زندگی جیسے گزرتی ہے گزر جانے دے

یونہی مت شب کو بہ امیدِ سحر جانے دے
زندگی جیسے گزرتی ہے گزر جانے دے

دل مسافر ہے جہانِ گزراں کا اس کو
بے رہ و منزل و بے زادِ سفر جانے دے

اس کے پیکر کا تو ہر لمس ہی صیقل گر ہے
زعمِ یکتائی کو اے آئنہ گر جانے دے

شوق ‌ہے زخمہ زنِ تارِ رگِ جاں ہر چند
شورشِ وقت میں نغمے کو بکھر جانے دے

جتنی کوتاہ بھی ہو مشقِ سخن کیا غم ہے
طولِ افلاک میں کچھ اپنا اثر جانے دے

جس کو پا لینے کی وقعت نہ ہو اس کو ریحان
دل کی گلیوں سے بلا خوف و خطر جانے دے
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ! بہت خوب ، ریحان ! اچھی غزل ہے ۔ آپ کا مخصوص انداز جھلک رہا ہے۔

اس کے پیکر کا تو ہر لمس ہی صیقل گر ہے
زعمِ یکتائی کو اے آئنہ گر جانے دے

شوق ‌ہے زخمہ زنِ تارِ رگِ جاں ہر چند
شورشِ وقت میں نغمے کو بکھر جانے دے

بہت خوب! اچھے اشعار ہیں ۔
مطلع کچھ مبہم ہے ۔ مصرع اول کی بندش کچھ ایسی ہے کہ بظاہر دوسرے مصرع میں اس کا تضاد نظر آتا ہے ۔یعنی پہلے مصرع میں تو جدوجہد اور سعی کی تلقین ہے جبکہ دوسرے میں پسپائی اور گریز کا عندیہ۔
مقطع میں وقعت کا لفظ گاجر کے حلوے میں کنکر کی طرح چبھ رہا ہے ۔ آپ نے وقعت بمعنی حیثیت استعمال کیا ہے شاید؟ اگر ایسا ہے تو یہ شعر کچھ پسند نہیں آیا ۔ شاعر تو ہمیشہ ناممکن ہی کی آرزو کرتا ہے ۔ :)
یا پھر یہاں آپ کی مراد پالینے کے امکان سے ہے؟! یعنی جس کو پا لینے کا امکاں نہ ہو اس کو ریحان ؟!
 

علی وقار

محفلین
مطلع کچھ مبہم ہے ۔ مصرع اول کی بندش کچھ ایسی ہے کہ بظاہر دوسرے مصرع میں اس کا تضاد نظر آتا ہے ۔یعنی پہلے مصرع میں تو جدوجہد اور سعی کی تلقین ہے جبکہ دوسرے میں پسپائی اور گریز کا عندیہ۔
ظہیر بھائی مجھے تو لگتا ہے کہ شاعر حال مست ہو چکا ہےاور وہ لمحہء موجود میں جینا چاہتا ہے۔ زندگی چاہے جس رنگ سے گزرے، وہ اس کو ذہنی طور پر قبول کر چکا ہے۔
 
واہ! بہت خوب ، ریحان ! اچھی غزل ہے ۔ آپ کا مخصوص انداز جھلک رہا ہے۔
بہت شکریہ ظہیر بھائی۔
مطلع کچھ مبہم ہے ۔ مصرع اول کی بندش کچھ ایسی ہے کہ بظاہر دوسرے مصرع میں اس کا تضاد نظر آتا ہے ۔یعنی پہلے مصرع میں تو جدوجہد اور سعی کی تلقین ہے جبکہ دوسرے میں پسپائی اور گریز کا عندیہ۔
بنیادی مضمون تو وہی ہے جو علی بھائی نے اخذ کیا. اس کے علاوہ اگر سحر اور شب کو استعاراتی معنوں میں لیں تو تفہیم کسی اور سمت بھی جا سکتی ہے.
مقطع میں وقعت کا لفظ گاجر کے حلوے میں کنکر کی طرح چبھ رہا ہے ۔ آپ نے وقعت بمعنی حیثیت استعمال کیا ہے شاید؟ اگر ایسا ہے تو یہ شعر کچھ پسند نہیں آیا ۔ شاعر تو ہمیشہ ناممکن ہی کی آرزو کرتا ہے ۔
خیالوں میں تو اپنی حیثیت بھی بڑھائی جا سکتی ہے ظہیر بھائی. ورنہ حیثیت سے زیادہ کی آرزو میں تو کچھ لطف نہیں.
 

صابرہ امین

لائبریرین
شاعری کے ہزاروں رنگ ہیں۔ ان میں سے ایک رنگ آپ کی شاعری میں نظر آیا۔ کتنے مشکل الفاظ کتنی سہولت سے استعمال کیے ہیں آپ نے۔ یہ قابل رشک بات ہے ہم جیسے نئے شاعروں کے لیے۔ ڈھیروں داد ۔ ۔:applause::applause::applause::applause:
آج کل کے واقعات کو ظاہر کرتے اشعار ہیں جو قوم کی موجودہ حالت کو ظاہر کر رہے ہیں۔

ایسے ہی سوچ رہی ہوں کہ علامہ اقبال ان اشعار کو پڑھتے تو کیا محسوس کرتے یا تبصرہ کرتے ۔ ۔:thinking::thinking::thinking:
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی مجھے تو لگتا ہے کہ شاعر حال مست ہو چکا ہےاور وہ لمحہء موجود میں جینا چاہتا ہے۔ زندگی چاہے جس رنگ سے گزرے، وہ اس کو ذہنی طور پر قبول کر چکا ہے۔
علی بھائی، شعر کا مدعا تو مصرعِ ثانی کی مدد سے خاصی حد تک سمجھ میں آگیا تھا لیکن پہلے مصرع کی زبان اس مدعا کا ساتھ نہیں دے رہی۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بنیادی مضمون تو وہی ہے جو علی بھائی نے اخذ کیا. اس کے علاوہ اگر سحر اور شب کو استعاراتی معنوں میں لیں تو تفہیم کسی اور سمت بھی جا سکتی ہے.
ریحان ، مطلع کے مصرع اول میں مجھے دو مسئلے نظر آرہے ہیں۔
اول: مصرع ثانی کی روشنی میں اگر شب سے مراد زندگی لی جائے تو یہ کہنا کہ شب کو ( سحر کی امید میں ) یونہی مت جانے دے ، مصرع ثانی کے متضاد ہے۔ مصرع ثانی کی مطابقت سے تو یوں کہنا چاہیے کہ شب کو یونہی جانے دے یعنی زندگی کو یونہی گزرنے دے۔ یونہی مت جانے دے سے تو مطلب یہ نکلتا ہے کہ کچھ جدوجہد کی جائے ، کچھ ایکشن کیا جائے ، خالی نہ بیٹھا جائے۔

دوم: جس طرح کوئی لفظ کسی خاص سیاق و سباق میں کثرتِ استعمال سے علامت یا استعارے کی حیثیت اختیار کرجاتا ہے اسی طرح دو لفظوں کا جوڑی کی صورت میں باہم استعمال بھی علامت یا استعارے کے درجے پر پہنچ جاتا ہے۔ ہماری شعری روایت میں شب اور سحر کی مثال اسی طرح کی ہے۔ اس تناظر میں شب سے مراد عہدِ ظلم و ستم ، دورِ ظلمت ، استیصال وغیرہ اور سحر سے مراد آزادی یا نجات ہوتا ہے۔ چنانچہ مصرع اول کا بیانیہ غیرضروری ابہام پیدا کررہا ہے ۔ یہ مصرع پڑھنے کے بعد دوسرے مصرع کو اس سے مربوط کرنا مشکل ہورہا ہے ۔ میری ناقص رائے میں اظہارِ مدعا کے لیے محض شب کے بجائے روز و شب ، دن رات یا اسی قسم کا اور کوئی اظہاریہ استعمال کیا جائے تاکہ مصرعِ ثانی سے مطابقت اور ربط پیدا ہوجائے ۔
 
ریحان ، مطلع کے مصرع اول میں مجھے دو مسئلے نظر آرہے ہیں۔
اول: مصرع ثانی کی روشنی میں اگر شب سے مراد زندگی لی جائے تو یہ کہنا کہ شب کو ( سحر کی امید میں ) یونہی مت جانے دے ، مصرع ثانی کے متضاد ہے۔ مصرع ثانی کی مطابقت سے تو یوں کہنا چاہیے کہ شب کو یونہی جانے دے یعنی زندگی کو یونہی گزرنے دے۔ یونہی مت جانے دے سے تو مطلب یہ نکلتا ہے کہ کچھ جدوجہد کی جائے ، کچھ ایکشن کیا جائے ، خالی نہ بیٹھا جائے۔

دوم: جس طرح کوئی لفظ کسی خاص سیاق و سباق میں کثرتِ استعمال سے علامت یا استعارے کی حیثیت اختیار کرجاتا ہے اسی طرح دو لفظوں کا جوڑی کی صورت میں باہم استعمال بھی علامت یا استعارے کے درجے پر پہنچ جاتا ہے۔ ہماری شعری روایت میں شب اور سحر کی مثال اسی طرح کی ہے۔ اس تناظر میں شب سے مراد عہدِ ظلم و ستم ، دورِ ظلمت ، استیصال وغیرہ اور سحر سے مراد آزادی یا نجات ہوتا ہے۔ چنانچہ مصرع اول کا بیانیہ غیرضروری ابہام پیدا کررہا ہے ۔ یہ مصرع پڑھنے کے بعد دوسرے مصرع کو اس سے مربوط کرنا مشکل ہورہا ہے ۔ میری ناقص رائے میں اظہارِ مدعا کے لیے محض شب کے بجائے روز و شب ، دن رات یا اسی قسم کا اور کوئی اظہاریہ استعمال کیا جائے تاکہ مصرعِ ثانی سے مطابقت اور ربط پیدا ہوجائے ۔
مفصل تبصرے کا شکریہ، کوئی متبادل تلاش کرتا ہوں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اچھی غزل ہے قریشی صاحب، بہت خوب۔

مطلع کا مصرع ثانی بہت ہی خوبصورت اور رواں ہے، ایسے مصرعے قسمت ہی سے عطا ہوتے ہیں، اس کا "کفو" بھی کچھ ایسا ہی ہو تو نورً علیٰ نور ہو جائے۔ :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مفصل تبصرے کا شکریہ، کوئی متبادل تلاش کرتا ہوں۔
آپ تو یقیناً بہتر متبادل وضع کرلیں گے ۔ علی وقار کی تشریح پڑھتے ہی ایک مصرع فوراً وارد ہوگیا تھا ۔ ریحان بھائی ، کوئی تجویز دینا مقصود نہیں بس یوں سمجھ لیجیے کہ خوبصورت مصرعِ ثانی پر ایک برجستہ گرہ لگ گئی ہے مجھ سے۔ :)
پیکرِ گِل کو ہواؤں میں بکھر جانے دے
زندگی جیسے گزرتی ہے گزر جانے دے
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
وقعت کی جگہ صورت کا لفظ چل سکتا ہے؟ ایک طالب علمانہ سوال ہے ظہیر بھائی۔
بالکل چل سکتا ہے ، علی بھائی ۔ ایک مفہوم کو ادا کرنے کے لیے ایک سے زیادہ الفاظ کا میسر ہونا عام بات ہے ۔ اب یہ شاعر کی اپنی صوابدید پر ہے کہ وہ کس لفظ کا انتخاب کرتا ہے۔ اس انتخاب کےپسِ پردہ جو عوامل کارفرما ہوتے ہیں ان میں لفظ کی connotation، صوتی تاثر ، شعرکے دیگر الفاظ سے مطابقت ، التزامِ رعایت اور شاعر کا اپنا اسلوب وغیرہ شامل ہیں ۔
 
Top