"اللہ اللہ فی اصحابی‘ اللہ اللہ فی اصحابی‘ لاتتخذوہم غرضاً بعدی‘ فمن احبہم فبحبی احبہم ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم‘ ومن آذاہم فقد آذانی‘ ومن آذانی فقد آذی اللہ ومن آذی اللہ فیوشک ان یاخذہ“۔ (ترمذی)
"اللہ سے ڈرو‘ اللہ سے ڈرو میرے صحابہ کے معاملہ میں‘ مکرر کہتا ہوں اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو میرے صحابہ کے معاملہ میں‘ ان کو میرے بعد ہدفِ تنقید نہ بنانا‘ کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی بنا پر اور جس نے ان سے بدظنی کی تو مجھ سے بدظنی کی بناپر‘ جس نے ان کو ایذادی اس نے مجھے ایذادی اور جس نے مجھے ایذادی اس نے اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ اسے پکڑلے“۔۔۔
 
روزمرہ عقل یعنی فکر و نظرسے قرآن کی "تفسیر" کرنے والوں کو پچھلی صدی میں نیچری کا خطاب دیا گیا تھا جن میں کافی بڑے بڑے نام بھی آتے ہیں۔۔۔مسئلہ یہ ہے کہ یہ حضرات جس حیرت سے بچنے کیلئے قرآن کی دوراز کار تاویلیں کرتے ہیں، وہ حیرت پھر بھی ختم نہیں ہوتی اور پھر کس نہ کسی دیگر صورت میں آموجود ہوتی ہے۔۔۔بات یہی ہے کہ فکر و نظر کی ایک مخصوص حد ہے اور ماورائے فلسفہ و ماورائے طبیعات امور کو سمجھنے کیلئے جو بصیرت درکار ہے وہ کسبی نہیں بلکہ وہبی ہے ۔۔۔۔۔
 

رانا

محفلین
میں اپنی طرف سے بحث ختم کرچکا ہوں۔ اب آپ اپنے طور پر دھاگے کو جاری رکھیں کہ مجھے بحث میں کُودنے کی دعوت دیں گی تو آپ کو پھر کہنا پڑے گا کہ اب آپ سے میں کیا بحث کروں۔
رانا صاحب!
مجھے ڈر تھا کہ "پہاڑوں کا بادلوں کی طرح اڑنے" والا سائنسی موضوع ہماری دوسری بحث میں دب کر رہ جائے گا۔ چنانچہ ایک بار پھر آپ سے درخواست ہے کہ اس نکتے کی وضاحت فرمائیے کہ اسکا موجودہ سائنس سے کیا تعلق ہے۔

آپ کو اس کا دوبارہ ذکر کرنا نہیں چاہئے تھا کیونکہ اس پر تو آپ نے کہا تھا کہ ہماری عقل نہ جانے کہاں گھاس چرنے چلی گئی ہے۔ تو جب آپ کے نزدیک یہ ایسی ہی بعید از قیاس اور احمقانہ تشریح ہے تو پھر دوبارہ اس پر بحث کی دعوت دینے کے کیا معنی ہوئے۔ جبکہ اس بات کا ذکرمیں نے خود ہی چھوڑ دیا تھا۔ کہ جب ہم اصل موضوع جو انسانی پیدائش کے متعلق ہے اس کی آیات کی تشریح پر متفق نہ ہوسکے تو اس دوسرے موضوع کو چھیڑنے سے کیا فائدہ کہ بحث در بحث ہو کر دھاگے کا ستیاناس ہوجائے گا۔ بہرحال مختصر بیان کردیتا ہوں۔

آپ نے سورہ الحجر کی یہ آیت پیش کی :
ترجمہ: اور ہم نے زمین کو پھیلا دیا اور اس میں پہاڑ (میخوں کی طرح) گاڑ دیے اور اس میں ہر قسم کی چیزیں نپی تلی اگائیں۔

اس سے آپ نے استنباط کیا کہ قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ پہاڑ ساکت و جامد ہیں۔ جبکہ یہاں تو ایسا کوئی ذکر ہی نہیں۔ آیت تو پہاڑوں کا زمین میں مضبوطی سے میخوں کی طرح گڑنا بیان کررہی ہے۔ ساکت و جامد کا مفہوم کہاں سے لئے آپ نے؟ دیکھیں اگر کسی عمارت کے متعلق کہا جائے کہ وہ زمین میں مضبوطی سے میخ کی طرح گڑی ہوئی ہے تو کیا اس سے یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ وہ ساکت و جامد ہے یا یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ اس کی بنیادیں بہت مضبوط ہیں آسانی سے ہلنے والی نہیں۔ کبھی نہیں سُنا کہ اس طرح کی بات کسی نے اس مقصد کے لئے کی ہو یا اس کا یہ مطلب ہی لیا ہو۔ جو مطلب لیا جاتا ہے اور جو کچھ سمجھانے کے لئے اس طرح کی بات کی جاتی ہے اس پر غور کریں تو پہاڑوں کی مضبوطی کا ذکر کیا جارہا ہے۔ کیوں کہ بظاہر دیکھنے سے وہ سطح زمین پر سے اٹھے ہوئے نظر آتے ہیں اور جو عمارت سطح زمین سے اٹھائی جائے سامنے کی بات ہے کہ وہ مضبوط نہیں ہوسکتی۔ اسی طرف اس آیت میں اشارہ ہے ہم نے پہاڑوں کو زمین میں مضبوطی سے گاڑ دیا ہے اور آج سائنس کے مطابق واقعی پہاڑ زمین میں کافی اندر تک مضبوطی سے گڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس طرح کی بات کوئی انجینیر اپنی بنائی ہوئی کسی عمارت کے متعلق کہے تو اس کے سامنے ذرا یہ استنباط کیجئے گا کہ اسکا مطلب آپکی عمارت ساکت و جامد ہے اور پھر اس کا رد عمل دیکھئے گا۔

سورہ نمل کی جس آیت سے میں نے دلیل پکڑی تھی اس کا آپ نے جو ترجمہ پیش کیا ہے اس میں پہاڑوں کے اس بادلوں کی طرح اڑنے کو قیامت پر منطبق کیا ہے۔ اور اس کی دلیل یہ دی ہے کہ مضمون میں قیامت کا ذکر چل رہا ہے۔ میں نے کچھ دوسرے تراجم دیکھے ہیں ان میں بھی یہی ترجمہ کیا گیا ہے۔ اسکی وجہ مجھے تو یہی لگتی ہے کہ شائد ترجمہ کرنے والوں کو پہاڑوں کے اڑنے کی سمجھ نہ آسکی اور قیامت پر منطبق کرکے بات سمجھ آرہی تھی اس لئے قیامت پر منطبق کردیا گیا۔

اب ایک ترجمہ میں پیش کرتا ہوں آپ کو ہمارے اس ترجمے سے اتفاق ظاہر ہے نہیں ہوگا لیکن آپ کو اس ترجمے سے اتفاق نہ بھی ہو تو یہ ذہن میں رہے کہ یہ ترجمہ عربی کے لحاظ سے بالکل درست ہے۔

وَ تَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّ هِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ١ؕ صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِيْۤ اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ١ؕ اِنَّهٗ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَفْعَلُوْنَ۰۰۸۸
’’اور تُو پہاڑوں کو دیکھتا ہے اس حال میں کہ انہیں ساکن و جامد گمان کرتا ہے حالانکہ وہ بادلوں کی طرح چل رہے ہیں۔ (یہ) اللہ کی صنعت ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ یقینا وہ اُس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔‘‘

یہاں جس لفظ کو میں نے سُرخ رنگ دیا ہے۔ اس پر غور کریں۔ میرے نزدیک یہ وہ نکتہ ہے جو اسے قیامت پر چسپاں کرنے سے باز رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پہاڑوں کے متعلق اپنی کاریگری کی تعریف کررہا ہے کہ تمہیں وہ ساکت و جامد نظر آتے ہیں حالانکہ وہ بادلوں کی طرح چل رہے ہیں۔ یہ اللہ کی صنعت ہے۔ اپنی صنعت کی تعریف کیا اس لئے کی جارہی ہے کہ دیکھو میری صنعت جسے میں قیامت کو تباہ کردوں گا؟ کبھی اپنی تخلیق کی اس رنگ میں تعریف کرتے تو نہیں دیکھا کہ اتنی زبردست تخلیق ہے جسے بعد میں تباہ کردونگا ہوں۔ یہاں یہ لفظ ہی بتا رہا ہے کہ اس کاریگری کو دیکھو کہ تمہیں پہاڑ ساکت و جامد نظر آتے ہیں جو اپنی جگہ سے ہلائے بھی نہیں جاسکتے لیکن وہ بادلوں کی طرح چل بھی رہے ہیں تو یہ کیا ہی قابل دید کاریگری ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ ساتھ ہی ان کی مضبوطی کا ذکر کررہا ہے۔ جس چیز کو تباہ کرنے کی اللہ بات کررہا ہوں اس کے متعلق یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ یہ میری صنعت ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ جبکہ یہاں اس کے تباہ ہونے کا ذکر کیا جارہا ہے۔ لیکن اگر اس سے دوسری مراد لی جائے تو بات سمجھ بھی آتی ہے اور کوئی جھول باقی نہیں رہتا کہ دیکھو پہاڑ بظاہر ساکن لگتے ہیں لیکن بادلوں کی طرح حرکت میں ہیں یہ خدا کی صنعت ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ اگر یہ بات سمجھنا مشکل لگے توخلا سے زمین کی حرکت کا مشاہدہ تصور کیجئے گا اور دیکھئے گا کہ کیا زمین اپنی حرکت کے ساتھ پہاڑوں کو بادلوں کی طرح لئے جارہی ہے یا نہیں۔

ذاکر نائک صاحب کا ترجمہ تو آپ دیکھ ہی چکی ہوں گی مجھے علم نہیں تھا کہ وہ بھی یہی بات کہتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

مہوش علی

لائبریرین
حضرت ابو سعید خددری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سرکار دو عالم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عبرت نشان ہے کہ

لا تسُبّو اصحابی ، فوالذی نفسی بیدہ لو انّ احدکم انفق مثل اُحُد ذھبا ما ادرک مُدّ احدہم ولا نصیفہ۔ (صحیح بخاری و مسلم و ترمذی)
میرے صحابہ کو برا مت کہو ، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو ان (صحابہ) کے ایک سیر بلکہ آدھے سیر کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔۔۔

ترمذی شریف میں ارشاد ہوتا ہے کہ
"اللہ اللہ فی اصحابی‘ اللہ اللہ فی اصحابی‘ لاتتخذوہم غرضاً بعدی‘ فمن احبہم فبحبی احبہم ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم‘ ومن آذاہم فقد آذانی‘ ومن آذانی فقد آذی اللہ ومن آذی اللہ فیوشک ان یاخذہ“۔ (ترمذی)
"اللہ سے ڈرو‘ اللہ سے ڈرو میرے صحابہ کے معاملہ میں‘ مکرر کہتا ہوں اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو میرے صحابہ کے معاملہ میں‘ ان کو میرے بعد ہدفِ تنقید نہ بنانا‘ کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی بنا پر اور جس نے ان سے بدظنی کی تو مجھ سے بدظنی کی بناپر‘ جس نے ان کو ایذادی اس نے مجھے ایذادی اور جس نے مجھے ایذادی اس نے اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ اسے پکڑلے“۔۔۔

شکریہ۔
میرا مقصود کسی کا دل دکھانا نہیں ہے۔ مگر یہ میں نہیں ہوں جس نے جناب ابوہریرہ پر یہ اعتراض اٹھایا ہے، بلکہ یہ اعتراض صدیوں قبل سے اٹھتا چلا آ رہا ہے۔
"علم" آ جانے کے بعد سوچنے سمجھنے کے زاویوں میں تبدیلی ہو جاتی ہے۔ اگر تبدیلی نہ بھی ہو تب بھی انسان دوسرے کے مؤقف کو بہتر طور پر سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اگر آپ کو اس بحث میں حصہ لینا ہے تو پھر آپ کو تھوڑی تکلیف اٹھا کر ایک مرتبہ جناب ابوہریرہ پر ہونے والے ان اعتراضات کو پڑھنا ہو گا تاکہ آپ فریق مخالف کا مؤقف سمجھ سکیں اور پھر اگر آپ کو اختلاف ہے تو دلیل سے اسے جواب دے سکیں۔
 

رانا

محفلین
نیز مرتد والی روایت فقط عکرمہ سے مروی نہیں بلکہ ابن مسعود سے بھی مروی ہے اور دیگر روایات بھی پیش کی جاتی ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ آپ نے انکا تذکرہ کیوں نہیں کیا؟ (مثلا یہ لنک)
اس لئے انکا تذکرہ نہیں کیا کہ یہاں مرتد کی سزا پر بحث نہیں ہورہی تھی۔ میں نے جو ایک سطر میں اس عکرمہ والی حدیث کا ذکر کیا تھا تو مقصد مرتد کی سزا نہیں بلکہ یہ ظاہر کرنا تھا کہ صحیح بخاری کی اکثر احادیث تو صحیح ہیں لیکن یہ کہنا کہ ہر حدیث صحیح ہے یہ غلط ہے۔ تفصیل تو بعد میں اگلے مراسلے میں اس وجہ سے دی کہ مجھے حیرت ہوئی آپ اس حدیث کو صحیح کیسے سمجھ رہی ہیں۔ دیگر روایات کا تذکرہ میں اسی لئے نہیں کیا کہ یہ موضوع بحث ہی نہیں تھا۔ اس روایت کو بطور خاص اس لئے میں نے چنا کہ جہاں جہاں یہ حدیث ملتی ہے صرف عکرمہ سے مروی تھی۔ یہ حدیث عکرمہ کے علاوہ کہیں بھی کسی اور سے مروی نہیں ملتی۔ دوسرا اس حدیث کی اندرونی شہادت ہی اسے غلط ثابت کررہی تھی۔
 

ابن رضا

لائبریرین
نارنگی سے سیب کا موازنہ بعیداز عقل عمل ہے۔ سائنس والے اپنی دنیا میں خوش رہیں اور مذہب والے اپنی دنیا میں میں۔واللہ اعلم۔

خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَىٰ أَبْصَارِ‌هِمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْ‌ضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ ﴿١١﴾ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَ۔ٰكِن لَّا يَشْعُرُ‌ونَ
 

مہوش علی

لائبریرین
سورہ نمل کی جس آیت سے میں نے دلیل پکڑی تھی اس کا آپ نے جو ترجمہ پیش کیا ہے اس میں پہاڑوں کے اس بادلوں کی طرح اڑنے کو قیامت پر منطبق کیا ہے۔ اور اس کی دلیل یہ دی ہے کہ مضمون میں قیامت کا ذکر چل رہا ہے۔ میں نے کچھ دوسرے تراجم دیکھے ہیں ان میں بھی یہی ترجمہ کیا گیا ہے۔ اسکی وجہ مجھے تو یہی لگتی ہے کہ شائد ترجمہ کرنے والوں کو پہاڑوں کے اڑنے کی سمجھ نہ آسکی اور قیامت پر منطبق کرکے بات سمجھ آرہی تھی اس لئے قیامت پر منطبق کردیا گیا۔
اب ایک ترجمہ میں پیش کرتا ہوں آپ کو ہمارے اس ترجمے سے اتفاق ظاہر ہے نہیں ہوگا لیکن آپ کو اس ترجمے سے اتفاق نہ بھی ہو تو یہ ذہن میں رہے کہ یہ ترجمہ عربی کے لحاظ سے بالکل درست ہے۔
وَ تَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّ هِيَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ١ؕ صُنْعَ اللّٰهِ الَّذِيْۤ اَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ١ؕ اِنَّهٗ خَبِيْرٌۢ بِمَا تَفْعَلُوْنَ۰۰۸۸
’’اور تُو پہاڑوں کو دیکھتا ہے اس حال میں کہ انہیں ساکن و جامد گمان کرتا ہے حالانکہ وہ بادلوں کی طرح چل رہے ہیں۔ (یہ) اللہ کی صنعت ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ یقینا وہ اُس سے جو تم کرتے ہو ہمیشہ باخبر رہتا ہے۔‘‘
یہاں جس لفظ کو میں نے سُرخ رنگ دیا ہے۔ اس پر غور کریں۔ میرے نزدیک یہ وہ نکتہ ہے جو اسے قیامت پر چسپاں کرنے سے باز رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ پہاڑوں کے متعلق اپنی کاریگری کی تعریف کررہا ہے کہ تمہیں وہ ساکت و جامد نظر آتے ہیں حالانکہ وہ بادلوں کی طرح چل رہے ہیں۔ یہ اللہ کی صنعت ہے۔ اپنی صنعت کی تعریف کیا اس لئے کی جارہی ہے کہ دیکھو میری صنعت جسے میں قیامت کو تباہ کردوں گا؟ کبھی اپنی تخلیق کی اس رنگ میں تعریف کرتے تو نہیں دیکھا کہ اتنی زبردست تخلیق ہے جسے بعد میں تباہ کردونگا ہوں۔ یہاں یہ لفظ ہی بتا رہا ہے کہ اس کاریگری کو دیکھو کہ تمہیں پہاڑ ساکت و جامد نظر آتے ہیں جو اپنی جگہ سے ہلائے بھی نہیں جاسکتے لیکن وہ بادلوں کی طرح چل بھی رہے ہیں تو یہ کیا ہی قابل دید کاریگری ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ ساتھ ہی ان کی مضبوطی کا ذکر کررہا ہے۔ جس چیز کو تباہ کرنے کی اللہ بات کررہا ہوں اس کے متعلق یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ یہ میری صنعت ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔ جبکہ یہاں اس کے تباہ ہونے کا ذکر کیا جارہا ہے۔ لیکن اگر اس سے دوسری مراد لی جائے تو بات سمجھ بھی آتی ہے اور کوئی جھول باقی نہیں رہتا کہ دیکھو پہاڑ بظاہر ساکن لگتے ہیں لیکن بادلوں کی طرح حرکت میں ہیں یہ خدا کی صنعت ہے جس نے ہر چیز کو مضبوط بنایا۔
ذاکر نائک صاحب کا ترجمہ تو آپ دیکھ ہی چکی ہوں گی مجھے علم نہیں تھا کہ وہ بھی یہی بات کہتے ہیں۔
یہ شاہ رفیع الدین رحمۃ اللہ علیہ کا ترجمہ ہے۔
’’ اور دیکھے گا تُو پہاڑوں کو، گمان کرتا ہے تُو ان کو جمے ہوئے اور وہ چلے جاتے ہیں مانند گزرنے بادلوں کے۔ کاریگری اللہ کی جس نے محکم کیا ہر چیز کو تحقیق وہ خبردار ہے ساتھ اس چیز کے کہ کرتے ہو۔‘‘

بہت شکریہ رانا بھائی صاحب کہ آپ نے اس آیت کے متعلق اپنا نظریہ بمع دلیل پیش فرمایا۔

میں بھی ذیل میں اپنا نظریہ بمع دلیل پیش کر رہی ہوں۔ پیشگی معذرت، کیونکہ میرا نظریہ اس معاملہ میں ہارڈ باتوں پر مشتمل ہے۔ امید ہے کہ آپ پرسنل نہیں لیں گے۔

پہاڑوں کا بادلوں کی طرح اڑنا اور قرآن کے ترجمہ و تفسیر میں بددیانتی کی مثال

رانا صاحب! پہلا مسئلہ مجھے یہ لگ رہا ہے کہ جسے آپ اپنا "ذاتی ترجمہ و تفسیر" بتلا رہے ہیں، وہ آپکا ذاتی ترجمہ نہیں، بلکہ یہ "آفیشل" ترجمہ و تفسیر ہے۔
احمدی حضرات کی ویب سائیٹ پر اس قرآنی آیت کا ترجمہ و تفسیر یہاں موجود ہے (لنک)۔ وہاں سے سورۃ نمل کی آیت 89 کا ترجمہ و تفسیر پیشِ خدمت ہے۔

ترجمہ:اور تو پہاڑوں کو اس صورت میں دیکھتا ہے کہ وہ اپنی جگہ ٹہرے ہوئے ہیں حالانکہ وہ بادلوں (تفسیری حاشیہ) کی طرح چل رہے ہیں۔
اور تفسیر حاشیہ میں اسکی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے: "اس (پہاڑوں کے بادلوں کی طرح چلنے) میں زمین کے چلنے کا ذکر ہے برخلاف پرانے جغرافیہ نویسوں کے جو سورج کو چلتا بتاتے ہیں اور زمین کو ساکن"۔

بددیانتی یہ ہے کہ اس آیت کا من پسندیدہ ترجمہ کرنے کے لیے اسے سیاق و سباق سے نکال لیا گیا ہے۔ جبکہ اس آیت کا سیاق و سباق قیامت کے روز کے متعلق ہے، کہ روزِ قیامت یہ پہاڑ جو جامد و ساکت ہیں، وہ بادلوں کی طرح چلتے ہوں گے۔

ذیل میں اس آیت کے ترجمے کو بمع سیاق و سیاق پیش کیا جا رہا ہے تاکہ سب چیزیں واضح ہو سکیں۔

ترجمہ سورۃ النمل، آیت 87 تا 90 :
۔۔۔اور کیا گزرے گی اس روز جب کہ صُور پھونکا جائے گا اور ہَول کھا جائیں گے وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، سوائے اُن لوگوں کے جنہیں اللہ اس ہَول سے بچانا چاہے گا، اور سب کان دبائے اس کے حضور حاضر ہو جائیں گے۔ آج تو پہاڑوں کو دیکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ جامد ہیں (قرآن نے لفظ "جَامِدَةً " استعمال کیا ہے)، مگر اُس وقت یہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہوں گے، یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہو گا جس نے ہر چیز کو حکمت کے ساتھ استوار کیا ہے وہ خوب جانتا ہے کہ تم لوگ کیا کرتے ہو۔ جو شخص بھلائی لے کر آئیگا اسے اُس سے زیادہ بہتر صلہ ملے گا اور ایسے لوگ اُس دن کے ہَول سے محفوظ ہوں گے۔ اور جو بُرائی لیے ہوئے آئے گا، ایسے سب لوگ اوندھے منہ آگ میں پھینکے جائیں گے کیا تم لوگ اس کے سوا کوئی اور جزا پا سکتے ہو کہ جیسا کرو ویسا بھرو؟

(نوٹ: آیت 87 سے قبل کی آیات میں بھی قیامت کا ذکر ہے ۔۔۔ اور آیت 90 کے بعد بھی قیامت کا ذکر ہی چل رہا ہے)

اس عجیب دعوے پر ایسلام مخالفین اسلام کا مذاق اڑاتے ہوئے پوچھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ کیا تُک ہوئی کہ صرف پہاڑ بادلوں کی طرح اڑتے ہیں اور زمین نہیں؟ قرآن تو صاف صاف مسلمانوں کو بتلا رہا ہے کہ آج حال میں تم سمجھتے ہو کہ پہاڑ جامد ہیں، تو پھر مسلمانوں نے یکایک اس آیت سے زمین کی حرکت کرنے کا دعوی کہاں سے کر دیا؟

جہاں تک میرا تعلق ہے تو میرے خیال میں سیاق و سباق کے بعد چیز اتنی واضح ہے کہ مجھے نہیں لگتا کہ کسی اور چیز کو بیان کرنے کی ضرورت باقی ہے، اور میری نصیحت تو یہ ہی ہوگی کہ اس قسم کی حرکتوں سے باز رہا جائے جو الٹا نقصان پہنچائیں۔

ماڈرن سائنس کے سوالات کے جوابات دینے میں آجکل اسلام کے جہادی حضرات (ذاکر نائیک جیسے حضرات جو دیگر مذاہب پر طعن کرتے ہیں) اور احمدی حضرات کی کمیونٹی میں خاصا یارانہ نظر آتا ہے۔ماشاء اللہ۔ شاید یہ اچھی بات ہو۔ دونوں ہی آج ایک ہی طرح قرآنی آیات کےمفہوم و مطالب نکال کر دعوے کر رہے ہوتے ہیں کہ قرآن نے سائنسی گتھیاں صدیوں پہلے سلجھا دی تھیں۔ مگر افسوس کہ انکے یہ کھینچ تان کر نکالے گئے مفہوم پچھلے 1400 سال میں آنے والے قرآنی مفسرین کے بالکل خلاف ہے۔ انہیں بھی علم ہے کہ یہ سیاق و سباق سے آیت کو جدا کر کے قرآن کے غلط تراجم کر رہے ہیں، اور پھر غلط تراجم کی بنیاد پر اپنی پسند کے من مانے معنی نکال رہے ہیں اور یہ ایک افسوسناک بات ہے کہ مذہب کے نام پر انسان اتنا اندھا، اور اتنا ہٹ دھرم ہو جائے۔

یہ بددیانتی ہرگز درست طرز عمل نہیں۔اسی وجہ سے قرآن کے ساتھ نازل ہونے والی احادیث انکے آج کے اس کیے جانے والے "نئے ترجمہ" اور نکالے جانے والے نئے "مفہوم و تفسیر" سے دور دور تک نہیں ملتیں۔ چنانچہ قرآن سے ٹکرانے کے نام پر یہ احادیث کو مکمل طور پر ٹھکرا چکے ہیں اور آج باقی حدیث کا نام لینا فقط دکھاوا ہے اور یہ صرف وہی حدیث لیتے ہیں جسے اپنے نکالے گئے مفہوم کے لیے استعمال کر سکیں۔

میں ہر ایک کی رائے کا میں احترام کر سکتی ہوں، مگر جان بوجھ کر کی گئی بددیانتی "ناانصافی" کے زمرے میں آتی ہے۔ افسوس کہ آج مسلمان جہادیوں کی طرف سے ایسی بددیانتی دیکھنے کو عموماً مل رہی ہے۔

میں نے "بددیانتی" جیسا سخت الفاظ استعمال کیا ہے، اس کے لیے پیشگی معذرت، مگر اس صورتحال کو انصاف کے ساتھ بیان کرنے کے لیے میرے پاس اور کوئی لفظ موجود نہیں تھا۔
 
آخری تدوین:

مہوش علی

لائبریرین
اس لئے انکا تذکرہ نہیں کیا کہ یہاں مرتد کی سزا پر بحث نہیں ہورہی تھی۔ میں نے جو ایک سطر میں اس عکرمہ والی حدیث کا ذکر کیا تھا تو مقصد مرتد کی سزا نہیں بلکہ یہ ظاہر کرنا تھا کہ صحیح بخاری کی اکثر احادیث تو صحیح ہیں لیکن یہ کہنا کہ ہر حدیث صحیح ہے یہ غلط ہے۔ تفصیل تو بعد میں اگلے مراسلے میں اس وجہ سے دی کہ مجھے حیرت ہوئی آپ اس حدیث کو صحیح کیسے سمجھ رہی ہیں۔ دیگر روایات کا تذکرہ میں اسی لئے نہیں کیا کہ یہ موضوع بحث ہی نہیں تھا۔ اس روایت کو بطور خاص اس لئے میں نے چنا کہ جہاں جہاں یہ حدیث ملتی ہے صرف عکرمہ سے مروی تھی۔ یہ حدیث عکرمہ کے علاوہ کہیں بھی کسی اور سے مروی نہیں ملتی۔ دوسرا اس حدیث کی اندرونی شہادت ہی اسے غلط ثابت کررہی تھی۔

اگر آپ کے پاس ان تمام روایات کا تنقیدی جائزہ و جواب موجود ہے تو مجھے دلچسپی ہو گی کہ آپ حضرات کا مؤقف تفصیل سے اس مسئلے میں پڑھوں۔
 

arifkarim

معطل
میرے مراسلے میں ایسا کچھ نہین ہے جس سے وہ نتیجہ برآمد کیا جائے جو آپ نے کیا۔۔۔
میرا اوپر مطلب یہ تھا کہ معرفت الٰہیہ کے حصول کیلئے انسان کا پہلے سے عاقل اور دانا ہونا ضروری ہے۔ وحی یا الہام کے ذریعہ انسان کو جو معرفت ملتی ہے وہ جاہلین کو نہیں مل سکتی۔ یاد رہے کہ آنحضور صل اللہ علیہ وسلم کیساتھ غار حرا میں وحی کے نزول کا پہلا واقعہ کئی سالوں کی ریاضت کے بعد ہی ہوا تھا۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

رانا

محفلین
رانا صاحب! پہلا مسئلہ مجھے یہ لگ رہا ہے کہ جسے آپ اپنا "ذاتی ترجمہ و تفسیر" بتلا رہے ہیں، وہ آپکا ذاتی ترجمہ نہیں، بلکہ یہ "آفیشل" ترجمہ و تفسیر ہے۔
احمدی حضرات کی ویب سائیٹ پر اس قرآنی آیت کا ترجمہ و تفسیر یہاں موجود ہے (لنک)۔ وہاں سے سورۃ نمل کی آیت 89 کا ترجمہ و تفسیر پیشِ خدمت ہے۔

ترجمہ:اور تو پہاڑوں کو اس صورت میں دیکھتا ہے کہ وہ اپنی جگہ ٹہرے ہوئے ہیں حالانکہ وہ بادلوں (تفسیری حاشیہ) کی طرح چل رہے ہیں۔
اور تفسیر حاشیہ میں اسکی تفسیر کرتے ہوئے لکھا ہے: "اس (پہاڑوں کے بادلوں کی طرح چلنے) میں زمین کے چلنے کا ذکر ہے برخلاف پرانے جغرافیہ نویسوں کے جو سورج کو چلتا بتاتے ہیں اور زمین کو ساکن"۔
میں نے اس پورے دھاگے میں کہیں بھی ذاتی ترجمہ پیش نہیں کیا نہ میری اتنی اوقات ہے نہ میرا عربی کا کوئی علم ہے۔ یہ ترجمہ بھی ہماری ویب سائٹ پر موجود ہے جس پر آپکی شائد نظر نہیں پڑی۔ میں نے کہا تھا کہ
اب ایک ترجمہ میں پیش کرتا ہوں آپ کو ہمارے اس ترجمے سے اتفاق ظاہر ہے نہیں ہوگا
اس صفحے پر پہلا ہی لنک دیکھیں جو یہ ہے
قرآن کریم اردو ترجمہ بمع عربی متن (یونیکوڈ ٹیکسٹ اور سرچ انجن)
 

الشفاء

لائبریرین
شکریہ۔
میرا مقصود کسی کا دل دکھانا نہیں ہے۔ مگر یہ میں نہیں ہوں جس نے جناب ابوہریرہ پر یہ اعتراض اٹھایا ہے، بلکہ یہ اعتراض صدیوں قبل سے اٹھتا چلا آ رہا ہے۔
"علم" آ جانے کے بعد سوچنے سمجھنے کے زاویوں میں تبدیلی ہو جاتی ہے۔ اگر تبدیلی نہ بھی ہو تب بھی انسان دوسرے کے مؤقف کو بہتر طور پر سمجھنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اگر آپ کو اس بحث میں حصہ لینا ہے تو پھر آپ کو تھوڑی تکلیف اٹھا کر ایک مرتبہ جناب ابوہریرہ پر ہونے والے ان اعتراضات کو پڑھنا ہو گا تاکہ آپ فریق مخالف کا مؤقف سمجھ سکیں اور پھر اگر آپ کو اختلاف ہے تو دلیل سے اسے جواب دے سکیں۔

صحابہ پر یہ اعتراض آپ کریں یا صدیوں پہلے کوئی اور، اوپر لکھے گئے فرمان رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کسی کو استثنیٰ نہیں دیا گیا۔ اور دلیل اوپر نقل کر دی گئی ہے۔ لہٰذا بقول رانا صاحب اگر آپ لوگ پانی میں مدھانی چلانا جاری رکھنا چاہتے ہیں تو ضرور جاری رکھیں لیکن اس بات کا خیال رکھیں کہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے کسی ساتھی پر زبان طعن دراز نہ ہو۔ کیونکہ تمام صحابہ کرام اور اھل بیت عظام اھل سنت والجماعت کے سروں کے تاج ہیں۔۔۔
آپ کے سمجھنے کا شکریہ۔۔۔
 
آخری تدوین:
Top