زرد پتے از قلم ایس ایس ساگر

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ایک پرانی تحریر پیش خدمت ہے۔ ہمیشہ کی طرح احباب کی طرف سے اصلاح و رہنمائی کا انتظار رہے گا۔ شکریہ۔

خزاں کا موسم تھا۔درختوں سے پتے جَھڑ رہے تھے۔ بل کھاتی سڑک کے دونوں جانب ٹنڈ منڈ درخت صف باندھے کھڑے تھے ۔اِردگرد زرد پتوں کے ڈھیرلگے تھے۔ شاخوں سے پتے ٹوٹتے، پل بھر کو ہوا کے دوش پہ رقص کرتے اور پھر بے دم ہو کر اِدھر اُدھر بکھر جاتے۔ میں گھر سے چہل قدمی کرنے نکلا تھا۔شام کاحسیں وقت تھا۔ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں۔ میں قدرت کے دلفریب نظاروں میں کھویاسڑک کنارے آہستہ آہستہ چلا جا رہاتھا۔ میرے پیروں کے نیچےسُوکھے پتےچرچراہٹ سی پیدا کررہے تھے اور میں انہیں مسلتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔
اچانک ایک پھیلے ہاتھ نے میرا راستہ روک لیا۔میرے قدم جم گئے۔ نگاہ اُٹھائی تو حیرت کا جھٹکا لگا۔میرے سامنے ایک معصوم سابچہ کھڑا تھا، جس کی عُمر بمشکل نو دس سال ہوگی ۔حیرت مجھے اس کی حالت دیکھ کر ہوئی۔ اندر کودھنسی ہوئی چھوٹی سی بےنورآنکھیں ، جن سے انجانا درد جھلک رہا تھا۔ پچکے ہوئے رخسار، جو بھوک و افلاس کی کھُلی نشانی تھے ۔ گردآلُود، اُلجھے ہوئے بال ، جنہیں ماں کے ہاتھوں سنورے شاید زمانہ بیت گیا تھا۔بدن پر کپڑوں کی جگہ چیتھڑےلٹک رہےتھے۔بچے کی حالت دیکھ کر مجھےپہلی بار یہ احساس ہوا کہ پیڑوں کی طرح بعض بچپن بھی کس قدر خزاں رسیدہ ہوتے ہیں۔
ابھی میری نظریں اُس بچے کے چہرے کا طواف کر رہی تھیں کہ اس جیسی شکل و صورت کا مالک ایک اور معصوم بچہ قریب آ کھڑا ہوا۔ اگرچہ وہ عمر میں کچھ چھوٹامعلوم ہوتا تھا لیکن اس کی حالت پہلے والے بچےسے چنداں مختلف نہ تھی۔ شاید وہ دونوں بھائی تھے۔"تم دونوں بھائی ہو ؟ "۔ بے اختیار میں نے پوچھ لیا۔ ہاں ، بابوجی! ہم دونوں بھائی ہیں۔ پہلے والےبچے نےجواب دیا۔ تمہارا نام کیا ہے؟ میں نے پھرسوال کیا۔ میرا نام ساجھُوہے بابوجی!۔ اُسی بچے نے جواب دیا۔میرے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ اپنے اصل نام سے مکمل طور پر لا علم تھا ۔ شاید کبھی کسی نے اسے اصلی نام سے پکارنے کی زحمت گوارہ نہیں کی تھی۔ "بھائی! مجھے بھُوک لگی ہے۔" چھوٹےبچےنے اچانک اپنے بڑے بھائی کا ہاتھ تھام لیا۔"صبرکرو بھائی! گھرجا کر ہی کھانے کو کچھ ملے گا۔ اگر مانگے ہوئے پیسوں سے میں نے تمہیں کچھ لے دیا تو بابا بہت مارے گا۔"ساجھُونے پیار سے چھوٹے بھائی کو سمجھایا تو اُس کی بات اثر کر گئی اور وُہ چپ ہو رہا۔ "بیٹا! تم بھیک کیوں مانگتے ہو؟۔ یہ تو تمہارے کھیلنے کُودنے اور پڑھنے لکھنے کے دن ہیں؟" میں نے ہمدردی سے پوچھا۔
اُسی لمحے ایک طرف سے شور سنائی دیا۔چند بچے ہاتھوں میں فٹبال تھامےسڑک کے بیچ و بیچ اٹکھیلیاں کرتے ہمارے پاس سے گزرتے چلے گئے۔ بچوں کواُچھلتے کودتے دیکھ کر وہ دونوں بھائی حسرت زدہ نظروں سے انہیں دُور جاتا ہوا دیکھنے لگے۔ "کھیلنا اور پڑھنا لکھنا ہمارے مقدر میں کہاں بابوجی! با با کہتا ہےکہ یہ امیر زادوں کا کام ہے۔ہمارے نصیب میں توصرف بھیک مانگنا لکھا ہے۔ ساجھُو نے سرد آہ بھری۔ کیا تمہاری ماں بھی یہی کہتی ہے؟ میرے سوال پرساجھُوکے چہرے پر کرب کے آثار نمودار ہو نے لگے۔ وہ دھیمے لہجے میں بولا۔ ماں ہمیں چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ چلی گئی ہے۔ بابا نشے کا عادی ہے۔ اُس کا نشہ پورا کرنے کے لیے ہم سارا دن سڑکوں پر بھیک مانگتے ہیں ۔ اس کے باوجود وہ ہم سے خوش نہیں ہوتا۔ ہر وقت غصہ میں رہتااورہمیں مارتا بھی ہے۔ اگر کسی دن بھیک کم ملے تو کھانے کو روٹی بھی نہیں ملتی۔"ساجھو نے روہانسے لہجے میں کہا۔ اس کی باتیں سن کر مجھےیوں لگ رہا تھا جیسے میرے سامنے کسی معصوم بچے کے بجائے کوئی ساٹھ ستر سال کا بوڑھا کھڑا ہو۔ میں اس امر پرحیران تھا کہ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کو بھی والدین کا درجہ حاصل ہے جو خوداپنےہاتھوں اپنے بچوں کے مستقبل کا گلا گھونٹ رہے ہیں ۔
اچانک ایک ریڑھی والا قریب سے صدا لگاتا ہوا گزرا تو میں چونک گیا۔میں نے ریڑھی والےسے کچھ پھل خرید کر بچوں کودئیےتاکہ وہ اپنا پیٹ بھر سکیں ۔ وہ بیچارے نجانے کب سے بھوکے تھے کہ منٹوں میں سب کچھ چٹ کر گئے۔اب وہ شکر گزار نظروں سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ "تمہارا جی چاہتا ہے بھیک مانگنے کو؟"۔ انہیں اپنی طرف متوجہ پا کر میں نے ایک بے تُکا سا سوال کر دیا۔جواب میری توقع کے عین مطابق ملا۔ "کس کا جی چاہتا ہے بابوجی! کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کو ؟مگرمجبوری سب کچھ کروادیتی ہے۔ بابا کہتا ہے کہ ہم اپنے نصیب کے قیدی ہیں ۔ چاہنے کے باوجود بدنصیبی سے پیچھا نہیں چھڑا سکتے۔ ہم لوگ پیدا ہی بھیک مانگنے کے لیے ہوئے ہیں "۔ ساجھو کے لہجےمیں گہری افسردگی کا عنصر غالب تھا۔اُس کا چھوٹا بھائی خاموش کھڑا اِدھر اُدھرگھومتے خوشنما لباس میں ملبوس بچوں کو حسرت بھری نگاہوں سے تک رہا تھا۔ میں بھی اب چپ تھا۔ ساجھوکی باتیں میری روح کو بری طرح گھائل کر چکی تھیں۔ سچ یہ ہے کہ اس دن میں مزیدسوال کرنے کی ہمت کھو بیٹھا تھا۔ سوچ رہا تھاکہ بچوں کی دنیا تو تتلیوں اور رنگوں سے عبارت ہوتی ہے۔ پھرنجانے وہ کیسے باغباں تھے جنہوں نے کھلنے سےقبل ہی معصوم غنچوں کو پیام ِ خزاں سنا دیا۔
میں نے جیب سے کچھ رقم نکال کر بچوں کے ہاتھوں میں تھما دی ۔ اگرچہ میں جانتا تھا کہ یہ رقم نشے کی بھینٹ چڑھ جائے گی ۔ مگراس کے سوا میں کر بھی کیا سکتا تھا؟ مجھے تو محض پھیلے ہاتھوں کا مان رکھنا تھا۔ اُسی وقت اچانک چھوٹےبچے نے اپنا ایک ہاتھ سینے پر رکھ لیا۔ اس کے چہرے پر تکلیف کے آثار نمودار ہونے لگے۔پھر اُسے کھانسی کا شدید دورہ پڑا۔ میں نے بڑھ کر اُسے سنبھالا۔ اس کا زردی مائل چہرہ مزید پیلا پڑ گیا تھا۔ "کیا ہوا اِسے ؟" میں نےساجھو سے پوچھا۔ " کچھ نہیں بابوجی! یہ بیمار ہے۔ اِسے اکثر ایسے دورے پڑتے ہیں۔ساجھو نے درد بھرے لہجے میں کہا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگےتھے۔کیا تمہارےبابا کو اِس کی بیماری کا علم نہیں؟۔ میرا سینہ اُس معصوم کی حالت دیکھ کرغم سے پھٹا جا رہا تھا۔ "معلوم ہے بابوجی!۔ مگر ہمارے پاس علاج کے لیےپیسے کہاں ہیں۔جو پیسے ہم بھیک مانگ کر اکٹھے کرتے ہیں ۔ وہ بابا اپنے نشے پر خرچ کر دیتا ہے۔"ساجھو اب رو رہا تھا۔ میں بے بسی کی تصویر بنا خاموش کھڑا تھا ۔ اُس وقت میں اُن بچوں سے زیادہ مفلس تھا ۔ میرے پاس اُنہیں جھوٹی تسلی دینے کے لیے چندالفاظ بھی نہیں تھے۔ ساجھوکے بھائی کی طبعیت اب قدرےسنبھل گئی تھی۔ "چلو بھائی۔" اچانک ساجھو نے چھوٹے بھائی کا ہاتھ تھام لیا اور پھروہ دونوں تیزی سے چلتے ہوئے میری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ میں سر جھکائے واپس گھر کی طرف چل پڑا۔ احساسِ بےبسی سے میری آنکھیں پرنم تھیں۔میرے اردگرد زرد پتے رقصاں تھے اورمیں سوچ رہا تھا کہ ہمارے معاشرے میں نجانے کتنے ایسےبچے ہیں جواپنے والدین کی لاپرواہی اور بے اعتنائی کا شکا ر ہیں۔ وہ ایسے زرد پتے تھے، جو تاحال شجرِ زیست سے پیوستہ تھے مگر کوئی نہیں جانتا کہ کب نامساعد حالات کی ہوا کا کوئی بدمست جھونکا انہیں موت کی وادی میں اُڑا لے جائے۔ اے کاش، اُس ایک بدنصیب لمحے کی آمد سے پہلے، ہم ان تمام بچوں کی اُداس آنکھوں میں خوشی کے رنگ بھر دیں اور ان کے لبوں کو مسکرانا سکھا دیں ۔ تبھی ہم اپنی دنیا کوخزاں رسیدہ ہونے سے بچا سکتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
اچھی تحریر ہے ماشاءاللہ۔۔۔
ہماری بہت سی معاشرتی برائیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعضے ایسے والدین اپنے ہی بچوں سے برا سلوک کرتے ہیں۔ کچھ خبریں آپ نے بھی سن رکھی ہوں گی کہ والدین اپنے ہی بچوں کو بیچ رہے ہوتے ہیں۔ خدا جانے یہ بے حسی ہے، کم ہمتی ہے یا کیا ہے۔ اللہ ہدایت دے ایسے والدین اور ان تمام اہلِ ثروت کو بھی جو زکوٰۃ، عشر، صدقہ اور خیرات کر سکتے ہیں لیکن نہیں کرتے۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
اچھی تحریر ہے ماشاءاللہ۔۔۔
حوصلہ افزائی کے لیے ممنون ہوں بھائی۔ سلامت رہیئے۔
ہماری بہت سی معاشرتی برائیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعضے ایسے والدین اپنے ہی بچوں سے برا سلوک کرتے ہیں۔ کچھ خبریں آپ نے بھی سن رکھی ہوں گی کہ والدین اپنے ہی بچوں کو بیچ رہے ہوتے ہیں۔ خدا جانے یہ بے حسی ہے، کم ہمتی ہے یا کیا ہے۔ اللہ ہدایت دے ایسے والدین اور ان تمام اہلِ ثروت کو بھی جو زکوٰۃ، عشر، صدقہ اور خیرات کر سکتے ہیں لیکن نہیں کرتے۔
آپ نے بالکل درست فرمایا۔ اگر والدین غربت کے ہاتھوں تنگ آ کراپنے بچوں کو بیچنے پر مجبور ہو چکے ہیں تو پھر معاشرے کے مالدار طبقے پر یہ ذمہ داری عائد ہو تی ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آگے آئیں اور غریب پروری کا مظاہرہ کریں۔ اللہ تعالٰی ہم سب کے دلوں کو اپنی ہدایت کے نور سے منور فرمائے آمین۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
آپ بہت اچھا لکھتے ہیں ایس ایس ساگر بھائی۔۔۔ بہت زیادہ اچھا لکھتے ہیں۔۔۔ میں نے مدت ہوئی سنجیدہ لکھنا بالکل ہی چھوڑ دیا ہے۔۔۔ لیکن آپ کی اس تحریر سے مجھے بےاختیار اپنی ایک پرانی چھوٹی سی تحریر یاد آگئی۔۔۔۔ بھوک ڈھل نہیں سکتی
 

صابرہ امین

لائبریرین
کیا ہی حساس قلم ہے آپ کا۔ ایک اچھی تحریر ۔
ہمارے معاشرے میں جابجا ایسے واقعات عام ہوتے جارہے ہیں ۔ کاش یہ سب کچھ بدلے۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
آپ بہت اچھا لکھتے ہیں ایس ایس ساگر بھائی۔۔۔ بہت زیادہ اچھا لکھتے ہیں۔۔۔ میں نے مدت ہوئی سنجیدہ لکھنا بالکل ہی چھوڑ دیا ہے۔۔۔ لیکن آپ کی اس تحریر سے مجھے بےاختیار اپنی ایک پرانی چھوٹی سی تحریر یاد آگئی
ذرہ نوازی ہے بھائی آپ کی۔ اس عزت افزائی پر تہہ دل سے ممنون ہوں۔ آپ کی تحریر بھوک ڈھل نہیں سکتی پڑھی ۔ دل پر بہت اثر ہوا۔ بہترین تحریر تھی آپ کی۔ اللہ آپ پر اپنی رحمتوں کا نزول رکھیں۔ آمین۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
کیا ہی حساس قلم ہے آپ کا۔ ایک اچھی تحریر ۔
بہت شکریہ صابرہ امین بہنا!
اللہ آپ کو خوش رکھے۔ آمین۔
ہمارے معاشرے میں جابجا ایسے واقعات عام ہوتے جارہے ہیں ۔ کاش یہ سب کچھ بدلے۔
سچ کہا آپ نے۔ یہ بہت تکلیف دہ ہے۔ اللہ سب کے لیے آسانیاں فرمائیں۔ آمین۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ساگر ، اچھی کہانی لکھی ہے ۔ غربت اور افلاس کی تصویر کشی تو اب اردو کی بیشتر کہانیوں کا عام موضوع بن چکا ہے ۔ اس طرح کی کہانی قاری میں ترحم کے جذبات کو بیدار کرتی ہے ، معاشی عدم مساوات کا احساس دلاتی ہے ۔ مسائل کی نشاندہی بذاتِ خود کوئی چھوٹی بات نہیں بلکہ یہ نشاندہی مسائل کے حل کی طرف پہلا قدم ہوتی ہے ۔ لیکن صرف مسئلے کی مسلسل نشاندہی کرتے رہنے سے بات نہیں بنتی۔ صحافت بھی کم و بیش یہی کام کرتی ہے ۔ اچھا ادب ان خبر وں کو ادبی انداز میں پیش کرتے ہوئے مسائل کے حل کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے ۔ خیر ، یہ موضوع تفصیل طلب ہے ۔ اور اس پر پہلے بھی کہیں تفصیلاً لکھ چکا ہوں ۔ یاد آگیا تو ربط مہیا کروں گا۔
بطور نقد و نظر کچھ باتوں کی طرف توجہ دلاؤں گا۔ درختوں کو ٹنڈ منڈ کہنے کے بعد ان کی شاخوں سے مسلسل پتے جھڑنے کا ذکر ٹھیک نہیں ۔ ٹنڈ منڈ تو پتوں سے بالکل ہی بے نیاز درخت کو کہا جاتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ نو دس سالہ بھکاری بچوں کے جو کردار آپ نے تخلیق کیے ہیں ان کے مکالمے ان سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ان مکالموں کی زبان فصیح اور پڑھے لکھے بالغ لوگوں کی زبان ہے ۔
میری ناقص رائے میں اس کے بجائے اگر ان کے چہرے کے تاثرات اور باڈی لینگویج کو بیان کرتے ہوئے کچھ ٹوٹے پھوٹے فقرے کہلوائے جائیں تو یہ تفصیلی مکالموں کی نسبت بہتر اور زیادہ مؤثر ہوگا۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بطور نقد و نظر کچھ باتوں کی طرف توجہ دلاؤں گا۔ درختوں کو ٹنڈ منڈ کہنے کے بعد ان کی شاخوں سے مسلسل پتے جھڑنے کا ذکر ٹھیک نہیں ۔ ٹنڈ منڈ تو پتوں سے بالکل ہی بے نیاز درخت کو کہا جاتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ نو دس سالہ بھکاری بچوں کے جو کردار آپ نے تخلیق کیے ہیں ان کے مکالمے ان سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ان مکالموں کی زبان فصیح اور پڑھے لکھے بالغ لوگوں کی زبان ہے ۔
میری ناقص رائے میں اس کے بجائے اگر ان کے چہرے کے تاثرات اور باڈی لینگویج کو بیان کرتے ہوئے کچھ ٹوٹے پھوٹے فقرے کہلوائے جائیں تو یہ تفصیلی مکالموں کی نسبت بہتر اور زیادہ مؤثر ہوگا۔
آپ اس طرح رہنمائی بہت کم کرتے ہین۔۔۔۔ جزاکم اللہ خیرا کثیرا۔۔۔ اس میں مجھ ایسوں کے لیے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آپ اس طرح رہنمائی بہت کم کرتے ہین۔۔۔۔ جزاکم اللہ خیرا کثیرا۔۔۔ اس میں مجھ ایسوں کے لیے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔
اس کی کئی وجوہات ہیں ، نین بھائی۔ ایک تو یہ کہ تفصیلی اور تجزیاتی تبصرے لکھنے کے لیے وقت کی کمی اکثر درپیش ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ اب عموماً نثر میں سے اختصار غائب ہوتا جارہا ہے ۔ سوئم یہ کہ شاعری پر لکھنا نسبتاً آسان لگتا ہے۔ :D
ویسے بات آپ کی بالکل صحیح ہے ۔ نثر پر تنقید کی سخت ضرورت ہے ۔ اب بات چھڑ ہی گئی ہے تو ایک دو نکات عرض کرتا ہوں ۔
سوش میڈیا کی وجہ سے دورِ حاضر میں Social Normalization ایک بڑی اور بھیانک حقیقت بن گئی ہے (معذرت کہ اس اصطلاح کا مناسب اردو متبادل نہیں سوجھ رہا)۔ ہر وقت اور ہر جگہ سو سو طرح سے مفلسی ،بھیک ، عسرت اور فقر و فاقہ کی تصویر کشی کرنا اسے نارمل بنادیتا ہے ۔ بالکل ایسے ہی جیسے اب بم دھماکوں ، فائرنگ اور قتل و غارت کی خبریں خبریں نہیں رہیں بلکہ عام زندگی کا "فطری" حصہ بن گئی ہیں۔ ہر خاص و عام ایک کان سے سن کر دوسرے سے باہر نکال دیتا ہے ۔ اس نارملائزیشن کا ایک منطقی انجام Learned Helplessness کی صورت میں نکلتا ہے ۔ یعنی مفلسی ، بھیک ، جہالت وغیرہ کو مسائلِ لاینحل سمجھ لیا جاتا ہے ۔ یہ مسئلے پھر مسئلے نظر نہیں آتے بلکہ عام زندگی کا نارمل حصہ نظر آتے ہیں ۔ ان مسائل کے حل موجود ہوتے ہوئے بھی ہم انہیں تلاش نہیں کرتے ۔ قدرت کا نظام اور قسمت کی بات کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں ۔ یہ بہت خطرناک روش ہے ۔ ہمارے معاشرے کی تنزلی میں اس کا بڑا ہاتھ ہے ۔ بدقسمتی سے عصری ادب اس صورتحال کو بہتر بنانے کے بجائے اس self helplessness کو غیر ارادی طور پر راسخ کرنے میں کوشاں نظر آتا ہے ۔ ایک اچھے ادیب کے لیے انسانی نفسیات کے علاوہ معاشرتی نفسیات اور sociology کے بنیادی اصولوں سے واقفیت بھی ضروری ہے۔ اس کے بغیر معیاری اور دیرپا ادب تخلیق کرنا مشکل ہے ۔ پچھلی صدی کے اکثر روسی ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں کو اس ضمن میں مثبت مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
بہت حساس تحریر ساگر بھیا ۔
لوگوں کو دوسروں کی تکلیفوں سے کم تکلیف پہنچتی ہے ۔بڑا تکلیف دہ و تلخ موضوع ہے ۔بچوں کو مشکل حالات بہت بڑا بنادیتے ہیں ۔بڑی خوبصورتی سے آپ نے اس معاشرتی بُرائی کی عکاسی کی ہے ۔غربت اور پھر نشہ کیا کیا کرواتا ہے ۔
جیتے رہیے ۔بہت ساری دعائیں ۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اس کی کئی وجوہات ہیں ، نین بھائی۔ ایک تو یہ کہ تفصیلی اور تجزیاتی تبصرے لکھنے کے لیے وقت کی کمی اکثر درپیش ہوتی ہے۔ دوسرے یہ کہ اب عموماً نثر میں سے اختصار غائب ہوتا جارہا ہے ۔ سوئم یہ کہ شاعری پر لکھنا نسبتاً آسان لگتا ہے۔ :D
ویسے بات آپ کی بالکل صحیح ہے ۔ نثر پر تنقید کی سخت ضرورت ہے ۔ اب بات چھڑ ہی گئی ہے تو ایک دو نکات عرض کرتا ہوں ۔
سوش میڈیا کی وجہ سے دورِ حاضر میں Social Normalization ایک بڑی اور بھیانک حقیقت بن گئی ہے (معذرت کہ اس اصطلاح کا مناسب اردو متبادل نہیں سوجھ رہا)۔ ہر وقت اور ہر جگہ سو سو طرح سے مفلسی ،بھیک ، عسرت اور فقر و فاقہ کی تصویر کشی کرنا اسے نارمل بنادیتا ہے ۔ بالکل ایسے ہی جیسے اب بم دھماکوں ، فائرنگ اور قتل و غارت کی خبریں خبریں نہیں رہیں بلکہ عام زندگی کا "فطری" حصہ بن گئی ہیں۔ ہر خاص و عام ایک کان سے سن کر دوسرے سے باہر نکال دیتا ہے ۔ اس نارملائزیشن کا ایک منطقی انجام Learned Helplessness کی صورت میں نکلتا ہے ۔ یعنی مفلسی ، بھیک ، جہالت وغیرہ کو مسائلِ لاینحل سمجھ لیا جاتا ہے ۔ یہ مسئلے پھر مسئلے نظر نہیں آتے بلکہ عام زندگی کا نارمل حصہ نظر آتے ہیں ۔ ان مسائل کے حل موجود ہوتے ہوئے بھی ہم انہیں تلاش نہیں کرتے ۔ قدرت کا نظام اور قسمت کی بات کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں ۔ یہ بہت خطرناک روش ہے ۔ ہمارے معاشرے کی تنزلی میں اس کا بڑا ہاتھ ہے ۔ بدقسمتی سے عصری ادب اس صورتحال کو بہتر بنانے کے بجائے اس self helplessness کو غیر ارادی طور پر راسخ کرنے میں کوشاں نظر آتا ہے ۔ ایک اچھے ادیب کے لیے انسانی نفسیات کے علاوہ معاشرتی نفسیات اور sociology کے بنیادی اصولوں سے واقفیت بھی ضروری ہے۔ اس کے بغیر معیاری اور دیرپا ادب تخلیق کرنا مشکل ہے ۔ پچھلی صدی کے اکثر روسی ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں کو اس ضمن میں مثبت مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔
بڑی قیمتی باتیں ہیں۔۔۔۔ جزاکم اللہ خیرا کثیرا۔۔۔ موضوع پر بات آگے بڑھاتے ہوئے کہنا یہ چاہوں گا کہ آج کے ادیب کے مسائل بھی کچھ کچھ بیاں کر سکیں تو سہولت ہو جائے گی۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بڑی قیمتی باتیں ہیں۔۔۔۔ جزاکم اللہ خیرا کثیرا۔۔۔ موضوع پر بات آگے بڑھاتے ہوئے کہنا یہ چاہوں گا کہ آج کے ادیب کے مسائل بھی کچھ کچھ بیاں کر سکیں تو سہولت ہو جائے گی۔
قیمتی باتیں مفت میں تو نہیں ملیں گی ناں ، ذوالقرنین۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنی کسی تازہ تحریر کی صورت میں پیشگی دام ادا کریں۔ قلم جنبانی فرمائیے ، حضرت! :)
مزاح برطرف، آج کے ادیب کے مسائل کم و بیش وہی ہیں جو ہمیشہ سے دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں یعنی حساس لوگوں کے رہے ہیں ۔ دو تین نئے مسائل جو سوشل میڈیا اور معاشرے میں تعلیم و تربیت کی کمی نے پیدا کردیئے ہیں وہ اس پر مستزاد ہیں ۔ سوشل میڈیا ویسے تو ایک نام ہے لیکن اس ایک نام میں کئی قسم کے پیچیدہ مسائل پوشیدہ ہیں: فوری تسکین و تحسین کی خواہش ، راتوں رات شہرت کی طلب ( وائرل ہوجانا :)) ، اندر کی آواز کے بجائے قارئین کو خوش کرنے کے لیے لکھنا ، کسبِ علم و ہنر سے گھبرانا، ریاض سے جی چرانا وغیرہ ان مسائل میں سے چند ہیں۔ نین بھائی ، یہ باتیں تفصیل طلب ہیں ، مونولاگ سے زیادہ مکالمے کی متقاضی ہیں۔ سو بشرطِ فرصت ان پر بات ہوتی رہے گی۔
مجتبیٰ حسین کا "اردو کا آخری قاری" نامی مضمون اگر نظر سے نہ گزرا ہو تو پڑھنے لائق ہے۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
ساگر ، اچھی کہانی لکھی ہے ۔ غربت اور افلاس کی تصویر کشی تو اب اردو کی بیشتر کہانیوں کا عام موضوع بن چکا ہے ۔ اس طرح کی کہانی قاری میں ترحم کے جذبات کو بیدار کرتی ہے ، معاشی عدم مساوات کا احساس دلاتی ہے ۔ مسائل کی نشاندہی بذاتِ خود کوئی چھوٹی بات نہیں بلکہ یہ نشاندہی مسائل کے حل کی طرف پہلا قدم ہوتی ہے ۔ لیکن صرف مسئلے کی مسلسل نشاندہی کرتے رہنے سے بات نہیں بنتی۔ صحافت بھی کم و بیش یہی کام کرتی ہے ۔ اچھا ادب ان خبر وں کو ادبی انداز میں پیش کرتے ہوئے مسائل کے حل کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے ۔ خیر ، یہ موضوع تفصیل طلب ہے ۔ اور اس پر پہلے بھی کہیں تفصیلاً لکھ چکا ہوں ۔ یاد آگیا تو ربط مہیا کروں گا۔
بطور نقد و نظر کچھ باتوں کی طرف توجہ دلاؤں گا۔ درختوں کو ٹنڈ منڈ کہنے کے بعد ان کی شاخوں سے مسلسل پتے جھڑنے کا ذکر ٹھیک نہیں ۔ ٹنڈ منڈ تو پتوں سے بالکل ہی بے نیاز درخت کو کہا جاتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ نو دس سالہ بھکاری بچوں کے جو کردار آپ نے تخلیق کیے ہیں ان کے مکالمے ان سے مطابقت نہیں رکھتے۔ ان مکالموں کی زبان فصیح اور پڑھے لکھے بالغ لوگوں کی زبان ہے ۔
میری ناقص رائے میں اس کے بجائے اگر ان کے چہرے کے تاثرات اور باڈی لینگویج کو بیان کرتے ہوئے کچھ ٹوٹے پھوٹے فقرے کہلوائے جائیں تو یہ تفصیلی مکالموں کی نسبت بہتر اور زیادہ مؤثر ہوگا۔
ظہیر بھائی۔حوصلہ افزائی کے لیے تہہ دل سے آپ کا شکر گزار ہوں۔ آپ کی باتیں میرے لیے کسی مشعل راہ سے کم نہیں ۔ یقیناًیہ بہتر لکھنے میں میری معاون ثابت ہوں گی۔ اللہ آپ کو اجرِ عظیم عطا فرمائیں۔ آئندہ بھی رہنمائی کا خواہشمند رہوں گا۔ سلامت رہیئے۔ آمین۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
بہت حساس تحریر ساگر بھیا ۔
لوگوں کو دوسروں کی تکلیفوں سے کم تکلیف پہنچتی ہے ۔بڑا تکلیف دہ و تلخ موضوع ہے ۔بچوں کو مشکل حالات بہت بڑا بنادیتے ہیں ۔بڑی خوبصورتی سے آپ نے اس معاشرتی بُرائی کی عکاسی کی ہے ۔غربت اور پھر نشہ کیا کیا کرواتا ہے ۔
جیتے رہیے ۔بہت ساری دعائیں ۔
بہت مہربانی آپ کی آپا۔ آپ کی باتوں سے ہمیشہ حوصلہ ملتا ہے۔ بہت نوازش۔
اللہ پاک آپ کو صحت وتندرستی والی لمبی عمر عطا فرمائیں۔ آمین۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
قیمتی باتیں مفت میں تو نہیں ملیں گی ناں ، ذوالقرنین۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنی کسی تازہ تحریر کی صورت میں پیشگی دام ادا کریں۔ قلم جنبانی فرمائیے ، حضرت! :)
مزاح برطرف، آج کے ادیب کے مسائل کم و بیش وہی ہیں جو ہمیشہ سے دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں یعنی حساس لوگوں کے رہے ہیں ۔ دو تین نئے مسائل جو سوشل میڈیا اور معاشرے میں تعلیم و تربیت کی کمی نے پیدا کردیئے ہیں وہ اس پر مستزاد ہیں ۔ سوشل میڈیا ویسے تو ایک نام ہے لیکن اس ایک نام میں کئی قسم کے پیچیدہ مسائل پوشیدہ ہیں: فوری تسکین و تحسین کی خواہش ، راتوں رات شہرت کی طلب ( وائرل ہوجانا :)) ، اندر کی آواز کے بجائے قارئین کو خوش کرنے کے لیے لکھنا ، کسبِ علم و ہنر سے گھبرانا، ریاض سے جی چرانا وغیرہ ان مسائل میں سے چند ہیں۔ نین بھائی ، یہ باتیں تفصیل طلب ہیں ، مونولاگ سے زیادہ مکالمے کی متقاضی ہیں۔ سو بشرطِ فرصت ان پر بات ہوتی رہے گی۔
مجتبیٰ حسین کا "اردو کا آخری قاری" نامی مضمون اگر نظر سے نہ گزرا ہو تو پڑھنے لائق ہے۔
پطرس کا ایک مضموں بھی ہے آج کا ادیب کے نام سے۔۔۔ خیر اس کے آج میں تو فیض اور ن م راشد جیسے لوگ تھے۔۔۔۔
 
Top