! زندگی کی پیدا ئش: خدا کی تخلیق یا ارتقا؟ !

ایم اے راجا

محفلین
میں اس موضوع کو کچھ قسطوں میں شروع کرتا ہوں کیونکہ ایک بڑا موضوع ہے سو ایک ہی دفعہ مکمل کرنا ممکن نہیں۔
کائنات میں منصوبہ بندی سے انکار۔
مادہ پرستوں نے نہ صرف یہ دعویٰ کیا کہ کائنات ازل سے ہی موجود ہے بلکہ یہ دعویٰ بھی داغ دیا کہ کائنات میں کوئی منصوبہ بندی نہیں اور اس کے پیچھے کوئی مقصد بھی کار فرما نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کائنات میں جو توازن و توافق اور نظم پایا جاتا ہے یہ بھی ایک مظہرِ اتفاقات ہے۔ 19 ویں صدی کے دوسرے نصف حصے کے آغاز سے دنیائے سائنس پر یہی دعویٰ مسلط رہا اور اسی نے سائنسی تحقیق کے باقیماندہ سفر کا رخ متعین کیا۔
مثال کے طور پر بعض سائنسدانوں نے ایک مفروضہ پیش کیا جسے " نظریہء انتشار " ( CHAOS THEORY) کہا جاتا ہے۔ یہ کائنات کے اندر نظم و ضبط و ترتیب کے فقدان کا دعویٰ ہے۔ ان نظریئے کے علمبرداروں کا کہنا ہے کہ " انتشار سے خود بخود ہی ظہورِ نظم و ترتیب ہو جائے گا " ۔ چنانچہ اس دعوے کی تائید میں کئی مطالعات ہوئے۔ ریاضیاتی اعداد و شمار، نظریاتی طبیعات اور کیمیائی تجربات کی مدد سے سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش ہوتی رہی۔۔۔۔۔۔۔۔" یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ کائنات کا وجود ما حاصلِ انتشار و بے ترتیبی ہے۔"
تاہم ہر نئی دریافت " بے ترتیبی " اور " اتفاقات" کے نطریوں کی مزید تردید کرتی رہی اور ثابت کرتی رہی کہ کائنات میں زبردست ترتیب و منصوبہ بندی کا فرما ہے۔ 1960 کے عشرہ سے کی جانے والی ریسرچ مسلسل اور متواتر اصرار کرتی رہی کہ کائنات میں کمال درجے کا مادی توازن پایا جاتا ہے۔ اس کے جزئیات اس باریک بینی سے ایک دوسرے سے پیوست ہیں کہ انہوں نے زندگی کے وجود کو ممکن بنادیا ہے۔ یہ بد نظمی نہیں بلکہ کامل ترین نظم کا ظہور ہے۔ جوں جوں تحقیقات کا سلسلہ آگے بڑھتا رہا یہ حقیقت تابناک تر ہو کر سامنے آتی رہی کہ فزکس، کیمسٹری، بیالوجی اور بنیادی قوتوں ( مثلاً تجاذب اور الیکٹرو میگنیٹزم اور ایٹموں اور عناصرِ کائنات) کے تمام قوانین کو اسطرح آپس میں منظم و مرتب کیا گیا ہیکہ بنی نوع انسان کی زندگی برقرار رہ سکے۔ سائنسدان اس غیر معمولی منصوبہ بندی کو "اصولِ بشری" (ANTHROPIC PRINCIPALE) کا نام دیتے ہیں۔ یہ اصول ہے جس سے کائنات کے جزئیات انسانی زندگی کو ممکن بنانے کے لیئے بڑی حکمت عملی و احتیاط کے ساتھ مرتب کئے گئے ہیں۔
ان دریافتوں نے سائنسدان برادری پر مادہ پرستانہ فلسفوں کے مسلط کردہ اس مقولے کو رد کرکے اسے غیر سائنسی مغالطہ ثابت کردیا۔ ممتاز مالیکیولربیالوجسٹ مائیکل ڈینٹن نے اپنی کتاب " مقدر فطرت: قوانینِ حیاتیات مقصدِ کائنات کا کیسے اثبات کرتے ہیں۔ میں لکھا ہیکہ، 20 ویں صدی کے ماہرِ فلکیات سے جس نئی تصویر کا ظہور ہوا وہ پچھلے چار سو سالوں کے بیشتر حصے میں سائنس دان حلقوں میں مروج اس مفروضے کے لیئے ایک درامائی چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے کہ زندگی اس نقشہء کائنات میں محض اتفاقاً ظہور پذیر ہوئی۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جدید علم تکوینیات اور علم طبیعات نے بعینہ اسی قسم کے شواہد مہیا کر دیئے ہیں جنکی ماہرین مذہبِ فطرت کو سترہویں صدی میں تلاش رہی مگر اس زمانے کی سائنس انہیں وہ شواہد فراہم نہیں کر سکتی تھی۔ ( MICHEL DENTON, Natures destiny: How the laws of Biology Reveal Purpose in the Universe. THE NEW YORK: THE FREE PRESS, A998, P. 1415)
جب ہم کوئی پیچیدہ ڈیزائن دیکھتے ہیں تو فوراً اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ یہ زبردست ذہانت اور کاریگری کی کارفرمائی ہے، مذہبی عقائد رکھنے والے سائنسدان سائنسی بنیادوں پر الحاد کو باطل قرار دینے اور خدا کا وجود چابت کرنے کے لیئے کوشاں رہے تاہم جیسا کہ پچھلی سطور میں متذکرہ اقتباس مین کہا گیا ہے کہ اس دور مین سائینسی علوم کا گھٹیا معیار ان کے ادراک کی اخذ کردہ سچائیوں کی تصدیق کرنے سے قاصر رہا اور مادیت نے اسی نارسا اور کمتر درجے کی سائنس کی مدد سے دنیائے سائنس مین اپنے پنجے گاڑ لیئے۔ تاہم بیسویں صدی کی سائنس نے حالات کا رخ تبدیل کردیا اور اس حقیقت کے حتمی شواہد پیش کردیئے کہ کائنات کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔
یہاں حقیقی طور پر قابلِ غور نقطہ یہ ہیکہ مادہ پرستوں کے مغالطوں کو ثابت کرنے اور انکے دعوے کو باطل قرار دینے اور غلط ثابت کرنے پر غیر معمولی وقت لگ گیاکہ " کائنات کا کوئی مقصد ومنصوبہ نہیں ہے"۔ نظریاتی طبیعات اور ریاضیات وغیرہ کی تمام تھیوریز فارمولے اور تحقیقی مطالعات بالآخرلا حاصل ثابت ہوئے اور ان پر لگنے والا وقت بالکل ضائع ہو گیا۔
جسطرح نسلی برتری پر مبنی آئیڈیالوجی نے دوسری عالمگیر جنگ ( 1944-1935 ) کے لیئے راہ ہموار کی، اسی طرح مادہ پرستانہ آئیڈیالوجی نے دینائے سائنس کو گھٹاٹوپ اندھیروں میں دھکیل دیا۔
تاہم اگر سائنسدان طبقہ اپنی مساعی کی بنیاد مادیت کے مغالطوں پر استوار کرنے کی بجائے اس حقیقت پر تعمیر کرتا کہ کائنات کا خالق رب السموات والاض ہے تو سائنسی تحقیق صحیح راہ پر گامزن ہوجاتی۔

( جاری ہے )​
( بحوالہ: قرآن رھنمائے سائنس( THE QURAN LEADS THE WAY TO SCIENCE ) مصنف: ھارون یحیٰ: مترجم: محمد یحیٰ)​
 

زیک

مسافر
سائنس دان
فی الوقت اس بات پر متفق ہیں کہ بگ بین اور ڈارون کا نظریہ
باطل ثابت ہوچکا۔۔۔ خصوصا ڈارون کے نظرئیے کو باطل قرار دینے کے بعد
اس امر پر اتفاق ہے کہ ڈارون کے نظریہ کا فی الوقت ابلاغ روک دیا جائے
مزید تفصیل دو ایک روز میں حاضر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔

ہاہاہاہاہا معلوم نہیں کیسی عجیب و غریب سائنس پڑھ رہے ہیں آپ۔ ہاہاہاہاہا
 

فرخ منظور

لائبریرین
واقعی یہ افواہیں میں نے بھی کئی بار سنی ہیں کہ ڈارون کے نظریے کو رد کردیا گیا ہے - لیکن آج تک کوئی مصدقہ خبر کہیں نہیں پڑھی - یہ سب ہم جیسے لوگوں کی اپنے عقیدہ بچانے کی باتیں ہیں - ورنہ جو حقیقت ہے وہی حقیقت رہے گی -
 

ایم اے راجا

محفلین
واقعی یہ افواہیں میں نے بھی کئی بار سنی ہیں کہ ڈارون کے نظریے کو رد کردیا گیا ہے - لیکن آج تک کوئی مصدقہ خبر کہیں نہیں پڑھی - یہ سب ہم جیسے لوگوں کی اپنے عقیدہ بچانے کی باتیں ہیں - ورنہ جو حقیقت ہے وہی حقیقت رہے گی -
اگر ڈارون کا نظریہء ارتقا درست ہے تو پھر دنیا کا اللہ کے اذن سے باقائدہ منصوبہ بندی کے ذریعے وجود میں آنا اور وہ آیت کہ ہم نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیئے پیدا کیا ہے کیا ہے؟
 

زیک

مسافر
اگر ڈارون کا نظریہء ارتقا درست ہے تو پھر دنیا کا اللہ کے اذن سے باقائدہ منصوبہ بندی کے ذریعے وجود میں آنا اور وہ آیت کہ ہم نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیئے پیدا کیا ہے کیا ہے؟

حضرت میں نے دو لنک دیئے تھے اسی تھریڈ پر کم از کم انہیں تو پڑھ لیں۔
 

arifkarim

معطل
اگر ڈارون کا نظریہء ارتقا درست ہے تو پھر دنیا کا اللہ کے اذن سے باقائدہ منصوبہ بندی کے ذریعے وجود میں آنا اور وہ آیت کہ ہم نے جنوں اور انسانوں کو اپنی عبادت کے لیئے پیدا کیا ہے کیا ہے؟

بھائی میں‌ پہلے بھی وضاحت کرچکا ہوں کہ ڈارون کا نظریہ ارتقا درست ہے۔۔۔۔ بس اس میں روحانیت اور انواع کے ذاتی شعور کی پیدائش کا کہیں‌ ذکر نہیں۔۔۔۔ یعنی یہ صرف ایک مادی تھیوری ہے۔ اس زندگی کے مقصد کو سمجھنے کیلئے خدا تعالی نے انسان کو مذہب عطا کیا ہے۔ کیونکہ اگر ہم مذہبی نہ ہوں‌ تو ہماری زندگیاں باقی جانوروں سے زیادہ مختلف نہ ہوگی۔ یعنی کھانا ، پینا ،سونا اور بس۔۔۔۔ دوسرا یہ کہ خدا تعالی نے ہمیں‌ ایک خاص مقصد کے تحت پیدا کیا ہے تو وہ بھی درست ہے۔ قرآن شریف میں‌ بارہا آیا ہے کہ خدا تعالی نے ہمیں اپنی عبادت کیلئے اور اپنی ازلی صفات کا اتم بنانے کیلئے پیدا کیا۔ یعنی انسان میں یہ خصوصیت ہے کہ وہ خدا تعالی کی صفات کا مظہر بن سکتا ہے۔ اور جس انسان میں یہ صفات جمالی سب سے زیادہ جلوہ گر ہوئیں وہ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔
 

مغزل

محفلین
عارف کریم صاحب۔۔ یعنی آپ متفق ہیں کہ جناب کے جدِ امجد ’’ بن مانس ‘‘ تھے۔۔؟؟
(معاف کیجئے ڈارون جی کا نظریہ تو یہی ہے )
ما شا اللہ۔۔۔۔ :grin:
باقی دیگر باتوں پہ دو رائے نہیں ۔۔ درست فرماتے ہیں آپ //
 
مکمل غیر مذہبی نکتہ نظر
اگر دیکھا جائے تو انسان محض‌ایک پروگرام ہے، ایک ایسا سوفٹوئیر جو ایٹموں کی خصوصیات سے لکھا گیا ہے۔ ان ایٹموں کی ایک خاص‌ترتیب، انسان کا وہ پروگرام چلاتی ہے جو اس کے ڈی این اے میں ہے (؟) یہی پروگرام مکمل صلاحیت رکھتا ہے کہ نہ صرف خود بڑھتا جاتا ہے بلکہ مزید عقل مند ہوتا جاتا ہے۔ یعنی بنیادی پروگرام میں خود مزید عقل مند ہوتا ہے اور خود سیکھتا بھی ہے۔ یہی پروگرام خلیوں کی تقسیم کی شکل میں مزید بڑھتا چلا جاتا ہے اور اپنی انتہا یعنی عمر اور حالات ک باعث مکمل ہوجاتا یا جاری نہیں رہ سکتا تو ختم ہو جاتا ہے۔
یہی پروگرام ، جانتا ہے کہ سوچا کیسے جائے۔ جذبے کیسے ہوں۔ مرد کیا کرے اور عورت کیا کرے، یہ پرگرام جانتا ہے کہ حسد کیا ہے، خوشی کیا ہے، سیکھنا کیا ہے اور کیسے سیکھنا ہے، پیار کیسے کرنا ہے اور نفرت کیسے کرنا ہے۔ یاد کیسے رکھنا ہے اور بھول کیسے جانا ہے۔ اس عقل کے بعد یہ یہ بھی جانتا ہے کہ کیا بنانا ہے اور کیسے بنانا ہے۔ غذا سے کیلشئیم نکال کر ہڈی بنانی ہے اور ہڈیوں کو نشونما ایسی کرنی ہے کہ سب کچھ متوازن رہے۔ کھال کا پولی مر بنانا ہے کہ باقی خلیہ موسم سے بچتے رہیں۔ ٹھنڈا کرنے کا نظام اور گرم کرنے کا نظام۔ جراثیموں‌ سے لڑنے کا نظام، اعصابی نظام اور پھر ان اعصاب کے کنڈکٹرز کے گرد انسولیشن کا نظام۔غذا کو فیول یا ایندھن میں‌تبدیل کرنے کا نظام، چند منٹوں میں بہترین قسم کی گیسولین یعنی گلوکوز بنانے کا نظام، پھر اس کو پھیلانے کا نظام ، اس ایندھن کو خلیوں میں چلانے کا نظام اور پھر اس سے بنننے والی کاربن ڈائی آکسائید کو باہر پھینکنے کا نظام اور جناب پھر توازن رکھنے کا نظام۔ توانئی اور ایندھن کو خون کے راستے ہر خلیہ تک پہنچانے کا نظام۔ دل ایک بہترین ڈیزائین شدہ پمپ اور پھیپڑے اور پھیپڑوں کا ڈایا فرام ایک بہترین ڈیزائین۔ دیکھنے اور سننے کا نظام ، بولنے کا نطام اور سونگنے اور چھونے کا نظام۔ رنگوں کی شناخت کا نظام، اور خوشبوؤں کی شناخت کا نظام ، فضلہ ک وخارج کرنے کا نظام، خون سے یوریا الگ کرنے کا نظام۔ سوچنے کا نظام اور نت نئی چیزیں ڈیزائین کرنے کا نظام۔ ایمانداری اور بے ایمانی، سچ اور جھوٹ اور سب سے بڑھ کر یہ جاننا کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط۔

چاچا ڈارون کہتا ہے کہ یہ سب کچھ بچا کھچا ہے۔ یعنی جو بہتر تھا بچ گیا اور جو بہتر نہیں تھا وہ ختم ہو گیا۔ جس کی ضرورت تھی وہ جسم میں بن گیا۔

ارتقائی عمل جاری ہے، کچھ ملین سال کے بعد حضرت انسان نیو دلی ریڈیو بغیر ریڈیو کے سنے گا، ٹی وی دیکھنے کے لئے صرف آنکھیں بند کرنا کافی ہوگا۔ پیچھے آنکھوں کی ضرورت ہے تو وہ بھی نکل آئیں گی، یہ جرثومے اور وائرس کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے بلکہ نئے وائرس ہوں گے۔ اپنے ایٹم رکھ کر خود اپنے آپ کو بناسکے گا، اور ڈی این اے میں ایسی تبدیلیاں‌ لے آئے گا کہ ہڈیاں بجائے کیلشئیم کے ٹائی تینیم کی ہونگی اور کھال کا پولی مر اتنا مظبوط ہوگا کہ کچھ اثر نہیں کرے گا۔ گویا ایک نیا انسان تخلیق کرکے اس کو لاکھوں کروڑوں‌ سال کے ارتقائی عمل کو تیز تر کردے گا اور بہتر انسان بنائے گا۔۔

اس بہتر انسان کے آجانے پر پرانے انسان کی ضرورت نہیں رہے گی لہذا۔۔
یہ بہتر انسان پرانے انسان کو ختم کردے گا اور اس طرح بہتر انسان اس کرہ ارض‌ پر گھومے گا اور پھر بحث کرے گا ، مجھے کسی نے بنایا تھوڑی تھا، میں نے تو ارتقائی چھلانگیں لگائیں ہیں۔ اور یہ خدا کا تصور۔۔۔۔ نیا بہتر انسان اتنا بڑا خالق ہے کہ اپنا خدا خود تخلیق کرلیا !
 

مغزل

محفلین
کیا مراسلہ نگار اس مراسلے کے متن سے متفق ہے ؟
اگر ہے تو کیا کیا جائے ؟؟ میرا نظریہ ہے کہ زمین پر
زندگی محض تیس سے بچاس سال کی رہ گئی ہے۔۔

والسلام
 

سمارا

محفلین
مغل صاحب صرف 30-50 سال کی زندگی باقی ہے یہ نظریہ آپ نے کیسے بنایا ہے
مزہبی اعتبار سے دیکھا جائے تو ابھی قرب قیامت کی بہت ساری نشانیاں باقی ہیں۔ اور اگر سائنسی اعتبار سے ہے تو بھی 30-50 سال تو کافی کم معلوم ہوتے ہیں۔
 

سمارا

محفلین
فاروق بھائی اگر ارتقاء کے سائینسی نظرئیے کو دیکھا جائے اور اس کو عمل مسلسل سمجھا جائے یعنی کہ اب بھی ارتقا ہو رہا ہے تو عین ممکن ہے کہ انسان سے بھی بہتر کوئی نئی مخلوق سامنے آ جائے جس کے پاس عقل اور شعور کی صلاحیتوں کے علاوہ بھی کوئی اور صلاحیت موجود ہو جس کو ابھی ہم خیال مین لانے سے بھی قاصر ہوں۔
 

arifkarim

معطل
عارف کریم صاحب۔۔ یعنی آپ متفق ہیں کہ جناب کے جدِ امجد ’’ بن مانس ‘‘ تھے۔۔؟؟
(معاف کیجئے ڈارون جی کا نظریہ تو یہی ہے )
ما شا اللہ۔۔۔۔ :grin:
باقی دیگر باتوں پہ دو رائے نہیں ۔۔ درست فرماتے ہیں آپ //
بھائی صاحب بن مانس تو بہت بعد کی بات ہے۔ ڈارون کے مطابق تمام انواع کی پیدائش ایک سنگل سیل والی مخلوق یعنی بیکٹیریاز سے ہوئی۔ یہ بیکٹیریاز اربوں‌ سال کے ارتقائی عمل کے بعد موجودہ مخلوقات؛‌انسان ، جانور، پودے وغیرہ بنے۔۔۔۔
 

arifkarim

معطل
ارتقائی عمل جاری ہے، کچھ ملین سال کے بعد حضرت انسان نیو دلی ریڈیو بغیر ریڈیو کے سنے گا، ٹی وی دیکھنے کے لئے صرف آنکھیں بند کرنا کافی ہوگا۔ پیچھے آنکھوں کی ضرورت ہے تو وہ بھی نکل آئیں گی، یہ جرثومے اور وائرس کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے بلکہ نئے وائرس ہوں گے۔ اپنے ایٹم رکھ کر خود اپنے آپ کو بناسکے گا، اور ڈی این اے میں ایسی تبدیلیاں‌ لے آئے گا کہ ہڈیاں بجائے کیلشئیم کے ٹائی تینیم کی ہونگی اور کھال کا پولی مر اتنا مظبوط ہوگا کہ کچھ اثر نہیں کرے گا۔ گویا ایک نیا انسان تخلیق کرکے اس کو لاکھوں کروڑوں‌ سال کے ارتقائی عمل کو تیز تر کردے گا اور بہتر انسان بنائے گا۔۔

بھائی صاحب آپ ملین سال کی بات کرتے ہیں، ہم نے تو چند صدیوں‌ میں ہی اپنے گھر یعنی زمین کا وہ حشر نشر کر دیا ہے کہ جان کے لاے پڑ گئے ہیں۔ ان چند صدیوں میں نہ جانے کتنے پرند چرند اور پودوں کی نایاب اقسام اس دنیا سے ختم ہو چکیں‌ ہیں۔ پانڈا جیسا خوبصورت جانور صرف ہزاروں کی تعداد میں‌ رہ گیا ہے۔ اوپر سے ہماری آبادی دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہی ہے۔ صرف پاکستان ہی کی آبادی پچھلے 20 سالوں‌ میں‌ دگنی ہوگئی :eek:
ہم انسانوں نے خود ''قدرتی'' ارتقائی عمل کو روکا ہے، نت نئی ایجادات کرکے۔ انڈسٹری کی وجہ سے ماحول اور فضا تباہ ہوگئے۔ بڑھتی آبادی کی وجہ سے قدرتی وسائل ختم ہو گئے۔ گلوبل معاشی نظام کی وجہ سے لوگ وسائل ہوتے ہوئے بھی فاقوں‌ کا شکار ہیں۔ اور نایاب جانوروں کو چن چن کر مارا جارہا ہے یا فروخت کیا جارہا ہے۔ یہ سب آخری زمانہ کی نشانیاں ہے اور تیسری جنگ عظیم دروازے کو دستک دے رہی ہے۔ اس کے باوجود مغربی دنیا مستقبل کے متعلق مثبت رائے رکھتی ہے :confused:
 

مغزل

محفلین
مغل صاحب صرف 30-50 سال کی زندگی باقی ہے یہ نظریہ آپ نے کیسے بنایا ہے
مزہبی اعتبار سے دیکھا جائے تو ابھی قرب قیامت کی بہت ساری نشانیاں باقی ہیں۔ اور اگر سائنسی اعتبار سے ہے تو بھی 30-50 سال تو کافی کم معلوم ہوتے ہیں۔


میرے اعداد و شمار ہیں غلط بھی ہوسکتے ہیں ۔۔۔ جس تیزی سے قیامت کی نشانیاں نمودار ہورہی ہیں
۔۔ اس حساب سے بھی 30-50 سال ہی رہ گئے ہیں
 

ایم اے راجا

محفلین
زیک کیا یحیٰ اس لیئے غلط اور سائنس سے نا بلد ہیکہ وہ سائنس کو قرآن کی ایجاد قرار دیتا ہے، جن نہاں چیزوں سے قرآن نے 14 سو سال پہلے پردہ اٹھایا، مادی سائنس نے اب جا کر انھیں سمجھا ہے اور کافی اب بھی مادی سائنس کی پہنچ سے دور ہیں، کیا چودہ سو سال پہلے کا انسان یہ جانتا تھا کہ ایک دن انسان چاند پر قدم رکھے گا اور خلاؤں کی وسعتیں ناپے گا، ماں کے دودھ کی افادیت مادی سائنس نے آج دریافت کی ہے جبکہ قرآن نے 14 سو سال پہلے بتا دی تھی، اگر ڈارون کا نظریہ ارتقا درست بھی مان لیا جائے تو آخر ابتدائی بیکٹیریا کا موجد کون ہے، کیا کبھی کسی بیکٹیریا سے انسان پیدا ہوا ہے، اور سائنس اس بات کو بھی مانتی ہیکہ کسی مردہ مادے یا بیکٹیریا سے کوئی چیز جنم نہیں لے سکتی، غرض یہ کہ انسانی ارتقا باقاعدہ اذن کا نتیجہ ہے اور کائنات کی تخلیق باقاعدہ ٹھوس منصوبہ بندی سے عمل میں آئی ہے، لیکن اللہ نے کچھ اسباب پیدا کیئے ہوں گے جنکے ذریعے یہ سارا نظام وجود میں آیا، نہ کہ اتفاقیہ طور پر۔
 

ایم اے راجا

محفلین
فاروق بھائی اگر ارتقاء کے سائینسی نظرئیے کو دیکھا جائے اور اس کو عمل مسلسل سمجھا جائے یعنی کہ اب بھی ارتقا ہو رہا ہے تو عین ممکن ہے کہ انسان سے بھی بہتر کوئی نئی مخلوق سامنے آ جائے جس کے پاس عقل اور شعور کی صلاحیتوں کے علاوہ بھی کوئی اور صلاحیت موجود ہو جس کو ابھی ہم خیال مین لانے سے بھی قاصر ہوں۔
بی بی اگر انسان سے بھی بہتر کوئی مخلوق کا وجود میں آنا ہے تو قرآن کا یہ ارشاد کیا ہیکہ انسان اشرف المخلوقات ہے، کیا یہ ارشاد ( نعوذباللہ) غلط ہے؟
 

زیک

مسافر
زیک کیا یحیٰ اس لیئے غلط اور سائنس سے نا بلد ہیکہ وہ سائنس کو قرآن کی ایجاد قرار دیتا ہے

نہیں بلکہ اس لئے کہ ہارون یحیٰی کو سائنس کا علم ہی نہیں۔ میں اس بارے میں اپنے بلاگ پر کافی پہلے لکھ چکا ہوں۔

مسلمان اور ارتقاء

ہارون یحیٰی

ارتقاء: ایک اور نکتہ نظر

ارتقاء: بحث جاری

تھرموڈائنامکس اور ارتقاء
 
Top