زبان ہے تو جہان ہے - نادر خان سَرگِروہ - مقیم مکہ مکرمہ

کاشفی

محفلین
زبان ہے تو جہان ہے
(نادِر خان سَر گِروہ ۔۔۔۔۔ مقیم مکہ مکرمہ)

با ادب با محاورہ ۔۔۔ ہوشیار!!!
آج ہم زبان پر کُچھ کہنے جا رہے ہیں۔۔۔ عجیب بات ہے نا۔۔ ۔ زبان سے یا تو کُچھ کہا جا سکتا ہے ۔۔۔ یا پھِر کسی زبان میں کُچھ کہا جا سکتا ہے۔اگر ہم زبان پر کچھ کہیں گے تو آپ زبان پر حرف لائیں گے۔
بات جب زبان کی چل نکلی ہے تو ذرا زبان پر زبان چلائی جائے۔ زبان کی بہت سی قِسمیں ہیں۔۔ ۔ مثال کے طور پر۔۔۔ موٹی زباں۔۔۔ لمبی زبان۔۔۔ میٹھی زبان۔۔۔ تِیکھی زبان۔۔۔ اور کڑوی زبان۔
جانوروں کی بھی اپنی زبان ہوتی ہے۔پھِر بھی ہم اُنھیں۔۔۔ بے زبان کہتے ہیں۔ اگر ہمیں۔۔۔ چینیوں کی زبان سمجھ نہ آئے تو کیا ہم اُنھیں۔۔۔بے زُبان کہیں گے۔۔؟؟۔چین میں سب کچھ بنتا ہے۔۔ ۔سب سے زیادہ انسان بھی وہیں بنتے ہیں۔۔۔ اورسب کے سب ایک جیسے ۔
سب چینی صرف چینی بولتے ہیں۔۔۔ چینی زبان میں سے اگر حرف ۔۔۔ "چ "۔۔۔ نکال دیا جاے تو کوئی بھی چینی ۔۔۔ چینی نہ بول سکے گا۔ ”بولنا تو دُور کی بات ، وہ ۔۔۔ چُوں ۔۔۔بھی نہ کر سکے گا“
اِن بے زبان سمجھے جانے والے چوپایوں کا ہماری زبان میں بہت بڑا ہاتھ ہے۔۔۔ ہماری بے شُمار ضرب الامثال ، مُحاورے اور کہاوتیں۔۔۔ اِن ہی۔۔۔ چِرند و پرِند کی مرہُونِ مِنت ہیں۔
مثال کے طور پر۔۔۔۔
آ بیل مجھے مار۔
بلی کے خواب میں چھیچھڑے۔
بندر بانٹ۔
ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دِکھانے کے اور۔
اونٹ پہاڑ کے نیچے۔
گدھے کے سر سے سینگ۔۔۔۔
گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا؟
وغیرہ وغیرہ۔۔۔ اور۔۔۔وغیرہ۔
شُکر ہے جانور پڑھنا لِکھنا نہیں جانتے۔۔۔ ورنہ آج وہ سب مِل کر یہ دعوہ کرتے کہ " اُردو ہماری زبان ہے"۔
کاش ۔۔۔ کہ وہ پڑھنا لِکھنا جانتے۔ کوئی تو ہوتا جو یہ دعوہ کرتا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ " اُردو ہماری زبان ہے"۔
دُنیا کی ہر مخلوق منہ میں زبان رکھتی ہے۔ا گر یہ زبان نہ ہوتی تو دُنیا میں کوئی زبان نہ ہوتی۔ جب دُنیا میں کوئی زبان نہ ہوتی تو۔۔۔عورتوں کی زبان تالُو سے لگی رہتی۔ نہ بات پیٹ میں جاتی ۔۔ ۔نہ پیٹ سے باہر آتی۔تب اُن کے کرنے کے لئے کوئی کام نہ رہتا۔ زبان نہ ہوتی تو۔۔۔ذائقہ نہ ہوتا۔
اور عورتوں کے لئے ، شوہر کے پیٹ سے اُس کے دِل کو جانے والی وہ راہ گُزر ۔۔۔ سِرے سے ہی نہ ہوتی ۔
دُنیا سیاستدانوں سے پاک رہتی۔۔۔۔۔۔بعض سیاستداں بھی عجیب ہوتے ہیں۔ بہت زبان لڑاتے ہیں۔ اب دیکھیں نا۔۔۔اردو بولنے والوں کے خلاف نفرت پیدا کی گئی۔۔۔ پنجابی کو سندھی اور بنگالی سے لڑا دِیا۔ ۔۔۔تمِل کو سِنہالی سے۔
زبان کا اپنا کوئی وزن نہیں ہوتا۔۔۔ لیکن یہ اپنے مالک کا وزن بتاتی ہے۔۔۔ بناتی ہے۔۔۔ بڑھاتی ہے اور گھٹاتی ہے۔
زبان اپنی طبعی حالت میں کبھی کروٹ نہیں بدلتی۔ لیکن دُوسری صورت میں۔۔۔کب کروٹ بدلے۔۔۔ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
کمان سے نِکلا ہُوا تِیر واپس آ سکتا ہے۔۔۔مگر زبان سے نِکلا ہُوا لفظ نہیں۔
تِیر کا کیا ہے۔۔۔ کسی کو بھیج دیں۔ اُٹھا کر لے آئے گا۔ لیکن لفظ دُھونڈ کر لانا ذرا مُشکِل ہوتا ہے۔ کیوں کہ لفظ کبھی دِل میں پیوست ہو جاتا ہے۔ تو کبھی دِماغ میں بیٹھ جاتا ہے۔
سب سے بھاری زبان ملیالم زبان ہے۔ پھِر بھی ملیالی اِسے دُنیا کے کونے کونے میں اُٹھائے پھِرتے ہیں۔۔۔۔ کہتے ہیں کہ مِریخ پر بولی جانے والی پہلی زبان یہی ہوگی۔
ایک بار ہم نے اپنے۔۔۔ کیرالا والے دوست سے عربی میں پوُچھا کہ ۔۔۔۔ "ملیالم سیکھنے کا سب سے آسان طریقہ کیا ہے ؟"۔
اُس نے بھی کُچھ عربی نُما ہندی اور کُچھ ہندی نُما عربی میں جواب دِیا کہ یہ نا مُمکن ہے۔اِس مُہِم کے لئے آپ کا کم از کم ایک بار کیرالہ میں پیدا ہونا ضروری ہے ۔ جو آپ کے بس کی بات نہیں۔
اُس کا یہ جواب سُن کر ہم نے ملیالم سیکھنے کا اِرادہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ترک کر دِیا۔کہ یہ دُنیا صِرف ایک بار ہی دیکھنے کی جگہ ہے۔ اور۔۔۔ زندگی کا سفر اتنا آسان نہیں ۔۔۔ جو بار بار کیا جائے۔
اُردو کو لشکری زبان کہا جاتا ہے۔۔۔ فوج در فوج ۔۔۔ الفاظ اِس میں داخل ہُوئے ہیں۔اب تو عالم یہ ہے کہ کثیر ملکی افواج اِس پر قابِض ہو گئیں ہیں۔۔اور اُردو کے بیشتر الفاظ جنگی قیدیوں کی مانند۔۔۔ لُغت میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔
اُردو والے اب پُوری دُنیا میں پھیل چُکے ہیں ۔اور۔۔۔اپنے اپنے لہجے میں۔۔۔اُردو کی بقاء کی بات کر رہے ہیں۔
سیلسز مینوں کی زبان چار ہاتھ کی ہونی ضروری ہے۔ اور اگر تیل بیچنا ہو تو۔۔۔ فارسی پر عبور حاصل ہونا ضروری ہے۔ وہ کہتے ہیں نا۔۔۔
سیکھو فارسی بیچو تیل ۔۔۔۔لیکن آج کل فارسی والے یورینیم افزود کر رہے ہیں ۔اور انگریزی اِس عمل پر پابندی لگانے کی کوشش میں ہے۔
کُچھ سال پہلے تک ہماری۔۔۔ اُردو ۔۔۔ بس ایسی ہی تھی۔ لیکن اِتنی بُری نہیں تھی۔۔۔ جِتنی کہ اب ہے۔
اُس زمانے میں ہم گا ہ بہ گا ہ اُردو میں مُتبادِل الفاظ کا اِضافہ کرتے رہتے تھے۔
مثلا ۔۔۔ ایسی جگہ جہاں بندروں کے جھُنڈ رہتے ہوں۔۔۔ ہم نے اُس جگہ کا نام " بندر گاہ " رکھا تھا۔
دفتر میں ہمیں ڈیوٹی کے دوران اکثر خواب دِکھائی پڑتے تھے ۔اسی لئے ہم دفتر کو۔۔۔ خواب گا ہ کہتے تھے۔ جبکہ ہمارے ایک ۔۔۔ غیر مُلکی دوست جو بڑے محنتی تھے۔۔۔ اپنے دفتر کو " عبادت گاہ " کہتے تھے۔
چڑیا گھر کا نام بھی ہم بدل دِینا چاہتے تھے۔۔۔ کیوں کہ جب جب ہم چِڑیا گھر گئے ۔۔۔ ہم نے وہاں کوئی اور ہی مخلوق دیکھی۔گھر تو چڑیا کا پر قِسم قِسم کے جانور چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں کی شکل میں وہاں خیمہ زن تھے۔ ۔۔!!!۔۔۔؟؟؟؟؟
مگر نہ جانے کیوں ہم برسوں تک چِڑیا گھر کو کوئی اور نام نہ دے سکے۔ یوں بھی۔۔۔ صِرف نام بدل دینے سے کیا ہو جاتا؟۔۔۔
حَیف۔۔۔ صَد حَیف۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمارا مُلک بھی کبھی۔۔۔ سونے کی چِڑیا کا گھر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترمین ! اگر ہم اپنے کارنامے بیان کرنے لگیں تو آپ سے ہماری زبان پکڑی نہ جائے گی۔
یوں بھی زبان پر جِتنا کہا جائے ۔۔۔ کم ہے۔۔۔ زبان قینچی کی طرح چلے گی۔۔۔ اور بات سے بات نِکلتی جائے گی۔
بس یہ کہہ کر ہم اپنی زبان لپیٹ لیتے ہیں۔۔۔ کہ آپ اپنے بچوں کو چاہے جِس زبان میں تعلیم دیں۔۔۔ مگر اُردو کی شیریں ڈلیاں ۔۔۔ بچپن سے ہی اُن کی زبان پر رکھتے جائیں۔ تا کہ وہ اُردو کی مِٹھاس سے آشنا ہوں۔ اورجب وہ بڑے ہوں تو اُن کی زبان سے پھُول جھڑیں۔۔۔
اور اُردو کی مہک سارے عالم کو ۔۔۔ یوں ہی مَد َمست کرتی رہے۔۔۔ ۔ مدہوش کرتی رہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۲ اپریل ۲۰۰۷ ء
12-4-2007
Nadir Khan Sir' giroh
 
Top