زندہ ہزاروں لوگ جہاں مر کے ہوگئے

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
زندہ ہزاروں لوگ جہاں مر کے ہوگئے
ہم بھی خدا کا شکر اُسی در کے ہوگئے

جو راس تھا ہمیں وہی قسمت نے لکھ دیا
ہم جور آشنا تھے ستم گر کے ہوگئے

نکلے تھے ہم جزیرۂ زر کی تلاش میں
ساحل کی ریت چھوڑ کے ساگر کے ہوگئے

کچھ ایسا رائگانیٔ دستک کا خوف تھا
پہلا جو در کھلا ہم اُسی در کے ہوگئے

میرے ستم گروں کا بھی معیار بڑھ گیا
پتھر جو آرہے تھے وہ مرمر کے ہوگئے

بالیدگی ہوائے سیاست کی دیکھنا !
بالشتیئے اک آن میں گز بھر کے ہوگئے

کرنے لگے ہیں وہ بھی لو بچپن کو اپنے یاد
بچّے ظہیرؔ میرے برابر کے ہوگئے


(۲۰۰۸)

 
کیا کہنے ظہیر بھائی۔
صبح صبح ہی تازہ کلام پڑھ کر طبیعت خوش ہو گئی۔
زندہ ہزاروں لوگ جہاں مر کے ہوگئے
ہم بھی خدا کا شکر اُسی در کے ہوگئے

جو راس تھا ہمیں وہی قسمت نے لکھ دیا
ہم جور آشنا تھے ستم گر کے ہوگئے

کچھ ایسا رائگانیٔ دستک کا خوف تھا
پہلا جو در کھلا ہم اُسی در کے ہوگئے

بالیدگی ہوائے سیاست کی دیکھنا !
بالشتیئے اک آن میں گز بھر کے ہوگئے
 

الف نظامی

لائبریرین
زندہ ہزاروں لوگ جہاں مر کے ہوگئے
ہم بھی خدا کا شکر اُسی در کے ہوگئے

اللہ اللہ موت کو کس نے مسیحا کر دیا​
 
Top