سائباں تلے جھلستی زمیں ۔۔۔۔۔ از س ن مخمور

loneliness4ever

محفلین
سائباں تلے جھلستی زمیں
از س ن مخمور

اگر مجھے زندگی اور موت پر اختیار ہوتا تو میں اپنے بھائی اور باپ کو زندگی سے محروم کر دیتی

یہ کہہ کرثمینہ نے اپنا مرجھا یا گلاب جیسا چہرہ اپنے ہاتھوں سے چھپایا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی

کاش میری ماں کی جگہ میرا باپ مر جاتا، کاش کسی نامعلوم فرد کی گولی میرے بھائی سے اس کی زندگی چھین لیتی

اس کے ہر لفظ سے غم روح چھلک رہا تھا، اس کا جوان اور خوبرو بدن رواں رواں زخمی ہو چلا تھا، اور روح تلک میں وہ زخم زہر بن کر اتر چکے تھے جن کی بدولت آج اس کے لبوں پرسے یہ باتیں اڑ کرتماش بین محلے داروں کی بے حس سماعت میں کہیں گم ہو رہی تھیں، مگر اس کو جیسے اب ان باتوں کی پرواہ نہ تھی ، وہ مجھ سے عمر میں کافی چھوٹی تھی مگر آج وہ مجھے اپنے آپ سے بہت بڑی لگ رہی تھی۔ اس کا گھر اس وقت محلے داروں سے بھرا ہوا تھا، باہر گلی میں پولیس کی گاڑی کھڑی تھی، سیاسی جماعت سے منسلک کچھ لڑکے میڈیا کے نمائندوں کو بلانے کی باتیں کر رہے تھے، مگر وہ لڑکے جو بچپن سے اس گھر اور گھر کے مکینوں سے واقف تھے آڑے آ رہے تھے، سیاسی جماعت کی علاقائی کمیٹی کے وہ لڑکے اس وقت بہت بردباری کا ثبوت دے رہے تھے، بچپن کی محلے داری اور دوستی نبھانے کا یہ ہی وقت تھا، گھر کی فضا میں ثمینہ کے رونے کی آواز گونج رہی تھی میں نے اس کو پڑھایا تھا اس لئے مجھ کو نمایاں جگہ ملی تھی ، آپا نسیمہ اس کو چپ کروا رہی تھیں مگر ہچکیوں، سسکیوں، اور رونے کا نہ تھمنے والا سلسلہ رواں تھا۔ اس کے بال کھلے ہوئے بنا دوپٹے کے شانوں پر بکھرے ہوئے تھے، آپا نسیمہ اس کو اپنی سفید چادر سے ڈھانپنے کی کوشش کی تو اس نے جیسے نوچ کر چادر اتار پھینکی

مت کرو یہ تماشے، نہیں چاہئے مجھے چادر، یہ طور طریقہ تو ان کا ہوتا ہے جن کا باپ سائبان ہوتا ہے جو خود تو جل جاتا ہے مگر اپنے تلے آگ کی تپش تک آنے نہیں دیتا، اس نے تو خود مجھے ہی جلا دیا، یہ چادر تو ان کے لئے ہوتی ہے جن کے بھائی ان کے گرد تمام عمر خار بن کر ایک محافظ کی مانند زندگی گزار دیتے ہیں، آپا وہ تو چور تھے چوری کر لیا سب کچھ انھوں نے، کاش ہر ماں کے مرنے پر اس کی بیٹی کو بھی اللہ موت دے دے مگر ایسی موت نہِیں جیسی موت اس نے مجھے دی ہے، آپا نہیں چاہئے مجھے چادر، اب کیا ملے گا اسکو اوڑھنے سے مجھکو

میرا دماغ بھک ہو گیا تھا، خالہ کا چالسواں ہوئے مہینہ ہی ہوا تھا، عمر بھر کے محافظ ایک مہینے ہی میں میر جعفر اور میر صادق بن گئے تھے، میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا، خاور نسیم کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا وہ خود اپنے ہی گھر میں نقیب لگائے گا، ایک باپ ہونے کے ناطے ہی نہیں بلکہ ایک ملنسار، شریف نظر آنے والے شخص سے کون ایسی قبیح حرکت کی امید کر سکتا تھا، نبیل بھی جان چھڑکتا تھا اپنی بہن پر مگر یہ سب ۔۔۔۔۔۔۔ میرا ذہن حال اور ماضی کے چہروں کو ملانے کی کوشش کر رہا تھا مگر میں اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا، ان دونوں کا ماضی کچھ تھا اور حال ایک بھیانک اور سیاہی میں ڈوبی حقیقت. میری آنکھیں ڈبڈبا گیں۔

امی تم مجھے بھیڑیوں کے سپرد کر کے کیوں گئی؟ مجھے اپنے ساتھ ہی لے جاتیں، ماں میرے پاس آجاو ، مجھے اپنی آغوش میں چھپا لو، ماں تم مریں تو سب مر گئے ، میرا باپ مر گیا، بھائی مر گیا، میں مر گئی تمہارا ہر اچھا مر گیا، ماں یہ گھر تمہاری جنت فنا ہو گئی، تیرے گھر کی رحمت کو من کی سیاہی نے میلا کر دیا

مجھے یوں لگا کہ در، دیوار رو رہے ہیں، غور کیا تو واقعی تمام گھر روتا نظر آیا، فرش تپ رہا تھا، فضا میں ثمینہ کی آہ و فریاد کی ہمراہی میں اب محلے کی عورتوں کی توبہ توبہ کے بجائے، ان کی سسکیوں کی آوازیں شامل ہو چکی تھیں، آسمان کا کلیجہ اس معصوم و مظلوم کی دہائیوں سے جیسے پھٹ رہا تھا، بادلوں کی گرج دل پر محسوس ہو رہی تھی، حیوانیت بھی دانتوں تلے انگلی دبائے کھڑی نظر آئی، ابلیس کانوں کو ہاتھ لگائے جا رہا تھا، انسانیت کا ہر احساس پامال ہو چلا تھا، مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے میں مجرم ہوں، ایک بھائی، ایک باپ ہونا مجھے بھی اس عدالت میں کھینچ لایا تھا، جو خاور نسیم اور نبیل کے جرم پر سجی تھی، وہ دونوں چور تھے ایسے چور جنھوں نے مال و زر سے قیمتی شے چرائی تھی اورجس کی وصولی بھی ممکن نہیں تھی، مجھے یوں لگا جیسے ثمینہ کا دکھ نیا نہیں ہے، آسمان کا کلیجہ یوں پہلے بھی پھٹا ہے، بادلوں کی گرج گزری زندگی میں کتنی ہی دفعہ دل پر محسوس ہوئی ہے، یقینا اس پل کسی اور محلے میں ، کسی اور گھر میں کوئی اور ثمینہ روئی ہو گی، مرد ہونے کا احساس پھرعدالت کے کٹہرے میں بحیثیت مجرم کھڑا ہوا ہوگا، وجود ِ زن اس پل پھرجیتے جی زندگی سے محروم رہی ہو گی، اس سوچ کے ساتھ ہی میری آنکھوں سے بھی آنسوں کی جھڑی لگ گئی۔ میں نے کانپتا ہوا ہاتھ ثمینہ کے سر پر رکھ دیا، اس نے روتے روتے میری جانب سر اٹھا کر دیکھا اور مجھے اس کی ویران آنکھوں میں ایک ہی خوف، ایک ہی طنز نظر آیا جو گلا پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہا تھا استاد صاحب تم بھی تو مرد ہو ۔۔۔

س ن مخمور
امر تنہائی​
 

قیصرانی

لائبریرین
ایک ہی بات کافی عجیب لگی ہے کہ ماں کو مرے دو ماہ کے لگ بھگ ہوئے کہ باپ اور بھائی ایسی حرکت کرنے کا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں، خاص طور پر کہ ان کا ماضی بے داغ ہے؟
 

loneliness4ever

محفلین
ایک ہی بات کافی عجیب لگی ہے کہ ماں کو مرے دو ماہ کے لگ بھگ ہوئے کہ باپ اور بھائی ایسی حرکت کرنے کا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں، خاص طور پر کہ ان کا ماضی بے داغ ہے؟

بہت ممنون ہوں جناب کا ، آپ خاکسار کی محفل میں تشریف لائے
اور بندے کو عزت بخشی

سچ عجیب کہوں یا ذہنی بیمار کہوں مگر درحقیقت کراچی کے ایک علاقے میں
ایسا ہوا ۔۔۔۔۔ اورمیں اس واقعے کے بعد دو راتیں سوتے سے جاگ پڑتا
میرے ذہن میں دن ہو یا رات یہ ہی واقعہ ، اس سے جڑے سوالات
اور اس واقعے کے نتائج ہی شور مچاتے رہے اور آخر جب ضبط تمام ہوا تو جسارت
کر بیٹھا دل کا بوجھ قرطاس کی گود میں اتار دیا۔۔۔۔ قلم کو مزید بیان کرنے
کی اجازت نہ دی کہ بے باکی کے لبادے میں اخلاق کی حد تجاوز نہ ہو جائے
مگر سچ کہوں ماں کو مرے چاہے دو ماہ ہوں یا دو سال ایسی حرکت کرنے کا جانے
لوگ کیسے سوچ لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

امید کرتا ہوں عطا کا یہ سلسلہ جناب جاری رکھیں گے اور رہنمائی فرماتے رہیں گے

دعا گو
اور دعا کا طالب

امر تنہائی
 
آخری تدوین:

loneliness4ever

محفلین
عمدہ تحریر
موضوع "بلا تبصرہ"

استاد اختصار سےکام لیکر خاکسار پر ہاتھ رکھا ہی نہیں اور سوکھے سوکھے جانے دیا

مگر سچ آپکی آمد نے رونق لگا دی
امید کرتا ہوں یہ عطا کا سلسلہ بندے پر جاری رکھیں گے
اللہ آباد و بے مثال رکھے آپکو ۔۔۔۔۔۔ آمین
 
آخری تدوین:

loneliness4ever

محفلین
loneliness4ever , ریٹنیگ نہیں دے سکتا ، نہ تبصرہ ایک کربناک حقیقت ۔ ۔ ۔ اللہ کریم ایسی سب بے سہارا ، مظلوم بچیوں کے ایمان عزت جان کی حفاظت فرما۔


مالک کائنات آپکی دعا مقبول ومنظور فرمائے ۔۔۔۔۔ آمین صد آمین

آپکی آمد ہی فقیر کے لئے حوصلہ افزا ہے ، امید ہے عطا کا یہ سلسلہ جاری رہے گا
اللہ آپکو آباد و بے مثال رکھے ۔۔۔۔۔ آمین
 

loneliness4ever

محفلین
جذبات کی شدت کی اچھی عکاسی کی گئی ہے۔ مصنف کے پاس الفاظ کی کوئی کمی نظر نہیں آئی۔
مگر کہانی کچھ غیر حقیقی سی لگی۔


لئیق بھائی
آداب، ممنون ہوں جناب کا

آہ ! کاش!!!! یہ غیر حقیقی حقیقی نہ ہوتی ۔۔۔
جو باہر کے معاشروں کا حال سنتے تھے آج یہاں بھی ہوتا دیکھ کر دل خون کے آنسو ہی روتا ہے
 

نایاب

لائبریرین
ماواں ٹھنڈیاں چھاواں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مردانہ معاشرے میں اس کی گھنی چھاؤں بچوں کے لیئے بلاتفریق عافیت کی پناہ گاہ ۔۔
ابن آدم جب خواہش نفس کا غلام بنتا ہے تو حیوان بھی اس کی حیوانیت سے کوسوں دور دکھتے ہیں ۔
معاشرے کے بیمار کرداروں کو سامنے لاتے یہ سوچنے پر مجبور کر دینے والی تحریر ۔۔۔۔
کہ اک باپ اک بھائی نے ایسا کیوں کیا ؟۔۔۔۔۔ جبکہ نفس کی گمراہی کو تسکین دینے کی ہزار راہیں موجود اس معاشرے میں ۔۔؟
بہت سی دعاؤں بھری داد
 

سلمان حمید

محفلین
معاشرے کی بے راہ روی اور گمراہی کی عکاسی کرتی ہوئی ایک چونکا دینے والی تحریر۔ ایسی خبروں سے واسطہ تو پڑتا رہتا ہے مگر اس بیتے ہوئے دردناک واقعے کے بارے میں جان لینے کے بعد رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بے شک ماں ہی بیٹی کی بہترین سہیلی اور محافظ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے پر رحم فرمائے۔ آمین
 

زرقا مفتی

محفلین
بہت افسوسناک واقعہ ہےاورآپ نے اسے ایک واقعہ کی طرح ہی بیان کیا۔ آپ کا طرزِ بیان اچھا ہے ۔ ایسے واقعات رشتوں پر اعتبار ختم کر دیتےہیں اور اعتبار ہی کیا ایمان ہی لڑکھڑانے لگتا ہے ۔
ادبی تحریر کا قاری شاید ایسے واقعہ کے پسِ پردہ نفسیاتی عوامل کو جاننے میں بھی دلچسپی رکھتا ہے اور آپ کی تحریر اس سلسلے میں خاموش ہے
 

عاطف بٹ

محفلین
سچ کہوں تو میرے پاس تبصرہ کرنے کے لئے نہ تو الفاظ ہیں اور نہ ہی حوصلہ۔ صحافت جیسے 'سفاک پیشے' سے وابستہ ہونے کے باوجود میں اس حوالے سے بہت کم ہمت واقع ہوا اور ایسے واقعات پڑھ کر ایک عجیب سی وحشت کا شکار ہوجاتا ہوں۔
صرف ایک چھوٹی سی وضاحت کرنا چاہوں گا کہ 'آڑے آنا' کا مطلب ہوتا ہے مدد کرنا، سہارا دینا وغیرہ۔ ہمارے ہاں اسے رکاوٹ بننا کے معنوں میں لیا جاتا ہے جو درست نہیں۔
 

گل بانو

محفلین
سائباں تلے جھلستی زمیں
از س ن مخمور

اگر مجھے زندگی اور موت پر اختیار ہوتا تو میں اپنے بھائی اور باپ کو زندگی سے محروم کر دیتی

یہ کہہ کرثمینہ نے اپنا مرجھا یا گلاب جیسا چہرہ اپنے ہاتھوں سے چھپایا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی

کاش میری ماں کی جگہ میرا باپ مر جاتا، کاش کسی نامعلوم فرد کی گولی میرے بھائی سے اس کی زندگی چھین لیتی

اس کے ہر لفظ سے غم روح چھلک رہا تھا، اس کا جوان اور خوبرو بدن رواں رواں زخمی ہو چلا تھا، اور روح تلک میں وہ زخم زہر بن کر اتر چکے تھے جن کی بدولت آج اس کے لبوں پرسے یہ باتیں اڑ کرتماش بین محلے داروں کی بے حس سماعت میں کہیں گم ہو رہی تھیں، مگر اس کو جیسے اب ان باتوں کی پرواہ نہ تھی ، وہ مجھ سے عمر میں کافی چھوٹی تھی مگر آج وہ مجھے اپنے آپ سے بہت بڑی لگ رہی تھی۔ اس کا گھر اس وقت محلے داروں سے بھرا ہوا تھا، باہر گلی میں پولیس کی گاڑی کھڑی تھی، سیاسی جماعت سے منسلک کچھ لڑکے میڈیا کے نمائندوں کو بلانے کی باتیں کر رہے تھے، مگر وہ لڑکے جو بچپن سے اس گھر اور گھر کے مکینوں سے واقف تھے آڑے آ رہے تھے، سیاسی جماعت کی علاقائی کمیٹی کے وہ لڑکے اس وقت بہت بردباری کا ثبوت دے رہے تھے، بچپن کی محلے داری اور دوستی نبھانے کا یہ ہی وقت تھا، گھر کی فضا میں ثمینہ کے رونے کی آواز گونج رہی تھی میں نے اس کو پڑھایا تھا اس لئے مجھ کو نمایاں جگہ ملی تھی ، آپا نسیمہ اس کو چپ کروا رہی تھیں مگر ہچکیوں، سسکیوں، اور رونے کا نہ تھمنے والا سلسلہ رواں تھا۔ اس کے بال کھلے ہوئے بنا دوپٹے کے شانوں پر بکھرے ہوئے تھے، آپا نسیمہ اس کو اپنی سفید چادر سے ڈھانپنے کی کوشش کی تو اس نے جیسے نوچ کر چادر اتار پھینکی

مت کرو یہ تماشے، نہیں چاہئے مجھے چادر، یہ طور طریقہ تو ان کا ہوتا ہے جن کا باپ سائبان ہوتا ہے جو خود تو جل جاتا ہے مگر اپنے تلے آگ کی تپش تک آنے نہیں دیتا، اس نے تو خود مجھے ہی جلا دیا، یہ چادر تو ان کے لئے ہوتی ہے جن کے بھائی ان کے گرد تمام عمر خار بن کر ایک محافظ کی مانند زندگی گزار دیتے ہیں، آپا وہ تو چور تھے چوری کر لیا سب کچھ انھوں نے، کاش ہر ماں کے مرنے پر اس کی بیٹی کو بھی اللہ موت دے دے مگر ایسی موت نہِیں جیسی موت اس نے مجھے دی ہے، آپا نہیں چاہئے مجھے چادر، اب کیا ملے گا اسکو اوڑھنے سے مجھکو

میرا دماغ بھک ہو گیا تھا، خالہ کا چالسواں ہوئے مہینہ ہی ہوا تھا، عمر بھر کے محافظ ایک مہینے ہی میں میر جعفر اور میر صادق بن گئے تھے، میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا، خاور نسیم کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا وہ خود اپنے ہی گھر میں نقیب لگائے گا، ایک باپ ہونے کے ناطے ہی نہیں بلکہ ایک ملنسار، شریف نظر آنے والے شخص سے کون ایسی قبیح حرکت کی امید کر سکتا تھا، نبیل بھی جان چھڑکتا تھا اپنی بہن پر مگر یہ سب ۔۔۔۔۔۔۔ میرا ذہن حال اور ماضی کے چہروں کو ملانے کی کوشش کر رہا تھا مگر میں اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا، ان دونوں کا ماضی کچھ تھا اور حال ایک بھیانک اور سیاہی میں ڈوبی حقیقت. میری آنکھیں ڈبڈبا گیں۔

امی تم مجھے بھیڑیوں کے سپرد کر کے کیوں گئی؟ مجھے اپنے ساتھ ہی لے جاتیں، ماں میرے پاس آجاو ، مجھے اپنی آغوش میں چھپا لو، ماں تم مریں تو سب مر گئے ، میرا باپ مر گیا، بھائی مر گیا، میں مر گئی تمہارا ہر اچھا مر گیا، ماں یہ گھر تمہاری جنت فنا ہو گئی، تیرے گھر کی رحمت کو من کی سیاہی نے میلا کر دیا

مجھے یوں لگا کہ در، دیوار رو رہے ہیں، غور کیا تو واقعی تمام گھر روتا نظر آیا، فرش تپ رہا تھا، فضا میں ثمینہ کی آہ و فریاد کی ہمراہی میں اب محلے کی عورتوں کی توبہ توبہ کے بجائے، ان کی سسکیوں کی آوازیں شامل ہو چکی تھیں، آسمان کا کلیجہ اس معصوم و مظلوم کی دہائیوں سے جیسے پھٹ رہا تھا، بادلوں کی گرج دل پر محسوس ہو رہی تھی، حیوانیت بھی دانتوں تلے انگلی دبائے کھڑی نظر آئی، ابلیس کانوں کو ہاتھ لگائے جا رہا تھا، انسانیت کا ہر احساس پامال ہو چلا تھا، مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے میں مجرم ہوں، ایک بھائی، ایک باپ ہونا مجھے بھی اس عدالت میں کھینچ لایا تھا، جو خاور نسیم اور نبیل کے جرم پر سجی تھی، وہ دونوں چور تھے ایسے چور جنھوں نے مال و زر سے قیمتی شے چرائی تھی اورجس کی وصولی بھی ممکن نہیں تھی، مجھے یوں لگا جیسے ثمینہ کا دکھ نیا نہیں ہے، آسمان کا کلیجہ یوں پہلے بھی پھٹا ہے، بادلوں کی گرج گزری زندگی میں کتنی ہی دفعہ دل پر محسوس ہوئی ہے، یقینا اس پل کسی اور محلے میں ، کسی اور گھر میں کوئی اور ثمینہ روئی ہو گی، مرد ہونے کا احساس پھرعدالت کے کٹہرے میں بحیثیت مجرم کھڑا ہوا ہوگا، وجود ِ زن اس پل پھرجیتے جی زندگی سے محروم رہی ہو گی، اس سوچ کے ساتھ ہی میری آنکھوں سے بھی آنسوں کی جھڑی لگ گئی۔ میں نے کانپتا ہوا ہاتھ ثمینہ کے سر پر رکھ دیا، اس نے روتے روتے میری جانب سر اٹھا کر دیکھا اور مجھے اس کی ویران آنکھوں میں ایک ہی خوف، ایک ہی طنز نظر آیا جو گلا پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہا تھا استاد صاحب تم بھی تو مرد ہو ۔۔۔

س ن مخمور
امر تنہائی​
بہت زبردست لکھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم بھی تو مرد ہو ۔۔۔۔ حاصل ِافسانہ
 

صائمہ شاہ

محفلین
کچھ سوالات اٹھتے ہیں کہانی پڑھ کر مگر پوچھوں گی نہیں :) زرقا مفتی کی بات سے متفق ہوں پس پردہ عوامل کا بھی ذکر ہو جاتا تو تشنگی نہ رہتی
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
ایک بہت عجیب بات کر رہا ہوں۔۔۔ ایک عمر رسیدہ ناول نگار خاتون سے کسی نے پوچھا محترمہ سبق آموز کہانیاں لکھتے ہوئے عمر بیت گئی آپ کی؟ بتائیے معاشرے پر اس کا کیا اثر دیکھتی ہیں؟ تو کہنے لگیں کوئی اثر نہیں دیکھتی۔ لوگ کہانی پڑھتے ہیں، بھول جاتے ہیں۔ جن غلطیو ں سے روکتی ہوں وہ بڑھتی تو ہیں، کم ہونے کا نام تک نہیں لیتیں۔

معاشرتی برائیوں پر بات کرنا بے شک ایک باضمیر شخص کی پہچان ہے اور بلا شبہ یہ کام وہی شخص کرسکتا ہے جس میں جرات ہو، لیکن سچ یہ ہے کہ شریعت نے جو کہا ہے وہ بالکل ٹھیک کہا ہے، یہ الگ بات کہ اس کی باتیں ہماری سمجھ سے بالا تر ہیں، اور کیوں نہ ہوں، یہ تمام باتیں کرنے اور سمجھانے والی ذات کا علم اور حکمت لامحدود ہے اور ہم سب ایک محدود عقل رکھتے ہیں جو کم علمی کی پوشاک پہنے علم وحکمت کے نت نئے زاویے تلاش کرنے جاتی بھی ہے تو بھٹک بھٹک کر بہت سے کوئلے چن کر لے آتی ہے اور انہی کو ہیرا سمجھتے ہوئے انسان کی پوری عمر کٹ جاتی ہے۔ یہی ہماری حقیقت ہے ۔۔ دین ہمیں برائیوں کی تشہیر سے روکتا ہے۔ آپ نے بہت اچھے طریقے سے سنجیدگی سے لکھا اور اس میں کہیں کوئی بے حیائی والی بات نظر بھی نہیں آتی، لیکن انسانی ذہن کی یہ فطرت ہے کہ وہ ہر بات میں منفی پہلو پہلے تلاش کرتا ہے۔ یہی نفس امارہ کی حقیقت ہے۔ ۔

اس چھوٹے سے افسانے میں جو منفی پہلو میں دیکھتا ہوں وہ یہ ہے کہ جنہیں یہ معلوم نہیں کہ ایسا ہوسکتا ہے، وہ جان گئے کہ ہوتا ہے۔ اندھا کیا چاہے؟ دو آنکھیں۔ مطلب یہ کہ جو کام دنیا میں ہورہا ہے، اسے برا سمجھا جائے یا بھلا، اسے کرنے کی ایک دلیل تو پیدا ہو ہی جاتی ہے کہ اور لوگ کر رہے ہیں ۔ ہم نہیں کر رہے اور جب تک نہیں کریں گے، ا ن سے پیچھے رہیں گے۔ یہی سبب ہے کہ فلم چاہے کسی سنجیدہ موضوع پر ہی کیوں نہ ہو، اگر ہیرو ہیروئن کا رقص اچھا نہیں تو فلاپ ہوجائے گی۔

منفی پہلو جو میں نے بتایا، اسے اس نظر سے دیکھئے کہ یہ معاشرہ ہے۔ اس میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ برے لوگ اپنی برائی چھپاتے ہیں۔ کھل کر بیان نہیں کرسکتے، لیکن اپنی فطرت سے تو باز آنہیں سکتے۔ لہٰذاایسی تحریروں سے ان کا حوصلہ بڑھتا ہے کہ برائی تو ہے، ہم مانتے ہیں کہ برائی ہے اور ہمیں اس پر شرمندگی ہے لیکن اور لوگ بھی تو کر رہے ہیں اور اتنے لوگ کر رہے ہیں کہ آج ایک قلمکار کو انہیں روکنے کے لیے اپنا قلم اٹھانا پڑ گیا؟؟

ناول نگار یا افسانہ نگار بننے کا شوق مجھے بھی رہا اور میں نے کچھ کہانیاں لکھیں بھی، لیکن ان سب کو ادھورا اور لاوارث چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔ وجہ یہ تھی کہ ایک بار ایک دوست کے ساتھ بھونگ جانے کا اتفاق ہوا ۔۔ وہاں کوئی مفتی صاحب تھے، نام یاد نہیں۔ بہرحال میں نے ان سے پوچھا کہ میں کہانی کار بننا چاہتا ہوں کیا یہ ٹھیک ہے؟ فرمایا کہ شریعت جھوٹ کی اجازت نہیں دیتی اور جھوٹ سے کمانا تو حرام کھانا ہے۔ میں نے سوچا مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم ۔ لیکن جس جنون سے کہانی لکھنے کا شوق ہوا تھا، اس کی کمر ٹوٹ گئی کیونکہ بہت سیدھے سادے انداز میں انہوں نے جو کہا تھا، وہ سچ تھا۔ آپ کو سچ کہنا چاہئےلیکن برائی کی تشہیر سے بچنا چاہئے۔ ایسا کرنا فتنوں کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔ اس سے بچئے۔۔۔
 

loneliness4ever

محفلین
ماواں ٹھنڈیاں چھاواں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس مردانہ معاشرے میں اس کی گھنی چھاؤں بچوں کے لیئے بلاتفریق عافیت کی پناہ گاہ ۔۔
ابن آدم جب خواہش نفس کا غلام بنتا ہے تو حیوان بھی اس کی حیوانیت سے کوسوں دور دکھتے ہیں ۔
معاشرے کے بیمار کرداروں کو سامنے لاتے یہ سوچنے پر مجبور کر دینے والی تحریر ۔۔۔۔
کہ اک باپ اک بھائی نے ایسا کیوں کیا ؟۔۔۔۔۔ جبکہ نفس کی گمراہی کو تسکین دینے کی ہزار راہیں موجود اس معاشرے میں ۔۔؟
بہت سی دعاؤں بھری داد


نایاب بھائی

آداب۔۔۔۔۔۔ ممنون ہوں جناب کا آپ نے خاکسار کی محفل کو رونق بخشی

آئے دن ایسی خبریں سماعت میں اتر کر روح میں طوفان برپا کردیتی ہیں
اپنی ہی دھرتی پر خوف محسوس ہونے لگتا ہے ۔۔۔۔
اللہ ہدایت نصیب فرمائے اور برے کاموں سے بچنے اور لوگوں کو برائی سے
روکنے کا حوصلہ عطا فرمائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمین
 

loneliness4ever

محفلین
معاشرے کی بے راہ روی اور گمراہی کی عکاسی کرتی ہوئی ایک چونکا دینے والی تحریر۔ ایسی خبروں سے واسطہ تو پڑتا رہتا ہے مگر اس بیتے ہوئے دردناک واقعے کے بارے میں جان لینے کے بعد رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بے شک ماں ہی بیٹی کی بہترین سہیلی اور محافظ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے پر رحم فرمائے۔ آمین


سلمان بھائی

سچ کہا ۔۔۔ ماں اور بیٹی دونوں ایک دوجھے کی بہترین سہلیاں ہوتی ہیں

آپ کی دعا پر آمین کہتا ہوں
اور جناب کا شکر گزار بھی ہوں کہ خاکسار کی لڑی کو عزت بخشی

اللہ آباد و کامران رکھے آپکو ۔۔۔۔۔۔ آمین
 

loneliness4ever

محفلین
بہت افسوسناک واقعہ ہےاورآپ نے اسے ایک واقعہ کی طرح ہی بیان کیا۔ آپ کا طرزِ بیان اچھا ہے ۔ ایسے واقعات رشتوں پر اعتبار ختم کر دیتےہیں اور اعتبار ہی کیا ایمان ہی لڑکھڑانے لگتا ہے ۔
ادبی تحریر کا قاری شاید ایسے واقعہ کے پسِ پردہ نفسیاتی عوامل کو جاننے میں بھی دلچسپی رکھتا ہے اور آپ کی تحریر اس سلسلے میں خاموش ہے


آداب ۔۔۔۔ بہن زرقا آپ کی آمد نے فقیر کو حوصلہ بخشا
اور جس جانب آپ نے اشارہ کیا ہے فقیر نے وہ بات ذہن میں نقش کرلی ہے
اللہ بہترین جزا نصیب فرمائے آپکو ۔۔۔۔ رہنمائی کرتی رہیں
امید ہے یہ سلسلہ یوں ہی مستقل رہے گا
 

loneliness4ever

محفلین
سچ کہوں تو میرے پاس تبصرہ کرنے کے لئے نہ تو الفاظ ہیں اور نہ ہی حوصلہ۔ صحافت جیسے 'سفاک پیشے' سے وابستہ ہونے کے باوجود میں اس حوالے سے بہت کم ہمت واقع ہوا اور ایسے واقعات پڑھ کر ایک عجیب سی وحشت کا شکار ہوجاتا ہوں۔
صرف ایک چھوٹی سی وضاحت کرنا چاہوں گا کہ 'آڑے آنا' کا مطلب ہوتا ہے مدد کرنا، سہارا دینا وغیرہ۔ ہمارے ہاں اسے رکاوٹ بننا کے معنوں میں لیا جاتا ہے جو درست نہیں۔


عاطف بھائی ۔۔۔۔۔ ممنون ہوں آپکا ۔۔۔۔۔
آپکو آمد خاکسار کے لئے خوشی کا باعث ہے
آپکی وضاحت پر کان کھڑے ہوگئے
بغل میں دبی فیروزالغات نکالی اور انٹرنیٹ پر اردو انسائیکلوپیڈیا تک رسائی کی
مگر دونوں ہی جگہ " آڑے آنا ‘‘ کے معنی میں حائل ہونا بھی پایا ۔۔۔۔ عین ممکن ہے
دونوں جگہ بہتری کی گنجائش ہو ۔۔۔ فقیر مزید تلاش میں ہے ۔۔۔۔ امید کرتا ہوں
آمد اور اظہار کا سلسلہ مستقل فرمائیں گے ۔۔۔
اللہ آباد و کامران رکھے آپکو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آمین
 
Top