زاویہ 2

جب میں زندگی میں پہلی مرتبہ ہانگ کانگ گیا تو جیسے ہر نئے ملک اور شہر میں جانے کا ایک نیا تجربہ ہوتا ہے اس طرح میرا ہانگ کانگ جانے کا تجربہ بھی میری زندگی کے ساتھ ایسے چھوتے ہوئے گزرا کہ میرے اندر تو شاید وہ سب کچھ تھا جسے اجاگر ہونے کی ضرورت تھی لیکن وہ باہر برآمد نہیں ہوپاتا تھا۔ میں وہاں جس دفتر میں جانا تھا وہاں کے باس جس سے میں نے براڈ کاسٹنگ کے سلسلے میں ملاقات کرنا تھی وہ بیمار ہو کر ہسپتال میں داخل ہوچکے تھے اور اس کے دفتر والے کچھ پریشان تھے۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی کے مہرے یا کمر کے مہرے ایک دوسرے پر چڑھ گئے تھے۔ میں نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی لیکن دفتر والوں نے کہا کہ وہ بات کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں اور کافی تکلیف میں ہیں۔ ان صاحب کا دفتر جو بڑا اچھا اور خوبصورت دفتر تھا۔ اس میں کچھ تبدیلی ہورہی تھی۔ اس کی سیکرٹری چیزوں کو ہٹانے ، رکھنے یا جگہ بدلنے بارے ہدایت دے رہی تھی۔ وہاں ایک چھوٹے سے قد کا آدمی بھی آیا ہوا تھا جو Instructions دے رہا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ آپ لوگ کیا کررہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہم دفتر کی “فونگ شوئی“ کر رہے ہیں اور یہ شخص “فونگ شوئی“ کے Expert ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ہمارے دفتر کی فونگ شوئی بہت خراب تھی اور اس کی وجہ سے ہمارے باس پر بیماری کا حملہ ہوا۔ اب ڈاکٹر ان کے باس کا ڈاکٹری انداز میں علاج کر رہے تھے لیکن وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ اگر دفتر کی فونگ شوئی بہتر ہوتی تو ایسے نہ ہوتا۔
میں نے ان سے پوچھا کہ یہ فونگ شوئی کیا ہوتی ہے۔ تو انہوں نے بتایا کہ اس کا لفظی مطلب پانی اور ہوا ہے۔ اس دفتر کی آب و ہوا نا مناسب تھی جس سے صاحب بیمار ہوگئے۔ ہمیں اس Expert نے کہا تھا اس دفتر کی کھڑکی کے سامنے جو عمارت ہے وہ اس انداز میں بنی ہے جو اس دفتر پر منفی انداز میں اثر انداز ہو سکتی ہے اور اگر اس کھڑکی پر ایک دبیز پردہ مسلسل لٹکتا رہے تو پھر اس کے اثرات سے بچا جا سکتا ہے۔ دوسری بات وہ یہ کہہ رہا تھا کہ اس کمرے میں ایک شیشے کا بڑا حوض رکھا جائے اور اس میں کالی مچھلیاں ہوں اور اس باس کی جو میز اور کرسی ہے وہ جہاں اب ہے وہاں نہ ہو بلکہ دروازے کے ساتھ ہو۔
خواتین و حضرات! گو یہ شگون کی سی بات کررہا تھا لیکن زندگیوں میں شگون عجیب طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان کو منطقی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ تعلق نہیں کہا جاسکتا۔ دفتر والوں کے مطابق ان کے باس کو سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ وہ بالکل دروازے کے ساتھ میز کرسی نہیں لگوا سکتے کیونکہ دنیا میں آج تک کسی باس کی میز کرسی بالکل دروازے کے ساتھ نہیں ہوتی ہے لیکن فونگ شوئی ماسٹر کا اصرار تھا کہ اس دفتر کا جغرافیہ اس امر کا تقاضہ کر رہا ہے۔ جب دفتر کی ساری تبدیلیاں ہوچکیں تو انہوں نے کہا کہ اب باس کی طبیعت پہلے سے کچھ بہتر ہوگئی ہے تو میں نے کہا کہ کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ کام یہاں ہو رہا ہے لیکن طبیعت وہاں بہتر ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آب و ہوا اور رخ کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ ہمیں بھی اللہ نے ایک رخ کا آرڈر دیا ہے کہ تم اپنا رخ ادھر کو رکھنا پھر عبادت کرنا یا کوئی‌قسم‌اٹھانا تو رخ ادھر کرکے اٹھانا۔ اگر آپ کی سوئی متعین رخ سے ادھر ادھر ہلتی یا ہٹتی ہے تو آپ کا عمل چاہے کتنا بھی اچھا ہو، علم کتنا بھی اچھا ہو تو مشکل پیدا ہوجائے گی۔ میں اس وقت یہی سوچتا رہا کہ ہمیں خدا نے کہا ہے کہ اپنا چہرہ قبلہ رخ کرکے نماز پڑھو تو ظاہر ہے اس میں کوئی حکمت ضرور ہوگی جس کا مجھے علم نہیں ہے۔ یہ بات سوچ کے مجھے اپنی جوانی کے اس وقت کا خیال یا جب ہم ہڑپہ دیکھنے گئے تھے۔ وہاں جو بستیاں بسائی گئی تھیں ان کا ایک زمانے کے لوگوں نے ایک خاص رخ رکھا تھا۔ پانچ ہزار سال پہلے بھی ان بستیوں کا باقاعدہ رخ رکھاگیا۔ ہماری طرح سے ٹاؤن پلاننگ کیے گئے گھر تھے۔ اس فونگ شوئی کے تصور سے میرے ہاتھ ایک بہت اچھی بات آئی۔ وہ یہ تھی کہ میں ایک پڑھا لکھا آدمی ہونے کی حیثیت سے اعتراض کیا کرتا تھا کہ بھئی آپ کیوں کہتے ہیں کہ کندھے سے کندھا ملا کر لائن سیدھی کرلیں۔ جس طرح ہرنماز کے وقت امام صاحب کہتے ہیں میں کہتا تھا کہ اگر ایک انچ آگے یا پیچھے ہو بھی جائے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ مجھے تب احساس ہونے لگا کہ یقیناّ فرق پڑتا ہے لیکن میں اس کو نہیں سمجھتا۔ میں اس بات پر بھی بہت چڑتا تھا اور میرے اور بھی بچے چڑتے ہوں گے کہ ٹخنوں سے اونچا پائینچہ کیوں رکھیں۔ اس کا ہمیں کیوں کہاجاتا ہے۔ ہم کہتے کہ اس سے کیا ہوتا ہے لیکن فونگ شوئی کا وہ سارا Process دیکھنے کے بعد میں نے سوچا کہ اس سے روح کی آب وہوا میں ضرور فرق پڑتا ہوگا اور ہم کیوں نہ ایسا کرلیں جیساکہ ہمارے بڑوں اور پرکھوں نے کیا ہے۔ ہم اپنے سرجنوں کی بات تو مانتے ہیں اور اتنا ہی کاٹ دیا جاتا ہے جیسے وہ کہتے ہیں۔ اس طرح روحانی آپریشن میں بھی بابوں کی یا بڑوں کی بات مان لی جائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ برطانیہ کاجو ایک جیوگرافک میگزین ہے اس میں لکھنے والے ان دنوں ایک Research کرکے حیران ہو رہے ہیں کہ وہ مسلمان جو عرب سے چل کر ایسی عجیب و غریب جگہوں پر پہنچے جن کے جغرافیے سے وہ آشنا نہیں تھے۔ ان لوگوں نے چودہ یا پندرہ سو برس پہلے جو مساجد بنائیں تھیں ان کا رخ کس طرح سے کعبے یا حرم شریف کی طرف رکھا گیا تھا۔ کیونکہ ان کے پاس اطراف کا تعین کرنے والا کوئی آلہ نہیں ہوتا تھا اور کوئی قطب نما نہیں تھا۔
اس حوالے سے میگزین میں ریسرچ سلسلہ وار چھپتی رہی۔ ایک مضمون میں انہوں نے لکھا کہ چونکہ وہ بحری سفر کرتے تھے اور وہ ستارہ شناس تھے اس لیے وہ اطراف کا تعین درست رکھتے تھے اور مساجد کا رخ درست رکھتے تھے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کشتیوں والے تاجر یا ملاں تو ان بابوں کو ان ویران علاقوں میں چھوڑ کر چلے جاتے تھے اور یہ مساجد وغیرہ یہ بابے ہی بناتے تھی۔ سینکیانگایک عجیب و غریب علاقہ ہے ۔ اگر آپ کبھی شاہراہ ریشم ہر گئے ہوں اور پھر آگے چین کے بارڈر تک جائیں تو وہ انتہائی غیر آباد علاقہ تھا۔ وہاں آنے والوں کو آخر کس نے بتایا تھا کہ اس مسجد کا رخ کعبے کی سمت کرنا ہے اور کعبہ کس طرف ہے؟
میگزین کے مطابق ایک اکیلا شخص انڈونیشیا گیا۔ اس نے بھی پھونس لکڑی، پتھر جوڑ جاڑ کے ایک مسجد بنائی اور اس کا رخ بھی Correct کعبے کی طرف رکھا۔ میں نے جب یہ مضمون پڑھا تو پھر مجھے حیرانی ہوئی اور فونگ شوئی کا مسئلہ بھی ذہن میں آیا اور میں نے سوچا کہ رخ کا درست رکھنا کس قدر ضروری ہے۔ میں نے آج سے پچیس تیس برس پہلے جب اپنا گھر بنایا تھا تو یہ رخ والی اور فونگ شوئی کی بات ذہن میں نہیں رکھی تھی البتہ اب یہ بات ذہن میں آتی ہے۔ اس وقت بانو قدسیہ نے کہا کہ ایک کمرہ ایسا ہونا چاہیے جس میں ایک بہت اچھا اور خوبصورت قالین بچھاہوا ہو۔ میں نے کہا قالین تو بھئی بہت مہنگی چیز ہے ہم کہاں سے لیں گے۔ وہ کہنے لگے کہ میرے پاس پانچ سات ہزار روپے ہیں اس کا لے لیں گے۔ میں کہا اتنے پیسوں سے قالین تو نہیں آئے گا البتہ اس کا ایک دھاگہ ضرور آجائے گا۔ میرے ایک دوست حفیظ صاحب کا بہت بڑا قالینوں کا شوروم تھا جس کا نام “بخارا کارپٹس“ تھا انہوں نے کہا کہ آُپ زحمت نہ کریں ہم لوڈر میں ڈال کر کچھ قالین بھیج دیں گے آپ کو اور آپا کو جو پسند آجائے وہ رکھ لیں۔ اب وہ قالین لانے والے ایک ایک کرکے قالین دکھاتے جاتے اور ہم جو دیکھتے وہ ہی اچھا اور بھلا لگتا۔ جس طرح لڑکیاں کپڑا خریدنے جاتی ہیں تو انہیں بہت سارے کپڑوں میں سے کوئی پسند نہیں آتا ہے بالکل یہی کیفیت ہماری تھی اور ہم سے کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا کہ کونسے رنگ کا قالین رکھیں۔ ابھی ہم شش و پنج میں ہی تھے کی ہماری بلی میاؤں کرتی ہوئی کمرے میں آئی اور وہ بچھے ہوئے قالینوں پر بڑے نخرے کے ساتھ چلنے لگی اور ایک قالین پر آکر بیٹھ گئی اور پھر نیم دراز ہو گئی۔ میں نے کہا کہ یہ ہی ٹھیک ہے۔ اگر اس نے چوائس کیا اور اللہ نے اس کو چوائس کی وہ صلاحیت دی ہے جو ہم میں نہیں ہے تو ہم اسی قالین کو رکھ لیں گے۔ وہ قالین اب تک ہمارے پاس ہے اور وہ زیادہ پرانا ہو کر زیادہ قیمتی ہوگیا ہے۔
 
بھارت کا ایک شہر کانپور ہے۔ اس کے پاس ایک قصبہ تھا۔ اس قصبے میں ایک بزرگ آکر اپنے پیروکاروں یا مریدین سے ملے۔ لوگ اپنے پیر کی عزت افزائی کے لیے دن بھر ان کے ساتھ رہے اور نماز پڑھتے رہے۔ شام کے وقت وہ پیر صاحب نے جب وہاں ایک چھوٹی سی مسجد دیکھی تو وہاں مغرب کی نماز پڑھنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ان کے پیروکار کہنے لگے کہ جی ہم اس مسجد میں نہیں جائیں گے۔ وہ کہنے لگے کہ آپ کو مسجد میں جانے سے کیا ہوتاہے۔ وہ کہنے لگے کہ جی آپ ہمارے بڑے ہیں ہم آپ کو مسجد میں جانے سے نہیں روکتے لیکن ہم آپ سے درخواست کریں گے کہ آپ یہاں نماز نہ ہی پڑھیں تو اچھا ہے۔ وہ پیر صاحب فرمانے لگے کہ آپ لوگ کیسی بات کرتے ہیں کہ میں مسجد میں نماز نہ پڑھوں۔ بہرحال وہ بزرگ مسجد میں تشریف لے گئے۔ وضو کیا اور نماز ادا کی۔ نماز سے فارغ ہو کر انہوں نے پوچھا کہ آپ لوگوں نے اس مسجد میں نماز ادا کیوں نہیں کی تو لوگوں نے کہا کہ سر اس کا قبلہ غلط ہے اس کا رخ خانہ کعبہ کی طرف نہیں ہے بلکہ ٹیڑھا ہے۔ ہم اس لیے یہاں نماز نہیں پڑھتے ۔ اس سے محترم بزرگ کو بڑی تکلیف ہوئی اور وہ کہنے لگے کہ یہ کوئی ایسا جواز نہیں ہے۔ وہ بزرگ محراب کے سامنے کھڑے ہوگئے اور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنی شروع کردی اور وہ بڑی دیر تک دعا مانگتے رہے۔ لوگ بتاتے ہیں کہ تھوڑی دیر بعد وہ محراب پھٹ گیا اور اس میں اتنا بڑا سوراخ ہوگیا جس میں سے ان لوگوں نے جو وہاں نماز ادا کرنے سے انکاری تھے دیکھا کہ سامنے حرم شریف ہے اور لوگ اس کا طواف کر رہے ہیں۔
خواتین و حضرات! جگہوں کی جغرافیائی صورتحال کا ایک عجیب اثر ہوتا ہے اور اس اثر سے یوں فائدہ اٹھانا چاہیے کہ ہمیں اپنے گھر کے اندر ایک مخصوص کونے میں تن تنہا بیٹھ کر اٹھایا جانا چاہیے۔ وہاں آپ کو مفتا مفت ایسی ارتعاش ملے گی جو آپ کے روحانی سفر میں معاون ثابت ہوگی ۔ مجھے ہانگ کانگ میں فونگ شوئی کو دیکھ کر بہت فائدہ پہنچا کہ جن چیزوں پر میں اپنی حماقت کے ساتھ معترض ہوتا تھا اور میں ان پر طنز بھی کیا کرتا تھا خدا مجھے معاف کرے ۔ میرے پوتے وغیرہ اب بھی ایسی باتوں پر طنز کرتے ہیں۔
خواتین و حضرات! جب مسلمانوں نے یہ طے کیا کہ ہم اپنے لیے U.N.O کی عمارت بنائیں گے اور ایک ایسی عمارت بنائیں گے جہاں جا کر ہم درخواست یا عرضداشت پیش کرسکیں یہ عمارت کے بنانے کے لیے کوئی آرکیٹیکٹ نہیں منگوائے گئے تھے۔ سیانوں نے بلیو پرنٹس تیار نہیں کروائے تھے بلکہ فرمانے والوں نے فرمایا کہ ایک انٹنی کو چھوڑ دو وہ جا کر جہاں بیٹھ جائے گی وہی مقام ہمارا مقام ہوگا اور مسلمانوں کے U.N.O کا صدر دفتر اور گھر ہوگا اور وہی ہماری آئیندہ نسلوں اور پوری ملت کے لیے نگاہوں کا نور ہوگا۔
اس بات کو سوچنے کی بڑی ضرورت ہے۔ لوگ اب تک وہاں جا کر دست بستہ کھڑے ہوتے ہیں اور کھڑے ہوتے رہیں‌گے اور وہی جگہ ہمارے دل اور نگاہوں کا محبوب مرکز اور ہمارا سب کچھ ہے۔ آپ سے بس یہی درخواست کرنا چاہ رہا تھا کہ بہت ساری ایسی باتیں جن کا میری جیسے پڑھے لکھے بندے تمسخر اڑاتے ہیں یا اپنی کسی کوتاہی کی وجہ سے کچھ کہہ دیتے ہیں۔ حقیقت کا علم تو خدا ہی جانتا ہے، جب اذان ہوتی ہے تو سروں پر اوڑھنیاں کیسے خود بخود آجاتی ہیں اور جو خاتون یا بچی اوڑھنی لے لیتی ہے وہ ہمارے ساتھ کی ہوتی ہے اور جو بدقسمتی سے نہیں بھی لیتی تو وہ ہے تو ہمارا ہی سرمایہ اور جانِ جگر لیکن اس کی فونگ شوئی میں ایسا فرق پڑگیا ہے۔ جیسا کہ ہانگ کانگ والے باس کی ریڑھ کی ہڈی کے مہروں میں خرابی پیدا ہوگئی تھی۔ لیکن آرزو یہ ہوتی ہے کہ ایسی خرابی نہ ہو جو ہم کو ایک دوسرے سے علیحدہ کردے۔ کبھی کبھی کئی ایسی بات جو جوڑنے والی ہو اور آپ کو ناپسند ہو تو اسے فوراّ اختیار کرلینا چاہیے۔ ہمارے بابے کہتے ہیں کہ مباحثے کے اندر، جھگڑے اور ڈائیلاگ میں کبھی کبھی آپ کو ایسی کمال کی بات سوجھ جائے جو آپ کے مدمقابل کو زیر کردے اور سب کے سامنے رسوا کردے تو وہ بات کبھی نہ کرو اور بندہ بچا لو۔ مت ایسی بات کرو جس وہ شرندہ ہو جائے۔
ہم خدا سے دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ہمیں ایسی شرمندگی عطا نہ کرنا جو ہم کو ہماری ملت اور امہ سے توڑے یا ہمیں الگ الگ دانوں میں تقسیم کردے ۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطافرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے ۔ اللہ حافظ۔
 
پنجاب کا دوپٹہ

پنجاب کا دوپٹہ
جب آدمی میری عمر کو پہنچتا ہےتو وہ اپنی وراثت آنے والی نسل کو دے کر جانے کی کو شش کرتا ہے- کچھہ چیزیں ایسی ہوتی ہیں، جو انسان بد قسمتی سے ساتھہ ہی سمیٹ کر لے جاتا ہے- مجھے اپنی جوانی کے واقعات اور اس سے پہلے کی زندگی کے حالات مختلف ٹکڑیوں میں ملتے ہیں- میں چاہتا ہوں کہ اب وہ آپ کے حوالے کر دوں- حالانکہ اس میں تاریخی نوعیت کا کوئی بڑا واقعہ آپ کو نہیں ملے گا لیکن معاشرتی زندگی کو بہ نظرغائر دیکھا جائے تو اس میں ہماری سیاسی زندگی کے بہت سے پہلو نمایاں نظر آئیں گے-
آج سے کوئی بیس بائیس برس پہلے کی بات ہے میں کسی سرکاری کام سے حیدرآباد گیا تھا -
سندھ میں مجھے تقریباً ایک ہفتے کے لیے رہنا پڑا، اس لیے میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ وہ بھی میرے ساتھہ چلے، چنانچہ وہ بھی میرے ساتھہ تھی- دو دن وہاں گزارنے کے بعد میری طبیعت جیسے بے چین ہو گئی-میں اکثراس حوالے سے آپ کی خدمت میں ُ ُ بابوں“ کا ذکر کرتا ہوں- میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ بھٹ شاہ (شاہ عبدالطیف بھٹائی ) کا مزار یہاں قریب ہی ہے اور آج جمعرات بھی ہے، اس لیے آج ہم وہاں چلتے ہیں- وہ میری بات مان گئی- میزبانوں نے بھی ہمیں گاڑی اور ڈرائیور دے دیا، کیونکہ وہ راستوں سے واقف تھا- ہم مزار کی طرف روانہ ہو گئے- جوں جوں شاہ عبدالطیف بھٹائی کا مزار قریب آ رہا تھا، مجھہ پر ایک عجیب طرح کا خوف طاری ہونے لگا- مجھہ پر اکثر ایسا ہوتا ہے- میں علم سے اتنا متاثر نہیں ہوں، جتنا کریکٹر سے ہوں- علم کم تر چیز ہے، کردار بڑی چیز ہے- اس لیے صاحبانِ کردار کے قریب جاتے ہوئے مجھے بڑا خوف آتا ہے- صاحبانِ علم سے اتنا خوف نہیں آتا، ڈر نہیں لگتا-
جب ہم وہاں پہنچے تو بہت سے لوگ ایک میلے کی صورت میں ان کے مزار کے باہر موجود تھے- گھوم پھر رہے تھے- ہم میاں بیوی کافی مشکل سے مزار کے صحن میں داخل ہوئے- بہت سے لوگ وہاں بیٹھے ہوئے تھے اور شاہ عبدالطیف بھٹائی کا کلام سنا رہے تھے-اس کلام میں جب شاہ کی شاعری میں موجود ایک خاص ٹکڑا آتا تو سارے سازندے چوکس ہو کر بیٹھہ جاتے اور گانے لگتے، کلام میں یہ خاص ٹکڑا اس قدر مشکل اور پیچیدہ ہے کہ وہاں کے رہنے والے بھی کم کم ہی اس کا مطلب سمجھتے ہیں، لیکن اس کی گہرائی زمانے کے ساتھہ ساتھہ کُھلتی چلی جاتی ہے- ہم بھی وہاں ایک دیوار کے ساتھہ لگ کر کھڑے ہو گئے- وہاں کافی رش تھا- کچھہ لوگ زمیں پر لیٹے ہوئے تھے- عورتیں، مرد سب ہی اور کچھہ بیٹھے کلام سن رہے تھے- ہم بھی جا کر بیٹھہ گئے- جب شاہ کی وائی ( مخصوص ٹکڑی ) شروع ہوتی تو ایک خادم دھات کے بڑے بڑے گلاسوں میں دودھ ڈال کر تقسیم کرتا- یہ رسم ہے وہاں کی کہ جب وائی پڑھتے ہیں تو دودھ تقسیم کیا جاتا ہے- گلاس بہت بڑے بڑے تھے، لیکن ان میں تولہ ڈیڑھ تولہ دودھ ہوتا- جب اتنا بڑا گلاس اور اتنا سا دودھ لا کر ایک خادم نے میری بیوی کو دیا، تو اُس نے دودھ لانے والے کی طرف بڑی حیرت سے دیکھا اور پھر جھانک کر گلاس کے اندر دیکھا- میں نے اُس سے کہا کہ دودھ ہے پی لو- میں نے اپنے گلاس کو ہلایا- میرے گلاس کے اندر دودھ میں ایک تنکا تھا- میں اُس تنکے کو نظر انداز کرتا تھا، لیکن وہ پھر گھوم کر سامنے آ جاتا تھا- میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں دودھ کو تنکے سمیت ہی پی جاتا ہوں-چنانچہ میں نے دودھ پی لیا اور اپنی بیوی سے کہا کہ آپ بھی پئیں، یہ برکت کی بات ہے-
خیر! اُس نے زبردستی زور لگا کر پی لیا اور قریب بیٹھے ہوئے ایک شخص سے کہ آپ ہمیں تھوڑی سی جگہ دیں- اُس شخص کی بیوی لیٹ کر اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی- اُس شخص نے اپنی بیوی کو ٹہوکہ دیا اور کہا کہ مہمان ہے، تم اپنے پاؤں پیچھے کرو- میری بیوی نے کہا کہ نہیں نہیں، اس کو مت اُٹھائیں- لیکن اُس شخص نے کہا،نہیں نہیں کوئی بات نہیں- اُس کی بیوی ذرا سمٹ گئی اور ہم دونوں کو جگہ دے دی- انسان کا خاصہ یہ ہے کے جب اُس کو بیٹھنے کی جگہ مل جائے، تو وہ لیٹنے کی بھی چاہتا ہے-جب ہم بیٹھہ گئے تو پھر دل چاہا کہ ہم آرام بھی کریں اور میں آہستہ آہستہ کھسکتا ہوا پاؤں پسارنے لگا- فرش بڑا ٹھنڈا اور مزیدار تھا- ہوا چل رہی تھی- میں نیم دراز ہو گیا- میری بیوی نے تھوڑی دیر کے بعد کہا کہ میں چکر لگا کر آتی ہوں، کیونکہ یہ جگہ تو ہم نے پوری طرح دیکھی ہی نہیں- میں نے کہا ٹھیک ہے- وہ چلی گئی- دس پندرہ منٹ گزر گئے، وہ واپس نہ آئی تو مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں گُم ہی نہ ہو جائے، کیونکہ پیچیدہ راستے تھے اور نئی جگہ تھی
جب وہ لوٹ کر آئی تو بہت پریشان تھی- کچھہ گھبرائی ہوئی تھی- اُس کی سانس پھولی ہوئی تھی- میں نے کہا، خیر ہے! کہنے لگی آپ اُٹھیں میرے ساتھہ چلیں- میں آپ کو ایک چیز دکھانا چاہتی ہوں- میں اُٹھہ کراُس کے ساتھہ چل پڑا- وہاں رات کو دربار کا دروازہ بند کر دیتے ہیں اور زائرین باہر بیٹھے رہتے ہیں- صبح جب دروازہ کُھلتا ہے تو پھر دعائیں وغیرہ مانگنا شروع کر دیتے ہیں- جب ہم وہاں گئے تو اُس نے میرا ہاتھہ پکڑ لیا اور کہنے لگی، آپ ادھر آئیں- شاہ کے دروازے کے عین سامنے ایک لڑکی کھڑی تھی- اُس کے سر پر جیسے ہمارا دستر خوان ہوتا ہے، اس سائز کی چادر کا ٹکڑا تھا اور اُس کا اپنا جو دوپٹہ تھا وہ اُس نے شاہ کے دروازے کے کنڈے کے ساتھہ گانٹھہ دے کر باندھا ہوا تھا اور اپنے دوپٹے کا آخری کونہ ہاتھہ میں پکڑے کھڑی تھی اوربالکل خاموش تھی، اُسے آپ بہت ہی خوبصورت لڑکی کہہ سکتے ہیں-
اُس کی عمر کوئی سولہ،سترہ یا اٹھارہ برس ہو گی- وہ کھڑی تھی، لیکن لوگ ایک حلقہ سا بنا کر اُسے تھوڑی سی آسائش عطا کر رہے تھے تاکہ اُس کے گرد جمگھٹا نہ ہو- کچھہ لوگ، جن میں عورتیں بھی تھیں، ایک حلقہ سا بنائے کھڑے تھے- میں نے کہا، یہ کیا ہے؟ میری بیوی کہنے لگی، اس کے پاؤں دیکھیں- جب میں نے اُس کے پاؤں دیکھے تو آپ یقین کریں کہ کوئی پانچ سات کلو کے- اتنا بڑا ہاتھی کا پاؤں بھی نہیں ہوتا- بالکل ایسے تھے جیسے سیمنٹ، پتھر یا اینٹ کے بنے ہوئے ہوں- حالانکہ لڑکی بڑی دھان پان کی اور دُبلی پتلی سی تھی- ہم حیرانی اور ڈر کے ساتھہ اُسے دیکھہ رہے تھے، تو وہ منہ ہی منہ میں کچھہ بات کر رہی تھی- وہاں ایک سندھی بزرگ تھے- ہم نے اُن سے پوچھا کہ آخر یہ معاملہ کیا ہے؟ اُس نے کہا، سائیں! کیا عرض کریں- یہ بیچاری بہت دُکھیاری ہے- یہ پنجاب کے کسی گاؤں سے آئی ہے اور ہمارے اندازے کے مُطابق مُلتان یا بہاولپور سے ہے- یہ گیارہ دن سے اسی طرح کھڑی ہے اور اس مزار کا بڑا خدمتگار، وہ سفید داڑھی والا بُزرگ، اس کی منت سماجت کرتا ہے تو ایک کھجور کھانے کے لیے یہ منہ کھول دیتی ہے، چوبیس گھنٹے میں- میری بیوی کہنے لگی کہ اسے ہوا کیا ہے؟ اُنہوں نے کہا کہ اس کے بھائی کو پھانسی کی سزا ہوئی ہے اور یہ بیچارگی کے عالم میں وہاں سے چل کر یہاں پہنچی ہے اور اتنے دن سے کھڑی ہے اور ایک ہی بات کہہ رہی ہے کہ ُ ُ اے شاہ! تُو تو اللہ کے راز جانتا ہے، تُو میری طرف سے اپنے ربّ کی خدمت میں درخواست کر کہ میرے بھائی کو رہائی ملے اور اس پر مقدّمہ ختم ہو-“ وہ بس یہ بات کہہ رہی ہے- شاہ اپنی ایک نظم میں فرماتے ہیں کہ ُ ُ اے لوگو! چودھویں کے چاند کو جو بڑا خوبصورت اور دلکش ہوتا ہے،پہلی کے چاند کو جو نظر بھی نہیں آتا اور لوگ چھتوں پر چڑھ کر اُنگلیوں کا اشارہ کر کے اسے دیکھتے ہیں- یہ کیا راز ہے تم میرے قریب آؤ میں تمھیں چاند کا راز سمجھاتا ہوں ( یہ شاہ عبدالطیف بھٹائی کی ایک نظم کا حصّہ ہے )
وہ لڑکی بھی بیچاری کہیں سے چل کر چلتی چلتی پتا نہیں اس نے اپنے گھر والوں کو بتایا بھی ہے کہ نہیں، لیکن وہ وہاں پہنچ گئی ہے اور وہاں کھڑی تھی- چونکہ رات کو مزار کا دروازہ بند ہو جاتا ہے، اس لیے کوئی کنکشن نہیں رہتا، اس نے اپنا دوپٹہ اُتار کر وہاں باندھ رکھا ہے- وہ بابا بتا رہا تھا کہ اب اس کا چلنا مشکل ہے- بڑی مشکل سے قدم اُٹھا کر چلتی ہےاور ہم سب لوگ اس لڑکی کے لیے دعا کرتے ہیں- ہم اپنا ذاتی کام بھول جاتے ہیں اور ہم اس کے لیے اور اس کے بھائی کے لیے اللہ سائیں سے گڑگڑا کر دعا کرتے ہیں کہ اللہ تُو اس پر فضل کر- کتنی چھوٹی سی جان ہے اور اس نے اپنے اوپر کیا مصیبت ڈال لی ہے- میں کھڑا اس لڑکی کو دیکھہ رہا تھا- اُس کا دوپٹہ اگر سر سے اُتر جاتا تو وہاں کے لوگ اپنے پاس سے اجرک یا کوئی اور کپڑا اُس کے سر پر ڈال دیتے- میں اس کو دیکھتا رہا- مجھے باہر دیکھنا، وائی سننا اور دودھہ پینا سب کچھہ بھول گیا- میں چاہتا تھا کہ اس سے بات کروں، لیکن میرا حوصلہ نہیں پڑ رہا تھا، کیونکہ وہ اتنے بُلند کردار اور طاقت کے مقام پر تھی کہ ظاہر ہے ایک چھوٹا، معمولی آدمی اس سے بات نہیں کر سکتا تھا- ہمیں وہاں کھڑے کھڑے کافی دیر ہو گئی- ہم نے ساری رات وہاں گزارنے کا فیصلہ کیا- ہم نے ساری رات اس لڑکی کےللیےدعائیں کیں- بس ہم اس کے لیے کچّی پکّی دعائیں کرتے رہے-
صبح چلتے ہوئے میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ جب تک پنجاب کا دوپٹہ شاہ عبدالطیف بھٹائی کے کُنڈے سے بندھا ہے پنجاب اور سندھ میں کسی قسم کا کریک نہیں آسکتا- یہ تو اپنے مقصد کے لیے آئی ہے نا، لیکن مقصد سے ماورا بھی ایک اور رشتہ ہوتا ہے- میری بیوی کہنے لگی، کیوں نہیں، آپ روز ایسی خبریں پڑھتے ہیں کہ یہ سندھ کارڈ ہے، یہ پنجاب کارڈ ہے- جب ایک چودھری دیکھتا ہے کہ لوگوں کی توجّہ میرے اوپر ہونے لگی ہے اور لوگ میرے بارے میں Critical ہونے لگے ہیں، تو وہ پھر کہتا ہے اے لوگو! میری طرف نہ دیکھو- تمھارا شور پنجاب ہے- دوسرا کہتا ہے، نہیں! میری جانب نہ دیکھو تمھارا چور سندھ ہے، تاکہ اس کے اوپر سے نگاہیں ہٹیں، ورنہ لوگوں کے درمیان وہی اصل رشتہ قائم ہے جو مُلتان یا بہاولپور سے جانے والی لڑکی کا شاہ کے مزار سے ہے، جو اکیللی تن تنہا، سوجے پاؤں بغیر کسی خوراک کے کھڑی ہوئی ہے ااس کا اعتقاد اور پورا ایمان ہے کہ اس کا مسئلہ حل ہو گا- اپنی ایک نظم میں شاہ فرماتے ہیں کہ ُ ُ اے کمان کسنے والے تُو نے اس میں تیر رکھہ لیا ہے اور تُو مجھے مارنے لگا ہے، لیکن میرا سارا وجود ہی تیرا ہے، کہیں تُو اپنے آپ کو نقصان نہ پہنچا لے-“

چند سردیاں پہلے کی بات ہے کہ ہمارے باغِ جناح میں پُرانے جمخانے کے سامنے اندرونِ شہر کی ایک خاتون بنچ کے اوپر بیٹھی تھی اور اپنے چھوٹے بچے کو اپنے گُھٹنے کے اوپر پلا رہی تھی- اُس کی تین بچیاں کھیلتے ہوئے باغ میں پھیل گئی تھیںاور ایک دوسری کے ساتھہ لڑتی تھیں اور بار بار چینخیں مارتی ہوئی ماں سے ایک دوسری کی شکایت کرتی تھیں- ذرا دیر بعد پھر ماں کو تنگ کرنا شروع کر دیتیں اور پھر چلی جاتیں- آخر میں پھر لڑتی ہوئی دو بچیاں آئیں اور کہا کہ امّاں اس نے میری فلاں اتنی بڑی چیز لے لی ہے- ایک نے مُٹھی بند کی ہوئی تھی- آخر ماں نے اس کا ہاتھہ پکڑا اور کہا کھول دے مُٹھی- جب اس نے مُٹھی کھولی تو اس میں سوکھا ہوا درخت سے گِرا بھیڑہ تھا- ایک نے کہا، پہلے میں نے دیکھا تھا یہ میرا ہے- اُن کی ماں نے دوسری سے کہا، اسے دے دو- پھر وہ صُلح صفائی کرتے ہوئے بھاگ کر چلی گئیں-
جب میں نے ان کے درمیان اتنی زیادہ لڑائی دیکھی تو میں نے اُس خاتون سے کہا کہ آپ تو مشکل میں پڑی ہوئی ہیں- یہ بچے آپ کو بہت تنگ کرتے ہیں- تو اُس نے کہا کہ بھائی! مجھے یہ بہت تنگ کرتے ہیں، لیکن میں اِن سے تنگ ہوتی نہیں- میں نے کہا وہ کیسے؟ کہنے لگیں، یہ جو میرے بچے ہیں، اپنی نانی کے مرنے کے بعد پیدا ہوئے ہیں- میں سوچتی ہوں کہ اگر ان کی نانی زندہ ہوتی تو یہ بچیاں کتنی ہی شیطانیاں کرتیں، ضد کرتیں، لڑائیاں کرتیں، لیکن پھر بھی اپنی نانی کی پیاریاں اور لاڈلیاں ہی رہتیں-
جب میرے ذہن میں یہ خیال آتا ہے تو یہ کچھہ بھی کریں- میں اپنی نانی کی حوالے سے ان کو معاف کر دیتی ہوںاور یہ مزے سے کھیلتی رہتیں ہیں، حالانکہ جسمانی اور ذہنی وروحانی طور پر مجھے تنگ کرتی ہیں- جب اُس نے یہ بات کی تو میں سوچنے لگا کہ کیا ہمارے سیاسی اور سماجی وجود میں کوئی نانی جیسا تصوّر نہیں آسکتا؟ کیا ہمیں ایسا لیڈر نہیں مل سکتا، یا سکا جس کے سہارے ہم اپنی مشکلات کو اس کے نام Dedicate کر کے یہ کہیں کہ اگرایسی مشکلات ہوتیں اور اگر قائداعظم زندہ ہوتے تو ہم ان کے حوالے کر دیتے کہ جی یہ مشکلات ہیں اور وہ ان کو ویسے ہی سمیٹ لیتے جیسا کہ وہ دوسری مشکلات سمیٹا کرتے تھے، بلکہ اکیلے اُنہوں نے ہی تمام مشکلات کو سمیٹا تھا- لیکن شاید یہ ہماری قسمت یا مقدّر میں نہیں تھا، لیکن اس کے باوجود میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر ایک دھان پان سی، دُبلی پتلی لڑکی اتنی ہمّت کر کے اپے ذاتی مقصد کے لیے اتنا بڑا کنکشن میرے آپ کے اور سندھ کے درمیان پیدا کر سکتی ہے، تو ہم جو زیادہ پڑھے لکھے، دانشمند اور دانشور لوگ ہیں یہ دل اور روح کے اندر مزید گہرائی پیدا کرنے کے لیے کچھہ کیوں نہیں کر سکتے؟
کوئی ایسی صبح طلوع ہو یا کوئی ایسی شام آئے، جب ہم دیوار سے ڈھو لگا کر ایک Meditation میں داخل ہوتے ہیں، تو کیا اس مراقبے میں یہ ساری چیزیں نہیں آتیں، یا یہ کہ ہم اس مراقبے کے اندر کبھی داخل ہی نہیں ہو سکے؟ ایک چھوٹی سی لڑکی اس طرح ایک تہیہ کے اندر اور ایک ارادے کے اندر داخل ہو گئی تھی اور ہم جو بڑے ہیں ان سے یہ کام نہیں ہو تا- اس کے باوجود میں بہت پُر امید ہوں کہ یقیناً ایسا وقت آجائے گا جس کا کوئی جواز ہمارے پاس نہیں ہو گا، جس کی کوئی منطق نہیں ہو گی- لیکن وہ وقت ضرور آئے گا، کیوں آئے گا، کس لیے آئے گا، کس وجہ سے اورکیسے آئے گا؟ اس کا بھی کوئی جواب میرے پاس نہیں ہے- لیکن اتنی بڑی معاشرتی زندگی میں جان بوجھہ کر یا بیوقوفی سے ہم جو نام لے چکے ہیں، انہیں کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی مقام پر پہنچ کر سفل ہونا ضروری ہے- یہ میرا ایک ذاتی خیال ہے، جس کے ساتھہ میں وابستہ رہتا ہوں-
مایوسی کی بڑی گھٹائیں ہیں، بڑی بے چینیاں ہیں، بڑی پریشانیاں ہیں-اکنامکس کا آپ کے یوٹیلیٹی بلز کا ہی مسئلہ اتنا ہو گیا ہے کہ انسان اس سے باہرہی نہیں نکلتا- آدمی روتا رہتا ہے، لیکن ہمارے اس لاہور میں، ہمارے اس مُلک میں اور ہمارے اس مُلک سے ماورا دوسری اسلامی دنیا میں کچھہ نہ کچھہ تو لوگ ایسے ضرور ہوں گے جو اکنامکس کی تنگی کے باوصف یہ کہتے ہوں گے جو میں نہیں کہہ سکتا- میں کسی نہ کسی طرح سے خوش ہو سکتا ہوں، کیونکہ خوشی کا مال ودولت کے ساتھھ کوئی تعلق نہیں- ہمارے بابے کہا کرتے ہیں کہ اگر مال ودولت کے ساتھہ جائیداد کے ساتھھ خوشی کاتعلق ہوتا تو آپ اتنی ساری چیزیں چھوڑ کرکبھی سوتے ناں! ان ساری چیزوں کو آپ اپنی نگاہوں کے سامنے چھوڑ کر سو جاتے ہیں اور سونا اتنی بڑی نعمت ہے جو آپ کو راحت عطا کرتی ہےاور اگر آپ کو کوئی جگائے تو آپ کہتے ہیں کہ مجھے تنگ نہ کرو- اگر اس سے کہیں کہ تیری وہ کار، جائیداد اور بینک بیلنس پڑا ہے تو اس سونے والے کو اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی- اس سے طے یہ پایا کہ یہ دولت یہ مال ومتاع یہ سب کچھھ آپ کو خوشی عطا نہیں کرتے، خوشی آپ کے اندر کی لہر ہے-
مچھلی جس کو پکڑ لے وہ اس لہر پر ڈولفن کی طرح سوار ہو کر دُور جا سکتی ہے- اگر وہ لہر نہ پکڑی جائے تو پھر ہماری بد قسمتی ہے- پھر ہم کچھھ نہیں کر سکتے- اس لہر کو دیکھنا، جانچنا اور پکڑنا اور اس پر سوار ہونا شہ سواروں کا کام ہے، عام لوگوں کا نہیں- بڑی تکلیفیں اور دقّتیں ہیں، لیکن ان کے درمیان رہتے ہوئے بھی کئی آدمی گاتے ہوئے گزر جاتے ہیں اور ہم اپنے کانوں سے ان کا گانا سُنتے ہیں اور ہم ان کی تحقیق نہیں کر سکتےکہ ان کے اندر کون سی چُپ لگی ہوئی ہے، کس قسم کی پروگرامنگ ہوئی ہوتی ہے کہ یہ گاتے چلے جا رہے ہیں- اللہ آپ کو خوش رکھے اور بہت سی آسانیاں عطا فرمائے اور خداوند تعالٰی آپ کو آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے- اللہ حافظ!
 
ُ ُ ملٹی نیشنل خواہشیں “​


پچھلی گرمیوں کا آخری مہینہ میں نے اپنے بھانجے جاوید کے گھ گزارا- اُس کے گھر میں ایک بڑا اچھا سوئمنگ پول ہے،اُس کا ایک چھوٹا بیٹا ہے،اُس کے بیٹے کا ایک چھوٹا کُتّا ُ ُجیکی“ ہے- میں کُتّوں بارے میں چونکہ زیادہ نہیں جانتا،اس لیے اتنا سمجھہ سکا ہوں کہ وہ چھہوٹے قد کا نہایت محبّت کرنے والا اور تیزی سے دُم ہلانے والا کُتّا ہے-جیکی کی یہ کیفیت ہے کہ وہ سارا دن کھڑکی کی سل پر اپنے دونوں پنجے رکھہ کر کھڑکی سے باہر دیکھتا رہتا ہے اور جب آوارہ لڑکے اسے پتھر مار کر گُزرتے ہیں تو وہ بھونکتا ہے- جب آئس کریم کی گاڑی آتی ہے تو اُس کا باجا سُنتے ہی وہ اپنی کٹی ہوئی دُم بھی ُ ُگنڈیری“ کی طرح ہلاتا ہے اور ساتھہ بھونکنے کے انداز میں ُ ُچوس چوس“ بھی کرتا ہے (شاید اُسکی آرزو ہو کہ مجھے اس سے کچھہ ملے گا)- پھر جب غبّارے بیچنے والا آتا ہے تو وہ اُس کےلیے بھی ویسا ہی پریشان ہوتا ہے اور وہ منظر نامہ اُس کی نگاہوں کے سامنے سے گُزرتا رہتا ہے- پھر جس وقت سکول سے اُ س کا محبوب مالک توفیق آتا ہے تو پھر وہ سل چھوڑ کر بھاگتا ہےاور جا کر اُس کی ٹانگوں سے چمٹتا ہے-
شام کے وقت جب وہ سوئمنگ پول میں نہاتے ہیں اور جب اُس کُتّے کا مالک، اُس کا ساتھی توفیق چھلانگ لگاتا ہے تو وہ (جیکی) خود تو اندر نہیں جاتا، لیکن جیسے جیسے وہ تالاب میں تیرتا ہوا آگے جاتا ہے- جیکی بھی اُس کے ساتھہ آگے بھاگتا ہے اور تالاب کے اِرد گِرد ُ ُ پھرکی“ کی طرح چکر لگاتا ہے، غرّاتا ہے، بھونکتا ہے، پھسلتا پے اور پانی کے سبب دُور تک پھسلتا جاتا ہے- میں اس قیام کے سارے عرصہ میں اسے دیکھتا رہا کہ یہ کیا کرتا ہے- پھر میں نے بچّوں کو اکٹّھا کرکے ایک دن کہا کہ آؤ اس جیکی کو سمجھائیں کہ تم تو اس طرح بھاگ بھاگ کے ہلکان ہو جاؤ گے، زندگی برباد کر لو گے- بچّوں نے کہا اچھا دادا- اور اُن سب نے جیکی کو بُلا کر بٹھایا اور اُس سے کہا کہ جیکی میاں دادا کی بات سُنو-میں نے جیکی سے کہا، دیکھو وہ (توفیق) تو تیرتا ہے، وہ تو انجوائے کرتا ہے، تم خواہ مخواہ بھاگتے ہو،پھسلتے ہو اور اپنا مُنہ تُڑواتے ہو، تم اس عادت کو چھوڑ دو لیکن وہ یہ بات سمجھا نہیں- اگلے روز پھر اُس نے ایسے ہی کیا، جب اُس کو میں سمجھا چکا اور رات آئی اور میں لیٹا لیکن ساری رات کروٹیں بدلنے کے بعد بھی مجھے نیند نہ آئی تو میں نے اپنا سر دیوار کے ساتھہ لگا کر یہ سوچنا شروع کیا کہ میرے بیٹے نے جو سی ایس ایس کا امتحان دیا ہے کیا وہ اس میں سے پاس ہو جائے گا؟ پوتا جو امریکہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے گیا ہے کیا اُس کو ورلڈ بینک میں کوئی نوکری مل جائے گی؟ہمارے اوپر جو مقدّمہ ہے، کیا اُس کا فیصہ ہمارے حق میں ہو جائے گا اور وہ انعامی بانڈ جو ہم نے خریدا ہے،وہ نکل آئے گا کہ نہیں؟
میری اتنی ساری بے چینی اور یہ سب کچھہ جو مل ملا کے میری Desires، میری آرزوئیں، میری تمّنائیں اور خواہش گڈ مڈ ہو گئیں تو میں نے کہا کہ میں بھی کسی صورت میں ُ ُجیکی“ سے کم نہیں ہوں، جس طرح وہ بے چین ہے، جیسے وہ تڑپتا ہے، جیسے وہ نا سمجھی کے عالم میں چکر لگاتا ہے، تو حالات کے تالاب کے اِرد گِرد میں بھی چکر لگاتا ہوں تو کیا میں اس کو کسی طرح روک سکتا ہوں، کیا میں ایسے سیدھا چل سکتا ہوں جیسے سیدھا چلنے کا مجھے حُکم دیا گیا ہے- میں جیسے پہلے بھی ذکر کیا کرتا ہوں، میں نے اپنے بابا جی سے پوچھا کہ جی یہ کیوں بے چینی ہے، کیوں اتنی پریشانی ہے، کیوں ہم سکونِ قلب کے ساتھہ اور اطمینان کے ساتھہ بیٹھہ نہیں سکتےہیں تو اُنہوں نے کہا کہ دیکھو تم اپنی پریشانی کی پوٹلیاں اپنے سامنے نہ رکھا کرو، اُنہیں خُدا کے پاس لے جایا کرو، وہ ان کو حل کردے گا- تم انہیں زور لگا کر خود حل کرنے کی کوشش کرتے ہو، لیکن تم انہیں حل نہیں کر سکو گے-
میں جب چھوٹا تھا تو ہمارے گاؤں میں میری ماں کے پاس ایک بوڑھی عورت آیا کرتی تھی، ہم اسے تائی سوندھاں کہتے تھے- اُس کے پاس چھوٹی چھوٹی پوٹلیاں ہوتی تھیں- وہ میری ماں کے پاس بیٹھہ جاتی اور ایک ایک پوٹلی کھول کے دکھاتی کہ بی بی یہ ہے- کسی پوٹلی میں سُوکھے بیر پوتے، کسی میں سُوکھی لکڑیاں، جیسے مُلٹھی ہوتی ہے وہ ہوتیں- وہ کہتی کہ اگر ان لکڑیوں کو جلاؤ تو مچھر نہیں رہتا، کسی پوٹلی میں چھوٹے چھوٹے پتھر پوتے تھے، کسی میں بڑ کے درخت سے گری ہوئی
ُ ُگولیں“ ہوتیں تھیں- اُس کے پاس ایسی ہی سُوکھی چیزوں کی بے شمار پوٹلیاں ہوتی تھیں، اُن میں کوئی بھی کام کی چیز نہیں ہوتی تھی، میرا یہ اندازہ ہے اور میری ماں کا بھی یہ اندازہ تھا- میری ماں کہتی کہ نہیں سوندھاں مت کھول ان کو ٹھیک ہے اور میری ماں اُسے کچھہ آٹھہ آنے، چار آنے دے دیتی تھی- اُس زمانے میں آٹھہ چار آنے بہت ہوتے تھےاور وہ دعائیں دیتی ہوئی چلی جاتی تھی- اُس کی کسی کے حضور پوٹلیاں کُھل کر یا نہ کُھل کربھی اُس کو بہت فائدہ عطا کرتی تھیں- اور میرا بابا مجھہ سے یہ کہتا تھا کہ تُو اپنی پوٹلیاں اللہ کے پاس لے جا، ساری مشکلات کسی وقت بیٹھہ کر دیوار سے ڈھو لگا کر کہو کہ اے اللہ یہ بڑی مشکلات ہیں یہ مجھہ سے حل نہیں ہوتیں- یہ میں تیرے حضور لے آیا ہوں-
میں چونکہ بہت ہی پڑھا لکھا آدمی تھا اور ولایت سے آیا تھا، میں کہتا، کہاں ہوتا ہے خُدا؟
اُس نے کہا، خُدا ہوتا نہیں ہے، نہ ہو سکتا ہے، نہ جانا جاتا ہے، نہ جانا جا سکتا ہے اور خُدا کے بارے میں تمہارا ہر خیال وہ حقیقت نہیں بن سکتا لیکن پھر بھی اُس کو جانا جانا چاہیے- میں کہتا تھا کیوں جانا جانا چاہیےاور آپ اس کا کیوں بار بار ذکر کرتے ہیں، آپ ہر بار اس کا ذکر کرتے پہیں اور ساتھہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ نہ جانا جاتا ہے اور نہ جانا جا سکتا ہے، کہنے لگے کہ پرندہ کیوں گاتا ہے اور کیوں چہچہاتا ہے، اس لیے نہیں کہ پرندے کے پاس کوئی خبر ہوتی ہے، کوئی اعلان ہوتا ہے، یا پرندے نے کوئی ضمیمہ چھاپا ہوا ہوتا ہے کہ ُ ُ آگئی آج کی تازہ خبر“ پرندہ کبھی ضمیمے کی آواز نہیں لگاتا، پرندہ اس لیے گاتا ہے کہ اُس کے پاس ایک گیت ہوتا ہے اور ہم خُدا کا ذکر اس لیے کرتے ہیں کہ پرندے کی طرح ہمارے پاس بھی اُس کے نام کا گیت ہے- جب تک آپ اس میں اتنے گہرے، اتنے Deep اور اتنے عمیق نہیں جائیں گے اُس وقت تک تمہارا یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا- لیکن میں اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اور بہیت زور لگانے کے با وصف ُ ُجیکی“ کی طرح بے چین ہی رہا اوراپنے حالات کے تالاب کے اِرد گِرد ویسے ہی بھاگتا رہا، چکر کاٹتا رہا جیسے کہ جیکی میرے پوتے کے اِرد گِرد بھاگتا ہے-
کہتے ہیں کہ ایک چھوٹی مچھللی نے بڑی مچھلی سے پوچھا کہ ُ ُآپا یہ سمندر کہاں ہوتا ہے؟“ اُس نے کہا جہاں تم کھڑی ہوئی ہو یہ سمندر ہے- اُس نے کہا، آپ نے بھی وہی جاہلوں والی بات کی یہ تو پانی ہے، میں تو سمندر کی تلاش میں ہوں اور میں سمجھتی تھی کہ آپ بڑی عمر کی ہیں، آپ نے بڑآ وقت گزارا ہے، آپ مجھے سمندر کا بتائیں گی- وہ اُس کو آوازیں دیتی رہی کہ چھوٹی مچھلی ٹھہرو،ٹھہرو میری بات سُن کے جاؤ اور سمجھو کہ میں کیا کہنا چاہتی ہوں لیکن اُس نے پلٹ کر نہیں دیکھا اور چلی گئی- بڑی مچھلی نے کہا کہ کوشش کرنے کی، جدّوجہد کرنے کی، بھاگنے دوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، دیکھنے کی اور Straight آنکھوں کے ساتھہ دیکھنے کی ضرورت ہے- مسئلے کے اندر اُترنے کی ضرورت ہے- جب تک تم مسئلے کے اندر اُتر کر نہیں دیکھو گے، تم اسی طرح بے چین و بےقرار رہو گےاور تمہیں سمندر نہیں ملے گا-
میرے ُ ُبابا“ نے کہا یہ بڑی غور طلب بات ہے- جو شخص بھی گول چکروں میں گھومتا ہے اور اپنے ایک ہی خیال کے اندر ُ ُوسِ گھولتا“ہے اور جو گول گول چکر لگاتا رہتا ہے، وہ کُفر کرتا ہے، شِرک کرتا ہے کیونکہ وہ اھدناالصراط المستقیم (دکھا ہم کو سیدھا راستہ) پر عمل نہیں کرتا- یہ سیدھا راستہ آپ کو ہر طرح کے مسئلے سے نکالتا ہے لیکن میں کہتا ہوں سراس ُ ُ دُبدا“ (مسئلے) سے نکلنے کی آرزو بھی ہےاور اس بے چینی اور پیچیدگی سے نکلنے کو جی بھی نہیں چاہتا،ہم کیا کریں- ہم کچھہ اس طرح سے اس کے اندر گِھرے ہوئے ہوتے ہیں، ہم یہ آرزو کرتے ہیں اور ہماری تمنّا یہ ہے کہ ہم سب حالات کو سمجھتے جانتے، پہچانتے ہوئے کسی نہ کسی طرح سے کوئی ایسا راستہ کوئی ایسا دروازہ ڈھونڈ نکالیں، جس سے ٹھنڈی ہوا آتی ہو- یا ہم باہر نکلیں یا ہوا کو اندر آنے دیں، لیکن یہ ہمارے مقدّر میں آتا نہیں ہے- اس لیے کہ ہمارے اور Desire کے درمیان ایک عجیب طرح کا رشتہ ہے جسے بابا بدھا یہ کہتا ہے کہ جب تک خواہش اندر سے نہیں نکلے گی (چاہے اچھی کیوں نہ ہو) اُس وقت تک دل بے چین رہے گا- جب انسان اس خواہش کو ڈھیلا چھوڑ دے گا اور کہے گا کہ جو بھی راستہ ہے، جو بھی طے کیا گیا ہے میں اُس کی طرف چلتا چلا جاؤں گا، چاہے ایسی خواہش ہی کیوں نہ ہو کہ میں ایک اچھا رائٹر یا پینٹر بن جاؤں یا میں ایک اچھا ُ ُ اچھا“ بن جاؤں- جب انسان خواہش کی شدّت کو ڈھیلا چھوڑ کر بغیر کوئی اعلان کیے بغیر خط کشیدہ کیے یا لائن کھینچے چلتا جائے تو پھر آسانی ملے گی-
ایک گاؤں کا بندہ تھا، اسے نمبر دار کہہ لیں یا زیلداراُس کو خواب آیا کہ کل ایک شخص گاؤں کے باہر آئے گا، وہ جنگل میں ہو گا اور اُس کے پاس دنیا کا سب سے قیمتی ہیرا ہو گا اور اگر کسی میں ہمّت ہے اور اُس سے وہ ہیرا لے سکے تو حاصل کر لے- چنانچہ وہ شخص جنگل میں گیا اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ ایک درخت کے نیچے واقعی ایک بُدھو سا آدمی بیٹھا ہوتا ہے، اُس نے جا کر اُس شخص سے کہا کہ تیرے پاس ہیرا ہے، اُس نے جواب دیا، نہیں میرے پاس تو کوئی ہیرا نہیں- اُس نے کہا کہ مجھے خواب آیا ہے کہ تیرے پاس ایک ہیرا ہے- اُس نے پھر نفی میںجواب دیا کہ نہیں اور کہا کہ میرے پاس میرا ایک تھیلا ہے ُ ُ گتُھلہ“ اس کے اندر میری ٹوپی، چادر، بانسری اور کچھہ کھانے کے لیے سُوکھی روٹیاں ہیں، گاؤں کے شخص نے کہا، نہیں تم نے ضرور ہیرا چھپایا ہوا ہے، اس پر اُس پردیسی نے کہا کہ نہیں میں کوئی چیز چھپاتا نہیں ہوں اور ہیرے کی تلاش میں آنے والے کی بے چینی کو دیکھا (جیسا مجھہ میں اور جیکی میں بے چینی ہے) اور تھیلے میں ہاتھہ ڈال کر کہا کہ جب میں کل اس طرف آرہا تھا تو راستے میں مجھے یہ پتھر کا ایک خوبصورت،چمکدار ٹُکڑا ملا ہے- یہ میں نے تھیلے میں رکھہ لیا تھا- اُس شخص نے بے قراری سے کہا، بیوقوف آدمی یہی تو ہیرا ہے تو اُس نے کہا ، اس کا میں نے کیا کرنا ہے تُو لے جا- وہ اُس پتھرکو لے گیا- وہ گاؤں کا شخص ہیرا پا کر ساری رات سو نہ سکا، کبھی اسے دیکھتا، کبھی دیوار سے ڈھو لگا کر پھر آنکھیں بند کر لیتا اور پھر اسے نکال کر دیکھنے لگتا- ساری رات اسی بے چینی میں گُزر گئی-
صبح ہوئی تو لوٹ کر اُس شخص کے پاس گیا، وہ یسے ہی آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا- اُس نے دیکھہ کر کہا، اب میرے پاس کیا مانگنے آیا ہے- اُس نے کہا، میں تیرے پاس وہ اطمینان مانگنے آیا ہوں جو اتنا بڑا، قیمتی ہیرا دے کر تجھے نصیب ہے اور تُو آرام سے بیٹھا ہوا ہے، تیرے اندر بے چینی کیوں پیدا نہیں ہوئی- اُس نے جواب دیا کہ مجھے تو معلوم ہی نہیں کہ بے چینی کس طرح پیدا ہوتی ہے اور کیسے کی جاتی ہے! آُس گاؤں کے شخص نے کہا تو آجا اور ہمارے گاؤں میں رہ کے دیکھہ- میں تجھے اس بات کی ٹریننگ دوں گا اور بتاؤں گا کہ بے چینی کس چیز کا نام ہے- لیکن وہ انکار کر گیا اور کہا کہ میرا راستہ کچھہ اور طرح کا ہے- تُو یہ ہیرا رکھہ اپنے پاس- اُس نے پھر کہا کہ گو میں نے تم سے یہ ہیرا لے لیا ہے، لیکن میری بےچینی کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی ہے- میں اس پریشانی میں مُبتلا ہو گیا ہوں کہ ایسا کس طرح اور کیسے ہو سکتا ہے جیسے تُو نے کر دیا ہے-اب میں وہاں سے آتو گیا ہوں اور میں اپنے گھر میں ہوں لیکن میرے اندر کا ُ ُجیکی“ وہ اس طرح سے آدھا پانی میں بھیگا ہوا۔ لعاب گراتا ہوا، اس بے چینی کے ساتھ گھوم رہا ہے اور اُس کو وہ سکون نصیب نہیں ہوا، جو ہونا چاہیے تھااور میں اپنی تمام تر کوشش کے باوصف اس خواہش سے اس آرزو سے اس تمنّا سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکا، باہر نہیں نکل سکا جو اس عمر میں جو کہ ایک بڑی عمر ہے، نکل جانا چاہیے تھا- میں سڑک پر باہر نکل کر دیکھتا ہوں تو پریشانی کے عالم میں بہت سارے جیکی میرے شہر کی سڑکوں پر بے چینی کے عالم میں بھاگ رہے ہوتے ہیں- وہ بھی میرے جیسے ہی ہیں- ان کے اندر بھی یہ بیماری چلی جا رہی ہےاور بڑھتی چلی جا رہی ہے- میں لوٹ کر آگیا ہوں اور اس وقت اپنے وجود کی کھڑکی میں آرزو کے پنجے رکھہ کر باہر دیکھہ رہا ہوں اور ہر آنے جانے والی چیز کو دیکھہ رہا ہوں اور حاصل کرنے والی چیز کے لیے بڑی شدّت کے ساتھہ دُم ہلا رہا ہوں- میری کوئی مدد نہیں کرتا، کوئی آگے نہیں بڑھتا حالانکہ میری خواہش یہ ہے کہ ایسے لوگ مجھے بھی ملیں جن کے تھیلے میں وہ من موہنا ہیرا ہو جو لوگوں کو دیکھہ چکنے کے بعد کچھہ عطا کر دیتا ہے- اب جبکہ میں بڑا بے چین ہوں اور اس عمر میں یہ بےچینی زیادہ بڑھہ گئی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ایک بڑا حصّہ ملٹی نیشنل کا بھی ہے- پہلے یہ چیزیں نہیں تھیں-
ایک صبح جب میں جاگا اور میں باہر نکلا تو میرے شہر کے درودیوار بدل گئے-اُن کے اوپر اتنے بڑے بڑے ہورڈنگ، سائن بورڈز اور تصویریں لگ گئی ہیںجو میں نے اس سے پہلے نہیں دیکھی تھیں جو پُکار پُکار کر مجھے کہہ رہی تھیں کہ مجھے خریدو، مجھے لو، مجھے استعمال کرو،میں ان کو نہیں جانتا تھا- آپ یقین کریں کہ آج سے ستر برس پہلے بھی میں زندہ تھا- میں خُدا کی قسم کھا کہ کہہ سکتا ہوں کہ میں آج سے پہلے زندہ تھا اور بڑی کامیابی کے ساتھہ زندہ تھا اور صحت مندی کے ساتھہ زندہ تھا اور اب اس بڑھاپے میں میری انکم کا ستر فیصد حصّہ ان آئٹمز پر خرچ ہو رہا ہے جو آج سے 70 برس پہلے ہوتی ہی نہیں تھیں-1960ء میں یہ آئٹمز ہوتی ہی نہیں تھیں- یہ ایک بڑی ٹریجڈی ہے-آپ یقین کریں کہ 1960ء میں فوٹو اسٹیٹ مشین کا کوئی تصوّر نہیں تھا کہ یہ کیا ہوتی ہے- اب مجھے اتنا فوٹو اسٹیٹ کروانا پڑتا ہے کہ میں پیسے بچا بچا کر رکھتا ہوں- میرا پوتا کہتا ہے کہ دادا اس کی میں فوٹو اسٹیٹ کروا لاتا ہوں- فلاں چیز کی بھی ہو جائے- وغیرہ وغیرہ- جب میں کسی دفتر میں جاتا ہوں اور میں وہا ں جا کر عرضی دیتا ہوں کہ جناب مجے اپنی Date of Birth چاہیے تو سب سے پہلے وہ کہتے ہیں کہ جی اس کی دو فوٹو اسٹیٹ کروا لائیں- بھئی کیوں کروا لاؤں؟ کہتے ہیں اس کا مجھے نہیں پتہ، بس فوٹو اسٹیٹ ہونا چاہیے- آپ یقین کریں کہ جب میں بی اے میں پڑھتا تھا ، بہت دیر کی بات ہے تو وہاں ہمارا ایک سِکھہ دوست ہرونت سنگھہ تھا،اُس نے مجھے کہا ہتھیلی آگے بڑھا، میں نے ہتھیلی آگے بڑھائی- اُس نے ایک گندی لیس دار چیز میری ہتھیلی پر لگا دی- میں نے کہا ُ ُظالما! یہ تو نے کیا کیا، سکھا“- اُس نے کہا، اس پر پانی گرا اور سر ہر مَل اور پھر دیکھہ- میں نے اس پر پانی گرا کر سر پر مَلا تو ُ ُ پھپھا پھپ“ جاگ ہو گئی، کہنے لگا اس کو شیمپو کہتے ہیں-ہم تو اُس وقت لال صابن سے نہاتے تھے- اُس نے کہا یہ میرے چاچے نے لندن سے بھیجی ہے-
ہمارے مُلک میں شام کے وقت جب میں اپنے ٹی وی پر Advertisement دیکھتا ہوں تو مجھے یہ پتہ چلتا ہے کہ میرے مُلک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کون سا شیمپو استعمال کیا جائے- ایک لڑکی کہتی ہے، خبردار جوئیں پڑ جائیں گی، وہ شیمپو نہیں لگانا- دوسری کہتی ہے، نہیں میں تو ُ ُٹیکافوری“ لگاتی ہوں-وہ کہتی ہے، مت لگا، ٹیکا فوری خراب ہوتا ہے-ُ ُچوچا چوچی کا اچھا ہے- میرے سارے بچّےکہتے ہیں، ہمیں فلاں شیمپو چاہیے- میرا ایک پوتا مجھہ سے کہتا ہے کہ دادا تم خُدا کے فضل سے بڑے صحت مند آدمی ہو، اللہ کے واسطے یہ پانی مت پیو جو تم 78 برس سے پیتے آرہے ہو- تم منرل واٹر پیو،یہ بالکل Pure Water ہوتا ہے- اُس کے کہنے کا مطلب شاید یہ ہوتا ہے کہ اس کے پینے والا زندہ رہتا ہے- دوسرے سب فوت ہوئے پڑے ہیں!! اس سب کے ساتھہ ساتھہ مجھے رونا بھی آ رہا ہے کہ میں اپنے یوٹیلیٹی بلز پر دباؤ ڈالتا ہوں اور ان پرکُڑھتا ہوں- میرا اس میں کوئی قصور نہیں- یوٹیلیٹی بل بھیجنے والوں کا بھی کوئی قصور نہیں- قصور میری خواہشات کا ہے، میری Desires کا دائرہ اتنی دُور تک پھیل گیا ہے اور وہ میرے اختیار میں بالکل نہیں رہا- میں کتنی بھی کوشش کیوں نہ کر لوں، میں اس دائرے کے اندر نہیں آ سکتا- بار بار مجھے یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ بھی تمہارے استعمال کی چیز ہے- وہ بھی تمہارے استعمال کی چیز ہے اور جب تک تم اسے استعمال میں نہیں لاؤ گے، اُس وقت تک کچھہ نہیں ہو سکتا-
1948ء میں ہم نے ایک فریج خریدا،کیونکہ میری بیوی کہتی تھی کہ فریج ضرور لینا یہ دُنیا کی سب سے قیمتی اور اعلٰی درجے کی چیز ہے- ہمارے خاندان میں کسی کے پاس فریج نہیں تھا- وہ ہمارے گھر سالم تانگے کروا کر فریج دیکھنے آتے تھے کہ سُبحان اللہ کیا کمال کی چیز ہے- میری بیوی انہیں دکھاتی تھی کہ دیکھو ڈھکنا کُھلا ہے اور اس میں ساری چیزیں پڑی ہیں اور ان پر روشنی پڑ رہی ہے- ساری چینخیں مارتی تھیں کہ آپا جی بتّی جلتی رہے گی- تو وہ کہتی ُ ُ ہے ہے! جب دروازہ بند ہوگا توبتّی خود بخود بجھہ جائے گی- اس میں یہ کمال ہے-“ تو وہ ساری بیچاریاں دست بستہ ہو کر ڈر کے پیچھے ہو کر کھڑی ہو جاتیں- میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ یہ فریج تو آ گیا ہے اس کے ساتھہ کی ساری نیگٹیوچیزیں بھی آئیں گی- اُس نے کہا، نہیں یہ بڑی مُفید چیز ہے-
اگلے روز عید تھی- جب میں نمازِ عید پڑھہ کے صوفی غلام مُصطفٰی تبسّم کے گھر کے آگے سے گُذرا تو گھروں میں صفائی کرنے والی دو بیبیاں جا رہی تھیں، میں اُن کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا- ایک نے دوسری سے پوچھا کہ اس بی بی نے تجھے کتنا گوشت دیا ہے- تو اُس نے کہا، دفع دُور! اُس نے ٹھنڈی الماری خرید لی ہے، سارا بکرا کاٹ کے اندر رکھہ دیا ہے، کچھہ بھی نہیں دیا- اب آپ لوگ میرا بندوبست کرہ کہ میں اپنے آپ کو کیسے بچاؤں- میں جتنی دیر بھی اور زندہ رہنا چاہتا ہوں، خوش دلی اور خوش بختی کے ساتھ زندہ رہنا چاہتا ہوں-مجھہ پر ایسا دباؤ نہ ڈالو، میں محسوس کرتا ہوں کہ جیکی میرے مُقابلے میں اب زیادہ پُرسکون ہو گیا ہے، یہ بات شاید اب سمجھہ میں آگئی ہو جبکہ میں اِرد گِرد بھاگا پھرتا ہوں اور بے چین ہوں- میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے- اللہ حافظ -
 
“چھوٹا کام“
رزق کا بندوبست کسی نہ کسی طرح اللہ تعالٰی کرتا ہے، لیکن میری پسند کے رزق کا بندوبست نہیں کرتا- میں چاہتا ہوں کہ میری پسند کے رزق کا انتظام ہونا چاہیے- ہم اللہ کے لاڈلے تو ہیں۔ لیکن اتنے بھی نہیں جتنے خود کو سمجھتے ہیں-
ہمارے بابا جی کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی آدمی آپ سے سردیوں میں رضائی مانگے تو اُس کے لیے رضائی کا بندوبست ضرور کریں، کیونکہ اُسے ضرورت ہو گی- لیکن اگر وہ یہ شرط عائد کرے کہ مجھے فلاں قسم کی رضائی دو تو پھر اُس کو باہر نکال دو، کیونکہ اس طرح اس کی ضرورت مختلف طرح کی ہو جائے گی-
وقت کا دباؤ بڑا شدید ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ برداشت کے ساتھہ حالات ضرور بدل جائیں گے، بس ذرا سا اندر ہی اندر مُسکرانے کی ضرورت ہے- یہ ایک راز ہے جو سکولوں، یونیورسٹیوں اور دیگر اداروں میں نہیں سکھایا جاتا- ایسی باتیں تو بس بابوں کے ڈیروں سے ملتی ہیں- مجھہ سے اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ اشفاق صاحب کوئی بابا بتائیں- میں نے ایک صاحب سے کہا کہ آپ کیا کریں گے؟ کہنے لگے، اُن سے کوئی کام لیں گے- نمبر پوچھیں گے انعامی بانڈز کا- میں نے کہا انعامی بانڈز کا نمبر میں آپ کو بتا دیتا ہوں- بتاؤ کس کا چاہیے؟ کہنے لگے، چالیس ہزار کے بانڈ کا- میں نے کہا کہ 931416, کیونکہ تم کبھی کہیں سے اسے خرید نہیں سکو گے- کہاں سے اسے تلاش کرو گے؟ آپ کو انعامی بانڈ کا نمبر آپ کی مرضی کا تو نہیں ملے گا ناں!
آپ بابوں کو بھی بس ایسے ہی سمجھتے ہیں، جیسے میری بہو کو آج کل ایک خانساماں کی ضرورت ہے- وہ اپنی ہر ایک سہیلی سے پوچھتی ہے کہ ُُ ُاچھا سا خانساماں کا تمہیں پتا ہو تو مجھے بتاؤ-“ اسی طرح میرے سارے چاہنے والے مجھہ سے کسی اچھے سے بابے کی بابت پوچھتے ہیں کہ جیسے وہ کوئی خانساماں ہو-ان بابوں کے پاس کچھہ اور طرح کی دولت اور سامان ہوتا ہے،جو میں نے متجسس ہو کر دیکھا، حالانکہ میں تو ولایت میں تھا اور پروفیسری کرتا تھا- میں نے یہاں آکر دیکھا کہ یہ بھی تو ایک علم ہے- یا اللہ! یہ کیسا علم ہے، اسے کس طرح سے آگے چلایا جاتا ہے کہ یہ مشکل بہت ہے- مثال کے طور پر ان کا (بابوں) حکم ہوتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے کام کرو، بڑے بڑئ کام نہ کرو-چھوٹے کاموں کہ مت بھولیں، ان کو ساتھہ لے کر چلیں- چھوٹے کاموں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، لیکن ہم ان باتوں کو مانتے ہی نہیں کہ بھئی یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ چھوٹا کام بھی اہمیت کا حامل ہو-
جب ہم بابا جی کے پاس ڈیرے پر گئے تو اُنہوں نے ہمیں مٹر چھیلنے پر لگا دیا- میں نے تھری پیس سوٹ پہن کر ٹائی لگا رکھی تھی، لیکن مٹر چھیل رہا تھا، حالانکہ میں نے ساری زندگی کبھی مٹر نہیں چھیلے تھے- پھر اُنہوں نے لہسن کو چھیلنے پر لگا دیا اور ہاتھوں سے بُو آنا شروع ہو گئی- پھر حکم ہوا کہ میتھی کے پتّے اور ُ ُڈنٹھل“ الگ الگ کرو- اس مشقّت سے اب تو خواتین بھی گھبراتی ہیں- ہماری ایک بیٹی ہے زونیرا، اُس کو کوئی چھوٹا سا کام کہہ دیں کہ بھئی یہ خط پپہنچا دینا تو کہتی ہے، بابا یہ معمولی سا کام ہے- مجھے کوئی بڑا سا کام دیں- اتنا بڑا کہ میں آپ کو وہ کر کے دکھاؤں ( کوئی شٹل میں جانے جیسا کام شاید ) میں نے کہا یہ خط تو پہنچا دیتی!کہنےلگی، یہ تو بابا بس پڑا ہی رہ گیا میرے پاس- چھوٹے چھوٹے کاموں سے بابوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس سے ہماری زندگی میں ڈسپلن آئے-
ہمارے دین میں سب سے اہم چیز ڈسپلن ہے- میں تین چار برس پہلے کینیڈا گیا تھا، وہاں ایک یوری انڈریو نامی ریڈیو اناؤنسر ہے- اب وہ مُسلمان ہو گیا ہے- اُس کی آواز بڑی خوبصورت آواز ہے- میں اس وجہ سے کہ وہ اچھا اناؤنسر ہے اور اب مُسلمان ہو گیا ہے، اُس سے ملنے گیا- وہ اپنے مُسلمان ہونے کی وجوہات کے بارے میں بتاتا رہا- اُس نے مُسلمان ہونے کی وجہ تسمیہ بتاتے ہوئے کہا کہ وہ سورہ روم پڑھ کر مُسلمان ہوا ہے- میں پھر کبھی آپ کو بتاؤں گا کہ اُس کو سورہ روم میں کیا نظر آٰیا- میں نے کہا کہ اب ہمارے حالات تو بڑے کمزور ہیں- اُس نے کہا نہیں- اسلام کا نام تو جلی حروف میں سامنے دیوار پر بڑا بڑا کر کے لکھا ہوا ہے- میں نے کہا، نہیں! ہم تو ذلیل و خوار ہو رہے ہیں- خاص طور پر جس طرح سے ہم کو گھیرا جا رہا ہے، اُس نے کہا ٹھیک ہے گھیرا جا رہا ہے، لیکن اس صورتِ حال میں سے نکلنے کا بھی ایک انداز ہے- ہم نکلیں گے- میں نے کہا ہم کیسے نکلیں گے؟ اُس نے کہا کہ جب کوئی پانچ چھہ سات سو امریکی مُسلمان ہو جائیں گے اور اسی طرح سے چھہ سات سو کینیڈین مُسلمان ہو جائیں اور ساڑھے آٹھھ نو سو سکینڈے نیوین مُسلمان ہوجائیں گے تو پھر ہمارا قافلہ چل پڑے گا، کیونکہ
We are Disciplined -اسلام ڈسپلن سکھاتا ہے، نعرہ بازی کو نہیں مانتا- میں بڑا مایوس، شرمندہ اور تھک سا گیا- اُس کی یہ بات سُن کر اور سوچا کہ دیکھو! ہر حال میں ان کیُ ُچڑھ“ مچ جاتی ہے- یہ جو گورے ہیں یہ یہاں بھی کامیاب ہو جائیں گے-
اسلام، جو ہم کو بہت پیارا ہے- ہم نعرے مار مار کر، گانے گا گا کر یہاں تک پہنچے ہیں اور یہ ہمیں مل نہیں رہا- میں نے اُس سے کہا کہ اس میں ہمارا کوئی حصّہ نہیں ہوگا؟ تو اُس نے کہا کہ نہیں! آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ آپ کا اس میں کوئی حصّہ نہیں ہے- میں نے کہا کہ یار! ہمارا بھی جی چاہے گا کہ ہمارا بھی اس میں کوئی حصّہ ضرور ہو- کہنے لگا، ایسا کریں گے کہ جب ہمارا قافلہ چلے گا تو تم بھی بسترے اُٹھا کر پپیچھے پیچھے چلتے آنا اور کہا Sir we are also Muslim - لیکن آپ میں وہ ڈسپلن والی بات ہے نہیں- اور دنیا جب آگے بڑھی ہے تو وہ نظم سے اور ڈسپلن سے ہی آگے بڑھی ہے- جب اس نے یہ بتایا کہ دیکھئے ہمارے دین میں اوقات مقّرر ہیں- وقت سے پہلے اور بعد میں نماز نہیں ہو سکتی- اس کی رکعات مقّرر ہیں- آپ مغرب کی تین ہی پڑہیں گے- آپ چاہیں کہ میں مغرب کی چار رکعتیں پڑھہ لوں کہ اس میں اللہ کا بھی فائدہ، اور میرا بھی فائدہ، لیکن اس سے بات نہیں بنے گی- آپ کو فریم ورک کے اندر ہی رہنا پڑے گا- پھر آپ حج کرتے ہیں- اس میں کچھہ عبادت نہیں کرنی، طے شدہ بات ہے کہ آج آپ عرفات میں ہیں، کل مزدلفہ میں ہیں- پرسوں منٰی میں ہیں اور بس حج ختم اور کچھہ نہیں کرنا، جگہ بدلنی ہے کہ فلاں وقت سے پہلے وہاں پہنچ جانا ہے اور جو یہ کر گیا، اُس کا حج ہو گیا، کچھہ لمبا چورا کام نہیں - دین مین ہر معاملے میں ڈسپلن سکھایا گیا ہے- ہمارے بابے کہتے ہیں کہ ڈسپلن چھوٹے کاموں سے شروع ہوتا ہے- جب آپ معمولی کاموں کو اہمیت نہیں دیتے اور ایک لمبا منصوبہ بنا کر بیٹھہ جاتے ہیں، اپنا ذاتی اور انفرادی تو پھر آپ سے اگلا کام چلتا نہیں- کافی عرصہ پہلے میں چین گیا تھا- یہ اُس وقت کی بات ہے جب چین نیا نیا آزاد ہوا تھا- ہم سے وہ ایک سال بعد آزاد ہوا- ان سے ہماری محبتّیں بڑھ رہی تھیں اور ہم ان سے ملنے چلے گئے- افریقہ اور پاکستان کے کچھہ رائٹر چینی حکّام سے ملے-
ایک گاؤں میں بہت دُور پہاڑوں کی اوٹ میں کچھہ عورتیں بھٹی میں دانے بھون رہی تھیں- دھواں نکل رہا تھا- میرے ساتھہ شوکت صدیقی تھے- کہنے لگے، یہ عورتیں ہماری طرح سے ہی دانے بھون رہی ہیں-جب ہم ان کے پاس پہھنچے تو دو عورتیں دھڑا دھڑ پھوس، لکڑی جو کچھہ ملتا تھا، بھٹی میں جھونک رہی تھیں اپنے رومال باندھے کڑاہے میں کوئی لیکوڈ (مائع) سا تیار کر رہی تھیں- ہم نے اُن سے پوچھا کہ یہ آپ کیا کر رہی ہیں؟ تو اُنہوں نے کہا کہ ہم سٹیل بنا رہی ہیں- میں نے کہا کہ سٹیل کی تو بہت بڑی فیکٹری ہوتی ہے- اُنہون نے کہا کہ ہم غریب لوگ ہیں اور چین ابھی آزاد ہوا ہے- ہمارے پاس کوئی سٹیل مل نہیں ہے- ہم نے اپنے طریقے کا سٹیل بنانے کا ایک طریقہ اختیار کیا ہے کہ کس طرح سے سندور ڈال کر لوہے کو گرم کرنا ہے- یہ عورتٰن صبح اپنے کام پر لگ جاتیں اور شام تک محنت اور جان ماری کے ساتھہ سٹیل کا ایک ُ ُڈلا“ یعنی پانچ چھہ سات آٹھہ سیر سٹیل تیار کر لیتیں- ٹرک والا آتا اور ان سے آکر لے جاتا-
اُنہوں نے بتایا کہ ہمیں جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے ہم اس سٹیل کی بدلے لے لیتے ہیں- میں اب بھی کبھی جب اس بات کو سوچتا ہوں کہ سُبحان اللہ، ان کی کیا ہمت تھی- اُن کو کس نے ایسے بتا دیا کہ یہ کام ہم کریں گی تو مُلک کی کمی پوری ہوگی- چھوٹا کام بہت بڑا ہوتا ہے- اس کو چھوڑا نہیں جا سکتا، جو کوئی اسے انفرادی یا اجتماعی طور پر چھوڑ دیتا ہے، مشکل میں پڑ جاتا ہے-
اٹلی مین ایک مسٹر کلاؤ ایک بڑا سخت قسم کا یہودی تھا- ابس کی کوئی تیرا چودہ منزلہ عمارت تھی- صبح جب میں یونیورسٹی جاتا تو وہ وائپر لے کر رات کی بارش کا پانی نکال رہا ہوتا اور فرش پر ُ ُٹاکی“ لگا رہا ہوتا تھا یا سڑک کے کنارے جو پٹڑی ہوتی ہے اُسے صاف کر رہا ہوتا- میں اُس سے پوچھتا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں، اتنے بڑے آدمی ہو کر-اُس نے کہا یہ میرا کام ہے، کام بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا، جب میں نے یہ ڈیوٹی لے لی ہے اور میں اس ڈسپلن میں داخل ہو گیا ہوں تو میں یہ کام کروں گا- میں نے کہا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اُس نے کہا کہ یہ انبیاء کی صفّت ہے، جو انبیاء کے دائرے میں داخل ہونا چاہتا ہے- وہ چھوٹے کام ضرور کرے- ہم کو یہ نوکری ملی ہے- حضرت موسٰی علیہ السلام نے بکریاں چَرائی تھیں اور ہم یہودیوں میں یہ بکریاں چَرانا اور اس سے متعلقہ نچلے لیول کا کام موجود ہے تو ہم خود کو حضرت موسٰی علیہ السلام کا پیروکار سمجھیں گے- اُس نے کہا کہ آپ کے نبی اپنا جوتا خود گانٹھتے تھے- قمیض کو پیوند یا ٹانکا خود لگاتے تھے- کپڑے دھو لیتے تھے- راستے سے ُ ُجھاڑجھنکار“ صاف کر دیتے تھے، تم کرتے ہو؟ میں کہنے لگا مجھےتو ٹانکا لگانا نہیں آتا، مجھے سکھایا نہیں گیا- وہ آدمی بڑی تول کے بات کرتا تھا- مجھے کہتا تھا دیکھو اشفاق تم اُستاد تو بن گئے ہو، لیکن بہت سی چیزیں تمہیں نہیں آتیں- جب کام کرو چھوٹا کام شروع کرو- اب تم لیکچرار ہو کل پروفیسر بن جاؤ گے- تم جب بھی کلاس میں جانا یا جب بھی لوگوں کو خطاب کرنے لگنا اور کبھی بہت بڑا مجمع تمہارے سامنے ہو تو کبھی اپنے سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں کو مخاطب نہ کرنا- ہمیشہ اپنی آواز کو دور پیچھے کی طرف پھینکنا- وہ لوگ جو بڑے شرمیلے ہوتے تھے، شرمندہ سے جھکے جھکے سے ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ پچھلی قطاروں میں بیٹھتے ہیں-آپ کا وصف یہ پونا چاہیے کہ آپ اپنی بات اُن کے لیے کہیں- جب بات چھوٹوں تک پہنچے گی تو بڑوں تک خود بخود پہنچ جائے گی- میں اُس کی باتوں کو کبھی بُھلا نہیں سکتا- جب میں اپنے بابا جی کے پاس آیا تو میں نے کلاؤ کی یہ بات اُنہیں بتائی، اُنہوں نے کہا کہ دیکھو کچھہ ہماری ڈیوٹیاں ہوتی ہیں، مثلاً یہ کہ مجھے سکھایا گیا کہ سوئی میں دھاگہ ڈالنا سیکھو- سبزیاں چھیلنے کی تو میری پریکٹس ہو چکی تھی- اب بابا جی نے فرمایا کہ سوئی میں دھاگہ ڈالنا سیکھو- اب یہ بڑا مشکل کام ہے- میں کبھی ایک آنکھہ بند کرتا اور کبھی دوسری آنکھہ کانی کرتا، لیکن اس میں دھاگہ نہیں ڈالتا تھا-
31
ہوں کہ ہر بیٹسمین اپنے مضبوط ہاتھوں اور مضبوط کندھوں اور پُر استقلال جمائے ہوئے قدموں، اپنے سارے وجود اور اپنے سارے Self کی طاقت کے ساتھہ ہٹ نہیں لگاتا، بلکہ اُس کے سر کی ایک چھوٹی سی جُنبش ہوتی ہے، جو نظر بھی نہیں آتی- اُس جُنبش کے نہ آنے تک نہ چوکا لگتا ہے نہ چھکّا- لگتا ہے جب وہ بیلنس میں آتی ہے، تب شارٹ لگتی ہے- سرکس کی خاتون جب تار پر چلتی ہے وہ بیلنس سے یہ سب کچھہ کرتی ہے- میں ابھی جس راستے سے آیا ہوں، مجھے آدھ گھنٹہ کھڑا رہنا پڑا، کیونکہ ہماری بتّی تو سبز تھی، لیکن دوسری طرف سے آنے والے ہمیں گزرنے نہیں دیتے تھے اور راستہ نہ دے کر کہہ رہے تھے کہ کر لو جو کرنا ہے، ہم تو اس ڈسپلن کو نہیں مانتے-
یہ سوچ خطرناک ہے، بظاہر کچھہ باتیں چھوٹی ہوتی ہیں، لیکن وہ نہایت اہم اور بڑی ہوتی ہیں- میں نے تھوڑے دن ہوئے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا ( جیسا کہ میری عادت ہے ہر ایک سے پوچھتا رہتا ہوں، کیونکہ ہر ایک کا اپنا اپنا علم ہوتا ہے) کہ آپ کو سب سے زیادہ کرایہ کہاں سے ملتا ہے- اُس نے کہا سر مجھے یہ تو یاد نہیں کہ کسی نے خوش ہو کر زیادہ کرایہ دیا ہو، البتہ یہ مجھے یاد ہے کہ میری زندگی میں کم سے کم کرایہ مجھے کب ملا اور کتنا ملا- میں نے کہا کتنا، کہنے لگا آٹھہ آنے- میں نے کہا وہ کیسے؟ کہنے لگا جی بارش ہو رہی تھی یا ہو چکی تھی، میں لاہور میں نسبت روڈ پر کھڑا تھا، بارش سے جگہ جگہ پانی کے چھوٹے چھوٹے جوہڑ سے بنے ہوئے تھے تو ایک بڑی پیاری سی خاتون وہ اس پٹڑی سے دوسری پٹڑی پر جانا چاہتی تھی لیکن پانی کے باعث جا نہیں سکتی تھی- میری گاڑی درمیان میں کھڑی تھی،اُس خاتون نے گاڑی کا ایک دروازہ کھولا اور دوسرے سے نکل کر اپنی مطلوبہ پٹڑی پر چلی گئی اور مجھے اٹھنی دے دی-
ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں، مسکرانا سیکھنا چاہیے اور اپنی زندگی کو اتنا ُ ُچیڑا“ (سخت) نہ بنا لیں کہ ہر وقت دانت ہی بھینچتے رہیں- مجھے یقین ہے کہ آپ ڈسپلن کے راز کو پا لیں گےاور خود کو ڈھیلا چھوڑدیں گے اور Relex رکھیں گے- اللہ آپ سب کو اور آپ کے عزیز واقارب کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عا فرمائے- اللہ حافط !!

نوٹ: اس باب میں صفحہ نمبر 30 نہیں ہے
 
ُ ُویل وشنگ“



میں اکثر عرض کرتا ہوں کہ جب وقت ملے اور گھر میں کوئی دیوار ہو تو اُس کے ساتھہ ٹیک لگا کر زمین پر بیٹھہ کر اپنا تجزیہ ضرور کیا جانا چاہیے- یہ ہے تو ذرا سا مشکل کام اور اس پر انسان اس قدر شدّت سے عمل پیرا نہیں ہو سکتا، جو درکار ہے، کیونکہ ایسا کرنے سے بہت سی اپنی باتیں کُھل کر سامنے آتی ہیں- آپ نے سُنا ہوگا کہ یہ جو رفو گر ہیں، کشمیر میں برف باری کے دنوں میں اپنا سوئی دھاگہ لے کر چلے جاتے ہیں اور وہاں کپڑے کے اندر ہو جانے والے بڑے بڑے شگافوں کی رفو گری کا کام کرتے ہیں، جن میں خاص طور پر گرم کپڑوں کے شگاف اور ُ ُلگار“ اور چٹاخ جو ہوتے ہیں اُن کی رفو گری کرتے ہیں، وہ کہاں سے دھاگہ لیتے ہیں اور کس طرح سے اس کو اس دھاگے کے ساتھہ مہارت سے ملاتے ہیں کہ ہم ُ ُٹریس“ نہیں کر سکتے کہ یہاں پر اتنا بڑا (Gape) سُوراخ ہو گیا تھا، کیونکہ وہ بالکل ایسا کر دیتے ہیں، جیسے کپڑا کارخانے سے بن کر آتا ہے-
یہ رفو گروں کا کمال ہے- وہ غریب لوگ اپنی چادر لے کر اور اپنی کانگڑی (مٹّی کی بھٹّی) سُلگا کر اُس میں کوئلے ڈال کر، دیوار کے ساتھہ لگ کر بیٹھے ہوتے ہیں اور بہت بھلے لوگ ہیں یہ کشمیری لوگ بڑی ہی بھلی کمیونٹی ہیں، کیونکہ وہ اپنا تجزیہ کرتے ہیں اور اُن کو پتہ چلتا رہتا ہے اپنے اس Self کا جو لے کر انسان پیدا ہوا تھا، محفوظ رکھا ہوا ہے یا نہیں- گو ہم نے تو اپنی Self کے اوپر بہت بڑے بڑے سائن بورڈ لگا لیے ہیں، اپنے نام تبدیل کر لیے ہیں، اپنی ذات کے اوپر ہم نے پینٹ کر لیا ہے- ہم جب کسی سے ملتے ہیں، مثلاً میں آپ سے اس اشفاق کی طرح نہیں ملتا، جو میں پیدا ہوا تھا، میں تو ایک رائٹر، ایک دانشور، ایک سیاستدان، ایک مکّار، ایک ٹیچر بن کر ملتا ہوں-اس طرح آپ جب مجھہ سے ملتےہیں تو آپ اپنے اپنے سائن بورڈ مجھے دکھاتے ہیں- اصل Self کہاں ہے، وہ نہیں ملتی- اصل Self جو اللہ نے دے کر پیدا کیا ہے،وہ تب ہی ملتا ہے، جب آدمی اپنے نفس کو پہچانتا ہے،لیکن اُس وقت جب وہ اکیلا بیٹھہ کر غور کرتا ہے، کوئی اُس کو بتا نہیں سکتا اپنے نفس سے تعارف اُس وقت ممکن ہے جب آپ اُس کے تعارف کی پوزیشن میں ہوںاور اکیلے ہوں- جس طرح خُدا وند تعالٰی فرماتا ہے ُُ ُ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا، اُس نے اپنے رب کو پہچان لیا-“
جس انسان نے خود کو پہچان لیا کہ میں کون ہوں؟ وہ کامیاب ہو گیا اور وہ لوگ خوش قسمت ہیں جو باوجود اس کے کہ علم زیادہ نہیں رکھتے، اُن کی تعلیم بھی کچھہ زیادہ نہیں، لیکن علم اُن پر وارد ہوتا رہتا ہے، جو ایک خاموش آدمی کو اپنی ذات کے ساتھہ دیر تک بیٹھنے میں عطا ہوتا ہے-
میں پہلے تو نہیں اب کبھی کبھی یہ محسوس کرتا ہوں کہ اور عمر کے اس حصّے میں میری طبیعت پر ایک عجیب طرح کا بوجھہ ہے، جو کسی طرح سے جاتا نہیں -میں آپ سے بہت سی باتیں کرتا ہوں- اب میں چاہوں گا کہ میں اپنی شکل آپ کے سامنے بیان کروں اور آپ بھی میری مدد کریں، کیونکہ یہ آپ کا بھی فرض بنتا ہے کہ آپ مجھہ جیسے پریشان اور درد مند آدمی کا سہارا بن جائیں- ہمارے بابے جنکا میں اکثر ذکر کرتا ہوں، کہتے ہیں کہ اگر آپ کسی محفل میں کسی یونیورسٹی، سیمینار، اسمبلی میں، کسی اجتماع میں یا کسی بھی انسانی گروہ میں بیٹھے کوئی موضوع شدّت سے ڈسکس کر رہے ہوں اور اُس پر اپنے جواز اور دلائل پیش کر رہے ہوں اور اگر آپ کے ذہن میں کوئی ایسی دلیل آجائے جو بہت طاقتور ہو اور اُس سے اندیشہ ہو کہ اگر میں یہ دلیل دوں گا تو یہ بندہ شرمندہ ہو جائے گا کیونکہ اُس آدمی کے پاس اس دلیل کی کاٹ نہیں ہو گی- شطرنج کی ایسی چال میرے پاس آ گئی ہے کہ یہ اس کا جواب نہیں دے سکے گا- اس موقع پر ُ ُبابے“ کہتے ہیں کہ،ُ ُاپنی دلیل روک لو،بندہ بچا لو، اسے ذبح نہ ہونے دو، کیونکہ وہ زیادہ قیمتی ہے-“
ہم نے تو ساری زندگی کبھی ایسا کیا ہی نہیں- ہم تو کہتے ہیں کہ ُ ُ میں کھڑکار پادیاں گا-“ ہماری بیبیاں جس طرح کہتی ہیں کہ ُ ُ میں تے آپاںجی فیر سدھی ہوگئی،اوہنوں ایسا جواب دتا کہ اوہ تھر تھر کنبن لگ پئی، میں اوہنوں اک اک سُنائی، اوہدی ماسی دیاں کرتوتاں اوہدی پھوپھی دیاں وغیرہ وغیرہ-“
( باجی میں نے تو اُس کو کھری کھری سبنا دیں، جس سے وہ تھر تھر کانپنے لگی- اُس کو اُس کی خالہ، پھوپھی سب کی باتیں ایک ایک کر کے سُنائیں)
خیر انسان کمزور ہے، ہم بھی ایسے ہی کرتے ہیں-بڑی دیر کی بات ہے،1946ء کی جب پاکیستان نہیں بنا تھا- میں اُس وقت بی اے کر چکا تھا اور تازہ تازہ ہی کیا تھا- ہمارے قصبے کے ساتھہ ایک گاؤں تھا- اس میں ایک ڈسٹرکٹ بورڈ مڈل سکول تھا، وہاں کا ہیڈ ماسٹر چھٹی پر گیا- اُس کی جگہ تین ماہ کے لیے مجھے ہیڈ ماسٹر بنا دیا گیا- اب میں ایک پدّا سا (چھوٹے قد کا) نوجوان بڑے فخر کے ساتھہ ایک سکول ہینڈل کر رہا ہوں- گو مجھے زیادہ تجربہ نہیں ہے، لیکن میں زور لگا کے یہ بتانا چاہتا ہوں دوسرے ماسٹروں کو کہ بی اے کیا ہوتا ہے، کیونکہ وہ ہبیچارے نارمل سکول پڑھے ہوئے تھے-جیسا کہ ہر نئے آدمی کی عادت ہوتی ہے یا جو بھی کسی جگہ نیا آتا ہے، وہ ہمیشہ سسٹم ٹھیک کرنے پر لگ جاتا ہے- یہ بندے کے اندر ایک عجیب بلا ہے- میں نے بھی سوچا کہ میں سکول کا سسٹم ٹھیک کروں گا، حالانکہ مجھے چاہیے تو یہ تھا کہ میں پڑھاتا اور بہتر طور پر پڑھاتا اور جیسا نظام چل رہا تھا، اُسے چلنے دیتا، لیکن میں نے کہا نہیں، اس کا سسٹم بدلنا چاہیے- چنانچہ میں نے کہا یہ گملا ادھر نہیں اُدھر ہونا چاہیے- وہ جو سن فلاور (سورج مُکھی) ہوتا ہے، وہ مجھے بہت بُرا لگتا ہے- اُس پیلے پھول کو میں نے وہاں سے نکال دینے کا حُکم دیا- اب اگلا پھٹا (ڈیسک) پیچھے کر کے پچھلا آگے کر کے سسٹم تبدیل ہو رہا ہے- گملوں کو گیرو لگا دو، سُرخ رنگ کا، سفیدی کر دو، تمام ماسٹر صاحبان پگڑی باندھہ کر آئیں- اس طرح سکول میں سسٹم کی تبدیلی جاری تھی- ماسٹر بیچارے بھی عذاب میں مُبتلا ہو گئے- سکول میں چھٹی کے وقت پہاڑے کہلوائے جاتے تھے- چھہ کا پہاڑہ ماسٹر صاحب کہلوا رہے تھے-

ُُُ ُ چھہ ایکم چھہ ، چھ ہ دونی بارہ
چھہ تیا اٹھارا ، چھہ چوکے چودی “
میں نے سکول میں ایک شرط عائد کر دی کہ بچوں میں شرمندگی اور خفّت دور کرنے کے لیے ان کو سٹیج پر آنا چاہیے اور بلیک بورڈ (تختہ سیاہ) کے سامنے کھڑے ہو کر یہ پہاڑہ لکھنا چاہے- چوتھی جماعت کا ایک لڑکا تھا، اب مجھے اُس کا نام یاد نہیں صادق تھا یا صدّیق- اُس نے تختہ سیاہ پر لکھنے سے انکار کر دیا کہ میں نہیں لکھوں گا- اُستاد نے کہا کہ یہ ہیڈ ماسٹر صاحب کا حُکم ہے، تمہیں وہاں جا کر لکھنا پڑے گا، لیکن اُس نے صاف انکار کر دیا- وہ شرماتا ہو گا بیچارہ گاؤں کا لڑکا- اُسے میرے سامنے پیش کیا گیا- بتایا گیا کہ یہ لڑکا پہاڑہ تو ٹھیک جانتا ہے، لیکن بورڈ پر لکھتا نہیں- میں نے پوچھا، تم کیوں نہیں لکھتے، اُس نے کہا میں نہیں لکھوں گا- میں نے اُس کا کان پکڑ کر مروڑا اور کہا کیا تجھے معلوم ہے کہ میں تجھے سخت سزا دوں گا، کیونکہ تم میرے اصول کے مطابق کام نہیں کر رہے-اُس نے کہا جی میں یہ نہیں کر سکتا، مجھہ سے لکھا نہیں جاتا شرمیلا تھا شاید- میں نے ماسٹر صاحب سے کہا کہ آپ ایسا کریں کہ اسے ساری کلاسوں میں پھرائیں اور سب کو بتائیں کہ یہ نا فرمان بچّہ ہے اور اس نے ہیڈ ماسٹر صاحب کی بات نہیں مانی- ماسٹر صاحب اُسے میرے حُکم کے مطابق لے گئے اور اُسے گھماتے رہے-دیگر اُستادوں نے بھی بادل نخواستہ اپنی طبیعت پر بوجھہ سمجھہ کر میرے اس حُکم کو قبول کیا،تاہم اُنہوں نے میری یہ بات پسند نہیں کی، جسے میں اپنی انتظامی صلاحیت خیال کرتا تھا-اس کے بعد وہ لڑکا چلا گیا- اس کے بعد کبھی سکول نہیں آیا- اپس کے والدین نے بھی کہا کہ جی وہ سکول نہیں جاتا- گھر پر ہی رہتا ہے- میں نے اپنے ایک فیصلے اور حُکم سے اُسے اتنا بڑا زخم دے دیا تھا کہ وہ اُس کی تاب نہ لا سکا- گو میں نے بد نیتی سے ایسا نہیں کیا تھا، لیکن اب میں بیٹھہ کر سوچتا ہوں،تو دیکھتا ہوں کہ میں نے اتنے اچھے صحت مند پیارے بچّے کے ساتھہ کیا حماقت کی ہے- اُس وقت میرے ذہن میں Scar یعنی زخم کا لفظ نہیں آیا- تب میں سمجھتا تھا کہ پڑھانے کے لیے ایسا ہی سخت روّیہ ہونا چاہیے-
وہ زمانہ گُزر گیا،پاکستان بن گیا- ہم ادھر آگئے- وہ لوگ پتا نہیں کدھر ہوں گے- ایسے ہی مجھے پتا چلا کہ وہ گھرانہ ساہیوال چلا گیا تھا- باپ کو اُسے پڑھانے کا بہت شوق تھا، خواہش تھی- اُس نے بچّے کو پھر سکول داخل کرایا، لیکن وہ سکول سے بھاگ جاتا تھا- ڈرتا تھا اور کانپتا تھا- وقت گُزرتا گیا- بہت سال بعد مجھے پھر معلوم ہوا کہ اُس لڑکے نے بُری بھلی تعلیم حاصل کر لی ہے اور لاہور سے انجینئرنگ یونیورسٹی سے بی ایس سی بھی کر لی یے- ایک اندازہ تھا لوگ مجھے آکر یہ بتاتے تھے کہ شاید وہی لڑکا ہے کوئی یقینی بات نہیں تھی- پچھلی سے پچھلی عید پر جب ہم نماز پڑھہ چکے، تب ہم عید کے بعد ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں- معانقہ کرتے ہیں ُ ُجپھی“ ڈالتے ہیں- اس میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ آپ اُس بندے کو جانتے ہیں یا نہیں- آپ کی صف میں جو بھی ہو اُس سے معانقہ کیا جاتا ہے- کوئی واقف کار ہو یا نہ ہو- میرے ساتھہ لوگ ملتے رہے اور ہم بڑی محبّت سے ایک دوسرے سے جپھی ڈالتے رہے- وہاں ایک نوجوان کھڑا تھا، وہ بھی کسی سے مل رہا تھا- میں نے کہا یہ میری طرف تو متوجہ نہیں ہوتا، میں ہی اس کی طرف متوجہ ہوں- میں نے اُس کے کندھے پر ہاتھہ رکھا- اُس نے پلٹ کر دیکھا اور جب میں نے آگے بڑھہ کر اُسے جپھی ڈالنے کی کوشش کی تو اُس نے دونوں ہاتھوں سے مجھے پرے دھکیل دیا- اب میرا یقین ہے کہ یہ وہی لڑکا تھا- میں تو اُس وقت بڑا تھا- وہ چھوٹا تھا تب اور وہ مجھے پہچانتا تھا- میں اُسے نہیں پہچان سکتا تھا- اب میں اُس کو تلاش کر رہا ہوں اور بہت تکلیف میں ہوں اور اس بات کا آرزو مند ہوں کہ کسی طرح سے مجھے اُس سے معافی مل جائے-
بظاہر تو یہ اتنی بڑی کوتاہی نہیں تھی، لیکن جو واقعہ گُذرا اور جس طرح سے اُس کے دل کے اوپر لگا اور وہ زخم کتنے ہی سال گُزرنے کے بعد بھی اُس کے دل پر چلا آرہا ہے اور اب وہ واقعہ ایک نئے رُوپ میں مجھے پریشان کرتا ہے، دُکھہ دیتا ہے- میں آپ سب سے درخواست کروں گا کہ بظاہر یہ بات معمولی لگتی ہے، بظاہر ہم یہ بات کہہ دیتے ہیں کہ میں نے اس کو ایسا پوائنٹ مارا کہ اس کی پھٹکری پُھل کر دی، لیکن ایک بندہ زندہ رہتے ہوئے بھی اپنے اندر کی لاش ساتھہ اُٹھائے پھرتا ہے اور آپ اُس کے قاتل ہیں- اُس کا دین، اُس کی دیت، اُس کا قصاص کس طرح سے ادا کیا جائے، یہ سمجھہ سے باہر ہے- وہ کشمیری جن کو بھارتی گورنمنٹ اپنا اٹوٹ انگ کہتی ہے کہ یہ ہمارے بدن کا ایک حصّہ ہیں، مگر ان بھارتیوں نے گزشتہ 56 برسوں میں کتنے زخم کشمیریوں کو دیے ہیں- جسمانی بھی، روحانی بھی، نفسیاتی بھی اور ہر طرح کے زخم اور وہ ساری کی ساری قوم بھارت کے سامنے ایسی ہی ہو گئی ہے جیسے وہ زخم کہ ُ ُاے اللہ! میں ان کے لیے اور کچھہ نہیں کر سکتا، صرف Well Wish کر سکتا ہوں- اے اللہ! تُو مدد فرما-“ لیکن آپ کو اس کے لیے وقت نکالنا پڑے گا- یہ نہیں کہ آپ چلتے ہوئے رسماً پڑھہ لیں اس طرح سے Well Wish اثر نہیں کرے گی- جو ہاتھوں کی زنجیر بنتی ہے وہ تصویر کھینچنے کے لیے ہوتی ہے- یہ تصویر جو الگ بیٹھہ کر آپ کھینچیں گے یہ اللہ کے دربار میں کھینچے گی اور اللہ اس کی طرف متوجہ ہوگا- میرے لیے بھی یہ دعا ضرور کیجیے گا کہ وہ نوجوان، اب ماشاءاللہ اُس کے بچّے ہوں گے، مل جائے اور اتنا ناراض نہ رہے، جتنا ناراض ہونے کا اُسے حق پہنچتا ہے- اللہ آپ کو خوش رکھے-
اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے- اللہ حافظ!!
 

ماوراء

محفلین
من کی آلودگی

من کی آلودگی​


آج سے چند روز بیشتر ہم Pollution کی بات کر رہے تھے اور ہمارا کہنا تھا کہ ساری دنیا آلودگی میں مستغرق ہے اور یہ آلودگی نہ صرف انسانی زندگی بلکہ شجر و حجر اور حیوانات کو بھی کھائے چلی جا رہی ہے۔ اس کے دور رس نقصانات ہیں اور اس کے خاتمے کی طرف خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔
جب ہم اس گفتگو میں بحثیت ایک قاری یا ناظر کے شریک تھے تو مجھے خیال آیا کہ انسانی زندگی میں دو متوازی لہریں ایک ساتھ چلتی ہیں۔ ایک تو ہماری اپنی زندگی ہوتی ہے۔ اور ایک زندگی کا نا معلوم حصہ ہوتا ہے۔ اس حصے کو ہم گو جانتے نہیں ہیں لیکن محسوس ضرور کرتے ہیں۔ یہ حصہ ہماری زندگی کی اس لہر کے بالکل ساتھ ساتھ چل رہا ہوتا ہے جو اس دنیا سے تعلق رکھتی ہے۔ اس وقت مجھے اپنے بابوں کا خیال آیا جن کا میں اکثر ذکر کرتا رہتا ہوں کہ وہ بابے Pollution کے بارے میں خاصے محتاط ہوتے ہیں اور انہیں اس بات کی بڑی فکر رہتی ہے کہ کسی بھی صورت میں آلودگی نہ ہونے پائے اور وہ اس حوالے سے خاص اہتمام کرتے۔ یہ International Pollution Compaign سے پہلے کی بات ہے جب ڈیروں پر ایک ایسا وقت بھی آتا تھا کہ ڈیرے کا بابا اور اس کے خلیفے آلودگی کے خلاف اپنے آپ کو باقاعدہ اور بطورِ خاص اہتمام میں مصروف رکھتے اور آنے جانے والوں کو اس آلودگی بابت آگاہ کرتے تھے جو انسان کی اندرونی زندگی سے تعلق رکھتی ہے۔ ان بابوں کا باہر کی Pollution سے زیادہ تعلق نہیں ہوتا۔ ان بابوں کا خیال ہے کہ جب تک انسان کے اندر کی آلودگی دور نہیں ہو گی باہر کی آلودگی سے چھٹکارہ حاصل کرنا مشکل ہے۔ جب تک انسان کے اندر کی معشیت ٹھیک نہیں ہو گی چاہے باہر سے جتنے بھی قرضے لیتے رہیں باہر کی معاشی حالت درست نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اندر کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ ان بابوں کا یہ خیال تھا جو بڑا جائز خیال تھا کہ ہماری بہت سی بیماریاں ہماری اندرونی آلودگی سے پیدا ہوتی ہیں۔ وہ کہا کرتے تھے کہ دل کے قریبب ایک بہت بڑا طاقچہ ہے اور اس طاقچے کے اندر بہت گہرے گہرے دراز ہیں۔ ان دروازوں کو نکال کر اوندھا کر کے صاف کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان عرصہ دراز سے جالے لگے ہوئے ہیں۔ تو کہیں چوہے کی مینگنیں پڑی ہیں اور طرح کی خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں۔ آپ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ کے دل کے والو (Volve) بند ہو رہے ہیں اور ظاہر کی زندگی میں یہی تصور ابھرتا ہے۔ دل کی نالیاں بند ہو جانے کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ اس کے اردو گرد آلودگی جمع ہو چکی ہوتی ہے اور خطرناک حد تک جمع ہو جاتی ہے اور انسان کو اس کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ انسان خود کو چنگا بھلا اور ٹھیک ٹھاک خیال کرتا ہے لیکن دل کے قریب آلودگی بڑھتی چلی جاتی ہے۔
خواتین وحضرات! دل کی آلودگی جاننے کے لیے تو ایک اور طرح سے جھانکنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہاں نگاہ ڈالنے کے لیے ایک زاویہ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے- ان بابوں کا خیال ہے کہ نفرت کی وجہ سے ہیپاٹائٹس بی پھیلتی ہے۔ اس بیماری کا سبب شدید نفرت ہے۔ پہلے یہ بیماری اتنی زیادہ نہیں تھی ایک وہ زمانہ تھا جب پاکستان نیا نیا بنا تھا اور ہم اس وقت نوجوان تھے۔ ہم تب خوشی کے ساتھ گھومتے پھرتے تھے اور جب ہمیں کوئی کار بڑی خوب صورت لگتی تو اس کو ہاتھ لگاتے تھے اور بڑے خوش ہوتے تھے۔ ہم نے مال روڈ پر کتنی ہی خوب صورت کاروں کو ہاتھ لگایا۔ ہمیں تب یہ معلوم بھی نہ تھا کہ Jealouse بھی ہوا جاتا ہے۔ اب برداشت نہیں ہوتا۔ اب یہ کیفیت ہے کہ اب والد بیٹے اور بیٹا والد سے حسد کرتا ہے۔ رستم سہراب کی طاقت شہرت اور اس کی ناموری سے حاسد ہوتا تھا اور دونوں کا آپس مین ٹکراؤ بھی ہوتا تھا اور سہراب اپنے سگے بیٹے رستم کو قتل بھی کرتا ہے۔ آدمی کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس کی شدید نفرت خود اسے ہی کھائے جا رہی ہوتی ہے۔ گو اس نے اوپر عجیب طرح کا خول بد نیتی سے نہیں چڑھایا ہوتا ہے بلکہ معاشرتی تقاضوں کی بدولت ہی ایک خول اس پر چڑھ جاتا ہے۔ بہت بڑے آرٹسٹ خدا بخشے زوبی ہوتے تھے۔ ان سے ایک دفعہ ایک بلوچ جاگیردار نے تصویر بنوائی۔ جب ان جاگیردار صاحب کی خدمت میں وہ تصویر پیش کی گئی تو انہوں نے کہا کہ اس میں تو میری شکل ہی نہیں ملتی۔ یہ تصویر میری لگتی ہی نہیں ہے۔ وہاں ان کے جو پندرہ بیس حواری بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے بھی کہا کہ “ جی سائیں یہ شکل تو آپ سے ملتی ہی نہیں ہے۔“ اب وہ آرٹسٹ بڑے شرمندہ ہوئے اور ان کی طبیعت پر بڑا بوجھ پڑا۔ وہ تصویر واپس لے آئے۔ کراچی میں ان دنوں ان کے فن پاروں کی نمائش ہوئی تو انہوں نے اس نمائش میں اسی تصویر کے نیچے جاگیردار کا نام مٹا کر “چور“ لکھ دیا۔ اب ان صاحب کو بھی اس بات کی خبر پہنچی وہ اپنا موزر یا تلوار لے کر وہاں سے بھاگے اور انہوں نے بھی آ کر وہ تصویر دیکھ جس کے نیچے “چور“ لکھا ہوا تھا۔ وہ پھر سخت لہجے میں آرٹسٹ سے گویا ہوئے اور کہا کہ تمھیں ایسی حرکت کرنے کی جرات کیسے ہوئی۔ آرٹسٹ نے کہا کہ “ یہ آپ کی تصویر نہیں ہے اور آپ نے خود ہی کہا تھا کہ میری اس تصویر سے شکل نہیں ملتی اور آپ کے حواریوں نے بھی یہی کہا تھا کہ حضور یہ آپ کی تصویر نہیں ہے۔ آپ نہ میرے اوپر کوئی کلیم کر سکتے ہیں اور نہ کوئی مقدمہ کر سکتے ہیں۔ جاگیردار صاحب کہنے لگے کہ پکڑو پیسے اور یہ تصویر میرے حوالے کرو اور بتیس ہزار روپے دے کر بغل میں اپنی تصویر مار کر چلے گئے۔“
خواتین و حضرات! انسان کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ چور ہے یا سعد ہے۔ نیک ہے یا بد ہے۔ وہ چاہے جتنی بھی کوشش کرنے اس پر اپنی اصلیت ظاہر نہیں ہوتی کیونکہ اس کے پاس مراقبے کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا۔ اپنے آپ کو Face کرنے کے بعد ہی خوبیاں عیاں ہوں گی اور انسان اپنی خرابیاں دور کر سکے گا۔ جب آپ کو پتہ چلتا ہے کہ میرے چہرے پر ایک پھنسی ہو گئی ہے تو وہ آپ کو ڈسٹرب کرتی ہے لیکن جب وجود کے اندر، روح کے اندر کوئی بہماری آ جاتی ہے تو پھر اس کا علم نہیں ہوتا۔ ہماری آپا صالح کہا کرتی تھیں (خدا بخشے انہیں) کہ اشفاق اللہ نے یہ جو کائنات بنائی ہے اس میں ہر طرح انسان ہیں۔ جھوٹے، بے ایمان، دغا باز، سچے، چور، معصوم، نیک بھولے صوفی درویش مکار ہر طرح کے انسان پائے جاتے ہیں اور پھر وہ لمبی فہرست گنوا کر کہتیں کہ خدا کا شکر ہے کہ ان تمام انسانوں میں سے نہیں ہوں۔ خواتین وحضرات انہیں یہ پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ انہوں نے جتنی قسمیں گنوائی ہیں وہ ان میں سے باہر جا ہی نہیں سکتیں۔ ہمارے بابے ایک بات پر بڑا زور دیا کرتے تھے۔ ان کا فرمان تھا کہ آپ نے دل کے دراز کے مختلف کونوں میں جو گلدستے پھینکے ہوئے ہیں، جو عقیدت کے گلدستے میں انہیں نکال کر باہر پھینکو کیونکہ ان کی بد بو بڑی شدید ہوتی ہے۔ آپ لوگوں کو پتہ ہے کہ جب گلدستہ پانی میں کافی دیر تک پڑا رہ تو پھر اس کے اندر سے بدبو پیدا ہوجاتی ہے اور وہ بدبو سنبھالی نہیں جاتی ہے۔
بابے کہتے تھے کہ ان بوسیدہ گلدستوں کو نکال کے پھینکنا بہت ضروری ہے۔ اب ہم ان سے جھگڑا کرتے کہ بابا جی عقیدت کے گلدستوں کو کیسے اور کیونکر دل سے باہر نکال پھینکا جائے۔ انہوں نے کہا کہ دیکھو جن گلدستوں کو تروتازہ رہنا چاہیے تھا وہ آپ کے وجود کے اندر پڑے ہوئے تروتازہ نہیں رہے ہیں اور پڑے پڑے بدبودار ہو گئے ہیں۔ وہ اس قدر بدبودار ہو گئے ہیں لیکن زیادہ دیر پڑے رہنے کے باعث آپ کو ان گلدستوں یا بدبو سے محبت اور عقیدت ہو گئی ہے اور آپ انہیں باہر پھینکتے ہیں۔ جوں جوں آپ کی بیرونی زندگی میں Mouth Washes بنتے جائیں گے اور غرارے کرنے کی جتنی بھی دوائیں بنتی جائیں گی یہ اندر کی بدبو کو ختم نہیں کر سکتیں۔ اب کئی مٹی نیشنل کمپنیاں منہ میں خوشبو پیدا کرنے کے لیے ادویات بنا کر ہمیں دے رہی ہیں اور کروڑوں روپے اکھٹے کر رہی ہیں لیکن ان ادویات کے استعمال کے باوجود اندر سے بدبو کے ایسے “بھبکے“ اور “بھبھا کے“ نکلتے ہیں کہ یہ چیزیں اسے کنٹرول ہی نہیں کر سکتیں، حلانکہ خدا نے انسانی جسم بہترین ساخت پر بنایا ہے۔ یہ نہا دھو کر صاف ہو کر اچھا ہو جاتا ہے لیکن اب اندر کی بدبو نہیں جاتی ہے۔ ہم بابا جی سے پوچھتے کہ جناب یہ کس قسم کی عقیدت کا گلدستہ ہے۔ فرمانے لگے کہ مثال کے طور پر تم نے ایک گلدستہ بڑا سجایا ہوا تھا۔ اور اس گلدستے کا نام “مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں“ رکھا ہوا تھا۔ اب وہ گل سڑ گیا ہے، آپ نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا کہ مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ بلکہ اسے صرف دکھانے کے لیے گلدستے کے طور پر رکھا تھا اور اسے ایسے ہی رکھ کر گلنے سڑنے دیا ہے۔ آپ نے ایک گلدستہ “ لوگوں کے ساتھ اچھی بات کرو“ بھی رکھا تھا۔ اب وہ بھی پڑا پڑا بد بودار ہو گیا ہے۔ آپ نے عدل و انصاف کے گلدستے کو بھی خراب کر دیا ہے۔ انسان نے عدل سے منہ موڑ لیا ہے حلانکہ انسان اور خاص کر مسلمانوں کے سارے نظام کی عدل پر بنیاد ہے۔ ہمیں ہر جگہ عدل کا حکم ہے۔ آپ کسی کی شکل سے نفرت کرتے ہوئے کسی کو انصاف کی فراہمی روکنے کے مجاز نہیں ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ تم کسی سے محبت نہ کرو۔ اس پر کوئی مواخذہ نہیں لیکن بے انصافی اور عدل نہ کرنے پر مواخذہ لازم ہے۔ ان گلدستوں کو تروتازہ کرنے کے لیے باقاعدہ ایک عمل کرنا پڑتا تھا اور بابا جی کے پاس بہت دیر تک رہنا پڑتا تھا۔ کچھ راتیں بسر کرنا پڑتی تھیں۔ کچھ ایسے محلول بھی پینے پڑتے تھے۔ آپ کو بتاؤں کہ گاؤ زبان اور ایک الائچی اس وقت کھانے کو دی جاتی جب نماز تہجد کا وقت شروع ہوتا اور اس کا ایک مفرح قسم کا قہوہ پینے کو ملتا۔ ہمیں ڈیرے پر ایک خوشبودار دوا اسطخدوس کی چائے پلائی جاتی۔ اس کو دماغ کے جالے صاف کرنے والی دوا کہا جاتا تھا۔ سیانوں کا کہنا ہے کہ میوزک کی دھن بنانا سب سے مشکل کام ہے۔ اس میں سب سے مشکل بات یہ ہے کہ یہ ہمارے ہاں لکھا بھی نہیں جاتا۔ میں نے ایک چھوٹے درجے کا رائٹر ہوں جو بھی لکھتا ہوں پڑھ سکتا ہوں اور اسے بار بار پڑھ سکتا ہوں لیکن دھن بنانے والا میری طرح پچھلی دھن کو کاغذ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا ہے۔ اس کے ذہن میں یہ بات رہنی ضروری ہوتی ہے کہ وہ کہاں سے چلا تھا اور اسے پہلی دھن کو دوسری تیسری یا آخری کے ساتھ کس طرح سے جوڑنا ہے۔ ویسے تو اللہ نے آپ کو بہت اچھا اور خوب صورت ذہن دیا ہے۔ اس میں آلودگی نہیں ہے لیکن اگر آپ کا دل چاہے کہ آپ اندر کی صفائی کریں اور اس عمل میں سے گزریں تو آپ کا ایک بہت بڑی مشکل پیش آئے گی اور آپ کو لگے لگا کہ صفائی ہو رہی ہے لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہو گا بلکہ صفائی عمل میں ذرا سی کوتاہی سے اس میں اور آلودگی شامل ہو جائے گی۔
انسانی زندگی میں عجیب عجیب طرح کی کمزوریاں آتی ہیں اور آدمی ان میں پھنسا رہتا ہے اور جب وہ اپنی اندرونی طہارت چاہتا بھی ہے اور پاکیزگی کا آرزو مند بھی ہوتا ہے۔ تو بھی اس سے کوئی نہ کوئی ایسی کوتاہی سرزد ہو جاتی ہے کہ وہ بجائے صفائی کے مزید زنگ آلود ہو جاتا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں اور میرا پیغام All Over the World کے لیے ہے کہ جب تک اندر کی صفائی نہیں ہو گی اس وقت تک باہر کی آلودگی دور نہیں ہو سکتی ہے۔ آپ روز شکایت کرتے ہیں اور آپ آئے روز Letter to the Editor لکھتے ہیں کہ جی دیکھیں ہمارے گھر کے آگے گندگی پڑی ہوئی ہے یا ہمارے محلے میں گندگی ہے اور دل سے یہ آپ کی آرزو نہیں ہوتی کہ صفائی ہو۔ آپ نے اپنے اندر ابھی تک یہ طے ہی نہیں کیا کہ آپ نے اب صفائی کرنی ہے۔ یہ بات اس وقت طے ہو گی جب آپ کو پاکیزگی اور صفائی سے محبت ہو گی اور آپ نقلئ خوشبوؤں کت سہارے زندگی بسر کرنے کی بجائے اندر کی آلودگی ختم کر دینے کا نہ سوچیں۔ آپ نے بہت سنا ہو گا کہ پاکیزہ لوگوں کے بدن کی خوشبو ایسی مفرح اور مسحور کن ہوتی ہے کہ ان کے قریب بیٹھنے سے بہت ساری آلودگیاں دور ہو جاتی ہیں چاہے انہوں نے کوئی خوشبو عطر نہ لگایا ہو۔
آپ بابوں کا طریقہ کار اختیار کریں یا نہ کریں یہ آپ کی اپنی مرضی ہے لیکن انہوں نے روح کی صفائی کے لیے جو ترکیبیں بنائی ہوئی ہیں ان کو آپ اپنا سکتے ہیں اور ان کو اپنائے جانے کے بعد لوگوں کو بڑی آسانیاں عطا کی جا سکتی ہیں اور پی ٹی وی کی طرف سے ہر ہفتے ایک ہی دعا ہوتی ہے کہ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ۔
 
ُ ُ ماضی کا البم“
انسانی زندگی میں بعض اوقات ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ آدمی کو کسی چیز سے ایسی چڑ ہو جاتی کہ اس کا کوئی خاص جواز نہیں ہوتا مگر یہ ہوتی ہے- اور میں اُن خاص لوگوں میں سے تھا جس کو اس بات سے چڑ تھی کہ ُ ُدروازہ بند کر دو-“ بہت دیر کی بات ہے کئی سال پہلے کی، جب ہم سکول میں پڑھتے تھے، تو ایک انگریز ہیڈ ماسٹر سکول میں آیا- وہ ٹیچرز اور طلباء کی خاص تربیت کے لیے متعین کیا گیا تھا - جب بھی اُس کے کمرے میں جاؤ وہ ایک بات ہمیشہ کہتا تھا-

"Shut The Door Behind You "

پھر پلٹنا پڑتا تھا اور دروازہ بند کرنا پڑتا تھا-
ہم دیسی آدمی تو ایسے ہیں کہ اگر دروازہ کُھلا چھوڑ دیا تو بس کُھلا چھوڑ دیا، بند کر دیا تو بند کر دیا، قمیص اُتار کے چارپائی پر پھینک دی، غسل خانہ بھی ایسے ہی کپڑوں سے بھرا پڑا ہے، کوئی قاعدہ طریقہ یا رواج ہمارے ہاں نہیں ہوتا کہ ہر کام میں اہتمام کرتے پھریں-
یہ کہنا کہ دروازہ بند کر دیں، ہمیں کچھہ اچھا نہیں لگتا تھا اور ہم نے اپنے طورپر کافی ٹریننگ کی اور اُنہوں نے بھی اس بارے میں کافی سکھایا لیکن دماغ میں یہ بات نہیں آئی کہ بھئی دروازہ کیوں بند کیا جائے؟ رہنے دہ کُھلا کیا کہتا ہے، آپ نے بھی اپنے بچّوں، پوتوں، بھتیجوں کو دیکھا ہو گا وہ ایسا کرنے سے گھبراتے ہیں- بہت سال پہلےجب میں باہر چلا گیا تھا اور مجھے روم میں رہتے ہوئے کافی عرصہ گُزر گیا وہاں میری لینڈ لیڈی ایکُ ُدرزن“ تھی جو سلائی کا کام کرتی تھی- ہم تو سمجھتے تھے کہ درزی کا کام بہت معمولی سا ہے لیکن وہاں جا کر پتہ چلا کہ یہ عزّت والا کام ہے- اُس درزن کی وہاں ایک بوتیک تھی اور وہ بہت با عزّت لوگ تھے-
میں اُن کے گھر میں رہتا تھا- اُن کی زبان میں درزن کو سارتہ کہتے ہیں میں جب اُس کے کمرے میں داخل ہوتا اُس نے ہمیشہ اپنی زبان میں کہا ُ ُدروازہ بند کرنا ہے“ وہ چڑ جو بچپن سے میرے ساتھہ چلی تھی وہ ایم اے پاس کرنے کے بعد، یونیورسٹی کا پروفیسر لگنے کے بعد بھی میرے ساتھہ ہی رہی- یہ بات بار بار سُننی پڑتی تھی تو بڑی تکلیف ہوتی، اور پھر لوٹ کے دروازہ بند کرنا، ہمیں تو عادت ہی نہیں تھی-کبھی ہم آرام سے دھیمے انداز میں گروبا پائی سے کمرے میں داخل ہی نہیں ہوئے، کبھی ہم نے کمرے میں داخل ہوتے وقت دستک نہیں دی، جیسا کہ قران پاک میں بڑی سختی سے حُکم ہے کہ جب کسی کے ہاں جاؤتو پہلے اُس سے اجازت لو، اور اگر وہ اجازت دے تو اندر آؤ، ورنہ واپس چلے جاؤ- پتہ نہیں یہ حُکم اٹھارویں پارے میں ہے کہ اُنتیسویں میں کہ ُ ُاگر اتّفاق سے تم نے اجازت نہ لی ہو اور پھر کسی ملنے والے کے گھر چلے جاؤ اور وہ کہہ دے کہ میں آپ سے نہیں مل سکتا تو ماتھے پر بل ڈالے بغیر
واپس آ جاؤ-“
کیا پیارا حُکم ہے لیکن ہم میں سے کوئی بھی اس کو تسلیم نہیں کرتا- ہم کہتے ہیں کہ اندر گُھسا ہوا ہے اور کہہ رہا ہے کہ میں نہیں مل سکتا، ذرا باہر نکلے تو اس کو دیکھیں گےوغیرہ وغیرہ، ہماری انا اس طرح کی ہے اور یہ کہنا کہ ُ ُدروازہ بند کر دیں“ بھی عجیب سی بات لگتی ہے- ایک روز میں نے بار بار یہ سُننے کے بعد روم میں زچ ہو کر اپنی اُس لینڈ لیڈی سے پوچھا کہ آپ اس بات پر اتنا زور کیوں دیتی ہیں- میں ایک بات تو سمجھتا ہوں کہ یہاں (روم میں) سردی بہت یے، برف باری بھی ہوتی ہے کبھی کبھی اور تیز ُ ُوینتو“ (رومی زبان کا لفظ مطلب ٹھنڈی ہوائیں چلنا) بھی ہوتی ہیں اور ظاہر ہے کہ کُھلے ہوئے دروازے سے میں بالکل شمشیر زنی کرتی ہوئی کمروں میں داخل ہوتی ہیں- یہاں تک تو آپ کی دروازہ بند کرنے والی فرمائش بجا ہے لیکن آپ اس بات پر بہت زیادہ زور دیتی ہیں- چلو اگرکبھی دروازہ کُھلا رہ گیا اور اُس میں سے اندر ذرا سی ہوا آگئی یا برف کی بوچھاڑ ہوگئی تو اس میں ایسی کون سی بڑی بات ہے-
ا ُس نے کہا کہ تم ایک سٹول لو اور یہاں میرے سامنے بیٹھہ جاؤ (وہ مشین پر کپڑے سی رہی تھی ) میں بیٹھہ گیا وہ بولی دروازہ اس لیے بند نہیں کرایا جاتا اور ہم بچپن سے بچّوں کو ایسا کرنے کی ترغیب اس لیے نہیں دیتے کہ ٹھنڈی ہوا نہ آجائے یا دروازہ کُھلا رہ گیا تو کوئی جانور اندر آ جائے گا بلکہ اس کا فلسفہ بہت مختلف ہے اور یہ کہ اپنا دروازہ، اپنا وجود ماضی کے اوپر بند کر دو، آپ ماضی میں سے نکل آئے ہیں اور اس جگہ پر اب حال میں داخل ہو گئے ہیں- ماضی سے ہر قسم کا تعلق کاٹ دو اور بھول جاؤ کہ تم نے کیسا ماضی گُزارا ہے اور اب تم ایک نئے مُستقبل میں داخل ہو گئے ہو- ایک نیا دروازہ تمہارے آگے کُھلنے والا ہے، اگر وہی کُھلا رہے گا تو تم پلٹ کر پیچھے کی طرف ہی دیکھتے رہو گے- اُس نے کہا کہ ہمارا سارے مغرب کا فلسفہ یہ ہے اور دروازہ بند کر دو کا مطلب لکڑی، لوہے یا پلاسٹک کا دروازہ نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب تمہارے وجود کے اوپر ہر وقت کُھلا رہنے والا دروازہ ہے- اُس وقت میں ان کی یہ بات نہیں سمجھہ سکا جب تک میں لوٹ کے یہاں (پاکستان) نہیں آگیااور میں اپنےجن ُ ُبابوں“ کا ذکر کیا کرتا ہوں ان سے نہیں ملنے لگا- میرے ُ ُبابا“ نے مومن کی مجھے یہ تعریف بتائی کہ مومن وہ ہے جو ماضی کی یاد میں مبتلا نہ ہو اور مستقبل سے خوفزدہ نہ ہو- ( کہ یا اللہ پتہ نہیں آگے چل کے کیا ہونا ہے ) وہ حال میں زندہ ہو-
آپ نے ایک اصلاح اکثر سُنی ہو گی کہ فلاں بُزرگ بڑے صاحبِ حال تھے- مطلب یہ کہ اُن کا تعلق حال سے تھا وہ ماضی کی یاد اور مستقبل کی فکر کے خوف میں مبتلا نہیں تھے- مجھے اُس لینڈ لیڈی نے بتایا کہ دروازہ بند کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اب تم ایک نئے عہد، ایک نئے دور ایک نئے Iera اور ایک اور وقت اور زمانے میں داخب ہو چکے ہیںاور ماضی پیچھے رہ گیا ہے- اب آپ کو اس زمانے سے فائدہ اُٹھانا ہے اور اس زمانے کے ساتھہ نبرد آزمائی کرنی ہے جب میں نے یہ مطلب سُنا تو ہم چکاچوند گیا کہ میں کیا ہم سارے ہی دروازہ بند کرنے کا مطلب یہی لیتے ہیں جو عام طور پر ہو یا عام اصطلاح میں لیا جاتا ہے- بچّوں کو یہ بات شروع سے سکھانی چاہیے کہ جب تم آگے بڑھتے ہو، جب تم زندگی میں داخل ہوتے ہو، کسی نئے کمرے میں جاتے ہو تو تمہارے آگے اور دروازے ہیں جو کُھلنے چاہئیں- یہ نہیں کہ تم پیچھے کی طرف دھیان کر کے بیٹھے رہو-
جب اُس نے یہ بات کہی اور میں نے سُنی تو پھر میں اس پر غور کرتا رہا اور میرے ذہن میں اپنی زندگی کے واقعات، ارد گرد کے لوگوں کی زندگی کے واقعات بطور خاص اُجاگر ہونے لگے اور میں نے محسوس کرنا شروع کیا کہ ہم لوگوں میں سے بہت سے لوگ آپ نے ایسے دیکھے ہوں گے جو ہر وقت ماضی کی فائل بلکہ ماضی کے البم بغل میں دبائے پھرتے ہیں- اکثر کے پاس تصویریں ہوتی ہیں- کہ بھائی جان میرے ساتھہ یہ ہو گیا، میں چھوٹا ہوتا تھا تو میرے ابّا جی مجھے مارتے تھےسوتیلی ماں تھی، فلاں فلاں، وہ نکلتے ہی نہیں اس یادِ ماضی سے- میں نے اس طرح ماضی پر رونے دھونے والے ایک دوست سے پوچھا آپ اب کیا ہیں؟ کہنے لگے جی میں ڈپٹی کمشنر ہوں لیکن رونا یہ ہے کہ جی میرے ساتھہ یہ زمانہ بڑا ظلم کرتا رہا ہے- وہ ہر وقت یہی کہانی سُناتے- ہمارے مشرق میں ایشیاء، فارس تقریباً سارے مُلکوں میں یہ رواج بہت عام ہے اور ہم جب ذکر کریں گے اس ُ ُدردناکی“ کا ذکر کرتے رہیں گے- ہماری ایک آپا سُکیاں ہیں- جو کہتی ہیں کہ میریزندگی بہت بربادی میں گزری بھائی جان، میں نے بڑی مشکل سے وقت کاٹا ہے- اب ایک بیٹا تو ورلڈ بینک میں ملازم ہے ایک یہاں چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ ہے- اہک بیٹا سرجن ہے ( انکے خاوند کی بھی اچھی تنخواہ تھی، اچھی رشوت بھی لیتے رہے،اُنہوں نے بھی کافی کامیاب زندگی بسر کی )
میں نے ایک بار اُن سے پوچھا تو کہنے لگے بس گُزارا ہو ہی جاتا ہے، وقت کے تقاضے ایسے ہوتے ہیں- میں نے کہا کہ آدھی رشوت تو آپ سرکاری افسر ہونے کے ناطے دے کر سرکاری سہولتوں کی مد میں وصول کرتے ہیں مثلاً آپ کی اٹھارہ ہزار روپے تنخواہ ہو گی تو ایک کار ایک دوسری کار، پانچ نوکر، گھر، یہ اللہ کے فضل سے بہت بڑی بات ہے کی اس کے علاوہ بھی چاہیے- وہ بولے ہاں اس کے علاوہ بھی ضرورت پڑتی ہے لیکن ہم نے بڑا دُکھی وقت گُزارا ہے، مشکل میں گُزارا، ہمارا ماضی بہت دردناک تھا- وہ ماضی کا دروازہ بند ہی نہیں کرتے- ہر وقت یہ دروازہ نہ صرف کُھلا رکھتے ہیں بلکہ اپنے ماضی کو ساتھہ اُٹھائے پھرتے ہیں- میں نے بہت سے ایسے لوگ دیکھے، آج کے بعد آپ بھی غور فرمائیں گے تو آپ دیکھیں گے کہ ان کے پاس اپنے ماضی کی رنگین البمیں ہوتی ہیں- ان میں فوٹو لگے ہوئے ہوتے ہیں اور دُکھہ درد کی کہانیاں بھری ہوئی ہپوتی ہیں- اگر وہ دُکھہ درد کی کہانیاں بند کر دیں، کسی نہ کسی طور پر ُ ُتگڑے“ ہو جائیں اور یہ تہیہ کر لیں کہ اللہ نے اگر ایک دروازہ بند کیا تو وہ اور کھولے گا، تو یقیناً اور دروازے کُھلتے جائیں گے-
اگر آپ پلٹ کر پیچھے دیکھتے جائیں گے اور اُسی دروازے میں سے جھانک کے وہی گندی مندی، گری پڑی چیزوں کو اکٹھا کرتے رہیں گے تو آگے نہیں جا سکتے- اس طرح سے مجھے پتہ چلا کہ Shut behind the door کا مطلب یہ نہیں ہے جو میں سمجھتا رہا ہوں- وہ تو اچھا ہو گیا کہ میں اتفاق سے وہاں چلا گیا ورنہ ہمارے جو انگریز اُستاد آئے تھے اُنہوں نے اس تفصیل سے نہیں بتایا تھا- آپ کو ہم کو، سب کو یہ کوشش ضرور کرنی چاہیے کہ ماضی کا پیچھا چھوڑ دیں-
ہمارے بابے، جن کا میں اکثر ذکر کرتا ہوں، بار بار کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا، اُن کے ڈیروں پر آپ جا کر دیکھیں، وہ ماضی کی بات نہیں کریں گے- وہ کہتے ہیں کہ بسم اللہ آپ یہاں آگئے ہیں، یہ نئی زندگی شروع ہو گئی ہے، آپ بالکل روشن ہو جایئے، چمک جایئے- جب ہمارے جیسے نالائق بُری ہیئت رکھنے والے آدمی اُن کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں، تو وہ نعرہ مار کہ کہتے ہیں ُ ُواہ واہ! رونق ہو گئی، برکت ہوگئی، ہمارے ڈیرے کی کہ آپ جیسے لوگ آ گئے-“ اب آپ دیکھیے ہمارے اوپر مشکل وقت ہیے، لیکن سارے ہی اپنے اپنے انداز میں مستقبل سے خوفزدہ رہتے ہیں کہ پتا نہیں جی کیا ہوگا اور کیسا ہوگا ؟ میں یہ کہتا ہوں کہ ہمیں سوچنا چاہیے- ہم کوئی ایسے گرے پڑے ہیں، ہم کوئی ایسے مرے ہوئے ہیں، ہمارا پچھلا دروازہ تو بند ہے، اب تو ہم آگے کی طرف چلیں گے اور ہم کبھی مایوس نہیں ہوں گے، اس لیے کہ اللہ نے بھی حکم دے دیا ہے کہ مایوس نہیں ہونا، اس لیے حالات مشکل ہوں گے، تکلیفیں آئیں گی، بہت چینخیں نکلیں گی- لیکن ہم مایوس نہیں ہوں گے، کیونکہ ہمارے اللہ کا حکم ہے اور ہمارے نبی کے ذریعے یہ فرمان دیا گیا ہے کہ لا تقنطومن رحمتھ اللہ ( ُ ُیعنی اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں“)-
بعض اوقات یہ پتا نہیں چلتا کہ اللہ کی رحمت کے کیا کیا رُوپ ہوتے ہیں- آدمی یہ سمجھتا ہے میرے ساتھہ یہ زیادتی ہو رہی ہے، میں Demote ہو گیا ہوں، لیکن اس Demote ہونے میں کیا راز ہے؟ یہ ہم نہیں سمجھہ سکتے- اس راز کو پکڑنے کے لیے ایک ڈائریکٹ کنکشن اللہ کے ساتھہ ہونا چاہیے اور اُس سے پوچھنا چاہیے کہ جناب! اللہ تعالٰی میرے ساتھہ یہ جو مشکل ہے، میرے ساتھہ یہ تنزّلی کیوں ہے؟ لیکن ہمیں اتنا وقت نہیں ملتا اور ہم پریشانی میں اتنا گُم ہوجاتے ہیں کہ ہمیں وقت ہی نہیں ملتا، ہمارے ساتھہ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ ہمیں بازاروں میں جانے کا وقت مل جاتا ہے، تفریح کے لیے مل جاتا ہے،دوستوں سے ملنے، بات کرنے کا وقت مل جاتا ہے- لیکن اپنے ساتھی بیٹھنے کا، اپنے اندر جھانکنے کا کوئی وقت میسر نہیں آتا-
آپ ہی نہیں، میں بھی ایسے لوگوں میں شامل ہوں- اگر میں اپنی ذات سے پوچھوں کہ ُ ُاشفاق احمد صاحب! آپ کو اپنے ساتھہ بیٹھنے کا کتنا وقت ملتا ہے؟ کبھی آپ نے اپنا احتساب کیا ہے؟“
تو جواب ظاہر ہے کہ کیا ملے گا- دوسروں کا احتساب تو ہم بہت کر لیتے ہیں-اخباروں میں، کالموںمیں، اداریوں میں لیکن میری بھی تو ایک شخصیت ہے، میں بھی تو چاہوں گا کہ میں اپنے آپ سے پوچھوں کہ ایسا کیوں ہے، اگر ایسا ممکن ہو گیا، تو پھر خفیہ طور پر، اس کا کوئی اعلان نہیں کرنا ہے، یہ بھی اللہ کی بڑی مہربانی ہے کہ اُس نے ایک راستہ رکھا ہوا ہے، توبہ کا! کئی آدمی تو کہتے ہیں کہ نفل پڑہیں، درود وظیفہ کریں، لیکن یہ اُس وقت تک نہیں چلے گا، جب تک آپ نے اُس کیے ہوئے برے کام سے توبہ نہیں کر لی، توبہ ضروری ہے- جیسا آپ کاغذ لے کے نہیں جاتے کہ ُ ُٹھپہ“ لگوانے کے لیے- کوئی ُُ ُٹھپہ“ لگا کر دستخط کردے گا اور پھر آپ کا کام ہو جاتا ہے، اس طرح توبہ وہ ُ ُٹھپہ“ ہے جو لگ جاتا ہے اور بڑی آسانی سے لگ جاتا ہے،اگر آپ تنہائی میں دروازہ بند کر کے بیٹھیں اور اللہ سے کہیں کہ ! ُ ُاللہ میاں پتہ نہیںمجھے کیا ہو گیا تھا، مجھہ سے یہ غلطی، گُناہ ہو گیا اور میں اس پر شرمندہ ہوں-“ ( میں یہ Reason نہیں دیتا کہ Human Being کمزور ہوتا ہے، یہ انسانی کمزوری ہے یہ بڑی فضول بات ہے ایسی کرنی ہی نہیں چاہیے) بس یہ کہے کہ مجھہ سے کوتاہی ہوئی ہے اور میں اے خداوند تعالٰی آپ سے معافی چاہتا ہوں اور میں کسی کو یہ بتا نہیں سکتا، اس لیے کہ میں کمزور انسان ہوں- بس آپ سے معافی مانگتا ہوں-
اس طرح سے پھر زندگی کا نیا، کامیاب اور شاندار راستہ چل نکلتا ہے- لیکن اگر آپ اپنے ماضی کو ہی اُٹھائے پھریں گے، اُس کی فائلیں ہی بغل میں لیے پھریں گے اور یہی رونا روتے رہیں گے کہ میرے ابا نے دوسری شادی کر لی تھی، یا میرے ساتھیہ سختی کرتے رہے، یا اُنہوں نے بڑے بھائی کو زیادہ دے دیا، مجھے کچھہ کم دے دیا، چھوٹے نے زیادی لے لیا، شادی میں کوئی گڑ بڑ ہوئی تھی- اس طرح تو یہ سلسلہ کبھی ختم ہی نہیں ہوگا، پھر تو آپ وہیں کھڑے رہ جائیں گے، دہلیز کے اوپر اور نہ دروازہ کھولنے دیں گے، نہ بند کرنے دیںگے، بس پھنسے ہوئے رہیں گے- لیکن آپ کو چاہیے کہ آپ Shut Behind The Door کر کے زندگی کو آگے لے کر چلیں- آپ زندگی میں یہ تجربہ کر کے دیکھیں- ایک مرتبہ تو ضرور کریں- آپ میری یہ بات سننے کے بعد جو میری نہیں میری لینڈ لیڈی ، اُس اطالوی درزن کی بات ہے، اس پہ عمل کر کے دیکھیں-
اس کے بعد میں نے رونا چھوڑ دیا اور ہر ایک کے پاس جا کر رحم کی اور ہمدردی کی بھیک مانگنا چھوڑ دی- آدمی اپنے دُکھہ کی البم دکھا کر بھیک ہی مانگتا ہے نا! جسے سُن کر کہا جاتا ہے کہ بھئی! غلام محمّد، یا نور محمّد یا سلیم احمد تیرے ساتھہ بڑی زیادتی ہوئی- اس طرح دو لفظ آپ کیا حاصل کر لیں گے اور سمجھیں گے کہ میں نے بہت کچھہ سر کر لیا، لیکن وہ قلعہ بدستور قائم رہے گا، جسے فتح کرنا ہے- اگر آپ تہیہ کر لیں گے کہ یہ ساری مشکلات، یہ سارے بل، یہ سارے یوٹیلیٹی کے خوفناک بل تو آتے ہی رہیں گے، یہ تکلیف ساتھہ ہی رہے گی، بچّے بھی بیمار ہوں گے، بیوی بھی بیمار ہوگی، خاوند کو بھی تکیلف ہو گی، جسمانی عارضے بھی آیئں گے، روھانی بھی، نفسیاتی بھی- لیکن ان سب کے ہوتے ہوئے ہم تھوڑا سا وقت نکال کراور مغرب کا وقت اس کے لیے بڑا بہتر ہوتا ہے، کیونکہ یوں تو سارے ہی وقت اللہ کے ہیں،اس وقت الگ بیٹھہ کر ضرور اپنی ذات کے ساتھہ کچھہ گُفتگو کریں اور جب اپنے آپ سے وہ گُفتگو کر چکیں، تو پھر خفیہ طور پر وہی گُفتگو اپنے اللہ سے کریں، چاھے کسی بھی زبان میں، کیونکہ اللہ ساری زبانیں سمجھتا ہے، انگریزی میں بات کریں، اردو، پنجابی، پشتو اور سندھی جس زبان میں چاہے اس زبان میں آپ کا یقیناً اُس سے رابطہ قائم ہو گا اور اس سے آدمی تقویت پکڑتا ہے، بجائے اس کے آپ مجھہ سے آ کر کسی بابے کا پوچھیں، ایسا نہیں ہے- آپ خود بابے ہیں- آپ نے اپنیئ طاقت کو پہچانا ہی نہیں ہے- جس طرح ہمارے جوگی کیا کرتے ہیں کہ ہاتھی کی طاقت سارے جانوروں سے زیادہ ہے۔ لیکن چونکہ اس کی آنکھیں چھوٹی ہوتی ہیں، اس لیے وہ اپنی طاقت، وجودکو، پہچانتا ہی نہیں- ہاتھی جانتا ہی نہیں کہ میں کتنا بڑا ہوں- اس طرح سے ہم سب کی آنکھیں بھی اپنے اعتبار سے چھوٹی ہیں اور ہم نے اپنی طاقت کو، اپنی صلاحیت کو جانا ہی نہیں-
اللہ میاں نے تو انسان کو بہت اعلٰی وارفع بنا کر سجود وملائک بنا کر بھیجا ہے- یہ باتیں یاد رکھنے کی ہیں کہ اب تک جتنی بھی مخلوق نے انسان کو سجدہ کیا تھا، وہ انسان کے ساتھہ ویسے ہی نباہ کر رہی ہے- یعنی شجر، حجر،نباتات، جمادات اور فرشتے وہ بدستور انسان کا احترام کر رہے ہیں- انسان سے کسی کا احترام کم ہی ہوتا ہے- اب جب ہم یہاں بیٹھے ہیں، تو اس وقت کروڑوں ٹن برف کے ٹو پر پڑی آوازیں دے کر پکار پکار کر سورج کی منّتیں کر رہی ہے کہ ُُ ُذرا ادھر کرنیں زیادہ ڈالنا، سندھہ میں پانی نہیں ہے- جہلم، چناب خشک ہیں اور مجھے وہاں پانی پہنچانا ہے اور نوعِ انسان کو پانی کی ضرورت ہے-“ برف اپنا آپ پگھلاتی ہے اور آپ کو پانی دے کر جاتی ہے- صبح کے وقت اگر غور سے سوئی گیس کی آواز سُنیں اور اگر آپ اس درجے یا جگہ پر پہنچ جائیں کہ اس کی آواز سن سکیں، تو وہ چینخ چینخ کر اپنے سے سے نیچے والے کو کہہ رہی ہوتی ہے ُ ُنی کُڑیو! چھیتی کرو- باہر نکلو، جلدی کرو تم تو ابھی ہار سنگھار کر رہی ہو- بچوں نے سکول جانا ہے- ماؤں کو انہیں ناشتہ دینا ہے- لوگوں کو دفتر جانا ہے- چلو اپنا آپ قربان کرو-“ وہ اپنا آپ قربان کر کے جل بھن کر آپ کا ناشتہ، روٹیاں تیار کرواتی ہے-
یہ سب پھل، سبزیاں اپنے وعدے پر قائم ہیں- یہ آم دیکھہ لیں، آج تک کسی انور راٹھور یا کسی ثمر بہشت درخت نے اپنا پھل خود کھا کر یا چوس کر نہیں دیکھا- بس وہ تو انسانوں سے کیے وعدے کی فکر میں رہتا ہے کہ میرا پھل توڑ کر بلوچستان ضرور بھیجو، وہاں لوگوں کو آم کم ملتا ہے- اس کا اپنے اللہ کے ساتھہ رابطہ ہے اور وہ خوش ہے- آج تک کسی درخت نے افسوس کا اظہار نہیں کیا- شکوہ نہیں کیا کہ ہماری بھی کوئی زندگی ہے، جی جب سے گھڑے ہیں، وہیں گھڑے ہیں- نہ کبھی اوکاڑہ گئے نہ کبھی آگے گئے، ملتان سے نکلے ہی نہیں- میرا پوتا کہتا ہے ُ ُدادا! ہو سکتا ہے کہ درخت ہماری طرح ہی روتا ہو، کیونکہ اس کی باتیں اخبار نہیں چھاپتا-“ میں نے کہا وہ پریشان نہیں ہوتا، نہ روتا ہے، وہ خوش ہے اور ہوا میں جھومتا ہے- کہنے لگا، آپ کو کیسے پتا ہے کہ وہ خوش ہے؟ میں نے کہا کہ وہ خوش ایسے ہے کہ ہم کو باقاعدگی سے پھل دیتا ہے- جو ناراض ہو گا ، تو وہ پھل نہیں دے گا-
میں اگر اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھوں، میں جو اشفاق احمد ہوں، میں پھل نہیں دیتا- میرے سارے دوست میرے قریب سے گُزر جاتے ہیں- میں نہ تو انور راٹھور بن سکا، نہ ثمر بہشت بن سکا نہ میں سوئی گیس بن سکا- اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے- اللہ حافظ!!
 
ُ ُدروازہ کُھلا رکھنا“


آج سے چند ہفتے پہلے یا چند ماہ پہلے میں نے ذکر کیا تھا کہ جب بھی آپ دروازہ کھول کے اندر کمرے میں داخل ہوں تو اسے ضرور بند کر دیا کریں اور میں نے یہ بات بیشتر مرتبہ ولایت میں قیام کے دوران سُنی تھی- وہ کہتے تھے کہ Shut Behind The Door میں سوچتا تھا کہ وہ یہ کیوں کہتے ہیں کہ اندر داخل ہوں تو دروازہ پیچھے سے بند کر دو، شاید وہاں برف باری کے باعث ٹھنڈی ہوا بہت ہوتی ہے اس وجہ سے وہ یہ جملہ کہتے ہیں- لیکن میرے پوچھنے پر میری لینڈ لیڈی نے بتایا کہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ُ ُآپ اندر داخل ہوگئے ہیں اور اب ماضی سے آپ کا کوئی تعلق نہیں رہا، آپ صاحبِ حال ہیں،اس لیے ماضی کو بند کر دو اور مستقبل کا دروازہ آگے جانے کے کیے کھول دو-“
ہمارے بابے کہتے ہیں صاحبِ ایمان اور صاحبِ حال وہ ہوتا ہے،جو ماضی کی یاد میں مبتلا نہ ہواور مستقبل سے خوفزدہ نہ ہو- اب میں اس کے ذرا سا اُلٹ آپ سے بات کرنا چاہ رہا تھا کیوںکہ پیچھے کی یادیں اور ماضی کی باتیں لوٹ لوٹ کے میرے پاس آتی رہتی ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی اس میں سے کچھہ حصّہ بٹائیں-
ابنِ انشاء نے کہا تھا کہ ُ ُدروازہ کُھلا رکھنا-“ آپ دوسروں کے لیے ضرور دروازہ کھول کے رکھیں، اسے بند نہ رہنے دیں- آپ نے اکثرو بیشتر دیکھا ہو گا کہ ہمارے ہاں بینکوں کے دروازے شیشے والے ہوتے ہیں وہاں دروازوں پر موٹا اور بڑا Thick قسم کا شیشہ لگا ہوا ہوتا ہے- اگر اسے کھول دیا جائے تو بلا شبہ اندر آنے والے کے لیے بڑی آسانی ہوگی اور اگر آپ کسی کے لیے دروازہ کھولتے ہیں اور کسی دوسرے کو اس سے آسانی پیدا ہوتی ہے، تو اس کا آپ کو بڑا انعام ملے گا، جس کا آپ کو اندازہ نہیں ہے- کسی کے لیے دروازہ کھولنا بڑے اجر کا کام ہے- ہمارے گھروں میں بیبیوں کا زیادہ اس کا علم نہیں ہے، وہ بیٹھی ہی کہہ دیتی ہے ُ ُاچھا ماسی سلام، فیر ملاں گے“ اور اپنی جگہ پر بیٹھی کہہ دیتی ہیں، یہ نہیں کہ اُٹھہ کے دروازہ کھول کےکہا بسم اللہ اورجانے کے لیے خود دروازہ کھولیں اور خدا حافظ کہیں-اس میں بہت ساری برکات ہیں اور بہت سارے فوائد سے آپ مستفید ہو سکتے ہیں اور ایسا نہ کر کے آپ ان سے محروم رہ جاتے ہیں-
میں جب اٹلی میں رہتا تھا، تو جب ہمیں مہینے کی پہلی تاریخ کو تنخواہ ملتی تھی، تو میں ایک بہت اچھے ریستوران میں، جہاں اُمراء آتے تھے، خاص طور پو اداکار اور اداکارائیں بھی آتی تھیں، چلا جایا کرتا تھا- ایک مرتبہ جب میں بیٹھا کافی پی رہا تھا تو ایک شخص بڑے وجود اور بڑے بڑے ہاتھوں والا آکر میرے پاس بیٹھہ گیا- اُس نے کہا کہ میں نے گزشتہ ماہ آپ کو کسی آدمی سے باتیں کرتے سُنا تھا، تو آپ بڑی رواں اٹالین زبان بول رہے تھے- لیکن آپ conditional Verb اور Subjective Verb میں تھوڑی سی غلطی کر جاتے ہیں جیسے I wish I cold have been doing do - اس طرح تو مشکل اور پیچیدہ ہو جاتا ہے ناں؟ میں نے کہا، جی! آپ کی بڑی مہربانی- میں نے اُس سے کہا کہ میں بھی آپ کو جانتا ہوں ( اب اُن کا جو حوالہ تھا، وہ تو میں نے اُن سے نہیں کہا) آپ اس دنیا کے بہت بڑے امیر آدمی ہیں یہ مجھے معلوم ہے ( اُس کا پہلا حوالہ یہ تھا کہ وہ ایک بہت بڑے مافیا کا چیف تھا) اُس شخص نے مجھہ سے کہا کہ میں آپ کو ایک بڑی عجیب و غریب بات بتاتا ہوں، جو میری امارت کا باعث بنی اور میں اس قدر امیر ہو گیا- وہ یہ کہ مجھے ہارس ریسنگ کا شوق تھا اور میں گھوڑوں پر جُوا لگاتا تھا- میری مالی حالت کبھی اونچی ہو جاتی تھی اور کبھی نیچی،جیسے ریس کھیلنے والے لوگوں کی ہوتی ہے-
ایک بار میں نے اپنا سارا مال ومتاع ایک ریس پر لگادیا اور کہا کہ اب اس کے بعد میں ریس نہیں کھیلوں گا- خدا کا کرنا یہ ہوا کہ میں وہ ریس ہار گیا، میری جیبیں بالکل خالی تھیں اور میں بالکل مفلس ہو گیا تھا- جب میں وہاں سے پیدل گھر لوٹ رہا تھا، تو مججھے شدّت سے واش روم جانے کی ضرورت محسوس ہوئی، لیکن وہاں جانے کے لیے میرے پاس مقامی کرنسی کا سکّہ نہیں تھا، جو واش روم کا دروازہ کھولنے کے لیے اُس کے لاک میں ڈالا جاتا ہے، وگرنہ دروازہ کُھلتا نہیں ہے- میں بہت پریشان تھا اور مجھے جسمانی ضرورت کے تحت تکلیف بھی محسوس ہو رہی تھی- میں وہاں قریبی پارک میں گیا- وہاں بنچ پر ایک شخص بیٹھا ہوا اخبار پڑھ رہا تھا- میں نے بڑی لجاجت سے اُس سے کہا کہ ُ ُ کیا آپ مجھے ایک سکّہ عنایت فرمائیں گے؟ اُس شخص نے میری شکل وصورت کو دیکھا اور کہا کیوں نہیں اور سکّہ دے دیا- لیکن اس سے قبل میری جسمانی صحت پر غور ضرور کیا- اُسے کیا خبر تھی میںبالکل پھانگ (مفلس) ہو چکا ہوں- جب میں وہ سکّہ لے کر چلا اور واش روم کے دروازے تک پہنچا، جہاں لاک میں سکّہ ڈالنا تھا، تو اچانک وہ دروازہ کُھل گیا جبکہ وہ سکّہ ابھی میرے ہاتھہ میں تھا- جو اندر آدمی پہلے موجود تھا وہ باہر نکلا اور اُس نے مسکرا کر بڑی محبّت، شرافت اور نہایت استقنالیہ انداز میں دروازہ پکڑے رکھا اور مجھہ سے کہا، یہ ایک روپے کا سکّہ کیوں ضائع کرتے ہو؟ میں نے اُس کا شکریہ ادا کیا اور میں اندر چلا گیا- اب جب میں باہر نکلا تو میرے پاس وہ ایک روپے کی قدر کا سکّہ بچ گیا تھا - تو میں قریب کسینو میں چلا گیا، وہاں پر ایک جوا ہو رہا تھا کہ ایک روپیہ لگاؤ ہزار روپے پاؤ- میں نے وہ روپے کا سکّہ اُس جوئے میں لگا دیا اور سکّہ بکس میں ڈال دیا- وہ سکّہ کھڑ کھڑایا اور ہزار کا نوٹ کڑک کر کے باہر آ گیا- ( جواری آدمی کی بھی ایک اپنی زندگی ہوتی ہے)- میں نے آگے لکھا دیکھا کہ ایک پزار ڈالو تو ایک لاکھہ پاؤ- میں نے ہزار کا نوٹ وہاں لگا دیا- رولر گھوما، دونوں گیندیں اُس کے اوپر چلیں اور ٹک کر کے ایک نمبر پر آکر وہ گریں اور میں ایک لاکھہ جیت گیا (آپ غور کریں کہ وہ ابھی وہیں کھڑا ہے، جہاں سے اُس نے ایک سکّہ مانگا تھا) اب میں ایک لاکھہ روپیہ لے کر ایک امیر آدمی کی حیثیت سے چل پڑا اور گھر آ گیا-
اگلے دن میں نے اخبار میں پڑھا کہ یہاں پر اگر کوئی Sick Industry میں انویسٹ کرنا چاہے، تو حکومت انہیں مالی مدد بھی دے گی اور ہر طرح کی انہیں رعایت دے گی- میں نے ایک دو کارخانوں کا انتخاب کیا، حکومت نے ایک لاکھہ روپیہ فیس داخل کرنے کا کہا اور کہا کہ ہم آپ کو ایک کارخانہ دے دیں گے ( شاید وہ جُرابیں بنانے یا انڈر گارمنٹس کا کارخانہ تھا) وہ کارخانہ چلا تو اس سے دوسرا، تیسرا اور میں لکھہ پتی سے کروڑ پتی اور ارب پتی ہو گیا- (آپ اب غور کریں کہ یہ سب کچھہ ایک دروازہ کُھلا رکھنے کی وجہ سے ممکن ہوا) اُس نے کہا کہ میری اتنی عمر گزر چکی ہے اور میں تلاش کرتا پھر رہا ہوں اُس آدمی کو، جس نے مجھہ پر یہ احسان کیا ہے- میں نے کہا کہ اُس آدمی کو، جس نے آپ کو ایک روپیہ دیا تھا؟ اُس نے کہا، نہیں! اُس آدمی کو، جس نے دروازہ کُلا رکھا تھا- میں نے کہا کہ آپ اُس کا شکریہ ادا کرنے کے لیے اُس سے ملنا چاہتے ہیں؟ تو اُس نے جواب دیا، نہیں! یہ دیکھنے کے لیے اُس سے ملنا چاہتا ہوں کہ وہ شخص کن کیفیات سے گزر رہا ہے اور کس اونچے مقام پر ہے اور مجھے یقین ہے کہ دروازہ کھولنے والے کا مقام روحانی، اخلاقی اور انسانی طور پر ضرور بُلند ہو گا اور وہ ہر حال میں مجھہ سے بہتر اور بُلند تر ہوگا لیکن وہ آدمی مجھے مل نہیں رہا ہے-
میں اُس کی یہ بات سُن کر بڑا حیران ہوا، اور اب مجھے انشاء جی کی دروازہ کُھلا رکھنا کی بات پڑھہ
کر وہ شخص یاد آیا- یہ ایک عجیب بات ہے کہ بُڑھاپے میں گزشتہ چالیس، پینسٹھہ، باسٹھہ برس کی باتیں اپنی پوری جزویات اور تفصیلات کے ساتھہ یاد آجاتی ہیں اور کل کیا ہوا تھا، یہ یاد نہیں آتا - بُڑھاپے میں بڑی کمال کمال کی چیزیں ہوتی ہیں- ایک تو یہ کہ آدمی چڑچڑا ہوجاتا ہے- میں سمجھتا تھا کہ میں بڑا pleasant آدمی ہوں- بڑا شریف آدمی ہوں- میں تو چڑچڑا نہیں ہوں- پرسوں ہی مجھے گیس کا چولہا جلانے کے لیے ماچس چاہیے تھی، میں اتنا چینخا، اوہ ! آخر کدھر گئی ماچس! میرا پوتا اور پوتی کہنے لگے کہ الحمدللہ دادا بوڑھا ہو گیا ہے- میں نے کہا کیوں؟ تو کہنے لگے، آپ چڑنے لگے ہیں اور ایسی تو آپ کی Language کبھی نہ تھی- میں نے کہا، بھئی آخر بُڑھاپے میں تو داخل ہونا ہی ہے،کیا کیا جائے؟ لیکن پھر بھی تم سے بہت طاقتور ہوں- کہنے لگے، آپ کیسے طاقتور ہیں؟ میں نے کہا، جب تمہاری کوئی چیز زمین پر گرتی ہے تو تم اُسے اُٹھا لیتے ہو، لیکن اللہ نے مجھے یہ قوّت دی ہے، ایک بوڑھے آدمی میں کہ جب اُس کی ایکم چیز گرتی ہے تو وہ نہیں اُٹھاتا اور جب دوسری گرتی ہے، تو میں کہتا ہوں اکٹھی دو اُٹھالیں گے، اسی لیے ہمیشہ انتظار کرتا ہے کہ دو ہوجائیں تو اچھا ہے-
خواتین وحضرات! دروازہ کُھلا رکھنے کے حوالے سے مجھے یہ بھی یاد آیا ہے اور اپنے آپ کو جب میں دیکھتا ہوں کہ ایک زمانہ تھا (جس طرح سے ماشاءاللہ آپ لوگ جوان ہیں) 1947ء میں جب ہم نعرے مار رہے تھے، تو ہمارا ایک ہی نعرہ ہوتا تھا، لے کے رہیں گے آزادی، لے کے رہیں گے پاکستان، ہم اُس وقت نعرے لگاتے ہوئے گلیوں، بازاروں میں گُھوما کرتے تھے اور اپنے مخالفین اور دُشمنوں کے درمیان بالکل اس طرح چلتے تھےجیسے شیر اپنی کچھار میں چلتا ہے اور اب جب کچھہ وقت گزرا ہے اور ہم ہی پر یہ وقت آیا ہے اور ہم جو کہتے تھے کہ ُ ُ لے کے رہیں گے پاکستان، لے کے رہیں گے آزادی“ اب ہر بات پر کہتے ہیں کہ لے کے رہیں گے سکیورٹی“ ہم کہتے ہیں کہ ہمیں سکیورٹی نہیں ہے-
کسی آدمی کی تبدیلی لاہور سے مُلتان کر دی جائے تو وہ کہتا ہے کہ جی بس سکیورٹی نہیں ہے
(ایسے ہی کہتے ہیں ناں ) تو سکیورٹی کے لیے اتنے بے چین ہو گئے ہیں ہم، اتنے ڈر گئے ہیں اور آخر کیوں ڈر گئے؟ یہ سب کچھہ کیسے ہو گیا؟ ہم تو وہی ہیں- تب مجھے احساس ہو کہ ہم نے اپنی بات پر اتنے دروازے بند کرلیے ہیں اور ہم دروازے بند کر کے اندر رہنے کے عادی ہو گئے ہیں- ذہنی طور پر، روحانی طور پر اور جسمانی طور پر- ہم نے ہر لحاظ سے خود کو ایسا بند کر دیا ہے کہ اب وہ آواز سُنائی نہیں دیتی کہ ُ ُلے کے رہیں گے پاکستان) جب چاروں طرف سے دروازے بند ہوں گے تو یہی کیفیت ہوگی- پھر آپ اس حصار سے یا کمرے سے باہر نہیں نکل سکیں گے- اور نہ کسی کو دعوت دے سکیں گے، نہ تازہ ہواؤں کو اپنی طرف بُلا سکیں گے- ایسی چیزوں پر جب نظر پڑتی ہے اور میری عمر کا آدمی سوچتا ہے، تو پھر حیران ہوتا ہے کہ یہ وقت جو آتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے آتے ہیں، یا پھر قومیں ایسے فیصلے کر لیتی ہیں، یا مختلیف گروہ انسانی اس طرح سے سوچنے لگتے ہیں- اس کا کوئی حتمی یا یقینی فیصلہ کیا نہیں جا سکتا -
میں ایک دن باشتے کی میز پر اخبار پڑھ رہا تھا اور میری بہو کچھہ کام کاج کر رہی تھی باورچی خانے میں- وہ کہنے لگی، ابو! میں آپ کو کافی کی ایک پیالی بنا دوں؟ میں نے کہا، بنا تو دو، لیکن چوری بنانا، اپنی ساس کو نہ پتہ لگنے دینا، وہ آکر لڑے گی کہ ابھی تو تم نے ناشتہ کیا ہے اور ابھی کافی پی رہے ہو- اُس نے کافی بنا کر مجھے دے دی- ہمارے باورچی خانے کا ایک اایسا دروازہ ہے، جس کو کھولنے کی کبھی ضرورت نہیں پڑتی، میری بہو کو وہ دروازہ کھولنے کی ضرورت پڑی اور وہ کھولنے لگی اور جب وہ میرے لیے کافی بنا رہی تھی تو کہنے لگی، ابو آپ یہ مانیں گے کہ عورت بے بدل ہوتی ہے، اس کا کوئی بدل نہیں ہوتا، میں نے کہا، ہاں بھئی! میں تومانتا ہوں، وہ دروازہ کھولنے لگی اور کوشش کرنے لگی، کیونکہ وہ کم کھلنے کے باعث کچھہ پھنسا ہوا تھا اور بڑا سخت تھا، وہ کافی دیر زور لگاتی رہی، لیکن وہ نہ کھلا تو مجھے کہنے لگی، ابو اس دروازے کو ذرا دیکھئے گا، کھل ہی نہیں رہا- میں گیا اور جا کر ایک بھرپور جھٹکا دیا تو وہ کھل گیا، جب وہ کھل گیا تو پھر میں نے بھی کہا کہ دیکھا ( انسان خاص طور پر مرد بڑا کمینہ ہوتا ہے، اپنے انداز میں ) تم تو کہتی تھیں کہ میں بے بدل ہوں اور عورت کا کوئی بدل نہیں ہوتا- کہنے لگی، ہاں ابو! یہی تو میں اب بھی کہتی ہوں کہ عورت بے بدل ہوتی ہے- دیکھیں میں نے ایک منٹ میں دروازہ کھلوالیا (قہقہہ) میں نے کہا، ہاں یہ بڑی پیاری بات ہے-
میں یہ عرض کررہا تھا کہ دوسروں کے لیے دروازہ کھولنا، ایک جادو، چالاکی، ایک تعویذ اور ایک وظیفے کی بات ہے، اگر آپ میں، مجھہ میں یہ خصوصیت پیدا ہوجائے تو یہ عجیب سی بات لگے گی کہ ہم دروازہ کھولنے لگیں، لوگوں کے لیے تو یہ ایک رہبری عطا کرنے کا کام ہوگا- آپ لوگوں کو رہبری عطا کریں گے اپنے اس عمل سے، جس نے دروازہ کھول کے اندر جانا ہے، آخر اُسے جانا تو ہے ہی، لیکن آپ اپنے عمل سے اُس شخص کے رہنما بن جاتے ہیں اور جب آدمی رہنمائی کرتا ہے، تو اس کا انعام اُسے ضرور ملتا ہے- ہمارے ہاں تو یہ رواج ذرا کم ہے- ہم تو دروازہ وغیرہ اس اہتمام سے نہیں کھولتے کہ ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کسی کا دروازہ کھولنے کی، جب وہ چلا جائے گا، دفع ہو جائے گا تو کھول کر اندر چلے جائیں گے- اگر ہم میں دروازہ کھولنے کی عادت پیدا ہو جائے- اگر ہم اپنے دفتر، بینک یا درس گاہ میں دروازہ خود کھولیں، چاہے ایک اُستاد ہی اپنے شاگردوں کے لیے کلاس روم کا دروازہ کیوں نہ کھولے، یہ کام برکت اور آگے بڑھنے کا ایک بڑا اچھا تعویذ ثابت ہو گا-
یہ بات واقعی توجہ طلب ہے- اس سے فائدہ اُٹھایا جانا چاہیے اور ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا تعلق ذاتی فائدے سے بھی ضرور ہوتا ہے-اس میں چاہے روحانی فائدہ ہویا جسمانی یا پھر اخلاقی ہو، ہوتا ضرور ہے اور انسان سارے کا سارا محض چیزوں اور اشیاء سے ہی نہیں پہچانا جاتا- ہمارے ایک اُستاد تھے، میرے کولیگ،بڑے بزرگ قسم کے، وہ ہمیشہ یہ کہا کرتے تھے کہ Rich آدمی وہ ہوتا ہے، جس کی ساری کی ساری Richness اس کی امارت، اس کی دولت، سب کی سب ضائع ہو جائے اور وہ اگلے دن کیسا ہو؟ اگر وہ اگلے دن گر گیا تو اس کا سہارا اور امارت جو تھی وہ جھوٹی تھی- میں آپ سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ میں بھی اس پروگرام کے بعد دروازے کھولنے والوں میں ہوںگا، چاہے میں ڈگمگاتا ہوا ہی اسے کھولوں- اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے- اللہ حافظ !!
 
ُ ُایم اے پاس بلّی“
آج صبح کی نماز بھی ویسے ہی گزر گئی اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے- میرے ساتھہ اکثر وبیشتر ایسے ہو جاتا ہے کہ آنکھہ تو کھل جاتی ہے لیکن اُٹھنے میں تاخیر ہو جاتی ہے اور پھر وہ وقت بڑا بوجھل بن کر وجود پر گزرتا ہے- میں لیٹا ہوا تھا- میں نے کہا اور کوئی کام نہیں چلو کل کا اخبار ہی دیکھہ لیں- میں نے ہیڈ لیمپ آن کیا، بتّی جلائی اور اخبار دیکھنے لگ پڑا اور آپ جانتے ہیں اخبار میں کتنی خوفناک خبریں ہوتی ہیں، وہ برداشت نہیں ہوتیں- مث لاً یہ کہ سرحد کے پار سے تیس گاڑیاں مزید چوری ہوگئی ہیں-دو بیٹوں نے کاغذات پر انگوٹھے لگوا کر باپ کو قتل کر کے اُس کی لاش گندے نالے میں پھینک دی- تاوان کے لیے بچّہ اغوا کرنے والے نے بچّے کو کسی ایسی جگہ پر رکھا کہ وہ والدین کی یاد میںتین دن تک روتا ہوا انتقال کر گیا وغیرہ-
ایسی خبریں ہڑھتے ہوئے دل پر بوجھہ پڑتا ہے- ظاہر ہے سب کے دل پر پڑتا ہو گا- میں یہ سب کچھہ پڑھہ کر بہت زیادہ پریشان ہو گیا اور میں سوچنے لگا کہ ٹھیک ہے خود کشی حرام ہے، لیکن ایسے موقعے پر اس کی اجازت ہونی چاہیےیا مجھہ سے پہلے جو لوگ اس دنیا سے چلے گئے ہیں، وہ کتنے اچھے تھے- خوش قسمت تھے کہ اُنہوں نے یہ ساری چیزیں نہیں دیکھی تھیں- میں یہ دردناک باتیں سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک دو اڑھائی کلو کا ایک گولہ میرے پیٹ پر آن گرا اور میں ہڑبڑا گیا- اخبار میرے ہاتھہ سے چھوٹ گیا- میں نے غور سے دیکھا تو میری پیاری بلّی کنبر وہ فرش سے اُچھلی اور اُچھل کر میرے پیٹ پر آن گری تھی اور جب میں نے گھبراہٹ میں اُس کی طرف دیکھا، تو وہ چلتی چلتی سینے پر پہنچ گئی- اُس نے پیار سے میرے منہ کے قریب اپنا منہ لاکر میاؤں کی، چینخ ماری اور کہا کہ ُ ُبیوقوف آدمی! لیٹے ہوئے ہو، ہ تو میرے دودھ کا ٹائم ہے اور تم مجھے اس وقر دودھ دیا کرتے ہو-“
میں تھوڑی دیر کے لیے اُسے پیار کرتا رہا اور وہ ویسے ہی میرے سینے کے اوپر آنکھیں بند کر کے مراقبے میں چلی گئی- جب ُ ُکنبر“ مراقبے میں گئی تو میں سوچنے لگا کہ جس طرح اس کنبر کو اعتماد ہے مجھہ پر، میرے وجود پر اور میری ذات پر، کیا مجھہ کو میرےاللہ پر نہیں ہو سکتا؟ یعنی یہ مجھہ سے کتنی "Superior" ہے، برتر ہے اور کتنی ارفع واعلٰی ہے کہ اس کو پتہ ہے کہ مجھے گھر بھی ملے گا، حفاظت بھی ملے گی، Care بھی ملے گی، Protection بھی ملے گی اور میں آرام سے زندگی بسر کروں گی، لیکن میرے اندر یہ چیز اس طرح سے موجزن نہیں ہے، جیسے میری بلّی کے اندر موجود ہے- میرا یقین کیوں ڈگماگاتا ہے-
خیر! میں اُٹھا اور باورچی خانے میں گیا- وہاں میری بیٹی نے اُس کو ایک تھالی میں دودھ دیا- اور وہ تھالی سے دودھ لپرنے لگی- میں دیر تک سوچتا رہا- بہت سارے خوف ابھی تک میرے ساتھہ چمٹے ہوئے تھے- خوف انسان کو آخری دم تک نہیں چھوڑتا اور یہ بڑی ظالم چیز ہے- میں نے اس کا اپنے طور پر ایک طریق نکالا ہوا ہے- میں سوچتا رہتا ہوں اور جو میرے دل کا خوف ہوتا ہے،اسے میں ایک بڑے اچھے، خوبصورت کاغذ پر لکھتا ہوں- ایک نئے مارکر کے ساتھہ کہ ُ ُاے اللہ! میرے دل کے اندر جو خوف ہے کہ مجھہ سے اُس مقام تک نہیں پہنچا جائے گا، جس مقام تک پہنچنے کے لیے تو نے ہمیں رائے دی ہے، پھر میں یہ لائن بڑی دفعہ لکھتا ہوں- کوئی ذاتی خوف، بچّے کے پاس نہ ہونے کا خوف یا بچّی کی شادی نہ ہونے کا، میں اسے پہلے ایک کلر میں لکھتا ہوں، پھر کئی اور کلرز میں لکھتا ہوں اور جب میں اسے بار بار پڑھتا ہوں اور بالکل اس کا وظیفہ کرتا ہوںتو عجیب بات ہے کہ آہستہ آہستہ میرے ذہن سے وہ خوف کم ہونے لگتا ہے اور جب وہ کم ہونے لگتا ہے، تو پھر میں اُس کاغذ کو پھاڑ کر ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیتا ہوں، ہر روز میرے خوف اور میرے ڈر، جو ہیں وہ نئی نئی Shape اختیار کر کے آگے ہی آگے چلتے رہتے ہیں-
میری ایک تمنّا،آرزو اور بہت بڑی Desire یہ ہے کہ میں اللہ پر پورے کا پورا اعتماد کروں، ویسا نہیں جیسا ہم عام طور پر کیا کرتے ہیں ُ ُاچھا جی! اللہ جو بھی کرائے ٹھیک ہے- اللہ نے جیسا چاہا جی انشاءاللہ ویسے ہی ہوگا- اللہ کو جو منظور ہوا وہی ہوگا-“ یہ تو اللہ کے ساتھہ تعلق کی بات نہیں ہے- اللہ کے ساتھہ تعلق تو ایسے ہونا چاہیے کہ آدمی اپنے کمرے کے اندر پلنگ کے بازو پر بیٹھا ہوا اُس کے ساتھہ باتیں کر رہا ہو اور اپنی مشکلات بیان کر رہا ہو، اپنی زبان میں، اپنے انداز میں کہ اے خدا! مجھے یہ مشکلات درہیش ہے- اللہ کے ساتھہ تعلق تو اُس وقت ہوتا ہے جب آپ ایک بہت بڑے کُھلے میدان میں، جہاں بچّے کرکٹ کھیل رہے ہوں، اُس کے کارنر یا کونے میں بنچ پر بیٹھے ہوئے اُن کو دیکھہ رہے ہیں اور اللہ کے ساتھہ آپ کا تعلق چل رہا ہے، اتنا ہی وسیع جتنا بڑا میدان آپ کے سامنے ہےاور اتنی ہی قربت کے ساتھہ جتنا بچّوں کا واسطہ اپنے کھیل سے ہے- اللہ کے ساتھہ تعلق تو ایسے ہوتا ہے-
جب آپ حضرات یا خواتین بازار جاتے ہیں سودا لینے اور اُس کے بعد آپ بس کے انتظار میں بس سٹینڈ پر بیٹھہ جاتے ہیں، تو اُس وقت آپ اللہ سےکہیں کہ اے اللہ! شازیہ نے بی اے کر لیا ہے، اب اُس کے رشتے کی تلاش ہے، اب یہ بوجھہ تیرا ہی ہے، تو جانے- یہ تعلق جو ہے یہ مختلف مدارج میں ہوتا ہوا چلتے رہنا چاہیے- یہ جو ہم خدا سے تعلق کے محاورے بول جاتے ہیں کہ اچھا جی جو اللہ چاہے کرے گا- اللہ کی مرضی!! کبھی کبھی وقت نکال کر اللہ کے ساتھہ کوئی نہ کوئی تعلق ضرور پیدا کرنا چاہیے، جیسے پالتو بلّی کو گھر کے افراد ساتھہ ہوتا ہے کہ میری ساری ذمّے داریاں انہوں نے اُٹھائی ہوئی ہیں اور میں مزے سے زندگی بسر کر رہی ہوں- کبھی نہ کبھی تو ہمارا بھی دل چاہتا ہے مزے سے زندگی بسر کرنے کا، ہم بھی تو اس بات کے آرزو مند ہوں گے کہ ہم بھی مزے سے زندگی بسر کریںاور اپنے اللہ کے اوپر سارا بوجھہ ڈال دیں-
ہم نے تو بہت سارا بوجھہ خود اپنے کندھے پر اُٹھا رکھا ہے- ہم اتنے سیانے ہوجاتے ہیں جیسے میں کئی دفعہ اپنے دل میں کہتا ہوں کہ نہیں یہ تو میرے کرنے کا کام ہے، اسے میں اللہ کے حوالے نہیں کر سکتا، کیونکہ میں ہی اس کی باریکیوں کو سمجھتا ہوں اور میں نے ہی ابھی Statistics کا مضمون پاس کیا ہے اور یہ نیا علم ہے- اسے میں ہی جانتا ہوں- لیکن یہ قسمت والوں کا خاصہ ہوتا ہے کہ وہ اپنا سارا بوجھہ اُس (اللہ) کے حوالے کر دیتے ہیں اور اُس کے ساتھہ چلتے رہتے ہیں- ایک دفعہ ہمارے ہاں ایک نُمائش ہوئی تھی، بڑی دیر کی بات ہے، میرا بچّہ اُس وقت بہت چھوٹا تھا- اُس نمائش میں بہت ساری چیزیں تھیں- خاص طور پر کھلونوں کے سٹال تھے اور چائنہ جو نیا نیا ابھر رہا تھا، اُس کے بنے ہوئے بڑے کھلونے اُدھر موجود تھے- میرے سارے بچّے اسی کھلونوں کے سٹال پر ہی جا کر جمع ہو گئے- ظاہر ہپے میں اور اُن کی ماں بھی وہاں اُن کے ساتھہ تھے- وہاں پر چائنہ کا بنایا ہوا ایک پھول، بہت اچھا اور خوبصورت پھول، جو کپڑے اور مصالحے کا بنا ہوا تھا اور سٹال والے کا دعویٰ تھا کہ یہ پھول رات کے وقت روشنی دیتا ہے، یعنی اندھیرے میں رکھو تو روشن ہو جاتا ہے- میرے چھوٹے بیٹے نے کہا کہ ابو یہ پھول لے لیتے ہیں- وہ اُس پھول کے بارے میں بڑا متجسس تھا- میں نے کہا ٹھیک ہے، لے لیتے ہیں- وہ اتنا قیمتی بھی نہیں تھا- ہم نے پھول لے لیا- اب وہ (میرا بیٹا) بیچارا سارا دن اسی آرزو اور انتظار میں رہا کہ کب رات آتی ہے اور کب میں اس کو روشن دیکھوں گا-
رات کو وہ اپنے کمرے میں وہ پھول لے گیا اور بیچارا آدھی رات تک بیٹھا رہا، لیکن اُس میں سے کوئی روشنی نہیں آئی تھی- صبح جب میں اُٹھا تو وہ میرے بستر کے پاس کھڑا ُ ُپُھس پُھس“ رو رہا تھا اور پھول اُس کے ہاتھہ میں تھا اور کہہ رہا تھا کہ ابو اس میں کوئی روشنی نہیں تھی، یہ تو ویسا ہی کالے کا کالا ہے- یہ تو ہمارے ساتھہ دھوکہ ہو گیا- میں نے کہا، نہیں ! تم ابھی تھوڑا انتظار کرو اور صبر کی کیفیت پیدا کرو- اگر اُس سٹال والے نے دعویٰ کیا ہے تو اس میں سے کچھہ ہو گا- میں نے اُس سے وہ پھول لے لیا اور اُسے اپنے کوٹھے (گھر کی چھت) پر لے جا کر (وہاں کڑی دھوپ تھی) دھوپ میں رکھہ دیا- مجھے پتہ تھا کہ اس مین جونسا چمکنے والا مصالحہ انہوں نے لگایا تھا، وہ جب تک سورج کی کرنیں جذب نہیں کرے گا، اُس وقت تک اُس میں روشنی نہیں آئے گی- بالکل ویسے ہی جیسے گھڑیاں ہوتی تھیں کہ وہ دن کو روشنی میں رہتی تھیں، تو رات کو پھر جگمگاتی تھیں- جب شام پڑی تو میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اب تم اس پھول کو لے جاؤ- جب رات گہری اندھیری ہو گئی تو جیسا میں نے اُسے بتایا تھا کہ اس کے اوپر کالا کپڑا رکھنا اور فلاں فلاں وقت میں اسے دیکھنا ( میں نے اُسے اس انداز میں سمجھایا جیسے جادوگر کرتے ہیں)- اُس نے ایسے ہی کیا اور خوشی کا نعرہ اور چینخ ماری- اُس کا سارا کمرہ جگمگ روشن جو ہو گیا تھا- اُس نے اپنی ماں کو اور چھوٹے بھائیوں کو بلایا اور وہ جگمگاتا ہوا پھول دکھانے لگا- ہمارے گھر میں ایک جشن کا سا سماں ہو گیا-
جب اُس کی ماں اور اُس کے بھائی اُس کے کمرے میں بیٹھے ہوئے اُس کے ساتھہ باتیں کر رہے تھے، تو میں اپنے بستر پر لیٹا ہوا سوچ رہا تھا کہ کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم بھی وہ روشنی، جو اللہ خداوند تعالٰی ہمیں عطا کرتا ہے اور جسے وہ بطور خاص نور کہتا ہے اللہ نُورُالسّمٰوٰتِ وَالاَرض کہتا ہے کیا ہم اس کو اپنی ذات میں نہیں سمو سکتے؟ کیا ایسے نہیں ہو سکتا کہ میں اپنی بلّی کی طرح اپنی ساری چیزیں اُس کی روشنی میں رکھہ دوں، جیسے میں نے وہ پھول چھت پر رکھا تھا تاکہ وہ روشنی جذب کر کے چمک سکے- میری شادی، میری مُلازمت، میری زندگی، میری صحت، میرے بچّے، میرے عزیزواقارب، میرے رشتہ دار حتٰی کہ میں اپنا مُلک بھی، جسے بڑی محبّت، محنت کے ساتھہ اور بڑی قربانیاں دے کر ہم نے آزادی دلوائی ہے، اس کو اُٹھا کر اس روشنی کے اندر رکھہ دوں اور پھر یہ سارا دن رات اسی طرح جگمگاتے رہیں، جیسے میرے بچّے کا وہ پھول رات کے اندھیرے میں جگمگا رہا تھا- لیکن مجھے افسوس ہے کہ ہم کو ظلمات سے اتنا پیار ہوگیا ہے، کس وجہ سے ہوا ہے- میں یہ الزام آپ پر بھی نہیں لیتا، آپ کو خیر کیسے دے سکتا ہوں کہ اندھیرے سے اتنا پیار کیوں ہے؟
ہم اندھیرے کی طرف کیوں مائل ہیں اور جب اللہ بار بار کہتا ہے، واضح کرتا ہے کہ میں تم کو ظلمات سے نور کی طرف لانا چاہتا ہوں، تم ظلمات سے نور کی جانب آؤ اور جن کے اَذہان اور روئیں بند
ہیں، وہ روشنی کی طرف نہیں آتے اور ایسے ہو نہیں پاتا، جیسے ربِ تعالٰی چاہتا ہے اور آرزو یہ رہتی ہے کہ انسان اپنے کام، اپنی ہمّت اور اپنی محنت سے کرے- انسان اپنے کام اپنی ہمّت اور اپنی محنت سے صرف اسی حد تک کرے، جس کا وہ مکّلف ہے، یعنی جس کی وہ تکلیف اُٹھا سکتا ہے- لیکن اللہ کو بھی کچھہ نہ کچھہ ذمہ داری عطا کرنی چاہیے- اگر آپ تفریحاً ( میری ایسی ہی باتیں ہیں، جو ایک ڈرائنگ ماسٹرسمجھتے ہیں، وہ کرتا ہے کہ اس کے ساتھ کوئی تعلق پیدا کرنا چاہیے) کچھہ وقت نکال کر، آپ اس کا تجربہ کر کے دیکھہ لیں اور میرے کہنے پر ہی تھوڑے وقت کے کے لیے کہ آپ کسی بھی زبان میں، اپنے اللہ کے ساتھہ کچھہ گفتگو شروع کر دیں ( جس طرح آج کل آپ اپنے سیلولر فون پر کرتے ہیں) تو چند دنوں کے بعد آپ کو ایک Message آنے لگ جاتا ہے، جو واضح تو نہیں ہوتا- ایسے تو نہیں ہوتا جیسے آپ ٹیلیفون پر سُنتے ہیں، لیکن آپ کا دل، آپ کی ذات اور آپ کا ضمیر اس کے ساتھی وابستہ ہو جاتا ہے،پھر آہستہ آہستہ زیادہ وقت صرف کرنے سے کہ میں کچھہ وقت نکال کر، اپنا ہل چھوڑ کے ُ ُواہی“
(کھیتی) چھوڑ کر یا قلم چھوڑ کر لکھتے ہوئے یا دفتر میں اپنے اوقات کے دوران میں اگر آپ کا کمرہ الگ ہے، تو اپنی ٹیبل چھوڑ کر، سامنے والے صوفے جو مہمانوں کے لیے رکھا ہوتا ہے، وہاں جا کر بیٹھیں اور اپنے جوتے اُتار دیں، پاؤں آرام سے قالین پر رکھیں- پھر آپ کہیں کہ میں خاص نیّت کے ساتھہ آپ سے ( خُدا سے ) وابستہ ہونے کے لیے یہاں آ کر بیٹھا ہوں- مجھے یہ پتہ نہیں ہے کہ وابستگی کس طرح سے ہوتی ہے، مجھے یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ آپ کو کس طرح سے پُکارا جاتا ہے- میں صرف یہ بوجھہ آپ پر ڈالنے کے لیے یہاں آیا ہوں کہ جس طرح جانور کو اپنے مالک پر اعتماد ہوتا ہے- اسی طرح میں عین اُس جانور کی حیثیت سے اپنا بوجھ آپ پر ڈالنے آیا ہوں-
مجھے سارے طریقے نہیں اآتے ہیں، جو طریقے بزرگوں کو معلوم ہیں- اس طرح آپ کے اندر اور اس ماحول کے اندر سے اور اُس مقام کے اندر سے اور جو کام کرنے والی جگہ چھوڑ کر آپ اور جگہ پر آ کر بیٹھے ہیں، اُس جگہ کے حوالے سے اور اُس جگہ کی تقدیس سے یقیناً آپ Inline ہوں گے- جس طرح آپ نے شاید کبھی انجن گاڑی کے ساتھہ جوڑتے ہوئے دیکھا ہو گا کہ کس طرح جب انجن کو گاڑی کے پاس لایا جاتا ہے، تو وہ ُ ُکرک“ کر کے گاڑی کے ساتھہ جُڑ جاتا ہے اور گاڑی کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ وہ ساتھہ جُڑ گیا ہے- یہ مشاہدہ آپ ضرور کریں کہ کس طرح سے آدمی اللہ کے ساتھہ جُڑ جاتا ہے اور پھر وہ اپنا سارا بوجھہ اللہ پر ڈال کر اور ساری زمّے داری اُس کے حوالے کر کے چلتا رہتا ہے-
ایک روز میں جمعہ پڑھنے جا رہا تھا- راستے میں ایک چھوٹا سا کُتّا تھا، وہ پلا ریہڑے کی زد میں آ گیا اور اُسے بہت زیادہ چوٹ آگئی- وہ جب گھبرا کر گھوما تو دوسری طرف سے آنے والی جیپ اس کو لگی، وہ بالکل مرنے کے قریب پہنچ گیا- سکول کے دو بچّے یونیفارم میں آ رہے تھے- وہ اُس کے پاس بیٹھہ گئے- میں بھی اُن کے قریب کھڑا ہو گیا- حالانکہ جمعے کا وقت ہو گیا تھا- اُن بچوں نے اُس زخمی پلے کو اُٹھا کر گھاس پر رکھا اور اُس کی طرف دیکھنے لگے- ایک بچّے نے جب اُس کو تھپتھپایا تو اُس پلے نے ہمیشہ کے لیے آنکھیں بند کر لیں- وہاں ایک فقیر تھا- اُس نے کہا کہ واہ، واہ واہ! وہ سارے منظر کو دیکھہ کر بڑا خوش ہوا، جبکہ ہم کچھہ آبدیدہ اور نم دیدہ تھے- اُس فقیر نے کہا کہ یہ اب اس سرحد کو چھوڑ کر دوسری سرحد کی طرف چلا گیا- وہ کہنے لگا کہ یہ موت نہیں تھی کہ اس کتّے نے آنکھیں بند کر لیں اور یہ مر گیا- اس کی موت اُس وقت واقع ہوئی تھی جب یہ زخمی ہوا تھا اور لوگ اس کے قریب آ کر سڑک کراس کر رہے تھے اور کوئی رُکا نہیں تھا- پھر اُس نے سندھی کا ایک دوہڑا پڑھا- اس کا مجھے بھی نہیں پتہ کہ کیا مطلب تھا اور وہ آگے چلا گیا- وہ کوئی پیسے مانگنے والا نہیں تھا- پتہ نہیں کون تھا اور وہاں کیوں آیا تھا؟
وہ سپردگی جو اُس سکول کے بچّے نے بڑی دل کی گہرائی سے اُس پلے کو عطا کی، ویسی ہی سپردگی ہم جیسے پلوں کو خدا کی طرف سے بڑی محبّت اور بڑی شفقت سے اور بڑے رحم اور بڑے کرم کے ساتھہ عطا ہوتی ہے- لیکن یہ ہے کہ اسے Receive کیسے کیا جائے؟ کچھہ جاندار تو اتنی ہمّت والے ہوتے ہیں وہ رحمت اور اس شفقت کو اور اس Touch کو حاصل کرنے کے لیے جان تک دے دیتے ہیں- آپ نے بزرگانِ دین کے ایسے بیشمار قصّے پڑھے ہوں گے-
میں یہ عرض کر تھا کہ میرا چھوٹا منہ اور بڑی بات ہے، لیکن ان تجربات میں سے گزرتے ہوئے میں نے یہ ضرور محسوس کیا ہے کہ اللہ کی طرف رجوع کیا جائے اور اپنا سارا سامان، جتنا بھی ہے، اُس کی روشنی میں رکھہ دیا جائے اور جب اُس کی پوری کی پوری روشنی سے وہ پورے کا پورا لتھڑ جائے، تو پھر کوئی خطرہ کوئی خوف باقی نہیں رہتا-
کتابی علم جو میرے پاس بھی ہے، وہ تو مل جائے گا، لیکن وہ روح جو سفر کرتی ہے، وہ داخل نہیں ہوگی- میری بلّی کنبر نے آج صبح سے مجھے بہت متاثر کیا ہے اور میں بار بار قدم قدم پر یہ سوچتا ہوں کہ کیا میں اس جیسا نہیں بن سکتا؟ اب مجھے اپنی بلّی پر غصّہ بھی آتا ہے اور پیار بھی آتا ہے اور میں اس سے چڑ گیا ہوں کہ یہ تو اتنے بڑے گریڈ حاصل کر گئی اور فرسٹ ڈویژن میں ایم اے کر گئی ہے اور میں جو اس کا مالک ہوں، میں بالکل پیچھے ہوں- یہ ساری بات غور کرنے کی ہے- آپ میری نسبت باطن کے سفر کے معمول میں بہتر ہیںاور جو جذبہ اور جو محبّت اور لگن آپ کی روحوں کو عطا ہوتی ہے، وہ مجھے عطا نہیں ہوئی- لیکن میں آپ کے ساتھہ ساتھہ بھاگنے والوں میں شریک رہنا چاہتا ہوں کہ کچھہ کرنیں جب بٹ جائیں، آپ کے سامان سے تو وہ مجھے مل جائیں- اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے- اللہ حافظ!!
 
تنقید اور تائی کا فلسفہ
(نوٹ- یہ پروگرام اشفاق احمد کے انتقال سے چند روز قبل نشر ہوا)
ان دنوں میرا پوتا، جو اب بڑا ہو گیا ہے،عجیب عجیب طرح کے سوال کرنے لگاہے- ظاہر ہے کہ بچّوں کو بڑا حق پہنچتا ہے سوال کرنے کا- اُس کی ماں نے کہا کہ تمہاری اردو بہت کمزور ہے، تم اپنے دادا سے اردو پڑھا کرو- وہ انگریزی سکول کے بچّے ہیں، اس لیے زیادہ اردو نہیں جانتے- خیر! وہ مجھہ سے پڑھنے لگا- اردو سیکھنے کے دوران وہ مجھہ سے کچھہ اور طرح کے سوالات بھی کرتا ہے- پرسوں مجھہ سے پوچھہ رہا تھا کہ دادا! یہ آمد ورفت جو ہے،اس میں عام طور پر کتنا فاصلہ ہوتا ہے؟ (اُس نے یہ لفظ نیا نیا پڑھا تھا) اب اُس نے ایسی کمال کی بات کی تھی کہ میں اس کا کوئی جواب نہیں دے سکتا تھا- پھر اُس نے مجھہ سے کہا کہ دادا! کیا نفسیات کی کوئی ایسی کتاب ہے، جس میں آدمی کو پرکھنے کے اچھے سے اور آسان سے طریقے ہوں؟ تو میں نے کہا کہ بھئی! تہمیں آدمی کو پرکھنے کی کیا ضرورت پیش آرہی ہے؟ اُس نے کہا کہ پتہ تو چلے کہ آخر مدِّ مُقابل کیسا ہے؟ کس طرز کا ہے؟ جس سے میں دوستی کرنے جا رہا ہوں، یا جس سے میری مُلاقات ہو رہی ہے- میں اُس کو کس کسوٹی پر لٹمس پیپر کے ساتھہ چیک کروں- میں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اُس کو چیک کرنے کی ضرورت نہیں،لیکن اگر تم ایسا چاہتے ہی ہو تو ظاہر ہے علمِ نفسیات میں بہت ساری ایسی کتابیں ہیں کہ

HOW TO UNDERSTAND PEOPLE? HOW TO CHECK HUMAN BEINGS؟

ایسی بیشمار کتابیں ہیں، لیکن وہ ساری کی ساری اتنی ٹھیک نہیں جتنی ہمارے ہاں عام طور پر سمجھی جاتی ہیں- ہماری اُستاد تو ہماری تائی تھی- میں نے پہلے بھی اس کے بارے میں آپ لوگوں کو بتایا ہے، لیکن آپ میں سے شاید بہت سے لوگ نئے ہیں اور اُن کوُ ُتائی“ کے بارے میں پتہ نہ ہو، جسے سارا گاؤں ہی ُ ُتائی“ کہتا تھا- بڑے کیا، چھوٹے کیا، سبھی- وہ ہمارے گاؤں میں ایک بزرگ تیلی جو میری پیدائش سے پہلے فوت ہوگئے تھے، اُن کی بیوہ تھیں- ہماری تائی تیلن تھی، تیل نکالتی تھی اور کچی گھانی کا خالص سرسوں کا تیل بیچتی تھی- سارے گاؤں والے اُس سے تیل لیتے تھے- خود ہی بیل چلاتی تھی، بڑی لٹھہ جو بہت مشکل ہوتی ہے، بیلوں سے وہ اکیلے نکال لیتی تھی-
میں جب اُس سے ملا تو اُس کی عمر 80 برس کی تھی- میں اُس وقت آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا، لیکن مجھے اُس تائی کی شخصیت نے متاثر بہت کیا- وہ اتنی خوش مزاج، اتنی خوشی عطا کرنے والی اور خوش بختی کا سامان مہیا کرنے والی تھی کہ جس کا کوئی حساب نہیں- شام کے وقت گاؤں کے لوگ، بزرگ، ہندو، سکھہ سب اُس کے پاس جمع ہو جاتے تھے کہ ہمیں کوئی دانش کی بات اُس کے ہاں سے ملے گی- ایک طرح سے یوں سمجھئے کہ اُس کا گھر ُ ُکافی ہاؤس“ تھا جس میں زمیندار لوگ اکٹھے ہو جاتے تھے- ایک بار میں نے تائی سے پوچھا کہ یہ تیری زندگی جو گزری ہے،اس کا میں تو شاہد نہیں ہوں، وہ کس قسم کی تھی؟ اُس نے بتایا کہ میں چھبیس برس کی عمر میں بیوہ ہو گئی اور پھر اُس کے بعد میری عمر دیکھہ لو، تمہارے سامنے ہے- اَسّی برس ہے- میں ایسے ہی رہی، لیکن میں کڑوی بہت تھی اور تلخ طبیعت کی ہو گئی- جب میں بیوہ ہو گئی- میں خُدا پر بھی تنقید کرتی تھی، حالات پر بھی، وقت پر بھی، لوگوں پر بھی اور میری کڑواہٹ میں مزید اضافہ ہوتا رہتا تھا -
میری شخصیت کو وہ سکون نہیں ملتا تھا، جس کی میں آرزو مند تھی، لیکن میں ہر بندے کو اچھی طرح سے ُ ُکھڑکا“ دیتی تھی اور وہ شرمندہ ہو کر اور گھبرا کر میرے ہاں سے رُخصت ہوتا تھا- تو میں نے ایک اور یہ فیصلہ کیا کہ ( اس عورت میں اللہ نے فیصلے کی بڑی صلاحیت رکھی ہوئی ہے ) اگر مجھے آدمیوں کو، لوگوں کو سمجھنا ہی ہے، اگر مجھے ان کی روحوں کے اندر گہرا اُترنا ہے، تو میرا سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ مجھے ان پر Criticism کرنا، تنقید کرنا، نکتہ چینی کرنا چھوڑنا ہوگا- جب آپ کسی شخص پر نکتہ چینی کرنا چھوڑ دیتے ہیں، اُس پر تنقید کرنا چھوڑ دیتے ہیں، اُس میں نقص نکالنا چھوڑ دیتے ہیں تو وہ آدمی سارے کا سارا آپ کی سمجھہ میں آنے لگتا ہے اور ایکسرے کی طرح اُس کا اندر اور باہر کا وجود آپ کی نظروں کے سامنے آ جاتا ہے-
اب یہ اُس کا بھی فلسفہ تھا اور کچھہ بڑوں سے بھی اُس نے حاصل کیا تھا، وہ بھی تھا- جب بھی مجھے کوئی ایسا مشکل مسئلہ ہوتا، تو میں ضرور اُس سے ڈسکس کرتا کہ اس کو کیسے کرنا ہے، اکیلا میں ہی نہیں، سارے ہی اُس سے ڈسکس کرتے تھے، کیونکہ اُس کا فلسفہ یہ تھا کہ کسی کی خرابیاں تلاش کرنے کے بجائے اُس کی خوبیوں پر نظر رکھنی چاہیے اور ظاہر ہے کہ آدمی کسی کی خوبیوں پر نظر نہیں رکھہ سکتا، کیونکہ اُس کو بڑی تکلیف ہوتی ہے، لیکن ڈھونڈنی چاہئیں- وہ تائی واحد ایسی فرد تھی جو کہ بُرے سے بُرے وجود میں سے بھی خوبی تلاش کر لیتی تھی- میرا بھائی جو مجھہ سے دو جماعتیں آگے تھا، وہ بھی تائی کے اس روّیے سے بڑا تنگ تھا- وہ ذہین آدمی تھا- ایک دن اُس نے ایک ترکیب سوچی- اُس نے کہا کہ یار! میں ابھی تائی کو پھانستا ہوں، کیونکہ وہ بالکل ان پڑھ ہونے کے باوصف ہم سے بہت آگے چلی جا رہی ہے- میں نے آج ایک معمہ بنایا ہے، اسے لے کر تائی کے پاس چلتے ہیں- لیکن تم بہت سنجیدہ اور معصوم سے ُ ُمیسنے“بن کر کھڑے ہوجانا- یہ تائی ہر چیز کی تعریف کرتی ہے،کبھی آج تک اس کو کسی میں نقص نظر نہیں آیا، پھر زندگی کا مزہ کیا ہےکہ آدمی نقص کے بغیر ہی زندگی بسر کرتا چلا جائے اور ارد گرد پڑوس میں عورتیں آباد ہوں اور آدمی اُن میں نقص ہی نہ نکالے- بیبیاں تو فوراً کھڑکی کھول کر دیکھتی ہیں کہ اُس کے گھر میں کون آیا ہے؟ کون گیا؟ فٹا فٹ نقص نکالنے اور خرابی کی وضاحت پیش کرنے کے لیے اُن کو موقعہ چاہیے ہوتا ہے-
خیر! ہم گئے- میرے بھائی نے بہت ادب کے ساتھہ اُس سے کہا ( اور وہ خوش تھا کہ اب تائی پھنس جائے گی) تائی! یہ شیطان کیسا ہے؟ تائی کہنے لگی پُت! ابلیس؟ وہ کہنے لگا ، ہاں- تائی کہنے لگی،ہائے ہائے صدقے جاواں وہ بڑا ہی محنتی ہے، جس کم دا تہیہ کر لے اُس کو چھوڑتا ہی نہیں، پورا کر کے دم لیتا ہے- کیا کہنے اُس کے، وہ ہماری طرح سے نہیں ہے کہ کسی کام میں آدھا دل اِدھر اور آدھا دل اُدھر،اُس نے جس کام کی ٹھان لی، پورا کر کے ہی چھوڑتا ہے- میں نے بھائی سے کہا کہ آجاؤ یہاں ہماری دال نہیں گلے گی، یہ اور طرح کی یونیورسٹی ہے اور اس یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے جو لوگ ہیں، ہم اُن کے ساتھہ نہیں کھڑے ہو سکتے-
میں اپنے پوتے سے یہ کہہ رہا تھا ( ظاہر ہے عرصہ بیت گیا، اب تائی اس جہاں میں موجود نہیں ہے، لیکن میں اُس سے اپنے حوالے سے اور حیثیت سے بات کر رہا تھا ) کہ آدمی کو اپنے آپ کو جاننے کے لیے دوسرے آدمی کے آئینے میں اپنی شکل دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے- جب تک آپ دوسرے کو آئینہ نہیں بنائیں گے، آپ کو اپنی ذات کی شکل نظر نہیں آئے گی- اگر آپ اس کے اوپر کالک ملتے رہیں گے، تو پھر بڑی مشکل ہو جائےگی-
اتّفاق سے اب ہمارے ہاں Criticism کچھہ زیادہ ہی ہونے لگا ہے اور کچھہ ہمیں پڑھایا بھی جاتا ہے- کچھہ ہماری تعلیم بھی ایسی ہے- کچھہ ہم ایسے West oriented Educated لوگ ہو گئے ہیں کہ ہم کہتے ہیں کہ ہر بات کا احتساب کرو، اس پر تنقید کرو اور ہر چیز کو تسلیم کرتے ہوئے اور ایسے ہی آگے چلتے ہوئے زندگی بسر نہ کرو-
جب میں لکھنے لکھانے لگا اور میں چھوٹا سا ادیب بن رہا تھا، یہ پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے، اُس وقت لاہور میں ایک ُ ُکافی ہاؤس“ ہوتا تھا، وہاں بڑے سینئر ادیب رات گئے تک نشست کرتے تھے، تو ہم بھی اُن کے پاس بیٹھہ کر اُن سے باتیں سیکھتے تھے- اُن سے بات کرنے کا شعور حاصل کرتے تھے اور اپنے مسائل بھی اُن سے بیان کرتے تھے- اُس زمانے میں راجندر سنگھہ بیدی یہاں ڈاکخانے میں کام کرتے تھے- پریم چند بھی ُ ُکافی ہاؤس“ میں آ جاتے تھے اور اس طرح بہت بڑے لوگ وہاں آجاتے تھے- میں رات دیر سے گھر آتا تھا، میری ماں ہمیشہ میرے آنے پر ہی اُٹھہ کر چولہا جلا کر روٹٰ پکاتی تھی ( اُس زمانے میں گیس ویس تو ہوتی نہیں تھی ) اور میں ماں سے ہمیشہ کہتا تھا کہ آپ روٹی رکھہ کر سو جایا کریں،تو وہ کہتیں تو رات کو دیر سے آتا ہے- میں چاہتی ہوں کہ تجھے تازہ پکا کر روٹی دوں- جیسا کہ ماؤں کی عادت ہوتی ہے- میں اُن سے اس بات پر بہت تنگ تھا اور میں نے اُن سے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر آپ اسی طرح رات دیر سے اُٹھہ کر روٹی پکاتی رہیں، تو پھر میں کھانا ہی نہیں کھاؤں گا- ایک دن یونہی رات دیر سے میرے آنے کے بعد ُ ُپُھلکا“ (تازہ روٹی) پکاتے ہوئے اُنہوں نے مجھہ سے پوچھا ُ ُکہاں جاتا ہے“ میں نے کہا، اماں! میں ادیب بن رہا ہوں- کہنے لگیں، وہ کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا، اماں! لکھنے والا، لکھاری- وہ پھر گویا ہوئیں، تو پھر کیا کرے گا؟ میں نے کہا، میں کتابیں لکھا کروں گا- وہ کہنے لگیں، اینیاں اگے اپیاں جیہڑیاں کتاباں اونہاں دا کی بنے گا؟ میں نے کہا، نہیں! نہیں، وہ تو جھوٹ ہیں، کچھہ نہیں- میں اور طرح کا رائٹر بنوں گا اور میں سچ اور حق کے لیے لڑوں گا اور میں ایک سچی بات کرنے والا بنوں گا-
میری ماں کچھہ ڈر گئی- بیچاری اَن پڑھ عورت تھی گاؤں کی- میں نے کہا، میں سچ بولا کروں گا اور جس سے ملوں گا، سچ کا پرچار کروں گا اور پہلے والے لکھاری بڑے جھوٹے رائٹر ہیں- مجھے اچھی طرح یاد ہے اُس وقت ماں کے ہاتھہ میں پکڑے چمٹے میں روٹی اور پتیلی (دیگچی) تھی- اُس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی، اگر تو نے یہی بننا ہے، جو تو کہتا ہے اور تو نے سچ ہی بولنا ہے، تو اپنے بارے میں سچ بولنا- لوگوں کے بارے میں سچ بولنا نہ شروع کر دینا- یہ میں آپ کو بالکل اَن پڑھ عورت کی بات بتا رہا ہوں- سچ وہ ہوتا ہے جو اپنے بارے میں بولا جائے، جو دوسروں کے بارے میں بولتے ہیں، وہ سچ نہیں ہوتا- ہماری یہ عادت بن چکی ہے اور ہمیں ایسے ہی بتایا، سکھایا گیا ہے کہ ہم سچ کا پرچار کریں-
جب ہم باباجی کے پاس گئے اور کبھی کبھی اُن کے سامنے میرے منہ سے یہ بات نکل جاتی تھی کہ میں سچی اور حق کی بات کروں گا، تو وہ کہا کرتے تھے، سچ بولا نہیں جاتا، سچ پہنا جاتا ہے، سچ اوڑھا جاتا ہے، سچ واپرتا (اوڑھنے) کی چیز ہے، بولنے کی چیز نہیں ہے- اگر اسی طرح اور یوں ہی سچ بولو گے تو جھوٹ ہو جائے گا- جب تو یہ بات سمجھہ میں نہیں آتی تھی، لیکن اب جوں جوں وقت گزرتا ہے اور یہ حسرت اور آرزو ہی رہی ہے اور میرا جی چاہتا ہے کہ مرنے سے پہلے میں کم از کم ایک دن سچ اوڑھ کرباہر نکلوں اور ساری دنیا کا درشن کر کے پھر واپس لوٹوں، اوڑھا ہو سچ معلوم نہیں کتنا خوبصورت ہوتا ہو گا، بولا ہوا تو آپ کے سامنے ہی ہے- وہ اچھا نہیں ہوتا- جب آدمی کسی کو Criticise کرتا ہے اور کسی کے اوپر تنقید کرتا ہے، تو حُکم تو یہ ہے کہ پہلے آپ دیکھہ لیںاور اُس کی عینی شہادت لیں کہ آیا اس میں ایسی کوئی خرابی ہے بھی کہ نہیں- اگر وہ نظر بھی آجائے اور خرابی ہو بھی، تو پھر بھی اُس کا اعلان نہ کریں- آپ کو کیا ضرورت ہے کسی کی خرابی کا اعلان کرنے کی، اللہ ستارالعیوب ہے- اگر اللہ خُداوند تعالٰی ہماری چیزوں کو اُجاگر کرنے لگےتو، توبہ توبہ ہم تو ایک سیکنڈ بھی زندہ نہ رہیں، لیکن وہ ہمارے بھید ُ ُلکو“ کر رکھتا ہے- تو ہمیں اس بات کا حق نہیں پہنچتا کہ ہم لوگوں کی خرابیوں کا ڈھنڈورا پیٹتے پھریں- اگر آپ کو کسی میں خرابی نظر آئے تو یہ یکھیں کہ اگر میں اس کی جگہ پر ہوتا، میں انہی Cricumstances میں ہوتا اور میں ایسے حالات میں سے گزرا ہوا ہوتا، بچپن میں یتیم ہو گیا ہوتا، یا کسی کے گھر پلا ہوتا، تو میری شخصیت کیسی ہوتی؟ یہ ایک بات بھی غور طلب ہے-
ممکن ہے آپ کی آنکھہ میں ٹیڑھ ہو اور اُس بندے میں ٹیڑھ نہ ہو- ایک واقعہ اس حوالے سے مجھے نہیں بھولتا، جب ہم سمن آباد میں رہتے تھے- یہ لاہور میں ایک جگہ ہے- وہ اُن دنوں نیا نیا آباد ہو رہا تھا- اچھا پوش علاقہ تھا- وہاں ایک بی بی بہت خوبصورت، ماڈرن قسم کی بیوہ عورت نو عمر وہاں آ کر رہنے لگی- اُس کے دو بچے بھی تھے- ہم، جو سمن آباد کے ُ ُنیک“ آدمی تھے، ہم نے دیکھا کہ ایک عجیب و غریب کردار آ کر ہمارے درمیان آباد ہو گیا ہے اور اُس کا اندازِ زیست ہم سے ملتا جُلتا نہیں ہے- ایک تو وہ انتہائی اعلٰی درجے کے خوبصورت کپڑے پہنتی تھی، پھر اُس کی یہ خرابی تھی کہ وہ بڑی خوبصورت تھی- تیسری اُس میں خرابی یہ تھی کہ اُس کے گھر کے آگے سے گزرو تو خوشبو کی لپٹیں آتی تھیں- اُس کے جو دو بچّے تھے، وہ گھر سے باہر بھاگے پھرتے تھے اور کھانا گھر پر نہیں کھاتے تھے- لوگوں کے گھروں میں چلے جاتے تھے اور جن گھروں میں جاتے، وہیں سے کھا پی لیتے تھے، یعنی گھر کی زندگی سے اُن بچوں کی زندگی کچھہ کٹ آف تھی-
اُس خاتون کو کچھہ عجیب و غریب قسم کے مرد بھی ملنے آتے تھے- گھر کی گاڑی کا نمبر تو روز دیکھہ دیکھہ کر آپ جان جاتے ہیں، لیکن اُس کے گھر آئے روز مختلف نمبروں والی گاڑیاں آتی تھیں- ظاہر ہے اس صورتِ حال میں ہم جیسے بھلے آدمی اس سے کوئی اچھا نتیجہ اخذ نہیں کر سکتے- اُس کے بارے میں ہماراایسا ہی روّیہ تھا، جیسا آپ کو جب میں یہ کہانی سُنا رہا ہوں، تو آپ کے دل میں لا محالہ اس جیسے ہی خیالات آتے ہوں گے- ہمارے گھروں میں آپس میں چہ میگوئیاں ہوتی تھیں کہ یہ کون آ کر ہمارے علاقے میں آکر آباد ہو گئی ہے- میں کھڑکی سے اسے جب بھی دیکھتا، وہ جاسوسی ناول پڑھتی رہتی تھی- کوئی کام نہیں کرتی تھی- اُسے کسی چولہے چوکے کا کوئی خیال نہ تھا- بچّوں کو بھی کئی بار باہر نکل جانے کو کہتی تھی-
ایک روز وہ سبزی کی دُکان پر گر گئی، لوگوں نے اُس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے وینٹے مارے تو اُسے ہوش آیا اور وہ گھر گئی- تین دن کے بعد وہ فوت ہوگئی، حالانکہ اچھی صحت مند دکھائی پڑتی تھی- جو بندے اُس کے ہاں آتے تھے، اُنہوں نے ہی اُس کا کفن دفن کا سامان کیا- بعد میں پتہ چلا کہ اُن کے ہاں آنے والا ایک بندہ اُن کا فیملی ڈاکٹر تھا- اُس عورت کو ایک ایسی بیماری تھی جس کا کوئی علاج نہیں تھا- اُس کو کینسر کی ایسی خوفناک صورت لاحق تھی Skin وغیرہ کی کہ اُس کے بدن سے بدبو بھی آتی رہتی تھی- جس پر زخم ایسے تھے اور اُسے خوشبو کے لیے سپرے کرنا پڑتا تھا، تاکہ کسی قریب کھڑے کو تکلیف نہ ہو- اُس کا لباس اس لیے ہلکا ہوتا تھا اور غالباً ایسا تھا جوبدن کو نہ چُبھے- دوسرا اُس کے گھر آنے والا اُس کا وکیل تھا، جو اُس کے حقوق کی نگہبانی کرتا تھا- تیسرا اُس کے خاوند کا چھوٹا بھائی تھا، جو اپنی بھابی کو ملنے آتا تھا- ہم نے ایسے ہی اُس کے بارے طرح طرح کے اندازے لگا لیے اور نتائج اخذ کر لیے اور اُس نیک پاکدامن عورت کو جب دورہ پڑتا تھا، تو بچّوں کو دھکے مار باہر نکال دیتی تھی اور تڑپنے کے لیے وہ اپنے دروازے بند کر لیتی تھی-
میرا یہ سب کچھہ عرض کرنے کا مقصد یہ تھا کہ ہم تنقید اور نقص نکالنے کا کام اللہ پر چھوڑیں وہ جانے اور اُس کا کام جانے-ہم اللہ کا بوجھہ اپنے کندھوں پر نہ اُٹھائیں، کیونکہ اُس کا بوجھہ اُٹھانے سے آدمی سارے کا سارا ُ ُچِبہ“ ہو جاتا ہے، کمزور ہو جاتا ہے، مر جاتا ہے- اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں عطا کرنے کا شرف عطا فرمائے- اللہ حافظ !!
 

شمشاد

لائبریرین
باب 31

باب 31
چیلسی کے باعزت ماجھے گامے

میں ایک بات پر بہت زور دیتا رہا ہوں اور اب بھی مجھے اسی بات پر زور دینے کی تمنا ہے لیکن الحمدللہ کچھ اصلاح بھی ہوتی رہتی ہے پھر میں محسوس کرتا ہوں کہ میں جس شدت سے اس صیغے پر قائم تھا وہ اتنا اہم نہیں تھا۔ میرا اس پر کامل یقین ہے کہ ہمارے ملک کے لوگوں کو ایک سب سے بڑی محرومی یہ ہے کہ (روٹی، کپڑا اور مکان کی کہانی تو عام چلتی رہی ہے اور اس بارے بڑا پرچار ہوتا رہا ہے) لوگوں کو ان کی عزتِ نفس سے محروم رکھا گیا ہے۔ ہر شخص کا حق ہے کہ وہ اپنی توقیر ذات کے لیے آپ سے، اپنے ملک سے تقاضا کرئے، میری عزتِ نفس اور Self Respect مجھے دی جائے۔ دولت، شہرت، روپیہ پیسہ اور علم کی ہر شخص ڈیمانڈ نہیں کرتا بلکہ عزت کا تقاضا سب سے پہلے کرتا ہے۔ دنیا کے جتنے بھی مہذب ملک ہیں انہوں نے اپنے لوگوں کو جو ایک بڑا انعام عطا کیا ہے وہ سارے کے سارے لوگ عزتِ نفس میں ایک سطح پر ہیں۔ یہ ان ملکوں کی جمہوریت کا خاصا کہہ لیں یا ان کی سوچ و فکر کی خوبی کہہ لیں یا پھر کوئی اور نام دے لیں۔ میں غیر ملکوں کی مثال دیا تو نہیں کرتا لیکن مجبوری کے تحت دے رہا ہوں کہ آپ ولایت چلے جائیں یا پھر لندن چلے جائیں وہاں آکسفورڈ سٹریٹ یا بون سٹریٹ میں دیکھیں تو وہاں کے نخریلے رہائشوں نے اس جدید دور میں دو گھوڑوں والی بگھیاں رکھی ہوئی ہیں اور وہ لارڈز اس طرح وقار سے رہتے ہیں، آپ وہاں ایک جگہ چیلسی کے لوگوں کو دیکھ لیں وہ ہمارے جیسے گامے ماجھے کی طرح سے ہیں۔ ایک پاؤں میں جوتا ہے ایک میں نہیں ہے۔ پہلے چیلسی کے سارے لوگ “ ہپی “ ہوتے تھے۔ ان کی مالی حیثیت نہایت قابلِ رحم ہے لیکن ان کے مقابلے میں لارڈز اعلٰی حیثیت میں ہیں۔ لیکن اگر ڈاکخانے پر (یہ واقعہ چونکہ میرے سامنے پیش آیا اس لیے عرض کر رہا ہوں) قطار میں کھڑے ہو کر آپ ٹکٹ لینا چاہ رہے ہیں تو پھر وہ شخص جو قطار میں آگے کھڑا ہے اسے پیچھے کر کے لارڈ آگے نہیں آ سکتا اور کسی بھی صورت میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ لارڈ جانتا ہے کہ یہ آگے کھڑے شخص کی عزتِ نفس کا معاملہ ہے اور یہ اس کا استحقاق ہے۔ جب گندی مندی حالت کا آدمی تھانے میں بھی جائے اور اس کی شکل و صورت ایسی ہو کہ آپ اس بات کرنا گوارہ نہ کریں تو وہاں تھانے کا جو ایس ایچ او ہوتا ہے وہ اٹھ کر کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے :

? Yes sir, what I can do for you

لیکن ہمارے ہاں اور خاص طور پر ہمارے ملک میں ایک اس بات کی بڑی محرومی ہے کہ لوگوں کو ان کی عزتِ نفس اور توقیر سے محروم رکھا گیا ہے اور ہماری سب سے بڑی کمزوری اور زبوں حالی کی وجہ یہ ہے۔ میں پہلے بھی کہتا ہوں اور اب اس کو دہراتا ہوں کہ 20 لاکھ کے قریب ایسے لوگ ہیں جو صاحبِ حیثیت ہیں، صاحبِ ارادہ ہیں اور جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ یہ اندازہ میرا اپنا ہے۔ تعداد میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ ان 20 لاکھ افراد میں ہم رائٹر، وکیل، تاجر، ڈاکٹر اور فیوڈل لارڈ بھی شامل ہیں۔ یہ ٹھیک ٹھاک چلتے چلے جا رہے ہیں ان کا باقی چودہ کروڑ عوام سے تعلق نہیں ہے۔ وہ باقی لوگوں کو اپنا ساتھی نہیں سمجھتے۔ آپ ان دوسرے لوگوں کو اس صورت میں بھی ساتھی سمجھ سکتے ہیں کہ انہیں ان کی عزتِ نفس واپس لوٹا دیں۔ ایسے نہیں کہ “ غریبی مکاؤ “ کا ایک پروگرام شروع کریں یا اس نظریے کے قائل رہیں کہ جب تعلیم عام نہیں ہو گی اس وقت تک کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔

عزتِ نفس کا حصول تو ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ بابے لوگوں کو بھی ایسی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک بار ہمارے بابا جی نے کہا کہ جب اس کرہ ارض پر دوسرا آدمی پیدا ہو گیا تھا تو پہلے کا حق آدھا ہو گیا تھا جبکہ ہم کہتے ہیں کہ ہمارا حق تو پورے کا پورا ہے۔ یہ دوسرے تو ایسے ہی ہیں۔ انہیں چھوڑو دفع کرو۔

بعض اوقات بے خیالی میں ہم سے ایسی کوتاہی بھی ہو جاتی ہے کہ ہم حق رکھنے والوں کو تحریر و تقریر میں حق اس لیے نہیں لوٹا سکتے کہ یہ لوگ جاہل ہیں یا تعلیم یافتہ نہیں ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ جب تک تعلیم عام نہیں ہو گی یہاں Democratic System ٹھیک نہیں ہو سکتا اور ہمارے اخبار والے عموماً اسے لکھ دیتے ہیں کہ جی ملک میں 85 فیصد جاہل لوگ رہتے ہیں۔ میں ان اخبار والوں سے درخواست کرتا ہوں کہ صاحب اتنے سخت لفظ استعمال نہ کیا کریں۔ آپ ان کو جاہل لکھتے ہو جو گندم اُگا کے بوریوں میں بھر کے آپ کے گھروں تک پہنچا دیتے ہیں۔ یہ وہ جاہل لوگ ہیں جو آپ کے لیے جوتے سی کر ڈبوں میں بند کر کے آپ کو پہنچاتے ہیں۔ آپ خدا کے واسطے ایسے ہی انہیں جاہل نہ کہیں۔ ہمارے بابے کہتے ہیں کہ عزتِ نفس اس وقت تک عطا نہیں کی جا سکتی جب کہ عطا کرنے والا خود معزز نہ ہو۔ ہم جب تک اپنی نظروں میں خود محترم نہیں ٹھہریں گے اس وقت تک عزتِ نفس لوٹانے کا کام نہیں کر سکیں گے۔ ہم نے ایک تحقیقی سروے میں اکیس بندون سے دریافت کیا کہ وہ رشوت کیوں لیتے ہیں؟ ان لوگوں میں بڑے لوگ بھی تھے جو ایک لاکھ روپے کے قریب رشوت لیتے تھے۔ بہت بھلے آدمی تھے اور سوٹ پہنتے تھے اور ہر نماز کے وقت سوٹ ٹائی اتار کر شلوار قمیض پہن کر نماز ادا کرتے تھے۔ نماز کے بعد پھر سوٹ پہن لیتے۔ میں نے ان سے ایک بار کہا کہ جی نماز سوٹ میں بھی ہو جاتی ہے تو کہنے لگے نہیں اس طرح برا لگتا ہے۔ ہمیں ان سے ایک مشکل سا کام تھا جو انہوں نے کر دیا۔ ان کے اسسٹنٹ نے مجھے کہا کہ “ اشفاق صاحب ہم آپ کی بڑی “ مانتا “ کرتے ہیں اور ہمیں آپ سے بڑی محبت ہے آپ اس طرح کریں کہ ہمیں 75 ہزار دے دیں۔“ میرے ساتھ میرا کزن تھا جس کا کام تھا اس نے انہیں تو وہ پیسے دے دیئے ہوں گے۔ جب میں اٹھ کر آنے لگا تو وہ صاحب جو سوٹ بدل کے نماز پڑھ کر پھر سوٹ پہن لیتے تھے انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ برا نہ مانیں تو ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔

میں نے کہا فرمائیے۔ تو وہ کہنے لگے کہ میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ میری نمازوں اور داڑھی پر نہ جائیں اور میرے حصے کے پیسے الگ دیں۔

ان کے اس طرح ڈائریکٹ الفاظ کہنے سے مجھے تکلیف بھی ہوئی اسی لیے اس نے کہا کہ آپ محسوس نہ کرنا یہ تو ہمارا ۔۔۔۔۔ ان اکیس لوگوں سے تحقیق کرنے کے بعد پتہ یہ چلا کہ سب سے پہلے رشوت لینے والا خود کو ایک بے عزت شخص خیال کرتا ہے۔ وہ خیال کرتا ہے کہ “ میں تو دو ٹکے کا آدمی ہوں۔ نہ میرے کوئی آگے ہے نہ پیچھے ہے۔ وہ ایسا لاشعوری طور پر سمجھتا ہے۔ بابے کہتے ہیں کہ جب تک اپ اپنے آپ کو عزت عطا نہیں کریں گے اس وقت تک کام نہیں بنے گا۔“

لاہور میں اب جس جگہ واپڈا ہاؤس ہے جب یہ بلڈنگ نہیں تھی تو ایک زمانے میں اس جگہ ایک سپاہی کھڑا ہوتا تھا۔ اشارہ نہیں ہوتا تھا اور وہ ٹریفک کوکنٹرول کرتا تھا۔ اس کے ساتھ نیلی وردیوں والے خوبصورت اور چاک و چوبند آٹھ سات سکاؤٹس کھڑے ہوتے تھے۔ ایک سکاؤٹ نے سپاہی کو آ کے سیلوٹ کیا اور کہا کہ سر وہ شخص خلاف ورزی کر کے گیا ہے تو سپاہی نے کہا کہ یار جانے دو کوئی بات نہیں۔ پھر دوسرا سکاؤٹ آیا اس نے کہا وہ موٹر سائیکل والا قانون کی خلاف ورزی کر کے گیا ہے تو تب بھی سپاہی نے کہا کہ یار پہلے گاڑی والے کو چھوڑ دیا ہے تو اس موٹر سائیکل والے کو بھی جانے دو۔

(اب میں وہاں کھڑا تماشہ دیکھ رہا ہوں) پھر جب تیسرا سکاؤٹ کوئی شکایت لے کر آیا تو میں نے سپاہی سے آ کر کہا یار تُو تو باکمال اور چودہری قسم کا سارجنٹ ہے سب کو چھوڑ رہا ہے اور یہ ساری سکاؤٹ تمہیں سلوٹ مار رہے ہیں۔

وہ کہنے لگا کہ یہ سارے ایچی سن کالج کے لڑکے ہیں، ان کے گھر والے انہیں گاڑیوں پر چھوڑ گئے ہیں اور لعنت ہے کہ تین دن ہو گئے ہیں ایک پیسہ کسی سے نہیں لے سکا۔ میں نے اس سے کہا کہ اس وجہ سے کہ یہ سارے آپ کے سر پر کھڑے ہیں۔ آپ پیسے لیں یہ بھلا آپ کو روکتے ہیں۔ تو کہنے لگا کہ نہیں سر اس وجہ سے نہیں کہ یہ میرے سر پر کھڑے ہیں۔

بات یہ ہے کہ یہ آ کر مجھے سلوٹ کرتے ہیں اور “ سر “ کہتے ہیں۔ کہتا ہوں اگر ایک بھی پیسہ لوں تو میں لعنتی ہوں کیونکہ ان کا سیلوٹ مجھے ایک معزز شخص بنا دیتا ہے اور معزز آدمی رشوت نہیں لیتا۔ ان نے کہا کہ اس کی بیوی رشوت کے پیسے نہ لانے کے باعث ناراض ہے اور یہ آٹھ دن سے اس کو سیلوٹ کیے جا رہے ہیں۔ وہ سپاہی کہنے لگا کہ سر میں سوکھی روٹی کھاؤں گا اور جب تک یہ مجھے سر کہتے ہیں اور سیلوٹ کرتے ہیں رشوت نہیں لوں گا۔

(حاضرینِ محفل میں سے ایک خاتون)

زندگی کے ہر شعبے میں چاہے وہ رشتہ ہے یا کاروبار یا دوستی ہے اس میں عزتِ نفس درکار ہے۔ میں ایک عورت ہونے کی حیثیت سے گھر کی مثال دوں گی اور گھر کے ماحول کی عکاسی کروں گی کہ میاں بیوی، ماں بیٹی یا بہن بھائی کو ایک دوسرے کی عزتِ نفس کا خیال رکھنا چاہیے۔

اشفاق احمد : جی بڑی اچھی بات ہے اور ہم بھی یہ بات کر رہے ہیں کہ جو جو بھی رشتے ہیں وہ عزت مانگتے ہیں لیکن عزتِ نفس پر ہماری توجہ اس لیے نہیں ہے کہ ہم نے خود اپنی ذات کو عزت عطا نہیں کی ہوئی اور ہم سے ایسے فعل سرزد ہو جاتے ہیں اس لیے ہم دوسرے کو عزت نہیں دے سکتے۔ یہاں پر آ کر رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔

آپ کو یاد ہو گا جب شارجہ میں میانداد نے چھکا لگایا تھا۔ میں شادمان کے علاقے میں جا رہا تھا کہ میری گاڑی میں خرابی پیدا ہو گئی۔ میں نے نیچے اتر کر دیکھا تو اس کو ٹھیک کرنا میرے بس کی بات نہیں تھی۔ ایک خاتون گھر سے باہر آئیں۔ انہوں نے آ کر دیکھا اور پھر کہا کہ یہ آپ سے ٹھیک نہیں ہو گی۔ میں نے اس سے کہا کہ میں کہیں جلدی جانا چاہتا ہوں۔ اس نے کہا کہ آپ گاڑی کو یہاں چھوڑ دیں۔ میرا بیٹا آٹو انجینئر ہے وہ اسے دیکھ لے گا۔ میں بلاتی ہوں۔ اس لڑکے نے آ کر کہا کہ انکل آپ جا کر اندر بیٹھیں میں دیکھتا ہوں اور وہ کام کرنے لگا۔ میں ان کے گھر جا کر بیٹھ گیا۔ وہاں ٹی وی لگا ہوا تھا۔ اس دوران میں میانداد آیا، اس نے چھکا لگایا اور پاکستان جیت گیا۔ اس وقت پوری قوم ٹی وی اور ریڈیو سیٹوں سے چمٹی ہوئی تھی۔ اس لڑکے کی ماں نے مجھے آ کر کہا کہ گاڑی ٹھیک ہو گئی۔ میں نے اس لڑکے سے آ کر کہا کہ یار تم نے میچ نہیں دیکھا۔

وہ کہنے لگا کوئی بات نہیں۔ آپ نے دیکھ لیا تو میں دیکھ لیا۔ آپ کی دقت ختم ہو گئی۔

خواتین و حضرات ! اس نے یہ چھوٹی سی بات کہہ کر مجھے خرید لیا۔ بظاہر یہ ایک چھوٹی سے بات ہے لیکن اس نے مجھے ایسی چیز عطا کی جس کا میں آج تک دینے دار ہوں۔

ہم اپنی والدہ کو “پھرنتو“ کہتے تھے۔ وہ آزاد منش خاتون تھیں اور عموماً اپنے کمرے میں نہیں رہتی تھیں بس اِدھر اُدھر پھرتی رہتی تھیں۔ اتنی پڑھی لکھی بھی نہیں تھیں۔ میرے بڑے بھائی انہیں کہتے تھے کہ “ ان کو ہم گھر والوں نے آوارہ گردی کے جرم میں پکڑنا ہے۔“

جب بھی دیکھیں کمرے کا چکر لگا کے باورچی خانے میں پہنچی ہوتیں۔ انہیں جہاں بھی چھوڑ کر آتے تھوڑی دیر کے بعد وہ کچن میں “ کڑھم “ کر کے موجود ہوتیں۔ ایک بار دوپہر کے وقت وہ باورچی خانے میں کھڑی تھیں اور سب سوئے ہوئے تھے۔ میں نے پوچھا جی کیا کر رہی ہیں تو وہ کہنے لگیں کہ بندر والا مداری آیا تھا وہ بھوکا تھا اس کے لیے پکوڑے تل رہی ہوں۔ میری اماں کا سارا سینٹر باورچی خانہ تھا وہ بھی کہتیں کہ میری زندگی کا مرکز ہی یہ ہے اور مجھے لوگوں کو کچھ عطا کر کے خوشی ہوتی ہے۔ میں اب سوچتا ہوں کہ انہوں نے خود کو ایک عزت عطا کر رکھی تھی۔ اس زمانے کی شاید ساری عورتیں اس نظریے کی قائہ تھیں۔ یہ تو اب عورتوں کو سمجھایا گیا ہے کہ آپ بینکنگ کریں، باہر نکل کر لوگوں کی خدمت کریں، شاید مردوں کو بینکنگ نہیں آتی خیر یہ ایک الگ کہانی ہے۔ اگر آپ اپنی زندگی کو کبھی غور سے دیکھیں اور چھوٹی چمٹی کے ساتھ زندگی کے واقعات چنتے رہیں تو آپ کو بے شمار چیزیں ایسی نظر آئیں گی جو ایسے ہی آپ کی نگاہ سے اوجھل ہو گئی ہیں لیکن وہ بڑی قیمتی چیزیں ہیں۔ خیر گلی میں میرا ایک چھوٹا سا گھر تھا۔ اس کے دو کمرے تھے۔ ہم کبھی کبھی وہاں جاتے تھے۔ جب کبھی وہاں جاتے تو آتے وقت اس کی دیکھ بھال غلام قادر کو سونپ دیتے۔ وہ وہاں ڈاکخانے میں ملازم بھی تھا۔ میری بیوی نے چابیاں دیتے ہوئے اسے کہا “ غلام قادر سردیاں آنے سے پہلے یا سردیاں آنے کے بعد چیزیں گھر سے باہر نکال کر انہیں دھوپ لگا لینا۔“ اس نے کہا کہ “ بہت اچھا جی۔“

غلام قادر نے وہ چابی لے کر ایک دوسری چابی بانو قدسیہ کو دے دی تو اس نے کہا یہ کیا ہے۔ وہ کہنے لگا کہ جی یہ میرے گھر کی چابی ہے۔ جب آپ نے اپنے گھر کی چابی مجھے دی ہے تو میرا فرض بنتا ہے کہ میں اپنے گھر کی چابی آپ کو دے دوں۔ کوئی فرق نہ رہے۔ آپ مجھ پر اعتماد کریں اور میں نہ کروں کہ کیسے ممکن ہے۔ میری بیوی اس کی بات سن کر حیران رہ گئی۔

حضرات یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو اللہ نے ایسی عزت عطا کی ہوتی ہے کہ وہ عزت سے محروم نہیں ہوتے اور کہیں سے چھینا جھپٹی کر کے اکٹھی نہیں کرتے۔ میں ایک لکھنے والا ہوں۔ مجھے جگہ جگہ سے عزت ٹٹولنے، حاصل کرنے کی عادت ہے۔ پیسے کا لالچ سب سے بری بات ہے۔ لیکن جو دولت مند شخص ہوتا ہے، وہ کسی بھی وقت چیک بھر کے پیسہ منگوا سکتا ہے۔ جب میری لکھنے والے کی، دیگر ڈرامہ کرنے والے، ایکٹر، گانے بجانے والے یا کسی اور آرٹسٹ کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی ساری رسیاں لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی ہیں۔ اس کے پاس اپنی چیک بک نہیں ہوتی اس لیے وہ تڑپتا رہتا ہے اور آواز دیتا رہتا ہے کہ لوگو! خدا کے واسطے رسی سنبھال کے رکھنا۔ اگر تم نے رسی چھوڑ دی تو میں پھر مر گیا۔ اس کو یہ مصیبت پڑی ہوتی ہے اس لیے اس مشکل سے نکلنے کے لیے جب تک اس غلام قادر جیسی طبیعت نہیں ہو گی بات نہیں بنے گی۔ چیلسی یا لندن کا وہ لارڈ بننا ضروری ہے جو دوسروں کو بھی اتنی ہی عزت دینا چاہتا ہے اور لارڈ ان ماجھے گاموں کو بھی عزت دیتے ہیں جتنی وہ خود رکھتے ہیں۔

(حاضرین میں سے ایک صاحب بات آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں)

کسی کو عزت دینی ہو تو شہر کی چابی پیش کی جاتی ہے۔ یہ عزت دینے کی ایک Symbol ہے۔

اشفاق احمد :- بہت خوب۔ بالکل ٹھیک ہے۔

ہمارے بچپن کے زمانے کی بات ہے۔ ہمارے ماسٹر دُولر صاحب ہوتے تھے۔ وہ فرانس سے آئے تھے اور انہوں نے وہاں سے آ کر سکول کھولا تھا۔ اس کی بیوی فوت ہو چکی تھی۔ ایک بیٹی تھی جو بڑی اچھی خوش سکل تھی اور ساڑھی پہنتی تھی۔ انہوں نے سکول کے پاس ایک خوبصورت سی گھاس پھونس کی “ جھگی “ ( کٹیا ) ڈالی ہوئی تھی۔ ان کی ایک گائے تھی۔ ہم جتنے بھی چھوٹے چھوٹے ٹینے سے جو سٹوڈنٹ تھے۔ بہت سارے بچے ان کے پاس آتے تھے۔ وہ ہمیں گانے بھی سناتے تھے۔ ایک مرتبہ دلی میں ایک بہت بڑا سکول کھلا جس کا پرنسپل بھی انگریز ہی مقرر کیا گیا۔ اس پرنسپل کو آب و ہوا راس نہ آئی تو وہ چلا گیا۔ پھر دوسرا منگوایا گیا وہ بھی بیمار ہو گیا اور اسے پیچش لگ گئے۔ کسی نے وائسرائے کو رائے دی کہ آپ اگر ان (دُولر صاحب) کو بلا لیں تو وہ سکول چلا سکتے ہیں۔ اس طرح ہمارے سکول میں ایک انگریز آ گیا اور اس نے آ کر ماسٹر صاحب سے پوچھا کہ :

? What about joining that school

ماسٹر صاحب نے کہا کہ But why ۔

اس طرح جھگڑا ہو گیا۔ ہم اپنے چھپروں کے نیچے کلاسوں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کی بیٹی بھی وہاں آ گئی۔ اس انگریز نے ماسٹر صاحب سے کہا کہ

.We will give you more money

بحر کیف آخر ماسٹر صاحب نے اس سے کہا کہ میں تمہارے ساتھ جانے کو تیار ہوں لیکن
.If you expand my stomach accordingly

(پہلے میرا معدہ کھینچ کر اتنا بڑا کر دو کہ اس میں ڈھیر سارے پیسے سما جائیں جن کی تم آفر کر رہے ہو۔)

ماسٹر صاحب نے اس سے کہا کہ میں ان بچوں کو چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔ میں گاؤں گاؤں اور گھر گھر جا کر ان بچوں کو اکٹھا کر کے لایا ہوں اور اب میں ان کو ایک دم کیسے چھوڑ کر چلا جاؤں۔ میں ایسا نہیں کر سکتا۔

وہاں ایک گارڈر کو بجا کر اور ٹن ٹن کر کے ہمارے آنے اور جانے کی گھنٹی بجائی جاتی تھی لیکن جب تین دفعہ وہ گھنٹی بجتی تو وہ دُولر صاحب کی آمد سے پہلے بجتی تھی۔ جب وہ گھنٹی تین بار بجی تو ہم پریشان ہو گئے اور بھاگ کر باہر آ گئے اور کھڑے ہو گئے۔ دُولر صاحب سب بچوں کو مخاطب کر کے کہنے لگے کہ “ بندہ نوازو تم کو پتہ ہے کہ میں بندہ ہوں اور آپ بندہ نواز ہیں۔“ ہم نے کہا کہ ہاں جی (حالانکہ ہمیں کیا پتہ تھا کہ یہ بندہ نوازی کیا ہے)۔

انہوں نے پھر بآوازِ بلند کہا کہ میں تمہارا خادم ہوں۔ ایک ظالم اور خونخوار آدمی آیا تھا جو مجھے تم سے چھین کر اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔ وہ تقریر کرتے ہوئے رو بھی رہے تھے۔ دُولر صاحب نے کہا کہ اگر میں اپنی بیٹی کی بات مان کر یہاں سے چلا جاتا جو دلی جانے کی بڑی خواہش مند ہے تو نہ میں آپ سے مل سکتا نہ آپ مجھ سے مل سکتے۔ جب وہ رو رہے تھے اور ہمیں بہت پیارے تھے تو ہم بھی ان کی ٹانگوں سے چمٹ کر رونے لگے۔ ایک عجیب حال دوہائی وہاں مچ گئی۔ وہ ایک باعزت آدمی تھے۔ انہوں نے اپنی ذات کو عزت عطا کی ہوئی تھی حالانکہ اتنے بڑے مالی فائدے سے محروم رہے۔ وہ جب بھی دنیا سے گئے ہوں گے اس اعزاز کے ساتھ گئے ہوں گے جس کی لوگ تمنا کرتے ہیں۔

اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

اللہ حافظ۔
 

شمشاد

لائبریرین
باب 32

باب 32

ذات کی تیل بدلی

پرسوں میرے ساتھ پھر وہی ہوا جو ایک برس اور تین ماہ پہلے ہوا تھا۔ یعنی میں اپنی گاڑی کا فلنگ اسٹیشن پر تیل بدلی کروانے گیا تو وہاں لڑکوں نے چیخ مار کر کہا کہ سر آپ وقت پر تیل نہیں بدلواتے۔ گاڑی تو اسی طرح چلتی رہتی ہے لیکن اس کا نقصان بہت ہوتا ہے لیکن آپ اس کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ میں نے کہا بھئی اس میں اکیلے میرا ہی قصور نہیں ہے۔ میرے ملک میں تیل کی بدلی کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ ہم پٹرول ڈالتے ہیں، گاڑی چلتی رہتی ہے اور ہم ایسے ہی اس سے کام لیتے رہتے ہیں۔ پھر اچانک خیال آتا ہے تو تیل بدلی کرواتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گاڑی کا سارا تیل اتنا خراب ہو چکا ہے کہ اسے باہر نکالنا مشکل ہو گیا ہے۔

میں نے کہا کہ یار چلتی تو رہی ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ آپ تو سر پٹھے لکھے آدمی ہیں اور گاڑی کا وقت پر تیل بدلوانا بہت ضروری ہے۔ پچھلے سال بھی انہوں نے مجھ سے یہی بات کہی تھی اور مجھ سے بدستور یہ کوتاہی سرزد ہوتی رہی۔ جب وہ لڑکے تیل تبدیل کر رہے تھے تو میں سوچنے لگا کہ میں باقی سارے کام وقت پر کرتا ہوں۔ بینک بیلنس چیک کرتا ہوں، یوٹیلیٹی بلز وقت پر ادا کرتا ہوں اور یہ ساری چیزیں میری زندگی اور وجود کے ساتھ لگی ہیں لیکن میں نے کبھی اپنے اندر کا تیل بدلی نہیں کیا۔ میری روح کو بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ اس میں بھی تبدیلی پیدا کی جائے لیکن اس بابت میں نے کبھی نہیں سوچا۔ میں یہ بات سوچ کر پریشان ہوتا رہا کہ کیا مجھ پر ایسا وقت آ سکتا ہے کہ میں دنیا داری کے اور سارے کام کرتا ہوا اور خوش اسلوبی سے ان کو نبھاتا ہوا اپنی روح کی طرف بھی متوجہ ہوکر اس کی صفائی اور پاکیزگی کا بندوبست کروں۔ میں نے ان کے گزشتہ سارے سالوں کا حساب لگایا لیکن میں ایسا نہ کر سکا۔ میری نیت تو شاید نیک تھی اور میں اچھا آدمی بھی تھا لیکن یہ کوتاہی میری زندگی کے ساتھ ساتھ چلتی آ رہی تھی اور میرا کوئی بس نہیں چلتا تھا۔ میرے ساتھ ایسی بے اختیاری وابستہ تھی کہ میں اس کو اپنی گرفت میں نہیں لا سکتا تھا۔ میرے خیال میں اپنی روح کے تیل کو تبدیل کرنے کی اپنے بدن کی صفائی سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ جس کی طرف آدمی کسی وجہ سے توجہ نہیں دے سکتا وہاں بھی ہمارا مزاج اپنی گاڑیوں سے سلوک کی طرح سے ہی ہے۔ جیسا کہ ہم اپنی گاڑیوں میں پٹرول ڈال کے تو چلتے رہتے ہیں لیکن پٹرول سے مفید تر تیل بدلی کا کام ہم نہیں کرتے تا کی گاڑی کا انجن محفوظ رہے۔ ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ وہاں سوچتے سوچتے اور بیٹھے بیٹھے مجھے خیال آیا کہ کچھ لوگ بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں جن کی توجہ اپنی تیل بدلی کی طرف زیادہ ہوتی ہے اور وہ انسانیت کے گروہ میں زیادہ خوبصورت بن کر ابھرتے ہیں اور لوگوں کی مزاج کے لیے کچھ کہے بولے بغیر بہت سارے کام کر دیتے ہیں۔ اللہ نے پتہ نہیں ان کو کس طرح ایسا ملکہ دیا ہوتا ہے۔

بڑے سالوں کی بات ہے جب 53-1952ء میں بہت بڑا Flood آیا تھا اس وقت ابھی لاہور کو سیلاب سے بچانے والی فصیل بھی نہیں بنی تھی جسے آپ بند کہتے ہیں۔ اس وقت لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر ایسی ایسی جگہوں پر جا بیٹھے تھے جہاں زندگی بسر کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ہم اپنے طور پر یہ سوچ کر وہاں گئے کہ شاید وہاں ہمارا جانا مفید ہو یا پھر تجسس میں بطور صحافی ہم کچھ دوست وہاں گئے تو وہاں ایک بوڑھی مائی دو تین ٹین کے ڈبے رکھ کر بیٹھی تھی اس کے پاس ایک دیگچی تھی اور یوں لگتا تھا کہ اس نے کل شام وہاں چولہا بھی جلایا ہے اور اس سے کچھ پکایا بھی ہے۔ اس کو کوئی آگے پیچھے نہیں تھا۔ وہاں ان خیموں میں لوگ دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ ہمارے ساتھ آئے ہوئے ممتاز مفتی نے اسے دیکھ کر کہا کہ یار اس کی حالت تو بہت ناگفتہ اور خراب ہے۔ میں نے کہا کہ ظاہر ہے اور بھی بہت سے لوگ اس کے ساتھ ہیں۔ اس خراب حالت میں اس کے چہرے پر ایک عجیب طرح کا اطمینان و سکون تھا۔ وہ بڑی تشفی کے ساتھ بیٹھی تھی اور اس کے چہرے پر کوئی شکایت نہیں تھی۔ ممتاز مفتی نے اس سے کہا کہ “ بی بی اگر تم کو دو سو روپے مل جائیں (دو سو کا سن کر اس کی آنکھیں روشن ہوئیں) تو پھر تُو ان کا کیا کرئے گی۔“

کہنے لگی “ بھا جی لوگ بڑے غریب نیں میں اونہاں وچ ونڈ دیاں گی۔“

اب اتنے برس کے بعد مجھے اس مائی کا چہرہ بھی یاد آ گیا اور میں نے سوچا کہ اس نے اپنی روح کی تیل بدلی بڑے وقت پر کی تھی اور اس کی شخصیت و فردیت اور برتری وہاں گئے ہوئے ہم سارے دانشوروں، رائٹروں اور صحافیوں سے زیادہ اور بڑے درجے پر تھی۔

میں سمجھتا ہوں کہ پچھلے سال اور اس سال کے درمیان مجھ میں ایک صلاحیت البتہ پیدا ہو گئی ہے اور وہ بھی کچھ اچھی صلاحیت نہیں ہے۔ اس میں تھوڑی سی کمینگی کا عنصر شامل ہے۔

وہ صلاحیت یہ ہے کہ میں اپنے مدمقابل جب کسی نئے آدمی کو دیکھتا ہوں تو مجھے اتنا ضرور پتا چل جاتا ہے کہ باوصف اس کے یہ شخص بڑی مضبوطی اور تیز رفتاری کے ساتھ اپنی زندگی کا سفر کر رہا ہے لیکن اس کا تیل اندر سے بہت گندہ ہے۔ کچھ لوگ زندگی میں ایسے بھی ملتے ہیں اور وہ ہر روز ملتے ہیں جنہوں نے کسی وجہ سے سارے کام کرتے ہوئے اس کر طرف بھی توجہ مرکوز رکھی کہ میری روح کے اندر اور میری کارکردگی کے اندر کسی قسم کی آلائش نہ آنے پائے۔ جب میں روم میں تھا تو وہاں کے ایک بڑے اخبار کے مالک جس کے وہ مینجنگ ایڈیٹر بھی تھے انہوں نے اپنے جرنلسٹوں کو دعوت دی۔ انہوں نے مجھے بھی مدعو کیا۔ گو میں کوئی بڑا کام کا رائٹر بھی نہیں تھا۔ وہ بڑی عظیم الشان دعوت تھی۔ وہاں بڑا پرتکلف اہتمام کیا گیا تھا۔ جب ہم کھانا وانا کھا چکے تو کچھ صحافیوں نے اس اخبار کے مالک سے فرمائش کی کہ آپ اپنا گھر ہمیں دکھائیں۔ کیونکہ ہم نے سنا ہے کہ آپ کا گھر بہت خوبصورت ہے۔ ہم اسے اندر سے دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ضرور دیکھئے اور آئیے۔ ہم نے ٹکڑیوں کی شکل میں اس کے گھر کا اندر سے نظارہ کیا۔ بڑا خوبصورت تھا۔ اس گھر کے جو بڑے بڑے ڈیکوریشن والے اور مجسموں سے بھرے کمرے تھے اور ان میں خوبصورت پینٹنگز بھی لگی ہوئی تھیں۔ ایک بڑے خوبصورت کمرے کے بارے میں ہم نے ان سے پوچھا کہ یہ کس کا کمرہ ہے۔ وہ کہنے لگے کہ میرے ڈرائیور کا کمرہ ہے۔ ہم بڑے حیران ہوئے۔ ہم نے دوسرے کمرے کے بارے پوچھا جو پہلے سے بھی اچھا تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ باورچی کا کمرہ ہے۔ اس طرح ایک سے ایک اعلٰی اور بڑھ کر کمرے دیکھے جو سارے گھر کے ملازموں کے تھے۔ پھر ہم نے وہاں ایک چھوٹا سا کمرہ دیکھا جس میں ٹیلیفون، ایک میز تھا جو کوئی پانچ آٹھ فٹ کا ہوگا۔ اس میں ایک بیڈ لگا تھا جو فولڈ بھی ہو جاتا ہے۔ ہمارے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ “ یہ میرا کمرہ ہے۔“

ہم نے کہا کہ سر آپ نے نوکروں کے لیئے تو اعلٰی درجے کے کمرے بنائے ہیں اور اپنے لیئے یہ ہے۔ یہ کیا ماجرا ہے ؟

وہ کہنے لگے کہ آپ کو شاید معلوم نہیں کہ میری ماں روم کے ایک بہت بڑے لارڈ کے گھر میں باورچن تھی اور انہیں جوکمرہ ملا ہوا تھا وہ بڑا تنگ تھا۔ اس کمرے میں ہم اپنی ماں کے ساتھ تین بہن بھائی بھی رہتے تھے۔ جب میں نے گھر بنایا تو میں نے کہا کہ ملازموں کے کمرے بڑے خوبصورت اور Well Decorated ہونے چاہئیں اور میں تو ہوں ہی ایک بڑا آدمی اس لیے مجھے کسی بڑے کمرے کیا کیا ضرورت ہے۔ ہم اس کو دیکھ کر اور اس کی بات سن کر ششدر رہ گئے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں۔

اس کے ملازم بڑے نخریلے اور مزے کرنے والے تھے۔ میں اس اخبار کے مالک کی خوبی اب محسوس کرتا ہوں کہ انہوں نے بھی اپنی ساری توجہ اپنی زندگی کو چلانے کے لیے اپنے پٹرول پر نہیں دی تھی بلکہ اس تیل پر دی تھی جو تبدیل کر کے انسانی زندگی کو سہولت کے ساتھ آگے لے جاتا ہے۔ ہم سے یہ کوتاہی عموماً ہوتی رہتی ہے۔ ہم بھی اپنی زندگیوں کو کم از کم ایک دفعہ تو اس انداز سے چلائیں جس طرح سے سائنس کہتی ہے یا میکینکل کو سمجھنے والے کہتے ہیں کہ آپ کے انجن اور مشین کو اتنے گھنٹوں یا دنوں کے بعد تیل بدلی کی ضرورت ہے اور وہ پٹرول سے بھی زیادہ اہم ہے۔ ہم اپنے دجود کو اس طور سے چلائیں۔ کچھ لوگ جن سے میری فطرت بھی ملتی ہے اور میں ان کو آسانی سے پہچانتا ہوں کہ ان کی طبیعت کے اندر تیل بدلی والی خاصیت شاید ہوتی تو ہے لیکن کم ہوتی ہے۔ آپ کو زندگی میں بڑے بڑے امیر لوگ ملیں گے چاہے آپ کل سے اس کا تجربہ کر کے دیکھ لیں۔ وہ زندگی میں بڑے کامیاب ہوں گے اور بڑے اونچے عہدوں پر فائز ہوں گے لیکن زندگی کے میدان میں اور جو انسانیت کے کھیل کا میدان ہے اس میں وہ کمزور ہوں گے۔ کہیں نہ کہیں آ کر ان کا انسانی رشتہ گھٹن کا شکار ہوتا ہے۔ جیسا کہ گاڑی کے اندر Fresh Oil نہ ڈالا جائے تو وہ گھٹن کے ساتھ چلتی ہے اور ایک ماہر ڈرائیور بیٹھتے ہی بتا دیتا ہے کہ اس کے تیل کی تبدیلی نہیں ہوئی حالانکہ وہ دوڑ رہی ہوتی ہے لیکن جونہی اس کے تیل کی تبدیلی ہوتی ہے تو وہی ماہر ڈرائیور کہتا ہے کہ سر اب یہ زیادہ رواں چل رہی ہے۔ لگتا ہے پرسوں ہی تیل تبدیل کیا ہے۔ زندگی کا معاملہ بھی بالکل اسی طرح سے ہی ہے۔ میں اپنے بچوں اور پوتوں پر یہ توجہ دے رہا ہوں کہ میں ان کو ایم کام کرا دوں یا فلاں ڈگری دلوا دوں اور لائق بنا دوں اور کہیں فٹ کرا دوں۔ یہ زندگی کی کامیابی نہیں ہے۔ زندگی میں کامیاب ہونے کا سارا تعلق ہم نے اکنامکس سے وابستہ کر لیا ہے۔ ہمارے ایک دوست ہیں۔ اچھے آدمی ہیں لیکن طبیعت کے ذرا سخت ہیں (اور اب میں اس پروگرام کے بعد ڈائریکٹ انہیں کچھ کہنے کے یہی کہوں گا کہ جناب آپ اپنا “ تیل بدلی “ کرا لیں۔ اس پروگرام کے بعد کئی لوگ آپ سے ملیں گے گو وہ اچھے ہوں گے اور اگر آپ کسی سے تھوڑے بے تکلف ہوں گے تو اپنے کسی دوست سے یہ ضرور کہیں گے کہ یار “ تیل بدلی “ کروا لیں یا تمہارا تیل بدلی ہونے والا ہے۔ )

وہ ایک شام اخبار پڑھ رہے تھے تو تھانے سے ٹیلیفون آیا اور کسی نے کہا کہ سر ہم نے آپ سے استفسار کرنا ہے۔ کہنے لگے ہاں جی فرمائیے۔ اس نے کہا کہ آپ کی بیگم صاحبہ گاڑی لے کر جا رہی تھیں۔ انہوں نے گاڑی کی کسی اور گاڑی کے ساتھ ٹکر مار دی ہے۔ کوئی خاص نقصان نہیں ہوا اور انہوں نے (بیگم صاحبہ) اس امر کا اعتراف کر لیا ہے کہ یہ ٹکر میری غلطی سے ہوئی تھی۔ اس شخص کی فون پر بات سن کر میرا دوست بولا کہ اگر اس خاتون نے اعتراف کر لیا ہے تو وہ میری بیوی نہیں ہو سکتی کیونکہ اس نے آج تک اپنی کسی غلطی کا اعتراف نہیں کیا اور وہ یہ کہہ کر دوبارہ اخبار پڑھنے میں مصروف ہو گئے۔ اس فون کرنے والے نے کہا کہ جی وہ اپنا نام شائستہ بتاتی ہیں تو صاحب نے کہا کہ اس نام کی کئی خواتین ہیں۔ وہ میری بیوی ہو ہی نہیں سکتی۔

یہ تیل بدلی والی بات ان پر بھی صادق آتی ہے اور یہ ایک سخت تر مثال ہے۔ جب میں ایک پسماندہ سے گاؤں کے ایک سکول میں کچی میں داخل کرایا گیا تو وہاں ایک بابا دال چپاتی ہوا کرتے تھے۔ اس کے پاس سرخ گاڑی تھی۔ وہ لمبا سا جبہ پہن کے رکھتے تھے اور یو۔پی کے کسی علاقے سے آئے تھے۔ جب بھی ہم گلی میں باہر نکلتے اور ان کی رینج میں آتے تو وہ بابا دال چپاتی آگے بڑھ کر ہم کو پکڑ لیتا۔ ہم چھوٹے ہوتے تھے اور ڈر سے ہم چیخیں مارنے لگتے تھے اور روتے تھے لیکن وہ بابا ایک ہی بات کہتے تھے کہ “ جا تو آگے اور دیکھ تماشا ابھی اللہ کا فضل تجھے پکڑ لے گا اور دال چپاتی تیرے پیٹ میں ہے۔“

ہمیں لگتا تھا کہ اللہ کا فضل بڑا خوف ناک ہوتا ہے لیکن وہ ہمیں ہمیشہ یہی کہتے ۔ جب میری ماں مجھے قاعدہ دے کر سکول بھیجتی تو میں کہتا کہ “ وہاں باہر بابا دال چپاتی ہو گا وہ مجھے پکڑ کر اللہ کے فضل کے حوالے کر دے گا۔“

جب میں بڑا ہوا تو عید کا ایک دن تھا۔ ہم جب نماز پڑھ کے مسجد سے باہر نکل رہے تھے تو میرے والد صاحب جو کہ قصبے میں بڑے معزز تھے انہوں نے بابا دال چپاتی کی جوتیاں اٹھا کر پہننے کے لیے سیدھی کیں تو وہ کہنے لگے کہ ڈاکٹر صاحب ، ڈاکٹر صاحب یہ آپ کیا کر رہے ہیں۔ رہنے دیں میں ایسے ہی پہن لوں گا۔ میرے ابا جی کہنے لگے کہ مجھے یہ سعادت حاصل ہونے دیں کہ میں آپ کی جوتیاں سیدھی کروں۔ وہ بابا کہنے لگے ڈاکٹر صاحب آپ مجھے شرمندہ کرتے ہیں۔ میں بڑا حیران ہوا کہ ابا جی ایک معمولی سے آدمی کو اتنا بڑا مان سامان دے رہے ہیں اور آخر کیوں؟

میرے ابا جی کہنے لگے کہ آپ ہم سب مسلمانوں کے لیے فخر کا باعث ہیں۔

تو وہ بابا دال چپاتی کہنے لگے کہ میں ایک اچھا انسان تو ضرور ہو سکتا ہوں لیکن اچھا مسلمان ہونے کا فاصلہ ابھی بہت طویل ہے۔ اچھا مسلمان ہونا بہت مشکل ہے۔

خواتین و حضرات ! آپ کو کچھ لوگ ایسے بھی ملیں گے جو اتنے زیادہ سخت طبیعت کے تو نہیں ہوں گے لیکن ان میں کچھ عجیب سا بیلنس ہو گا۔ ہمیں اپنے دل کے اندر کوئی خباثت یا غلاظت نہیں پالنی چاہیے۔ گزشتہ سال بڑی بارشیں ہوئی تھیں اور شدید بارش میں ہم جمعہ پڑھنے گئے تو نوجوان سے مولوی صاحب خطبہ دے رہے تھے۔ خطبہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دیکھیں کیا اللہ کی رحمت ہے اور اس کی کیا مہربانی ہے اور کیسی خوبصورت اور دلفریب موسلادھار بارش ہو رہی ہے اور ہم اندر بیٹھے ہوئے اللہ کے لطف و کرم سے فیض اٹھا رہے ہیں اور جو لوگ گاڑیوں پر جمعہ پڑھنے آئے ہیں ان کی گاڑیاں مفت میں دھل رہی ہیں۔

یہ بڑی باریک سی بات تھی اور اس سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ابھی ایک ماہ کے اندر اندر مولوی صاحب کو اپنی تیل بدلی کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ ہم ان کو ابھی پوری کی پوری داد نہیں دے سکتے۔ میں آپ سے جاتے جاتے یہ درخواست ضرور کروں گا کہ آپ اپنی موٹر کی تیل بدلی بھی وقت پر کروائیں اور اپنی روح اور ذات کی تیل بدلی بھی وقت پر کریں ورنہ وقت بہت کم رہ جائے گا۔

اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔
اللہ حافظ۔
 

شمشاد

لائبریرین
باب 33

باب 33

رہبانیت سے انسانوں کی بستی تک

ہم سب کی طرف سے آپ کی خدمت میں سلام پہنچے۔ ہمیں دوسروں کے مقابلے میں ہدایات، احکامات، اشارات اور Instructions ذرا مختلف قسم کی دی گئی ہیں۔ دوسرے مذاہب، اُمتوں اور قوموں کے لیے ذرا مختلف پروگرام ہے اور ہمارے لیے ان سے کچھ علٰیحدہ حکم ہے۔ مثال کے طور پر ہندوؤں میں چار طریقوں سے زندگی کے مختلف حصوں کو الگ الگ کر کے دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ پہلے حصے کو “بال آشرم“ کہتے ہیں۔ یہ وہ عرصہ ہے جب آدمی چھوٹا یا بال (بچہ) ہوتا ہے۔ تب وہ کھیلتا ہے، کھاتا اور پڑھتا ہے اور آگے بڑھتا ہے۔ اس کے بعد اس کا “گرہست آشرم“ آتا ہے۔ گرہست میں وہ شادی کرتا ہے اور تب وہ پچیس برس کا ہو جاتا ہے۔ اس وقت وہ دنیا کے میدان میں پوری توانائی کے ساتھ داخل ہو جاتا ہے۔ تیسرے نمبر پر آدمی کا “وان پرست آشرم“ شروع ہوتا ہے۔ اس آشرم میں ایک شخص دنیا داری کا کام کرتے ہوئے بھی اس سے اجتناب برتتا ہے۔ دنیا کا کاروبار، دکان چھوڑ کر وہ گھر آ جاتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ دنیاداری سے مکمل طور پر غیر متعلق نہیں ہوتا بلکہ تھوڑا سا تعلق رکھتا ہے۔ اپنے بچے کو دکان یا کاروبار پر بھیج دیتا ہے اور وہ بچہ اس کے نائب کے طور پر کام کرتا ہے اور اس کا کام صرف اتنا ہی ہے کہ وہ گھر بیٹھے بیٹھے بچے کو Instruct کرتا رہتا ہے اور اشارے دیتا رہتا ہے کہ یہ کام کرنا ہے، یہ نہیں کرنا اور خود دفتر یا کام پر نہیں جاتا۔ آخر کے چوتھے آشرم یعنی 75 سال کی عمر کو جب انسان پہنچ جاتا ہے تو اس درجے کو “سنیاس آشرم“ کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دنیا چھوڑ کے اور اپنی رسی اور لوٹا لے کر وہ “بنداس“ پہ چلا جاتا ہے۔ گو وہ عملی طور پر باہر جائے نہ جائے لیکن اس کا دنیا سے کوئی دخل نہیں رہ جاتا۔ میں آپ کو تفصیل سے اس لیے بتا رہا ہوں کہ آگے چل کر اس موضوع پر ہم بات کریں گے۔ ہندوؤں کی طرح سے جین مذہب ہے۔ یہ ہندوؤں سے بالکل مختلف ہے۔ آپ نے ایسے ہی ہمارے لاہور کے جین مندر کو پہنچائی گئی حالانکہ اس کا ہندو مذہب سے کوئی تعلق نہیں (بابری مسجد کی شہادت کے سانحہ کے وقت مشتعل ہجوم نے لاہور کے جین مندر کی بھی توڑ پھوڑ کی تھی۔)

اسی طرح سے بدھ مذہب ہے وہ اپنے بھکشو تیار کرتا ہے۔ اسی طرح عیسائی کہتے ہیں کہ پادری بنو، دنیا سے ناتا چھوڑ دیں۔ عورتوں سے کہتے ہیں نن بن جائیں، شادی نہ کرو۔ ان مذاہب کا کہنا ہے کہ آپ ترکِ دنیا کر کے زندگی بسر کرو۔ ہمارے ہاں اس سے مختلف ہے کہ آپ کو دنیا بھی ساتھ لے کے چلنی ہے اور دین بھی ساتھ ہی لیکر آنا ہے۔ خاصا مشکل کام ہےکہ دین کو بھی پورے کا پورا سنبھالنا ہے اور دنیا کو بھی سہارا دینا ہے اور اس صورتحال سے بھاگ نہیں اور سنیاس اختیار نہیں کرنا ہے۔ تارکِ دنیا یا راہب نہیں بننا ہے۔ راہب وہ ہوتے تھے جو پہاڑوں کی گفاؤں اور ریت کے ٹیلوں یا پھر جنگلوں میں جا کر بیٹھتے تھے۔ کسی کو ملتے نہیں تھے اور اللہ اللہ کرتے رہتے تھے۔ ہم کو یہ حکم ہے کہ دنیا میں رہیں اور اللہ کے ساتھ رشتہ بھی مضبوط رکھیں اور اس کے لیے کہیں چل کر جانے کی یا سفر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارے بابے کہتے ہیں کہ اللہ تک پہنچنے کے لیے کسی سفر کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سفر کے لیے باہر نکلنا پڑتا ہے لیکن یہ سفر ایسا ہے کہ اس کے لیے کہیں جانا نہیں ہے بس اپنی شہ رگ تک پہنچنا ہے۔ جہاں پر اللہ تشریف فرما ہیں اور سب کا اللہ اس مقام پر موجود ہے۔ ایک بار ہمارے بابا جی کے ڈیرے پر ایک آدمی آیا۔ وہ کچھ عجیب طرح کا ضدی یا لڑائی کرنے والا آدمی تھا اور سچی بات تو یہ ہے “ اللہ مجھے معاف کرئے “ اس کی شکل بھی کچھ اتنی اچھی نہیں تھی۔ جیسا کہ آدمی اس شخص کے پہلے ہی بہت سارے نمبر کاٹ لیتا ہے جس کی شکل و صورت اچھی نہ ہو اور اس سے متعصب ہو جاتا ہے۔ اس لیے میں اس کے ساتھ ذرا سختی کے ساتھ پیش آیا۔ اس نے کچھ خراب سے بات کی تھی تو میں اس سے کہنے لگا کہ تجھے یہ کس نے کہا فلاں فلاں۔۔۔ بابا جی نے کہا کہ آپ اس کو کچھ نہیں کہہ سکتے۔ میں نے کہا کہ کیوں؟ وہ کہنے لگے اس طرح تو آپ اللہ کو جھڑکیاں دے رہے ہیں۔ میں نے کہا جی نعوذ باللہ وہ کیسے؟

بابا جی کہنے لگے کہ اللہ تو اس کے شہ رگ کے پاس ہے۔ وہاں تو اللہ میاں کرسی ڈال کر بیٹھے ہیں اور تم اس کے ساتھ زیادتی کر رہے ہو۔ تمہیں اس کا احترام کرنا پڑے گا۔ یعنی جس بندے کی بھی شہ رگ کے پاس اللہ موجود ہے اس کا احترام کرنا آپ کا فرض ہے۔

اب اس دن سے مجھے ایسی مصیبت پڑی ہے کہ ہمارے گھر میں جو مائی جھاڑو دینے آتی ہے، وہ بہت تنگ کرتی ہے۔ میری کتابیں اٹھا کر کبھی ادھر پھینک دیتی ہے۔ اب میں اس سے غصے بھی ہونا چاہتا ہوں لیکن کچھ کہتا نہیں ہوں۔ بانو قدسیہ کہتی ہے کہ آپ اسے جھڑک دیا کریں۔ میں اس سے کہتا ہوں کہ نہیں اس کے پاس تو اللہ ہے میں اس کو کیسے کچھ کہوں۔ مجھے اس دنیا سے مصیبت جاں پڑی ہوتی ہے۔ تارکِ دنیا ہو کر اللہ کو یاد نہیں کرنا بلکہ اللہ کو ساتھ رکھ کے یاد کرنا ہے۔

پیارے بچو !

حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہمارے سامنے ہماری زندگیوں میں اور ہمارے ہی ملک میں تقریباً سارے کے سارے لوگ تارک دنیا ہو کر سنیاسی اور راہب ہو کر بیٹھے ہیں۔ آپ حیران ہوں گے یہ بابا کیسی بات کر رہا ہے۔ ہمارے ابا جی، ماموں، تائے سارے گھر آتے ہیں اور فیکٹری چلاتے ہیں، کام کرتے ہیں، یہ کیسے راہب ہو گئے۔ میں نے لوگوں کو غور سے دیکھا ہے اور ان پر غور کیا ہے کہ یہ راہب لوگ اور اب تو ہم سارے ہی تقریباً تقریباً راہب بن چکے ہیں۔ یہ بڑے بڑے شہروں میں بھی رہتے ہیں اور وہ کاروبار زندگی بھی کرتے ہیں اور اس کے باوصف کہ یہ اتنے سیانے اور سمجھدار ہیں۔ سارے رہبانیت کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ راہب لوگ ہیں۔ راہب لوگ وہ ہوتے ہیں جو اپنے لوگوں سے تعلق توڑ کر، بستی چھوڑ کر کسی اور جگہ پر جا بیٹھیں اور کسی سے تعلق نہ رکھیں۔ یہ اس کی چھوٹی تعریف ہے۔ اب آپ کبھی اسلام آباد تشریف لے جائیں، وہ بڑا اچھا خوبصورت اور پیارا شہر ہے۔ وہاں جتنے بھی لوگ ہیں وہ سارے کے سارے راہب ہیں۔ کسی بھی سیکرٹریٹ کے کسی بھی دفتر میں چلے جائیں آپ کسی کو آسانی سے نہیں مل سکتے، سب راہب بنے بیٹھے ہیں۔ راہب سے ملنا اس لیے مشکل ہوتا ہے کہ وہ اپنی گفا میں بیٹھا ہوتا ہے۔ کسی سے ملتا ہی نہیں ہے۔ میں ایک ڈپٹی سیکرٹری کے دفتر مین بیٹھا تھا کہ وہاں ایک آدمی آ گیا۔ وہ ڈپٹی سیکرٹری صاحب اسے دیکھ کر گھبرا گئے۔ حیرت اور گھبراہٹ سے اس سے کہنے لگے ہاں جی آپ کیسے یہاں آئے؟

اس نے کہا کہ جی میں بڑے دروازے سے آیا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ بڑے دروازے سے تو آئے ہو لیکن آپ کو آنے کس نے دیا؟

اس نے کہا کہ جی وہاں پر جو دربان ہے اس نے مجھ سے کہا کہ آپ آج نہیں کل چلے جانا۔ یہ سن کر میں گھر چلا گیا۔ میں آج آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔

وہ پوچھنے لگے کہ اپ اوپر کیسے آئے؟

وہ شخص کہنے لگا کہ جی میں سیڑھیاں چڑھ کر آیا ہوں۔ میں نے لفٹ والے سے کہا تھا کہ مجھے اوپر لے جا لیکن اس نے کہا کہ یہ افسروں کی لفٹ ہے۔ میں نے کہا کہ یہ دوسری لفٹ ہے اس سے بھیج دو۔ تب اس نے کہا کہ یہ ڈپٹی سیکرٹری کی لفٹ ہے۔ میں نے کہا کہ یہ تیسری۔۔۔۔

اس نے کہا یہ سیکرٹری صاحب کے لیے ہے اور اس لفٹ والے نے مجھ سے کہا کہ اگر آپ نے اوپر جانا ہی ہے تو آپ سیڑھیاں چڑھ کر چلے جائیں اور میں سیڑھیاں چڑھتا چڑھتا آپ کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔

ڈپٹی سیکرٹری صاحب نے کہا کہ آپ کو کیا کام ہے۔

اس نے جواب دیا کہ مجھے فلاں فلاں کام ہے تو انہوں نے کہا کہ اس کام کے لیے آپ کو خط لکھنا چاہیے تھا۔

اس شخص نے کہا کہ جی میں نے لکھا تھا۔

تب انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں ملا۔

اس بچارے شخص نے کہا کہ نہیں جی وہ آپ کو پہنچ جانا چاہیے تھا کیونکہ میں نے اسے رجسٹری میں ارسال کیا تھا۔

اس پر ڈپٹی سیکرٹری صاحب نے کہا کہ اگر تم نے وہ بذریعہ رجسٹری بھیجا تھا تو تمہیں پہلے ڈاکخانے سے اس کی تصدیق کرنی چاہیے تھی کہ کیا وہ ٹھیک طرح سے ڈلیور ہو گئی ہے کہ نہیں ہوئی۔

اس نے کہا کہ میں جنابِ عالی ڈاکخانے سے تحقیق کر چکنے کے بعد ہی حاضر ہوا ہوں۔ وہ ٹھیک ڈلیور ہو گئی ہے اور چودہ تاریخ کو آپ کے دفتر میں پہنچ گئی ہے۔ صاحب نے کہا کہ پھر آپ کو فون کرنا چاہیے تھا۔ آپ یہاں کیوں آ گئے۔ وہ افسر تارکِ دنیا تھا۔ راہب بن چکا تھا جو اس شخص سے اس انداز میں مخاطب ہو رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ میں ایسے ہین لوگوں سے نہیں ملتا۔ ڈپٹی سیکرٹری صاحب کی یہ باتیں سن کر وہ شخص شرمندہ اور پریشان ہو کر واپس سیڑھیاں اتر گیا اور جانے سے پہلے کہنے لگا اچھا جی میں پھر کسی کو لاؤں گا یا کوئی زور ڈالوں گا کیونکہ اس گفا (غار) میں جو شخص بیٹھا ہے وہ میری بات نہیں سنتا۔ وہ تو اللہ سے لو لگا کے بیٹھا ہے۔ یہ تو ہمارے ملک کے بندے کی بات تھی۔ باہر کے ملکوں کے لوگ جو ہمارے ملک میں تجارت کرنا چاہتے ہیں، فیکٹریاں یا کارخانے لگانا چاہتے ہیں اور انہیں ون ونڈو سسٹم کا یقین دلایا گیا ہے۔ ون ونڈو سسٹم کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایک ہی کھڑکی پر آئیں۔ اپنا مدعا بیان کریں، اپنی فزیبلٹی رپورٹ وہاں پیش کریں تو وہ ایک ہی ونڈو والا بابو، صاحب یا ڈپٹی سیکرٹری کہے گا کہ جی آپ کاہنہ کاچھا یا پتوکی جہاں آپ چاہتے ہیں فیکٹری لگا سکتے ہیں۔

اب باہر والے پریشان ہو کر کہتے ہیں کہ یہاں ون ونڈو تو کیا کوئی ونڈو ہے ہی نہیں۔ ہم آدمی تلاش کرتے پھرتے ہیں، ہمیں یہاں کوئی آدمی ہی نہیں ملتا۔ یہاں تو رہبانیت ہے۔ سارے راہب لوگ رہتے ہیں اور ان سے ملنا بہت مشکل ہے۔ اب اس سارے عمل میں آپ کا لوگوں سے تعلق کس طرح ٹوٹتا ہے۔ یہ ایک غور طلب بات ہے۔ گھروں میں بھی بعض اوقات ایسا ہوتا ہے۔ ہمیں پتہ نہیں چلتا۔ ہم میں سے کئی لوگوں کا گھروں میں بھی رویہ بالکل راہبوں جیسا ہوتا ہے۔ ایک دفعہ ہم بیٹھے تھے، میرا ایک کزن جو میرا ہم عمر ہی ہے، اس کا نام اکرام ہے۔ وہ اپنے پہلے بچے کی پیدائش کا ذکر کر رہا تھا۔ وہ پتوکی میں بڑے زمیدار ہیں۔ وہاں ان کی زمینیں ہیں۔ وہ بتانے لگے کہ جب ان کے بچے کی پیدائش کا وقت آیا تو تب شام یا رات کا وقت تھا اور وہ تھوڑے پریشان ہوئے۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ گاڑی نکالیں ہمیں لاہور جانا چاہیے اور آدھی رات کو لاہور پہنچ گئے۔ ہم سب گھر کے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ وہاں میری چھوٹی بہن بھی موجود تھی اس نے کہا کہ اکرام بھائی اگر خدانخواستہ رات کو سفر کے دوران کوئی پیچیدگی ہو جاتی تب آپ کیا کرتے تو وہ کہنے لگے اگر کوئی پیچیدگی پیدا ہو جاتی تو میں فوراً ریحانہ (بیوی) کو ڈرائیونگ سیٹ سے اٹھا کر پیھچے لٹا دیتا اور خود گاڑی چلانے لگ جاتا۔ اس سے یہ پتہ چلا کہ اس نے ساری رات درائیونگ بھی اپنی بیوی سے ہی کرائی ہے اور خود مزے سے لیٹے رہے ہیں۔ یہ گھروں کے راہب ہوتے ہیں جن کا آپ کو پتہ نہیں چلتا۔ آپ نے گھروں میں اپنے بھائی، بڑوں کو دیکھا ہو گا کہ وہ کسی کام میں دخل ہی نہیں دیتے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ شاید دخل نہ دینے سے کچھ فائدہ پہنچتا ہے حالانکہ اس سے ہرگز ہرگز کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ حیرانی کی بات یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک میں جتنے بھی تاجر اور دکاندار ہیں وہ بھی تمام کے تمام رہبانیت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ان کو سوائے اپنی ذات کے اور اپنی زندگی کے اور کسی چیز سے کوئی تعلق یا سروکار نہیں ہے۔ مزے سے تجارت کر رہے ہیں۔ ان کی چھوٹی سے دنیا ہے اور وہ اپنی اسی تجارت کے اندر گھومن گھیری انداز سے چکر کاٹ رہے ہیں۔ باہرلوگ کیسے آباد ہیں۔ ان کی کیسی مشکلات ہیں ان کی کیا کرنا چاہیے وہ اس بارے بالکل کچھ نہیں جانتے۔ وہ سارے کے سارے اپنی اپنی غاروں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ میرے حساب سے ٹک ٹک کر کے تسبیح پھرنے والے دنیا سے لاتعلق لوگ ہیں۔ ان کا اپنی ہی ذات سے واسطہ ہے۔ ہمارے کیا تقاضے ہیں۔ ہم ان سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ ہم سے بات نہیں کرنا چاہتے۔ ہمارے لاہور میں ایک بڑا برانڈتھ روڈ ہے۔ وہاں ماشاء اللہ بڑے امیر لوگ رہتے ہیں۔ کراچی میں بڑے امیر ترین لوگ ہیں۔ فیصل آباد کی سوتر منڈی دنیا کی امیر ترین علاقہ ہے لیکن جتنے بھی لوگ وہاں بیٹھے ہیں، ہیں تو وہ ہمارے درمیان اور رہتے بھی اسی دنیا میں ہیں، گفتگو ہماری جیسی کرتے ہیں، کھانا بھی ہمارے جیسا کھاتے ہیں لیکن وہ ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ جب ہم پلٹ کر اپنے اس دکھ کا اظہار اپنی ذات سے کرتے ہیں تو پتہ یہ چلتا ہے کہ ہم بھی ایسے ناقد ہیں کہ بس تنقید کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں اور ہم بھی ان دوسرے راہبوں ہی کی طرح سے ہیں۔ ہمیں بھی کچھ پتہ نہیں چلتا۔ ہم بھی راہب لوگ ہیں۔ کس کو ہماری ضرورت ہے، ہم کس کی کس طرح سے مدد کر سکتے ہیں، ہمارے ملک کے کسی باشندے کو کیا تکلیف ہے ہمیں معلوم نہیں۔ ہم بھی بھائی اکرام جیسے ہی ہیں اور سوچتے ہیں کہ اگر تکلیف ہو گی تو میں موٹر چلا لوں گا ورنہ بیوی گاڑی چلاتی رہے۔

ہمارا ضمیر بھی اسی طرح سے ہو گیا ہے۔ یہ کوئی ایسی خوشگوار بات نہیں ہے۔ لیکن وہ حکم جو ہمیں دیا گیا ہے کہ ہم دنیا کے ساتھ ساتھ دین بھی رکھیں وہ شاید ہم نے اپنی کوشش کے باوجود سارے کا سارا اپنی دنیا کے اندر اس طریقے سے ڈال دیا ہے کہ ہم ان لوگوں سے بھی زیادہ لاتعلق ہو گئے ہیں جو لوگ رہبانیت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ لوگ آپ سے، ہم سے بار بار پوچھتے ہیں استحکام پاکستان کی بھی بات ہوتی ہے، ہمارے معاشرے کو مضبوطی عطا کرنے کی بھی بات ہوتی ہے اور ارادے باندھے جاتے ہیں۔ یہاں پر بسنے والے گروہ انسانی کو بھی تگڑا کرنے کی بات کی جاتی ہے لیکن ہم سب کچھ کیسے کریں۔ ہم کس طرح سے ایسے ہو جائیں کہ ہمارا یہ علم عمل کی صورت اختیار کر جائے اور ہم رہبانیت سے نکل کر اس حکم میں داخل ہو جائیں جس کا ہمیں بڑی شدت اور زور سے آرڈر دیا گیا ہے۔ میں تو کسی نتیجہ پر پہنچ نہیں سکا۔ میں سمجھتا ہوں کہ غرض مندی اور اپنی ذات کے بارے ہی میں سوچتے رہنا ہمارا وطیرہ ہو گیا ہے اور ضرورت سے زیادہ ہو گیا ہے۔ میں اس موقع پر باہر کے ملکوں کی مثال نہیں دینا چاہتا کیونکہ میں وہ دیا نہیں کرتا لیکن جب آپ اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں تو آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ دوسرے گروہ انسانی وہ اس اعتبار سے بہت بہتر زندگی بسر کر رہے ہیں جس اعتبار سے ہمیں کرنی چاہیے تھی اور ہمیں کرنے پڑے گی۔ آپ ماشاء اللہ ذہین اور پڑھنے لکھنے والے بچے ہیں، آپ اسے سوچ کر میرے کسی اگلے پروگرام میں اس بارے میرے رہنمائی ضرور کیجیے گا کہ ہم ذاتی غرض مندی سے کیسے نکلیں ؟

اور ہمیں کب اور کیسے محسوس ہونے لگے کہ ہمارے اردگرد بازاروں میں کچھ اور لوگ بھی بستے ہیں اور ان کی احترام کیا جانا چاہیے۔ جب ہم اپنے بچپن میں ولائتی استادوں سے پڑھتے تھے تو اس بات پر بڑا زور دیا کرتے تھے :

You have not to forget the words' thank you and I am sorry.

اب پتہ چلتا ہے کہ ان الفاظ کی ادائیگی سے ایک رشتہ قائم ہوتا ہے۔ ہماری ٹریفک کی ہی مثال لے لیجیے لیکن کسی پر کیا الزام دیں اپنی ذات کے اندر ہی جھانک کر دیکھیں۔ اب مجھے بھی کئی ٹیلیفون آئیں گے کہ اب تو آپ بھی راہب نہ بنیں میرا یہ کام کروا دیں اور میں اس سے پلٹ کے یہ نہیں پوچھ سکوں گا کہ کیا آپ نے کسی اور کا کام کر دیا ہے۔ آپ کو یاد ہے میں نے ایک دفعہ کہا تھا کہ “ دتے وچوں دینا اے “ یہ بڑی دیر کی بات ہے تو مجھے لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ مجھے جی ہزار روپیہ دے دیں کوئی پانچ ہزار مانگنے لگ گیا۔ میں نے ان سے کہا کہ اپ نے بھی “ دتے وچوں دینا اے “ اس طرح کی پیاری سی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔

آج تھوڑا سا بوجھ میں نے آپ کی طبیعتوں پر ڈال دیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ ضرور اس کا کوئی حل نکالیں گے اور میری رہنمائی ضرور کریں گے اور میں آپ کی شکر گزاری کے ساتھ اگلے پروگرام میں ایک ایک کا نام لے کر یہ بتاؤں گا کہ آپ نے کیا رائے دی۔

اللہ آپ سب کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین۔
اللہ حافظ۔
 

شمشاد

لائبریرین
باب 34

باب 34

Salute to Non-Degree Technologists

آپ سبکو اہلِ زاویہ کی طرف سے سلام پہنچے۔ ہم اس پروگرام کے شروع ہونے سے پہلے تعلیم اور علم کی بات کر رہے تھے، علم ایک ایسا موضوع ہے جس پر آپ صدیاں بھی لگا دیں تو ختم نہ ہو کیونکہ یہ موضوع بڑی دیر سے چلتا آ رہا ہے کہ علم کیا ہے ؟ اور اسے کیسے منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اب جو موضوع دنیا کے سامنے ہے وہ یہ ہے کہ کیا علم کے ساتھ Ethics and Morality یا اخلاقیات کو بھی لیا جانا چاہیے یا کہ خالی ٹیکنالوجی اور سائنس پڑھا دینی چاہیے۔ ابھی تک دنیا نے اس حوالے سے کوئی خاص اور حتمی فیصلہ نہیں کیا۔ ہم مشرق والوں نے ایک زمانے میں یہ فیصلہ کیا تھا اور دوسرے علم کے ساتھ اخلاقیات کی تعلیم رومی رحمۃ اللہ اور سعدی رحمۃ اللہ پڑھاتے رہے ہیں اور اخلاقیات پر مبنی کتابیں کورس میں ہوتی تھیں لیکن اب کہا جاتا ہے کہ اب اس کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ آدمی کو ایک Given Specific Discipline of Knowledge میں ایک دیئے گئے موضوع پر اپنی Specialisation کرنی چاہیے اور اس کے بعد اسے چھوڑ دینا چاہیے۔ اکثر آپ بڑے پیشہ ور لوگوں کی شکایت کرتے ہیں جن میں ڈکٹرز، انجینئرز، ہیوروکریٹس شامل ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ ہم فلاں افسر یا ڈاکٹر کے پاس گئے تھے لیکن انہوں نے ہم پر کوئی توجہ ہی نہیں دی۔ بس وہ اپنی بات کرتے رہے جبکہ ہم چاہتے تھے کہ وہ ہمارے ساتھ ویسا سلوک کریں جیسا انسان انسانوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ اب ڈاکٹر صاحب کے پاس یہ جواز ہے کہ ہم اس علم کو جانتے ہیں جس کی آپ کے بدن کو ضرورت ہے۔ جس علم کی آپ کی روح اور جذبات و احساسات کو ضرورت ہے۔ وہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ وہ آپ کسی اور جگہ سے جا کر لیں پھر آپ جگہ جگہ مارے مارے پھرتے ہیں۔ پرانے زمانے میں جب علم اتنا عام نہیں تھا تو جس بابے کے پاس علم ہوتا تھا اس کے پاس شفقت بھی ہوتی تھی، محبت بھی ہوتی تھی، آپ کے مشکل سوالوں کے جواب بھی ہوتے تھے اور اگر جواب نہیں آتا تھا تو اس کے پاس وہ تھپکی ہوتی تھی جس سے سارے دکھ اور درد دور ہو جاتے تھے لیکن اب اس طرح سے نہیں ہوتا۔ میں بھی دیکھتا ہوں اور آپ بھی دیکھتے ہوں گے کہ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کی بڑی توقیر کرتے ہیں۔ یہ ایک اچھی بات ہے۔ وہ ممالک جو اس میدان میں پیچھے ہیں مشکل میں مبتلا ہیں اور اس مشکل سے نکلنا چاہتے ہیں لیکن میں نے اس بات کا جائزہ لیا ہے اور اسے قریب سے دیکھا ہے کہ ہم Technologist یا پیشہ ور لوگوں کو اس محبت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے جس محبت کے انداز سے ہم ان کے بارے میں انگریزی اور اردو کے اخبارات میں مضمون لکھتے ہیں۔ میرے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا۔ گوجرانوالہ کے پاس ایک قصبہ کامونکی ہے اس کے پہلو میں جاتے ہوئے میں نے دیکھا کہ پانی سے بھرے ہوئے کھیتوں کے اندر گھٹنے گھٹنے پانی میں لڑکیاں دھان کی پنیری لگا رہی تھیں جسے “ لابیں “ لگانا کہتے ہیں۔ وہ آٹھ دس لڑکیاں ایک سیدھی قطار میں پنیری کا پودا لگا رہی تھیں حالانکہ ان کے پاس کوئی فٹا یا ڈوری باندھی ہوئی نہیں تھی لیکن وہ نہایت خوبصورت انداز میں بالکل سیدھی قطار میں پنیری لگاتیں اور پھر ڈیڑھ فٹ پیچھے ہٹ جاتیں اور تقریباً ڈیڑھ فٹ پیچھے ہٹ کے ویسی ہی ایک اور قطار میں وہ پنیری یا دھان کا پودا لگاتیں۔ یہ میرے لیے ایک نئی چیز تھی اور میں وہاں کھڑا ہو کر انہیں دیکھنے لگا۔

ایک لڑکی نے کہا بابا جی آپ کیا دیکھ رہے ہیں؟

میں نے کہا کہ میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ تم ایک سیدھی لائن میں ایک دی ہوئی یا باریک Given Space کو کس طرح سے Follow کرتی ہو؟ اس نے کہا کہ یہ تو ہمارا صدیوں کا کھیل ہے۔ ہماری نانی، دادی اور ماں یہ کام ہی کرتی آئی ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ آپ کے وجود کے کمپیوٹر میں چِپ لگا ہوا ہے کہ کس طرح سے کام کرنا ہے لیکن‌ میں تخیل کا آدمی ہوں۔ مجھے دل کے اندر اس تخیل کو آگے بڑھا کر داد تو دینے دو۔ اس نے کہا کہ بابا جی آپ کی بڑی ہی مہربانی۔ میں ان کا کام دیکھتا رہا اور ان سے پوچھتا رہا کہ تم کو اس کام کے کتنے پیسے ملتے ہیں۔ انہوں نے وہ بھی بتایا اور یہ بھی بتایا کہ پانی میں مسلسل کھڑے رہنے سے ان کے پاؤں کو کتنی تکلیف ہوتی ہے اور شلواروں کے پائینچے پھٹ جاتے ہیں۔ جب میں بچوں سے کہتا ہوں کہ ان لڑکیوں کا کام بھی ایک علم ہے تو یہ ناراض ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ تو ان پڑھ لڑکیاں ہیں وہ علم پھر کیسے ہو سکتا ہے؟ علم تو صرف ان لڑکیوں اور خواتین کے پاس ہے جو کالج یا یونیورسٹی سے حاصل کرتی ہیں۔

چرخہ کاتنے والی مائی کا کام تو علم نہیں ہے حالانکہ وہ تند بھی نکالتی ہے، کپڑا بھی بنا کے دے دیتی ہے اور ہم کھیس اور رضائی بھی اس کے ہاتھ کے کاتے ہوئے سوت کی لیتے ہیں لیکن ہم اسے Technologist ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ان لڑکیوں کو کام کرتے دیکھ کر اور واپس آ کر میں نے اپنے شہر کے لوگوں کا جائزہ لینا شروع کیا تو محسوس کیا کہ یہ بڑا ہی خوش نصیب ملک ہے اور یہ ملک Technologists سے بھرا ہوا ہے۔ سڑک کنارے ایسے ایسے کمال کے ذہین موٹر مکینک بیٹھے ہیں جو آپ کو ایک اعلٰی درجے کی امپورٹڈ موٹر کو خراب ہونے کی صورت میں آسانی سے ٹھیک کر کے دے دیتے ہیں۔ میں نے اپنی ایک کمیٹی اور پڑھے لکھے لوگوں کے آگے ایک درخواست پیش کی کہ ان Technologist کو بڑے خوبصورت سرٹیفکیٹس چھاپ کر دیتے ہیں اور ان پر ہم سب دستخط کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم سڑک کنارے بیٹھے ہوئے لوگوں کو بھی سندیں دیں۔

لیکن اس کمیٹی نے میری اس بات کو اچھا نہ سمجھا اور ان پر ناگوار گزرا اور کہنے لگے آپ بھی کیا فضول بات کرتے ہیں۔ وہاں ایک بڑے صاحب تھے جو جج بھی رہ چکے ہیں اور آپ سارے انہیں جانتے ہیں انہوں نے کہا اشفاق صاحب اگر انہیں کچھ دینا بھی ہوا تو کیا آپ ان ٹیسٹ لیں گے۔ میں نے کہا کہ آپ اپنی بیالیس لاکھ کی گاڑی بغیر ٹیسٹ لیے ان کو دے آتے ہیں اور کہتے ہیں “ بھا صدیق اسے ٹھیک کر دینا “ اور وہ کہتا ہے کہ جی اسے ٹھیک کرنے میں تین دن سے کم نہیں لگیں گے۔ اس کی خرابی بڑی پیچیدہ ہے (میں بھا صدیق کی وہ بات سن رہا تھا) اس نے مزید کہا کہ جی اگر جاپان والے آئیں تو انہیں ہم سے ضرور ملوانا۔ انہوں نے اس گاڑی میں ایک بنیادی غلطی کی ہے اور اگر وہ فلاں جگہ پر آدھے انچ کی جھری دے دیں اور ایک قابلہ ادھر لگا دیں تو یہ خرابی اس میں پیدا ہو ہی نہیں سکتی۔ میں نے کمیٹی والے صاحبان سے کہا کہ آپ ان ہنر مندوں کو مجھے سلام کر لینے دیں۔ پھر میں نے ان بڑے لوگوں سے ڈرتے ڈرتے کہا کہ بہت لائق لڑکیاں ہیں جنہوں نے ایگریکلچر میں “ لابیں “ لگانے میں ایم ایس سی کر رکھی ہے کیا انہیں سرٹیفیکیٹ دے دیں تو جواب ملا۔

“ دفع کریں جی۔“

اب ان کے خیال میں ان کے پاس کوئی علم سرے سے ہے ہی نہیں۔ علم تو ان کے خیال میں وہ ہے جس پر وہ ٹھپہ لگا دیں اور یونیورسٹی اس ٹھپے کی تصدیق کر دے۔ ہماری اس کیمٹی میں ایک ہارٹ سرجن بھی تھے۔ وہ کہنے لگے کہ اشفاق صاحب آپ نے جو سرٹیفکیٹ چھپوایا ہے ایسا تو میرے پاس بھی نہیں اور یہ تو اس سے خوبصورت ہے جو میں نے ایف آر سی کرنے پر ایڈنبرا سے لیا تھا۔ کیا آپ یہ سرٹیفکیٹ ایسے ہی دے دیں گے اور یہ کس کو دیں گے۔ ؟

میں نے کہا، میں یہ سرٹیفکیٹ اس ویلڈر کو دوں گا جو آپ کے ہسپتال کے باہر بیٹھا ویلڈنگ کرتا تھا۔ وہ کہنے لگے آپ اسے کیوں دیں گے؟

میں نے کہا ڈاکٹر صاحب میں آپ کو اس کی ویلڈنگ گن لے دیتا ہوں اور آپ سے کہتا ہوں کہ پیتل اور تانبے کا ٹانکا لگا دیں لیکن اپ ایسا نہیں کر پائیں گے۔ جس طرح وہ آپ کا کام نہیں کر سکتا اس طرح آپ اس کا ہنر نہیں جانتے۔ آپ ڈاکٹر صاحب مجھے ان بے ڈگریوں کے پیارے ہنر مندوں کو اتنی تو عزت دینے دیجیئے جتنی آپ کو مل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا۔ آپ اس خیال کو چھوڑ دیں۔ ویسے ہم ان لوگوں کی عزت کرنے کے لیئے لکھتے اور چھاپتے رہیں گے۔ اس سے خواتین و حضرات میرے دل میں یہ خیال آیا کہ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم ان لوگوں کو ان کی عزتِ نفس لوٹانا ہی نہیں چاہتے۔ آرٹسٹ، موچی، نائی ہر ایک انسان کی عزت ہوتی ہے اور دوسری اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ پاکستانی ہے اور مجھے اس کو اتنی عزت تو دینی چاہیے جتنی میں باہر سے آئے ہوئے گورے کو دیتا ہوں۔ ہمارے مزاج اتنے کیوں بگڑے، ہمارے معاشرے میں عزت نہ دینے کا رحجان کیسے آیا، ہمارے سکول اور درس گاہیں اخلاقیات کی تعلیم کیوں نہیں دیتی ہیں۔ یہ بات سمجھ نہیں سکا ہوں۔ میں ایک چھوٹے اور عاجز لکھاری کی حیثیت سے کہتا ہوں کہ میرے ملک کے چودہ کروڑ آدمی روٹی کپڑے اور مکان کی تلاش میں اتنے پریشان نہیں جتنے وہ عزت کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ وہ سارے کے سارے کیس ایسے کندھے کی تلاش میں ہیں جہاں وہ سر رکھ کر رو سکیں اور اپنا دکھ بیان کر سکیں لیکن انہیں اس بھرے پرے اور طاقتور ملک میں کندھا نہیں ملتا اور بدقسمتی سے ہم انہیں وہ مقام نہیں دے سکتے ہیں جو ہم بیرونِ ملک جاتے ہی وہاں کے ڈرائیوروں اور قلیوں کو سر سر کہہ کر دیتے ہیں۔ جب میں ان خیالات کی مصیبت میں مبتلا تھا تو میرے پاس ایک بابا ابراہیم آیا وہ ضلع شیخوپورہ کا رہنے والا تھا۔ اس نے مجھے آ کے کہا “ میں نے تمہارا بڑا نام سنا ہے اور تم بڑے اچھے حلیم طبیعت کے انسان ہو۔ میں ریڈیو اور ٹی وی سے تلاش کرتا ہوا تمہارے پاس پہنچا ہوں۔ تم مجھے پڑھنا سکھا دو۔“ میں نے کہا “ بابا تم اس عمر میں پڑھ کر کیا کرو گے؟“ اس نے کہا کہ میری اس وقت عمر 78 سال ہے۔ میں بارہ سال کا تھا جب میرا باپ مجھے چاول کی پنیری لگانے کھیت میں لے آیا۔ میں اس وقت سے لے کر اب تک دھان اُگاتا رہا ہوں۔ اب اللہ نے مجھے بارہ سال بعد خوشیاں دی ہیں اور میرے بیٹے کے ہاں بیٹا اور بیٹی پیدا ہوئی ہے۔ وہ دونوں بچے اب سکول جاتے ہیں۔ صبح سویرے اٹھ کر جب چولہے پر میں گڑ کی چائے بنا رہا ہوتا ہوں تو وہ دونوں پڑھ رہے ہوتے ہیں اور اندر سے ان دونوں کی جو آواز آ رہی ہوتی ہے وہ مجھے بڑی اچھی لگتی ہے۔ وہ پڑھتے ہوئے جب یہ کہتے ہیں کہ “ میں پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنوں گا۔ ملک و قوم کی خدمت کروں گا۔ ان پڑھ آدمی ڈھور ڈنگر (جانوروں) سے بدتر ہوتا ہے اس لیے علم حاصل کرنا چاہیے۔“

تو میں یہ سن کر باہر بیٹھ کر روتا ہوں کہ میں ڈھور ڈنگر ہوں اور میں ملک کی خدمت نہیں کر سکوں گا، میں اس لیے پڑھنا چاہتا ہوں کہ میں ملک کی خدمت کرنا چاہتا ہوں اور میں مرنے سے پہلے پہلے کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا بابا، تو تو ساٹھ برس ہم کو چاول کھلاتا رہا ہے، تیرے سے زیادہ خدمت تو کسی اور نے نہیں کی۔ وہ کہنے لگا کہ کتاب میں یہ لکھا ہے کہ “ پڑھ لکھ کر ملک کی خدمت کروں گا۔“ لیکن میں پڑھا لکھا نہیں ہوں۔ اب مجھے کسی نے بتایا ہے کہ تو لاہور میں اشفاق احمد کے پاس چلا جا، وہ تمہیں پڑھا دے گا اور میں نے یہ بھی سنا ہے کہ لاہور شہر میں بوڑھوں کو پڑھانے کا بھی انتظام ہے اور اگر مجھے الف ب والا کچا قاعدہ آ گیا تو میرا بیڑا پار ہے۔ اللہ مجھے شاباش کہے گا اور کہے گا کہ تو ملک و قوم کی خدمت کر آیا ہے۔ اب میں شرمندہ بیٹھا اس کی باتیں سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یااللہ ہم جوان لوگوں کے بارے اُوٹ پٹانگ بول جاتے ہیں اس کا تو بابے کو علم ہی نہیں۔ جب میں نے اس بابے سے چاول کھلانے والی خدمت کا کہا تو وہ کہنے لگا نہیں اس کے تو میں پیسے لیتا رہا ہوں۔ میں نے کہا بابا جو کام ہم کرتے ہیں ہم بھی اس کے پیسے لیتے ہیں۔ وہ سمجھتا تھا کہ ہم پڑھے لکھے لوگ مفت میں ہی بغیر تنخواہ، پنشن کے قوم کی خدمت کرتے ہیں۔

اب وہ میری جان کے پیچھے پڑ گیا اور اٹھے نا۔ میں نے اس سے جان چھڑانے کے لیے کہا کہ بابا تو کوئی ایسا کام جانتا ہے جو گاؤں میں لوگ کیا کرتے ہیں۔

کہنے لگا مثلاً کیا کام؟

میں نے کہا کہ گاؤں میں جب کسی لڑکی کی بارات آتی ہے تو لوگ بارات کی خدمت کرنے کے لیے بھاگے پھرتے ہیں اور مفت میں کام کرتے ہیں کیا تو ایسا کر سکتا ہے؟ کہنے لگا نہیں۔

میں نے کہا کہ جب گاؤں میں کوئی ڈھگی وچھی (بیل گائے) بیمار ہو جاتی ہے تو اس کا تمہیں کوئی علاج آتا ہے جیسا کہ اپھارے میں کاڑھا دیا جاتا ہے۔ کہنے لگا نہیں میں کوئی نسخہ نہیں جانتا۔ اب میں اس سے جان چھڑانے کے لیے اسے گھیرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

کہنے لگا کہ مجھے دوسرے گاؤں والے گھوڑی پر بٹھا کے لے جاتے ہیں اور اپنی فصل دکھاتے ہیں تو میں انہیں بتاتا ہوں کہ یہ جو بارہ پودے سر پھینک کے کھڑے ہیں یہ بچ جائیں گے اور وہ جو سینہ تانے کھڑے ہوئے ہیں مر جائیں گے اور انہیں فصل کی اچھائی اور کمزوری بابت بتاتا ہوں۔

میں نے اس سے کہا بابا تو تو ایگریکلچر کا پی ایچ ڈی ہے “ اوہ ظالما تو نے اب اور پڑھ کے کیا لینا ہے۔“

کہنے لگا نہیں مجھے داخل کرا دیں کیونکہ کتاب میں یہ ہی لکھا ہے کہ ان پڑھ ڈھور ڈنگر ہیں۔

اب دیکھئے وہ بابا پاکستان اور جاپان دونوں کو چاول کھلا رہا ہے اور بہت بڑا Technologist ہے لیکن ہمارے ہاں کیا اور کہاں خرابی ہے کہ ہم اپنے ٹیکنالوجسٹ کو ٹیکنالوجسٹ نہیں سمجھتے۔ صرف انہی کو ٹیکنالوجسٹ گردانتے ہیں جن کے اوپر ایک ڈگری لگا دی گئی ہے۔ اگر یہ خلیج اسی طرح سے رہی تو پھر ہماری طاقت ایسے ہی کم ہوتی رہے گی جتنی کی ایک چھوٹے سے دس بارہ لاکھ کے نفوس والے مقروض ملک کی ہوتی ہے جسے علم ہی نہیں ہوتا کہ ملک کدھر جا رہا ہے۔ جو ملک سارے گروہ کو ساتھ لے کر چلتے ہیں وہ آگے نکل جاتے ہیں۔ امیری غریبی سارے ملکوں میں ہے اور یہ رہے گی لیکن گروہوں کو ساتھ لے کر چلنے والے ملک کی ضلح کچہری میں ایک غریب آدمی کی اتنی ہی عزت ہے جتنی امیر آدمی کی ہے۔ جب ہم نے پاکستان بنایا تھا اور میں اس وقت بی-اے کر چکا تھا تو آزادی کے تحریک میں جب ہم مختلف دیہاتوں میں تقریریں کرنے جاتے تھے تو یہ ہی کہتے تھے کہ جب پاکستان بنے گا تو تم دیکھو گے کہ تمہیں عزت دی جائے گی۔ وہ دودھ کی نہریں نہیں ہوں گی لیکن تمہیں عزت میسر آئے گی۔ وہ لوگ ہم سے ہاتھ اٹھا کے پوچھتے تھے کہ کیسے عزت ہو گی۔ میں انہیں کہتا کہ یہ غلامی کی جگہ ہے اور انگریز تمہارا حاکم ہے لیکن جب پاکستان بنے گا تو ضلع کچہری میں تم سے کوئی بے ادبی یا بدتمیزی سے پیش نہیں آئے گا اور تمہیں وہاں “ پھجا ولد لبھا حاضر ہو“ کی آواز نہیں لگے گی بلکہ وہاں کرسیاں لگی ہوئی ہوں گی۔ آپ کو نائب کورٹ آ کے سلام کرئے گا اور کہے گا “ جشیف لایئے آپ کی باری ہے۔“ وہ بے چارے اس دھوکے میں آ گئے اور عزت کی خاطر چل پڑتے اور نعرے مارتے اور وہاں سکھ ہندؤ “ جھگ “ کی طرح بیٹھ جاتے تھے کہ یہ وعدہ جو ان سے کیا جا رہا ہے یہ پورا ہی ہو گا اس لیے لوگ ان کے نعرے لگا رہے ہیں۔ خواتین و حضرات میں ان کو عزتِ نفس دیئے جانے کے خواب دکھا کر ایسے ہی گناہ کرتا رہا ہوں۔ اب میں عمر کے آخری حصے میں ہوں اور وہ لوگ جن سے ہم وعدہ کرتے تھے وہ عارف والا اور خانیوال میں آباد ہیں اور میری طرح عمر رسیدہ ہو گئے ہیں لیکن میں انہیں ان کی عزتِ نفس لوٹا یا دلوا نہیں سکا اور اب کچھ ہونا بہت مشکل ہے۔

میں اپنے چھوٹوں اور ساتھیوں سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ خدارا انہیں کچھ نہ دیں، انہیں دولت نہیں چاہیے انہیں صرف ان کی عزتِ نفس لوٹا دیں پھر دیکھیں یہ کیسے شیروں کی طرح کام کرتے ہیں اور جس کی ہمیں اور آپ کو آرزو ہے۔ یہ آپ کو بدلے میں دیں گے لیکن ابھی تک یہ کام رکا ہوا ہے اور مجھے ساتھ ساتھ یہ بھی حکم ہے کہ “ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“ اگر مجھے کہیں سے اس بات کی تھوڑی سی بھی بھنک پڑتی رہے کہ انہیں عزتِ نفس لوٹا دی جائے گی تو مجھے حوصلہ ہو گا اور شاید اس بھنک کی وجہ سے صبر کا دامن میرے ہاتھ میں ہی رہے۔ یہ عزتِ نفس لوٹانے سے ہمارے پلے سے تو کچھ نہیں جائے گا۔ کسی کو کوئی پیسہ دھیلا نہیں دینا بس عزت دینی ہے، احترام اور تکریم دینی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ سے آج یہ جو بات ڈائریکٹ ہوئی ہے اس کا کچھ نہ کچھ مثبت اثر ضرور ہو گا۔ کیونکہ آپ کے چہرے بتا رہے ہیں کہ آپ اس دلیل کو تسلیم کرتے ہیں۔

اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین۔

اللہ حافظ۔
 

شمشاد

لائبریرین
باب 35

باب 35

تھری پیس میں ملبوس بابے اور چغلی میٹنگ

میں اکثر اس پروگرم میں اور کبھی کبھی اس پروگرام سے ماورا دوسرے مواقعوں یا پروگراموں میں بابوں کا ذکر کرتا رہتا ہوں اور ڈیروں کی بابت عموماً باتیں کرتا ہوں جس کے باعث عموماً راہ چلتے ہوئے اور دیگر کئی جگہوں پر سب لوگ مجھے روک کر پوچھتے ہیں کہ آپ کے بابے کیا ہوتے ہیں اور ان میں ایسی کون سے صفت ہوتی ہے جو آپ ان سے اس قدر مرعوب ہیں اور ان ہی کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں حالانکہ آپ بڑے پڑھے لکھے آدمی ہیں اور یہاں کے ہی نہیں ولائیت سے بھی پڑھ کر آئے ہیں۔ وہاں پڑھاتے بھی رہے ہیں۔ آپ ہمیں بھی بتایئے کہ ان بابوں میں کون سی ایسی خوبی ہوتی ہے جو آپ کو متاثر کرتی ہے۔ میں ان سے یہ عرض کرتا ہوں کہ اگر آپ کبھی ان سے ملیں یا ان سے Incontact آئیں تو پھر آپ کو پتہ چلے کہ یہ کس حد تی ہم عام لوگوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ بابوں سے میری مراد یہ نہیں کہ ایک آدمی جس نے سبز رنگ کا لباس پہنا ہوا ہو۔ اس کے سر کے لمبے بال یا اس نے لمبی “ لٹیں “ رکھی ہوئی ہوں، گلے میں تسبیحات اور منکوں کی مالائیں ڈالی ہوئی ہوں ضروری نہیں وہ بابا ہی ہو۔ بہرحال کچھ بابے ایسے روپ میں بھی ہوتے ہیں لیکن اکثر بابے جو اب آپ کی زندگی میں آپ کے قریب سے اور گردوپیش سے گزر جاتے ہیں وہ تھری پیس سوٹ زیبِ تن کرتے ہیں، سرخ رنگ کی ٹائی لگاتے ہیں اور ان کی اس سرخ ٹائی میں سونے کی پن لگی ہوتی ہے لیکن آپ کو اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ یہ شخص جو میرے اس قدر قریب بیٹھا ہے یا میرے اس قدر قریب سے اٹھ کر گیا ہے، اس کے اندر وہ ایسی کونسی بات تھی جسے میں پکڑ نہیں سکا اور میں اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکا۔ یہ بڑا مشکل کام ہے۔ خواتین و حضرات فائدہ اٹھانے کے لیے اپنے وجود کا ایسا ریڈیو سیٹ بنانا پڑتا ہے جس پر تمام سٹیشن آسانی سے پکڑے جا سکیں۔ میں ایک سنگل بینڈ کا ریڈیو ہوں۔ میرے اوپر صرف لاہور ہی سنائی دیتا ہے۔ لیکن میرے کمرے میں دنیا بھر کی آوازیں اکٹھی ہوتی ہیں اگر میرا Receiving Center اچھا ہو گا تو میں دوسری چیزیں بھی بڑی آسانی کے ساتھ پکڑ لوں گا لیکن اگر وہی Dull تو پھر مشکل ہے۔ اب اس Dullness کو دور کرنے کے لیے اس بات کی ضرورت ہوتی ہے کہ آدمی ایسے لوگوں سے ملتا رہے جن کے اندر آپ کو اپنے سے مختلف کوئی چیز نظر آئے چاہے وہ کسی بھی طرح کی اچھی چیز ہو۔ مغرب والے اس طرح کے رویے کا اظہار کرتے ہیں ۔ وہ بڑے متجسس قسم کے لوگ ہیں۔ انہیں جونہی کوئی ذرا مختلف، ذرا عام حالات سے ہٹ کر انہیں کوئی کردار ملا وہ رک کر اسے دیکھتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے ؟ اس کی تحقیق کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک بات طے شدہ ہے کہ اگر ہم نے کسی کو غلط کہہ دیا تو وہ غلط ہو گیا۔ آدمی کسی غلط شخص کے اندر یہ دیکھتا ہی نہیں کہ شاید اس میں بھی کوئی اچھی بات ہو۔ جسے اپنی طرف سے غلط یا خراب قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس میں سے اچھائی تراشنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی جاتی۔ میں عرض یہ کر رہا تھا کہ بابوں کے پاس عجیب و غریب جذبہ ہوتا ہے وہ ہم میں نہیں ہے۔ وہ جذبہ انسانوں سے محبت کرنے کا جذبہ ہے۔ ہم کتابی طور پر تو کہہ لیتے ہیں کہ جناب ہم محبت کرتے ہیں یا ہم یہ ذکر کرتے ہیں کہ ہمیں ان سے بڑی محبت ہو گئی ہے لیکن محبت کے اندر داخل ہو کر اس کو اپنی ذات پر وارد کرنا یہ ایک مشکل اور مختلف کام ہے جس طرح بارش کا ذکر اور بارش کے اندر بھیگ جانا دو مختلف عمل ہیں۔ بارش کا ذکر کرنے سے جس طرح آدمی بھیگتا نہیں ہے۔ بابے محبت کے عمل میں اس آسانی سے داخل ہو جاتے ہیں کہ ہم جیسے لوگ حسرت سے دیکھتے رہ جاتے ہیں اور ہمیں تادمِ مرگ یہ حسرت ہی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر ان کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ ایک نہایت بےہودہ اور غیر توجہ طلب انسان کے اندر سے بھی کوئی ایسی چیز تلاش کر لیتے ہیں جو اس کی خوبی ہوتی ہے اور وہ اس کی خوبی کو ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ ہم سے وہ چادر نہیں اٹھائی جاتی جو بابے اٹھا لیتے ہیں۔ ہم سے ان کی طرح وہ چھپا ہوا حصہ اجاگر نہیں ہو پاتا۔ ہماری ٹریننگ کچھ اس طرح کی ہے کہ ہم جب بھی کسی شخص سے ملتے ہیں ہم اس شخص کی اچھائیوں پر نظر نہیں کرتے۔ صرف اس کی برائیاں ہی ہمیں نظر آتی ہیں۔ شاید ہماری تربیت ہی کچھ اس طرح سے ہوتی ہے۔ مجھے ایک بہت پرانا لطیفہ یاد آ رہا ہے جو آپ کو بھی سناتا ہوں۔ ایک میراثی تھا جو بڑا بزرگ آدمی تھا لیکن اس سے اس کی بیوی بڑی تنگ تھی اور اسے طعنے دیتی رہتی تھی کہ تو اپنی شکل دیکھ، تو کیسے بزرگ ہو سکتا ہے۔ وہ بے چارہ بھی بڑا پریشان تھا۔ ایک دن مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد وہ بیٹھا دعا مانگ رہا تھا تو اس کی بیوی نے اسے آ کر “ ٹھڈا “ (ٹھوکر) مارا اور کہا کہ تو ادھر بیٹھا دعائیں مانگ رہا ہے ، اٹھ کر کوئی کام وام کرو۔ بیوی کی اس حرکت سے اسے جلال آ گیا۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا، ہوا میں ابھرا، آسمانوں میں چھا گیا اور اس نے آسمان کے تین چار بڑے بڑے چکر لگائے۔ اس کی بیوی نیچے کھڑی اسے دیکھتی رہی اور دل میں سوچتی رہی کہ یہ کوئی اللہ کا بڑا پیارا ہے۔ وہ میراثی جب نیچے اتر آیا تو اس نے بیوی سے کہا دیکھا تو نے ہمارا کمال۔ اس کی بیوی کہنے لگی کون سا کمال؟ کہنے لگی وہ اللہ کا کوئی پاکیزہ بندہ تھا۔

وہ کہنے لگا “ اوہ میں سی۔“
تو وہ پھر کہنے لگی اچھا !
“ ایسے لئی ٹیڈھا ٹیڈھا اڈ رہیا سی۔“ ( اسی لیے ٹیڑھے ٹیڑھے اڑ رہے تھے۔)

یہ بڑی پرانی بات ہے لیکن اب ہم جب بھی کسی بندے سے ملتے ہیں، ہمیں اس میں سے ٹیڑھ نظر آتی ہے۔ جب ٹیڑھ ہمیں نظر آتی ہے تو پھر ہماری زندگی میں، ہماری ذات اور ہمارے وجود میں بھی ایک تیڑھ پیدا ہو جاتی ہے اور وہ ٹیڑھ نکلتی نہیں ہے اس لیے اللہ نے ہم پر خاص مہربانی فرما کر ہمیں غیبت سے منع فرمایا ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جس کا ہمیں پتہ نہیں چلتا۔ کافی عرصے کی بات ہے کہ ہم کسی بابے کی ذکر کی محفل میں داخل ہوئے تاکہ اپنی ٹریننگ کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسان کے وجود کے اندر ایک ایسا عضو ہے جو اگر خراب ہو جائے تو سارے کا سارا بندہ خراب ہو جاتا ہے اور وہ عضو دل ہے۔ اس طرح سے ہم اور آپ لوگوں کے دل خراب ہو گئے ہیں اور ان کے اوپر “ راکھ “ جم گئی ہے جیسے پرانی دیگچی جس میں چائے پکاتے ہیں وہ اندر اور باہر سے ہو جاتی ہے بالکل اس طرح سے ہمارے دل ہو گئے ہیں اور ہم اللہ کے ذکر سے اس کو صاف کرتے ہیں اور اس کو “ مانجا “ لگاتے ہیں اور اللہ ہو کے ذکر سے اس زنگ اور کائی لگے دل کو صاف کرتے ہیں اور یہ خرابی بے شمار گناہ کرنے کہ وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ آپ یقین کیجیے گا کہ جب میں اس محفل میں تھا اور میں اس میں شامل ہونے والا تھا تو میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ میں تو ایک اچھا نیک سا نوجوان ہوں اور میں نے کوئی خاص گناہ نہیں کیا تو میرا دل کیسے کالا ہو گیا اور میں اس کو “ مانجا “ لگاؤں۔ یہ ایک خیال سا میرے ذہن میں آ گیا اور کافی دیر تک میں سوچتا رہا۔ محفلِ ذکر سے قبل وہ بابا جی کہنے لگے کہ بیشتر اس کے کہ ہم محفل شروع کریں شاید بہت سارے اصحاب یہ سوچتے ہیں کہ وہ تو اچھے ہیں۔ انہوں نے تو کوئی گناہ نہیں کیا۔ تو پھر کیسے ہمارا دل کالا ہو گیا۔ کوئی بڑا گناہ نہیں کیا۔ کوئی چوری چاری نہیں کی۔ کسی کے گھر پر قبضہ نہیں کیا۔

بابا جی کہنے لگے کہ ایسا سوچنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ بہت بڑے گناہوں میں سے ایک بہت بڑا گناہ غیبت ہے۔

خواتین و حضرات ! اب غیبت تو ہم سارے ہی کرتے ہیں۔ اس کے بغیر ہم کھانا نہیں کھاتے۔ ہمارے گھر میں ہماری بہوئیں کہتی ہیں کہ ماموں اب ہمارا غیبت کا ٹائم ہو گیا ہے۔ دس بجے ان کی “ چغلی میٹنگ “ ہوتی ہے۔ وہ ہر بار ایک دوسرے کے گھر میں جاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اس بار ہم نے چغلی میٹنگ رضیہ کے گھر میں رکھی ہے اور دس بجے سے لے کر بارہ بجے تک وہ چغلی کرتی ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ تم اتنی زیادہ چغلی کیوں کرتی ہو۔ وہ کہتی ہیں کہ ساری دنیا میں اور پورہ کرہ ارض پر چغلی ہوتی ہے۔ جتنے بھی اخبارات چھپتے ہیں وہ سارا چغلیوں سے ہی بھرا ہوتا ہے۔ جو بھی کالم چھپتے ہیں ان میں لوگوں کی خرابیاں ہی بیان کی ہوئی ہوتی ہیں۔ کیس کی اچھائیاں تو نہیں ہوتیں ان میں اور فلاں برا فلاں برا کی گردان بھی ہوتی ہے اور اس سے ہم نے سبق لے کر یہ کام سیکھا ہے۔ ہم نے بابا جی کے ہاں ذکر کی محفل میں شرمندگی سے ذکر شروع کیا کہ واقعی ہم چغلی تو بہت زیادہ کرتے ہیں اور روز کرتے ہیں۔ چغلی اس لیے کرنی پڑتی ہے کہ اپنی ذات میں چونکہ کوئی صفت یا خوبی نہیں ہوتی یا کم ہوتی ہے اور ہم دوسرے کو نیچے دھکیل کے اور ڈبو کے اپنے آپ کو اوپر اچھالتے ہیں۔ ہم نے بابا جی سے کہا کہ جی آپ کیسے خوبی تلاش کر لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ کیس شخص کے اندر داخل ہوں اور اس کے متعلق صاحب حال ہوں تو پھر آپ کو آسانی ہو گی اور آپ بھی اس بات یا خوبی کو پکڑ لیں گے جس کو ہم پکڑ لیتے ہیں۔ مائیکل اینجلو ایک بہت بڑا مجسمہ ساز تھا۔ اس نے بہت خوبصورت مجسمے بنائے۔ اس نے حضرت عیسٰیّ اور حضرت مریم کے بہت سے مجسمے بنائے۔ اس کا بنایا ہوا ڈیوڈ کا اٹھارہ فٹ اونچا مجسمہ فلورنس میں بھی ہے جسے ساری دنیا دیکھنے جاتی ہے۔ اسے ہم نے بھی دیکھا۔

کسی نے اس سے پوچھا کہ مائیکل یہ بتاؤ کہ تم کس طرح سے یہ مجسمہ بناتے ہو۔ ایسا خوبصورت مجسمہ کیسے بنا لیتے ہو ؟ یہ تو انسانی کمال کا ایک آخری حصہ ہے۔ اس نے کہا کہ میں تو مجسمہ نہیں بناتا اور نہ ہی مجھے بنانا آتا ہے۔ میں سنگِ مرمر کا ایک بڑا ٹکڑا کہیں پڑا ہوا دیکھتا ہوں اور مجھے اس میں “ ڈیوڈ “ نظر آنے لگتا ہے اور میں چھینی، ہتھوڑی لے کر اس پتھر میں سے ڈیوڈ کے ساتھ پتھر کا فضول حصہ اتار دیتا ہوں اور اندر سے ڈیوڈ (حضرت داؤد) نکل آتے ہیں۔ میں کچھ نہیں کرتا۔ مجھے تو ڈیوڈ صاف نظر آ رہے ہوتے ہیں۔ میں بس ان کے ساتھ غیر ضروری پتھر اتار دیتا ہوں۔ اس طرح سے یہ بابے جو ہیں یہ انسان کی غیر ضروری چیزیں اتار دیتے ہیں اور نیچے سے بڑا پاکیزہ، اچھا اور خوبصورت سا انسان نکال کے اپنے سامنے بٹھا لیتے ہیں اور پھر اس کو اپنی توجہ کے ساتھ وہ سب کچھ عطا کر دیتے ہیں بشرطیکہ وہ شخص اس کا آرزومند ہو اور صبر والا ہو۔ لیکن جو آرزومند ہو وہ صابر بھی ہونا چاہیے۔ جیسے خداوند کریم فرماتا ہے کہ :

انااللہ مع الصابرین ۔
(بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔)

اگر کسی نے اللہ کو پانا ہو تو وہ صبر کرنے لگ جائے تو اس کا کام بن جاتا ہے جبکہ لوگ اس کے لیے ورد، وظیفے کرتے ہیں۔ ناک رگڑتے ہیں لیکن اللہ کو صبر کرنے والے پا لیتے ہیں۔ میں شاید اسی محفل میں پہلے بھی یہ بات بتائی ہے کہ میر ایک تائی تھیں۔ وہ تیلن تھی۔ اس کا شوہر فوت ہو گیا۔ وہ تائی بے چاری کولہو پیلتی تھی۔ نہایت پاکیزہ عورت تھی۔ وہ اٹھارہ سال کی عمر میں بیوہ ہوئی لیکن اس نے شادی نہیں کی۔ جب میں اس سے ملا تو تائی کی عمر کوئی ساٹھ برس کے قریب تھی۔ اس کے پاس ایک بڑی خوبصورت “ رنگیل پیڑھی “ تھی، وہ اسے ہر وقت اپنی بغل میں رکھتی تھی جب بیل کے پیچھے چل رہی ہوتی تو تب بھی وہ اس کے ساتھ ہی ہوتی تھی۔ وہ ساگ بہت اچھا پکاتی تھی اور میں سرسوں کا ساگ بڑے شوق سے کھاتا تھا۔ وہ مجھے گھر سے بلا کے لاتی تھی کہ آ کے ساگ کھا لے میں نے تیرے لیے پکایا ہے۔ ایک دن میں ساگ کھانے اس کے گھر گیا۔ جب بیٹھ کر کھانے لگا تو میرے پاس وہ “ پیڑھی “ پڑی تھی میں نے اس پر بیٹھنا چاہا تو وہ کہنے لگی “ ناں ناں پُتر ایس تے نئیں بیٹھنا “ میں نے کہا کیوں اس پر کیوں نہیں بیٹھنا۔ میں نے سوچا کہ شاید یہ زیادہ خوبصورت ہے۔ میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ اس پر کیوں نہیں بیٹھنا۔ کیا میں تیرا پیارا بیٹا نہیں۔

کہنے لگی تو میرا بہت پیارا بیٹا ہے۔ تو مجھے سارے گاؤں سے پیارا ہے لیکن تو اس پر نہیں بیٹھ سکتا۔

کہنے لگی بیٹا جب تیرا تایا فوت ہوا تو مسجد کے مولوی صاحب نے مجھ سے کہا کہ “ بی بی تیرے اوپر بہت بڑا حادثہ گزرا ہے لیکن تو اپنی زندگی کو سونا بھی بنا سکتی ہے۔ یہ تجھے اللہ نے عجیب طرح کا چانس دیا ہے۔ تو اگر صبر اختیار کرے گی تو اللہ تیرے ہر وقت ساتھ ہو گا کیونکہ یہ قرآن میں ہے کہ “ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے “ تائی کہنے لگی کہ میں نے پھر صبر کر لیا۔ جب کئی سال گزر گئے تو ایک دن مجھے خیال آیا کہ اللہ تو ہر وقت میرے پاس ہوتا ہے اور اس کے بیٹھنے کے لیے ایک اچھ سی کرسی چاہیے کہ نہیں؟ تو میں نے “ رنگیل پیڑھی “ بنوائی اور اس کو قرینے اور خوبصورتی سے بنوایا۔ اب میں اس کو ہر وقت اپنے پاس رکھتی ہوں اور جب بھی اللہ کو بیٹھنا ہوتا ہے میں اسے اس پر بٹھا لیتی ہوں۔ میں کپڑے دھوتی ہوں، اپنا کام کرتی ہوں، روٹیاں ساگ پکاتی ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میرا اور اللہ کا تعلق ہے اور وہ صبر کی وجہ سے میرے ساتھ ہے۔ خواتین و حضرات ایسے لوگوں کا تعلق بھی بڑا گہرا ہوتا ہے۔ ایسے لوگ جنہوں نے اس بات کو یہاں تک محسوس کیا۔ وہ قرآن میں کہی بات کو دل سے مان گئے وہ خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں۔ ہم جیسے لوگ “ ٹامک ٹوئیاں “ مارتے ہیں اور ہمارا رخ اللہ کے فضل سے سیدھے راستے ہی کی طرف ہے۔ ہم سے کچھ کوتاہیاں ایسی ضرور ہو جاتی ہیں جو ہمارے کیے کرائے پر “ کُوچی “ پھیر دیتی ہیں۔ جس سے ہمارا بدن، روح، دل خراب ہو باتا ہے۔

مجھے ابھی تھوڑی دیر پہلے اعظم خورشید کہہ رہے تھے کہ ہمارے ہاں نفرت کی فضا پیدا ہو گئی ہے۔ یہ نفرت کی فضا کس وجہ سے پیدا ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں مختلف گروہِ انسانی وہ نفرت میں مبتلا ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں، ایک یہ کہ ہم اس علاقے کے رہنے والے ہیں اور ہم ان لوگوں سے ہٹ کے مسلمان ہوئے ہیں جو انسانوں کو پسند نہیں کرتے۔ وہ لوگ برہمن تھے۔ ہم ایک اعتبار سے Convert ہیں۔ ہمارے اندر وہ پہلی سی کچھ کچھ چیز چلی آ رہی ہے کہ ہم کو ایسا آدمی جو خدا نخواستہ چھوٹے درجے پر ہو وہ اچھا نہیں لگتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جاتے ہوئے یہ فرمایا ہے کہ گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر فوقیت نہیں ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ ہاں اگر تم فوقیت کا کوئی راستہ جاننا ہی چاہتے ہو تو وہ تمہیں تقویٰ میں کلے گی اور تقویٰ ایسی چیز ہے جس میں آپ جتنے نیچے ہوتے جائیں اتنے ہی اوپر ہوتے چلے جائیں گے کیونکہ تقویٰ میں عاجزی ضروری ہے۔ بابا جی ہم سے یہی دریافت کرتے رہے کہ لوگوں سے محبت کیسے کرنی ہے کیونکہ لوگوں کی خدمت کر کے اور انہیں انسان مان کے ہی کسی منزل پر پہنچ سکتے ہیں۔ اگر خدمت نہ بھی کریں یہ مانیں تو سہی کہ یہ بھی انسان ہیں۔ ہمارے بابا جی کے ڈیرے کے پاس ایک بابا لہنا جھاڑو دیا کرتا تھا وہ جب بھی آتا تھا تو بابا جی اس کی اتنی عزت کرتے کہ کھڑے ہو جاتے۔

میں نے کہا کہ جی یہ تو جمعدار ہے چھوڑیں۔ وہ کہتے تھے نہیں نہیں یہ بڑا باعزت آدمی ہے۔ ہم کو کھانے میں وہاں دال ملتی تھی لیکن جب وہ آتا تھے تو پیڑھی کے نیچے سے مکھن بھی نکل آتا تھا، چٹنی بھی نکل آتی تھی، کاٹا ہوا پیاز، کھیرے بھی نکل آتے اور یہ ساری چیزیں لہنا صاحب کو ملتی تھیں۔ میں نے کہاکہ جی بتائیں ہم تو ایم-اے پاس کر کے آئے ہیں اور پڑھے لکھے لوگ ہیں اور آپ ساری چیزیں اس کو دے دیتے ہیں۔

بابا جی کہنے لگے کہ حکیم کو پتہ ہوتا ہے کہ مریض کو کیسی غذا دینی ہے۔ آپ اپنی شکلیں دیکھو اور شکر کرو کہ تم کو کھانے میں دال روٹی مل جاتی ہے۔ خواتین و حضرات یہ ڈیرے بڑے ظالم ہوتے ہیں۔ میں بات کر رہا تھا کہ کسی آدمی کے اندر سارے خرابیاں دیکھ کے ٹیڑھا ٹیڑھا چلنا دیکھ کے، اس کا لنگڑا پن دیکھ کے اس کے اندر ایسی چیز کو تلاش کرنا کہ یہ اس کی خوبی ہے جو کسی وجہ سے اس پر بھی نہیں کھل سکی اور ایسے شخص کے ساتھ محبت کرتے چلے جانا آپ کے دل کو روشنی عطا کرتا ہے اور اس کو بغیر کسی ورد کے صاف بھی کرتا ہے۔ دل کو صاف کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہی ہے کہ آپ لوگوں کے ساتھ محبت کریں، چلیں محبت کرنا مشکل کام ہے آپ انسان کو انسان تسلیم کر لیں۔ گو مجھ سے اسّی برس کی عمر تک پہنچ جانے کے باوجود یہ نہیں ہو سکا کہ میں جو یہ مخالف ہے اس کی شہ رگ کے قریب بھی اللہ موجود ہے اور کم سے کم درجے کے آدمی کے پاس بھی اللہ ہے۔ ہمیں تو اس کی عزت کرنی ہے۔ ولائیت کے لوگوں کے بارے میں جو ہم تاثر رکھتے ہیں کہ وہ لوگوں سے اچھا سلوک کرتے ہیں میں ان کے بارے میں بھی یہ کہا کرتا ہوں کہ وہ اخلاق نہیں ہے جس کا اللہ تقاضا کرتا ہے۔ ان کے پاس اخلاق کا عکس ہے۔ اصلی اخلاق نہیں ہے۔ اگر ان کے پاس اصلی اخلاق ہوتا تو وہ افغانستان پر ایسی بمباری نہ کرتے۔ بغیر کسی جواز اور دلیل کے انہوں نے ایسا کیا۔ وہ بھی اصلی اخلاق سے محروم ہیں لیکن آپ کے اور میرے دلوں پر ان کا بڑا دبدبہ ہے کہ جی وہ جو وعدہ کرتے ہیں یا سودا کرتے ہیں پورا کرتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہمیں ان سے بازی لے جانی ہے کیونکہ ہمیں اللہ کی طرف سے ایسی رحمت عطا کی گئی ہے جو ان لوگوں کو عطا نہیں کی گئی۔

مسلمان ساری دنیا میں اتنے ذلیل و خوار کیوں ہیں؟ کیوں اتنی مشکل میں پڑے ہوئے ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ پوری کائنات میں جو مسلم امہ ہے وہ دوسروں کے مقابلے میں برتر ہے۔ اگر برتر چیز کو ناپاکی کا ذرا سا بھی چھینٹا لگ جائے تو وہ برتر نہیں رہتی۔ غلیظ چیز کو جس طرح کا بھی گند لگ جائے وہ اس کا کوئی نقصان نہیں کرتی۔ آپ انسانیت کی دستار ہیں۔ آپ کے اوپر اگر گوبر کا ذرا سا چھینٹا لگ گیا تو یہ دستار اتار کے پھینکنی پڑتی ہے۔ یہ اہم ذمہ داری ہم پر عائد ہے کہ ہم نے اپنی دستار کو کیسے سنبھال کے رکھنا ہے اور اپنی دستار کو اچھی طرح سے اور سنبھال کر رکھنے کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ ہم اپنے بھائی، انسان اور آدمی کے ساتھ اپنا برتاؤ اور سلوک اچھا رکھیں اور اس کے ساتھ ساتھ چغلی میٹنگیں بند کریں۔ انشاء اللہ ہم اپنی اس کوتاہی کو ختم کر کے دم لیں گے اور اس جانب توجہ دیتے رہیں گے اور دلاتے رہیں گے۔

اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین۔

اللہ حافظ۔
 

شمشاد

لائبریرین
باب 36

باب 36
“ Mind Over The Matter “

یہ ذہن کا بازار بھی عجیب منڈی ہے جس میں کبھی کوئی چھٹی نہیں ہوتی۔ دن کو ذہن کام جاری رکھتا ہے اور رات کو سو جانے پر خوابوں کی صورت میں اپنے عمل میں مصروف رہتا ہے اور اس میں ایک دلچسپ اور نہایت عجیب بات یہ ہے کہ اس منڈی میں باہر کے تاجر بھی آتے رہتے ہیں۔ کچھ قافلے سمرقند و بخارا سے، کچھ گلف اور ولائیت سے آتے جاتے اور شامل ہوتے رہتے ہیں۔ یہ عمل رکنے اور ختم ہونے کو نہیں آتا اور اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ کچھ ایسے لوگ بھی آ کر ذہنی و فکری عمل میں شامل ہو جاتے ہیں جن کی بہت سی چیزیں مستعار بھی لینی پڑتی ہیں اور انہیں اپنانا بھی پڑتا ہے اور کچھ ایسے سوالات ذہن میں گھر کر لیتے ہیں جن سے جان چھڑانا مشکل ہو جاتی ہے اور کچھ کو تو زندگی میں باقاعدہ شامل کرنا پڑ جاتا ہے مثلاً خدا کے بارے میں بہت سوال کیے جاتے ہیں اور پوچھا جاتا ہے کہ خدا کیوں ہے؟ کیسے ہے؟ کس طرح سے ہو سکتا ہے؟ کیونکہ ہم اسے اپنے حواس خمسہ سے جان نہیں سکتے۔ ایسے اور کئی طرح کے سوال آپ کے خیال میں اترتے ہوں گے۔

لوگ تین چار قسم کے سوال بہت پوچھتے ہیں ایک یہ کہ ایک بچہ جو ایک خاص گھرانے میں اور خاص مذہبی خیالات رکھنے والے گھرانے میں پیدا ہوا لامحالہ طور پر اس کا مذہب بھی وہی ہو گا جو اس کے والدین کا ہے۔ اس بچے میں تبدیلی لانے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جائے اور اس کو بڑی شاہراہ پر کیسے لایا جائے جس کی ہم ترجمانی کرتے ہیں۔ یہ سوال بھی عموماً پوچھا جاتا ہے کہ کئی ایسے غیر مسلم جنہوں نے بڑے نیکی کے کام کیے تو کیا یہ لوگ بہشت میں نہیں جائیں گے جس طرح گنگا رام نے اور گلاب دیوی نے ہسپتال بنوائے تھے۔ اس پر ہم کسی اور پروگرام میں بات کریں گے۔ اس طرح ذہن کی منڈی میں ہر طرح کا سودا چلتا رہتا ہے اور جب خدا کی ذات کا سوال آتا ہے تو پھر کافی مشکل پڑتی ہے۔ ہمارے یہاں بھی اس معاملے پر چند روز قبل بڑے پڑھے لکھے، جید اور سیانے یہ بات کرتے رہے اور ہم بھی سنتے رہے اور اس میں شامل بھی ہوتے رہے۔ خواتین و حضرات نتیجہ یہاں تک پہنچا کہ مرئی ( دیکھی جانے والی ) چیز زیادہ طاقتور ہوتی ہے یا غیر مرئی زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ سامنے نظر آنے والی چیز تو طاقتور ہے ہی تو کیا جو چیز نظر نہیں آتی وہ بھی طاقتور ہو سکتی ہے؟ اور اگر ان دونوں کا تقابل کیا جائے تو کونسی چیز زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ یہ نہایت اچھا بہت ہی حیران کن اور توجہ طلب سوال تھا۔ آپ بھی یہ سن کر حیران ہوں گے کہ جتنی بھی غیر مرئی Invisible چیزیں ہیں وہ بڑی طاقتور ہوتی ہیں اور نظر میں آنے والی چیزوں سے زیادہ فوقیت اور تقویت رکھتی ہیں۔ ہوا نظر نہیں آتی لیکن ہوا کے دونوں روپ چاہے وہ آکسیجن کی شکل میں ہوں یا کاربن ڈائی آکسائیڈ کی شکل میں ہوں، زندگی عطا کرنے والے ہیں اور ہمارے ایک سانس کے بالکل قریب ہی دوسرا سانس کھڑا ہوتا ہے اور موجود ہوتا ہے اور دنیا کی قیمتی ترین شے آکسیجن ہمیں مفتا مفت ملتی ہے اور کسی غریب یا امیر میں تمیز کیے بغیر ملتی ہے، فرض کیجیئے کہ اگر خدانخوستہ زندگی کا یہ قیمتی ترین سرمایہ ہمیں دکان سے جا کے لینا پڑتا تو کیا سماں ہوتا۔ صبح ہر کوئی اپنا اپنا ڈبہ لیے آکسیجن بھروانے نکلا ہوتا۔ پھر دفتر، سکول یا کالج جانے کی بات کرتا۔ ہم تو چھوٹے کام نہیں کر سکتے، ایسی صورتحال اور جانوروں، جانداروں اور انسانوں کی دھکم پیل اور بھیڑ میں سب چکرا کر مر جاتے۔ ہوا اپنے دونوں روپوں میں نظر نہیں آتی لیکن اتنی طاقتور ہے کہ اگر یہ نہ ہو تو ہماری زندگی ہی ختم ہو جائے۔ چرند پرند شجر و حجر بھی ختم ہو جائیں۔ ایسے ہی آپ غور کریں تو ایسی نوعیت کی اور بھی کئی چیزیں موجود ہیں لیکن اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر آپ کھڑے ہوں اور کسی بلڈنگ یا پلازے سے کوئی پتھر ٹوٹ کر آپ کے سر پہ لگے تو آپ کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے۔ ابھی پچھلے دنوں زلزلے نے کیا تباہی مچائی ہے، کتنے ہی لوگوں کا جانی نقصان ہو گیا۔ اس طرح سب سے سخت اور طاقتور چیز تو پتھر ہے لیکن آپ ہوا کو طاقتور گردان رہے ہیں حالانکہ نظر میں آنے والی چیز زیادہ طاقتور ہے لیکن ہم اس بات پر توجہ نہیں دیتے اور نہیں دے رہے کہ یہ پتھر، پہاڑ، چٹانیں اور زلزلے سے گرنے والے بھاری بھر کم گارڈر، ستون اور مینار جو کئی زندگیاں ختم کر دیتے ہیں اگر کششِ ثقل یا Gravity نہ ہو یہ ہماری کچھ نہیں بگاڑ سکتے اور کششِ ثقل ایسی چیز ہے جو نظر نہیں آتی۔ فرض کیجیئے کہ زمین میں کشش نہ ہو تو اوپر سے کتنا ہی بڑا پتھر کیوں نہ گرے وہ تو بس ڈانس کرتا ہوا ہی رہ جائے گا اور اگر آپ اس کو تھپڑ ماریں گے تو وہ ڈانس کرتا ہوا دوسری سمت چلا جائے گا کیونکہ اس میں تو کوئی جان بھی نہیں ہو گی۔ امریکہ نے افغانستان میں ڈیزی کٹر بمبوں کے ساتھ جتنی بمباری کی ہے اور 52بی طیاروں سے جو بڑے بڑے تم گرائے ہیں یہ سب کششِ ثقل کی بدولت ہی ممکن ہوا ہے۔ اگر زمین میں کشش نہ ہوتی تو اس وقت افغانستان کے بچے ان بمبوں سے فٹ بال کھیل رہے ہوتے۔ اس سے ثابت یہ ہوا کہ غیر مرئی چیز زیادہ طاقتور ہوتی ہے اور اس کی طاقت کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہوتا ہے۔ آپ روشنی کو دیکھیں یہ نظر نہیں آتی۔ یہ ہر چیز کو منور ضرور کرتی ہے لیکن نظر نہیں آتی۔ بلب سے نکلنے والی روشنی اور مجھ تک پہنچنے والی روشنی یا فرش کے اوپر ہالہ بنانے والی روشنی کے درمیان جو روشنی کا سفر ہے وہ نظر نہ آنے والا ہے۔ آپ یہ سن کر بھی حیران ہوں گے کہ سورج جو اس قدر روشن سیارہ ہے اور ہماری زندگیوں کا دارومدار اس پر ہے وہ ساری روشنی جو سورج ہمیں عطا کرتا ہے اور جو زمین پر پڑتی ہے اگر ہم سورج اور زمین کے درمیان سفر کریں اور اس حد کو عبور کر جائیں جہاں سے روشنی Reflect نہیں ہوتی تو آپ یہ دیکھ کر حیرن ہوں گے کہ سورج اور زمین کے درمیان اتنا اندھیرا ہے جس کا آپ اندازہ نہیں لگا سکتے بالکل Pitch Darkness ہے۔ جب روشنی پڑنے کے بعد منعکس ہوتی ہے تو ہم تک پہنچی ہے۔ وہ روشنی جو ہم کو دکھائی نہیں دیتی، محسوس نہیں ہوتی جس کو ہم چھو نہیں سکتے وہ طاقت رکھتی ہے۔ اسی طرح سے گرمی کو لے لیجیئے۔ گرمی یا حدت بھی نظر نہیں آتی۔ اس کا کوئی بت نہیں، وجود یا نقشہ نہیں ہے لیکن یہ گرمی اور Heat ہے جو آپ کے کھیتوں کو پکار رہی ہے۔ پھولوں، پھلوں اور پودوں کی نشوونما کر رہی ہے لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ یہ حدت میں نے آتی ہوئی دیکھی اور چونسے آم پر پڑتی ہوئی دیکھی اور اس آم کو پکتے ہوئے دیکھاَ ایسے ہو نہیں سکتا۔ یہ بات ایسے ہی ہے جیسے کہ “ Mind Over The Matter “ کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ ذہن کی جو ایک منڈی لگی ہے اس کی طاقت آپ کے اچھے، توانا اور خوبصورت وجود پر شدت سے حاوی ہے۔ ذہن میں غصہ، غم، چالاکی، نفرت، شدت اور خوف جو ہیں یہ ساری چیزیں بھی Invisible ہیں۔ یہ نظر نہیں آ سکتیں اور نظر نہ آنے والی چیزوں نے آپ کی، میری اور ہم سب کی زندگی کا احاطہ کر رکھا ہے اور ہم کو بری طرح سے جکڑ رکھا ہے کہ ہم اس کے سامنے بے بس ہیں۔ اگر مجھے غصہ نظر آتا، نفرت کہیں سے بھی دکھائی دے جاتی تو میں اسے چھوڑ دیتا۔ اگر نفرت کی تصویر کھینچی جا سکتی تو پتہ چلتا کہ یہ کتنی بدشکل چیز ہے۔ اس کے کئی پاؤں ہوتے، گندی سی ہوتی۔ آدھی بلی اور آدھے چوہے کی صورت والی ہوتی۔ لیکن اسے ہم دیکھ یا چھو نہیں سکتے لیکن ہمارے دیکھے جانے والے وجود پر ان چیزوں کا قبضہ ہے۔ اب آپ اس بات پر تڑپتے پھرتے ہیں کہ خدا کے واسطے ہماری نفرتیں ختم ہوں، ہمارے ملک میں وہ سہولتیں آئیں جن کا اللہ سے وعدہ کیا گیا تھا کہ ہم اپنے لوگوں میں آسانیاں تقسیم کریں گے۔ وہ وعدہ پورا کرنے خدا کرے وقت آئے لیکن وہ ہماری یہ خواہش پوری اس لیے نہیں ہوتی کہ غیر مرئی چیزوں نے ہمیں پکڑ اور جکڑ رکھا ہے۔ جب آپ اپنے گھر والوں، دوستوں یا دشمنوں کے ساتھ لڑتے ہیں تو آپ اپنا غصہ یا نفرت کسی جسم رکھنے والی چیز کو صورت میں دکھا نہیں سکتے، محسوس کروا سکتے ہیں۔ آپ عموماً ایسی خبریں اخبار میں پڑھتے ہوں گے کہ چچی کو آشنائی کے شبہ میں ٹوکے کے وار سے ہلاک کر دیا۔ ایک بندہ گھر آیا اس نے اپنے بچوں کو بھی مار دیا۔ اسے کچھ نظر نہیں آ رہا ہے۔ مائنڈ اس پر اتنی شدت سے حملہ آور ہو رہا ہے کہ اسے اور کچھ سوجھ ہی نہیں رہا ہے اور وہ ذہن کے قبضے سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ اس سے یہ پتہ چلا کہ نظر میں نہ آنے والی چیزوں نے، مجھ نظر میں آنے والے کو اور میرے اردگرد جو دنیا آباد ہے، جو بڑی خوبصورت دنیا ہے اس پر تسلط جما رکھا ہے اور کسی کو ہلنے نہیں دیتیں۔ اس نظر نہ آنے والی چیز جسے سائنسدان “Mind Over The Matter “ کہتے ہیں اس نے میرے وجود پر قبضہ جما رکھا ہے۔

اخبار میں ہم اس طرح کے جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا خبریں پڑھتے ہیں۔ ان میں کوئی ٹھوس بات نہیں ہوتی۔ بس ذہن میں پیدا ہونے والی بات کی کارستانی ہوتی ہے اور ہم یہ شک یا خیال قائم کر لیتے ہیں۔ کہ یہ خرابی فلاں گروہ کے کی ہو گی اور ہم بغیر کسی دلیل، منطق یا Reason کے بمباری شروع کر دیتے ہیں جیسے افغانستان پر کی گئی۔ یہ کام ان پڑھ نہیں کرتے بلکہ پڑھے لکھے اور بہت زیادہ پڑھے لکھے لوگ کرتے ہیں۔ ایسا انفرادی طور پر بھی ہوتا ہے اور اجتماعی طور پر بھی ہوتا ہے۔ انبیاء جو ہم کو تعلیم دیتے رہے یہ ایسی بات کی تعلیم دیتے رہے کہ اے اللہ کے بندو خدا کے واسطے اس پیغام کی طرف رجوع کرو جو تمہیں غیر مرئی خدا نے دیا ہے۔ خواتین و حضرات خدا کی ذات سے زیادہ غیر مرئی چیز تو اور کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ وہ حواسِ خمسہ سے بہت باہر ہے اور بہت دور ہے لیکن اگر غیر مرئی چیزیں ہی طاقتور ہو سکتی ہیں تو اللہ جس میں Invisible ہے وہ تو پھر سب سے زیادہ طاقتور ہوا نا اور وہ سب سے زیادہ طاقتور ہے بھی۔ لوگ کئی دفعہ اس بات میں الجھ جاتے ہیں کہ کیونکہ ہمیں خدا نظر نہیں آتا ہے تو اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ پرسوں اس بات پر جھگڑا بھی ہو رہا تھا اور میں ان سے بار بار یہ عرض کر رہا تھا کہ یہ مت کہیے کہ چونکہ خدا ہمیں نظر نہیں آ رہا ہے، کشش ثقل دکھائی نہیں پڑ رہی ہے اور ہوا نظر نہیں آ رہی ہے تو اس کا پھر سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ آپ کے حواسِ خمسہ بہت محدود ہیں لیکن انسانی زندگیوں میں ایسے بھی بے شمار وقت آئے جب انسان پرسکون ہو کر مراقبے اور Meditation میں بیٹھا اور پھر وہ اپنے حواسِ خمسہ سے الگ ہو کر ایک اور دنیا میں داخل ہوا تو پھر اس کا کنکشن ان چیزوں سے ہوا جو غیر مرئی چیزوں کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ میں نے سنا ہے بحرالکاہل میں بہت جزیرے ہیں جہاں سے کرکٹ کھیلنے والے بھی آتے ہیں۔ ہاں یاد آیا کرکٹر لارا کے ملک ویسٹ انڈیز کے قریب ایک جزیرہ ہے۔ اس جزیرے پر لوگوں نے بڑی چاہت کے ساتھ ایک عبادت کدہ بنایا جس میں دنیا کی دھاتوں کو ملا کر ایسی گھنٹیاں بنائیں جو نہایت سریلی اور دلکش آوازیں پیدا کرتی تھیں اور دور دور سے لوگ آ کر اس عبادت کدے میں پرسگش کیا کرتے تھے چاہے ان کا کسی بھی مذہب سے تعلق کیوں نہ ہوتا۔ لوگ اس سرمدی باجے کی آوازوں میں اپنے اللہ کو یاد کرتے تھے۔ پھر سنتے ہیں کہ وہ جزیرہ آہستہ آہستہ غرقِ آب ہو گیا لیکن اس کی خوبصورت گھنٹیوں کی آواز لوگوں کو سنائی دیتی بھی۔ چند سال بیشتر فرانس کا ایک صحافی اس جزیرے کی کھوج میں نکلا اور اس جزیرے کو جغرافیائی طور پر تلاش کرنے کے بعد وہاں ان گھنٹیوں کو سننے کی کوشش کرتا رہا جو پانی کے نیچے اتر چکا تھا کیونکہ لوگ کہتے تھے کہ اگر کوئی صاحبِ گوش ہو تو اسے ان گھنٹیوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ وہ صحافی لکھتا ہے کہ میں بڑی دیر تک بیٹھا رہا۔ کئی دن اور ہفتے وہاں گزارے لیکن مجھے سوائے سمندر کی آوازوں کے اور شور کے اور سمندری بگلوں کی آوازوں کے اور کچھ سنائی نہ دیا۔ اس نے سوچا کہ یہ شاید پرانی کہانیوں میں سے ایک کہانی ہے چنانچہ وہ جانے سے بیشتر آخری بار اس مقام کو سلام کرنے کی غرض سے گیا۔ وہ وہاں بیٹھا اور اس نے افسوس کا اظہار کیا کہ میں اتنی دور، ہزاروں میل کا فاصلہ طے کر کے یہاں آیا اور اتنے دن یہاں گزارے لیکن وہ گوہر مقصود ہاتھ نہ آیا جس کی آرزو لے کر وہ چلا تھا۔ وہ انتہائی دکھ کی کیفیت میں وہاں بیٹھا رہا۔ وہ کہتا ہے کہ میں وہاں مایوسی کی حالت میں لیٹ گیا اور اس نے اپنے پاؤں گھٹنوں تک ریت میں دبا لیے تو اسے گھنٹیوں کی آواز سنائی دینے لگی۔ ایس آواز جو اس نے پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ وہ اتھ کر بیٹھ گیا اور وہ صدائیں اور ہوائیں جو پہلے اسے سنائی دے رہی تھیں ایک دم سے خاموش ہو گئیں اور ان گھنٹیوں کی آوازیں صاف سنائی دینے لگیں۔ وہ نظر نہ آنے والی آوازیں پانی کے اندر سے آنے لگیں۔ وہ صحافی کہتا ہے کہ جتنی دیر میرا دل چاہا میں وہ سریلی اور مدھر آوازیں سنتا رہا اور میں اب اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اگر صدیوں پہلے ڈوبے ہوئے عبادت کدے کی گھنٹیوں کی آواز سننی ہے تو سمندر کا شور سننا ہوگا اور اگر اپنے اللہ سے ملنا ہے تو اس کی مخلوق کو سننا ہو گا۔ یہی ایک راستہ ہے کیونکہ اللہ نظر نہ آنے والا ہے جبکہ اس کی مخلوق نظر آنے والی ہے۔ اگر آپ اس کی مخلوق کے ساتھ رابطہ
قائم کریں گے تو بڑی آسانی کے ساتھ وہ سڑک مل جائے گی جو گھنٹیوں والے عبادت کدے سے ہو کر ذاتِ خداوندی تک پہنچتی ہے۔ آج ہماری گفتگو میں یہ بات معلوم ہوئی کہ نظر نہ آنے والی چیز، نظر آنے والی چیز سے زیادہ طاقتور اور قوی ہوتی ہے اور یہ نظر نہ آنے والی ساری صفات ہمارے گوشت پوست کے انسان پر اور ہماری زندگی پر کس طرح سے حاوی ہیں اسے ہم تنہا بیٹھ کر بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں اور ان چیزوں نے ہمیں اذیت میں ڈال رکھا ہے اور یہ ہماری اچھی سی زندگی کا “ ماسٹر “ بن کر بیٹھی ہوتی ہیں۔

میری دعا ہے کہ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین۔

اللہ حافظ
 

شمشاد

لائبریرین
باب 38

باب 38

ان پڑھ سقراط

میں کب سے اپ کی خدمت میں حاضر ہو رہا ہوں اور آپ کے ارشاد کے مطابق وہی گن گاتا رہا ہوں جن کی آپ کو ضرورت تھی۔ آج میں آپ سے ایک اجازت مانگنے کی جرات کر رہا ہوں اور وہ یہ ہے کہ مجھے اس بات کی اجازت دیجیے کہ میں دبی زبان کی بجائے اونچی آواز میں کہ کہہ سکوں کہ جو انسان ان پڑھ ہوتا ہے اس کے پاس بھی اچھا اور ہائپوتھیلمس دماغ ہوتا ہے۔ وہ بھی سوچ سکتا ہے، وہ بھی سوچتا ہے۔ وہ بھی فاضل ہوتا ہے اور ہنر مند ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اور خاص طور پر ہمارے علاقے میں یہ بات بہت عام ہو گئی ہے کہ صرف پڑھا لکھا آدمی ہی لائق ہوتا ہے اور جو “ پینڈو “ آدمی ہے اور انگوٹھا چھاپ ہے اس کو اللہ نے دانش ہی نہیں دی ہے۔ اس سوچ نے ہماری زندگیوں میں ایک بہت بڑا رخنہ پیدا کر دیا ہے اور ہم ایک دوسرے سے جدا ہو گئے ہیں۔ ہمیں سیاسی، سماجی اور نفسیاتی طور پر بڑی شدت کا نقصان پہنچ رہا ہے جبکہ دوسرے ملکوں والے اپنی اجتماعی زندگی میں اس نقصان کے متاثرہ نہیں ہیں۔ ہماری چودہ کروڑ کی اتنی بڑی کمیونٹی ہے۔ اس کو ہم نے ایک طرف رکھا ہوا ہے اور میں آپ اور ہم سب جو سمجھدار لوگ ہیں جن کی تعداد زیادہ سے زیادہ دو لاکھ بنتی ہے ہم نے سارا حساب و کتاب سنبھال کے رکھا ہوا ہے اس اصل میں ہم ہی اس ملک کے آقا اور حکمران بنے بیٹھے ہیں۔ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں اور دست بستہ درخواست کرتا ہوں کہ وہ لوگ بھی ہمارے ساتھی ہیں۔ پنکچر لگانے والا، سائن بورڈ لگانے والا، بڑھئی، ترکھان بھی اپنے اندر ایک ہنر رکھتا ہے۔ اگر ہم اس کو سلام نہ کر سکیں تو کم از کم ان کے لیے دل میں یہ احترام تو رکھیں کہ یہ ویلڈر جس نے کالے رنت کی عینک پہن رکھی ہے اور ٹانکا لگا رہا ہے وہ بھی تقریباً اتنا ہی علم رکھتا ہے جتنا ہارٹ سرجن یا بائی پاس کرنے والے کا علم ہوتا ہے لیکن ہم نے ایسے ہنر مندوں کو ایک طرف رکھا ہوا ہے۔

میں 1971ء کے انتخابات میں ایک جگہ پر ریٹرننگ آفیسر تھا۔ ہم جلدی جلدی ووٹ ڈلوا رہے تھے وہاں ایک بابا آیا جس نے ریڑھی بنوائی ہوئی تھی۔ وہ معذور تھا اور اس ریڑھی کے ذریعے حرکت کرتا تھا۔ وہ آ کے کہنے لگا کہ جی میں “ تلوار نوں ووٹ پانا اے۔“

میں نے کہا کہ بابا جی بسم اللہ تو جہاں کہے گا مہر لگا دیں گے لیکن رش زیادہ ہے تھوڑا انتظار کر لو لیکن اس نے کہا کہ نہیں جی میرے پاس ٹائم نہیں ہے۔ وہاں میرے اسسٹنٹ کہنے لگے کہ جی اس کا ابھی ووٹ دلوا دیں۔ میں نے اسکی خوشنودی کے لیے کہا کہ بابا آپ کے ریڑھی بڑے کمال کی ہے یہ تو نے کہا سے لی۔

کہنے لگا یہ میں نے خود بنائی ہے۔ پہلے جو بنائی تھی اس کو میں نے بچوں والی سائیکل کے پہیئے لگائے تو وہ پکے پر خوب دوڑتی لیکن کچے میں وہ پھنس جاتی تھی۔ پھر میں نے لکڑی کے موٹے پہیئے لگائے تو وہ کچے میں اچھے چلتے تھے اور پکے میں یا سڑک پر بہت شور مچاتے تھے پھر میں نے بیرنگ لگا دیئے۔ بس ہر ہفتے مٹی کا تیل ڈال کر صاف کرنے پڑتے ہیں۔ (دیکھئے کہ وہ بابا چٹا ان پڑھ تھا) میں نے اس سے کہا کہ بابا یہ تو نے کیسے بنائی۔ وہ کہنے لگا کہ جی میں نے سوچ سوچ کے بنا لی۔

میں نے جب اس سے بار بار پوچھا کہ کیا تو نے یہ خود ہی بغیر کسی کی مدد کے بنا لی تو وہ بابا کہنے لگا “ بابا جی تہانوں میرے تے شک کیوں لے رہیا اے، ویکھو نہ جی اگر بندہ پڑھیا لکھیا نہ ہووے تے فیر دماغ توں ای کم لینا پیندا اے نا۔“

اس واقعہ کے بعد میں دیکھتا کہ لوگ کیسی کیسی مہارتیں رکھتے ہیں اور عام بغیر ڈگری ہنر مند کتنے ذہین ہیں۔ میں نے نوٹ کیا کہ ان عام ہنر مندوں کا اندازِ فکر بھی برٹنڈرسل یا سقراط ہی کی طرح کا ہوتا ہے اور یہ کیس آئن سٹائن سے کم نہیں ہیں۔ یہ بھی انگوٹھا چھاپ ہوتے ہیں اور نئی سے نئی ایجادیں کر ڈالتے ہیں۔ یہ زیادہ الفاظ نہیں جانتے ہوں گے لیکن ان کا دماغ عام پڑھے لکھے دماغوں کی طرح سے ہی کام کرتا ہے۔

ایک قصبہ موڑکھنڈا ہے۔ وہ بڑا پیارا علاقہ ہے۔ اس میں کافی جھگڑے وگڑے اور لڑائیاں بھی ہوتی ہیں، وہاں ایک کسان تھا اور اس کا بیٹا میرا واقف تھا۔ وہ ایم بی بی ایس کا طالب علم تھا اور فائنل ایئر میں تھا۔ گاؤں میں اس کا باپ حقہ پی رہا تھا۔ وہ کہنے لگا کہ اشفاق صاحب میرے بیٹے کو علم دیں جی۔ میں نے کہا کہ کیوں کیا ہوا۔ بہت اچھا علم حاصل کر رہا ہے۔ اس سے اعلٰی علم تو اور کوئی ہوتا ہی نہیں۔

وہ اپنے بیٹے کو مخاطب کر کے کہنے لگا کہ تو اشفاق صاحب کو بتا۔
وہ لڑکا کہنے لگا کہ جی میں ہارٹ سپیشلسٹ بننا چاہتا ہوں۔
اس کا باپ پھر کہنے لگا کہ “ بے وقوف ایک بندے وچ اک دل ہوندا اے، اوہندا علاج کر کے انہوں ٹور دیں گا فیر کسے آونائیں، تو دنداں دا علم پڑھ۔ بتی ہوندے نیں کدے نہ کدے کوئی نہ کوئی تے خراب ہوئے گا۔ ایس طرح بتی واری اک بندہ تیرے کول آئے گا۔“

خواتین و حضرات! سقراط کسی سکول سے باقاعدہ پڑھا لکھا نہیں تھا۔ کسی کالج، سکول یا یونیورسٹی کا اس نے منہ نہیں دیکھا تھا۔ آپ کے حساب سے جو ان پڑھ لوگ ہیں وہ Experiment بھی کرتے ہیں۔ ایک حیران کن بات ہے اور آپ یقین نہیں کریں گے۔ میں جہاں جمعہ پڑھنے جاتا ہوں وہاں ایک مولوی صاحب ہیں۔ اب جو مولوی صاحب ہوتے ہیں ان کی اپنی ایک سوچ ہوتی ہے۔ انہیں سمجھنے کے لیے کسی اور طرح سے دیکھنا پڑتا ہے اور جب آپ ان کی سوچ کو سمجھ جائیں تو پھر آپ کو ان سے علم ملنے لگتا ہے۔

وہ نماز سے پہلے تمام صفوں کے درمیان ایک چار کونوں والا کپڑا پھراتے ہیں جس میں لوگ حسبِ توفیق یا حسبِ تمنا کچھ پیسے ڈال دیتے ہیں۔ اس مرتبہ بڑی عید سے پہلے جو جمعہ تھا اس مین بھی وہ چوخانوں والا کپڑا پھرایا گیا اور جو اعلان کیا وہ سن کر میں حیران رہ گیا۔ وہ اس طرح سے تھا “ دوحہ قطر سے کوئی صاحب آئے تھے۔ انہوں نے مجھے پانچ ہزار روپے دیئے ہیں۔ میں نے وہ پیسے دو تین دن رکھے اور پھر میں نے اس روپوں کو سو سو اور پچاس پچاس کے نوٹوں میں Convert کروایا جنہیں اب میں یہاں لے آیا ہوں جو اس چوکونوں والے کپڑے میں ہیں۔ عید قریب ہے ہم سارے کے سارے لوگ صاحبِ حیثیت نہیں ہین اور جس بھائی کو بھی ضرورت ہو وہ اس کپڑے میں سے اپنی مرضی کے مطابق نکال لے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم پڑھتے ہیں کہ “ دس دنیا ستر آخرت۔“

آخر دینے سے کچھ فائدہ ہی ہوتا ہے جا! شاید وہ یہ ٹیسٹ کرتا چاہتا تھا کہ یہ بات جو لکھی ہوئی ہے یہ واقعی درست ہے یا پھر ایسے ہی چلتی چلی آ رہی ہے۔ میں نے دیکھا کہ اس کپڑے میں سے کچھ لوگوں نے روپے لیے۔ ایک نے پچاس کا نوٹ لیا۔ ایک اور شخص نے سو کا نوٹ لیا۔ کچھ ڈالنے والوں نے اس کپڑے میں اپنی طرف سے بھی نوٹ ڈالے۔ اگلے دن میں مولوی صاحب سے ملا اور ان سے کہا کہ گزشتہ روز آپ کا عجیب و غریب تجربہ تھا۔ ہم نے تو ایسا آج تک دیکھا نہ سنا۔ تو وہ کہنے لگا کہ جناب جب میں نے آخر میں اس رومال یا کپڑے کو کھول کر دیکھا اور گِنا تو پونے چھ ہزار روپے تھے۔ اب یہ بات میرے جیسے “پڑھے لکھے“ آدمی کے ذہن میں یا “دانش مند“ آدمی کے ذہن میں‌ نہیں آئی۔ ایک ان پڑھ کبھی کبھی ایسے ماحول یا تجربے سے گزرتا ہے اور پھر ایک ایسا نتیجہ اخذ کرتا ہے جو مجھ کتاب والے کو کبھی نہیں ملا۔

لاہور اور شیخوپورہ روڈ پر کئی ایک کارخانے ہیں۔ ایک بار مجھے وہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ جب میں وہاں کام کر کے فارغ ہونے کے بعد لوٹا اور گاڑی سٹارٹ کرنے لگے تو وہ سٹارٹ نہ ہو۔ خیر میں نے ڈرائیور سے کہا کہ تم اپنی Effort جاری رکھو مجھے جلدی واپس جانا ہے لٰہذا میں بس پر چلا جاتا ہوں تم بعد میں آ جانا۔ جب میں بس میں بیٹھا تو اور وہاں سواریاں بھی تھیں۔ ایک نیند میں ڈوبا ہوا نوجوان بھی تھا جس کی گودی میں ایک خالی پنجرہ تھا جیسے کبوتر یا طوطے کا پنجرہ ہوتا ہے۔ وہ نوجوان اس پنجرے پر دونوں ہاتھ رکھے اونگھ رہا تھا۔ جب اس نے آنکھیں کھولیں تو میرے اندر کا تجسس جاگا اور میں نے اس سے بات کرنا چاہی۔ میں نے اس سے کہا کہ یہ خالی پنجرہ تم گود میں رکھ کے بیٹھے ہو۔ وہ کہنے لگا کہ سر یہ پنجرہ کبھی خالی ہوتا ہے اور کبھی کبھی بھرا ہوا بھی ہوتا ہے۔ وہ کہنے لگا کہ اس میں میرا کبوتر ہوتا ہے جو اس وقت اپنی ڈیوٹی پر گیا ہوا ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ یہاں کھاد فیکٹری میں خرادیہ ہے اور ویلڈنگ کا کام بھی جانتا ہے اور چھوٹا موٹا الیکٹریشن کا کام بھی سمجھتا ہے۔ اس نے کہا کہ مجھے ہر روز اوورٹائم لگانا پڑتا ہے اور میں پانچ بجے چھٹی کے وقت پھر گھر نہیں جا سکتا اور گھر پر فون ہے نہیں جس پر بتا سکوں کہ لیٹ آؤں گا لٰہذا میں نے اپنا یہ کبوتر پالا ہوا ہے۔ اس کو میں ساتھ لے آتا ہوں۔ جس دن میں نے اوورٹائم لگانا ہوتا ہے اس دن میں اور میرا کبوتر اکٹھے رہتے ہیں اور میری بیوی کو پتہ چل جاتا ہے کہ ہم آج رات گھر نہیں آئیں گے لیکن جس دن اوورٹائم نہیں لگانا ہوتا تو میں کبوتر چھوڑ دیتا ہوں۔ وہ پھڑپھڑاتا ہوا اڑتا ہے اور سیدھا میری بیوی کے جھولی میں جا پڑتا ہے اور وہ قاصد کا کام کرتا ہے اور اسے پتہ چل جاتا ہے کہ آج اس کے خاوند نے گھر آنا ہے اور وہ کھانے پینے کا اہتمام کر دیتی ہے اور اس نے جو بھی مٹر قیمہ بنانا ہوتا ہے تیار کر دیتی ہے اور آج بھی کبوتر اپنی ڈیوٹی پر ہے۔ وہ کہنے لگا کہ صاحب میں پڑھا لکھا تو ہوں نہیں۔ میری چھوٹی سی عقل ہے۔ وہ میرا کبوتر گھر پہنچ چکا ہو گا۔ خواتین و حضرات پہلے تو مجھے اس پر بڑا تعجب ہوا کہ اس نے یہ بات سوچی کیسے؟

سوچی جانے والی بات کے حوالے سے حفیظ کا ایک بڑا کمال کا شعر ہے :

لب پہ آتی ہے بات دل سے ‘حفیظ‘
دل میں جانے کہاں سے آتی ہے

دل میں بات اس منبع سے آتی ہے جہاں سے سب کو علم عطا ہوتا ہے۔ یہ ان لوگوں کو بھی عطا ہوتا ہے جن کے پاس یونیورسٹی کی ڈگری نہیں ہوتی لیکن خدا کی طرف سے حصے کے مطابق ان کو علم عطا ہوتا رہتا ہے۔ وہ پنجرے والا کسی کے پیچھے نہیں گیا، کسی کا محتاج نہیں، کسی کی منت سماجت نہیں کی لیکن اس نے اپنی سوچ سے کبوتر کو پڑھایا، سمجھایا اور قاصد کا کام لیا۔

میرے پاس ولائیت اور یہاں کی بےشمار ڈگریاں ہیں لیکن اس سب علم اور ڈگریوں کے باوصف میرے پاس وہ کچھ نہیں ہے جو ایک پینڈو مالی کے پاس ہوتا ہے۔ یہ اللہ کی عطا ہے۔ بڑی دیر کی بات ہے ہم سمن آباد میں رہتے تھے۔ میرا پہلا بچہ جو نہایت ہی پیارا ہوتا ہے وہ میری گود میں تھا۔ وہاں ایک ڈونگی گراؤنڈ ہے جہاں پاس ہی صوفی غلام مصطفٰی تبسم رہا کرتے تھے۔ میں اس گراؤنڈ میں بیٹھا تھا اور مالی لوگ کچھ کام کر رہے تھے۔ ایک مالی میرے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ ماشاء اللہ بہت پیارا بچہ ہے۔ اللہ اس کی عمر دراز کرے۔ وہ کہنے لگا کہ جی میرا چھوٹے سے جو بڑا بیٹا ہے وہ بھی تقریباً ایسا ہی ہے۔ میں نے کہا ماشاء اللہ اس حساب سے تو ہم قریبی رشتہ دار ہوئے۔ وہ کہنے لگا کہ میرے آٹھ بچے ہیں۔ میں اس زمانے میں ریڈیو میں ملازم تھا اور ہم فیملی پلاننگ کے حوالے سے پروگرام کرتے تھے۔ جب اس نے آٹھ بچوں کا ذکر کیا تو میں نے کہا کہ اللہ ان سب کو سلامت رکھے لیکن میں اپنی محبت آٹھ بچوں میں تقسیم کرنے پر تیار نہیں ہوں۔ وہ مسکرایا اور میری طرف چہرہ کر کے کہنے لگا “ صاحب جی محبت تقسیم نہیں کیا کرتے۔ محبت کو ضرب دیا کرتے ہیں۔“

وہ بالکل ان پڑھ آدمی تھا اور اس کی جب سے کہی ہوئی بات اب تک میرے دل میں ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ واقعی یہ ضروری نہیں ہے کہ کسی کے پاس کی ہنر یا عقل کی ڈگری ہو۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ سوچ و فکر کا ڈپلومہ حاصل کیا جائے۔

ہم نے تعلیم یافتہ اور ان پڑھ کے الگ الگ درجے بنا لیے ہیں اب بدقسمتی سے تعلیم میں بھی مسئلے پیدا ہو گئے ہیں اور تعلیم یافتہ اور اعلٰی تعلیم یافتہ کا چکر شروع ہو گیا ہے۔ ایک بڑے اور ایک کمتر سکول کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ پچھلے دنوں ایک مہندی کا پروگرام تھا میں بھی وہاں تھا۔ تو لڑکیاں ناچتی واچتی رہیں اور سخت ہنگامہ رہا۔ وہاں پانچ چھ لڑکیاں تھیں۔ وہ میرے ساتھ بات کرنے لگیں۔

انہیں آرزو تھی مجھ سے بات کرنے کی۔ انہوں نے مجھے دیکھا تو میرے پاس آ گئیں۔ جب وہ مجھ سے بات کر رہی تھیں تو میرے پوتی چیل کی طرح میرے اوپر جھپٹی اور کہا کہ دادا یہ آپ کن سے باتیں کر رہے ہیں یہ تو اُردو میڈیم کی لڑکیاں ہیں۔ یعنی یہ بات ہمارے بچوں کے اندر بھی آ گئی ہے۔

اس بار عید پر میری بیوی نے ہمارے گوالے بشیر کو جو طبیعت کا بڑا سخت ہے اس سے کہا کہ ایک سیر دودھ زیادہ دے دو۔ اس نے کہا “ اچھا آپا جی “۔ ساتھ والوں نے تھی ایسے ہی زیادہ دودھ لیا اور ساتھ ساتھ کئی گھروں کو ان کی مرضی کے مطابق زیادہ دودھ دیا۔ میری بیوی نے اس سے بڑی شکایت کی اور اس سے کہا کہ بشیرے خدا کا خوف کرو اور کچھ شرم کرو تمہارا بڑا نام اور شہرت اچھی ہے اور تم اس محلے میں کب سے دودھ دے رہے ہو۔ اس مرتبہ تم ہم کو عید پر پانی والا دودھ دے گئے۔

اس نے جواب دیا “ آپا جی بات یہ ہے کہ عید کے قریب سب لوگ جب مجھ سے ایک ایک سیر زیادہ دودھ مانگیں گے تو میں ایک دن کے لیے نئی بھینس تو خرید نہیں سکتا۔ پھر ایسا ہی دودھ دوں گا۔“ اب میری بیوی کے پاس اس کو دینے کے لیے کوئی جواب نہیں تھا۔ میری اپ کی خدمت میں یہ درخواست ہی ہے اور ایک عرض ہی ہے کہ خدا کے واسطے ہم 20 لاکھ پڑھے لکھے لوگ دوسرے 14 کروڑ کو بھی اہمیت اور احترام دیں۔ انہیں اچھوت نہ سمجھیں اور ان سب کو اپنے ساتھ ملا لیں۔ انہیں مال میں سے حصہ نہ بٹائیں۔ رشتہ داری قائم نہ کریں لیکن انہیں پیار محبت اور عزت ضرور دے دیں۔ اگر ہم ان کو اپنے قریب رکھیں گے اور اس حکم کا پاس کریں کہ کسی گورے کو کالے اور کالے کو گورے اور عربی کو عجمی پر کائی فوقیت نہیں ہے اور تم میں سے بڑا وہ ہے جو تقوٰی میں سب سے بڑا ہے۔ اگر اس فرمان پر عمل کریں تو یہ ان پڑھ سقراط اور آئن سٹائن ہمارے لیے ہی آسانیوں کا باعث بنیں گے اور ہمیں ویسے ہی عزت لوٹائیں گے جیسی ہم ان سے کریں گے۔ عجز و انکساری گو ایک مشکل بات ہے لیکن یہ تقوٰی کے حصول کے لیے ضروری ہے۔ ہمارے ہاں جتنے “ اکھان “ (ضرب الامثال) ہیں یہ سب ان پڑھ لوگوں نے اپنے تجربات سے بنائی ہیں کہ :

مر جاویں گا بھائیا کھوتیا
اے ساوے ہیٹھ کھلوتیا
اے آوا نئیوں مکنا
تے تو نئیوں چُھٹنا

یہ ایک سوچ کی بات ہے ایسے ہی نہیں باہر آ جاتیں۔ یہ دانش کی اور فلسفیوں کی باتیں ہیں۔ آج کے بعد سے آپ ان فلسفیوں کو جن کے پیشے بہت چھوٹے ہیں۔ کوئی کوچوان ہے، کوئی حجام ہے، کوئی موچی ہے لیکن ان کے پاس ان کا ہنر ہے۔ ان کا بھی علم ہے اور یہ عزت کے جائز طور پر مانگنے والے ہیں اور ہم ایمانداری کے ساتھ انہیں ان کی عزت نہیں دے رہے۔ امید ہے کہ آپ میری درخواست پر ضرور توجہ فرمائیں گے۔

اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین۔

اللہ حافظ۔
 

شمشاد

لائبریرین
باب 39

باب 39

بونگیاں ماریں، خوش رہیں

ہم اہلِ زاویہ کی طرف سے آپ سب کو سلام پہنچے۔ آج کے اس “ زاویے “ میں میرا کچھ سنجیدہ انداز اختیار کرنے کو جی نہیں چاہتا بلکہ آج کچھ ہلکی پھلکی سی باتیں ہونی چاہئیں اور میں سمجھتا ہوں کہ زندگی ہلکی پھلکی باتوں سے ہی عبارت ہے۔ ہم اس پروگرام کے شروع ہونے سے پہلے کچھ سنجیدہ اور گھمبیر قسم کی باتیں کر رہے تھے اور میرے ذہن میں یہ لہر بار بار اٹھ رہی تھی کہ پاکستان کے اندر ہماری بہت سے مشکل منازل موجود ہیں جن میں بہت بڑا ہاتھ ان اونچے پہاڑوں کا بھی ہے جو اللہ تعالٰی نے اپنی کمال مہربانی سے ہم کو عطا کیے ہیں۔ دنیا کا سب سے اونچا پہاڑ کے-ٹو پاکستان میں ہے۔ میں اسے سب سے اونچا یوں کہوں گا کہ بہت سے جغرافیہ دان اور ہئیت دان یہ کہتے ہیں کہ ہمالیہ کی چوٹی اتنی اونچی نہیں ہے جتنی کہ کے-ٹو کی ہے۔ یہ ہمالیہ سے دو فٹ یا دو فٹ کچھ انچ اونچا ہے۔ کے-ٹو کی چوٹی ہمارے پاس ہے، ناگا پربت کی چوٹی ہمارے پاس ہے، راکا پوشی کی چوٹی کے ہم مالک ہیں۔ مجھے بھی آپ کی طرح ان چوٹیوں سے بڑی محبت ہے۔ اوپری منزل یا ان چوٹیوں پر پہنچنے کے لیے جب انسان رختِ سفر باندھتا ہے تو وہ صرف ایک ہی ذریعہ استعمال نہیں کرتا۔ پہلے انسان جیپ کے ذریعے پہاڑ کے دامن تک پہنچتا ہے پھر آپ کو ٹٹو یا خچر کی ضرورت محسوس ہو گی۔ اس کے بعد ایک مقام ایسا آ جائے گا کہ راستہ دشوار گزار ہو جائے گا اور پیدل چلنا پڑے گا۔ پھر ایک ایسی جگہ آئے گی جب آپ کو رسوں کا استعمال کرنا پڑے گا۔ تب کہیں جا کر آپ اوپر اپنی منزل تک پہنچ جائیں گے۔ زندگی میں صحتِ جسمانی اور صحتِ روحانی کر برقرار رکھنے کے لیے انسان ایک ہی طریقہ علاج نہیں اپنا سکتا ہے بلکہ اسے مختلف طریقے اور ذرائع استعمال کرتا پڑتے ہیں۔ ایلوپیتھک علاج ہے، حکمت ہے، ہومیو پیتھک کا طریقہ ہے اس کے علاوہ چائنیز کا طریقہ علاج ہے جس میں وہ صبح سویرے اٹھ کر قدرت سے کرنٹ حاصل کرتے ہیں۔ ہم نے چائنا میں دیکھا کہ وہ صبح باہر کھڑے ہو کر ہاتھ ہلاتے رہتے ہیں اور قدرتی انرجی اپنے اندر سمیٹتے رہتے ہیں اور اپنی بیٹری چارج کرتے ہیں۔ اس قسم کی باتیں اور چیزیں ہمارے ہاں ہمارے بزرگوں، بڑوں اور بابوں نے بھی سوچی ہیں اور ان کی ان باتوں کو جو میرے جیسا آدمی چوری چوری سنتا اور سیکھتا رہا، ان میں سے ایک طریقہ علاج یہ بھی ہے کہ وہ روحانی ادویات کا استعمال رکھتے ہیں۔ خواتین و حضرات، یہ روحانی ادویات کہیں فروخت نہیں ہوتیں۔ کوئی ایسا بازار یا مرکز نہیں ہے جہاں سے جا کر ڈاکٹری نسخہ کی طرح ادویات خرید سکیں۔ نہ تو یہ گولیوں کی شکل میں ہوتی ہیں نہ یہ ٹنکچر ہوتی ہیں نہ ان کی ڈرپ لگ سکتی ہے اور نہ ہی یہ ٹیکوں کی صورت میں دستیاب ہوتی ہیں۔ یہ تو کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کا کچھ نہ ہونا سا بھی ہونے کی طرح سے ہے۔ میری اور آپ کی زندگی کا سارا دارومدار یہی ہے کہ کوشش اور جدوجہد کرنی ہے اور یہی ہمیں پڑھایا اور سکھایا گیا ہے۔ لیکن چینی فلسفہ تاؤ کے ماننے والے کہتے ہیں کہ ٹھوس اور نظر میں آنے والی چیز اور جو بظاہر آپ کو مفید نظر آئے وہ درحقیقت مفید نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر آپ لاہور سے اسلام آباد جانا چاہتے ہیں۔ آپ اپنی کار نکالتے ہیں اور اسے سٹرک پر تیزی سے بھگاتے ہیں۔ آپ کی یہ کوشش اور تیز بھگانا ایک ساکن چیز سے وابستہ ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ تیزی سے گھومتا ہوا پہیہ ایک نہایت ساکن دھرے کے اوپر کام کرتا ہے۔ اگر وہ دھرا ساکن نہ رہے اور وہ بھی گھومنے لگ جائے تو پھر بات نہیں بنے گی۔ اس کوشش اور جدوجہد میں تیزی سے مصروف پہیئے کے پیچھے مکمل سکون ہے۔ اور خاموشی و استقامت اور حرکت سے مکمل گریز ہے۔ مجھ سے اور آپ سے یہ کوتاہی ہو جاتی ہے کہ ہم تیز چلنے کے چکر میں پیچھے اپنی روح کی خاموشی اور سکون کو توڑ دیتے ہیں۔ ہمارے سیاستدان بھی چلو بھاگو دوڑو کی رٹ لگاتے ہیں اور “ آوے ای آوے اور جاوے ای جاوے “ کے نعرے لگاتے ہیں۔ زندگی اللہ کی بنائی ہوئی ہے اور اس نے زندگی میں حسن رکھا ہے۔ میرے سامنے پڑی چائے کی پیالی کے درودیوار اس کا کنڈا یہ مفید نہیں ہے بلکہ اس کا خلا مفید ہے۔ ہم پیالی کے کنارے پر چائے رکھ کے نہیں پی سکتے۔ اس لیئے خلا کی اہمیت اس کی نظر آنے والی بیرونی خوبصورتی سے زیادہ ہے۔ ہم جس گھر میں رہتے ہیں وہ گھر کے خلا کے اندر رہتے ہیں۔ کیڑے مکوڑوں کی طرح دیوار میں گھس کر نہیں رہتے۔ دیواریں کسی کام نہیں آتیں بلکہ خلا کام آتا ہے۔ آپ زندگی کے ساتھ شدت کے ساتھ نہ چمٹ جایا کریں اور ہر مفید نظر آنے والی چیز کو بالکل ہی مفید نہ سمجھ لیا کریں۔ میں روحانی دوا کی بات کر رہا تھا جو عام کسی طبیب کے ہاں نہیں ملتی یا کسی ملٹی نیشنل لیبارٹری میں تیار نہیں ہوتی۔ یہ دوائیں آپ کو خود بنانا پڑتی ہیں اور ان دواؤں کے ساتھ ایسے ہی چلنا پڑتا ہے جیسے بے خیالی میں آپ کسی کھلے راستے سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ان روحانی ادویات کا نسخہ بھی کسی جگہ سے لکھا ہوا نہیں ملتا ہے۔ یہ آپ کو اپنی ذات کے ساتھ بیٹھ کر اور خود کو ایک طبیعت کے سامنے دوزانوں ہو کر بیٹھنے کے انداز میں پوچھنا پڑتا ہے کہ بابا جی یہ میری خرابی ہے اور یہ میرے الجھن ہے اور پھر آپ ہی کے اندر کا وجود با طبیب بتائے گا کہ آپ کو کیا کرنا ہے۔ جب آپ خود اپنی ذات سے خامیاں خوبیاں پوچھنے اور سوال و جواب کرنے بیٹھ جاتے ہیں تو مسئلے حل ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

ہمارے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ڈپریشن کے مرض سے پریشان ہیں۔ کروڑوں روپے کی ادویات سے ڈپریشن ختم کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں اور یہ مرض ایسا ہے کہ خوفناک شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اور اچھوت کی بیماری لگتا ہے۔ ہمارے بابے جن کا میں ذکر کرتا ہوں وہ بھی اس Stress یا ڈپریشن کے مرض کا علاج ڈھونڈنے میں لگے ہوئے ہیں تا کہ لوگوں کو اس موذی مرض سے نجات دلائی جائے۔ پرسوں ہی جب میں نے بابا جی کے سامنے اپنی یہ مشکل پیش کی تو انہوں نے کہا کہ کیا آپ ڈپریشن کے مریض کو اس بات پر مائل کر سکتے ہیں کہ وہ دن میں ایک آدھ دفعہ “ بونگیاں “ مار لیا کرے۔ یعنی ایسی باتیں کریں جن کا مطلب اور معانی کچھ نہ ہو۔ جب ہم بچپن میں گاؤں میں رہتے تھے اور جوہڑ کے کنارے جاتے تھے اور اس وقت میں چوتھی جماعت میں پڑھتا تھا اس وقت بھی پاپ میوزک آج کل کے پاپ میوزک سے بہت تیز تھا اور ہم پاپ میوزک یا گانے کے انداز میں یہ تیز تیز گاتے تھے :

“ مور پاوے پیل
سپ جاوے کُھڈ نوں
بگلا بھگت چک لیاوے ڈڈ‌ نوں
تے ڈڈاں دیاں لکھیاں نوں کون موڑ دا “

(مور ناچتا ہے جبکہ سانپ اپنے سوراخ یا گڑھے میں جاتا ہے۔ بگلا مینڈک کو خوراک کے لیے اچک کر لے آتا ہے اور اس طرح سب اپنی اپنی فطرت پر قائم ہیں اور مینڈک کی قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے)۔ ہم کو زمانے نے اس قدر سنجیدہ اور سخت کر دیا ہے کہ ہم بونگی مارنے سے بھی قاصر ہیں۔ ہمیں اس قدر تشنج میں مبتلا کر دیا ہے کہ ہم بونگی بھی نہیں مار سکتے باقی امور تو دور کی بات ہیں۔ آپ خود اندازہ لگا کر دیکھیں آپ کو چوبیس گھنٹوں میں کوئی وقت ایسا نہیں ملے گا جب آپ نے بونگی مارنے کی کوشش کی ہو۔ لطیفہ اور بات ہے۔ وہ باقاعدہ سوچ سمجھ کر موقع کی مناسبت سے سنایا جاتا ہے جبکہ بونگی کسی وقت بھی ماری جا سکتی ہے۔ روحانی ادویات اس وقت بننی شروع ہوتی ہیں جب آپ کے اندر معصومیت کا ایک ہلکا سا نقطہ موجود ہوتا ہے۔ یہ عام سی چیز ہے چاہے سوچ کر یا زور لگا کر ہی لائی جائے خوبصورت ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں :

بہتر ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

عقل کو رسیوں سے جکڑنا نہیں اچھا جب تک عقل کو تھوڑا آزاد کرنا نہین سیکھیں گے۔ ہماری کیفیت رہی ہے جیسی گزشتہ 53 برسوں میں رہی ہے (یہ پروگرام سن 2000 میں نشر ہوا تھا)، صوفیائے کرام اور بزرگ کہتے ہیں کہ جب انسان آخرت میں پہنچے گا اور اس وقت ایک لمبی قطار لگی ہو گی۔ اللہ تعالٰی وہاں موجود ہوں گے وہ آدمی سے کہے گا کہ “ اے بندے میں نے تجھے معصومیت دے کر دنیا میں بھیجا تھا وہ واپس دے دے اور جنت میں داخل ہو جا۔“

جس طرح گیٹ پاس ہوتے ہیں اللہ یہ بات ہر شخص سے پوچھے گا لیکن ہم کہیں گے کہ یا اللہ ہم نے تو ایم-اے، ایل ایل بی، پی ایچ ڈی بڑی مشکل سے کیا ہے لیکن ہمارے پاس وہ معصومیت نہیں ہے لیکن خواتین و حضرات، روحانی دوا میں معصومیت وہ اجزائے ترکیبی یا نسخہ ہے جس کا گھوٹا لگے کا تو روحانی دوا تیار ہو گی اور اس نسخے میں بس تھوڑی سی معصومیت درکار ہے۔ اس دوائی کو بنانے کے لیے ڈبے، بوتلیں وغیرہ نہیں چاہئیں بلکہ جب آپ روحانی دوا بنائیں تو سب سے پہلے ایک تھیلی بنائیں جس طرح جب ہم بڈھے لوگ سفر کرتے ہیں تو دواؤں کی ایک تھیلی اپنے پاس رکھتے ہیں۔ بہت سی ہوائی کمپنیاں ایس ہیں جن کے ٹکٹ پر لکھا ہوتا ہے کہ Check your passport your visa and their validity and your medicine bage آپ کو بھی اکی تھیلی تیار کرنی پڑے گی جس کے اندر تین نیلے منکے یا جو بھی آپ کی پسند کا رنگ ہے اس کے منکے اور اعلٰی درجے کی کوڈیاں، ایک تتلی کا پر، اگر تتلی نہ ملے تو کالے کیکر کا پھل، کوئی چھوٹی سی آپ کی پسند کی تصویر، چھوٹے سائز میں سورۃ رحٰمن اور اس کے اندر ایک کم از کم 31 دانوں یا منکوں والی تسبیح ہونی چاہیے۔ اس تھیلی میں ایک لیمن ڈراپ ہونا چاہیے۔ اس تھیلی میں ایک سیٹی اور ایک پرانا بلب بھی رکھیں۔ پھر آپ لوٹ کر معصومیت کی طرف آئیں گے۔ یہ میری پسند کی چیزوں پر مبنی تھیلی ہے۔ آپ اپنی پسند پر مبنی چیزیں اپنی تھیلی میں رکھ سکتے ہیں۔ اس پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن یہ تھیلی ہونی ضرور چاہیے کیونکہ ہم معصومیت سے اتنے دور نکل گئے ہیں اور اس قدر سمجھدار ہو گئے ہیں اور چالاک ہو گئے ہیں کہ اللہ نے جو نعمت ہمیں دے کر پیدا کیا تھا اس سے آج تک فائدہ اٹھا ہی نہیں‌ سکے۔ خداوند تعالٰی نے کہا تھا کہ “ میں تمہارا ذمہ دار ہوں رزق میں دوں گا۔ عزت و شہرت تمہیں میں دوں گا اور اولاد سے نوازوں گا “ لیکن ہم کہتے ہیں کہ نہیں ہم تو خود بڑے عقلمند آدمی ہیں۔ یہ ساری چیزیں ہم اپنی عقلمندی سے پا سکتے ہیں اور اسی زعم میں تشنج کی زندگی میں مبتلا ہیں۔ میرا چھوٹا پوتا اویس سکول میں پڑھتا ہے۔ وہ ایک دن سکول سے آیا تو بڑا پریشان تھا اور گھبرایا ہوا بھی تھا۔ اس نے اپنی ماں سے کہا کہ “ ماما آج سکول میں کھیلتے ہوئے میری قمیص کا بٹن ٹوٹ گیا ہے۔ میں اپنا بٹن تو تلاش کر لیا لیکن مجھے وہ دھاگہ نہیں ملا جس سے یہ لگا ہوا تھا۔“

اب آپ اندازہ کریں کہ ہم اپنے بچوں کو کس انتہا درجے کی اور پریشان کن ذمہ داری سکھا رہے ہیں۔ میں نے اسے گود میں اٹھا لیا اور کہا کہ بیٹا بٹن جب گرتا ہے تو اس کے ساتھ دھاگہ نہیں گرتا۔ اس کی ماں ہنسنے لگی کہ دیکھو کتنا بیوقوف ہے۔ میں نے کہا۔ یہ کتنا بےوقوف نہیں بلکہ کتنا معصوم ہے۔ ہم کتنا بھی بچوں کو سکھا لیں لیکن ان سے قدرتی معصومیت تو جاتے جاتے ہی جائے گی۔ خواتین و حضرات اس معصومیت کو ہمیں واپس لانا ہے۔ جب تک ہمیں وہ واپس نہیں ملے گی ہم اپنا علاج نہیں کر پائیں گے۔ آپ نے جو تھیلی بنائی ہے اسے آپ نے ہفتے میں دو تین مرتبہ کھول کر بھی دیکھنا ہے۔ اگر اسے نہیں دیکھں گے تو آپ کی مشکلات دور نہیں ہوں گی۔ یہ معصومیت کی تھیلی آپ کو سکون فراہم کرے گی۔ آپ کی معصومیت لوٹائے گی۔ اونچی منزل تک پہنچنے کے لیے رسی درکار ہوتی ہے۔ صرف پیدل چل کر ماؤنٹ ایورسٹ سر نہیں کیا جا سکتا۔ میرے خالہ زاد بھائی کی بیٹی جو میری بھتیجی بھی لگتی ہے اس کی شادی تھی اور رخصتی کے وقت ہماری وہ بیٹی سب سے مل رہی تھی اور وہ اپنے باپ سے بھی بڑی محبت سے جھپی ڈال کے ملی۔ پھر اس نے اپنے پرس سے کچھ نکال لیا اور وہ نکالی ہوئی پڑیا سی اپنے والد کو دے دی۔ اس کے بعد جب وہ مجھے ملنے لگی تو میں نے کہا بیٹا وہ تو نے پرس سے نکال کر اپنے باپ کو کیا دیا ہے۔

وہ کہنے لگی تایا کچھ نہیں تھا۔
میں نے کہا کہ میرے آنکھوں نے کچھ دیکھا ہے۔

وہ کہنے لگی کہ تایا جان میں نے ابو کا کریڈٹ کارڈ انہیں واپس کیا تھا کیونکہ اب میں نے ایک اُلو اور پکڑ لیا ہے۔ اس کے پاس بھی کریڈٹ کارڈ ہو گا۔ مجھے اس کا وہ انداز اور معصومیت بڑی پسند آئی۔ اگر میرے جیسا لالچی ہوتا تو کہتا کہ ایک یہ بھی رکھ لیتا ہوں ایک دوسرا ہو گا۔ ابو نے کیا کہنا ہے۔ میں اپنے اور آپ کے لیے یہ تجویز کروں گا کہ ڈپریشن کے مرض کی کسی اور طرح سے گردن ناپی جا سکتی ہے۔ سوائے اس کے کہ آپ اس کی آنکھ میں آنکھ ڈال کے دو عدد بونگیاں نہ ماریں۔ ان بونگیوں سے ڈپریشن دور بھاگتا ہے۔ سنجیدگی کو اگر گلے کا ہار بنائیں گے تو جان نہیں چھوٹے گی۔ ہم اس آرزو کے ساتھ کہ ساری دنیا اور بالخصوص میرے ملک کے لوگوں کو اللہ آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

اللہ حافظ۔
 

شمشاد

لائبریرین
باب 40

باب 40

آٹو گراف

میں اب جب کبھی اپنے بالا خانے کی کھڑکی کھول کے دیکھتا ہوں تو میرے سامنے ایک لمبی گلی ہوتی ہے جو بالکل سنسان اور ویران ہوتی ہے۔ جب میں اسے دور تک دیکھتا ہوں تو لے دے کے ایک ہی خیال میرے ذہن میں رہتا ہے کہ یہاں وہ شخص رہتا ہے جس نے 1982ء میں میرے ساتھ یہ زیادتی کی تھی کہ اس کے سامنے وہ شخص رہائش پذیر ہے جو 1971ء میں میرے ساتھ قطع تعلق کر کے اپنے گھر بیٹھ گیا اور اس کے بعد سے ہم نے ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کی۔ سارے محلے میں سارے رشتے کچھ اسی طرح کے ہو چکے ہیں اور باوصف اس کے کہ کہیں کہیں ہم ایک دوسرے سے سلام و دعا بھی کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے احوال بھی دریافت کرتے ہیں لیکن اندر سے ہم بالکل کٹ چکے ہیں اور ہمارے اندر جو انسانی رشتے تھے وہ بہت دور چلے گئے ہیں۔ میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ کچھ لوگوں کو فیل ہونے کا بڑا شوق ہوتا ہے اور وہ ساری زندگی Failure میں گزار دیتے ہیں۔ ان کا تعلق ہی ناکامی سے ہوتا ہے۔ انہیں اندر ہی اندر یہ خدشہ لگا رہتا ہے کہ کہیں میں کامیاب نہ ہو جاؤں۔ خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ میں کامیاب زندگی بسر کرنے لگوں اور ایک اچھا Relaxed اور پرسکون شخص بن کر اس معاشرے کو کچھ عطا کر کے پھر یہاں سے جاؤں۔ ان لوگوں میں میں بھی شامل ہوں۔ یہ سارے الزام اور Blames جو مجھ کو میری زندگی میں لوگوں کی طرف سے ملتے رہے ہیں میں انہیں اکٹھا کر کے گلدستے کی طرح باندھ کے ان کی Catalog کر کے اپنی کاپی یا ڈبے کے اندر ایسے ہی محفوظ کرتا رہتا ہوں جیسے لڑکیاں اپنے البم سجھاتی ہیں۔ گو اب ان کے البموں میں تھی پہلے سی تصویریں نہیں رہی ہیں بلکہ ان کے دل کے البموں میں بھی وہ سارے کے سارے دکھ ایسے ہی ہیں کہ فلاں شخص نے مجھے طعنہ دیا اور فلاں شخص نے مجھے فلاں کہا اور میں نے اسے نوٹ کر کے دل کی ڈائری میں درج کر لیا۔ یہ چیز کچھ اس شدت کے ساتھ عام ہو گئی ہے کہ اس کا نکالنا Psychiatrist اور سائیکی سمجھنے کے ماہر افراد اور ڈاکٹروں کے لیے اور ان کے ساتھ ساتھ پیروں فقیروں کے لیے بھی مشکل ہو گیا ہے۔

جب ہم ایسے مسائل لے کر جگہ بہ جگہ مارے مارے پھرتے ہیں کہ ہمارے ذہن مین کنکھجورے کی طرح چمٹا اور جما ہوا خیال کیسے نکالا جائے اور اس سے کیسے چھٹکارہ حاصل کیا جائے۔ اس حوالے سے ہمارے بابے ایک ہی بات کرتے ہیں کہ اس کے لیے مراقبے کر بڑی سخت ضرورت ہے۔ جب تک آپ شام کے وقت مغرب کے بعد کسی تنہائی کے ماحول میں اپنی ذات کا مطالعہ نہیں کریں گے تب تک آپ پر یہ حقیقت آشکار نہیں ہو گی کہ میرا رویہ ناکامی کی طرف کیوں بڑھ رہا ہے۔ میں اس کی طرف کیوں رجوع کر رہا ہوں حالانکہ مجھے تو زندگی میں کامیاب ہونے کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور میں ایک کامیاب زندگی کا پیغام لیکر آپ کے پاس آیا ہوں لیکن پریشانی کا معاملہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ذات کا مطالعہ نہیں کر سکتا اور ساری زندگی دوسروں کے ساتھ جھگڑتا چلا جاتا ہے حالانکہ اس کو اللہ تعالٰی نے ایک اعلٰی درجے کا کمپیوٹر دیا ہوا ہے جو اس کی اپنی ذات ہے اور وہ اس کمپیوٹر کو آپریٹ بھی کر سکتا ہے اور سکرین کے اوپر ساری تصویر آ سکتی ہے کہ خطا اور خامی کس کی ہے لیکن ہم اس کمپیوٹر کو جو ہمارے اندر فٹ ہے اسے Operate کرنا نہیں جانتے ہیں۔ جانتے اس لیے نہیں ہیں کہ کسی نے ہمیں تلاوتِ وجود کا فن نہیں سکھایا۔ آپ کا وجود بھی کتاب ہی کی مانند ہے۔ اس کی تلاوت کیے بغیر آپ پر راز اور حقائق نہیں کھلیں گے اور اپ اس کے برعکس سیدھے سبھاؤ اس سمت میں چلتے جاتے ہیں کہ گویا اس شخص نے میرے ساتھ یہ سلوک کیا تھا تو میں اب اس کے ساتھ یہ سلوک کروں گا جبکہ دونوں کا سلوک اپنے اپنے مقام پر اس بات کا متقاضی ہوتا ہے کہ اس بات کو جانچا اور چھانٹا جائے کہ کہاں میری غلطی ہے اور کہاں اس کی غلطی ہے اور جہاں پر اپنی غلطی نکلے وہاں بھی میں اپنی غلطی کا سہارا لے کر اور خود کو ہی غلط قرار دے کر اس کی طرف رجوع کروں۔

جب ہم لاہور سمن آباد میں رہتے تھے اس وقت سمن آباد ایک چھوٹی سے بستی ہوتا تھا اب تو ماشاء اللہ بہت بڑی ہو گئی ہے۔ وہاں میرے چچا کا سامنے والے گھر سے بڑا جھگڑا تھا۔ اس گھر میں ایک صاحب اور میرے چچا اکٹھے ہی مسجد نماز پڑھنے جاتے تھے لیکن وہ ایک دوسرے سے بولتے نہیں تھے۔ میں چچا سے کئی بار کہتا تھا کہ آپ بزرگ ہیں ان سے کوئی کلام کریں تو وہ کہتے “ یار لعنت بھیجو تم نے اس کی شکل دیکھی ہے وہ ہے ہی منحوس اور اس کا گھر دیکھو۔ بالکل ٹیڑھا ٹیڑھا سا ہے۔ جب اس کا گھر ہی سیدھا نہیں ہے تو یہ کیسے ٹھیک شخص ہو گا۔“

میں ان سے کہتا تھا کہ نہیں چچا آپ کی طبیعت میں غصہ ہے اس لیے اپ کو ایسا لگتا ہے۔ خواتین و حضرات آپ بھی اپنی ذات پر نظر دوڑا کر دیکھیں۔ آپ کو بھی اس طرح کے ہزار قصے ملیں گے جو آپ کے ذات سے وابستہ ہوں گے۔

ایک روز وہ صاحب جن سے ہمارے چچا کی لڑائی تھی وہ ایک تحریر لے کر چچا کے پاس آ گئے۔ وہ عربی کی تحریر تھی۔ انہوں نے چچا سے جو کچھ کچھ عربی جانتے تھے ان سے کہا کہ خان صاحب آپ ذرا دیکھ لیں کہ یہ کیا لکھا ہے۔ چچا نےعجیب ناگواری سے “پھوں پھوں“ کر کے وہ کاغذ ان صاحب کے ہاتھ سے لیا اور دیکھ کر کہنے لگے کہ مجھے تو اس میں ایسی کوئی خاص بات نظر نہیں آتی۔ اس صاحب نے پھر کہا کہ خان صاحب میں آپ سے “ اِس “ فقرے کے معانی پوچھنا چاہتا ہوں۔ چچا کہنے لگے کہ میرے پاس اس وقت عینک نہیں ہے، نہیں تو میں آپ کو ضرور بتا دیتا۔ تب ان صاحب نے اپنی عینک آگے بڑھا دی (ہم بڈھوں کی عینک کا نمبر تقریباً ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔)

چچا وہ عینک لگا کر پڑھنے لگے اور سر اٹھا کر ان صاحب کو دیکھا اور مخاطب کر کے کہنے لگے کہ شیخ صاحب اپ کا گھر بہت خوبصورت ہے، تو انہوں نے کہا جی آپ کی بڑی مہربانی۔ چچا نے پھر اس سے کہا کہ اب تو آپ کا چہرہ بھی اچھا ہو گیا تو انہوں (شیخ صاحب) نے کہا کہ ہاں جی میں دو سال بیمار رہا ہوں۔ میں وہاں بیٹھا تھا۔ میں نے کہا چچا جی یہ ساری شیخ صاحب کی عینک کی برکت ہے۔ جب آپ نے ان کی عینک پہنی ہے تو آپ کو ان کا گھر بہت پیارا لگنے لگا ہے اور ان کی شخصیت بھی اچھی لگنے لگی ہے۔ آپ نے کبھی ان کو ان کی عینک سے دیکھا ہی نہیں تھا۔ اس طرح ہم نے اپنے ساتھیوں کو کبھی ان کی عینک اور زاویے سے دیکھا ہی نہیں۔ پھر ہم ان کی مشکلات کیسے سمجھ سکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں خاص طور پر لوگوں کے درمیان کدورتیں کچھ اس انداز میں بڑھ رہی ہیں کہ وہ حقیقت میں نفرتوں یا کدورتوں کا درجہ رکھتی نہیں ہیں۔ بس ایک بات دل میں بیٹھ گئی اور ہم اس پر ایمان لے آئے اور اسی لکیر کو پیٹنا شروع کر دیا۔ میں خاص طور پر بچیوں میں یہ بات آج کل بڑی نوٹ کرتا ہوں کہ ان میں یہ بڑا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے اور ان کے دل میں یہ بات Feed ہو گئی ہے کہ ساس تو ایک واہیات سی چیز ہوتی ہے۔ یہ تو اچھی ہوتی ہی نہیں ہے اور جب یہ تہہ کر لیا جائے کہ بس ساس نے تو ایسے ہی ہونا ہے اب میں نے تو ایم-اے کر رکھا ہے۔ میں Educated ہوں، میں غلط ہو ہی نہیں سکتا یا سکتی۔ اگر ایک پڑھا لکھا شخص یا لڑکی یہ سوچ بھی کہ میں مثال کے طور پر اپنی ساس کو دوسرے زاویے سے ڈیل کر کے ماحول بہتر بنا سکتا ہوں لیکن یہ ہم سے بالکل نہیں ہوتا اور وہ ڈگریاں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں جیسے جاہل ساس کرتی ہے اس کو ویسا ہی جواب ملتا ہے۔

ایک بار جب میری نواسی کے لیے رشتے کی بات چلی تو وہ مجھ سے کہنے لگی کہ نانا جب لڑکا دیکھنے جائیں تو آپ ضرور جائیں ایک تو آپ میرے خفیہ ایجنٹ ہیں اور دوسرا مجھے ابو امی اور بہنوں پر اعتبار نہیں ہے اور آپ صرف یہ بات ہی نوٹ کرنا کہ میرا جو ہونے والا شوہر ہے یا جس سے میر بات طے پا رہی ہے اس “ بد بخت “ کی کتنی بہنیں ہیں۔ آپ مجھے میری نندوں کے بارے میں بتانا۔ یعنی ابھی کوئی بات نہیں ہوئی اس نے کسی کو نہیں دیکھا لیکن تعداد کے اعتبار ہے ہی وہ بچاری اتنی پریشان ہو رہی تھی اور وہ کہہ رہی تھی کہ اگر وہ زیادہ ہوئیں تو میں نے وہاں شادی نہیں کرنی۔ میں نے اسے آ کر بتایا کہ بھئی وہ پانچ ہیں۔ تین کی شادی ہو گئی اور ابھی دو کی نہیں ہوئی تو اس نے کہا “ دفع دور میں نے وہاں شادی نہیں کرنی۔“

آپ اکثر دیکھتے ہوں گے کہ یہ جو مسلکی اور دینی جھگڑے ہوتے ہیں، فسادات ہوئے ہیں اس میں مسلک کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ کوئی بھی مسلک جھگڑے کا درس نہیں یا ترغیب دیتا لیکن چونکہ الزام دھر دیا جاتا ہے اس لیے اس الزام کو سہارنا یوں مشکل ہو جاتا ہے کہ الزام دھرنے والا کبھی بھی اس بات کی طرف توجہ نہیں دیتا کہ وہ جو یہ الزام دھر رہا ہے شاید وہ خود بھی اسی الزام کا مارا ہوا ہے اور وہی خرابی اس میں بھی موجود ہے۔ بہت دیر کی بات ہے میری ابھی شادی نہیں ہوئی تھی اور میں نوجوان تھا۔ ایک دفعہ ہم لاہور سے براستہ جی ٹی روڈ پنڈی جا رہے تھے۔ دوپہر کو ہم نے گجرات میں کھاناوانا کھایا۔ ہم جب کھانا کھا کے چل پڑے تو تھوڑی دور جا کر میری والدہ کو خیال آیا کہ میری عینک تو وہیں رہ گئی ہے اور انہوں نے “اقبال، اقبال “ کہا (وہ میرے بڑے بھائی کا نام ہے)۔ ابا جی نے کہا کہ سب عورتوں کا یہی حال ہے۔ ان کو کبھی وقت پر کوئی چیز یاد نہیں رہتی۔ انہیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ سفر کر رہی ہیں اور دھیان رکھنا ہے۔ بھائی نے کہا کوئی بات نہیں ہم راؤنڈ ٹرن لیتے ہیں اور عینک لے لیتے ہیں۔ ابھی کون سا زیادہ دور گئے ہیں البتہ ہم دوبارہ وہاں پہنچ گئے جہاں سے کھانا کھایا تھا۔ جب ہم عینک لے کر چلنے لگے تو ابا جی نے کہا کہ لو اگر ہم یہاں آ ہی گئے ہیں تو میں اپنا مفلر بھی دیکھ لوں جو میں یہاں غسل خانے میں بھول آیا تھا۔ اب وہ اماں کی سرزنش تو کر رہے تھے لیکن انہیں اپنی غلطی نظر نہیں آ رہی تھی۔

خواتین و حضرات، انسانی زندگی میں ہم اکثر ایسی حرکتیں کر دیتے ہیں اور ہمارے اندر وہ وسعت قلبی پیدا نہیں ہوتی جو ہماری تربیت کا ایک خاصا ہے۔ یہ تو انفرادی مشکلات ہیں لیکن بعض اوقات خاندانوں کے اندر بھی Blame کی کیفیت چلتی چلی جاتی ہے۔ آپ کا کسی اس خاندان کے ساتھ تعلق نہیں ہوتا جس سے آپ کے دادا لڑے تھے۔ نئی نسلیں آ جاتی ہیں لیکن آپ کو حکم دے دیا جاتا ہے کہ خبردار اس خاندان سے بات نہیں کرنی اور وہ کام چلا آتا ہے۔ بھئی کیوں بات نہیں کرنی۔ وہ ماضی کی بات تھی گئی آئی ہوئی۔ آپ اپنی سیاسی پارٹیوں میں دیکھیں ان میں کسی دانش اور منطقی بات پر کوئی اختلاف نہیں ہوتا لیکن کہا جاتا ہے کہ نہیں جی بس وہ اس سائیڈ پر اور میں اس سائیڈ پر ہوں اور وہ پارٹی ہی پھٹ پھٹ کے بیچ میں سے کچھ اور نکلتی ہے اور اسی وجہ سے ہماری جمہوریت کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا نہیں ہے اور ہم اس Tradition کو لے کر بس چلے آتے ہیں۔

میں نے ایک قصہ ایسا بھی سنا جب میں حضرت مائل رحمۃ اللہ جو بڑے صوفی بزرگ تھے۔ وہ مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد ذکر جہری کیا کرتے۔ جب وہ اونچی آواز میں ذکر کرتے تھے تو ان کی بلی جو ڈیرے پر رہتی تھی وہ آ کے صفوں کو کھدیڑنا شروع کر دیتی تھی اور شور مچاتی تھی۔ آپ نے حکم دیا کہ جب ذکر شروع ہو تو اس بلی کو رسی ڈال کے باندھ دیا جائے کیونکہ یہ شرارتیں کرتی ہے۔ ان کے خادمین نماز کے فوراً بعد بلی کو رسی ڈال کے ایک کھونٹی کے ساتھ باندھ دیتے تھے اور ذکر چلتا رہتا تھا۔ بعد ازاں اس بلی کو آزاد کر دیا جاتا تھا۔ جب حضرت مائل فوت ہو گئے اور ان کی جگہ جو بھی گدی نشین یا خلیفہ ہوئے انہوں نے بھی ذکر کرانا شروع کر دیا اور بلی کو بدستور باندھا جاتا رہا۔ ایک ایسا وقت بھی آیا کہ وہ بلی فوت ہو گئی۔ ڈیرے پر بھی یہ صلاح مشورہ ہوا کہ ایک نئی بلی خریدی جائے اور ایک نئی رسی لی جائے اور اسے بھی عین ذکر کے وقت باندھ دیا جائے چنانچہ ایک نئی بلی اور رسی خریدی گئی اور اسے بھی اس طرح سے باندھا جانے لگا۔ پچھلی بلی پر جا الزام تھا وہ نئی بلی پر بھی اسی طرح عائد کر دیا گیا حالانکہ پہلے والی بلی مر کھپ چکی تھی۔ تاریخ دان لکھتے ہیں کہ اس آرڈر یا اس انداز کا جو حضرت مائل نے شروع کیا تھا اس میں یہ شرط ہے کہ ذکر جہری اس وقت شروع کیا جائے جب کہ ایک بلی موجود ہو اور اس کو اسی سے باندھا جائے۔ یہ انسانی زندگی میں بھی ایسی ہی رسی سے باندھی ہوئی ایک بلی ہے جو ہماری معاشرتی زندگی میں بھی داخل ہو چکی ہے اور وہ رسم چلتی چلی آتی ہے اور ہم اس کدورت کو ختم کرنے کی بجائے جو آپ کی ایک کھڑکی کھولنے سے شروع ہوتی ہے آپ طرح طرح کی اور کھڑکیان کھولتے چلے جاتے ہیں، اسی لیے میں عرض کیا کرتا ہوں کہ یہ بابوں کے ڈیرے ہوتے تھے جہاں بیٹھ کر ایسی ہی مشکلوں اور چیزوں کے علاج کرتے تھے۔ نہ تو وہ ڈاکٹر ہوتے تھے نہ وہ کوئی بڑے عالم دین ہوتے تھے نہ ہی بڑے ناصح ہوتے تھے وہ کچھ ایسی محبت کی پڑیا بندے کو عطا کرتے تھے جو نفسیاتی مشکلات اور ڈپریشن کا کاٹ کرتی تھی اور اس سے انسان کی طبیعت اور روح سے بوجھ ختم ہو جاتا تھا۔ آپ سارے صوفیاء کی تاریخ دیکھ کر بتائیں کہ انہوں نے لوگوں کو کس کس طرح سے ٹھیک کیا اور راحت دی۔ ان کے علاج میں مذہب کی بھی تمیز نہیں ہوتی تھی۔ وہ تمام بندوں کو پانے قریب لے آتے تھے۔ میں سوچتا ہوں کہ بندے کی اکثر یہ آرزو رہتی ہے اور میری بھی ایسی یہ تمنا ہوتی ہے اور میں نوجوانوں کی طرح اس عمر میں اپنی آٹوگراف بک لے کر گھومتا ہوں اور ایسے لوگوں کے آٹو گراف حاصل کرنا چاہتا ہوں جو آسائش اور آسانی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کچھ لوگوں کو اداکاروں یا گانے والوں کے آٹوگراف لینے کا شوق ہوتا ہے۔ میں ایسے لوگوں کے آٹوگراف لینے کا خواہشمند ہوں جن پر دنیا کے جھمیلوں کا تشنج یا بوجھ نہیں ہے۔ میرے پاس جتنے بھی کاغذ ہیں اس میں دستخط تو کم لوگوں کے ہیں جب کہ انگوٹھے زیادہ لوگوں نے لگائے ہیں۔ کسی لکڑہارے کا انگوٹھا ہے، کسی ترکھان کا ہے، کسی قصائی کا ہے اور دیگر سخت سخت پیشے والوں کے انگوٹھے بھی ہیں۔ ابھی تازہ تازہ میں نے جو انگوٹھا لگوایا ہے وہ میں نے لاہور سے قصور کے راستے کے درمیان میں آنے والے چھوٹے سے شہر یا منڈی مصطفٰی آباد للیانی سے لگوایا ہے۔ میرے منجھلے بیٹے کو پرندوں کا بڑا شوق ہے۔ اس نے گھر میں پرندوں کے دانا کھانے کے ایسے ڈبے لگا رکھے ہیں جن میں Automatically دانے ایک ایک کر کے گرتے رہتے ہیں اور پرندے شوق سے آ کے کھاتے رہتے ہیں۔ جب ہم قصور سے لاہور آ رہے تھے تو اس نے للیانی میں ایک دکان دیکھی جس میں پانچ پانچ کلو کے تھیلے پڑے ہوئے تھے جن میں باجرہ اور ٹوٹا چاول وغیرہ بھرے ہوئے تھے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ ابو یہ پرندوں کے لیے بہت اچھا دانا ہے۔ میرا بیٹا اس دکان سے چاول اور باجرہ لینے گیا تو اس نے پوچھا کہ آپ کو یہ دانے کس مقصد کے لیے چاہئیں تو میرے بیٹے نے اس بتایا کہ پرندوں کو ڈالنے کے لیے۔ اس پر اس دکاندار نے کہا کہ آپ کنگنی بھی ضرور لیجیے کیونکہ کچھ خوش الحان پرندے ایسے بھی ہوتے ہیں جو باجری نہیں کھا سکتے بلکہ کنگنی کھاتے ہیں۔ وہ بھی پھر کنگنی کھانے آپ کے پاس آیا کریں گے۔ اس نے کہا کہ بسم اللہ کنگنی ضرور دے دیں اور اس رہنمائی کا میں آپ کا عمر بھر شکر گزار رہوں گا۔ وہ چیزیں لے کر جب اس نے پرس نکالنے کی کوشش کی تو نہ ملا۔ جیبوں، گاڑی، آس پاس ہر جگہ دیکھا لیکن وہ نہ ملا تب وہ تینوں تھیلے گاڑی سے واپس اٹھا کر دکاندار کے پاس گیا اور کہا میں معافی چاہتا ہوں میں تو اپنا بٹوہ ہی بھول گیا ہوں۔

اس دکاندار نے کہا کہ “ صاحب آپ کمال کرتے ہیں یہ لے جائیں پیسے آ جائیں گے۔“

میرے بیٹے نے کہا کہ آپ تو مجھے جانتے نہیں ہیں !
وہ دکاندار بولا کہ میں تو آپ کو جانتا ہوں۔
وہ کیسے میرے بیٹے نے کہا۔
دکاندار گویا ہوا “ صاحب جو شخص پرندوں کو دانا ڈالتا ہے وہ بے ایمان نہیں ہو سکتا۔“

میں نے جھٹ سے اپنی آٹوگراف بک نکالی اور اس کا انگوٹھا لگوا لیا۔ ایسے ہی میرے پاس کئی لوگوں کے دستخط اور انگوٹھے موجود ہیں۔

اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور ان لوگوں کی طرح جن کے میرے پاس آٹوگراف موجود ہیں۔ ان کی طرح آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

اللہ حافظ۔
 
Top