زاویہ 2

شمشاد

لائبریرین
باب 41

باب 41

“ چاہیے“ کا روگ

میں آپ کو اکثر ایسی باتیں بھی بتاتا رہتا ہوں جو آپ کے مطالعے، مشاہدے یا نظر سے کم ہی گزری ہوں گی۔ ایک زمانے میں تو ہمارے ہاں بہت سی درگاہیں اور “ زاویے “ ہوتے تھے جہاں بزرگ بیٹھ کر اپنے طرز کی تعلیم دیتے تھے لیکن آہستہ آہستہ یہ سلسلہ کم ہونے لگا۔ یہ کمی کس وجہ سے ہوئی میں اس حوالے سے آپ کی خدمت میں درست طور پر عرض نہیں کر سکتا۔ وہ درگاہیں، زاویے اور وہ بزرگ یوں مفید تھے کہ وہ اپنی تمام تر کوتاہیوں اور کمیوں کے باوصف لوگوں کو ایسی تسلی اور تشفی عطا کرتے تھے جو آج کے دور کا مہنگے سے مہنگا Psychoanalyst یا Psychiatrist نہیں دے سکتا۔ خدا جانے ان کے پاس ایسا کون سا علم ہوتا تھا۔ ان کا کندھے پر ہاتھ رکھ دینا یا تشفی کے دو الفاظ کہہ دینے سے بڑے سے بڑا بوجھ آسانی سے ہٹ جاتا تھا۔ ہمارے بابا جی جن کے پاس ہم لاہور میں جایا کرتے تھے ان کی کئی عجیب باتیں ایسی ہوتی تھیں جو ہماری دانست سے ٹکرا جاتی تھیں اور وہ پورے طور پر ہماری گرفت میں نہیں آتی تھیں کیونکہ ہم ایک اور طرح کا علم پڑھے ہوئے تھے۔ ہمارا علم سکولوں، کالجوں اور ولائیت کا تھا اور اس نصاب میں وہ بابوں کی باتیں ہوتی نہیں تھیں۔ ایک روز انہوں نے فرمایا کہ دنیا کی سب سے بری، تکلیف دہ اور گندی بیماری “ چاہیے کا روگ “ ہے۔ ان کی یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ آخر “ چاہیے کا روگ “ کیا ہے۔ یہ بات یہاں سے چلی جب میں ڈیرے کے غسل خانے کے اس دروازے کو ٹھیک کر لینا چاہیے کی بات کی جس کا ایک دروازہ قبضہ ڈھیلا ہونے کے باعث ایک طرف جھکا ہوا تھا۔ میری اس بات کے جواب میں بابا جی نے فرمایا کہ چاہیے کا ایک روگ ہوتا ہے جو کمزور قوموں کو لگ جاتا ہے اور وہ ہمیشہ یہی ذکر کرتے رہتے ہیں کہ “ یہ ہونا چاہیے “ “ وہ ہونا چاہیے۔“ ہمارے ایک دوست صفدر میر تھے جو اب فوت ہو چکے ہیں وہ انگریزی کے Columnist تھے۔ انہوں نے بابا جی سے یہ بات سن کر ایک کالم Should Syndrom یعنی Should کی بیماری لکھا تھا۔ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ اخباروں میں چھپتا ہے کہ ہمیں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا چاہیے۔ ہمارے کئی لیڈر تھی تقریروں میں کہتے ہیں کہ ہمیں ایسا کرنا چاہیے یا ویسا کرنا چاہیے۔ ہمیں آبادی میں کمی کرنی چاہیے وغیرہ وغیرہ۔

خواتین و حضرات اس طرح کی باتیں چاہیے کے چکر میں آ کر ہی ختم ہو جاتی ہیں اور ان کا عملی اور تعمیری پہلو سامنے نہیں آتا۔ جب میں نے غسل خانے کے دروازے کی بات کی تو انہوں نے کہا کہ ایسے نہیں بولا کرتے اور ڈیروں پر ایسا نہیں کہا کرتے ہیں۔ بس دروازوں کو اپنی مرضی کے مطابق ٹھیک کر دیا کرتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ چاہے آپ غلط کرتے لیکن چاہیے کہنا درست نہیں۔

میں نے کہا بابا جی اس میں آخر اتنی کیا خرابی ہے۔ کہنے لگے کہ چاہیے کا لفظ سارے زمان و مکان پر حاوی ہے۔ اس لیے برا ہے۔ اس کا نہ ماضی سے تعلق ظاہر ہوتا ہے نہ حال یا مستقبل کے ساتھ تعلق بنتا ہے بلکہ یہ ہر جگہ گھس جاتا ہے۔ اس لیے اس کا لیول دیمک کا ہے اور یہ دیمک کی طرح سارے ارادوں کو چاٹ جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ وہ کیسے۔ انہوں نے جواب دیا کہ جب آپ اکثر ماضی کو استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہمیں مشرقی پاکستان کے ساتھ ایسا رویہ اختیار نہین کرنا چاہیے تھا۔ ہمیں بجلی بنانے کے لیے ایک اور ڈیم بنانا چاہیے تھا۔ یہ ساری باتیں ماضی کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں جن کو ہم بدل نہیں سکتے پھر یہی بدبخت چاہیے حال کے ساتھ آ جاتا ہے۔ جیسے ہم کہتے ہیں کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ انگلش میڈیم سکول بنا دینے چاہئیں، ہمیں جدیدیت اختیار کرنا چاہیے اس طرح کی بےشمار باتیں ہیں اور بھی بہت سے چاہیے ہیں۔ پھر یہ لفظ چاہیے مستقبل کی طرف چلا جاتا ہے اور یہ لفظ حال، ماضی اور مستقبل کے درمیان گھومتا رہتا ہے اور کسی بات کو تقویت عطا نہیں کرتا اور بدقسمتی سے جو کمزور قومیں ہوتی ہیں وہ “ چاہیے “ ہی کا ذکر کرتی رہتی ہیں اور وہ صوبون کے درمیان مفاہمت پیدا کرنی چاہیے، نیک بن جانا چاہیے پر اصرار کرتی رہتی ہیں اور “ چاہیے “ استعمال کر کے آرام سے اپنا فرض ادا کر کے سوئی رہتی ہیں اور خود کو بری الذمہ خیال کرتے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ جی یہ تو روحانی قسم کا ڈیرہ ہے یہاں پر تو دینی باتیں ہوتی ہیں لیکن آپ نے جو بات کی ہے یہ تو “ ماؤزے تنگ “ کی بات سے بہت ملتی ہے۔ 1966ء میں مجھے ایک Silly School Girl کی طرح ماؤزے تنگ (چینی رہنما) کو دیکھنے کا بڑا شوق تھا حالانکہ میں اس وقت بڑی عمر کا تھا۔ میں ان دنوں سفر کرتا ہوا چائنا پہنچا۔ مجھے وہاں چین والے کہیں کہ جناب ماؤزے تنگ کو تو کوئی تھی نہیں مل سکتا۔ میں نے کہا کہ میں نے بس یہاں بیٹھے رہنا ہے اور انہیں مل کر جانا ہے۔ آپ نے وہ فقیرنی دیکھی ہو گی جو آپ کے پیسے دینے سے انکار کے باوجود موٹر کے ساتھ لگ کر بیٹھی رہتی ہے۔ میں بھی چین والوں سے ایسے ہی کرتا رہا اور وہ بڑے زچ ہوئے ان دنوں ان کا Cultural Revolution چل رہا تھا اور انہوں نے مجھ سے جان چھڑانے کے لیے وعدہ کیا آپ کو چار منٹ کے لیے ملوا دیں گے۔ میں بڑا خوش ہوا کہ چار منٹ نصیب ہوگئے لیکن آنجہانی ماؤزے تنگ کی یہ بڑی مہربانی تھی کہ وہ مجھے گیارہ منٹ کے لیے ملے تھے۔ اس ملاقات میں بھی یہ “ چاہیے “ کا ذکر آیا لیکن وہ کچھ اور انداز میں تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ نے دیکھتے دیکھتے اتنی ترقی کر لی ہے اور ہم تو آپ سے ایک سال پہلے آزاد ہوئے ہیں لیکن مشکلات سے نہیں نکل سکے۔ آخر آپ نے کیا کیا ہے؟ انہوں نے کہاکہ جب ہمارے ذہن میں کوئی پراجیکٹ یا خیال آتا ہے یا یہ ذہن میں آتا ہے کہ “ ہمیں یہ کرنا چاہیے “ تو اس خیال کے فوراً بعد ہم اس فریم ورک کو لانگ مارچ میں شامل کر دیتے ہیں۔ اس کا ذکر بند کر دیتے ہیں اور اسے مکمل کرنے کے فکر میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ان دنوں چین میں ایک “ خوفناک چاہیے “ آیا ہوا تھا۔ ماؤزے تنگ کہہ رہا تھا کہ پانچ ہزار سال قبل ہمارے سنیاسی، جوگی جو “ آکو پنکچر “ کا طریقہ علاج اختیار کرتے تھے اسے ڈھونڈنا چاہیے جبکہ اس وقت کے ماڈرن ڈاکٹر ان کی اس بات سے ناراض تھے کہ یہ کیا فضول بات کر رہے ہیں۔ وہ سنیاسی تو نالائق لوگ تھے، سوئیاں لگاتے تھے، تکلیف دیتے تھے لیکن ماؤزے تنگ نے کہا کہ چلو اس طریقہ کو لانگ مارچ میں لے آتے ہیں اور ڈھونڈتے ہیں۔ جب میں نے ڈیرے پر یہ بات کی تو ہمارے بابا جی نے بھی بتایا کہ ہمارے ہاں بھی ایک رسم تھی جس میں لوگ فسد کھلواتے تھے جس میں جسم کے مختلف حصوں پر کٹ دے کر فساد والا یا خراب خون نکال دیا جاتا تھا اور مریض کو آرام آ جاتا تھا۔ مرزا اسد خان غالب بھی بڑی باقاعدگی سے فسد کھلواتے تھے۔ اس زمانے کے فسد کھولنے والوں کو معلوم ہوتا تھا کہ کتنا کٹ دینا ہے اور کتنا خون بہانا ہے اور کب اسے بند کر دینا ہے۔ بہار کے موسم میں یہ علاج کیا جاتا تھا اور مرد عورتیں دونوں فسد کھلواتے تھے۔ جب بلڈ پریشر نامی مرض کا کوئی نام بھی نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ فسد کے ذریعے خون کے دباؤ کو نارمل رکھتے تھے۔ جب میں نے ماؤزے تنگ کی آکوپنکچر والی بات کی تو بابا جی نے کہا کہ آپ تو پڑھے لکھے آدمی ہیں، آپ فسد کھولنے والے تلاش کریں۔

خواتین و حضرات آپ نے سنا ہو گا کہ لوگ فساد والا خون ختم کرنے کے لیے جونکیں بھی لگواتے تھے۔ اب امریکا میں بھی جونکیں لگنا شروع ہو گئی ہیں۔ اب چونکہ بابا جی کا حکم تھا تو میں تلاش کرتے کرتے، یہاں وہاں پوچھتے اور تحقیق کرتے پتہ چلا کہ فسد کھولنے والوں کا ایک گھرانہ کوئٹہ میں آیا ہے۔ میں کوئٹہ گیا اور اس گھرانے میں پہنچا تو وہاں نوجوان بڑے اچھے تھے۔ وہ مجھے بڑی محبت سے ملے۔ وہ کہنے لگے کہ جی ہم اب یہ کام نہیں کرتے اور اب ہم نے لیمن ڈراپس یعنی کھٹی میٹھی گولیاں بناتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے باپ دادا نے تو کچھ خاض کمایا نہیں لٰہذا ہم نے لیمن ڈراپس تیار کرنے والی مشینیں لگا لی ہیں کیونکہ اس میں زیادہ پیسہ ہے اور اب ہمارا کمائی کا یہ ذریعہ ہے۔ بابا جی کہا کرتے تھے کہ تم چاہیے کے چکر میں نہ آنا بلکہ کچھ کر ڈالنا وگرنہ تم چاہیے چاہیے ہی میں ڈوب جاؤ گے اور چاہیے کا سمندر بہت گہرا ہوتا ہے۔ تھوڑے دن ہوئے میں سبزی منڈی گیا تو دو سائیکل سوار نوجوان میرے پاس سے بڑی تیزی کے ساتھ گزرے۔ اتنی تیزی سے گزرے کہ مجھے اچانک گاڑی کے بریک لگانا پڑے۔ اچانک بریک لگانے سے میرے پیچھے والی گاڑی میری گاڑی کے ساتھ آ کر ٹھک سے لگی۔ ہم نے اپنی گاڑیاں ایک طرف کھڑی کر لیں تاکہ دیکھ سکیں کہ کچھ زیادہ نقصان تو نہیں ہوا ہے۔ میں نے ٹکر مارے والے صاحب سے کہا کہ معافی چاہتا ہوں کہ مجھے سخت بریک لگانا پڑے اور اس نے کہا کہ الحمدللہ آپ کا کچھ زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ وہ بالکل چوراہا تھا۔ میں ان صاحب سے کہا کہ یہاں پر ایک بتی ہونی چاہیے یا کم از کم ایک ٹریفک والا تو ضرور ہونا چاہیے۔ وہ صاحب کہنے لگے کہ یہ سب غلط بات ہے۔ کچھ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ پہلے ان دونوں لڑکوں کو سزا ملنی چاہیے اور میں ان کو پکڑ کر سزا دوں گا۔ میں نے کہا کہ وہ تو اب کہیں کے کہیں نکل گئے ہوں گے لیکن وہ صاحب کہنے لگے کہ میں ان کو ضرور پکڑوں گا۔ اگر اب نہ پکڑ سکا تو شام کو یہ گھر تو آئیں گے ہی نا، اس وقت سزا دوں گا۔ میں نے کہا جناب وہ کیسے۔ وہ کہنے لگے کہ یہ دونوں میرے بیٹے ہیں۔

خواتین و حضرات، چاہیے زندگی میں بہت جگہ ہم پر دباؤ ڈالتا ہے۔ ہمارے جہلم کے علاقے میں روس سے بڑی تعداد میں مرغابیاں آتی ہیں اور ہم وہاں شکار کھیلنے جاتے تھے۔ جہلم میں لوگوں کی بڑی زمینیں نہیں ہیں۔ چھوٹے چھوٹے زمیدار ہوتے ہیں اس لیے انہیں ٹریکٹر کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ ہم جس شخص کے گھر میں ٹھہرے وہ چاہ رہا تھا کہ میں ٹریکٹر خریدوں۔ وہ گاؤں کا سردار تھا جبکہ اس کی بیوی جو سمجھدار اور پڑھی لکھی تھی، وہ ٹریکٹر خریدنے کے خلاف تھی اور اس کا کہنا تھا کہ ٹریکٹر کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ رقبہ ہی اتنا زیادہ نہیں ہے جس کے لیے ٹریکٹر کی ضرورت ہو لیکن اس شخص نے کہا کہ میرا شوق ہے اور میں نے ٹریکٹر ضرور لینا ہے۔ اس وجہ سے ان دونوں میاں بیوی کے درمیان ایک چپقلش سی تھی۔ اس کی بیوی نے کہا کہ ہمارے پاس دھنی کے بیلوں (اعلٰی نسل کے بیلوں کی ایک قسم) کی ایک جوڑی ہے وہ خوب ہل چلاتے ہیں اور میں ٹریکٹر نہیں آنے دوں گی لیکن وہ شخص بضد تھا۔ جب بات ذرا سی اونچی ہو گئی تو اس نے بیوی سے کہا کہ میں تمہیں اس لیے گھر نہیں لایا کہ “ مجھے تم چاہیے تھی “ یا مجھے تمہاری ضرورت تھی بلکہ مجھے تم سے محبت تھی تمہیں اس لیے گھر لایا ہوں اور اسی طرح مجھے ٹریکٹر سے محبت ہے لٰہذا اگلے دن بیگم صاحبہ خود شو روم گئیں اور ٹریکٹر بک کروایا اور گُڑ کے چاول پکا کر سارے گاؤں میں تقسیم کیے اس لیے کہ چاہیے اور محبت میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ میرا ایک بھانجا تھا جب وہ انکم ٹیکس آفیسر ہوا تو اس کی تعیناتی ملتان میں ہوئی۔ اس کی بیوی اور میری بہو جو بڑی پیاری ہے میں ایک بار اس کے پاس ملتان گیا۔ گرمیوں کے دن تھے۔ وہ میری بہو کا کہیں جانے کا پروگرام تھا تو ان نے کہا کہ ماموں مجھے تو جانا ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ خوشی سے جاؤ ہم خود ہی پکائیں گے اور مرضی کے بنائے ہوئے کھانے کھائیں گے۔ ان سے جاتے ہوئے اپنے شوہر سے کہا کہ میں نے وہ تمام کام کاغذ پر لکھ کر لگا دیئے ہیں جو آپ نے میری غیر موجودگی میں کرنے ہیں اور دیکھو تم سُست آدمی ہو، کوتاہی نہ کرنا۔ ان کاموں میں دودھ کے پیسے، دین بھائی درزی کے پیسوں کی ادائیگی بھی شامل تھی اس کے علاوہ پودوں کی صفائی، اخبار والے کا بل اور دیگر کئی چیزیں لکھی ہوئی تھیں آخر میں اس نے لکھا تھا کہ “ مجھ کو بھولنا نہیں مجھ سے محبت کرتے رہنا ہے“ وہ 15 دن کے لیے میکے (ساہیوال) جا رہی تھی۔ جب وہ میکے سے لوٹ کر آئی تو تب بھی میں وہیں تھا اس نے آتے ہی لکھے ہوئے کاموں کو دیکھا جن پر اس کے شوہر نے ٹک کیا ہوا تھا لیکن آخری بات ٹک نہیں تھی۔ اس پر وہ چیخنے پیٹنے اور چلانے لگی کہ تم نے مجھے یاد کیوں نہیں رکھا۔ تمہیں میری کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اب وہ (اس کا شوہر) کافی دیر اسے سنتا رہا پھر بولا بیوی میری اچھی بیوی تمہیں یاد رکھنا اور محبت کرنا تو عمر بھر کا سودا ہے یہ کیسے ٹک ہو سکتا ہے۔ جب تک میں زندہ ہوں محبت تو میں نے کرنی ہی جانی ہے۔ تم مجھے تک کرا کے اسے بند کرانا چاہتی ہو۔ یہ سن کر وہ اپنے شوہر کو جھپی ڈال کے اس کے ساتھ لٹک گئی اور کہنے لگی نہیں نہیں اسے ٹک نہیں کرنا ہے ایسے ہی رہنے دیں۔ اس طرح اس کے شوہر نے چاہیے والا کام بند کر دیا تھا۔ ایسے نہیں کیا کہ اس کام کو بھی ٹک کر دینا چاہیے۔ ہمارے بابا کہتے ہیں کہ جونہی آپ چاہیے کے چکر میں آتے ہیں آپ کے کندھوں اور ذہن سے سارا بوجھ اتر جاتا ہے اور انسان سوچتا ہے کہ اب اس چاہیے میں سارے لوگ شامل ہو گئے ہیں۔ میں بری الذمہ ہو گیا۔ جیسے ہم کہتے ہیں کہ ہم پاکستانیوں کو ایک دوسرے سے مل جل کر رہنا چاہیے۔ ہم میں محبت ہونی چاہیے۔ لیکن صرف چاہیے پر بات چھوڑ دینے سے بات نہیں بنتی اور یہ Should Syndrome ہماری معاشرتی زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔

خواتین و حضرات، جس طرح بڑے لوگ چاہیے کی بجائے عمل پر توجہ دیتے ہیں اور جیسے کوزہ گر اپنی تھوڑی سی مٹی پر دباؤ ڈال کر نہایت خوبصورت برتن میں ڈھال لیتا ہے ویسے ہی ایک اعلٰی درجے کا کوزہ بنانے کی ضرورت ہے لیکن ہمارے پاس وہ چاہیے خوبصورت کوزے کی بجائے مٹی کا ایک “تھوبہ“ ہی رہ جاتا ہے اور ہم اس چاہیے کو کوئی شکل نہیں دے پاتے ہیں۔ وہ بڑی خوش نصیب قومیں ہیں جو یہ بات جان جاتے ہیں کہ اس چاہیے میں صرف باقی لوگ ہی نہیں میں بھی شامل ہوں اور میں اپنی حد تک اپنی ذمہ داری ضرور پوری کروں گا اور خواتین و حضرات بابوں کے علم کی طرف تھی متوجہ رہا کرو ان کی باتیں گوہر نایاب ہوتی ہیں جو کتابوں سے نہیں ملتیں۔ عمل کرنے سے بات بنتی ہے۔ اس سے علم پھوٹنے لگتا ہے۔ آپ عمل کے اندر اس طرح داخل ہوا کریں جیسے ایک سائنس دان لیبارٹری میں کھڑا ہو کر محنت کرتا ہے اور یہ کرنا چاہیے وہ کرنا چاہیے پر ہی نہیں رہتا بلکہ عمل کی صورت میں تجربات کرتا ہے۔ اس طرح سے علم عطا ہوتا ہے ورنہ ہم آپ دیئے ہوئے علم پر گزارا اور چاہیے چاہیے کی گردان ہی الاپتے رہیں گے اور مانگے کے علم پر ہی رہیں گے۔ علم سیکھنے کا اچھا اور آسان طریقہ یہ ہے جو احکامات دیئے جائیں چاہے وہ دینی ہوں، حکومتی یا معاشرتی ہوں۔ آپ لال بتی پر کھڑے ہونے یا رکنے سے اس بات پر انکار نہیں کر سکتے کہ پہلے اس سرخ بتی کو نیلی کریں پھر رکیں گے۔ آپ کو سرخ بتی کے فوائد کا تو کھڑے ہونے کا ہی پتہ چلے گا، گزر جانے سے تو نقصان ہی ہو گا۔ میں اب آپ سے اجازت چاہوں گا اور جاتے جاتے آپ سے عرض کروں گا کہ آپ کا علم جسے Wisdom of the East کہتے ہیں اس دانشِ مشرق جو انبیاء کا علم ہے اس کی طرف تھی توجہ دیں۔

میری دعا ہے کہ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین۔

اللہ حافظ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
“بھائی والی“ کا رشتہ
آج سے کئی ہفتے قبل میں نے اپنے بابا جی نور والے کا ایک واقعہ بیان کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ تو نے رکشہ والے کو کون سے پلےسے پیسے دیئے تھے۔ وہ “دتے میں سے ہی تو دئے تھے“اگر سوا چار روپے بنتے تھے تو پورے پانچ روپے ہی دے دئے ہوتے۔ ڈیرے پر جانے سے ہمارے دوست ابن انشاء بڑے ناراض ہوتے تھے۔ انہوں نے مجھے ناراض ہو کر کہا کہ “تو وہاں کیا کرنے جاتا ہے؟یہ ڈیرے فضول جگہیں ہیں“ لوگ وہاں بیٹھ کے روٹیاں کھاتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں اور پھر اٹھ کر چلے آتے ہیں انہیں وہاں سے کیا ملتا ہے؟ میں نے رکشہ والا واقعہ ابن انشاء کو بھی سنایا اور اس نے اپنے ذہن کے نہاں خانے میں یہ واقعہ ایسے نوٹ کر لیا کہ مجھے اس دن کے واقعہ سے وہ کچھ نہیں ملا جو اس نے حاصل کر لیا اور پھر وہ “دتے میں سے دیتا رہا“ اور ابن انشاء کی زندگی میں ایک مقام ایسا بھی آیا کہ وہ دے دے کر تنگ آگیا اور اس نے کہا کہ اب میں کسی کو ٹکا تو دور کی بات ٹکنی بھی نہیں دیتا کیونکہ اس طرح دتے میں سے دینے سے میرے پاس اتنے پیسے آنے شروع ہو گئے ہیں کہ میں پیسے جمع کرانے کے لئے بینک کی سلیپیں بھی نہیں بھر سکتا(وہ بھی ہماری طرح سست آدمی تھا) اس نے کہا کہ میرے پاس اتنے پیسے آنے لگے کہ میرے لئے انہیں سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ ہمارے سارے ہی بابے ایسی باتیں سمجھاتے رہتے ہیں۔ جب ہم اپنے بابا جی کے پاس ڈیرے پر جاتے ہیں تو وہاں ایک چھوٹی سی رسم ہوتی ہے جس میں بابا جی ایک شخص کو دوسرے شخص کا شراکت دار یا شریک بھائی بنا دیتے ہیں جیسا کہ مدینہ شریف میں ہوا تھا۔ وہ بھی اسی واقعہ کی نقل کرتے ہوئے یا اس کی پیروی کرتے ہوئے ایک شخص کو کہتے ہیں کہ اب سے فلاں شخص تمھارا شریک بھائی ہے۔ کئی دفعہ وہ شریک بھائی پسند آتا ہے اور بعض اوقات پسند نہیں آتا لیکن بابا جی کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے با امر مجبوری شریک بھائی کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔ میں نے زندگی میں یہ بات محسوس کی ہے کہ نہ صرف انسانی زندگی شیئرنگ میں مصروف ہے بلکہ شجر حجر پہاڑ پتھر دریا بھی اس کائنات میں ایک دوسرے کے ساتھ شئیر کرتے ہوئے چلتے ہیں۔ شراکت کسی کو کچھ دینے سے بھی زیادہ مشکل کام ہے۔ کسی کو پیسے یا مثال کے طور پر دس لاکھ کا چیک دے کر آپ تو آزاد ہو جاتے ہیں لیکن ایک آدمی کے ساتھ شئیر کرنا مشکل ہے۔ بہو کا اپنی ساس کے ساتھ شیئر کرنا یا شوہر کا بیوی کے ساتھ شئیرنگ کی زندگی زیادہ کٹھن کام ہے۔ یہ باتیں ہمیں بابے لوگ یہ بتاتے تھے۔ ہمیں یہ باتیں کہیں کتابوں میں تو نظر نہیں آئیں۔ باباجی فرمایا کرتے تھے کہ درخت بھی ہمارے ساتھ شیئر کرتے ہیں اور درختوں کو بھی اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ “میں مسمی درخت پیپل اشفاق احمد کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں۔ یہ جتنی کاربن ڈائی آکسائیڈ چھوڑے گا میں اس کو خوشدلی سے قبول کروں گا اورمیں اس کے جواب میں اس کے لئے آکسیجن فراہم کرتا رہوں گا۔ چاہے میں کہیں بھی رہوں یہ رشتہ قائم رہے گا۔
اس طرح بڑی بڑی چیزیں سورج چاند بھی شیئر کرنے والے ہیں۔ جب ہم اس وقت سٹوڈیو میں بیٹھے پروگرام کر رہے ہیں ہمارا کے-ٹو تقریبا ایک کروڑ ٹن برف کی پگڑی باندھ کر ہر وقت شیئرنگ کے لئے مستعد اور تیار ہے اور وہ سورج کو پکار پکار کر کہ رہا ہے کہ دو روشنی کی مزید کرنیں مجھ پر ڈال۔ جھنگ میں پانی کم ہو گیا ہے اور مجھے چناب میں پانی بھیجنا ہے۔ اس نے برف اپنے لئے اکٹھی نہیں کی یہ اس کا اپنا شوق نہیں ہے۔ اس کو تھوڑی زینت کا شوق تو ضرورہے کہ لوگ میرانام لیں اور میرے درشن کرنے کو یہاں آئیں لیکن اس کا باقی تمام کام دوسروں کی خدمت ہے۔ سورج اپنی گرمی کا کوئی فائدہ نہیں اٹھاتاہے۔ ایک فلسفی نے بڑا خوبصورت فقرہ لکھا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ “بڑھاپے میں انسان کی کیفیت ایسے ہو جاتی ہے جیسے ڈوبتا ہو سورج“۔
خواتین و حضرات! ڈوبتے سورج کی روشنی صرف اپنے آپ کو دہکانے کے لئے درکار ہوتی ہے۔ لیکن سارا دن وہ اپنی روشنی دوسروں کو ہی عطا کرتا ہے اور اسے اس کا فائدہ نہیں ہوتا۔ اس طرح ہوائیں بادل سب شیئر کرنا جانتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے۔ ہمارے دوست قدرت اللہ شہاب کی والدہ “ماں جی“ دوپہر کوکھانا کھا کے ایک خاص کونے میں ایک خاص چارپائی پر لیٹ جاتی تھیں اور انہوں نے ہلکا سا ایک کمبل اوڑھا ہوتا تھا۔ اس گھر کی بلی جو اپنا حق جانتی تھی جیسے ہی ماں جی سوتیں وہ بلی بھی چھلانگ لگا کر چارپائی پر چڑھ جاتی تھی اور پھر آہستگی کے ساتھ اپنے دونوں پنجے لگا کر ماں جی کو دھکیلتی تھی کہ مجھے بھی سونے کے لئے جگہ دو۔ وہ بڑا کمال کا سین ہوتا تھا اور اکثر شہاب مجھے کہتے تھے کہ جلدی آؤ، جلدی آؤ ماں جی اور بلی میں مقابلہ ہو رہا ہے اور ماں جی اسے “دفع ہو“ یا ذرا سی کوئی بات کہ کر اس کے لئے جگہ چھوڑتی جاتی تھیں کیونکہ وہ ایک ایسا رشتہ تھا شراکت کا کہ وہ بلی کو کوستے ہوئے آگے کھسکتی جاتی تھیں اور بلی اپنی پوری جگہ بنا کر نیم دراز ہو تی جاتی تھی۔ پیارے بچو! جب تک ہم انسانوں کے درمیاں شیئرنگ کا رشتہ قائم رہے گا یہ دنیا خوش اسلوبی سے چلتی رہے گی۔ لیکن جب شیئرنگ میں رخنہ پڑنے لگتا ہے جیسا کہ ہمارے ہاں پڑ رہا ہے تو بے زاری بڑھ جاتی ہے اور اس طرح سے آدمیوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا جا رہا ہے اور “نکھیڑا“ جا رہا ہے۔ یہ ایک خوفناک صورتحال ہے۔ ایک زمانے میں جب میں نے بی-اے کر لی تو میں نے بھی گھر والوں سے لڑائی کی کیونکہ جب بچہ سیانا ہوجا تا ہے تو وہ گھر والوں سے لڑتا ضرور ہے۔ سیانا ہونے کے بعدوہ سب سے پہلے تھرڈ ائیر میں کمیونسٹ بن جاتا ہے۔ دوسرا وہ گھر والوں سے ضرور لڑتا ہے۔ میں بھی کچھ ایسے ہی ناراض ہو کر گوجر خان چلا گیا۔ یہ میں آپ کو خفیہ بات بتا رہا ہوں۔ وہاں جا کر میں سکول ماسٹر لگ گیا۔ وہاں ایک بڑے اچھے آدمی ہوتے تھے ان کا تھوڑا سا تصوف کے ساتھ بھی لگاؤ تھا۔ ہم شام کو ان کی بیٹھک میں بیٹھتے تھے ۔ وہاں اور بھی بہت سے لوگ آتے تھے اور باتیں بھی ہوتی تھیں۔ وہاں ایک آدمی نابی کمہار بھی آتا تھا۔ تھا تو وہ کمہار لیکن کوزہ گر کو خدا نے بڑی صلاحتیوں سے نوازا ہوتا ہے۔ اس کی سوچ بڑی عجیب ہوتی تھی۔ وہ ایک روزوہاں آیا اور مجھ سے پوچھنے لگا کہ صاحب جی، یہ جو زمین ہے اس کا وزن کتنا ہے؟اس کا کام مٹی کا تھا تو ظاہر ہے اس کی دل چسپی مٹی میں زیادہ ہونی تھی۔ میں جسے اپنے علم پر بڑا ناز تھا، میں نے کہا کہ زمین کے بوجھ کے بارے میں تو میں نہیں جانتا لیکن میں تمہیں کہیں سے دیکھ کر ضرور بتاؤں گا۔ میں نے سکول کی لائبریری سے انفارمیشن اور معلومات کی کتابیں نکال نکول اور جوڑ جاڑ کے دیکھا اور اس سے کہا کہ بھئی دیکھو زمین کا وزن سائنس کی رو سے اتنے ہزار اتنے لاکھ، اتنے کروڑ ٹن ہے۔اسے ٹن کےبارے میں بھی بتایا کہ ایک ٹن ٢٨ من کا ہوتا ہے۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے طرف سے اس قدر مشکل سوال حل کر دئے جانے کے باوجود بھی وہ مطمئین نہیں ہو رہا تھا۔ وہ مجھ سے پھر گویا ہوا اور اس نے مجھ سے یہ بات پوچھ کر مجھے حیران کر دیا یہ
“جی ایہہ وزن بندیاں سمیت اے کہ بندیوں بگیر“
اس وقت تو میں اس کی اس بات پر چڑا بھی کہ یہ کیسی بات کر رہا ہے لیکن آج میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہر چیز کی بندے کے ساتھ شراکت ہے۔ جب ہم سڑک پر گاڑی چلاتے ہیں تو دوسروں کو یکسر بھلا دیتے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ بس ہم ہی ہیں۔ میرا بھی یہی حال ہے۔ میں بھی کہتا ہوں کہ بس میں ہی ہوں اور “گلیاں ہون سنجیاں تے بس میرا مرزا یار پھرے“میں سمجھتا ہوں کہ مجھے کیا پروا ہے کہ میں لین کے اندر چلوں یا سڑک کو شیئر کروں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں شیئر کرنے کا رحجان ختم ہو چکا ہے اور جس قوم یا گروہ انسانی میں شیئرنگ کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے وہ سوسائیٹی غرق ہونے لگتی ہے۔ ڈوبنے لگتی ہے۔ ہم شیئرنگ کے بغیر نہیں چل سکتے۔ اللہ تعالٰی نے اس کا نظام ہی ایسا بنایا ہے۔ آج سے تین چار سال پہلے میں امریکہ گیا۔ میرا بیٹا وہاں پروفیسر ہے۔ ہم اس کی یونیورسٹی سے واپس آرہے تھے تو ہماری گاڑی سے آگے ایک اور گاڑی جار رہے تھی۔ سڑک بالکل سنسان تھی۔ میں نے اپنے بیٹے سے کہاکہ یار اس سے آگے نکلو۔ یہ تو بہت آہستہ جار ہا ہے۔ کہتا اچھا ابو گزرتے ہیں اور وہ آگے نکلنے میں بہانے بازی کر رہا تھا۔ میں نے غصے سے کہا کہ تم اس کو ہارن دو اور اسے ایک طرف کر دو۔ وہ کہنے لگا کہ ابو اسے ہوٹ نہیں کر سکتے کیونکہ یہ عمر رسیدہ آدمی ہے جو گاڑی چلا رہا ہے۔ اگر میں ہارن دوں گا تو یہ گھبرا جائے گا اور کسی نقصان کا اندیشہ ہے۔ میں نے کہا دفع کر یا اگر نقصان ہوتا ہے تو اس کا ہونا ہے ہمیں کیا؟ میرا بیٹا کہنے لگا کہ ابھی موڑ آجائے گا تو اس سے آگے نکل جائیں گے اور وہ ویسے یہ آہستہ آہستہ گاڑی چلاتا رہا۔ میں نے اس سے کہا کہ تم میری بات کیوں نہیں مانتے؟ وہ کہنے لگا کہ ابو بات یہ ہے کہ یہ میرا کولیگ ہے۔ میں نے کہا کہ اچھا کیا یہ تمہارے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھاتا ہے؟ اس نے جواب دیانہیں۔ میں نے کہا کہ کیا یہ تمہارے ساتھ ایڈمنسٹریشن میں ہے؟ وہ کہنے لگا کہ نہیں۔ میں نے کہا پھر یہ تمہارا ساتھی کیسے ہو گیا؟ وہ کہنے لگا کہ یہ ابو He is my road fellowاور میں اسے گھبرانا پسند نہیں کرتا۔ میں نے کہا کہ لعنت! تمہیں پڑھنےاس لئے بھیجا تھا کہ اس طرح کی فضول باتیں سیکھ لے۔ ادھر لاہور یا کراچی میں آکے گاڑی چلا اور کھٹا کھٹ کسی کے بیچ میں مار۔ یہ تو نے کیا نئی اصطلاح “سڑک کا ساتھی“ بنا رکھی ہے۔ یہ کوئی رشتہ وشتہ نہیں ہے۔
خواتین و حضرات! جب شیئرنگ کی تار ٹوٹتی ہے تو پھر اس قسم کی مشکلات پیدا ہو تی ہیں اور نواب دیں (نابی کمہار) جیسا کمہار پیدا ہوتا ہے تو وہ شیئرنگ کے رشتے کو جوڑتا ہے جیسے کہ وہ مٹی کو جوڑ کر کوزہ بناتا ہے بالکل اسی طرح سے ہے۔
میں عرض کر رہا تھا کہ کسی کو کچھ دے دینا تو بڑا ہی سہل کام ہے۔ شیئر کرنا مشکل کام ہے۔ میں بیوی کا خاص طور پر شیئرنگ کا بہت عجیب رشتہ ہے۔ نہ بھی پسند ہو تو بھی تعلق رکھا پڑتاہے۔ قرآن پاک میں بھی اللہ تعالٰی فرماتے ہیں کہ تم کو اپنی بہت سی بیویاں نا پسند ہوں گی لیکن تم نے ان سے ساتھ رہنا ہے۔ جوڑنے والے اپنی جسمانی یا نفساتی تکلیف کے باوجود کیا کچھ حاصل کرتے ہوں گے اس کا اندازہ ہمیں نہیں ہے۔ لیکن ہمارے بابے کہتے ہیں کہ شیئرنت کرنے سے آپ کو ایک عجیب طرح کی تقویت ملتی ہے۔ ایسی ہی تقویت جو آپ کو آکسیجن کی صورت میں درخت سے حاصل کرتے ہیں جس سے آپ توانا رہتے ہیں۔ اگر آپ زندگی کے چھوٹے چھوٹے معملات میں شراکت اور “بھائی والی“ کے اوپر غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ آپ کے اردگرد کس طرح سے شیئرنگ کا عم جاری ہے۔ لیکن یہ عمل توجہ دینے سے نظر آتا ہے اور جس وقت اس عمل کو اپنی زندگی میں شامل نہ کر لیا جائے مشکل ہو جائے گی اور ہم اس مشکل میں سے گذر رہے ہیں اور ساری دنیا اس شیئرنگ سے نکل رہی ہے۔ میرے ایک دوست کی سب سے چھوٹی بیٹی تھی۔ اس کا نام صائمہ تھا۔ جب ہم سمن آباد میں رہتے تھے اس کی وہاں شادی ہو گئی پھر وہ سمن آباد سے شادی کے بعد لندن چلی گئے۔ اس کا خاوند انجینئر تھا۔ وہ لندن سے پھر کینیڈا شفٹ ہو گئے۔ جب ان کے ماشاء اللہ دو تین خوبصورت سے بچے ہو گئے تو پھر صائمہ نے کہا کہ ہم کتنی دیر باہر رہیں گے اور اس کے بعد وہ واپس گھر لاہور آئے۔ پہلے تو وہ پوش ایریاڈیفینس میں رہے پھر گلبرگ آئے اور آخر کار وہ سمن آباد میں ہی آگئے حالانکہ یہ علاقہ ان کے مزاج کے مطابق نہیں تھا اور نہ ہی یہ علاقہ ان کے بود و باش کے لیول پر پورا اترتا تھا۔ ایک دن میں اپنے دوست اے حمید سے ملنے کے لئے جا رہا تھا تو وہ مجھے راستے میں مل گئی اور اس نے مجھے بتایا کہ انکل آج کل میں سمن آباد میں ہوں۔ میں نے کہا کہ تم نے علاقہ کیوں نہیں بدلا۔ وہ کہنے لگی کہ انکل ایک تو اس علاقے سے میری بچپن کی یادیں وابستہ ہیں اور یہاں سٹور بھی بڑا نزدیک ہے جو چیز نہیں ہوتی وہ میں جھٹ سے لے آتی ہوں۔ میں نے کہا کہ سمن آبادمیں ایسا کون سا اشیائے ضروریہ کا سٹور ہے جس سے ہر چیز دستیاب ہے۔ وہ کہنے لگی انکل بہت بڑا ہے اور نہایت اعلٰی درجے کا ہے۔ میں نے کہا کہ میں نے تو نہیں دیکھا۔ کہنے لگی اماں کا گھر میرے گھر کے نزدیک ہی ہے جس چیز کی ضرورت پڑتی ہےوہاں سے جا کے لےآتی ہوں۔ اس سے اچھا سٹور تو مجھے ملا ہی نہیں۔ میں بڑی دیر اس سے باتیں کرتا رہا اور خوش ہوتا رہا۔ شیئرنگ اس طرح سے ہوتی ہے اور اس کی جڑیں کئی طرح سے ملی ہوتی ہیں۔ اب آپ کو ذات کے حوالے سے یہ فیصلہ خود کرنا ہے اور ایسا فیصلہ کرنے کے لئے ایک وقت ضرور مقرر کرنا پڑے گا جس میں آپ اپنے آپ کا احاطہ کریں۔ لوگوں نے مجھ سے مراقبہ کے حوالے سے پوچھا بھی ہےاور میں انشاء اللہ کسی اور پروگرام میں مراقبہ کی تمام اقسام عرض کروں گا اور وہ اقسام اکتسابی طور پر ہی ہوں گی کیونکہ میں خود تو اس کا ماہر نہیں ہوں۔ مراقبہ ایک خود احتسابی کا طریقہ ہی تو ہے۔ وگرنہ انسان لوگوں پر تنقید کرتا ہوا ہی اس جہان فانی سے گذر جاتا ہے۔ آپ کو شراکت کی ہلکی ہلکی لہریں نہ صرف اپنے علاقے، گھر یا ملک میں ملیں گی بلکہ آپ جہاں بھی چلے جائیں جہاں بھی انسان آباد ہیں اور جہاں بھی اللہ کے نظارے ہیں وہ نظارے اور فضائیں آپ کو اپنے ساتھ شیئر کرتی ہوئی ہی ملیں گی۔ آپ مری اور بھوربن کیوں جاتے ہین؟ وہ بھوربن آپ کا انتظار کر رہا ہوتا ہے کہ پلیز آجاؤ بڑی دیر ہو گئی ہے۔ میں آپ کے ساتھ کچھ شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ جب آپ وہاں سے ہو کر آتے ہیں تو آپ کو احساس ہوتا ہے کہ بھوربن میرے ساتھ کچھ شیئر کر رہا تھا کیونکہ آپ کا وہاں جانے کا پھر دل کرتا ہے۔ شراکت بڑی نعمت ہے جو قدرت کی طرف سے ہمیں عطا ہوتی ہے۔ جب میں اٹلی میں تھا، وہاں ایک اصول ہے کہ ہر سال ڈرائیونگ لائسنس کی جب تجدید کرائی جاتی ہے تو آپ کو ایک بار پھر ڈاکٹر کے حضور بینائی کے ٹیسٹ کرانے کے لئے پیش ہونا پڑتا ہے۔ میں بھی ڈاکٹر کے پاس گیا اور اس نے کہا کہ اوپر کی لائن سے پڑھتے ہوئے چھٹی لائن تک آؤ۔ آخری لائن بڑی باریک لکھی ہوئی تھی۔ میں نے پانچویں لائن تک تو کھٹا کھٹ پڑھ دیا لیکن جب چھٹی پر آیا تو رک گیا اور میں نے ڈاکٹر سے اطالوی زبان میں کہا کہ یہ مجھ سے نہیں پڑھی جاتی تو ڈاکٹر نے کہاکہ “پاس“۔ یہ پانچ لائن پڑھنے کا حکم ہے۔یہ چھٹی تو میں تمھیں اپنی طرف سے کہ رہا تھا۔ اب میں اس چھوٹے سے رشتے کو محبت کے رشتے کو کیا نام دوں۔ لیکن اس نے میرا دل پرباش کر دیا تھا اور اس کی معمولی سی محبت کی بات سے میرا دل خوشی سے بھر گیا تھا۔ مجھے یہ بات محسوس کر کے بھی بری خوشی ہوتی ہے کہ بہت سے لوگوں نے بہت کچھ جانتے ہوئے اور نہ جانتے ہوئے بھی ہمارے ساتھ شیئر کیا ھےاور میں نے تو شیئرنگ کے فائدے بہت اٹھائے ہیں۔ میں یہ یقین سے نہیں کہ سکتا کہ اس شیئرنگ سے میں نے کسی کو کیا دیا۔ البتہ یہ یقین سے کہ سکتا ہوں کہ میں نے اس شیئرنگ کی بدولت بہت کچھ حاصل کیا۔
اللہ تعالٰی آپ سب کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا اور شیئر کرنے کا شرف عطافرمائے۔ اللہ حافظ
 
باب نمبر 11

"سلطان سنگھاڑے والا "

انسانی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے، جب اُس کی آرزو یہ ہوتی ہے کہ وہ اب بڑے پُرسکون انداز میں زندگی بسر کرے اور وہ ایسے جھمیلوں میں نہ رہے، جس طرح کے جھمیلوں میں اُس نے اپنی گزشتہ زندگی بسر کی ہوئی ہوتی ہے اور یہ آرزو بڑی شدت سے ہوتی ہے- میں نے یہ دیکھا ہے کہ جو لوگ اللہ کے ساتھہ دوستی لگا لیتے ہیں، وہ بڑے مزے میں رہتے ہیں اور وہ بڑے چالاک لوگ ہوتے ہیں- ہم کو اُنہوں نے بتایا ہوتا ہے کہ ہم ادھر اپنے دوستوں کے ساتھہ دوستی رکھیں اور وہ خود بیچ میں سے نکل کر اللہ کو دوست بنا لیتے ہیں- اُن کے اوپر کوئی تکلیف، کوئی بوجھہ اور کوئی پہاڑ نہیں گرتا- سارے حالات ایسے ہی ہوتے ہیں جیسے میرے اور آپ کے ہیں، لیکن ان لوگوں کو ایک ایسا سہارا ہوتا ہے، ایک ایسی مدد حاصل ہوتی ہے کہ اُنہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچتی-
میں نے یہ بہت قریب سے دیکھا ہے- ہمارے گھر میں دھوپ سینکتے ہوئے میں ایک چڑیا کو دیکھا کرتا ہوں، جو بڑی دیر سے ہمارے گھر میں رہتی ہے اور غالباً یہ اُس چڑیا کی یا تو بیٹی ہے، یا نواسی ہے جو بہت ہی دیر سے ہمارے مکان کی چھت کے ایک کونے میں رہتی ہے- ہمارا مکان ویسے تو بڑا اچھا ہے، اس کی "آروی" کی چھتییں ہیں، لیکن کوئی نہ کوئی کھدرا ایسا رہ ہی جاتا ہے، جو ایسے مکینوں کو بھی جگہ فراہم کر دیتا ہے- یہ چڑیا بڑے شوق، بڑے سبھاؤ اور بڑے ہی مانوس انداز میں گھومتی پھرتی رہتی ہے- ہمارے کمرے کے اندر بھی اور فرش پر بھی چلی آتی ہے- کل ایک فاختہ آئی جو ٹیلیفون کی تار پر بیٹھی تھی اور یہ چڑیا اُڑ کر اُس کے پاس گئی، اُس وقت میں دھوپ سینک (تاپ) رہا تھا- اُس چڑیا نے فاختہ سے پوچھا کہ " آپا یہ جو لوگ ہوتے ہیں انسان، جن کے ساتھہ میں رہتی ہوں، یہ اتنے بے چین کیوں ہوتے ہیں؟یہ بھاگے کیوں پھرتے ہیں؟ دروازے کیوں بند کرتے اور کھولتے ہیں؟ اس کی وجہ کیا ہے؟" فاختہ نے کہا کہ "میرا خیال کہ جس طرح ہم جانوروں کا ایک اللہ ہوتا ہے، ان کا کوئی اللہ نہیں ہے اور ہمیں یہ چاہیے کہ ہم مل کر کوئی دعا کریں کہ ان کو بھی ایک اللہ مل جائے- اس طرح انہیں آسانی ہو جائے گی، کیونکہ اگر ان کو اللہ نہ مل سکا، تو مشکل میں زندگی بسر کریں گے-"
اب معلوم نہیں میری چڑیا نے اُس کی بات مانی یا نہیں، لیکن وہ بڑی دیر تک گفت وشنید کرتی رہیں اور میں بیٹھا اپنے تصور کے زور پر یہ دیکھتا رہا کہ ان کے درمیان گفتگو کا شاید کچھہ ایسا ہی سلسلہ جاری ہے- تو ہم کس وجھ سے، ہمارا اتنا بڑا قصور بھی نہیں ہے، ہم کمزور لوگ ہیں جو ہماری دوستی اللہ کے ساتھہ ہو نہیں سکتی- جب میں کوئی ایسی بات محسوس کرتا ہوں یا سُنتا ہوں تو پھر اہنے "بابوں" کے پاس بھاگتا ہوں_ میں نے اپنے بابا جی سے کہا کہ جی ! میں اللہ کا دوست بننا چاہتا ہوں- اس کا کوئی ذریعہ چاہتا ہوں- اُس تک پہنچنا چاہتا ہوں- یعنی میں اللہ والے لوگوں کی بات نہیں کرتا- ایک ایسی دوستی چاہتا ہوں، جیسے میری آپ کی اپنے اپنے دوستوں کے ساتھہ ہے،تو اُنہیوں نے کہا "اپنی شکل دیکھہ اور اپنی حیثیت پہچان، تو کس طرح سے اُس کے پاس جا سکتا ہے، اُس کے دربار تک رسائی حاصل کر سکتا ہے اور اُس کے گھر میں داخل ہو سکتا ہے، یہ نا ممکن ہے-" میں نے کہا، جی! میں پھر کیا کروں؟ کوئی ایسا طریقہ تو ہونا چاہیے کہ میں اُس کے پاس جا سکوں؟ بابا جی نے کہا، اس کا آسان طریقہ یہی ہے کہ خود نہیں جاتے اللہ کو آواز دیتے ہیں کہ "اے اللہ! تو آجا میرے گھر میں" کیونکہ اللہ تو کہیں بھی جا ساکتا ہے، بندے کا جانا مشکل ہے- بابا جی نے کہا کہ جب تم اُس کو بُلاؤ گے تو وہ ضرور آئے گا- اتنے سال زندگی گزر جانے کے بعد میں نے سوچا کہ واقعی میں نے کبھی اُسے بلایا ہی نہیں، کبھی اس بات کہ زحمت ہی نہیں کی- میری زندگی ایسے ہی رہی ہے، جیسے بڑی دیر کے بعد کالج کے زمانے کا ایک کلاس فیلو مل جائےبازار میں تو پھر ہم کہتے ہیں کہ بڑا اچھا ہوا آپ مل گئے- کبھی آنا- اب وہ کہاں آئے، کیسےآئے اس بےچارے کو تو پتا ہی نہیں-
ہمارے ایک دوست تھے- وہ تب ملتے تھے، جب ہم راوالپنڈی جاتے تو کہتے کہ جی آنا، کوئی ملنے کا پروگرام بنانا، یہ بہت اچھی بات ہے، لیکن ایڈریس نہیں بتاتے تھے- جیسے ہم اللہ کو اپنا ایڈریس نہیں بتاتے کسی بھی صورت میں میں کہ کہیں سچ مچ ہی نہ پہنچ جائے- ایک دھڑکا لگا رہتا ہے- وہ مجھے کہا کرتے تھے کہ بس مہینے کے آخری ویک کی کسی ڈیٹ کو ملاقات کا پروگرام بنا لیں گے- Sunset کے قریب، نہ ڈیٹ بتاتے تھے نہ ٹائم تھے، Determine نہیں کرتے تھے، تو ایسا ہی اللہ کے ساتھہ ہمارا تعلق ہے- ہم یہ نہیں چاہتے، بلکہ کسی حد تک ڈر جاتے ہیںکہ خدا نخواستہ اگر ہم نے اللہ سے دوستی لگا لی اور وہ آگیا تو ہمیں بڑے کام کرنے پڑیں گے- دوپٹہ چننا ہوتا ہے، بوٹ پالش کرنا ہوتے ہیں، مہندی پر جانا ہوتا ہے- اُس وقت اللہ میاں آگئے اور اُنہوں نے کہا کہ "کیا ہو رہا ہے؟" تو مشکل ہوگی- ہم نے آخر زندگی کے کام بھی نمٹانے ہیں- باقی جو بات میں سوچتا ہوں اور میں نے اپنے بابا کو یہ جواب دیا کہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ کی عبادت کرنا بہت اچھی بات ہے اور ہے بھی اچھی بات- اُنہوں نے کہا کہ عبادت کرنا ایک اور چیز ہے، تم نے تو مجھہ سے کہا کہ میں خداوند کریم کو بلا واسطہ طور پو ملنا چاہتا ہوں- عبادت کرنا تو ایک گرائمر ہے جو آپ کر رہے ہیں اور اگر آپ عبادت کرتے بھی ہیں، تو پھر آپ اپنی عبادت کو Celebrate کریں، جشن منائیں، جیسے مہندی پر لڑکیاں تھال لے کر ناچتی ہیں نا، موم بتیاں جلا کر اس طرح سے، ورنہ تو آپ کی عبادت کسی کام کی نہیں ہوگی-
جب تک عبادت میں Celebration نہیں ہوگی، جشن کا سماں نہیں ہوگا، جیسے وہ بابا کہتا ہے "تیرے عشق نچایا کر کے تھیا تھیا" چاہے سچ مچ نہ ناچیں لیکن اندر سے اس کا وجود اور روح
"تھیا تھیا" کر رہی ہے، لیکن جب تک Celebration نہیں کرے گا، بات نہیں بنے گی- اس طرح سے نہیں کہ نماز کو لپیٹ کر "چار سنتاں، فیر چار فرض فیر دو سنتاں فیر دو نفل،تِن وِتر" سلام پھیرا، چلو جی رات گزری فکر اُترا- نہیں جی! یہ تو عبادت نہیں- ہم تو ایسی ہی عبادت کرتے رہے ہیں، اس لیے تال میل نہیں ہوتا- جشن ضرور منانا چاہیے عبادت کا، دل لگی، محبّت اور عقیدت کے ساتھہ عبادت- ہمارے یہاں جہاں میں رہتا ہوں، وہاں دو بڑی ہاکی اور کرکٹ گراونڈز ہیں، وہاں سنڈے کے سنڈے بہت سویرے، جب ہم سیر سے لوٹ رہے ہوتے ہیں، منہ اندھیرے گڈی اُڑانے والے آتے ہیں- وہ اس کا بڑا اہتمام کیے ہوئے ہوتے ہیں، ان کےک بڑے بڑے تھیلے ہوتے ہیں اور بہت کاریں ہوتی ہیں، جن میں وہ اپنے بڑے تھیلے رکھہ کر پتنگ اُڑانے کے لیے کھلے میدان میں آتے ہیں- اب وہ خالی پتنگ نہیں اُڑاتے، بلکہ اہتمام کے ساتھہ اس کا جشن بھی مناتے ہیں- جب تک اس کے ساتھہ جشن نہ ہو، وہ پتنگ نہیں اڑتی اور نہ ہی پتنگ اُڑانے والا سماں بندھتا ہے، کھانے پینے کی بے شمار چیزیں باجا بجانے کے "بھومپو" اور بہت کچھہ لے کر آتے ہیں، وہاں جشن زیادہ ہوتا ہے، کائٹ فلائنگ کم ہوتا ہے- جس طرح ہمارے ہاں عبادت زیادہ ہوتی ہے، Celebration، اللہ کو ماننا کم ہوتا ہے-
میں نے سوچا یہ گڈی اُرانے والے بہت اچھے رہتے ہیں، ہمارے پاس بابا جی کے ہاں ایک گڈی اُڑانے والا آیا کرتا تھا موچی دروازے کے اندر علاقے سے، بڑی خوبصورت دھوتی (تہبند) باندھتا تھا، جیسے انجمن فلموں میں باندھا کرتی تھی، لمبے لڑ چھوڑ کرباندھا کرتی تھی، وہ جب آتا تو ہمارے بابا جی اُسے کہتے، گڈی اُڑاؤ ( اس طرح باباجی ہمیں Celebrate کرنے کا حوصلہ دیتےتھے، جو بات اب سمجھہ میں آئی ہے) وہ اتنی اونچی پتنگ اُڑاتا تھا کہ نظروں سے اوجھل ہو جاتی تھی میرے جیسا آدمی تو اس لمبی ڈور کو سنبھال بھی نہیں سکتا- میں نے اُس سے پوچھا کہ بھا صدیق! تم یہ گڈی کیوں اُڑاتے ہو؟ کہنے لگا، جی ! یہ گڈی اُڑانا بھی اللہ کے پاس پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے- کہنے لگا، نظر نہیں آتی، لیکن اس کی کھینچ بتاتی رہتی ہے کہ میں ہوں، اللہ نظر نہیں آتا لیکن آپ کے دلوں کی دھڑکن یہ بتاتی ہے کہ "میں ہوں"- یہ نہیں کہ وہ آپ کے رُوبرو آ کر موجود ہو-
جب میں ریڈیو میں کام کرتا تھا تو ہمیں ایک Assignment ملی تھی- وہ یہ کہ پتا کریں چھوٹے دکانداروں سے کہ وہ کس طرح کی زندگی بسر کرتے ہیں- چھوٹے دکانداروں سے مراد چھابڑی فروش- یہ کچھہ دیر کی بات ہے، میں نے بہت سے چھابڑی فروشوں کا انٹرویو کیا- اُن سے حال معلوم کیے- پیسے کا ہی سارا اونچ نیچ ہے اور ہم جب بھی تحقیق کرتے ہیں یا تحلیل کرتے ہیں یا Analysis کرتے ہیں تو Economics کی Base پر ہی کرتے ہیں کہ کتنے امیر ہیں، کتنے غریب ہیں، کیاتناسب ہے کہ وہ کس Ratio کے ساتھہ زندگی بسر کر رہے ہیں؟ اُن کے کیا مسائل ہیں؟ دِلّی (دہلی) دروازے کے باہر اگر آپ لوگوں میں سے کسی نے دہلی دروازہ دیکھا ہو، اُس کے باہر ایک آدمی کھڑا تھا نوجوان، وہ کوئی تیس بتیس برس کا ہو گا- وہ سنگھاڑے بیچ رہا تھا- میں اُس کے پاس گیا- میں نے پوچھا، آپ کا نام کیا ہے؟ کہنے لگا، میرا نام سلطان ہے! میں نے کہا کب تک تم یہ سنگھاڑے بیچتے ہو؟ کہنے لگا، شام تک کھڑا رہتا ہوں- میں نے پوچھا اس سے تمہیں کتنے روپے مل جاتے ہیں؟ اُس نے بتایا، ستر بہتر روپے ہوجاتے ہیں- میں نے اُس سے پوچھا، انہیں کالے کیسے کرتے ہیں؟ ( میری بیوی پوچھتی رہتی تھی مجھہ سے،کیونکہ وہ دیگچے میں ڈال کر اُبالتی ہے تو وہ ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں) اُس نے کہا کہ جی پنساریوں کی دکان سے ایک چیز ملتی ہے، چمچہ بھر اس میں ڈال دیں تو کالے ہو جائیں گے اُبل کر اور آپ جا کر کسی پنساری سے پوچھہ لیں کہ سنگھاڑے کالے کرنے والی چیز دے دیں، وہ دیدے گا-جب اُس نے یہ بات کی تو میں نے کہا، یہ اندر کے بھید بتانے والا آدمی ہے اور کوئی چیز پوشیدہ نہیں رکھتا- کھلی نیّت کا آدمی پے- یقیناً یہ ہم سے بہتر انسان ہوگا-
میں نے کہا، جب آپ ستر بہتر روپے روز بنا لیتے ہیں تو پھر ان روپوں کا کیا کرتےہیں؟ کہنے لگا، میں جا کر "رضیہ" کو دے دیتا ہوں- میں نے کہا، رضیہ کون ہے؟ کہنے لگا، میری بیوی ہے-میں نے کہا کہ شرم کرو اتنی محنت سے پیسے کماتے ہو اور سارے کے سارے اُسے دے دیتے ہو- کہنے لگا، جی اسی کے لیے کماتے ہیں- ( اللہ کہتا ہے نا قرآنِ پاک میں کہ اَلرّجَالُ قُوامُون عَلیٰ النِسّاء یہ جو مرد ہیں، یہ عورت کے Provider ہیں )- میں نے اُس سے کہا، اچھا تو بیچ میں سے کچھہ نہیں رکھتے؟ کہنے لگا، نہیں جی! مجھے کبھی ضرورت نہیں پڑی- میں نے کہا، اس وقت رضیہ کہاں ہے؟ ( وہ inside خوبصورت آدمی تھا اس لیے مجھے اُس میں دلچسپی پیدا ہوئی) کہنے لگا، رضیہ کہیں بازار وغیرہ گئی ہو گی- اس کی دو سہیلیاں ہیں اور وہ تینوں صبح سویرے نکل جاتی ہیں بازار- اُس نے بتایا کہ وہ کبھی کبھی گلوکوز لگواتی ہیں، اُن کو شوق ہے ( اس طرح مجھے تو بعد میں پتا چلا کہ اندرونِ شہر کی عورتیں گلوکوز لگوانا پسند کرتی ہیں، گلوکوز لگوانا انہیں اچھی سی چیز لگتی ہے کہ اس کے لگوانے سے جسم کو تقویت ملے گی)- میں نے کہا، اچھا تم خوش ہو اُس کے ساتھہ؟ کہنے لگا، ہاں جی! ہم اپنے اللہ کے ساتھہ بڑے راضی ہیں- میری تو اللہ کے ساتھہ ہی آشنائی ہے- میں تو کسی اور آدمی کو جانتا نہیں- اس پر میں چونکا اور ٹھٹکا- اُس کی باتوں سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ ایک بڑا آدمی ہے لاہور کا- میں نے اگر کوئی حاکم دیکھا ہے تو وہ "سلطان سنگھاڑا فروش" ہے- اُس کو کسی چیز کی پروا نہیں تھی- کوئی واردات، واقعہ اُس کے اوپر اثر انداز نہیں ہوتا تھا-
میں اُس سے جب بھی ملتا رہا کوئی شکایت اُس کی زبان پر نہیں ہوتی تھی- اب تو تین سال سے جانے وہ کہاں غائب ہے- مجھے نظر نہیں آیا، لیکن میں اُس کے حضور میں حاضری دیتا ہی رہا- اُس کا درجہ چونکہ اس اعتبار سے بلند تھا کہ اُس کی دوستی ایک بزرگ ترین ہستی سے تھی- میں ذرا اپنی گفتار اور باتوں میں تھوڑا سا با ادب ہو گیا- میں نے اُس سے کہا، یار سلطان! کیا تم اللہ کے ساتھہ گفتگو بھی کرتے ہو؟ کہنے لگا، ہم تو شام کو جاتے، صبح کو آتےہوئے، منڈی سے سودا خریدتے ہوئے اُس کے ساتھہ ہی رہتے ہیں اور اُسی کے ساتھہ گفتگو کرتے ہیں- میں نے کہا، کون سی زبان میں؟ وہ کہنے لگا، "اوہ پنجابی وی جاندا اے، اردو جاندا اے، سندھی جو وی بولی بولیں او سب جاندا اے!" میں نے کہا تو نے مجھے بتایا تھا ایک دن کہ گیارہ برس ہوگئے تمہاری شادی کو اور تمہارا کوئی بچّہ نہیں ہے؟ کہنے لگا، بچّہ کوئی نہیں میں اور رضیہ اکیلے ہیں- میں نے کہا، اللہ سے کہو کہ اللہ تجھے ایک بچّہ دے- کہنے لگا، ، نہیں جی! یہ تو ایک بڑی شرم کی بات ہے- بزرگوں سے ایسی بات کیا کرنی، بُرا سا لگتا ہے- وہ خداوند تعالٰی کو ایک بزرگ ترین چیز سمجھہ کر کہہ رہا تھاکہ جی! بڑوں کے ساتھہ ایسی بات نہیں کرنی- میہں یہ کہتا فضول سا لگوں گا کہ اللہ مجھے بچّہ دے-
میں نے کہا کہ کیا ایسے ہو سکتا ہے کہ ہماری بھی اُس کے ساتھہ دوستی ہو جائے؟ کہنے لگا، اگر آپ چاہیں تو ہو سکتا ہے- اگر آپ نہ چاہیں تو نہیں ہو سکتا- میں نے جیسا کہ میں پہلے عرض کر رہا تھا، اپنے سارے برسوں کا میں نے جائزہ لیا، سارے دنوں کا، میں نے کبھی یہ نہیں چاہا- میرا یہی خیال تھا کہ میں عبادت کروں گا اور عبادت ہی اس کا راز ہے اور عبادت کو ہی لپیٹ کر رکھہ دوں گا اپنے مصلّے کے اوپر اور دن رات اسی طرح عبادت کرتا رہوں گا- لیکن وہ جو میرا منتہائے مقصود ہے، وہ جو میرا محبوب ہے، اُس کی طرف جانے کی کبھی کوشش نہیں کی- میں یہی سمجھتا رہا اور آج تک یہی سمجھتا رہا ہوں کہ عبادت ہی یہ سارا راز اور سارا بھید ہے، حلانکہ عبادت سے ماورا (میں یہ جو بات عرض کر رہا ہوں، آپ کو سمجھانے کے لیے کر رہا ہوں) عبادت سے پرے ہٹ کر ایک آرزو کی بھی تلاش ہے کہ میں اپنے اللہ کے ساتھہ جس کی کوئی ایک ہستی ہے نہ نظر میں آنے والی، اس کے ساتھی کوئی رابطہ قائم کروں، جیسا سلطان نے کیا تھا- جیسے اُس کے علاوہ چار پانچ بندے اور بھی ہیں میری نظر میں- میں نے اس بات سے اندازاہ لگایا کہ اتنا خوش آدمی میں نے زندگی میں کوئی نہیں دیکھا- جتنے بھی اللہ کے ساتھہ تعلق رکھنے والے لوگ تھے، وہ انتہائی خوش تھے-
1965ء کی جنگ میں اس (سلطان) کے پاس گیا، لوگ گھبرائے بھی ہوئے تھے، جذباتی بھی تھے- وہ ٹھیک تھا، ویسے ہی، بالکل اسی انداز میں جیسے پہلے ملا کرتا تھا- میں نے اُس سے کہا تم مجھے کوئی ایسی بات بتاؤ جس سے میرے دل میں چلو کم از کم یہ خواہش ہی پیدا ہوجائے، خدا سے دوستی کی اور میں کم از کم اس پلیٹ فارم ست اُتر کر دو نمبر کے پلیٹ فارم پر آ جاؤں- پھر میں وہاں سے سیڑھیاں چڑھہ کر کہیں اور چلا جاؤں- میری نگاہ اوپر ہوجائے، تو کہنے لگا ( حالانکہ اَن پڑھہ آدمی تھا، اب لوگ مجھہ سے بابوں کا ایڈریس پوچھتے ہیں، میں انہیں کیسے بتاؤں کہ ایک سلطان سنگھاڑے والا دِلّی دروزے کے باہر جہاں تانگے کھڑے ہوتے ہیں، ان کے پیچھے کھڑا ہے، جو بہت عظیم "بابا" ہے اور نظر آنے والوں کوشاید نظر آتا ہوگا، مجھے پورے کا پورا تو نظر نہیں آتا ) بھا جی! بات یہ ہے کہ جب ہم منہ اوپر اُٹھاتے ہیں تو ہم کو آسمان اور ستارے نظر آتے ہیں- اللہ کے جلوے دکھائی دیتے ہیں- کہنے لگا، آپ کبھی مری گئے ہیں؟ میں نے کہا، ہاں میں کئی بار مری گیا ہوں- کہنے لگا، جب آدمی مری جاتا ہے نا پہاڑی پر تو پھر حال کا نظارہ لینے کے لیے وہ نیچے بھی دیکھتا ہے اور اوہر بھی- پھر اُس کا سفر Complete ہوتا ہے- خالی ایک طرف منہ کرنے سے نہیں ہوتا- جب آپ نیچے کو اور اوپر کو ملاتے ہیں، تو پھر ساری وسعت اس میں آتی ہے-
اُس نے کہا کہ یہ ایک راز ہے جب آدمی یہ سمجھنے لگ جائے کہ میں وسعت کے اندر داخل ہو رہا ہوں ( وہ پنجابی میں بات کرتا تھا، اُس کے الفاظ تو اور طرح کے ہوتے تھے) پھر اُس کو قربت کا احساس ہوتا ہے- لیکن حوصلہ کر کے وہی کہنا پڑتا ہے، جیسا کہ بابا جی کہتے تھے کہ "اے اللہ! تو میرے پاس آجا مجھہ میں تو اتنی ہمّت نہیں کہ میں آ سکوں" اور وہ یقیناً آتا ہے- بقول سلطان سنگھاڑے والے کے کہ اس کے لیے کہیں جانا نہیں پڑتا، اس لیے کہ وہ تو پہلے سے ہی آپ کے پاس موجود ہے اور آپ کی شہ رگ کے پاس کرسی ڈال کر بیٹھا ہوا ہے- آپ اُسے دعوت ہی نہیں دیتے- میں نے اُس سے کہا کہ اس کا مجھے کوئی راز بتا، مجھے کچھہ ایسی بات بتا کہ جس سے میرے دل کے اندر کچھہ محسوس ہو- کہنے لگا، جی! آپ کے دل کے اندر کیا میں تو سارے پاکستان کے، لاہور کے لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ جب وہ باہر نکلا کریں پورا لباس پہن کر نکلا کریں- میں نے کہا، سارے ہی پورا لباس پہنتے ہیں- کہنے لگا، یہ دیکھہ تانگے میں چار بندے بیٹھے ہوئے ہیں- پورا لباس نہیں پہنا ہوا- میں نے کہا، یہ بابو گزرا ہے تھری پیس سوٹ پہنا ہوا ہے اس نے ٹائی بھی لگائی ہوئی ہے- کہنے لگا، نہیں جی آدمی جب کم از کم باہر نکلے تو جس طرح لڑکیاں میک اپ کرتی ہیں، خاص طور پت باہر نکلنے کے لیے، تو اس طرح آدمی کو بھی اپنے لباس کے اوپر خصوصی توجہ دینی چاہیے-
میں یہی سمجھتا رہا کہ وہ کوئی اخلاقی بات کرنا چاہتا ہے لباس کے بارے میں، جیسے ہم آپ لوگ کرتے ہیں- کہنے لگا، لوگ سارے کپڑے پہن تو لیتے ہیں، لیکن اپنے چہرے پر مسکراہٹ نہیں رکھتے اور ایسے ہی آجاتے ہیں لڑائی کرتے ہوئے اور لڑائی کرتے ہوئے ہی چلے جاتے ہیں- تو جب تک آپ چہرے پر مسکراہٹ نہیں سجائیں گے، لباس مکمل نہیں ہوگا- یہ جو تانگے پر بیٹھے ہوئے ہیں چار آدمی، کہنے لگا یہ تو برہنہ جا رہے ہیں- مسکراہٹ اللہ کی شکر گزاری ہے اور جب آدمی اللہ کی شکر گزاری سے نکل جاتا ہے، تو پھر وہ کہیں کا نہیں رہتا- میں کہا، یار! ہم تو بہت عبادت گزار لوگ ہیں- باقاعدگی سے نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں- اس پر وہ کہنے لگا،جی! میں لال قدسی میںرہتا ہوں، وہاں بابا وریام ہیں- وہ رات کو بات (لمبی کہانی) سنایا کرتے ہیں-
انہوں نے ہمیں ایک کہانی سنائی کہ پیرانِ پیر کے شہر بغداد میں ایک بندہ تھا جو کسی پر عاشق تھا- اُس کے لیے تڑپتا تھا، روتا تھا، چینخیں مارتا تھا اور زمین پر سر پٹختا تھا- لیکن اُس کا محبوب اُسے نہیں ملتا تھا- اُس شخص نے ایک بار خدا سے دعا کی کہ اے اللہ! ایک بار مجھے میرے محبوب کے درشن تو کرا دے-اللہ تعالٰی کو اُس پر رحم آگیا اور اُس کا محبوب ایک مقررہ مقام پر، جہاں بھی کہا گیا تھا، پہنچ گیا- دونوں جب ملے تو عاشق چٹھیوں کا ایک بڑا بنڈل لے آیا- یہ وہ خط تھے، جو وہ اپنے محبوب کے ہجر میں لکھتا رہا تھا- اُس نے وہ کھول کر اپنے محبوب کو سنانے شروع کر دئیے- پہلا خط سنایا اور اہنے ہجر کے دکھڑے بیان کیے- اس طرح دوسرا خط پھر تیسرا خط اور جب وہ گیارہویں خط پر پہنچا تو اُس کے محبوب نے اُسے ایک تھپڑ رسید کیا اور کہا "گدھے کے بچّے! میں تیرے سامنے موجود ہوں، اپنے پورے وجود کے ساتھہ اور تو مجھے چٹھیاں سنا رہا ہے- یہ کیا بات ہوئی" سلطان کہنے لگا، بھا جی! عبادت ایسی ہوتی ہے-آدمی چٹھیاں سناتا رہتا ہے، محبوب اُس کے گھر میں ہوتا ہے، اُس سے بات نہیں کرتا- جب تک اُس سے بات نہیں کرے گا، چٹھیاں سنانے سے کوئی فائدہ نہیں-
میں یہ عرض کر رہا تھا کہ ایسے لوگ بڑے مزے میں رہتے ہیں- میں بڑا سخت حاسد ہوں ان کا، میں چاہتا ہوں کہ کچھہ کیے بغیر، کوشش، Struggle کیے بغیر مجھے بھی ایسا مقام مل جائے، مثلاً جی چاہتا ہے کہ میرا بھی پرائز بانڈ نکل آئے ساڑھے تین کروڑ والا- لیکن اس سے پہلے میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ چاہے وہ پرائز بانڈ نکلے نہ نکلے ( ایمانداری کی بات کرتا ہوں) مجھے وہ عیاشی میسر آجائے، جو میں نے پانچ آدمیوںکے چہرے پر اُن کی روحوں پر دیکھی تھی، کیونکہ اُن کی دوستی ایک بہت اونچے مقام پر تھی- اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے- اللہ حافظ!!
 

شمشاد

لائبریرین
باب 50

باب 50

جیرا بلیڈ، ڈاکیا اور علم

اس پروگرام کے شروع ہونے سے ذرا پہلے میں ایک نیا کیلنڈر دیکھ رہا تھا جس کے اوپر ایک بڑے شیر کی تصویر تھی اور وہ شیر ایسا خوفناک تھا جو میں نے یا آپ نے کبھی چڑیا گھر میں اپنی نظر سے نہیں دیکھا۔ اس کے نوکیلے دانت خنجر کی طرح ہوتے ہیں اور اس کا چہرہ بہت ہی خوفناک ہوتا ہے۔ یہ شیر اب تو نایاب ہے۔ یہ ڈائنوسار کے زمانے میں ہوا کرتا تھا اور اپنے آس پاس، ارد گرد جانورں کو اٹھا کر خوراک کے لیے لے جاتا تھا۔ مجھے خیال آیا کہ جانور کس طرح سے انسانوں کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں اور پھر کس طرح سے ہمارے اوپر حاوی بھی ہوتا رہا ہے اور کن کن خصوصیات کی بنا پر یہ انسان سے بہتر ہے۔ میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ماضی، حال اور مستقبل کا جانور یہ انسانوں سے یوں بہتر ہے کہ اس میں دیکھنے کی صلاحیت ہم آپ سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی بصارت بڑی تیز ہوتی ہے۔ آپ ایک گوشت کا چھوٹا سا ٹکڑا یا بوٹی زمین پر رکھ دیں تو میل بھر اونچی اڑتی ہوئی چیل فوراً جھپٹا مار کر اس بوٹی کو اچک لے گی لیکن وہ مجھے یا آپ کو نظر نہیں آ سکتی ہے۔ کبھی آپ صبح اٹھ کر چڑیوں کو دانہ ڈالیں تو دور اڑتی ہوئی چڑیاں بڑی جلدی ان دانوں کو دیکھ لیتی ہیں اور جانوروں میں شکرا تو دیکھنے کی بہت زیادہ صلاحیت رکھتا ہے۔ اس طرح سے سننے کی قوت چمگادڑ میں بہت زیادہ ہے۔ بہت ساری آوازیں ایسی ہوتی ہیں جو یہاں موجود ہیں لیکن ہمارے کان ان کو نہیں سن سکتے لیکن چمگادڑ انہیں سن سکنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اندھی چمگادڑ رات کے اندھیرے میں اڑتے ہوئے Sound کو سنتی ہے۔ اسی طرح سے سونگھنے کی طاقت کتوں میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ وہ بند ٹرنک کے اندر پلاسٹک کے لفافوں میں بڑی مہارت سے بند کی ہوئی ہیروئن کو بھی سونگھ لیتے ہیں۔ آپ نے چور پکڑنے والے سونگھے کتوں کے بارے میں بھی سنا ہو گا۔ وہ ایک پاؤں کا نشان سونگھ کر اصل آدمی کو پہچان لیتے ہیں۔ جانوروں کی ان غیر معمولی صلاحیتوں کے باوصف انسان کی برتری اپنی جگہ قائم ہے۔ خونخوار شیر اور بھاری بھر کم ہاتھی انسانی صلاحیتوں کو نہیں پا سکتا ہے۔ اللہ کی طرف سے جو ہمیں عقل سلیم عطا کی گئی ہے ہم اس پر اللہ کے شکر گزار ہیں۔ میں شیر کی تصویر دیکھ کر سوچنے لگا کہ ہڑپہ یا انڈس ویلی کے پاس یقیناً پرانے زمانے میں بڑے بڑے جھاڑ اور جنگل ہوتے ہوں گے جن میں بڑے بڑے شیر رہتے ہوں گے تو غار میں رہنے والے “ گجو “ نے اپنے کسی دوست “ بینڈی “ سے ضرور کہا ہو گا کہ یار یہ شیر بہت تنگ کرتا ہے اس اس علاقے کے جتنے بھی ہرن ہیں اس نے ختم کر دیئے ہیں۔ ہم اس کا کیا سدِ باب کریں۔ پھر بینڈی نے کہا ہو گا کہ تم مجھ سے یہ اپنا کیا دکھ بیان کر رہے ہو میں خود پریشان ہوں کیونکہ میری بیوی نے مجھے پکڑ کے دو چماٹے مارے ہیں اور غار سے یہ کہہ کر نکال دیا ہے کہ بچے بھوکے مر رہے ہیں تم ہر روز ایک چھوٹا سے خرگوش مار کر لے آتے ہو اور میرے اٹھارہ بچے ہیں تم کوئی بڑا شکار کر کے لاؤ (اس زمانے میں یقیناً فیملی پلاننگ کا کوئی تصور نہیں ہوتا ہو گا نا) اور اس نے کہا کہ میں تو رات بھر گھر سے باہر ہی سویا ہوں۔ اس وقت گجو نے بینڈی سے کہا ہو گا کہ دریا کنارے جہاں یہ شیر پانی پینے آتا ہے وہاں ایک بہت بڑا گڑھا ہے اور اگر ہم شیر کر پھانسنے کے لیے اس گڑھے کے اندر گوشت کا کوئی ٹکڑا یا ران وغیرہ رکھ دیں تو شیر یقیناً اسے پانے کے لیے چھلانگ لگائے گا تو بینڈی نے کہا کہ وہ بڑا جانور ہے۔ چھلانگ مار کر گوشت لے لے گا اور طاقت سے باہر نکل آئے گا۔ اس کا کوئی اور حل ڈھونڈنا چاہیے۔ انہون نے کہا کہ ہم بانس کا ایک مضبوط اور نوکیلا سرکنڈہ لیتے ہیں اور اسے گڑھے کے درمیان میں کھڑا کرتے ہیں جب یہ شیر چھلانگ لگائے گا تو یہ بانس اس کے پیٹ میں دھنس جائے گا۔ اس منصوبے پر اتفاق ہوا اور دونوں نے ایک بانس گاڑ دیا اور گوشت رکھ دیا۔ شیر کو گوشت کی خوشبو آئی اور اس نے چھلانگ ماری تو وہ بانس اس کے پیٹ کے آرپار ہو گیا اور شیر کے مرنے کی خوشی میں انہوں نے وہاں لوک گیت بھی گائے ہوں گے کہ شکر ہے یہ بلا ٹلی۔ اب ان دونوں کے درمیان ایک اور بات طے ہوئی کہ یہ جو فعل ہم نے کیا ہے اور یہ ہمارے ذہن کا کمال ہے اور اب اس ذہنی استراح کو آگے پھیلنا چاہیے اور لوگوں کو پتہ لگنا چاہیے کہ یوں بھی ہو سکتا ہے چنانچہ انہوں نے کسی پرانے چیتھڑے پر مٹکے یا گھڑے پر بجھے ہوئے کوئلے کے ساتھ ایک ڈیزائن سا تیار کیا جس میں دکھایا گیا تھا کہ اگر ایسا دائرہ بنے جس کے درمیان ایک بانس یا کوئی نوکیلی چیز گاڑ دی جائے تو اس طرح سے دشمن کو زیر کیا جا سکتا ہے۔ اس سے ان کا مقصد اپنے دیگر ساتھیوں کو ایسے ظالم اور خونخوار جانوروں سے چھٹکارہ مل سکتا ہے۔ جب انہوں نے اس طرح ڈیزائن بنایا تو انہیں خدا کی طرف سے کچھ لکھنے کا احساس ہوا۔ جب انہیں لکھنا آ گیا تو انہوں نے پتھر کی ٹھیکریاں استعمال کیں۔ اس طرح انسان کو جو سب سے بڑی نعمت میسر آئی وہ لکھنے کی تھی اور تیسری سب سے بڑی خوبی جو ہم میں اس دونوں صلاحیتوں کے امتزاج سے ملی وہ یہ تھی کہ ہم اپنے ذہن کے اندر ایک مشکل پیدا بھی کر سکیں اور اس پیچیدہ خیال کو مزید گانٹھیں بھی دے سکتے ہیں اور یہ خیال کہ شیر یا ہاتھی کے ذہن میں پیدا کبھی نہیں ہوا۔ ہم میں چوتھی صلاحیت یہ پیدا ہوئی کہ ہمارے ذہن کا پیچیدہ خیال جب کسی دوسرے تک منتقل ہوتا ہے تو وہ بھی اسے سمجھ لیتا ہے۔ جب غالب کہتا ہے کہ :

گر تیرے دل میں ہو خیال
وصل میں شوق کا زوال

یا وہ کہتا ہے کہ :

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی

جب میں سوچتا ہوں کہ یہ باتیں غالب کے ذہن میں کیسے آئیں اور جب اس سے ہو کر ہم تک پہنچیں تو ہم نے بھی فوراً یہ سمجھ لیا کہ غالب کیا کہنا چاہ رہا ہے۔

اقبال کا ایک شعر میری سمجھ میں آ جاتا ہے۔ شیکسپیئر کا کوئی قول ہوتا ہے تو وہ بھی سمجھ جاتا ہوں اور میں اس ڈرامہ “ ہیملٹ “ (Hamlet) میں To Be Or Not To Be کو بھی جاننے لگا ہوں جیسا کہ یہ بات مصنف کے ذہن میں پیدا ہوئی تھی۔ ہم نے ان نعمتوں پر کبھی غور نہیں کیا۔ آج کیلنڈر کی مہربانی سے مجھے خیال آیا اور یہ باتیں میرے ذہن میں آئیں لیکن جب ہم پڑھنا لکھنا سیکھ گئے اور علم ہمارے تصرف میں آنے لگا تو پھر اس کے ساتھ ایک خدشہ بھی پیدا ہو گیا کہ یہی Tool اور ہتھیار منفی انداز میں بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب بھی دعا مانگتے تھے یہی فرماتے کہ “ اے اللہ مجھے علم نافع عطا فرما۔“

وہ انسانیت کو فائدہ پہنچانے کا علم مانگتے۔ وہ نقصان دینے والے علم سے پناہ مانگتے۔ ہم سائنس کی ترقی کی بڑی بات کرتے ہیں اور اس علم کے فوائد کا ذکر جابجا کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے بہت نقصان بھی ہیں۔ سائنس کی بدولت ڈیزی کٹر اور ایٹم بم بنا کر انسانوں کی وسیع پیمانے پر ہلاکت کا سامان کیا گیا ہے۔ ہم سب کو بار بار سوچ کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم علم نافع کی طرف جائیں۔ اس کی ہی آرزو کریں۔ آپ دیکھیں کہ تالا توڑنے کا بھی تو ایک علم ہی ہے اور جیب کاٹنا بھی ایک علم ہے۔ میرا ایک دوست اوکاڑہ میں رہتا ہے۔ اس کے چھوٹے بھائی نے ایف-اے کیا تو میں نے اس سے کہا کہ اسے بی-اے میں داخل کروانے کے لیے یہاں بھیج دو لیکن اس نے اپنے بڑے بھائی سے کہا کہ میں بی-اے میں داخلہ نہیں لینا چاہتا۔ آپ کے دوست اشفاق صاحب ہیں ان کا بڑے لوگوں سے ملنا جلنا ہے۔ آپ مجھے بس جیب کترے کا علم سکھا دیجیئے میں آگے پڑھ کر کیا کروں گا۔ اب میں سمجھا کہ وہ مذاق کرتا ہے لیکن اس نے مجھے فون کر کے بھی یہی کہا۔ میں نے اپنے دوست سے کہا کہ اسے میرے پاس بھیجو۔ ان نے میرے پاس آ کر کہا کہ بھائی جان بی-اے کا ایک علم ہے تو جیب کاٹنا بھی تو ایک علم ہی ہے نا۔ میرے ایک تھانیدار دوست لٹن روڈ تھانے میں تھے۔ میں نے اس سے کہا کہ یار اس لڑکے کا کچھ کرو۔ اس نے مجھ سے کہا کہ ایک پرانا بابا ہے اس سے پوچھتے ہیں۔ اس بابے نے کہا کہ میں پانچ سو روپیہ لوں گا اور باقاعدہ اسے شاگردی اختیار کرنی پڑے گی۔ ایک پگڑی اور سیر لڈو پہلے دن بطور شاگرد اسے لانا ہوں گے۔ پھر کام سکھانا شروع کریں گے۔ انشاء اللہ یہ نو ماہ، سال میں “ جیرا بلیڈ “ ہو جائے گا۔ مجھے یہ سن کر بڑی حیرت اور عبرت ہوئی کہ سکھانے والے بھی موجود ہیں اور سیکھنے والے بھی۔

یہ ایک چھوٹی سطح ہے، بڑے لیول پر بھی یہ کام ہو رہا ہے۔ جسے آپ مافیا کہتے ہیں۔ بڑے بڑے اور نیک نام ملکوں میں نقصان دہ علم کے فروغ کا اور اس کے استعمال کا کام ہو رہا ہے۔ ہمارے اوپر Terrorism کا الزام دھرا جاتا ہے لیکن انکے اپنے ہاں بھی عجیب طرح کی دہشت گردی کا چلن موجود ہے۔ اس سے ایک خوف ضرور پھیل رہا ہے۔ مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد ہے۔ میرے والد صاحب ڈاکٹری پڑھنے کے لیے لاہور آئے۔ وہ 93-1890ء کی بات ہو گی۔ ابا جی بتاتے ہیں وہ اپنی والدہ کو کارڈز لکھتے تھے کہ میں یہاں بخریت ہوں اور پڑھائی وغیرہ بھی ٹھیک جا رہی ہے۔ میری دادی ان پڑھ تھیں۔ خط یا کارڈ لانے والے ڈاکیا ہی اماں کو وہ خط وغیرہ پڑھ کر سنا دیا کرتا تھا۔ ایک بار ایسا ہوا کہ میرے والد کے خط میری دادی کو نہیں ملتے رہے تو وہ ابا جی بڑے پریشان ہوئے کہ خط کیوں نہیں مل رہے تو انہوں نے کارڈ میں لکھا کہ “ اماں اس مرتبہ آپ ڈاکیے کو تنبیہہ کر دیجیے کہ اگر اس نے خط پہنچانے مین کوتاہی کی تو میں اس کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آؤں گا اور میں اس کی شکایت کروں گا۔ اب وہ ڈاکیا کارڈ یا خط لے کر آیا تو ظاہر ہے کہ اسے اس ڈاکیے نے ہی پڑھنا تھا اور وہ خط کو پڑھنے لگا لیکن جب وہ اس مقام پر پہنچا تو تو تھوڑا رکا اور پھر وہ پڑھنے لگ کہ امی جی ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ “ اس ڈاکیے کو تنبی (چادر) دیجیے تا کہ یہ آپ کا شکر گزار ہو“ میری دادی نے کہا کہ “ میں اک دی بجائے دو تنبیاں لے دینی آں“ اور انہوں نے مشہور قسم کا لٹھا لے کر دو اعلٰی درجے کی شلواریں سلوا کر اس ڈاکیے کو دے دیں۔ اب آپ دیکھئے کہ اس ڈاکیے نے “ تنبیہ “ کو کس طرح ‘ تنبی ‘ میں بدل ڈالا۔ دادی بتاتی تھیں کہ پھر اس کے بعد انہیں وقت پر خط ملتے رہے۔ اسی طرح لکھنے کے معاملے میں بھی تاریخ بھری پڑی ہے جس میں گروہ انسانی سے کوتاہیاں ہوتی رہیں اور ان کی تحریروں سے لوگوں کو نقصان پہنچتا رہا ہے لیکن جہاں کوتاہیاں ہوئیں وہاں لکھنے سے فائدے بھی ہوئے ہیں اور علم نے ہی انسان کو ساری منازل طے کرا کے یہاں تک پہنچایا ہے لیکن میرے اندازے کے مطابق اب علم، تعلیم Learning کا قافلہ اس وقت تک آگے نہیں چل سکتا جب تک اس کے ساتھ تربیت نہ ہو۔ تربیت کے لیے روح کی بالیدگی کی بڑی ضرورت ہوتی ہے اور اس کی بابت بابوں سے پوچھنا چاہیے جو ان منازل سے گزرتے ہیں کہ یہ کیا چیز ہے اور ہم اپنی روح کو وہ سربلندی کس طرح سے عطا کر سکتے ہیں کہ ہم اپنی نظر میں ہی محترم ٹھہریں۔ ہماری سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ ہم اپنی نظر میں محترم نہیں ہیں۔ جو شخص اپنی نظر میں محترم ٹھہر گیا وہ باعزت اور باوقار ہو گیا۔ اس کو توقیر ذات ملنے لگی لیکن یونیورسٹیوں، مکتبوں اور دانش کدوں میں یہ تعلیم نہیں ملتی۔ اس کے لیے کھوج کرنی پڑتی ہے اور اس کے لیے اپنے آپ کے ساتھ بیھنا پڑے گا اور اپنے آپ کو Face کرنا پڑے گا۔ پھر آپ میں وہ آسانیاں نکلنے لگیں گی جن کی ہم کو خواہش ہے۔ وگرنہ انسان تمباکو کی بل دی ہوئی گٹی یا “ کھبڑ “ کی طرح ہی رہے گا۔ جس سے اپنے ہی خم نہیں کھولے جاتے۔ میں جب اٹلی میں تھا تو میں اس وقت چھبیس برس کا نوجوان تھا۔ وہاں میرا ایک دوست اور ہم عصر ڈاکٹر بالدی بھی تھا۔ اس کے گھر میں اس کی ماں اور والد کی شادی کو سالگرہ کی تقریب تھی۔ ہم نے وہاں کیک ویک اور چائے کافی سے لطف اٹھایا لیکن اس کھانے پینے سے پہلے ڈاکٹر بالدی کے باپ نے کہا کہ دیکھو بھئی آج ایک اچھا دن ہے میں اپنی بیوی سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر زندگی میں کوئی ایسی کوتاہیاں کی ہیں جس کا مجھے علم نہ ہو اور یہ انہیں جانتی ہو تو مجھے یہ بتائے اور میں اس حوالے سے ڈائریکٹ کمیونی کیشن چاہوں گا۔ وہ کہنے لگا کہ میرے ساتھ جو زیادتیاں ہوئی ہیں وہ میں کہوں گا۔ ہم نے ان دونوں کو کاغذ دیا کہ وہ اگر کوئی ایسی بات ہوئی ہے تو لکھیں۔ دونوں نے جب لکھ لیا تو ہم نے ان سے کاغذ لے لیے۔ بالدی کی ماں نے لکھا کہ ایک بار ہم نے تھیٹر جانا تھا اور بالدی کے ابو نے کسی سرکاری کام کی وجہ سے تھیٹر جانے سے معذرت کی حالانکہ میرا اندازہ یہ ہے کہ اسے کوئی کام نہیں تھا۔ اس نے لکھا کہ یہ آج بتیس برس پہلے کی بات ہے۔ میں اس وقت نوجوان تھی لیکن میرے شوہر نے جانے سے انکار کر دیا جس کا آج تک میرے دل پر بوجھ ہے۔ پھر بالدی کی ماں آئی اس نے کہا کہ وہ ہمارے ہاں بارہ دن ٹھہرے گی لیکن وہ تیرہ دن رہی (خواتین و حضرات ساس تو ویسے ہی بری لگتی ہے اور دنیا میں آج تک کوئی خوبصورت ساس نہیں بنی ہے) اس کے بعد بالدی کے اباجی کی تحریر تھی۔ جس میں سب سے پہلے انہوں نے لکھا ہوا تھا I Love You۔ دوسرے کاغذ پر بھی I Love You اور پھر تمام کاغذوں پر یہی فقرہ درج تھا۔

بچو لکھنے کا ایک انداز ہوتا ہے۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ڈاکیے کی طرح تقریر میں بالدی کے ابو کی طرح تحریر میں لکھت اور پڑھت میں ہم ایسا کریں کہ اس سے دوسرے کو سکون اور نفع عطا کرئے۔ اگر علم جیرا بلیڈ بننے والا ہے تو ہمارے کسی علم یا پڑھنے لکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور ہم جانوروں سے بھی بدتر ہوتے چلے جائیں گے۔ چڑیا بلبل گاتے ہونے مر جاتے ہیں۔ ہم ایسے نہیں کر سکتے۔ ہمیں ہر وقت کوئی نہ کوئی دھڑکہ ہی لگا رہتا ہے۔

میری دعا ہے کہ اللہ ہمیں بھی خوش رہنے کی صلاحیت عطا فرمائے اور ہم ایسے ہو جائیں کہ ہم خدا کے ہر حکم کو خوشی خوشی بجا لائیں اور اپنے Creator کے حکم زندگی گزاریں۔

میری دعا ہے کہ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین۔

اللہ حافظ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
زاویہ

“گھوڑا ڈاکٹر اور بلونگڑا“
ہم اہل زاویہ کی طرف سے آپ کی خدمت میں سلام پہنچے۔
ایک مرتبہ پھر اس ماحول میں‌پہنچ کر یقیناَ آپ کو بھی ویسی ہی خوشی ہوئی ہوگی جیسی کہ مجھے اس وقت ہو رہی ہے۔ ایف-اے کے زمانے میں عام طور پر (یہ ہمارے زمانے کی بات ہے) سٹوڈنٹس انگریز شاعر Oscar Wildeکی محبت میں‌بہت مبتلا ہو تے تھے۔ اب زمانہ آگے نکل گیا ہے۔ اب شاید اس کے نظموں‌پر اس قدر توجہ نہ دی جاتی ہو۔ جس طرح سے ہم اس کی محبت میں گرفتار تھے ویسے ہی ہماری رتی جناح(قائد اعظم کی اہلیہ) جو ہم سے کافی چھوٹی تھیں وہ بھی Oscar Wlideکی محبت میں بہت بری طرح سے گرفتار تھیں اور اس کی نظمیں وہ قائد اعظم کی زبانی سنا کرتی تھیں۔ ان دنوں قائد اعظم بڑے مصروف ہوتے تھے اور ان پر بہت زیادہ بوجھ ہوا کرتا تھا اور وہ کام کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا لیکن وہ ایک ہیRequestکرتی تھیں کہ “جناح مجھے اس کی ایک نظم اور سناؤ“- قائد اعظم کا قد جیسا کہ آپ بھی جانتے ہیں کہ بہت خوبصورت تھا لیکن آپ شاید اس بات سے واقف نہ ہوں کہ جب قائد اعظم لندن بیرسٹری پڑھنے کے لئے گئے تو وہاں ایک ایکٹر کی ضرورت کا اشتہار آیا۔ یہ اشتہار ایک Shakespearen Theatre Companyکی طرف سے تھا۔ اب قائد اعظم کو بھی اپنی انگریزی دانی اور اپنی آواز پر ناز تھا اور وہ بھی وہاں چلے گئے۔ وہاں تمام امیدوار گورے تھے جو ستر کے قریب تھے۔ قائد اعظم نے ایک مکالمہ پڑھ کر سنایا اور اتنے سارے امیدواروں میں جس کو چنا گیا وہ قائد اعظم ہی تھے۔ قائد اعظم اس انتخاب پر بہت خوش تھے اور وہ اپنا مستقبل ایک کامیاب اور نامور ایکٹر کا دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے اس کمپنی کا ڈرامہ سائن کر لیا اور گھر آ کر اپنے والد کے نام خط لکھا کہ “میں اتنے زیادہ لوگوں میں سے منتخب کر لیا گیا ہوں اور ایک انٹر نیشنل تھیٹریکل کمپنی میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گیا ہوں“۔ اب ان کے والد پونجا جناح پرانی وضع کے آدمی تھے۔ انہوں نے جوابی خط لکھا(اب مجھے یاد نہیں کہ وہ خط بذریعہ جہاز گیا یا تار کے ذریعے بھیجا گیا) اور اس میں کہا کہ تم کو جس کام کے لئے بھیجا گیا ہے تم اس کی طرف توجہ دو۔ یہ تم نے کیا نیا پیشہ اختیار کر لیا ہے۔ “خبردار اگر تم نے اس طرح کی کسی سرگرمی میں حصہ لیا تو“ اب اس زمانے کے بچے بھی بڑے نیک اور تابع فرمان ہوتے تھےاور خط ملتے ہی قائد اعظم کو فکر پڑ گئی اور اس کمپنی کے مالک سے کہا کہ سر میں بہت شرمسار ہوں اور میں وعدہ کے مطابق پرفارم نہ کر پاؤں گا۔انہوں نے پوچھا کہ آخر تمہیں ہوا کیا ہے؟قائد اعظم نے کہا کہ سر میرے والد صاحب نے منع کیا ہے اور میرا اس طرح تھیٹر میں کام کرنا انہیں پسند نہیں ہے۔
کمپنی کے مالک نےکہ تمھارے والد کو کیا اعتراض ہے۔ یہ تمہاری زندگی ہے اور تم جو چاہو پیشہ اختیار کر سکتے ہو۔
قائد اعظم نے کہا کہ Sir you do not understand ہماری زندگی میں والد ہڑے اہم ہوتے ہیں اور میں معافی چاہتا ہوں۔
رتی قائد اعظم سے Oscar Wilde کی نظمیں‌ضرور سنا کرتی تھیں۔ یہ پروگرام شروع ہونے سے پہلے قبل مجھے آسکر وائیلڈ کی نظم کا ایک مصرعہ یاد آرہاتھا
Suffering is very long moment
You can not divide it by time
خواتین و حضرات! Suffering ایسی چیز ہے جو لمحاتی ہوتی ہے لیکن اسے تقسیم کرنے کے لئے چاہے کتنے ہی موسم گزر جائیں وہ کسی صورت تقسیم ہو نہیں پاتے ہیں۔ پریشانی کا ایک چھوٹا سا لمحہ بھی طویل تر ہوجاتا ہے۔ انسانی زندگی میں بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کوئی فرد یا گروہ انسانی Suffering کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج کل ہم پر بھی کچھ ایسی ہی کیفیت طاری ہو چکی ہے۔ ہم ایک بوجھ تلے دبے ہوتے ہیں اور ہمیں اس احساس ندامت نے دبا رکھا ہے جو کسی طرح سے ہمیں گھیر کر اپنے چنگل میں ‌لے آیا ہے۔ یہ PainاورSufferings دکھ و الم تو انسانی زندگی کے ساتھ چلتے رہنا چاہیئے لیکن مایوسی اس کے قریب نہیں آنی چاہیئے۔ مجھے خوشی ہے کہ جب میں‌اپنے ملک کے دوسرے ساتھیوں کو دیکھتا ہوں تو ان میں آج کے Scenario میں دو چیزیں نظر آتی ہیں۔ یا تو انہیں غصہ آتا ہے اور یا انہیں اس بات کا دکھ ہے کہ ہم بھی کسی سے کم نہیں ہیں اور ہماری گردن پر ہاتھ رکھ کر زبردستی ہمارے سر کو نیچا کرنے کی کوشش کیوں کی جارہی ہے۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ خدا کے کرم و فضل سے لوگ اس قدر مایوسی کے عالم میں نہیں‌ہیں جیسا کہ ہمارا دشمن اندازہ کر رہا تھا۔
خواتین و حضرات! مایوس ہونے کی ضرورت نہیں لیکن دکھ تک جانے کا آپ کو حق حاصل ہے۔ میں جب سکول میں داخل ہوا تو مجھے جس مس کے حوالے کیا گیا وہ بڑی خوش اخلاق تھیں۔ نہایت خوش وضع اور لمبے قد کی شفیق سی استاد تھیں۔ ہماری مائیں ماسیاں بڑی سخت ہوتی تھیں اور اس استاد کی طرف سے ہماری طرف جو شفقت کا لپکا آرہا تھا وہ میرے لئے نیا تجربہ تھا۔ وہ ہمارے کھیلنے کے لئے آسائش کا سامان بھی مہیا کرتی تھیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس استاد کے لیے دل میں ایک ایسی محبت پیدا ہو گئی ہے جس کا توڑنا بڑا مشکل ہو گیا۔ ہمیں اماں کے پاس رہنا تکلیف دہ ہوتا تھا لیکن اس مس کے پاس زیادہ آسانی محسوس ہوتی تھی۔ خواتین و حضرات گو یہ ایک میری ذاتی سی بات ہے اور میں آپ کو اپنا دکھ بتاتا ہوں کہ ان کی اس سکول سے یا ٹرانسفر ہو گئی یا پھر انہوں نے خود ہی سکول چھوڑ دیا۔ بہر کیف وہ ہم سے جدا ہو گئیں۔ میں اب اس بڑھاپے میں‌پہنچ چکا ہوں، میں نے اب تک کی اپنی زندگی میں اتنا دکھ محسوس نہیں کیا جس قدر اس شفیق استاد کی جدائی سے مجھے ہوا۔ مجھے شاید یہ بات آپ کو بتانی چاہیئے یا نہیں کہ اس جدائی میں نہ کھانا اچھا لگتا تھا نہ پینا اچھا لگتا تھا اور نہ ہی زندہ رہنا اچھا لگتا تھا۔ مجھے زبردستی سکول بھیجا جاتا تھا اور میں‌اپنی اس ٹیچر کی یاد اور محبت میں اس قدر مبتلا ہو گیا تھا کہ میں عشق ومحبت کے قصے پڑھتا ہوں تو مجھے خیال آتا ہے کہ میں اس وقت گو بہت چھوٹا تھا لیکن لاشعور میں آخر کس طرح اتنا آگے بڑھ گیا تھا کہ میں‌اپنی اس استاد کو ایک بہت ہی ارفع اور اعلٰٰی مخلوق سمجھ کر اس کی پرستش کرنے لگا تھا اور جدائی کا دکھ بہت گہر امحسوس کرتا تھا اور اس دکھ کے باوصف میں مایوس نہیں تھا اور میرے دل کے کسی نہ کسی کونے کھدرے میں یہ بات ضرور تھی کہ میں ان سے ضرور ملوں گا اور پھر اپنا آپ اس شفیق استاد کی خدمت میں‌پیش کردوں گا۔ وقت گزرگیا اور ان سے ملنے کا کوئی موقع ہاتھ نہ آیا۔ وہ جانے کہاں چلی گئیں لیکن دل میں ان کا دکھ بڑھتا رہا۔ میں نے پھر میٹرک کیا، ایف-اے ، بی-اے کر چکنے کے بعد یونیورسٹی کا سٹوڈنٹ بنا۔ ولائیت چلا گیا اور وہاں جا کر پڑھاتا بھی رہا۔ لکھے لکھانے کا کام بھی کرتا رہا۔ جب میں‌لوٹ کر آیا تو مجھے ایک خاتون ملیں۔ بہت سنجیدہ، سلیقہ شعار اور وہ بہت پڑھی لکھی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ میں کچھ لکھتی ہوں اور مجھے آپ کا سٹائل بہت پسند ہے اور میں چاہتی ہوں کہ آپ کی طرز کا لکھنا مجھے بھی آئے۔ میں نے ان سے کہا کہ جی میں نے لکھنا کہیں سے سیکھا تو نہیں یہ آپ کی مہربانی ہے کہ آپ میرے بارے میں ایسا فرما رہی ہیں لیکن وہ محترمہ اصرار کرنے لگیں کہ آپ مجھے اصلاح‌ضرور دیں اور میرے تحریروں پرComments ضرور دیں۔ ان سے جب دوسری ملاقات ہوئی تو یہ جان کر میرے دل کی کلی کھل اٹھی کہ وہ محترمہ میری وہ استاد تھیں جس کی جدائی کا دکھ میں اب تک دل میں لئے پھرتا تھا اور آج میں اپنی اس محبوب ٹیچر کا استاد بن گیا۔ میرے اس وقت مایوس نہ ہونے نے مجھے اتنا بڑا سہارا دیا اور میں ایک امید پر زندہ رہا۔ میں جب بچپن کی بات کرتا ہوں تو اگر آپ مجھے سچ بولنے کی اجازت دیں تو میں بتانا چاہوں گا کہ اس وقت دو مرتبہ مجھ پر مایوسی کا عالم بھی رہا۔ اتنا مایوس جس طرح ایک مرغے کی کلغی گر جائے تو وہ ہو جاتا ہے۔ میں بھی اس قدر شدید مایوسی میں رہا لیکن اس کے بعد میں‌نے خدا سے کہا کہ اب بس یہ مایوسی مجھے زندگی کے بقیہ حصے میں نہیں ستائے گی۔ میں سکول میں‌پکی یا پہلی جماعت میں تھا۔ میرے پاس سے ایک تانگہ گزرا۔اس تانگے کا کوچوان چکھ ظالم تھا اور وہ گھوڑے کو چھانٹے مار کر چلاتا تھا۔ گرمیوں کا موسم تھا اور چھانٹے لگنے سے بیچارہ گھوڑا کچھ تڑپا اور بے ہوش ہو کر گر گیا۔ لوگوں نے جلدی سے گھوڑے کے بند اور راسیں کھول دیں اور لوگ اسے اٹھانے کی کوشش کرنے لگے لیکن وہ اٹھ نہ سکا۔کسی نے کہا کہ گھوڑا ڈاکٹر کو بلاؤ۔ جب میں‌نے یہ بات سنی تو میں بہت خوش ہوا اور وہاں کھڑا ہو کر دیکھنے لگا اور گھوڑا ڈاکٹر کا انتظار کرنے لگا کہ گھوڑا ڈاکٹر آکر کس طرح اس گھوڑے کو اٹھائے گا۔ اب میں نے گھر جاتا تھا اور بستہ میرے ہاتھ میں تھا۔ گھوڑا ڈاکٹر کے انتظار میں آدھا گھنٹہ گزر گیا۔ پون گزر گیا اور پھر تقریباّ ایک گھنٹے کے بعد ایک تانگہ آکر وہاں رکا جس میں سے ایک آدمی اترا جو اس گھوڑے کی طرف چلا۔ اب میں‌کسی گھوڑے نما ڈاکٹر کے بارے میں‌سوچ رہا تھا لیکن وہ تو بندہ ڈاکٹر نکلا اور میرے ایک گھنٹے کا انتظار سخت مایوسی میں تبدیل ہوگیا۔میں واقعی اس وقت یہی سمجھتا تھا کہ گھوڑوں کا علاج کرنے کے لئے گھوڑے ہوں گے اور کتوں کا علاج کرنے کے لئے کتے ہوں گے۔ میں وہ مایوسی آج تک نہیں بھول سکا۔ وہ مایوسی میرے دل و دماغ سے جاتی ہی نہیں ہے۔
دوسری بار جب میں سخت مایوس ہوا وہ واتعہ کچھ اس طرح ہے کہ ہمارے سکول کے ہیڈ ماسٹر کے بیٹے کے پاس ایک بڑا خوبصورت بلونگڑا(بلی کا بچہ)تھا۔ اسے دیکھ کر میرے دل میں بھی یہ آرزو پیدا ہوئی کہ میرے پاس بھی ایسا ہی کوئی بلونگڑا ہو۔ میں نے اپنے ابا جی سے کہا کہ آپ مجھےبھی بلونگڑا لا دیں۔ ابا جی کہنے لگے کہ چھوڑو یار، وہ تو بڑی فضول چیز ہے۔ تجھے ہم اس سے بھی اچھی چیز لے دیں گے۔ میں نے کہا کہ نہیں ابا جی میں تو بلونگڑا ہی لوں گا۔ ان دنوں میری ہمشیرہ کے ہاں بچہ پیدا ہونے والا تھا۔ ابا جی نے کہا کہ اشفاق تمھیں ایک ایسی پیاری چیز ملے گی جسے تم اٹھا بھی سکو گے۔ وہ تمھیں‌پنجہ بھی نہیں مارے گی۔
میں نے کہا کہ مجھے اس سے اور اچھی چیز کیا چاہیئے؟ خواتین و حضرات! مجھے اباجی اٹھا کے اور بڑی محبت کے ساتھ جھولا جھلاتے ہوئے صبح ہمشیرہ کی طرف لے گئے۔ میں‌نے دیکھا کہ میری ہمشیرہ سر پر رومال باندھے لیٹی ہوئی تھیں اور ان کے پہلو میں ایک چھوٹا سا اور پیارا سا بچہ پڑا تھا۔ میرے ابا جی نے وہ بچہ اٹھا کر مجھے کہا لو دیکھو۔ میں نے جب اسے دیکھا تو اس کا رنگ سرخ تھا۔ اس کے آنکھیں اور منہ ناک بند تھا۔ میں اسے تھوڑی دیر تو دیکھتا رہا اور میں‌نے پھر روتے ہوئے ابا جی سے کہا کہ نہیں ابا جی مجھے بلونگڑا ہی لے دیں۔ وہ دن بھی میری مایوسی کا دن تھا جو میں آج تک نہیں بھولا۔اس کے بعد میں‌نے اپنے اللہ سے کہا کہ میں مایوس نہیں ہوں گا اور خدا کا شکر ہے کہ اب مجھ پر جو بھی کیفییت گزرے میں کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ یہ بھی خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم سب تکلیف میں ضرور ہوتے ہیں، دکھ میں مبتلا ضرور ہو سکتے ہیں لیکن ہم مایوسی کی راہ پر نہیں چلتے اور یہ ہمارے دین نے ہمیں سکھلایا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری ساخت ان لوگوں سے مختلف ہے جو ہمارے پڑوس میں آباد ہیں۔ جن سے ہم نے یہ ملک پاکستان لیا ہے۔ آپ نے کیکر کر درخت تو دیکھا ہی ہوگا اس کی جو “مڈھ“ ہوتیہ ہے جہاں‌کیکر کی شاخیں‌آکر گرتی ہیں۔ خواتین و حضرات، سوکھا ہوا کیکر کا درخت اور اس کی سوکھی ہوئی کیکر کی “مڈھی“ پھاڑنا بہت مشکل ہوتی ہے۔ بڑے سے بڑا لکڑہارا بھی اسے آسانی سے نہیں چیر سکتا۔ اس مقصد کے لئے خاص قسم کے کلہاڑے کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں یہ واچ کرتا رہا ہوں کہ‌ خاص قسم کے کلہاڑے والے لکڑہارے جب اس پر کلہاڑے کی سو ضربیں لگاتے ہیں لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوتی کیونکہ مڈھی میں تنے ایک خاص انداز میں ایک دوسرے کو جکڑے ہوئے ہوتے ہیں اور یہ میرا مشاہدہ ہے کہ جب اس مڈھی پر 101 ویں ضرب پڑتی ہے تو وہ مڈھی چر جاتی ہے۔ پھر اس پر کسی سخت ضرب کی ضرورت ہی نہیں ہوتی وہ Continuous Effort اور اس مسلسل کوشش کے پیچھے ایک جذبہ کارفرما ہوتا ہے جو اس سخت قسم کی مڈھی کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے۔ انسان کو کسی دکھ، تکلیف یا درد میں مایوس نہیں ہونا چاہیئے اور ہمیں خداوند تعالٰی نے بھی یہی فرمایا ہے کہ تم ہرگز ہرگز مایوسی میں داخل نہ ہونا۔ لیکن چونکہ شیطان سے میری دوستی پرانی ہے اور روز اس سے میرا ملنا ہوتا۔ وہ مجھے کہتا ہے کہ دیکھو اشفاق احمد تیرا یہ کام نہیں ہوا۔ تو تو کہتا تھا کہ میں‌یہ وظیفہ یا کام کروں گا تو خدا میرا فلاں کام کر دے گا لیکن اللہ نے تیرا وہ کام کیا نہیں ہے۔ میں دکھی ہو کر اس سے کہتا ہوں کہ کام تو میرا نہیں ہوا، دعا تو میری قبول نہیں ہوئی لیکن سر میں آپ کی ڈی میں شامل نہیں ہوں گا۔ آپ مجھے مایوس کرنا چاہتے ہیں لیکن میں‌مایوس ہونے والوں میں سے نہیں ہوں۔ چاہے آپ جو مرضی کر لو۔ اب تک تو اس کے ساتھ یہ تعلق اور رشتہ قائم ہے کہ وہ مایوس کرنے کی پے در پے کوششیں کر رہا ہے اور میں مایوس نہیں ہورہا۔ آپ زندگی میں جب بھی دیکھیں گے آپ محسوس کریں گے کہ شیطان اور کچھ نہیں کرتا صرف آپ کو مایوس کر دے گا کہ دیکھو تم نے اتنا کچھ کیا لیکن کچھ نہیں ہوا۔ لیکن جناب شیطان صاحب میں دکھی ہوسکتا ہوں، رنجیدہ ہو سکتا ہوں، مایوس نہیں ہو سکتا اور یہ مجھ پر اللہ کی بڑی مہربانی اور خاص عنایت ہے کہ بچپن کے دو واقعات کے سوا کبھی مایوس نہیں ہوا۔ میں آپ سے بھی یہی توقع رکھتا ہوں اور یقین کرتا ہوں کہ آپ مایوسی ککے گھیرے میں‌کبھی مت آئیے گا کیونکہ آپ اگر کبھی جہلم کے پاس شیر شاہ سوری کے قلعے کے قریب گرو بالا ناتھ کے ٹیلے پر گئے ہوں وہاں چڑھائی چڑھ کر جانا پڑتا ہے اور وہاں جانے والے لوگ تو تانگے پر سوار بیٹھے رہتے ہیں لیکن کوچوان اتر کر گھوڑے کے ساتھ چلنے لگتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں‌کہ اگر وہ نہ اتریں اور گھوڑے کو اس بات کی تشفی نہ ہو کہ میرا مالک بھی میرے ساتھ ہے تو وہ گھوڑا کبھی اونچائی پر نہ چڑھ سکے۔ آپ لوگوں کی اس محبت کا شکریہ کہ آپ یہاں‌ تشریف لائے اور آپ نے میری بات سنی۔ اب میں اور آپ آج کے بعد کسی معاملے میں بھی مایوسی کے اندر داخل نہیں ہوں گے۔
اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطافرمائے۔ اللہ حافظ
 

قیصرانی

لائبریرین
“لڑن رات ہو وچھڑن رات نہ ہو“​
ب اوجود اس کے ہر روز اب چھایا رہتا ہے لیکن بارش نہیں ہوتی۔ بارش کی آرزو ہم ہر روز کرتے ہیں لیکن یہ ہو نہیں پاتی اور اگر ہوتی بھی ہے تو بہت کم کم۔ بارش اور جاندار کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ سب جاندار پانی سے پیدا ہوئے، کچھ ایسے جو پیٹ کے بل چلتے ہیں، کچھ ایسے جو دو ٹانگوں کے ہیں اور کچھ ایسے جو چوپائے ہیں۔ خواتین و حضرات پانی سے ہی یہ ساری آبادیاں قائم ہوئیں اور علیم مطلق بہتر جانتا ہے کہ کب بارش کرنی ہے اور کب روکنی ہے لیکن ہم لالچی بندے ہیں ہم اپنے مقصد کو دیکھتے ہیں اوربارش کے لئے آرزو مند ہیں۔ ایک مرتبہ میں بذریہ ریل کار لاہور سے پنڈی جا رہا تھا۔ اس وقت بارش ہو چکنے کے بعد دھوپ نکل آئی تھی لیکن ریل کار کے شیشے کے اوپر بے شمار بڑے بڑے بارش کے قطرے موجود تھے اور گاڑی ایک سٹیشن پر رکی ہوئی تھی اور میں ان خوبصورت قطروں کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ ایک قطرہ اپنی جگہ سے پھسلا درمیان میں آکر کھڑا ہو گیا پھرایک اور قطرہ ایک اورجانب سے آیا اور اس قطرے کے ساتھ شامل ہو گیا۔ وہ تھوڑی دیر کو رُکے اور پھر اس قطرے میں سے ایک قطرہ علیحدہ
ہو کر شمال کی طرف چلا گیا۔ ایک جنوب کی سمت چلا گیا اور میں انہیں بڑی دیر تلک دیکھتا رہا کہ اس میں سے وہ کون ہے؟ اور وہ دوسرا کون ہے؟ یعنی میں ان قطروں میں سے پہلے اور بعد میں آنے والے قطروں میں تمیز کرنے سے قاصر تھا۔ اس طرح انسان بھی اپنوں سے ملنے کی آرزو کرتا رہتا ہے۔ کسی نہ کسی صورت اس کا تعلق لوگوں سے ہو جبکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پیسوں سے ہیں۔ان کے پاس زیادہ دولت ہووہ خیال کرتے ہیں کہ شاید زیادہ دوست ہونے سے ہمیں زیادہ آسانیاں‌ملیں گی اس لئے میرے اور آپ کے درمیان دولت حائل ہو گئ ہے جس نے ہمارے درمیان ایک خلیج بنا دی ہے۔ ہم بڑی کوشش اور ہمت کے باوصف ایک دوسرے سے اس طرح نہیں مل سکتے جیسے بے غرض اور بے لوث انداز میں بارش کا ایک قطرہ شیشے پر سے پھسلتا ہوا دوسرے سے جا ملتا ہے اور پھر اس سے جدا ہو جاتا ہے اور پتہ ہیں نہیں چلتا کہ کون کون تھا؟ اور کیا کیا تھا؟
اس معاملے میں ہم انسان قطروں سے پیچھے ہیں۔ ہم ایک دوسرے سے ملنے کی بجائے پیسوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ یہ بات بھی نہیں ہے کہ یہ دور ہی مادی آگیا ہے بلکہ انسان کے بل ہی اتنے بڑھ گئے ہیں کہ وہ انہیں Pay ہی نہیں کر سکتا اور ان بلوں کے چنگل سے نکل ہی نہیں پاتا اور یہ بل ہماری ناجائز ضرورتوں کے باعث بڑھ گئے ہیں۔ آپ اندازہ کریں کہ میرے تنخواہ یا آمدن کا ساٹھ سے باسٹھ فیصد حصہ ان چیزوں پر خرچ ہو رہا ہے جہ 1960 میں ہوتی ہی نہیں تھیں اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ میں 1960 میں‌بھی زندہ تھا اور میں قسم کھا کے کہتا ہوں کہ ان سب چیزوں کے بغیر میں سن ساٹھ میں حیات تھا۔ اس وقت شیمپو کا تصور نہیں تھا اور ہم لال صابن سے نہایا کرتے تھے۔ اب شیمپو خریدنے کے چکر میں گھر کا بجٹ ٹیڑھا ہو جاتا ہے۔ اس وقت فوٹو سٹیٹ نام کی کوئی مصیبت نہیں تھی اس وقت صرف لاہور کے اندر پونے دو کروڑ کے قریب فوٹو مشینیں ہیں اور ایک اندازے کے مطابق دس سے بارہ لاکھ کی فوٹو کاپیاں روز ہوتی ہیں۔ (اشفاق احمد کا یہ پروگرام 2003 میں نشر ہوا تھا اور یہ اندازہ اس وقت کا ہے) سکول کے بچے پہلے ہاتھ سے کام کرتے تھے اور اب فوٹو کاپیاں کراتے ہیں۔ عدالتوں میں جس کاغذ کی ضرورت نہیں بھی ہوتی اس کی بھی کاپیاں کرانے کی ہدایت کی جاتی ہے۔ یہ اضافی بوجھ ہم پر پڑا ہے۔ آج سے چند سال پہلے موبائل فون کا کوئی چکر نہیں تھا اب ہرکوئی کانوں کو لگئے پھرتا ہے۔ زندگی ان کے بغیر بھی چل رہی تھی اور بڑی اچھی چل رہی تھی۔یہ دباؤ ہیں جو انسان کے اوپر پڑا ہے۔ لیکن یاد رہے کہ آدمی کبھی بھی پیسے کے بل پر چل کر دوسرے آدمی سے نہیں مل سکتا ہے۔ ہم انسانوں سے حسد بھی کرتے ہیں، غصہ بھی رکھتے ہیں اور غیبت بھی کرتے ہیں لیکن آدمی کا آدمی سے ملنے کو دل بھی ضرور کرتا ہے اور انسان انسان سے ملے بغیر مکمل ہو ہی نہیں‌سکتا۔ کتاب لکھ دینے سے یا دانشوربن جانے سے انسان مکمل نہیں ہوتا۔ ایک آدمی بیچارہ تھا۔ سکول ٹیچر ہی ہوگا۔ اس نے بیوی سے کھانا مانگا۔ آگے سے انکار ہوا تو اس نے سوچا کہ چلو پیر صاحب سے مل آتے ہیں۔ تانگے والے سے کہا کہ پیسے نہیں، لے چل لیکن اس نے بھی کہا کہ پیدل چلو۔ اس نے بھی خیال کیا کہ میل ڈیڑھ میل کا راستہ ہے پیدل طے کر لیتے ہیں۔ وہ کافی راستہ طے کر کے دریا کنارے گیا تو وہاں پر بھی پیسے طلب کئے گئے کہ گزرنا ہے تو پیسوں‌کی ادائگی کرو۔ اب اس غریب نے اپنی دھوتی سر پر لپیٹی اور دریا میں چھلانگ لگا دی اور تیرتا ہوا دریا کراس کر گیا اور چلتا چلتا پیر صاحب کے حضور پہنچا۔ پیر صاحب اعلٰی درجے کے ریشمی بستر پر تکیئہ لگائے مزے سے بیٹھے تھے اور ان کے ارد گرد پھلوں کے ٹوکرے رکھے ہوئے تھے اور مٹھائیاں اور دیگر نعمتوں کے انبار لگے پڑے تھے۔ پیر صاحب مرید کو دیکھ کر خوش ہوئے اور ابھی وہ بے چارہ بھوکا پیاسا گرتا پڑتا پیر صاحب کو درست طرح سے سلام بھی نہیں کر سکا تھا کہ پیر صاحب نے اپنی ٹانگ آگے کر دی کہ اس کو دابو۔ وہ مرید تھوڑی دیر ٹانگ دباتا رہا تو پیر صاحب کہنے لگے کہ واہ بھی واہ۔ ہم دونوں کو کتنا ثواب ہو رہا ہے۔
اس نے کہا کہ پیر صاحب خدا کا خوف کریں مجھے تو ثواب ہو رہاہے اپ کو کدھر سے ہو رہا ہے۔ پیر صاحب نے ناگواری سے ٹانگ پیچھے کھینچی اور کہنے لگے“ لے کلا ہی ثواب لئی جا“۔(لو اب تم اکیلے ہی ثواب لیتے رہو)۔
ا س طرح آدمی کو آدمی کی ضرورت رہتی ہے چاہے وہ کسی بھی مقام پر ہو وہ انسان کو طلاش کرتا ہے۔
م یری بھانجی کی ایک بیٹی ہے جسے پیار سے ببلی کہتے ہیں۔ وہ ساہیوال میں رہتی ہے۔ میری دوسری بھانجی کی بیٹی ٹینا اور ببلی بڑی گہری سہیلیاں ہیں۔ وہ ہم عمر ہیں۔ ٹینا لاہور میں رہتی ہے۔ کبھی کسی بیاہ شادی کے موقع پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ساہیوال جانا پڑتا ہے اس طرح ٹینا ایک بار جب ساہیوال گئی تو وہ دونوں ایک ہی بستر میں لیٹی ہوئی تھیں کہ آدھی رات کے وقت ٹینا کے رونے کی آواز آئی۔ ببلی کی ماں نے اس سے پوچھا کہ ٹینا کیا بات ہے۔
ٹینا روتے ہوئے کہنے لگی کہ ببلی مجھے مونگ پھلی نہیں دیتی۔ اس کی ماں نے کہا کہ ببلی کے پاس تو مونگ پھلی نہیں ہے۔
ٹینا روتے ہوئے کہنے لگی کہ خالہ یہ کہتی ہے کہ جب بھی میرے پاس مونگ پھلی ہوئی میں تمہیں نہیں دوں گی۔ وہ رو رہی تھی لیکن ببلی کے بستر سے نہیں نکل رہی تھی کیونکہ نہ ہونے کے تعلق کو بھی انسان کھینچ کے اپنی ذات کے ساتھ شامل کر لیتاہے۔ لیکن اب بدقسمتی سے ہم نے تعلق کا باعث ڈھیر ساری دولت کو سمجھنا شروع کر دیا ہے۔ یہ جو خاندانی نظام آہستہ آہستہ ٹوٹ رہے ہیں اور لوگ ایک دوسرے سے بے خبر، بے سدھ زندگی گزارنے کو ترجیح دے رہے ہیں اس کی وجہ روپے پیسے کی بہتات ہے۔ اس پیسے نے نزدیکی کی بجائے دوریاں پیدا کر دی ہیں۔ جب میری آپا زبیدہ حیات تھیں تو جہلم میں ان کے پاس ایک ٹی وی سیت تھا۔ ان کے گھر ایک ادھیڑ عمر شخص پیچ کس پلاس لے کر ان کا ٹی وی ٹھیک کر رہا تھا۔ وہ روز ٹی وی ٹھیک کرنے آتا۔ صبح صبح آجاتا، دوپہر اور شام کا کھانا کھا کر چلا جاتا۔ میں بھی وہاں‌ٹھہرا ہوا تھا۔ میں دو تین چار دن دیکھتا رہا اور جب میں نے دیکھا کہ ساتویں دن وہ ایک نئی ٹیوب لے کر آیا۔ اس نے کہا کہ آپا جی اس ٹیلیویژن کی ٹیوب خراب ہو گئی ہے اسے یہ لگانے آیا ہوں۔انہوں نے بھی کہا کہ ٹھیک ہے لگا دو۔ اس نے وہ ٹیوب لگا دی تو وہ بلیک اینڈ وائٹ ٹیلیویژن چلنے لگا۔ جب وہ چلا گیا تو میں نےآپا زبیدہ سے کہا کہ آپا یہ جو سات دن کوشش میں لگا رہا اور آپ نے اسے کوشش کرنے دی اور اگر اس کی ٹیوب ہی بدلنی تھی تو پہلے دن ہی بدل دی ہوتی۔ وہ کہنے لگی کہ نہیں اگر ایسا ہو جاتا تو پھر وہ بیچارہ اتنے دن کس سے ملتا؟ اس کا بھی اتنے دل لگا رہا اور ہمارے گھر میں بھی رونق لگی رہی ہے۔
خواتین و حضرات! اب بندہ بندے سے ملنا پسند نہیں کرتا۔ اس کا وہ پہلے سا رشتہ نہیں رہاہے اور اب یہ تعلق اور رشتے ایک خواب بن چکے ہیں۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ڈھیر سارے ڈالر آجانے سے آپ Richہو جائیں گے۔ ہرگز ایسا نہیں ہوگا۔ آپ کے پاس پیسہ تو ہوگا لیکن آپ کی محرومیاں بڑھتی چلی جائیں‌گی۔ اس کا سدباب ابھی سے کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر آپ آج اپنے بھائی بندوں سے دور ہوتے گئے اور ہمارے درمیان رخنہ آتا گیا تو خلیج بڑھ جائے گی اور دو طرح کے تعلیمی نصاب نے بھی ہمارے درمیان لکیر کھینچ دی ہے۔
اب آرٹ اور کلچر کے مظاہر اور شواہد میں بھی فرق ڈالا جا رہا ہے۔ بہاولپور میں ایک سکول ٹیچر حبیب اللہ صاحب تھے۔ وہاں‌ایک کرم الٰہی صاحب بھی تھے وہ بھی استاد تھے۔ وہ ایک ساتھ کافی عرصہ اکٹھے پڑھاتے رہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد جدا ہو گئے۔ ان میں بڑا پیار تھا۔ کرم الٰہی صاحب لاہور آگئے جبکہ حبیب اللہ صاحب بہاولپور میں ہی رہے۔ ایک دفعہ حبیب اللہ صاحب بہاولپور سے ملتان گئے۔ ملتان بہاولپور سے کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔ وہ وہاں اپنا کام کرنے کے بعد رات کو بس پکڑ کر ساہیوال پہنچ گئے۔ ساہیوال بس سٹینڈ سے یکہ لے کر کرم الٰہی صاحب کے گھر گاؤں جک گ-ب یا ای-بی جو بھی تھا وہاں چلے گئے اور اپنے یار قدیم کے گھر پر دستک دی۔ حبیب اللہ صاحب کہنے لگے کہ میں چائے تو لاری اڈے سےہی پی آیا ہوں۔ چلیں اکٹھے چل کے نماز پڑھتے ہیں۔ (اس وقت فجر کی اذان ہو رہی تھی)۔ انہوں نے کہا کہ ملتان آیا ہوں۔ ساہیوال قریب ہی ہے چلو کرم الٰہی سے مل آتا ہوں۔ خواتین و حضرات بہاولپور سے ملتان اتنا سفر نہیں ہے جتنا ملتان سے ساہیوال ہے لیکن وہ اس سفر کو بھی “قریب ہی“ کا نام دے رہے تھے۔ انہوں نے اپنے یار عزیز سے کہا کہ تم سے ملنا تھا مل لیا۔ تمہیں دیکھ کر طبیعیت خوش ہو گئی اور اکٹھے فجر پڑھ لی اور اب میں چلتا ہوں۔ کرم الٰہی صاحب نے بھی کہا کہ بسم اللہ آپ کے دیدار سے دل خوش ہوگیا۔
خواتین و‌حضرات!ہم ایسے نہیں کر سکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایک ایسا بے چارہ شہر بھی ہے جہاں بڑے پھول اور باغ ہیں۔ وہ بڑا خوبصورت بھی ہے لیکن وہاں کوئی بھی کسی سے ملنے نہیں جاتا۔بلکہ کام کی غرض ہی انسان کو وہاں لے جاتی ہے۔ وہ شہر اسلام آباد ہے۔ میں یہ کہتے ہوئے معافی چاہتا ہون کہ میں بھی وہاں جب گیا ہوں کسی نہ کسی کام کے سلسلے میں گیا ہوں اور کام ہو چکنے کے فوراً بعد وہاں سے لوٹ آیا ہوں۔ مجھے اس بات کی وجہ سے اسلام آباد پر پیار بھی آتا ہے۔ وہاں‌میرے بہت پیارے دوست بھی رہتے ہیں جن میں نادر، عمار اور فراز بھی ہے لیکن وہاں جانا صرف کام کی غرض‌سے ہی ہوتا ہے۔
جوں جوں انسان کے درمیان فاصلے ہوتے جاتے ہیں اور نظر نہ آنے والی دراڑیں‌پڑتی جاتی ہیں۔ انسان بیچارہ ان فاصلوں کو پیسوں کی کمی سے جوڑ رہا ہے اور اس نے سارا زور معاشی پوزیشن بہتر کرنے پر لگا رکھا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر معاشی صورتحال اچھی ہو گئی اور انسانوں کا منہ ایک دوسرے کے مخالف رہا تو پھر ان پیسوں، ڈالروں کا آخر کیا فائدہ ہوگا؟ اس لئے ہمیں اپنے اپنے طور پر سوچنا پڑے گا کہ چاہے ایک دوسرے سے لڑائی ہوتی رہے لیکن وچھوڑا تو نہ ہو جس طرح پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ “لڑن رات ہو پر وچھڑن رات نہ ہو“۔
جب ہم کالج میں پڑھتے تھے تو ہم سینما دیکھنے جایا کرتے تھے۔ عام طور پر گھر والے ہمارا سینما جانا پسند نہیں کرتے تھے لیکن ہم چلے جایا کرتے تھے۔ ان دنوں‌سینما کی ٹکٹ خریدنے کے لئے لکشمی چوک میں ایک قطار لگتی تھی۔ ایک دفعہ ہم قطار میں کھڑے تھے اور قطار بہت لمبی تھی۔ اس قطار میں‌ایک ایک بڑی داڑھی والا آدمی بھی کھڑا تھا۔ اس نے پرانی سی واسکٹ پہنی ہوئی تھی اور اس کی ہئیت کچھ اچھی نہ تھی۔ نوجوان جو اس شخص کو اور اس جیسے دیگر لوگوں کو پسند نہیں کرتے ویسا ہی ایک نوجوان وہاں تھا۔ اس نے اس شخص سے کہا“باباجی تسی فلم ویکھنی اے“
اس نے جواب نہیں دیا تو نوجوان نے غصے سے کہا کہ پھر تم قطار میں کیوں پھنسے کھڑے ہوئے۔ وہ کہنے لگا“جی میں بندیاں دے کول ہونا چاہناں واں مینوں کوئی نیڑے نئیں آن دیندا“۔
اس شخص نے کہا کہ میں اس غرض سے ہر روز لائن میں آ کے کھڑا ہوجاتا ہوں اور اس طرح میرے ہر طرف آدمی ہی آدمی ہوتے ہیں حالانکہ میں‌نے نہ کبھی فلم دیکھی ہے اور نہ ہی دیکھنی ہے۔
ایسے ترسے ہوئے لوگ بھی ہیں اور اس قسم کے بے شمار لوگ ہمارے ارد گرد ہیں جن کو انسانی کندھے کی ضرورت ہے لیکن بیچارے انسان کا المیہ یہ ہے کہ وہ ایسے ہی گھبرایا رہتا ہے۔ مجھے وہ بابا اب بھی یاد ہے جو ایک دن اپنی بوڑھی بیوی کو مر جا مر جا کہے جا رہا تھا۔ میں وہاں سے گذر رہا تھا۔ اس سے پوچھا کہ بابا آخر قصہ کیا ہے۔ تو وہ کہنے لگا کہ یہ دوائی نہیں کھاتی اور اگر اس نے دوائی نہ کھائی تو مر جائے گی۔ میں نے وہ دوائی دیکھی تو وہ عام سی ملٹی وٹامن کی گولیاں تھیں۔ کسی خاص بیماری کی بھی نہیں تھیں۔ میں نے کہا بابا تو نوے سال کا ہے اور یہ اسی سال کی بڑھیا۔ اب تو اسے مرنے دے تو نے اس کا کیا کرنا ہے۔ تو وہ بابا کہنے لگا صاحب جی اس کی بڑی ضرورت ہے۔ یہ اینٹیں‌پاتھنے والوں کی بیٹی ہے اور روڑے اکٹھے کرنے والوں‌کی اولاد ہے۔
و ہ کہنے لگا کہ صاحب جی“ایس دی بڑی لوڑ اے۔ جدوں میں‌سویرے سے شام تیکر کنکر کنکر روڑے روڑے ہو جاتا ہوں تو چونکہ اس کو روڑے اکٹھے کرن دا ول آوندا اے اور ایہہ میرے روڑے کنکر اکٹھے کر کر مینوں‌فیئر زندہ کر دیتی ہے۔
خواتین و حضرات“ ایسے لوگ آپ کے شہر میں ابھی بھی موجود ہیں جو اس لئے قریب قریب بیٹھے ہیں جو دوسروں کو بکھرنے سے بچا لیتے ہیں۔
میرے اپنی ذاتی آرزو ہے کہ پیسہ واقعی ضروری چیز ہے لیکن انسان کا احترام زیادہ لازمی ہے۔ اس سے آپ کو زیادہ خوشی، محبت، حدت اورLoveعطا کرسکتا ہے جو آپ کو زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ میری دعا اور آرزو ہے کہ ہم سب انسانوں کے قریب آئیں اور ان کو سمجھنے کی کوشش کریں چاہے وہ ببلی اور ٹینا کی لڑائی کی صورت میں یا گورنمنٹ کالج کے عقب میں رہنے والے اس بڈھے بابے کی طرح جو اپنی بوڑھی بیوی سے لڑ رہا تھا اور اس کی لڑائی میں بے پناہ محبت پنہاں تھی اور وہ ایک دوسرے کے لئے زندہ رہنا چاہتے تھے۔
اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں ‌تقسیم کرنے کا شرف عطافرمائے۔ اللہ حافظ
 

شمشاد

لائبریرین
باب 52

باب 52

دھرتی کے رشتے

میں بڑی درد مندی سے اور بڑے دکھ کے ساتھ کہتا ہوں کہ یہ ہم نے اپنے ساتھ کیا کرنا شروع کر دیا ہے۔ ہم اپنے رشتوں کو پہچاننے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہ بات ہمیں بڑی ہی خوفناک جہنم کی طرف لیے چلی جا رہی ہے۔ میرے گھر کے باہر لگا ہوا شہتوت کا درخت میرا دوست، میر عزیز اور رشتہ دار ہے اور وہ فاختائیں جو ہماری منڈیر پر آتی ہیں، میں انہیں جانتا ہوں۔ وہ مجھے جانتی ہیں لیکن میں انسانوں کو نہین پہچانتا۔ میں ان سے دور ہو گیا ہوں۔ میں ان کے ساتھ ایک عجیب طرح کی نفرت میں مبتلا ہو گیا ہوں۔ بہار کے موسم میں جب بہار اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہوتی ہے اور گرمیوں کا شروع ہوتا ہے اس وقت ایک سہارا ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ وہ برکھا رُت کا سہارا ہوتا ہے۔ ساون کا سہارا ہوتا ہے کہ بارشیں آئیں گی، مینہ برسیں گے اور پھر ہم جسمانی طور پر نہ سہی ذہنی طور پر پورے کے پورے برہنہ ہو کر برستی ہوئی بارشوں میں نہائیں گے اور پھر سے اپنے پیارے بچپن میں پہنچ جائیں گے۔ پچھلے دنوں تمام عالم میں “ Water Day “ منایا گیا۔ سنا ہے کہ دنیا سے پانی کم ہو رہا ہے۔ یہ بڑی خوفناک سی بات ہے۔ باوصف اس کے کہ انسان کی خدمت کے لیے سارے پہاڑ، بڑی بڑی کروڑوں ٹن کی پگڑیاں باندھے ہر روز صبح اٹھ کر سورج کی خوشامد کرتے ہیں کہ خدا کے واسطے دو تین کرنیں ہماری طرف پھینکو ہم نے انسانوں کو پانی بھیجنا ہے۔ ہمارے بابا اور بزرگ بتاتے ہیں کہ جتنی بھی بے جان چیزیں ہیں یہ انسان کی خدمت کے لیے دیوانہ وار چل رہی ہیں۔ آدمی آدمی کی خدمت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے لیکن سورج بہت پریشان ہے وہ کہتا ہے کہ میری ساری کرنیں لے لو لیکن اے پہاڑو انسان کو کسی نہ کسی صورت پانی پہنچنا چاہیے۔ ایک ہمارا مزدور بابا ہے وہ مجھے کہتا ہے کہ اشفاق صاحب آپ کو پتہ نہیں ہے کہ صبح کے وقت سطح کے اوپر سوئی گیس ہوتی ہے۔ وہ نیچے کی سوئی گیس کو آواز دے کر کہتی ہے کہ “ لڑکیو جلدی کرو اوپر کی طرف آؤ۔ لوگوں نے ناشتے بنانے ہیں۔ باہر نکلو اور انسانوں کی خدمت کرو۔“ وہ گیس پھر فٹا فٹ نکلتی چلی آتی ہے لیکن انسان بے چارہ اپنے ساتھیوں کی خدمت نہیں کرتا۔

جب ہم یہ پروگرام کر رہے ہیں اور آپ یہ پروگرام دیکھ رہے ہیں اس وقت بہاولپور سے بکریوں کا ایک ریوڑ چلتا ہوا ملتان کی طرف آ رہا ہے اور چھوٹے چھوٹے پٹھوروں (بکری کے کمسن بچے) کی مائیں اور لیلوں ( بھیڑ کے ننھے بچے) کی مائیں اونچی آواز میں کہہ رہی ہیں کہ بچو جلدی جلدی قدم اٹھاؤ صبح جا کر ذبح ہونا ہے اور ہمارا گوشت لاہور تک جانا ہے۔ پتوکی، ساہیوال اور کئی جگہوں پر جانا ہے اس لیے جلدی جلدی ملتان پہنچو۔ وہ کہتے ہیں کہ اماں چل تو رہے ہیں آپ ہمیں اور تیز چلنے پر کیوں مجبور کرتی ہیں۔ آگے سے وہ جواب دیتی ہیں کہ ہم انسان کی خدمت پر معمور ہیں۔ اس طرح جتنے بھی جمادات، حیوانات اور اللہ کی جتنی بھی مخلوق ہے وہ ساری کی ساری انسان پر قربان ہونے کے لیے تیار ہے اور روز قربان ہوتی چلی جا رہی ہے۔ جب میں نے ملتان کا ذکر کیا تو مجھے خیال آیا کہ پاکستان کے اندر جتنے بھی ثمر بہشت یا آموں کی دوسری قسمیں موجود ہیں آج تک کسی آم نے خود کو چوس کر نہیں دیکھا۔ کبھی اپنی مٹھاس خود محسوس نہیں کی۔ اپنا سارا کا سارا وجود انسان کو دے دیا ہے۔ بس یہ تو ہماری بدقسمتی ہے کہ انسان انسان کے ساتھ والی محبت اور پیار نہیں کرتا جیسی کہ بے جان چیزیں رکھتی ہیں۔ جب پانی کا دن منایا گیا اور اس خوف کا اظہار کیاگیا کہ پانی آئندہ اور کم ہو جائے گا تو مجھے اپنے بچپن کا وہ ساون یاد آ گیا جب ہم نیکریں پہن کر بے تحاشا بھاگا کرتے تھے اور اپنے گاؤں کی گلیوں کے چکر لگایا کرتے تھے اور اوپر سے پانی برسا کرتا تھا۔ ہم خوشی سے گاتے :

کالیاں اِٹاں، کالے روڑ
مینہ برسا دے زور و زور

ہمیں ان باتوں کا مطلب نہیں آتا تھا لیکن ہم بس گایا کرتے تھے۔ ہماری جو چھوٹی بہنیں تھیں وہ اپنی گڑیا جو انہیں بہت پیاری ہوتی ہے اس لے کر روتی ہوئیں پانچ چھ کے تعداد میں آنسو بہاتی ہوئی چلتی تھیں اور موتی میں لپٹی ہوئی پیاری گڑیا کو ماتھے سے لگا کر جلا دیتی تھیں اور وہ قافلہ بارش کی دعا مانگتا ہوا اور روتا ہوا چلتا تھا اور یہ گاتا تھا :

تُو دس وے بدلا کالیا
اساں گُڈی پٹولا ساڑیا

(یہ ایک طرح کا بچوں کا شگون تھا کہ اس طرح گڑیا اور کپڑے سے بنے کھلونے جلانے سے بارش آ جاتی ہے)۔

وہ چھوٹی چھوٹی پیاری بچیاں انسانوں کے سکھ کے لیے اللہ میاں سے دعا کرتی تھیں حالانکہ انہیں بارش کے فائدے یا نقصان کا علم نہیں تھا۔ اب پانی کی کمی کا دکھ بہت زیادہ خوف پیدا کرتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اے اللہ میرے پوتے اور نواسے اس برکھا رُت سے واقف نہیں ہیں۔ انہیں پتہ ہی نہیں ساون کیا ہوتا ہے۔ انہیں معلوم نہیں سڑک کے کنارے کس طرح مینڈک آ کر بیٹھتے ہیں۔ کیسے مینڈکوں کی آوازیں آتی ہیں اور وہ سخت بارش کے بعد کس طرح سے آوازیں نکالتے ہیں۔

میں جب پانچویں چھٹی میں ہوتا تھا مینڈک کی آواز کو بڑی اچھی طرح سمجھتا تھا اور مجھے پتہ ہوتا تھا کہ اب مینڈکیاں بولی ہیں اور اب یہ مینڈک بولے ہیں۔ اب بڑے سائز کے مینڈک بولے ہیں۔ اب درمیانے سائز کے مینڈک بولے ہیں اور وہ قطار در قطار بیٹھے بولنا شروع کر دیتے تھے۔ جب ہم سکول جاتے تھے تو میری پھوپھی کہا کرتی تھیں کہ “ اشفاق جاتے ہوئے ڈڈواں (مینڈکوں) نوں سلام کر کے جانا۔“

ہمارا ڈڈو کے ساتھ بڑا گہرا رشتہ تھا اور ہم سکول جاتے ہوئے پھوپھی کے حکم کے مطابق “ ڈڈو سلام، ڈڈو سلام “ کہہ کر جاتے تھے اور وہ سڑک کنارے بیٹھے ہوئے ایک آواز نکالتے تھے ۔ اس زمانے میں ہم مینڈکوں کی بولی جاننے کی بھی کوشش کیا کرتے تھے اور ہم سے جو سینئر سٹوڈنٹ ہوتے تھے وہ ہمیں بتاتے تھے کہ جب بڑا مینڈک بولتا ہے تو وہ کہتا ہے :

“ ویاہ کریے، ویاہ کریے “
پھر مینڈکیاں بولتیں “ کدوں تک، کدوں تک“
پھر مینڈکیاں ایک دوسرے سے کہتیں :
“ نیوندرا پائیے، نیوندرا پائیے“
اور ساتھ ہی چھوٹی مینڈکی کہتی :
“ کناں کناں کناں “
اور ایک بوڑھا ڈڈو بولتا اور کہتا :
“ ٹکا، ٹکا، ٹکا، ٹکا “

اس طرح ایک پوری بولی ہوتی تھی جو ہم جانتے تھے اور مزید جاننے کو کوشش کرتے تھے۔ وہ خوبصورت زندگی ہوتی ہے جس سے ہم محروم ہو گئے ہیں۔ ہم نے تو اب قتل و غارت گری کو اپنا لیا ہے۔ ہم کیا چڑیوں اور مینڈکوں سے ملیں گے۔ میرے گھر کے باہر جو شہتوت کا درخت ہے وہ پاکستان کا باشندہ ہے۔ وہ میرا عزیز ترین ہے لیکن میری آنکھیں اتنی غیر ہو گئی ہیں اور میرے دیدے بے نور ہو گئے ہیں اور میں نے تو انسانیت سے محبت کرنی چھوڑ دی ہے۔ اس پیارے شہتوت کے ساتھ اور فاختاؤں کے ساتھ کیسے محبت کروں گا۔ ہم ہر روز ایسی ایسی خبریں پڑھتے ہیں جن سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ آخر ہمیں ہو کیا گیا ہے۔ یہ کون ایسا ظالم ہے جس نے ہمارے اندر سے محبت اور شیرینی کی ساری خوشیاں اور انداز چھین لیے ہیں اور چاشنی چاٹ لی ہے۔

خواتین و حضرات یہ علاقے اور خطے جو ہوتے ہیں یہ انسان کی پہچان بنتے ہیں اور انسان ان خطوں کی پہچان بنتے ہیں۔ ہم علاقوں کو رسلے انسان، سنجیلے انسان اور غصیلے انسان کے طور پر دیکھتے ہیں اور جس طرح کے انسان ہوتے ہیں اس خطے کے بارے میں بھی ویسا یہ تاثر قائم کر لیا جاتا ہے۔ نباتات، جڑی بوٹیاں، اللہ کی طرف سے خود رو اگنے والے پودے اور جو ہم کوشش سے اگاتے ہیں انکا بھی ہمارے ساتھ ایک رشتہ ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ گلاب چواسیدن شاہ کا ہے۔ اس سے اچھا گلاب دنیا میں کہیں نہیں اگتا۔ ترکی والے اپنے گلاب کے بہترین ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں اور وہاں کا گلاب ساری دنیا میں مشہور ہے۔ ان کی دنیا بھر میں گلاب کی بہت بڑی سپلائی ہے۔ میں نے ان کے گلابوں کے کھیتوں کو بھی دیکھا ہے۔ لیکن چواسیدن شاہ کا گلاب منفرد ہے۔ میں یہ اس لیے نہیں کہتا ہوں کہ میرا اور میرے پیارے وطن کا گلاب ہے بلکہ اس لیے کہ وہ بہت ہی اعلٰی درجے کا ہے۔ آپ نے قصور کی میتھی سنی ہو گی۔ وہ بھی اللہ کی ایک نعمت ہے۔ میں چیخ چیخ کر کہتا ہوں کہ میرے پیارے سیالکوٹ کے رہنے والو، وہ گنا کہاں گیا جو اتنا نرم اور میٹھا ہوتا تھا کہ جی چاہتا کہ چوستے ہی رہیں۔ انسان کا علاقے اور جگہ کا رشتہ انسان کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ اسے چھوڑا نہیں جا سکتا۔ میں صرف اپنے رشتہ داروں سے وابستہ ہوں۔ میرے اور کئی عزیز اور میرے بہت ہی قریبی عزیز ہیں۔ میرے صرف مسلمان، پارسی، شیعہ، سُنی، بابری، عیسائی، میگوار، گیری ہی عزیز و اقارب نہیں ہیں بلکہ وہ جانور بھی میرے عزیز رشتہ دار ہیں یہ مینا، اونٹ، فاختائیں، درخت، کیکر، شہتوت، طوطے بھی رشتہ دار ہیں۔ جب میں ایک پودا ذہن میں بوتا ہوں تو میں اس کے ساتھ اپنے آپ کو بھی بوتا ہوں۔ کبھی آپ غور کر کے دیکھ لیں کہ وہ پودا بونے کے بعد میرے اندر بھی اس کی نشوونما شروع ہو جاتی ہے۔ جب آپ کسی چڑی مار سے طوطا لے کر اڑاتے ہیں اور وہ ٹیں ٹیں کرتا ہوا گھر کو جاتا ہے تو آپ بھی گھر کو جاتے ہیں۔ جب طوطا گھر پہنچ جاتا ہے تو آپ کی روح اور وجود بھی سکون کے گھر میں پہنچ جاتا ہے۔ لیکن میں ایک نہایت درد ناک انداز میں اور آنسو پی کر یہ بات کروں گا کہ ہم اس علاقے کے لوگ تو بڑی محبت کرنے والے لوگ تھے۔ سندھ اور پانچ دریاؤں کے علاقے کے لوگ تو محبتیں بانٹنے والے لوگ ہیں۔ ہمیں کیا ہو گیا ہے۔ آج سے بیس پچیس برس پہلے جب ہمارے لسانی جھگڑے ہوئے تو یہاں کے جو پرانے اور ان پڑھ لوگ تھے وہ کہتے تھے کہ سندھ میں ایسا نہیں ہو سکتا۔ وہ تو سائیں لوگ ہیں، پیارے لوگ ہیں۔ وہ کیسے جھگڑ سکتے ہیں۔ ہم ان لوگوں کو بہت سمجھاتے تھے لیکن وہ کہتے تھے کہ نہیں لسانی جھگڑے نہیں ہیں۔ ہم سے کوئی اور غلطی ہو گئی ہے۔ یہ غلطی کسی اور بندے کی ہے۔ وہاں تو درگاہوں پر گانے والے لوگ ہیں جو سلام کرنا اور رکوع میں جانا جانتے ہیں وہ کبھی ظلم نہیں کر سکتے۔ مجھے اس بات کس دکھ ہوتا ہے۔ خدا کے واسطے اس بات کو شدت سے محسوس کریں۔ گھروں سے نکل کر ہم نے زندہ رہنا کیوں چھوڑ دیا ہے۔ ہم ایک خوفزدہ قوم بن کر رہ گئے ہیں۔ ہر وقت ڈر کے ساتھ وابستہ ہیں اور ٹوٹتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے سے روٹھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ میری آپا زبیدہ جو جہلم میں رہتی تھیں وہ بچوں کو تعلیم دیتی تھیں۔ بہت معروف ہستی تھیں۔ ان کے ملنے والی ایک خاتون تھیں یہ کوئی دس بارہ برس پہلے کی بات ہے۔ میں وہاں جہلم گیا تو وہ دونوں سہیلیاں وہاں گھر پر تھیں۔ وہاں آپا زبیدہ کی ملازمہ بی بی صغریٰ تھیں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ دونوں کے گھر پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔ اور یہ بی بی صغریٰ باوصف اس کے کہ کوئی علم نہیں رکھتی اور پڑھی لکھی نہیں ہے لیکن اس کا درجہ بہت بلند ہے۔ بڑی آپا کہنے لگیں کہ ہاں اللہ رحیم و کریم ہے۔ وہ فضل کرنے والا ہے۔ اللہ رحٰمن ہے وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ وہ کہنے لگی کہ میں اپنے بارے میں تو کچھ کہہ سکتی ہوں صغریٰ کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی کہ یہ بہشت میں جائے گی یا نہیں۔

خواتین و حضرات یہ پہلا موقع تھا کہ جب میں نے ان میں ایک شگاف اور خلیج محسوس کی کہ انسان کے اندر اس قدر قریب وہتے ہوئے بھی اس قدر شگاف پیدا ہو سکتا ہے۔ لیکن کبھی اللہ ہم کو استطاعت دے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دے اور ہم اپنے بہت قریب دیکھ سکیں۔ آپ کو یہ بات سن کر بہت عجیب لگے گی کہ بہت سے ندی نالے اور پلیں بھی ہماری رشتہ دار ہیں۔ جب کبھی آپ ٹرین سے جاتے ہوئے خالی پل یا نالے پر سے گزرتے ہیں تو اس کو جا Sound آپ کو محسوس ہوتی ہے وہ بڑے معانی اور مطالب لے کر آتی ہے اور وہ آپ سے بات کرتی ہے۔ اس کی وہ آواز صرف آپ ہی کے لیے ہوتی ہے۔ کبھی آپ آدھی رات کو اونچی آواز دے کر دیکھیں کسی سنسان جگہ پر تو اس کی صدائے گشت آپ تک پھر لوٹ کر آئے تو پھر آپ کو پتہ چلتا ہے کہ اندھیری رات کی آواز کیا ہوتی ہے اور دن کے وقت وہ آواز کیا ہوتی ہے۔ یہ گانے والے، راگ کو سمجھنے والے جانتے ہیں کہ ٹکراتی ہوئی آواز اور ڈائریکٹ آواز میں کتنا فرق ہوتا ہے۔ میرے منہ سے آنے والی اور لوٹ کر آنے والی آواز بھی میری ہے اور ہم ایک رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ خدا کے واسطے سمجھنے کو کوشش کریں کہ ہم نے اپنے ساتھ یہ کیا کرنا شروع کر دیا ہے؟ اور کیوں کرنا شروع کر دیا ہے؟ اس کے پیچھے کون آدمی ہے؟

آپ اپنے رشتوں کو پہچاننے کو کوشش کریں اور انسانوں کے ساتھ یہ ایک عجیب طرح کی نفرت کا رحجان ہے۔ ہم اس مرض میں مبتلا کیوں ہو گئے ہیں۔ پچھلے دنوں ملتان کے ایک بینک میں ایک اکاؤنٹ میں دردانہ عزیز احمد کے نام کا چیک آیا۔ بینک والوں نے اس چیک کو پاس کر دیا پھر اس کے ساتھ ہی اس پاس کرنے والے نے کہا کہ یہ دستخط تو دردانہ عزیز کے ہی ہیں لیکن اس پر جو اکاؤنٹ تمبر درج ہے یہ وہ نہیں ہے۔ پچھلے چیک انہوں نے نکال کر دیکھے ان میں سیاہی کا رنگ بھی وہی تھا اور دستخط بھی وہی تھے۔

اب تحقیق شروع ہو گئی یہ کیسے ممکن ہے۔ بعد ازاں پتہ یہ چلا کہ کہیں گڑبڑ نہیں ہوئی مسئلہ صرف یہ ہے کہ اس بینک میں دو دردانہ عزیز ہیں۔ اب جو چیک آیا ہے یہ اس کا نہیں ہے جس کا خیال کیا جا رہا تھ۔ بینک مینیجر نے مزید تصدیق کے لیے اور آئندہ کوئی غلطی کا احتمال نہ رہ جانے کی وجہ سے دونوں کو بینک بلایا۔ وہ دونوں بینک آئیں۔ مینیجر نے مجھے بتایا کہ جب وہ دونوں بینک میں داخل ہوئیں تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ان دونوں کا قد ایک جیسا تھا اور دونوں نے تقریباً ایک جیسے کپڑے پہن رکھے تھے۔ ایک ذرا سی گوری تھی اور دوسری کا رنگ ذرا گندمی تھا۔ ان کے دستخط بالکل ایک دوسری کے ساتھ ملتے تھے اور جو نیلے رنگ کی سیاہی ایک استعمال کرتی تھی، دوسری بھی وہی رنگ استعمال کرتی تھی۔ ان کی کاریں تھی ایک ہی ماڈل، ایک ہی کمپنی اور ایک ڈیزائن کی تھیں۔ بس ان کی کاروں کے نمبر میں فرق تھا۔ ایک کا گاڑی کا نمبر MN 1715 تھا جبکہ دوسری کی کار کا نمبر MN 1571 تھا۔ دو دونوں بھی ایک دوسری سے مل کر بہت خوش ہوئیں اور وہ آپس میں سہیلیاں بن گئیں۔ دونوں کے خاوندوں کا نام بھی عزیز احمد تھا، دونوں چشتیہ سلسلے سے تعلق رکھتے تھے۔

اللہ فرماتا ہے کہ “ اے لوگو ایک دوسرے کے قریب آ جاؤ اور ایک دوسرے کو اپنے رشتہ دار جانو۔“

خواتین و حضرات ! کسی نہ کسی حوالے سے اور کسی نہ کسی طریقے سے ہم ایک دوسرے کے رشتہ دار تو ہیں آخر۔

ہم جتنی بھی بھاگنے کی کوشش کریں ہم نے آخر کار تو بابا آدم تک ہی جانا ہے۔ ہمارا حساب “ ڈارون “ کے حساب کی طرح نہیں ہے بلکہ ہمیں لوٹ کر وہیں جانا پڑتا ہے جہاں سے چلے تھے۔ ہم اب اس برکھا رُت کی دعا کرتے ہیں اور اللہ سے فریاد کرتے ہیں کہ اے اللہ ہمارے لیے ویسی ہی بارشیں بھیج جیسی بارشوں میں ہم گلی محلوں اور کھیتوں میں بھاگا کرتے تھے۔ وہ ساون بھیج جس ساون میں ہم “ پوڑے “ (میٹھی روٹیاں) پکایا کرتے تھے۔ وہ موسم عطا فرما جس کی تلاش میں ہم انتظار کی آنکھیں پھاڑ کر بیٹھا کرتے تھے۔ یہ ساری چیزیں ہم سے ناراض ہو گئی ہیں۔ ان کو ہم سے پھر سے ملا دے اور ٹوٹے رشتے بحال کر دے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر دست بستہ رکوع میں جا کر یہ کہا جائے کہ “ اے پروردگار تو ہمارے موسموں کو پھر ہمارے پاس لا دے۔ ہمیں وہی پانی دے جو ہم کو شیرینی اور ٹھنڈک عطا کرتے ہیں اور ہماری فصلیں پکاتے ہیں۔“

لیکن یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہے جب انسان انسان کے اتنا ہی قریب آئے جس قدر آنے کی ضرورت ہے۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور میری بڑی آرزو ہے کہ اللہ ان آسانیوں کو تقسیم کرنے کا بھی شرف عطا فرمائے تا کہ ہم لوٹ کر پھر اس انسانی مقام پر پہنچ سکیں جہاں سے ہم نے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ آمین۔

اللہ حافظ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
بانسری
ہمارے زمانے میں‌بڑی گھنگھور گھٹائیں گھٍر کر آیا کرتی تھیں اور چھما چھم بارشیں ہوا کرتی تھیں۔ اب بڑی دیر سے ہم ویسی بارشوں‌کے انتظار میں‌ہیں اور آرزوئیں‌لے کر بیٹھے رہتے ہیں‌لیکن ویسی بارشیں آتی نہیں ہیں۔ میں محسوس کرتا ہوں اور ضروری نہیں کہ میرا محسوس کرنا درست ہو۔ لیکن میں‌محسوس کرتا ہوں کہ گھنگھور گھٹائیں بہت گھمبیر خیالات کے صورت میں اب ہمارے وجود سے باہر کی بجائے ہمارے وجود کے اندر سمانے لگی ہیں اور دماغوں‌پر اثر انداز ہونے لگی ہیں۔ میں‌یہ بات اس لئے کر رہا تھا کہ ابھی پروگرام شروع ہونے سے پہلے ہم نیگیٹیو اور پازیٹیو کی بات کر رہے تھے۔ آج کی جو نئی نسل ہے وہ بہت زیادہ پریشانی کے عالم میں‌مبتلا ہے۔ ایک تو یہ بات ان کے چہروں سے عیاں‌ہوتی ہے اور دوسرا ان کی پریشانی سنہری اور درخشاں مستقبل کی نوید اور امید نہ ہونے کی بدولت ہے۔جب بچے پریشان ہوں تو ظاہر ہے کہ بڑے پریشان ضرور ہوتے ہیں۔ باوصف اس ککے کہ بڑے اپنی بڑائی کی وجہ سے اور اپنے مشاہدے اور تجربے کی بنا پر کچھ ایسے رویے اختیار کر چکے ہیں جن رویوں نے انہیں سکون عطا کر رکھا ہے لیکن وہ ان بچوں‌کی مدد نہیں کر سکتے جنہوں نے بڑی بڑی ڈگریاں حاصل کر رکھی ہیں۔ میں ان کے لئے ڈیپریشن کا لفظ استعمال تو نہیں کرنا چاہتا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ان کے اندر Negativity کے بادل ایسے چھا گئے ہیں کہ ان سے نکلنا ان کے لئے بہت مشکل ہو گیا ہے۔ جو بچے بچیاں مجھ سے ملتے ہیں تو ان کے خیالات ایسے تکلیف دہ ہوتے ہیں کہ میں انہیں آپ کے سامنے پوری تفصیل کے ساتھ بیان کرنے لگوں تو شاید آپ پر بھی ویسا ہی بوجھ پڑ جائےجیسا ان کے والدین یا میرے جیسے آدمی پر ہے۔
Negativity کی عام مثالیں بالکل سیدھی سادھی یہ ہیں کہ ایک بچہ جس نے بی کام کیا ہے اور وہ تازہ ترین کمپیوٹر کے علم سے بھی آشنا ہے لیکن گھمبیر خیالات نے انہیں ایسے گھیر رکھا ہے کہ وہ خیال کرتے ہیں کہ میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ میں کامیاب ہونے کے لیئے پیدا ہی نہیں ہوا۔ یہ سارے مسائل ہمارے گھرانے کے لئے ہی ہیں۔ ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ وہ اسی گھبراہٹ میں مبتلا رہتا ہے۔ جو معشیت کے ماہر ہیں وہ پروگرام بناتے رہتے ہیں کہ نوجوانوں کو زیادہ نوکریوں کی ضرورت ہے لیکن میں‌عاجزی کے ساتھ یہ سمجھتا ہوں کہ معیشت کے ساتھ ہی ان کا حل وابستہ نہیں ہے۔ انہیں کسی اور چیز کی بھی ضرورت ہے جو ہم بڑے انہیں نہیں دے رہے اور ان بچوں کے ذہنوں میں تکلیف دہ خیالات جنم لے رہے ہیں۔نوجوان اس مایوسی میں ہیں کہ میں نے امتحان تو دے دیا ہے لیکن کامیاب نہیں‌ہو سکوں گا۔ جو بال بچے والے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں بیٹی کی شادی تو کر دی ہے لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ بسے گی نہیں اور لوٹ کے گھر آجائے گی اور اس طرح کے خیالات ہر وقت ان کے ذہن میں‌گھومتے رہتے ہیں۔ ایسے خیالات کو زندگی سے نکالا نہیں جا سکتا اور ان کا کوئی علاج بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کیوں‌کہ یہ غیر اختیاری رحجانات یا خیالات ہوتے ہیں اس لئے آتے ہی رہیں گے اور ان پر ہمارا کوئی زور نہیں چلتا ہے لیکن انہی منفی تصورات کا ایک علاج ضرور نکالا جا سکتا ہے ائے بچو، بھلے آپ اپنے ذہنوں کے اندر ایسے منفی خیالات کو تو رہنے دیں لیکن اپنے اندر ایک ایسا رویہ ضرور اختیار کریں جو ان منفی خیالات کے ہونے کے با وصف آپ کو مثبت انداز اختیار کرنے پر راغب کرے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ آپ جب بھی بے شمار منفی خیالا ت میں گھریں اور آپ کو مستقبل تاریک نظر آئے تو آپ جس مقام پر بھی ہوں وہاں سے باہر نکل کر کھلی جگہ پر آجائیں اور کھلی جگہ پر آکر دونوں پاؤں کے درمیان ڈیڑھ فٹ کا فاصلہ رکھیں۔ کندھے پیچھے رکھتے ہوئے سینہ آگے نکال کر اور ٹھوڑی اوپر اٹھا کر آنکھیں آسمان کے ساتھ ملا کر ایک بہت ہی گہرا سانس لیں (یہ ضروری ڈرل ہے جو خاص کر اس مقصد کے لئے ہے) اور پھر اس گہرےسانس کو روک کر یہ کہیں کہ “میرا اللہ مجھے طاقت عطاکرتا ہے اور میں طاقتور ہوں“
بچو! یہ وہ مشق یا ڈرل ہے جو کی جانی چاہئے جس سے فائدہ پہنچتا ہے۔ جب آپ اس ڈرل میں داخل ہوں گے تو آپ کو طاقت آتی محسوس ہو گی۔ چینی لوگ اس بارے میں کہتے ہیں کہ یہ طاقت اللہ کی طرف سے انسان کو عطا کی گئی ہے یہ کائنات کے اندر ہر جگہ موجود ہے جسے آپ ہاتھ پھیلا کر سمیٹ سکتے ہیں اور اپنے اندر داخل کر سکتے ہیں۔ ہمارا ہاتھ پھیلا کر دعا مانگنے کا طریقہ دیگر مذاہب سے یوں‌ مختلف ہے کہ چینی ایک مخصوص خدا کی طاقت کو جسے وہ “چی“ یا “کی“ بولتے ہیں معلوم نہیں کہ اس کا اصل تلفظ کیا ہے۔ اس طاقت کو سمیٹ کر

(زاویہ 2 کا صفحہ نمبر 295 کا یہ حصہ درست سکین نہیں ہو سکا)

ہاتھ چہرے پر پھیر کر اس طاقت کوSeal کر دیتے ہیں اور جو پانچ وقت کی نماز ادا کرتے ہیں وہ اس طاقت کو Seal کر کے اپنے وجود میں ڈال کر مضبوطی اور کامیابی کے ساتھ سیل کر دیتے ہیں۔ میں رویوں کی بات کر رہا تھا کہ اگر منفی خیالات اور تھکا دینے والے اور تکلیف دہ خیالات آپ کی جان نہیں چھوڑتے تو آپ اپنے رویے میں تبدیلی ضرور پیدا کریں۔ معلوم نہیں آپ نے گزشتہ دنوں ایک ڈچ جرنلسٹ کی شائع ہونے والی رپورٹ پڑھی ہے کہ نہیں۔ ہو کہتاہے کہ میں افغانستان میں تھا اور کہیں دور نکل گیا اور میں نے چھوٹی پہاڑیوں کے سلسلے میں بانسری کی بہت ہی خوبصورت آواز سنی اور میں مسحور ہو گیا۔ وہ آواز سن کر میرے قدم خود بخود اس جانب اٹھنے لگے۔ آگے جا کر میں نے دیکھا کہ پہاڑی کے اوپر ایک نوجوان چرواہا جو چھوٹی عمر کا تھا بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ میں نے قریب جا کر دیکھا کہ اس کے پاس سیاہ رنگ کی ایک ذرا سی لمبی بانسری تھی۔ میں اس کی زبان تو نہیں جانتا تھا۔ اشارے سے اسے بانسری کھانے کو کہا تو اس نے وہ بانسری مجھے دکھائی اور یہ دیکھ کر میری حیرانی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ وہ بانسری جس کو وہ بجا رہا تھا اور میرے قدم خودبخود اس کی طرف اُٹھ رہے تھے وہ رائفل کی ایک نال تھی جس کو اس نے کاٹ کر ایک طرف سے بند کر رکھا تھا اور اس میں سے چھ سوراخ بنائے ہوئے تھے اور اس میں ایک ہوا دینے کا سوراخ تھا اور میں اسے دیکھ کر حیران و پریشان تھا کہ اگر اتنی بڑی منفی چیز جس نے کتنے ہی انسانوں کو مار ڈالا ہوگا اور اگر اس کا رویہ تبدیل کر کے اسے مثبت مقاصد کے لئے استعمال کر دیا جائے تو وہ مدھر ساز والی بانسری بن جاتی ہے جو لوگوں کو موت یا خوف کے برعکس سکون اور اطمینان عطا کرتی ہے۔ اگر اسی طرح‌آپ منفی رویوں کو تبدیل کر نے کے لئے پازیٹو اقدامات کرتے رہیں تو مایوسی کی فضاء ختم ہو جائے گی۔ اگر ہم ایک نیا اور اچھا اندازٍ فکر اپنائیں تو ضرور بہتر اثرات مرتب ہوں گے۔ Negativity کو Positivity میں‌بدلنا اندر کی آواز کی وجہ سے ممکن ہے۔ خیالات تو‌غیر اختیاری طور پر آتے ہیں لیکن رویہ اختیار ی طور پر تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ بہت ہی زیادہ مایوس ہوجانے سے شیطان بہت ہی خوش ہو تا ہے اور جب بھی آپ منفی رویوں میں‌داخل ہوتے ہیں(خدا نہ کرے آپ اس بیماری میں داخل ہوں) تو پھر شیطان اس لئے خوش ہوتا ہے کہ میں‌نے بندے کو اللہ کی رحمت سے نکال لیا ہے۔
جس طرح اللہ تعالٰی نے فرما دیا ہے کہ ترجمہ:‌(اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو۔)
لیکن آپ پر مایوسی آجانے سے شیطان انسان کو اللہ کے اس فرمان کے یقین سے باہر نکال لاتا ہے۔ شیطان انسان کو چوری چکاری، بے ایمانی اور گندی باتیں‌نہیں سکھاتا بلکہ وہ صرف اس بات پر مائل کرتا ہے اور ترغیب دیتا ہے کہ جس اللہ کو تو آج تک مانتا رہا ہے دیکھ اس نے تیرے ساتھ کیا کیا ہے۔ تو نے نوکری کے لئے Apply کیا تھا لیکن تیرا کام نہیں ‌بنا۔ تو نے اتنے اچھے پرچے دئے تھے لیکن تمھارے نمبر ہی کم آئے ہیں۔ شیطان کے پاس بس یہ ایک ہی Trick ہوتا ہے۔ وہ جیسے جیسے یہ بات پکی کرتا جاتا ہے آپ اللہ کے دائرے سے نکلتے جاتے ہیں اور شیطان کی ڈی میں آجاتے ہیں تو پھر اسے گول کرنے بڑے آسان ہو جاتے ہیں۔ آپ مایوس ہونے کی بات Neutral ہو کے اس قسم کاکام کریں جیسا کہ اس چرواہے نہ بانسری بجا کر کیا تھا۔ رویے کو تبدیل کرنے اور اس پر حاوی ہونے کے لئے اتنی کوشش نہیں کرنی پڑتی جتنی کہ آپ سمجھ رہے ہیں۔صرف تہیہ کرنے کی بات ہے۔ جب آپ تہیے کے کنڈے میں ہاتھ ڈال کر ایک دفعہ لٹک جاتے ہیں تو وہ کنڈا پھر آپ کو خود بخود اُٹھا لیتا ہے۔ آپ نے سرکس میں کرتب دکھانے والے دیکھے ہوں گے۔ ان کی بھی ہاتھ ڈالنے ہی کی مشق ہوتی ہے پھر ان کا بدن خودبخود ان کو گھماتا پھراتا رہتا ہے۔ ہمیں رویے تبدیل کرنے کی بڑی سخت ضرورت ہے۔ میں پہلے بھی آپ سے ایک علاقے کا بہت ذکر کرتا ہوں جو مجھے بہت پیارا ہے اور تھر پارکر ریگستان کا علاقہ ہے۔ یہ عجیب و غریب علاقہ ہے۔ اس جگہ کئی مذاہب اور قوموں کے لوگ رہتے ہیں۔ راجپوت بھی ہیں، خانہ بدوش بھی۔ کئی سال پہلے کی بات ہے۔ وہاں‌ہم نے ایک شخص کو دیکھا وہ لڑکا تو خیر نہیں تھا اس کے سر پر پگڑی تھی راجپوتوں جیسی لیکن کپڑے اس کے زیادہ اچھے نہیں تھے۔ اس کے ہاتھ میں ایک لمبی “سوٹی“(چھڑی) تھی اور وہ کوبرا سانپ کو قابو کرتا تھا اور اس شخص میں‌بلا کا اعتماد تھا۔ وہ ایک ہاتھ لہرا کر سانپ کو فن اور اعتماد کے جادو سے مست بھی کرتا تھا اور کبھی کبھی کوبرا خوفناک ہو کر اس پر حملہ بھی کرتا تھا۔ جب سانپ اس پر حملہ کرتا تو وہ اپنی سوٹی جس کے آگے اس نے بیکر(بیکر وہ چیز ہے جس سے ہم سائنس کی لیبارٹریوں میں تجربات کرتے ہیں اور میں جس علاقے کی بات کر رہا ہوں‌وہاں کوبرا سانپ بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں) باندھا ہوا تھا۔ سانپ کے قریب کر دیتا تھا اورجونہی وہ سانپ کے قریب کرتا سانپ اس پر حملہ کر دیتا وہ شخص فوراّسانپ کی گردن دبوچ لیتا اور سانپ کے دانت اس شیشے کے برتن پر لگائے رکھتا اور سانپ کے منہ سے بالکل سفید رنگ کا زہر نکال لیتا اور ایک دم پھر وہ اس موذی جانور سے پیچھے ہٹ جاتا۔ میں‌اور ممتاز مفتی یہ کھیل دیکھتے رہے۔ ہم نے اس سے پوچھا کہ تو اس زہر کا کیا کرتا ہے تو اس نے جواب دیا کہ لیبارٹریوں والے اس سے وہ زہر خریدتے ہیں اور وہ ناگ کے اس زہر سے ادویات بناتے ہیں۔ وہ کہنے لگاکہ “سائیں‌بابا میں‌ناگ چوتا(دوہتا) ہوں۔ یہ میرا پیشہ ہے۔“اس نے بتایا کہ تین گھنٹے کے بعد ناگ میں‌پھر زہر پیدا ہو جاتا ہے اور اس نے بتایا کہ ایک وقت کے سانپ کے زہر سے گھوڑے کو مارا جا سکتا ہے اور اس نے بتایا کہ وہ شام تک تو تیں “چلیاں“(2 تولے کے برابر) پھر لیتا ہوں۔ دن بھر ناگ دوہتا ہوں اور شام کو اپنی بکری دوہتا ہون اور میں‌پھر اس بکری کے دودھ میں گڑ اور پتی ڈال کے پیتا ہوں۔
خواتین و حضرات! میں‌رویے میں تبدیلی کی بات کر رہا تھا کہ اس نے ایک خوفناک چیز کو کس خوبے کے ساتھ ایک مثبت کام یا رویے میں تبدیل کر لیا تھا اور وہ اس سے گھبراتا نہیں تھا اور اس پر قائم تھا۔ جب میں فرسٹ ائیر میں‌تھا تو میں امریکہ کی اس اندھی، گونگی اور بہری بچی ہیلن کے بارے میں‌پڑھ کر حیران رہ گیا۔ اس کو قدرت نے کوئی صلاحیت نہیں دی۔ صرف ایک تودے کی مانندتھی۔ اس کے پاس صرف خوشبو اور لمس کو محسوس کرنے کی طاقت تھی۔ وہ اپنی خودنوشت میں لکھتی ہے کہ میں نے خود کو زندوں میں‌شامل کرنے کا ارادہ بنایا اور جو منفی چیزیں مجھ پر وارد کر دی گئی ہیں میں‌انہیں مثبت میں تبدیل کروں گی لیکن خواتین و حضرات وہ اس طرح‌نہیں گھبرائی پھرتی تھی جس طرح ہمارے بچے ایم-بی-اے کرنے کے بعد گھبرائے پھرتے ہیں اور چادر تان کے لیٹ جاتے ہیں۔ اس لڑکی نے اپنی ایک سہیلی کو بتایا کہ جب میں تمھارا ہاتھ اس طرح دباؤں تو اس کا مطلب مثال کے طور پر “اے“ ہوگا۔ دوسری طرح دباؤں تو اس کا مطلب “بی“ ہوگا۔ اس نے اپنی بات کو سمجھانے کے لئے اپنی دوست کو خود اشارے بتائے اور اس طرح اس نے ایک نئی زبان کو جنم دیا۔ وہ اپنی سہیلی کا ہاتھ دباتی جاتی تھی اور اس کی سہیلی اس کی باتوں کو سمجھتی جاتی تھی اور لکھ لیتی تھی۔ وہ اپنی خود نوشت میں کہتی ہے کہ میں اللہ کی بڑی شکر گزار ہوں اور میں ہروقت اس کا شکر ادا کرتی رہتی ہوں کہ اس نے مجھے دنیا کی ان نعمتوں سے محروم رکھا جو ساری کائنات کے لوگوں کو ملتی ہیں۔ اگر مجھ میں یہ خامیاں‌نہ ہوتیں تو میں اتنی نامور رائٹر نہ ہوتی اور میں‌ایک عام امریکی عورت کی طرح‌چولہے چونٹھے پر کام کرتی فوت ہو گئی ہوتی لیکن میں ساری خامیاں میرا بہت بڑا سہارا بن گئی ہیں۔ وہ پاکستان بننے کے دوسرے تیسرے سال لاہور آئیں۔ میری بھی ان سے ملنے کی بڑی خواہش تھی۔ خدا کا شکر کہ میری اس سے ملاقات ہوئی اور وہ اپنی اس دوست کے ذریعے سے ہم سے سوال جواب کرتی رہی اورمیرے Funny قسم کے سوالات پر وہ بے قاعدہ ہنستی بھی تھی اور ہمارے سوالوں کا کھٹاکھٹ جواب دیتی۔ وہ اپنی خامیوں پر فخر کرتی۔ میں بھی اپنے پیارے بچوں کو مایوس نہیں دیکھنا چاہتا۔ اگر میرے بچے اپنے خیالات کو مثبت انداز میں ڈھالیں‌اور خودکشی کرنے اور قتل کرنے والی رائفل کو بانسری میں‌تبدیل کردیں تو وہ بہت سی مشکلات سے نکل سکتے ہیں۔ ان کی یہ گھبراہٹ بہت زیادہ انفارمیشن ملنے کی وجہ سے ہے اور وہ اپنے بارے میں بہت کم جانتے ہیں جس طرح‌کہا گیا ہے کہ جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے اللہ کو پہچان لیا۔ اس لئے خود کی پہچان کرنا بہت ضروری ہے۔
اللہ آپ کو آسانیاں عطافرمائے اور آسانیاں‌تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ
 

قیصرانی

لائبریرین
تحائف
پھولوں اور تحفوں کی دنیا بھی بڑی عجیب و غریب ہے۔ اس کو اگرMicroscopically دیکھیں ‌تو اس کے نہایت عجیب و غریب معانی نکلتے ہیں۔ میرے ہی ہم عمر میرے ایک دوست بیمار تھے اور ہماری عمر کے لوگوں کو بیماری لگنا تو عام سی بات ہے۔ ہم اپنے اس دوست کی عیادت کرنے ہسپتال میں گئے تو وہاں ہمارے ایک اور دوست ان کے لئے پھولوں کا تحفہ لے کر آئے ہوئے تھے۔ ہمارے ہاں‌پھول دینے اور لینے کا بڑا رواج ہو گیا ہے۔ جب وہ پھول دینے والے دوست وہاں سے چلے گئے تو میرے زیرٍ علاج دوست یوسف کہنے لگے کہ یار یہ پھول بہت اچھی چیز ہیں۔ بڑے خوبصورت لگتے ہیں لیکن اشفاق تو ہمارے اس دوست کو تو کچھ نہ کہنا لیکن کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ بجائے پھول میرے سرہانے رکھنے کے کچھ دیر میرے پاس بیٹھتا۔ اپنے دونوں ہاتھوں میں میرا ہاتھ لیتا۔ مجھے اس بات کی بڑی آرزو اور طلب ہے کہ میرے دوست عزیز میرے قریب آ کر مجھے وہ لمس عطا کریں جس کی مجھے بڑی ضرورت ہے۔ وہ کہنے لگا کہ میں‌پھولوں کا تحفہ برا نہیں سمجھتا لیکن پھول کے مقابلے میں قریب آنا زیادہ اچھا تھا۔
میں نے اسے بتایا کہ ولایت میں بھی پھول دینے کا بڑا رواج ہے۔ روم کی یونیورسٹی میں ہمارے پروفیسر اونگاریتی کہا کرتے تھے کہ میں کسی ایسے ملک میں نہیں رہنا چاہتا جہاں پھول بٍکتے ہوں۔ پھولوں کو بٍکنا نہیں چاہئے۔خواتین و حضرات بات تو یہ بھی سوچنے والی ہے کہ پھول اور انسان کے درمیان ایک محبت کا رشتہ ہے۔ وہ رشتہ اُجاگر ہونا چاہئے تاکہ ہم پھولوں کو جنسٍ خریدار بناکر پیش کریں۔ میں نے یوسف سے کہا کہ یہ تو تحفے کی بات ہے اور تحفے کو ہر حال میں قبول کیا جانا چاہیے۔
ہمارے نبی محمد صلی اللہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب آپ کسی کے پاس جائیں تو کوئی تحفہ چاہے چھوٹا ہو یا بڑا ضرور لے کر جائیں۔ اس سے محبت بڑھتی ہے۔ تحفے اور تحفے دینے کی بھی کئی اقسام ہیں اور بعض اوقات تحفہ عطا کرنے والا اسے ایسے عطا کرتا ہے کہ آپ کو یا وصول کرنے والے کو احساس تک نہیں ہوتا کہ مجھے کچھ عطا کیا جا رہا ہے یہ دے رہا ہے اور تحفے کے بڑے روپ ہوتے ہیں۔ بعض روپ ایسے ہوتے ہیں جو سمجھ نہیں آتے لیکن تحفہ ان تک پہنچ جاتا ہے جسے عطا کیا جا رہا ہو لیکن شعوری محور پر اس کا علم نہیں ہوتا۔ جسم اس تحفے سے واقف نہیں ہوتا لیکن روح بہت حد تک واقف ہوتی ہے اور اس سے بہت حد تک فائدہ بھی اٹھاتی ہے۔ روح کو توانائی اور تقویت بخشنے کے لئے ضروری ہے کہ تحفوں کے بارے میں ضرور سوچا جائے اور وہ تحفے ایسے ہوں جن کو روح بھی قبول کرے اور جسم بھی۔ ایسے تحفے جاری رہنے چاہئیں۔ مجھے وہ وقت یاد آرہا ہے جب میں‌سمن آباد میں‌رہتا تھا اور میرا پہلا بیٹا پیدا ہوا تھا۔ اس کی عمر کوئی چھ ماہ ہوگی جب کا یہ واقعہ ہے۔ چیکوسلواکیہ کی ایک فلم "Previous Summer" تھی۔ میں‌نے اس کے بارے میں‌بہت کچھ پڑھ رکھا تھا اور وہ فلم دیکھنے کی مجھے بڑی آرزو تھی۔ میں اوربانو قدسیہ دونوں ہی وہ فلم دیکھنا چاہتے تھے۔ اس وقت وہ اس علاقے میں کوئی بس بھی نہیں چلتی تھی۔ گھر کے قریب میرے ایک خالو جو ایک کواپریٹیو بینک میں تھے وہ رہتے تھے۔ میں ان کے پاس گیا اور کہا کہ ہمیں فلم دیکھنے جانا ہے اور اگر آپ ہمارے ہاں Baby Sittingکر لیں۔۔۔۔تو انہوں نے کہا کہ کیوں نہیں، بسم اللہ۔ میں نے کہا کہ جی وہ ہمارا بچہ خیر زیادہ روتا تو نہیں ہے اور اس کی ماں اس کے لئے فیڈر وغیرہ بنا کر دے جائے گی۔ وہ میرے رشتے کے خالو اپنی بیوی سے اس وقت کہنے لگے کہ “چل بھئی حمیدہ ادھر چلیں“ جب وہ گھر آئے تو میں نے انہیں گھر کی چیزوں کی بابت بتایا۔ لیکن وہ کہنے لگے کہ آپ لوگ بے فکر اور پرسکون ہو کر آسانی کے ساتھ جاؤ اور مزے اڑاؤ۔وہ فلم ہماری توقع کے مطابق بڑی عجیب و غریب فلم تھی۔ اس فلم میں تین بڈھے تھے۔ ایک برکھا والی Summer تھی جس میں وہ بڑی محبت سے لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں۔ ان کی عمر زیادہ ہوتی ہے اور انہیں سمجھ نہیں آتی کہ عشق میں کیسے مبتلا ہوا جائے۔
ہم واپس آئے تو گھر میں ہمارے خالو اور خالہ بیٹھے ہوئے تھے۔ میں
‌نے ان کا شکریہ ادا کیا لیکن وہ کہنے لگے نہیں نہیں ہم تو فارغ ہی تھے پھر بھی کبھی ضرورت پڑے تو کہ دینا۔ میں‌نے شرارتاً ان سے کہا کہ جی گو برا تو لگتا ہے لیکن Baby Sitting کی ایک فیس ہوتی ہے۔
وہ کہنے لگے ہاں ہوتی تو ہے۔
وہ کہنے لگے کہ آج کل وہ فیس کتنی ہے۔
میں‌نے کہا جی دس روپے ہے۔
ہم دونوں کی۔ خالو نے پوچھا۔
میں‌نے کہا کہ نہیں خالو آپ کے دس روپے الگ اور خالہ کے دس روپے الگ۔
وہ کہنے لگے کہ ہمیں یہاں دو گھنٹے لگ گئے اور اس طرح چالیس روپے بن گئے۔ پھر انہوں نے بغلی جیب میں‌ہاتھ ڈالا اور چالیس روپے نکال کر ہم کو دے دیئے اور کہنے لگے کہ اتفاق سے میرے پاس پچاس ہیں دس میں رکھ لیتا ہوں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کو Baby Sitting کے معنی نہیں‌آتے۔
وہ کہنے لگے کہ آتے ہیں۔ لیکن ان کو واقعی اس کے معانی نہیں آتے تھے۔
وہ سمجھتے تھے کہ اگر بزرگ گھر میں Baby Sitting کریں تو انہیں اپنے پاس سے روپے دینا پڑیں گے۔ انہوں نے بجائے لینے کے چالیس روپے ہمیں دے دئے اور ہم نے وہ رکھ لئے۔ میری بیوی کہنے لگی کہ جلدی دیکھو کہ کیا کوئی اور اچھی فلم آرہی ہے کہ نہیں کیونکہ آئندہ خالو اور خالہ کو پھر بلائیں گے۔
خواتین و حضرات! اتنا وقت گزر گیا ہے اور ہم Baby Sitting کے پیسے لے چکے ہیں تو مجھے اب خیال آتا ہے کہ ہم یہی سمجھتے رہے کہ ہمارے خالو پینڈو ہیں اور انہیں اس لفظ کے شاید معانی بھی نہیں آتے لیکن حقیقت میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ انہیں اس لفظ کے معانی بالکل ٹھیک آتے تھے اور اچھی طرح سے آتے تھے لیکن انہوں نے ہماری خوشنودی کے لئے، ہمارے ہاں‌آنے کے لئے اور ہمارے سر پر ہاتھ رکھنے کے لئے پیسوں کی صورت میں‌تحفہ عطا کیا تھا۔ایسے تحفے آپ کی زندگی میں بھی آتے رہتے ہیں۔ اس کے لئے صرف الرٹ رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ آپ کی زندگی کی بڑھوتری میں روحانی، نفسیاتی اور جذباتی طور پر بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ مجھے اور آپ کو بھی یہ سوچنا چاہئے کہ تحفہ کس شکل میں دیا جائے کہ وہ لینے اور دینے والے کی روحانی و نفسیاتی نشونما میں فائدہ پہنچائے۔ اس کا فائدہ محض جسمانی نہیں ہونا چاہئے کہ ہم کسی کو لحاف تحفے میں دے دیں۔
پچھلے سال گرمیوں‌میں میری بھتیجی کی شادی تھی۔ میں ان کے گھر کے صحن میں کھڑا ایک شامیانہ لگوا رہا تھا کہ اس میں لڑکیاں وغیرہ مہندی کی رسم کر لیں۔ میرے ساتھ میرے کچھ عزیز بھی تھے۔ وہاں‌پر ایک عجیب سا آدمی آگیا جو ہمارے محلے کا نہیں تھا اور میں نے اسے پہلے کبھی دیکھا نہیں تھا۔ اس نے خاکی رنگ کی شرٹ اور خاکی ہی پتلون پہنی ہوئی تھی۔ ہو آ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ “جی یہاں کوئی شادی ہورہی ہے؟“
میں نے کہا کہ “ جی ہاں شادی ہو رہی ہے۔“
وہ کہنے لگا کہ “کس کی؟“ میں نے کہا کہ “میرے بھتیجی کی۔“
وہ کہنے لگا کہ “جی کیا نام ہے اس کا؟“
میں‌نے کہا “اس کا نام عظمٰی ہے۔“
وہ پھر کہنے لگا کہ “شادی کب ہے جی؟“
(وہ مجھ سے بچوں کی طرح ایک ایک سوال پوچھ رہا تھا“
میں نے کہا کہ “پرسوں بارات آئے گی۔“
اتنی دیر میں ایک نوجوان آگیا جس کو میں پہچانتا تھا۔ اس نے آتے ہی اس شخص سے کہا کہ آئیں‌آئیں چلیں۔ جلدی کریں۔ وہ نوجوان اس شخص کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے اسے لے گیا۔ میں تھوڑا سا پریشان ہوا اور حیران بھی ہوا لیکن پھرمیرے ذہن سے بات نکل گئی۔ اگلی صبح وہی نوجوان جو اس شخص کو لے کر گیا تھا وہ میرے پاس آیا اور کہا کہ جی انہوں نے آپ سے کچھ ایسا تونہیں کہا جو آپ کو ناگوار گزرا ہو۔ میں نے کہا کہ نہیں وہ تو مجھ سے شادی کے بارے میں‌پوچھ رہے تھے۔
وہ نوجوان کہنے لگا کہ یہ میرے ماموں ہیں۔ یہ دماغی طور پر ذرا ماؤف ہیں۔ میں‌اور میری والدہ اس لئے گھبرائے تھے کہ انہوں نے کچھ ایسی باتیں‌نہ کہ دی ہوں جو آپ کو ناگوار گزری ہوں۔ خواتین و حضرات اس نوجوان کے ماموں کا دماغی توازن تو ضرور بگڑا تھا لیکن اس پر ایک طرح کا پہرہ بٹھا دیا گیا تھا۔ جب مہندی کی رسم ہو چکی اور لڑکیاں ناچ گانا کر کے فارغ ہو گئیں تو اس وقت وہ صاحب پھر آگئے اور بڑے کھسیانے اور شرمندہ سے تھے۔ میں نے کہا کہ آئیے آئیے تشریف لائیے۔ میں تو آپ کا انتظار کر تا رہا ہوں۔ وہ اب دونوں ہاتھ پیچھے رکھ کر جھوم جھوم کر باتیں ‌کر رہے تھے۔ میں نے انہیں بیٹھنے کا کہا لیکن انہوں نے کہا کہ نہیں۔ میں‌نے چائے کا پوچھا تو انہوں نے اس سے بھی انکار کر دیا۔ پھر انہوں نے اپنا ایک ہاتھ فوراً آگے کر دیا۔ ان کے ہاتھ میں عام سے خاکی لفافے میں مروڑی دے کر رکھی ہوئی کوئی چیز تھی۔ وہ کہنے لگا کہ میں بچی کے لئے یہ تحفہ لایا ہوں۔ میں نے کہا کہ بہت مہربانی اور ان سے تحفہ لے لیا اور وہ جیسے آئے تھے ویسے ہی شرمندگی کے عالم میں چلے گئے۔ مجھے اس بات کا بڑا افسوس ہوا کہ میں انہیں بٹھا بھی نہیں سکا۔
خواتین و حضرات! اس لفافے میں ایک چینی کا جگ تھا۔ وہ جگ عام سائز سے ذرا بڑا تھا۔ میں نے اپنی بھتیجی سے کہا کہ تمہارے لئے یہ تحفہ ہے۔ تمہیں دوسرے ملنے والے تحفے واقعی بڑے قیمتی ہیں اور ان کی پیکنگ بھی بڑی خوبصورت ہے لیکن اس تحفے کو بڑی محبت اور اعتماد کے ساتھ رکھنا یہ ایک بہت بڑے آدمی کا تحفہ ہے۔ وہ ہنس دی اور کہنے لگی چچا یہ تو فضول سا ایک جگ ہے۔ میں اسے تحفے کی آئٹم میں کہاں رکھوں گی۔
خواتین و‌ حضرات! وہ شخص جو جگ لے کر آئے تھے وہ جگ تھا جیس میں انہیں دودھ دیا جاتا تھا۔ اس کے پاس اس جگ کے سوا دینے کو اور کچھ نہ تھا۔ جب مجھے اس بات کا علم ہوا تومیں نے اپنی بھتیجی سے کہا کہ یہ سارے تحفوں میں سے قیمتی تحفہ ہے اور جس آدمی نے دیا ہے تم اور میں دونوں مل کر اس کے دل کی گہرائیوں کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔ وہ جگ اس شخص کا سب سے قیمتی سرمایہ تھا۔ میں گزشتہ جب کینیڈا گیا(اب میری وہ بھتیجی وہاں‌ہے) تو اس نے لکڑی کی ایک خوبصورت الماری میں اپنے تحفے رکھے ہوئے ہیں۔ اس نے اپنے دوسرے قیمتی تحفوں کے درمیان لکڑی کا ایک چوکور پیڈسٹل بنا کر اس پر وہ جگ رکھا ہوا ہے اور اسے دوسرے تحفوں سے اونچا رکھا ہوا ہے۔ مجھے وہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی۔ وہ کہنے لگی کہ چچا جوں جوں وقت گزرتا ہے میں اس کو دیکھتی ہوں تو میری اس سے ایک طرح کی Relatedness پیدا ہو گئی ہے۔ وہ کہنے لگی کہ جب بھی کوئی مشکل پڑے تو اس جگ کو دیکھنے سے مشکل دور ہوجاتی ہے۔
خواتین و حضرات! ایسی باتیں جنہیں ہم ضعیف ال اعتقادی کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسی باتیں ماننے سے آپ کی پختگی پر اچھا اثر نہیں‌پڑتا۔ لیکن میں میں اب اس نتیجے پر پہنچا ہوں‌کو ایسے جگ کے ذریعے اور ایسے تحفے کے ذریعے جس کو آپ دیگر پیک کئے ہوئے تحفوں کی طرح وصول نہیں کرتے۔ اس تحفے کی قیمت زیادہ یوں ہوتی ہے کہ جب آپ اس کے ذریعے کچھ Communicate کرنا چاہیں تو آپ کو وہ سب کچھ نصیب ہوجاتا ہے جس کی کمی محسوس کی جا رہی ہوتی ہے۔ یہ طاقت تحفوں کی ہے اور اس کو عطا کرنے والوں‌کی ہے جو ہمیں میسر آتی ہے۔ ان سب چیزوں سے مل کر انسان کا پیٹرن بنتا ہے اکیلا انسان کچھ بھی نہیں کر سکتا چاہے وہ کتنا ہی زور کیوں نہ لگا لے۔اس لئے اللہ ہمیشہ انسانوں کو جماعت کے رُخ سے پکارتا ہے اور جماعت کے رُخ سے ہی حوالہ دیتا ہے۔ جب آدمی اکائی میں‌ہو تو اس کے لئے زندگی بسر کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ زندگی گزارنے کے لئے تحفوں کی استقامت اور اس کی معنوی طاقت کا سہارا پکڑنے کی شدت سے ضرورت ہے۔ چاہے کوئی بھی چھوٹی سے چھوٹی چیز ہی کیوں نہ ہو دکھاوے اور لالچ سے ہٹ کر تحفہ میں دی جانی چاہئے۔ چاہے گڑ کی ایک ڈھیلی ہی سوغات کے طور پر ہی کیوں‌نہ دی جائے لیکن یہ رشتے تحفے اور باتیں ہماری زندگی سے نکلتی جا رہی ہیں اور ہم اس سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ہمیں اس کے قریب ہونے کی ضرورت ہے۔
اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ
 

شمشاد

لائبریرین
باب 28

باب 28

“زندگی سے پیار کی اجازت درکار ہے“

پچھلے دنوں کچھ ایسے بوجھ طبیعت پہ رہے، ان کچھ اور چند دنوں کو میں اگر پھیلاؤں تو وہ بہت سارے سالوں پر محیط ہو جاتے ہیں لیکن اللہ کا فضل ہے کہ ہماری اجتماعی زندگی میں دو ماہ ایسے آئے کہ بوجھ میں کچھ کمی کا احساس پیدا ہوا اور یوں جی چاہا کہ ہم بھی زندوں میں شامل ہو جائیں اور جس مصنوعی سنجیدگی کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں اس سنجیدگی میں کچھ کمی پیدا کریں۔ہم سے بڑوں نے بھی خود کو خوش کرنے کے لیے خوش بختی کا سامان بہم کیا تھا لیکن بد قسمتی سے وہ سارے یہی سمجھتے رہے کہ اگر ہمارے پاس ڈھیر ساری دولت ہو گی تو ہم خوش ہوں گے۔ ان بڑوں نے یہی ورثہ اپنے بچوں میں منتقل کیا۔ ہمارے طالبعلموں کو بھی یہی بتایا گیا کہ بہت سارے پیسے اور اقتصادی طور پر مضبوط مستقبل ہی خوشی ہے۔ ان مادی خوشیوں کو سمیٹتے سمیٹتے اب حالت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ صورتحال نہایت تکلیف دہ ہو گئی ہے۔ آپ آئے روز اخباروں میں نیب کے نتائج پڑھتے ہوں گے کہ فلاں شخص سے 5 یا 8 کروڑ واپس لے لیا گیا۔ یہ ہمارے وہ پیسے تھے جو لوگ لے کر بھاگ گئے تھے۔ یہ بڑی دردناک کہانی ہے۔ میری تمنا اور آرزو ہے کہ ہم کاش ایسا بھی سوچنے لگیں کہ بہت زیادہ سنجیدگی کی دنیا سے نکل کر تھوڑی سی آسائش کی طرف بھی توجہ فرمائیں۔ خواتین و حضرات آسائش خالی پیسے کے جمع کرنے یا اپنی ذات کو مضبوط کرنے سے میسر نہیں آتی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کو محسوس کرنے میں، گلستانوں کی سیر کرنے اور چیلوں کو دیکھنے میں بھی اتنی خوشی ملتی ہے جس کا اندازہ کرنا ہم شاید بھول گئے ہیں۔ میں ایک مرتبہ لاہور سے قصور جا رہا تھا تو ایک پُلی پر لڑکا بیٹھا ہوا تھا اور اس پلی کو ڈنڈے سے بجا رہا تھا اور آسمان کو دیکھنے میں محو تھا۔ مجھے بحثیت ایک استاد کے اس پر بڑا غصہ آیا کہ دیکھو وقت ضائع کر رہا ہے اس کو تو پڑھنا کاہیے۔ خیر میں وہاں سے گزر گیا۔ تھوڑی دور آگے جانے کے بعد مجھے یاد آیا کہ جو فائلیں اور کاغذات میرے ہمراہ ہونے چاہئیں تھے وہ نہیں تھے لٰہذا مجھے لوٹ کر دفتر جانا پڑا۔ میں واپس لوٹا تو وہ لڑکا پھر ڈنڈا بجا رہا تھا۔ مجھ اس پر اور غصہ آیا۔ جب میں وہ کاغذات لے کر واپس آ رہا تھا تو تب بھی اس لڑکے کی کیفیت ویسی ہی تھی۔ میں نے وہاں گاڑی روک دی اور کہا، “یارو دیکھو تم یہاں بیٹھے وقت ضائع کر رہے ہو تمہاری عمر کتنی ہے۔“

اس نے بتایا کہ تیرہ یا چودہ سال ہے۔ میں نے کہا کہ تمہیں پڑھنا چاہیے۔ وہ کہنے لگا جی میں پڑھنا نہیں جانتا۔

تب میں نے کہا کہ تم یہاں بیٹھے کیا کر رہے ہو۔ میرے خیال میں فضول میں اپنا اور قوم کا وقت ضائع کر رہے ہو۔ تمہیں شرم آنی چاہیے۔

وہ کہنے لگا جی میں تو یہاں بیٹھا بڑا کام کر رہا ہوں۔ میں نے کہا آپ کیا کام کر رہے ہیں۔

کہنے لگا جی میں چڑی کو دیکھ رہا ہوں۔ یہ وہی چڑی ہے جو پچھلے سے پچھلے سال ادھر آئی تھی اور اس نے یہیں گھونسلا ڈالا تھا۔ تب اس کے ساتھ کوئی اور چڑا تھا، اب کی بار یہ شاید اور کسی سے شادی کر کے آئی ہے۔

میں نے کہا کہ تم کیسے پہچانتے ہو کہ یہ وہی چڑیا ہے۔ وہ کہنے لگا کہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ میں اسکو پہچانتا ہوں۔ یہ مجھے پہچانتی ہے۔ مجھے اس کی بات سن کر پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ میرے ملک میں ایک ادرنی تھالوجسٹ بھی ہے۔

(The person who knows the details of the birts)

اس کا کوئی گائیڈ نہیں ہے۔ یہ کسی یونیورسٹی سے یہ مضمون نہیں پڑھا ہوا کیونکہ ہماری کسی یونیورسٹی میں یہ Subject نہیں پڑھایا جاتا ہے۔ میں چونکہ شرمندہ ہو چکا تھا اور میں اس سے کہہ چکا تھا کہ تم بڑا وقت ضائع کر رہے ہو اور فضول کام میں لگے ہو اور اب میں نے اپنے موقف سے نہ ہٹتے ہوئے اور شرمندگی ٹالتے ہوئے کہا کہ یار تمہیں کوئی کام کرنا چاہیے۔ میری طرف دیکھو میں کیسی اچھی گاڑی میں ہوں اور میں اپنی ایک میٹنگ میں جا رہا ہوں۔ لوگ مجھے اجلاسوں میں بلاتے ہیں اور میں تم سے بڑے درجے میں ہوں اور یہ اس وجہ سے ہے کہ میں تعلیم یافتہ ہوں اور تم نے گویا تعلیم حاصل نہیں کی ہے اور تم فضول لڑکے ہو۔

وہ میری بات سن کر ہنس کے کہنے لگا “ صاحب جی بات یہ ہے کہ ہم تم دونوں ہی برابر ہیں۔ میں اس پلی پر بیٹھا بھاگتی ہوئی موٹریں دیکھ رہا ہوں۔ آپ موٹر میں بیٹھے ہوئے پلیاں بھاگتی ہوئی دیکھ رہے ہیں۔ آپ نے بھی کچھ زیادہ اکٹھا نہیں کیا۔“

خواتین و حضرات، کبھی کبھی اس لڑکے کی بات مجھے یاد آ جاتی ہے۔ میں نے اب حال ہی میں پچھلے سے پچھلے ہفتے یہ فیصلہ کیا کہ اتنی زیادہ Rigid خشک اور اتنی زیادہ سنجیدہ زندگی بسر کرنے کی نہ تو انفرادی طور پر ضرورت ہے اور نہ ہی اجتماعی طور پر ضرورت ہے بلکہ ہمیں ڈھیلے ڈھالے اور پیارے پیارے آدمی ہو کر Relax رہنے کا فن سیکھنا چاہیے۔ خواتین و حضرات اگر آپ مجھ سے میری زندگی کو سب سے بڑی خوشی پوچھیں تو میں آپ کو بتاؤں گا کہ جب میں سیکنڈ ایئر میں تھا تو لاہور میں (جو لوگ لاہور کو جانتے ہیں انہیں پتہ ہے کہ جسبت روڈ اور میکلوڈ روڈ کو ایک چھوٹی سی سڑک ملاتی ہے اور وہ سڑک بالکل دیال سنگھ کالج کے سامنے ہے) دیال سنگھ کالج کے پاس ایک حلوائی کی دکان ہوتی تھی جو سموسے بیچتا تھا۔ تب اس کے سموسے پورے لاہور کے مہنگے ترین ہوتے تھے اور وہ تین آنے کا ایک سموسہ بیچتا تھا۔ اس کے سموسوں کی خوبی یہ تھی کہ ان میں آلو کی بجائے مٹر کے سرسبز دانے ہوتے تھے۔ یہ قیام پاکستان سے پہلے کی بات ہے۔ اس کے بعد کسی نے اس طرح کے مٹر کے سموسے بنائے ہی نہیں ہیں شاید۔ ہم سب دوستوں کی بڑی آرزو ہوتی تھی کہ ایک عدد سموسہ ایک دن میں ضرور کھایا جانا چاہیے اور ہماری بدقسمتی یہ ہوتی تھی کہ میری ماں مجھے کالج جانے کے لیے دو آنے دیتی تھی۔ اب دو آنے میں ایک آنہ ملانا خاصا مشکل کام تھا۔ ہم تین آنے اکٹھے کرنے کے چکر میں پڑے رہتے تھے اور وہ ایک سموسہ کھاتے بھی دوستوں سے نظر بچا کے تھے کیونکہ جو دوست دیکھ لیتا وہ تو پھر حصے دار بن جاتا تھا۔ ہم اس تین آنے میں‌ میسر آنے والی عیاشی سے بڑے لطف اندوز ہوتے تھے اور آج ساٹھ برس سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ہم یاد کرتے ہیں کہ عیاشی کو جو لمحے تھے وہ تھے اور میری افسانہ نگاری، ناموری اور ڈرامہ نگاری کے لمحات کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہیں۔ اگر کالج کی زندگی سے ذرا پیچھے جاؤں تو اور خوشی کے لمحات آتے ہیں۔ ابھی کل ہی میرے پوتیاں پوتے مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ دادا، نانا آپ کی زندگی کا سب سے خوبصورت دن کون سا ہے۔ میں انہیں بتا رہا تھا کہ میں دوسری جماعت میں پڑھتا تھا اور میں تب خوش خط تختی لکھا کرتا تھا اور مجھے کبھی کبھی اس خوش خطی پر ایک یا دو پیسہ انعام بھی ملتا تھا اور تب بھی اتوار کی چھٹی ہوتی تھی۔ ایک دن میری ماں نے مجھے بتایا اور ان کی یہ بات سن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ انہوں نے چتری مرغی کے نیچے انڈے رکھے ہیں اور وہ انہیں سی رہی ہے۔ اکیس دن کے بعد ان انڈوں سے چوزے نکلیں گے اور وہ تمہارے کھیلنے کا سامان ہو گا۔ تم ان چوزوں سے کھیلا کرنا۔ میں نے ماں سے کہا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ کسی ایسے دن نکلیں گے جب میں سکول میں ہوں گا۔ میری ماں نے کہا کہ تم گھبراؤ مت میں نے مرغی کے نیچے انڈے اس حساب سے رکھے ہیں کہ اتوار کو صبح کو ہی چوزے نکلیں گے اور وہ تمہارا چھٹی کا دن ہو گا۔ تم ان سے خوب کھیلنا۔

خواتین و حضرات، جب وہ بچے نکلے وہ ہفتے کا دن تھا۔ میں خوش خط تختی لے کر جب سکول جانے لگا تو میری ماں نے مجھے خوشخبری دی کہ “ اشفاق چوزے نکل آئے اور چھ ابھی نکلے ہیں باقی نکل رہے ہیں۔“

پیارے بچو آپ اندازہ نہیں لگا سکتے اس وقت میرے دکھ اور میری مایوسی کا۔ کیونکہ چوزے نکل آئے تھے اور میں سکول جا رہا تھا اور میں نہ انہیں انڈوں سے نکلتے ہوئے دیکھ سکتا تھا اور نہ ان کے پاس سارا دن بیٹھ سکتا تھا۔ میں نے رنجیدہ ہو کر کہا، “ اماں تو نے تو کہا تھا کہ اتوار کو نکلیں گے آج ہفتہ ہے۔“

میری ماں نے مجچھ سے کہا کہ بیٹے جب چوزے نکل آتے ہیں تو ہفتہ تھی اتوار ہو جاتا ہے۔ تیرے لیے بھی آج اتوار ہی ہے۔ تختی بستہ رکھ دے، سکول نہیں جانا۔ وہ دن آج تک میری زندگی کا خوبصورت دن ہے اور مجھ یاد ہے کہ وہ ہفتہ کیسے اتوار بن گیا اور وہ سارا دن میں نے کتنی خوشی کی لہر میں گزارا۔ میں اسے باوصف اس لیے نہیں بھول سکتا کہ مجھے زندگی میں بڑی کامیابیاں ملیں۔ میرے لیے بڑے باجے بجے، بڑے کمرے سجائے گئے لیکن اس خوشی کا میں آپ کو ترجمہ کر کے نہیں بتا سکتا، اس کی ترجمانی نہیں کر سکتا۔

ہمیں ایسی خوشیوں کی طرف رجوع کرنے کی بڑی سخت ضرورت ہے۔ اب میں نے پچھلے دو ہفتوں سے یہ فیصلہ کیا ہے اور یہ فیصلہ اپنے مشاہدے کی بنا پر کیا ہے کہ زندگی پر تھوڑا اختیار تو ہونا چاہیے یا اس پر کنٹرول حاصل کرنا چاہیے۔ یہ تو اپنی مرضی سے چلی آ رہی ہے۔

Life is Bigger than Life

میرا یہ مشاہدہ یہ دیکھ کر ہوا کہ یوٹیلیٹی بلز جن کے بارے میں آپ روتے پھرتے ہیں۔ یہ آپ تک 24 گھنٹے کے اندر اندر پہنچ جاتے ہیں لیکن وہ چیک جو آپ کی تنخواہ یا محنت کا پیسہ ہوتا ہے وہ ایک ماہ سے پہلے آپ تک نہیں پہنچتا۔ بعض اوقات تو ایک مہینے سے بھی زیادہ کا عرصہ لگ جاتا ہے۔گنیز بک والوں کا کہنا ہے کہ دنیا کے تین بڑے جھوٹوں میں سے ایک جھوٹ یہ بھی ہے کہ “ جی ہم نے آپ کا چیک روانہ کر دیا ہے۔ وہ بس پہنچنے ہی والا ہو گا۔“ حالانکہ چیک نہیں پہنچتا۔ میرے پوتے پوتیاں اور ان کے سکول کے باقی دوست ایک ہی موٹر پر آتے ہیں اور راستے میں وہ اپنے دوستوں کو ان کے گھروں میں چھوڑتے آتے ہیں لیکن میرے پوتے پوتیاں گھر آ کر اپنے انہی دوستوں سے فون کر کے بات کرتے ہیں اور خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیتے ہیں حالانکہ ابھی چند منٹ پہلے وہ انہیں چھوڑ کر آئے ہوتے ہیں۔ جب میں پورا منہ کھولے بڑی تکلیف میں اپنے ڈینٹسٹ کے آگے بیٹھا ہوتا ہوں تو وہ بار بار مجھ سے پوچھتا ہے جب نہیں میں بول سکتا ہوں، نہ سر ہلا سکتا ہوں۔ بس زندگی بھی کچھ اسی ڈینٹسٹ اور مریض کر طرح سے ہے۔ اب میں نے جو دو ہفتوں سے سوچ رہا ہوں تو بڑے اعتدال پسندی کے موڈ میں ہوں۔ آپ پر بڑی نصیحتوں اور بابوں کی بات کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا۔ میری سوچ کی طرح آپ بھی سیر کریں۔ پرندوں بارے غور کریں۔ اچھا سوچیں کیونکہ جب تک آپ کے اندر کی pollution دور نہیں ہو گی باہر کی تو بالکل ختم نہیں ہو گی۔ پہلے اندر کی صفائی ہونی چاہیے۔ اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں اب زندگی میں Relaxed رہنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ میں اب زندگی کے اس آخری حصے میں کبھی Dieting نہیں کروں گا۔ میں 70 برس ڈائٹنگ کرنے کی کوشش کرتا رہا اور میرے ساتھ اور بھی عورتیں، لڑکیاں لڑکے زور لگاتے رہے لیکن وہ ڈائٹنگ نہیں کر سکے کیونکہ یہ دنیا کا سب سے مشکل کام ہے۔ پتہ نہیں یہ کیوں نہیں ہوتا۔ میری آپا رضیہ ایک دن اپنے خاوند سے کہنے لگیں کہ “ارشد آپ کو ڈائٹنگ کرنی چاہیے، دیکھیں نا آپ چلتے ہوئے ایسے لگتے ہیں جیسے دو آدمی چل رہے ہوں۔“

لٰہذا ارشد بھائی نے ڈائٹنگ شروع کر دی۔ پھر دو ماہ کے بعد کہنے لگیں کہ آپ تو آم کی گٹھلی کی طرح چوسے ہوئے لگتے ہیں۔ آپ اپنا چہرہ آئینے میں دیکھیں تو سہی، آپ نے اتنی لمبی اور خوفناک ڈائٹنگ کیوں کر لی۔

ارشد بھائی کہنے لگے، رضیہ تم مجھے یہ بتاؤ کہ تم کو میری کون سے سائیڈ سے محبت ہے۔ کبھی تم موٹاپے پر تنقید کرتی ہو تو کبھی دبلے پن پر۔

خواتین و حضرات ڈائٹنگ مشکل کام ہے اور اگر اب میرے پوتے پوتیاں مجھے کہیں گے کہ نانا آپ چوڑائی کے رخ پھیلتے جا رہے ہیں تو میں کہوں گا کہ اب تو میں چوڑائی کے رخ ہی پھیلوں گا۔
"Let Me Relax"

میں نے دوسرا فیصلہ یہ کیا ہے کہ میری میز پر جو گند پڑا ہوتا ہے، جو ٹوٹی سرنجیں جن سے میں پین میں سیاہی ڈالتا ہوں، پرانے پین، پھٹی پرانی کتابیں اور سوکھی دواتیں پڑی ہوئی ہیں۔ یہ میں اب ویسے ہی پڑی رہنے دوں گا۔ میں صفائی نہیں کروں گا۔ میری بے ترتیبی اور صفائی نہ کرنے پر میری بیوی مجھے کہا کرتی ہے کہ کیا یہ پڑھے لکھے لوگوں والا کام آپ کرتے ہیں کہ کسی چیز کی آپ کو خبر ہی نہیں ہے اور میں اس کی باتیں سن کر شرمندہ ہو جاتا ہوں۔ اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں شرمندہ بھی نہیں ہوں گا۔ میں آپ سے بھی یہی درخواست کروں گا کہ اب آپ بھی اپنی شرمندگیوں کو، اپنے دکھوں اور دباؤ کو کم کرنا شروع کریں اور ایک آزاد اور ہلکی پھلکی زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں۔ خواتین و حضرات میرے سر پر کچھ کتابوں کا بوجھ تھا کہ یہ ضرور پڑھنی ہیں اور ختم کرنی ہیں۔ میں نے سوچ رکھا تھا کہ میں History of God کے ساتھ ساتھ مولانا رومی کی مثنوی بھی شروع کروں گا اور کسی پریشانی کا اظہار نہیں کروں گا کیونکہ بلا وجہ کا اتنا سارا بوجھ لے کر میں کیا کروں گا۔

(پروگرام میں شریک ایک خاتون سوال کرتی ہیں)

سوال : اگر ہم اپنی ذات کو عذاب میں مبتلا نہیں کریں گے اس وقت تک ہم کامیاب زندگی کیسے بسر کریں گے۔

اشفاق احمد : میرے ارد گرد کامیاب زندگی بسر کرنے والے بہت سے لوگ ہیں، جنہوں نے زندگی سے پیار نہیں کیا بلکہ کامیابی سے پیار کیا ہے۔ جب آپ زندگی کو کامیابی سے علیحدہ کر دیتے ہیں اور زندگی کو مقفل کر دیتے ہیں اور صرف کامیابی کو پکڑ لیتے ہیں تو پھر آپ کی کیفیت وہی ہوتی ہے جو ابھی ماضی قریب میں ہم نے دیکھا کہ جن لوگوں نے بہت پیسے اکٹھے کر کے اپنی زندگیاں بنائیں پھر ان پر بدعنوانی کے مقدمات چلے اور پھر ان کی گردنیں ناپی گئیں۔ کامیاب ہونا اور چیز ہے، زندگی کے ساتھ وابستہ رہنا الگ چیز ہے۔ بے شک بچوں کو ہم سب استاد یہی کہتے ہیں کہ عذاب میں مبتلا ہوئے بغیر کامیابی ممکن نہیں لیکن آج میں آپ لوگوں کے سامنے اپنا دل کھول کے لایا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میں کامیاب بھی ہوں اور میرے زندگی بھی خوشگوار اور ضمیر بھی مطمئن ہو۔ صرف کامیابی ہی کامیابی نہ ہو۔ ترقی اور فلاح میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے۔ ترقی فلاح نہیں ہے فلاح کے اندر ترقی موجود ہے۔ خالی ترقی آپ کا ساتھ نہیں دے گی۔ اب میں نے یہ جو فیصلے کیے ہیں یہ آپ کی مرضی کے بغیر کیے ہیں لیکن آپ مجھے اس بات کی اجازت دیں اور کہیں کہ “ ٹھیک ہے بابا آپ اپنی زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزاریں لیکن اس میں فلاح کا رخ ہو اور میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالٰی اب میری زندگی میں فلاح کا رخ ضرور ہو گا۔ میں صرف ترقی کی طرف جانے والا نہیں ہوں گا۔ اگر میں خالی ترقی کی طرف جاؤں گا تو پھر میں ڈیزی کٹر (وہ تباہ کن تم جو امریکہ نے افغانستان میں استعمال کیے) بناؤں گا۔ پھر میں تورا بورا کو فنا کر کے ریت میں تبدیل کر دوں گا۔ مجھ ایسی ترقی نہیں چاہیے۔ مجھے زندگی سے پیار کرنے کی اجازت دیں اور میں بھی آپ کو یہ اجازت دیتا ہوں۔

اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور میری بڑی آرزو ہے کہ اللہ ان آسانیوں کو تقسیم کرنے کا بھی شرف عطا فرمائے۔ آمین۔

اللہ حافظ۔
 

فریب

محفلین
25
بابے کی تلاش

بڑے برسوں کے بعد کچھ روز پہلے کی بات ہے کہ میں سینما دیکھنے گیا۔ کالج کے زمانے میں ہم “منڈوا“ (سینما) دیکھنے جایا کرتے تھے۔ تب بھی اس وقت ہی جاتے تھے جب Matinee Show ہوتا تھا اور اتنے سال کے بعد جب دوبارہ سینما جانے کی ضرورت محسوس ہوئی تو بھی یہ میٹنی شو ہی تھا۔ جیسا کہ میں پہلے بھی کئی پروگراموں میں ذکر کر چکا ہوں کہ لوگ مجھ سے اس پروگرام کی مناسبت وے کسی بابے کا پتہ پوچھتے ہیںیا پوچھتے ہیں کہ ہم روحانیت کی منازل تلاش کر سکیں یا ہمیں کوئی ایسا طریقہ بتا دیں کہ ہم باطن کا پتہ کر سکیں اور اس منزل پر پہنچیں جہاں تک پہنچنے کے لیے ہمیں کہا گیا ہے اور میں ان سے اکثر یہی عرض کیا کرتا ہوں کہ بابوں کی دنیا وہ ایسی نہیں ہے کہ جس طرح وہ کسی ماہر ڈاکٹر کا پتہ ہو اور آپ آرام سے کسی ماہر طبیب یا سپیشلسٹ کا پتہ اور فون نمبر حاصل کر لیں یا آپ کا نامی گرامی وکیل جو کبھی ہارتا ہی نہ ہو اس کے چیمبر کا پتہ، فون یا فیکس نمبر لے لیں بلکہ یہ بابے تو آپ کے اندر سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ جب آپ تہیہ کر لیتے ہیں اور فیصلہ کرتے ہیں بالکل ایسا ہی فیصلہ جس طرح آپ اور آپ کے گھر والے کرتے ہیں کہ آپ نے بی۔ اے۔ کرنا ہے۔ جس طرح بی۔ اے کرنے کے لیے چودہ برس کا عرصہ درکار ہوتا ہے اسی طرح باطن کے سفر کے لیے بھی آپ کو اپنی ذات کے لیے ویسا ہی فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ دیکھئے۔۔۔۔!
انسان جو ہے وہ دوسرے جانداروں کے مقابلے میں ایک مختلف جاندار ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دیگر جانداروں میں بھی جان ہوتی ہے اور انسان میں بھی جان ہے اور انسان بھی دوسرے جانداروں کی طرح حرکت کرتا ہے، بولتا اور چلتا پھرتا ہے لیکن ان دونوں میں ایک بڑا واضع فرق ہے کہ انسان میں روح ہوتی ہے اور جانوروں میں روح نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر چار بکرے کھڑے ہیں ان میں سے ایک کو ذبح کر دیں۔ اس کی کھال اتاریں اور باقی تین کو چارہ ڈال دیں تو وہ بڑے شوق سے چارہ کھانے لگ جائیں گے اور ان کی توجہ نہیں ہو گی کہ ان کا ساتھی تختہ دار پر چڑھ چکا ہے۔ انہیں کوئی ملال یا دکھ نہیں ہو گا۔ دوسری طرف ایک انسان کو آپ قتل کر کے پھینک دیں یا خدانخواستہ قتل کیے جانے کے بعد کہیں پڑا ہو اور آپ وہاں لوگوں سے کہیں کہ آپ سکون سے بیٹھ کر سکون سے کھانا کھائیں یا خوش رہیں تو وہ ایسا نہیں کر سکیں گے۔ میں جہاں تک جان سکا ہوں وہ یہ ہے کہ روح اور میں ایک یہی فرق ہے کہ جان ہر جاندار کا ایک چھوٹے لیول پر ساتھ دیتی ہے لیکن جو روح عطا کی گئی ہے وہ صرف انسان کو دی گئی ہے۔ہر انسان کے اندر ایک ایسی چپ لگا دی گئی ہے اور پہلے سے پروگرامنگ کر دی گئی ہے جس طرح آپ نے اپنے جسم اور اپنی جان کو پرورش کی آنکھ سے دیکھنا ہے بالکل اسی طرح سے آپ نے اپنی روح کو بھی ان بلندیوں پر لے جانا ہے جن بلندیوں سے یہ اتر کر آپ کے وجود کے ساتھ پوست ہو جائے اگر آپ یہ پوچھتے رہیں گے کہ جناب مجھے بتائیے کہ ہم یہ کیسے کریں؟ تو آپ کی یہ بات محض کتابی اور اکتسابی سی بات ہی ہوگی۔ آپ ایک تجسس کے طور پر ہی پوچھیں گے کہ ایسے بھی ہوتا ہے؟ اور فرض کریں کہ آپ کو بتا بھی دیا جائے کہ فلاں صاحب بڑی روحانی منازل طے کر چکے ہیں اور ان کے پاس سمجھانے اور بتانے کے لیے کچھ ہے اور اس کے بعد آپ تحیہ بھی کریں کہ ان سے کچھ حاصل کریں تو آپ یوں ان سے کچھ حاصل نہ کر سکیں گے کہ آپ کی ایک آنکھ اور سارا وجود اور اس کے ساتھ نصف دماغ اس بات پر متعین ہو جائے گا کہ میں اس صاحب کی کوئی ایسی چوری پکڑوں جس پر میں تنقید کر سکوں اور لوگوں کو بتا سکوں کہ یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ عام طور پر جتنے بھی لوگ آتے ہیں وہ خاص طور پر ایسی ہی نگاہ رکھتے ہیں اور عام طور پر ایسا ہی ہوتا ہے کہ ہم اس بات پر زیادہ نظر رکھتے ہیں کہ ایک آدمی سے بابے نے ہاتھ ملایا اور اس آدمی نے ہاتھ ملاتے ہوئے بابے کو پانچ روپے کا نوٹ دیا اور انہوں نے اسے لپیٹ کر جیب میں ڈال لیا ۔ یہاں آ کر آپ کے سوچنے۔، سمجھنے اور اختیار کرنے کی ساری صلاحیتیں مسدود ہو جاتی ہیں کیونکہ اب آپ نے اس سخص کی چوری پکڑ لی ہے اور اس آدمی کو اپنے سے بدتر خیال کیا۔ میں آج سارے پروگرام میں اسی موضوی پر فوکس رکھوں گا کیونکہ مجھ سے عام طور پر یہ پوچھا جاتا ہے کہ آپ “بابوں“ کی باتیں کیوں کرتے ہیں۔ باتیں اس لیے کرتا ہوں کہ یہ ہماری روح کو بلندی عطا کرنے کے لیے ہماری مدد کرتے ہیں اور ہماری روح کو ارتفع اور بلندی اس صورت میں عطا ہوتی کہ ہم دوسرے جانداروں کے مقابلے میں خود کو ثابت کریں کہ ہم حرکت، سوچ اور کھانے پینے میں Movement اورReproduction میں تو ان کے ساتھی ہیں لیکن ہم ان سے آزاد ہیں اور ان معنوں میں آزاد ہیں کہ “ اگر ہم چاہیں تو کریں اور چاہیں تو نہ کریں۔“ بھینس جب کھیت میں سے گزرتی ہے تو وہ آزاد نہیں ہوتی وہ ہر صورت میں چارہ کھانے یا اِدھر اُدھر منہ مارنے پر مجبور ہوتی ہے۔ جانوروں می نسبت ایک آدمی چالیس افراد کو یا پانچ سو افراد کو کھانے کی دعوت پر بلا سکتا ہے، کھانا کھلا سکتا ہے اور خود الگ سے کھڑا ہو سکتا ہے کہ میرا روزہ ہے میں نہیں کھاؤں گا۔ اگر وہ روزے سے نہ بھی ہو تو بھی وہ اگر ضروری خیال کرے تو کھا پی لے اگر چھاہے تو نہ کھائے۔ اس کی Animal Drive جو ہے وہ اس کی Instringtive Drive ہے اور وہ اس پر کنٹرول کرتا ہے اور یہ اس کی روح ہے جو اسے کنٹرول کی طاقت اور بلندی عطا کرتی ہے۔ اس کے لیے اگر آپ مجھ سے بار بار اصرار کریں کہ آپ کو وہ راستہ بتایا جائے جس کی معرفت ایسے آدمی سے آپ ملاقات کر سکیں جو آپ کی روح کی سر بلندی میں آپ کی مدد کرے تو اس حوالے سے میں عرض کروں گا کہ اس کے لیے آپ کو آنکھ کھول کر رکھنی ہو گی اور منہ بند کر کے رکھنا ہو گا۔ ایک مرتبہ سمندر کے اندر ایک چھوٹی مچھلی نے بڑی مچھلی کو روک کر کہا کہ “ آپا مجھے بتاؤ کہ سمندر کہاں ہے میں بڑی پریشان پھرتی ہیں، مجھے سمندر نہیں ملتا، میں نے سمندر کا لفظ سن رکھا ہے۔“
اس پر بڑی مچھلی نے اسے مضاطب کر کے کہا کہ جہاں ہم دونوں کھڑی ہیں یہ ہی سمندر ہے۔ چھوٹی مچھلی بولی واہ آپا آپ نے بھی وہی بات کی جو سارے لوگ کرتے ہیں۔ یہ تو پانی ہے سمندر نہیں ہے اور وہ یہ کہ کر وہاں سے چل پڑی، اسے بڑی مچھلی آوازیں دیتی رہی کہ رُک جاؤ۔ میری پوری بات سن کر جاؤ اور یہ بات سننی تمھارے لیے بہت ضروری ہے کہ اگر تم سمندر کی کھوج میں نکلو گی تو تمھیں سمندر نہیں ملے گا لیکن اگر آنکھیں اور اپنے کان کھول کر مشاہدہ کرو گی تو پھر وہ سمندر ضرور نظر آئے گا جس کی تمھیں تلاش ہے، لیکن بڑی مچھکلی کی بات ختم ہونے سے قبل چھوٹی مچھلی بڑی دور جا چکی تھی اور اس نے میری طرح سے اپنی بڑی آپا کی بات نہیں سنی۔
٣٢ سال کے بعد بلکہ اس سے بھی زیادہ سالوں کے بعد میں ایک بار پھر چند روز قبل سینما دیکھنے گیا۔ کڑی دھوپ تھی لیکن جب میں سینما کے اندر داخل ہوا تو مجھے اندر اندھیرا نظر آیا جیسا کہ باہر سے اچانک اندر جائیں تو آنکھیں چندھیائی ہوئی ہوتی ہیں۔ ہال میں میری سیٹ قریب ہی تھی اور میں بیٹھ گیا۔ اس کے بعد سکرین چلنے سے قبل اور صاحب ڈائس پر آئے جنہوں نے روشنی کے ایک ہالے کے اندر اس فلم کا تعارف کرایا کہ اس فلم کو بنانے کا مقصد کیا تھا اور کس لیے چلایا گیا؟ اور کس لیے ہم نے یہاں بطورِ خاص پڑھے لکھے لوگوں کو دعوت دی ہے۔ ان صاحب کو روشنی کے ہالے میں دیکھ کر مجھے اس بات کا احساس ہوا کہ کوئی شخص کس طرح‘ کسی روشنی کے ہالے میں آ جائے تو وہ خودبخود اجاگر ہونے لگتا ہے، اس کو یہ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ دیکھو اس وقت میں اپنا آپ ظاہر کر رہا ہوں۔ فلم شروع ہوئی اور ہال میں بالکل اندھیرا چھا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ہال کا دروازہ کھلا اور ایک تماشائی اندر داخل ہوا۔ میں نے پلٹ کر دیکھا۔ وہ مجھے نظر تو نہیں آیا کیونکہ دروازہ بند ہو گیا تھا۔ جب دروازہ کھلا تھا تو اندر آنے والے شخص کا وجود مجھے نظر آیا تھا۔ میں سوچنے لگا کہ یہ آدمی تو کسی صورت میں اپنی سیٹ تک نہیں پہنچ سکتا لیکن تھوڑی ہی دیر میں ایک ٹارچ جلی اور اس ٹارچ نے اس شخص کے پاؤں کے اوپر ایک چھوتا سا ہالہ بنایا اور اس ہالے کی مدد سے وہ شخص چلتا گیا، ٹارچ والا اس کے پیچھے پیچھے آتا گیا اور جہاں اس شخص کی سیٹ تھی اس کو بٹھا دیا گیا۔ اس کے بعد میں نے پھر فلم تو کم دیکھی۔ یہی سوچھتا رہا کہ اگر کسی شخص کی زندگی میں ایسا ہالہ آئے اور کوئی گائیڈ کرنے والا اسے میسر ہو تو پھر وہ شخص یقینا اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے لیکن اس کے لیے ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے، سینما کا رخ کرنا پڑتا ہے اور فلم کے لگنے کے اوقات کا علم ہونا چاہیے۔ دروازہ کھلنا چاہیے، پھر ٹارچ والا خودبخود آ کر مدد کرتا ہے اور آپ کو مدد کے لیے کسی کو پکارنے یا آواز دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ آپ جب آوازیں دیتے ہیں، چیخ و پکار کرتے ہیں اور دنیا داری کے معاملات کے اندر رہتے ہوئے آہ و بکا کرتے ہیں تو پھر وہ ٹارچ والا نہیں آتا۔ اس طرح آپ بس پتے اکٹھے کرتے رہتے ہیں اور ٹیلیفون نمبر جمع کرتے رہتے ہیں لیکن وہ بات جو بڑی مچھلی نے چھوٹی مچھلی سے کہی تھی کہ آنکھیں کھول کے رکھو اور مشاہد بن کے رہو تاکہ تم پر سارے بھید آشکار ہوں اور روشن ہوں۔ اس مادی زندگی میں جس میں بار بار آپ کے دوست احباب، عزیز و اقارب مادہ پرستی کی بات کرتے ہیں کہ جی پاکستان میں لوگ بہت مادہ پرست ہو گئے ہیں، لوگوں میں پہلی سی محبت پیار اور یگانگت نہیں رہی۔ مادہ پرستی کا کھیل صرف پاکستان میں ہی نہیں چلا بلکہ ساری کی ساری دنیا اس وقت مادہ پرستی کے چکر میں ہے میں سمجھتا ہوں کی یہ بری بات نہیں ہے، میں ایک ایسے علاقے میں رہا ہوں اور ایسی جگہ جما پلا ہوں جہاں سانپ بہت ہوتے تھے اور کلر کے سانپ بکثرت پائے جاتے تھے۔ ہم بچپن میں جنگل میں جا کر یا ویران اور گرے پرے کھروں میں سانپوں کی کینچلیاں اکٹھی کیا کرتے تھے۔ کیا آپ کو سانپوں کی کینچلیوں کا پتہ ہے؟ سانپ ایک خاص وقت پر سو جاتا ہے اور اس کے جسم کے اوپر ایک پلاسٹک کے شاپر بیگ کی طرح کی باریک کھال یا کینچلی چڑھ آتی ہے اور اس کینچلی پر اس سانپ کے سے نقش و نگار منتقل ہو جاتے ہیں اور سانپ ایک خاص عرصے کے لیے اس کینچلی کے اندر رہ کر Hibernate کرتا ہے، تب وہ نہ سانس لیتا ہے نہ کھانا کھاتا ہے، بالکل مردہ یا سدھ بدھ ہوکے پڑا رہتا ہے۔ میں اس Economic World میں جب بھی اس کو ( کینچلی) کو دیکھتا ہوں تو غور کرتا ہوں کہ ہم سانپ ہیں جو Economics یا پیسے کی دوڑ کے اندر اپنے بدن پر کینچلی چڑھا کر خاموش پڑے ہوئے ہیں۔ ہم بے حس و حرکت ہیں اور ہمارا کوئی بس نہیں چلتا۔ ہمیں Consumer Goods بنانے والی کمپنیاں جس طرح چاہتی ہیں استعمال کرتی ہیں اور کرتی چلی آ رہی ہیں۔ خواتیں و حضرات جس بات سے آپ خوفزدہ ہیں زیادہ دیر تک چل نہیں سکے گی کیونکہ ایک وقت ایسا آتا ہے جب سانپ کو اپنی Growth کے لیے اس کینچلی کے اندر سے نکلنا پڑتا ہے اور وہ کمال سے اور بڑی عجیب و غریب حرکات و سکنات کر کے اپنے بدن کو پرانی ٹوٹی دیواروں سے رگڑ رگڑ اور گھسا گھسا کے کنج ( کینچلی) سے باہر نکلتا ہے اور اپنی وہ کینچلی پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ جب وہ باہر نکلتا ہے تو زندگی میں اور زندگی کے دوسرے جانوروں کے ساتھ شامل ہوتا ہے۔ سانپ جس طرح اپنی نشونما کے لیے ایک خاص وقت پر اس خول میں سے نکلتا ہے اور باہر آ کر زندگی میں شامل ہوتا ہے اور نئے اندازوڈھنگ اور نئے سرے سے سانس لیتا ہے اسی طرح انسانوں کی یہ ساری بستیاں جو مجموعی طور پر اس وقت اپنی Economics کی کینچلی کے اندر لیپٹی پڑی ہیں۔ ان کو اپنی گروتھ کے لیے باہر نکلنا ہی پڑے گا اور یہ نکل کے ہی رہیں گی کیونکہ یہ معاشرہ، یہ دنیا اور خدائی اور جنتا اس کام کے لیے نہیں بنی جس میں اس کو داخل کر دیا گیا ہے یا ایک مخصوص کینچلی چڑھا دی گئی ہے۔ یہ بستیاں اپنی روحانی نشونما کے لیے بنی ہیں اور ان بستیوں کے باسیوں کو اپنی روحانیت کا مظاہرہ کرنا ہے اور اپنے باطن کے سفر میں آگے نکلنا ہے۔ باطن کے اس سفر مین آپ شوروغوغا کر کے کسی کو ٹیلیفون کر کے، کسی کو Message بھیج کر یا کسی کو اپنے کمپیوٹر کے ذریعے ہوشیار کرکے نہ کوئی پیغام دے سکتے ہیں اور نہ لے سکتے ہیں۔ یہ خاموشی کی ایک دنیا ہے اس میں اگر آپ کبھی داخل ہو سکتے ہیں تو پھر ہی آپ اس کا مزہ لے سکتے ہیں۔ مت پوچھیں کہ ہمیں کسی بابے کا پتہ بتائیں، آپ خود بابا ہیں۔ جب آپ کو دیوار سے ڈھو( تیک) لگا کر آرام سے بیٹھنا آ گیا اور دنیا کی سب سے بڑی عبادت یعنی آپ خاموشی میں داخل ہو گئے تو آپ کے اوپر انواروبرکات کی بارش بھی ہونے لگے گی اور انواع و اقسام کا رزق بھی آپ کا مقدر بنتا چلا جائے گا۔
میں جب اٹلی سے لوٹا تو بحری جہاز“موتاناوے وکتوریہ“ کے ذریعے وطن آیا۔ یہ میرا آبی جہاز پر سفر کرنے کا پہلا تجربہ تھا۔ جب نیپال کی بندر گاہ پر جہاز مغرب کے وقت آہستہ آہستہ پیچھے ہٹا اور شہر کی روشنیاں دور ہونے لگیں تو وہ نہایت سست رفتاری کے ساتھ گہرے پانیوں کی طرف چل رہا تھا اور عشاء کے وقت تک شہر ہماری نظروں سے بالکل اوجھل ہو گیا اور ہم آ کر کھانے کی میز پر بیٹھ گئے اور اس کے بعد ہم اپنے اپنے کیبنوں میں آ کر لیٹ گئے۔ صبح اٹھے تو مجھے معلوم نہیں تھا کہ جہاز کس رخ جا رہا ہے، اسے کون چلا رہا ہے اور یہ کیسے چل رہا ہے۔ ہم جب ناشتہ کر ہی رہے تھے تو سپیکر پر ایک آواز گونجی، وہ نہایت میٹھی سی Italian انداز میں انگریزی بولنے کی آواز تھی جو کہ رہی تھی کہ “ میں کپتان بول رہا ہوں۔“ And i want to say some thing to you and give some instructions
ہم سب نے یہ سن کر اپنا کھانا وہیں چھوڑ دیا اور کپتان کی آواز آتی رہی اور وہ ہمیں بتاتا رہا کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور کس طرح سے یہ گیارہ دن کا سفر اس کے ساتھ گزارنا ہے۔ نہ ہمیں کپتان کبھی نظر آیا‘ نہ اس سے تعارف ہوا، نہ ملاقات ہوئی اور نہ ہی اس سے ملنے کے مواقع میسر آئے۔ ایک صرف اس کی آواز ہی تھی جو آتی تھی اور ہمیں زندگی کے نئے مرحلے میں داخل کر جاتی تھی۔ میں نے اس وقت جب بہت طوفانی سمندر سے جہاز گزر رہا تھا تو میں نے سوچا کہ ایک اور بھی کشتی ہے جس کو ہم دنیا کہ سکتے ہیں اور اس کشتی کا ایک نگہبان اور کپتان بھی ہے جس کی آواز ہم تک پہنچتی رہتی ہے جو ہمیں ہدایات دیتا رہتا ہے اور احکام صادر کرتا رہتا ہے، وہ ہمیں دیکھائی نہیں دیتا، ہمیں ملتا نہیں ہے اور نہ ہی ملنے کی امید ہوتی ہے اور ہم اس کے حکم کے مطابق چلتے رہتے ہیں اور جو اس کے احکام ماننے والے ہاتے ہیں انہیں کسی بابے یا کسی Instructions دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ یہ خاموشی اور تنہائی کا سفر ہے جو بھی اس Silence کے سفر کو اختیار کرتا ہے اس کو بند اندھیرے کمرے میں ایک دروازہ ضرور نظر آتا ہے جس میں وہ روحانی طور پر داخل ہو سکتا ہے۔ اس کے پاس اور ہمارے پاس روح کا وہ جلوہ موجود ہے اور وہ Chip جس کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے وہ کسی اور کے Egnite کرنے سے نہیں چلے گا۔ وہ آپ ہی کو کوشش اور جدوجہد سے چلے گا لیکن یہ کوشش اور Struggle اس سے مخطلف ہے جو آپ اکنامک ورلڈ میں کرتے ہیں یا جو آپ Competition میں کرتے ہیں اور جس طرح سے ہمیں حکم ہے جس طرح اسلام نے رخ مقرر کیا ہے کہ آپ نے اس رخ کھڑے ہو کر اور خدا نے تو فرمایا ہے کہ میں ہر جگہ موجود ہوں لیکن ہمیں حکم دیا کہ تم خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے ساری کوشش کرو۔ ہم نے سب سے پہلے رخ کو متعین کرنا ہے۔ اگر آپ روحانیت کی دنیا میں داخل ہونے کے ارزومند ہیں تو سب سے پہلے آپ کو اپنی ذات کو یہ سمجھانا پڑے گا کہ ہم ایک رخ لے کر اس طرف بڑھیں۔ پچھلے دنوں ایک جغرافیے کے رسالے میں میں نے ایک مضمون دیکھا جس میں لکھا تھا کہ بہت دیر پہلے لوگوں نے ایک چھوٹے سے جزیرے پر ایک عبادت گاہ بنائی اور اس میں دنیا کی ہر قسم کی دھات کی گھنٹیاں لگائیں اور وہ گھنٹیاں ہوا کے چلنے سے بجتی تھیں۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ وہ جزیرہ آہستہ آہستہ زیر آب آگیا اور وہ مندر یا عبادت گاہ پانی کی آغوش میں آ کر ختم ہو گئی۔ کچھ پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ ابھی بھی وہاں پانی کے اندر سے گھنٹیوں کی آوازیں آتی ہیں اور جو سننے والے کان رکھتے ہیں انہیں وہ آواز اب بھی صبح شام آتی ہے لیکن ان سننے والوں کا کہنا ہے کہ آپ کو گھنٹیوں کی آواز سننے کے لیے سمندر کی آواز سے ہم آہنگ ہونا پڑے گا۔ اس طرح خدا سے بات کرنے اور اس کو سننے کے لیے مخلوق کے درشن کرنا ہوں گے جو لوگ مخلوق خدا کے متعلق خور کرتے ہیں اور اس کے ہو جاتے ہیں اور مخلوق خدا کی خدمت کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں یا وہ لوگوں سے کیڑے نکالنا بند کر دیتے ہیں ان کو کسی بابے، رہنما یا ہادی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ ڈائرکٹ اس آواز میں پہنچ جاتے ہیں جو سمندر کے نیچے چھپے ہوئے عبادت کدے کو ہر وقت نمودار ہوتا دیکھتے رہتے ہیں۔ خدا آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافط۔
 

فریب

محفلین
22
بندے کا دارو بندہ
ہمارے ہاں آج کل لوگوں کی لوگوں پر توجہ بہت زیادہ ہے اور اس اعتبار سے یہاں اللہ کے فضل سے بہت سارے شفاخانے اور ہسپتال بن رہے ہیں اور جس مخیر آدمی کے ذہن میں لوگوں کی خدمت کا تصور اٹھتا ہے تو وہ ایک ہسپتال کی داغ بیل ضرور ڈالتا ہے اور پھر اس میں اللہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے اور وہ ہسپتال پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے لیکن سارے ہی لوگوں کی کسی نہ کسی جسمانی عارضے میں مبتلا خیال کرنا کچھ ایسی خوش آئیند بات نہیں ہے۔ لوگ جسمانی عوارض کے علاوہ ذہنی، روحانی، نفسیاتی بیماریوں میں بھی مبتلا ہوتے ہیں یا یوں کہیے کہ لوگوں پر کبھی ایسا بوچھ بھی آن پڑتا ہے کہ وہ بلبلاتے ہوئے ساری دنیا کا چکر کاٹتے ہیں اور کوئی بھی ان کی دستگیری کرنے کے لیے نہیں ہوتا۔ہمارے ہاں ایک یونس مالی تھا۔ وہ بیچارہ بہت پریشان تھا اور وہ یہ سمجھتے ہوئے کہ کوئی ہسپتال ہی اس کے دکھوں کا مداوا کرے گا وہ ایک بہت بڑے ہسپتال میں چلا گیا اور وہاں جا کر واویلا کرنے لگا کہ مجھے یہاں داخل کر لو کیونکہ علاقے کے تھانیدار نے مجھ پر بڑی زیادتی کی ہے اور میری بڑی بے عزتی کی ہے جس کے باعث میں بیمار ہو گیا ہوں۔ اب ہسپتال والے اسے کیسے داخل کر لیں۔ انہوں نے اس سے کہا کہ ہمارے ہاں ایسا کوئی بندوبست نہیں ہے کہ ہم آپ کو دکھوں کا مداوا کر سکیں یا آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ سکیں یا آپ کی تشفی کر سکیں۔ اس کے لیے تو کوئی اور جگہ ہونی چاہیے اور ہم اس بات سے بھی معذور ہیں کہ آپ کو کوئی ایسی جگہ بتا سکیں۔ یونس بےچارہ پریشان حال سڑکوں پر مارا مارا پھرتا رہا اور اب تک پھرتا ہے اور اس کی تشفی، دستگیری یا حوصلہ جوئی کرنے والا کوئی بھی سخص یا ادارہ نہیں ہے۔ پرانے زمانے میں بطورِ خاص برصغیر اور وسطی ایشیا کے اسلامی ملکوں میں خانقاہیں ہوتی تھیں، ڈیرے ہوتے تھےاور درگاہیں ہوتی تھیں جہاں سے کھانا بھی ملتا تھا اور رہنے اور وقت گزارنے کے لیے جگہ بھی ملتی تھی اور ایسی جگہوں پر ایسے لوگ بھی ملتے تھے جو دکھ بانتتے تھے اور یونس جیسے دکھی لوگ ان کے پاس اپنے دکھ لے کر جاتے تھے گو وہ ان کے دکھوں کا علاج تو نہیں کر سکتے تھے لیکن جتنے بھی آدمی وہاں جمع ہوتے تھے تو سارے لوگ اکٹھے ہو کر اس دکھی شخص کی دل جوئی کرتے اور اللہ سے اس کے حق میں دعا کرتے کہ اے اللہ اس کا دکھ دور فرما دے اور ایسے ڈیروں، درگاہوں اور خانقاہوں پر موجود سوخاتیں کھونے والے اور لانے والے سب لوگ اس شخص کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے تھے۔ کئی یونسوں کے کندھوں سے بوجھ اتر جاتا تھا لیکن اب ایسی چیزیں منقود ہو گئی ہیں کیونکہ نئی تعلیم اور ترقی کے دور نے یہ بات واضع کی ہے کہ اس قسم کے ڈیرے اور درگاہیں اور اس قسم کے زاویے ( زاویہ پروگرام کی مثال دیتے ہوئے جہاں کئی لوگ اکٹھے ہوتے ہیں) اور دائرے ہمیں نہیں چاہیں کیونکہ انسان صرف جسمانی طور پر ہی مریض ہوتا ہے اور اس کی کیمسٹری میں ہی کوئی فرق پڑتا ہے۔ خواتین و حضرات لوگ ایک دوسرے کا سہارا مانگتے ہیں۔ ایک دوسرے کے قریب آنا چاہتے ہیں لیکن ترقی کے اس دور میں ایک دوسرے کے قریب آنے کی ساری راہیں مسدود و مفقود ہو گئی ہیں لیکن پھر بھی انسان اپنے ساتھ والوں کو، اپنے پرکھوں اور آباؤاجداد کو ساتھ ساتھ اٹھائے پھرتا ہے۔ اگر کسی روشن دان میں آپ اپنا ہاتھ کھول کر دیکھیں تو آپ کے ہاتھ کی ان لکیروں میں ان چوکھٹوں، چوکھڑیوں اور مساموں کے اندر بہت سے ایسے لوگ نظر آئیں گے جن کے جینز موجود ہوں گے اور یہ وہ لوگ ہوں گے جو آپ کے آباؤاجداد یا آپ کے پُرکھ تھے۔ہر وقت ساتھ ساتھ رہتے ہیں اور آپ کا ہنسنا‘ بولنا‘ غصہ اور آپ کی شوخی و ضد آپ کے اندر ان ہی لوگوں کی طرف سے منتقل ہوتی ہے۔ اگر کسی نہ کسی طرح سے آپ ان کے قریب رہیں یا وہ آپ کے قریب رہیں یا آپ کے اردگرد کے موجود لوگ آپ کو ہاتھ لگا کر محسوس کرتے ہیں یا آپ ان کو Touch کرکے ایک دوسرے کے ہونے کا ثبوت بہم پہنچاتے رہیں تو پھر ایسے ذہنی اور نفسیاتی عارضے لاحق نہیں ہوں گے۔ انسان انسان کی قربت چاہتا ہے اس سے علاج نہیں کروانا چاہتا ہے اور مختلف کمروں میں منتقل ہو کر یہ تقاضا نہیں کرتا کہ میرا کمرہ نمبر ١٤٤ یا ٢١٣ ہے آپ مجھے وہاں ملنے آ جاؤ۔ لیکن آج کی ترقی ہمیں کمروں میں بند کرکے علاج کروانے کی ترغیب دیتی ہے کہ وقت پر ڈاکٹر آتا ہے اور وقت پر نرس چیک کرتی ہے پھر مشینوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے کہ آپ سی ٹی سکین کے عمل سے گزریں اور دیگر مشینوں سے علاج کروائیں لیکن اس طرح سے علاج ہو نہیں پاتا کیونکہ انسان بکھرا ہوا ہے۔ مجھے اپنے بچپن کے قصبے کا واقعہ یاد ہے۔ قصبوں میں عجب و غریب قسم کی باتیں ہوا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ منہ کھر کی بیماری لاحق ہو گئی( اب بھی یہ بیماری آئی ہوئی ہے جس میں بے شمار جانور مر جاتے ہیں) تو ہمارے قصبے میں کچھ لوگ آئے جنہیں بھوکے قسم کے لوگ کہا جاتا تھا انہوں نے کھدر کے کئی تھان منگوائے اور شام کو گڈقں ( چھکڑوں) پر ان تھانوں کو پھیلا کر ( ہم چھوٹے بچے انہیں دیکھتے تھے کہ یہ کیا کر رہے ہیں) برے بڑے ہاتھیوں کی شکل بنا ( آپ ہاتھیوں سے تو واقف ہوں گے یہ بڑا مویشی ہوتا ہے اور اس سے بڑا کام لیا جاتا ہے سری لنکا میں لوگ اس سے ہل بھج چلاتے ہیں) کر ان گڈوں کو دریا کنارے لے گئے اور وہ لوگ ان پر اپنے کچھ مخصوص سے منتر پڑھتے تھے اور دعا کرتے تھے کہ یا اللہ اس قصبے سے یہ بیماری چلی جائے۔ میں اب ٹھیک سے یہ نہیں کہ سکتا کہ ایسی چیزوں سے علاج ہوتا تھا یا نہیں لیکن لوگوں کا یہ اجتماع انہیں ایسی طاقت عطا کرتا تھا کہ وہ بیماری پر بری شدت اور زور کا حملہ کرتے تھے اسی لیے ہمارے بزرگانِ دین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مخلوقِ خدا کا ساتھ دو اور مخلوقِ خدا کی خدمت کرو اس میں آپ کا بھی فائدہ ہے کیونکہ مخلوقِ خدا کی Magnetic Force الٹ کر آپ کے اندر کی جو خرابیاں ہیں وہ بھی تھیک کر دے گی اور ان کا بھی علاج کر دے گی۔ میں تقسیم برصغیر کے اترپردیش کے جس قصبے کا ذکر کر رہا تھا وہاں مویشیوں کا اس طرح سے علاج کیا جاتا تھا وہاں ایک مرتبہ بارش نہ ہوئی۔ وہاں اکثر ایسا ہو جاتا تھا اور اب اس طرح ہمارے ہاں بھی مسئلہ ہے۔ میرے قصبے والے سخت خشک سالی کے خاتمے کی دعا کروانے کے لیے ایک صاحب دعا کو لے آئے اور اس سے درخواست کی کہ آپ ہمارے قصبے میں دعا کریں کہ ابرِ رحمت برسے کیونکہ بڑی تنگی ہے۔ اس صاحبِ دعا نے کہا کہ میں قصبے کے کنارے ایک جھونپڑی میں رہوں گا اور کوئی آدمی مجھے Disturb نہ کرے اور پھر میں دعا کروں گا آپ لوگوں کو سات دن تک انتطار کرنا ہو گا چناچہ ان کے لیے ایک جھونپڑی کا انتظام کر دیا گیا۔ ساتویں دن سے پہلے ہی یعنی پانچویں دن ہی اللہ کا فضل ہو گیا اور بارش ہونے لگی اور ہر طرف جل تھل ہو گیا۔ لوگ بڑی مٹھائی، سوغاتیں اور پھولوں کے ہار لے کر اس صاحبِ دعا کی جھونپڑی میں آئے تو انہون نے ہنس کر کہا بھئی میں نے تو کائی خاص دعا نہیں کی۔ میں نے تو کچھ خاص نہیں کیا‘ جب آپ لوگ مجھے قصبے میں لائے تھے تو میں نے دیکھا کہ آپ سارے لوگ بکھرے ہوئے اور Dis Order کی کیفیت میں پھر رہے ہیں‘ بے ہنگم سے ہیں اور کسی کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب ایک آدمی دوسرے کے پاس سے گزرتا ہے تو دوسرے کو مخاطب کرکے نہ سلام کہتا ہے نہ دعا دیتا ہے بس گزر جاتا ہے۔ میں دیکھ کر بڑا حیران ہوا کہ ان کے اندر Unity کا جو کرنٹ ہے وہ نہیں چل رہا۔ ہر آدمی الگ الگ زندگی بسر کر رہا ہے اور مجھے جانوروں کے دیکھ کر آپ کے رویے سے تکلیف ہوئی کہ یہاں تو چیونٹیاں بہت اچھی ہیں جو جب قطار میں چل رہی ہوتی ہیں تو رک کر دوسری چیونٹی سے اس کا حال ضرور پوچھتی ہیں۔ ( اگر آپ نے بھی کبھی غور سے دیکھا ہو تو آپ نے بھی یہ مشاہدہ کیا ہو گا) اور میں یہ دیکھ کر ایک الگ جھونپڑی میں چلا آیا اور میں نے اپنے آپ کو ہی مجتمع کیا کیونکہ آپ لوگوں کے ساتھ رہنے سے میری ذات بھی بٹ گئی تھی اور الگ الگ حصوں بخروں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ میں اس لیے الگ تھلگ بیٹھا رھا اور پھر میں نے اللہ کے فضل سے محسوس کیا کہ آپ لوگوں کے اندر بھی تعاون اور یکجہتی اور یگانگت پیدا ہونے لگی ہے۔ کیونکہ میری خدا سے یہی دعا تھی۔ جب آپ لوگوں میں یگانگت پیدا ہونے لگی تو آپ کے اردگرد کے موسم اور ان بخارات میں بھی یکجہتی پیدا ہونے لگی اور مل کر بادل بنتے ہیں چناچہ بادل بنے اور برکھا ہوئی۔ میں نے تو کائی کمال نہیں کیا اور نہ ہی مین نے بارش کے لیے دعا مانگی ہے بلکہ میں تو اس جھونپڑی میں بیٹھ کر اس بات پر زور دیتا رہا کہ آپ میں اتحاد ہو اور آپ کی سوچ میں اتحاد ہو۔ میں نے اس دوران آپ کو پہچانا ہے اور محسوس کیا ہے کہ آپ کیا خطا ہے۔ ہمارے بابا جی تھے وہ رات کو کبھی ڈھیڑھ کبھی دو بجے تہجد کے بعد ہمیں درس دیا کرتے تھے۔ وہ وقت بڑا خاموش لمحہ ہوا ہے اور وہاں چند ایک آدمی ہوتے تھے۔ درس کے بعد پھر فجر کی نماز آ جاتی تھی اور سلام پھیرنے کے بعد روشنی آنے لگتی تھی۔ ایک روز فجر کی نماز سے قبل بابا جی نے پوچھا کہ بتاؤ“ اندھیرا روشنی میں کب تبدیل ہوتا ہے اور اجالا کب ہوتا ہے۔“
وہاں ہمارے دوست ڈاکٹر صاحب تھے وہ ہم سے بڑے تھے اور بڑےہین آدمی تھے۔ انہوں نے کہا کہ سرکار جب آدمی کو دور سے یہ نظر آنے لگے کہ یہ کونسا جانور ہے تو تب اجالا ہو رہا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہ جب کتے اور بکری کی پہچان واضع طور پر ہونے لگے تو روشنی ہو رہی ہوتی ہے۔ وہاں آفتاب صاحب جنہیں ہم سیکرٹری صاحب کہتے تھے انہوں نے کہا جب درخت اچھی طرح سے نظر آنے لگیں اور آدمی کی نگاہیں یہ بھانپ جائیں کہ یہ نیم یا شہتوت کا ہے تو روشنی قریب تر آجاتی ہے۔
بابا جی نے کہا نہیں یہ بات نہیں ہے۔ روشنی تب ہوتی ہے جب آپ ایک شخص کو دیکھ کر یقین کے ساتھ یہ کہنے لگیں کہ یہ میری ہمشیرہ ہے۔ یہ میرا بھائی ہے۔ جب انسانوں کے چہرے آپ پہچاننے لگیں اور آپ کو ان کی پوری شناخت ہو جائے تو اس کے بعد اجالا ہوتا ہے۔ جانوروں یا نباتات جو جاننے سے اجالا نہیں ہوتا ان کا مطلب تھا کہ “ آدمی آدمی کا دارو ہے۔“
آدمی جب آدمی کے قریب آئے گا تو پھر ہی کچھ حاصل ہو گا جب یہ دور جائے گا تو پھر کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ آج کل آپ افغانستان کی جنگ کے حوالے سے ڈیزی کٹر بم کی بڑی بات کرتے ہیں کہ اس نے ایسا کام کیا کہ پتھروں کو ریت میں تبدیل کر دیا اور ہزاروں انسانوں کو چشم زدن میں تہ و تیغ کر دیا۔ ڈیزی کٹر کا ذکر کرتے ہوئے کئی لوگوں کے چہروں پر عجیب طرح کی فتح مندی کے آثار دیکھتا ہوں۔ یہ چشم زدن میں انسانی و نباتاتی تباہی کرنے والے آلات یا بم ترقی یا روشن مستقبل کی دلیل ہرگز ہرگز نہیں ہے کیونکہ جب تک انسان انسان کے قریب نہیں آئے گا اور اس کے چکھوں کا “ دارو“ نہیں کرے گا بات نہیں بنے گی۔
ایک بڑے اچھے جلد ساز تھے اور ہم سب علم دوست ان سے مخصوص کاغذوں کی جلدیں کروایا کرتے تھے۔ یہ ہماری جوانی کے دنوں کی بات ہے اور اس جلد ساز کا نام نواز محمد تھا۔ جب ہم ایم - اے میں پڑھتے تھے تو ہمارا ایک دوست نشے کا عادی ہو گیا۔ ہم چونکہ سمجھدار، پڑھے لکھےاور سیانے دوست تھے ہم اسے مجبور کرنے لگے کہ تمہیں یہ بری عادت چھوڑ دینی چاہیے ورنہ ہم تمھارا ساتھ نہیں دے سکیں گے اور ہم تمھارے ساتھ نہیں چل سکیں گے۔ وہ بیچارہ ایک تو نشے کی لعنت مین گرفتار تھا دوسرا وہ روز ہماری جھڑکیاں سہتا تھا جس کے باعث وہ ہم سے کنارہ کشی کرنے لگا۔ محمد نواز جلد ساز بڑے خوبصورت دل کا آدمی تھا۔ ہر وقت مسکراتا رہتا تھا۔ گو وہ اقتصادی طور پر ہمارے دائرے کے اندر نہیں تھا لیکن وہ خوشگوار طبیعت کا مالک تھا۔ اس نے ایک دن اس آدمی(ہمارے دوست) کا ہاتھ تھام کر کہا کہ بھلے تم نشہ کرو اور جتنا مرضی کرو مجھے اس پر اعتراض نہیں ہے اور تو چاہے نشہ کرے یا نہ کرے میں تمھیہں چھوڑوں گا نہیں، تو ہمارا یار ہے اور یار رہے گا۔ اس نے پنجابی کا ایک محاورا ہے کہ یار کی یاری دیکھنی چاہیے یار کے عیبوں کی طرف نہیں جانا چاہیے۔ خواتین و حضرات آپ یقین کیجیے کہ بغیر کسی طبعی علاج اور ماہر نفسیات کی مدد کے جب ہمارے نشئی دوست کو محمد نواز جلد ساز کا سہارا ملا تو وہ نشے کی بری اور گندی عادت سے باہر نکل آیا اور صحت مند ہونا شروع ہوگیا۔ انسان کو انسان ہی سہارا دے سکتا ہے۔ اب ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ کیا انفرادی طور پر ہی کسی کا ساتھ دیا جا سکتا ہے یا پھر انسان مدد کے لیے ادارے ہی بناتا رہے۔ پرانے زمانے میں اس بات کی بڑی تلقین کی جاتی تھی کہ “مخلوقِ خدا کا ساتھ دیں “ کیونکہ جب تک اس کا ساتھ نہیں دیں گے ان کی طرف سے آنے والی طاقت آپ تک نہیں پہنچ پائے گی۔ مجھے وہ بات یاد آ رہی جو میں نے شاید ٹی وی پر ہی سنی ہے کہ ایک اخبار کے مالک نے اپنے اخبار کی اس کاپی کے ٹکرے ٹکرے کر دئیے جس میں دنیا کو رنگین نقشہ تھا اور اس نقشے کو ٣٢ ٹکروں میں تقسیم کردیا اور اپنے پانچ چھ سال کے کمسن بیٹے کو آواز دے کر بلایا ور اس سے کہا کہ لو بھئی یہ دنیا کا نقشہ ہے جو ٹکروں میں ہے تم اسے جوڑ کر دکھاؤ۔ اب وہ بےچارہ تمام ٹکڑے لے کر پریشان ہو کے بیٹھ گیا کیونکہ اب سارے ملکوں کے بارے میں کہ کون کہاں پر ہے کوئی میرے جیسا بڑی عمر کا آدمی بھی نہیں جانتا ہے۔ وہ کافی دیر تک پریشان بیٹھا رہا لیکن کچھ دیر کے بعد اس نے تمام کا تمام نقشہ درست انداز میں جوڑ کر اپنے باپکو دے دیا۔ اس کا باپ برا حیران ہوا اور کہا کہ بیٹے مجھے اس کا راز بتا کیونکہ اگر مجھے یہ نقشہ جوڑنا پڑتا تو میں اسے نہیں جوڑ سکتا تھا۔
اس پر اس لرکے نے کہا بابا جان میں نے دنیا کا نقشہ نہیں جوڑا بلکہ نقشے کی دوسری طرف سیفٹی بلیڈ کا اشتہار تھا اور اس میں ایک شخص کا برا سا چہرہ تھا جو شیو کرتا دیکھایا گیاتھا۔ میں نے سارے ٹکڑوں کو الٹا کیا اور اس آدمی کو جوڑنا شروع کر دیا اور چار منٹ کی مدت میں میں نے پورا آدمی جوڑ دیا۔ اس لڑکے نے کہا کہ بابا اگر آدمی جڑ جائے توساری دنیا جر جائے گی۔ خواتین و حضرات میں یہی درخواست اپنی ذات سے بھی کرتاہوں کہ کاش جانے سے پہلے ایک ایسی صورت پیدا ہو کہ اردگرد بسنے والے لوگ اور انسان اور اپنے عزیز و اقارب اور ان کے علاوہ لوگوں میں محبت الفت اور یگانگت پیدا ہو جائے اور اچھے لگنے لگیں اور اتنے اچھے لگنے لگیں کہ جتنی اپنی ذات اچھی لگتی ہے‘ لیکن ایسے ہوتا نہیں ہے۔ ہم تو رفاعی ادارے بنانے پر لگے ہوئے ہیں۔ ماشاءاللہ یہ کام قابل داد ہے۔ضرور بنائیں لیکن انفرادی طور پر انسانوں کا خیال رکھیں۔ لوگ عام طور پر سستم کی بات کرتے ہیں۔ انسان کی بات نہیں کرتے۔ گورنمنٹ کالج( جس کا نام اب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ہے) کے پیچھے ایک محلہ ہے جہاں سے سٹشنری کی چیزیں ملتی ہیں۔ میں وہاں سے کبھی کاپیاں، کاغذ، لفافے وغیرہ خریدنے چلا جاتا ہوں۔ کچھ عرصہ قبل میں وہاں گیا تو ایک دکان پر اسّی پچاسی سال کو بوڑھا آدمی بیٹھا ہوا تھا اور اس کے ساتھ اسی عمر کی اس کی بیوی بیٹھی تھی۔ آخر بوڑھا آدمی سخت مزاج تو ہو ہی جاتا ہے اس طرح وہ بوڑھا شخص اپنی بیوی کی جان عزاب میں ڈال رہا تھا اور اپنی بیوی سے کہ رہا تھا“ مرجا مرجا‘ آخر تو نے مر تو جانا ہی ہے اور مجھے اس بات کا پتہ ہے لیکن تیرے مرنے کی مجھے کوئی پروا نہیں ہے تو مر جا دفع ہو جا۔“
وہ کہنے لگی “ میں نئیں مردی جدوں اللہ دا حکم ہوئے گا اودوں مراں گی۔“ میں نے اس سے کہا بابا کیا بات ہے اس سے کیوں لڑتا ہے۔ کہنے لگا میں اس کے لیے دوائیاں لاتا ہوں لیکن یہ کھاتی نہیں ہے اور جب یہ انہیں کھائے گی نہیں زندہ نہیں رہے گی اور جب یہ زندہ نہیں بچے گی تو میں بھی زندہ نہیں بچوں گا اور اس کا دوائی کھانا میری خودغرضی کا معاملہ ہے۔ یہ تو ایک تعلق کی بات ہوتی ہے اور بابا اسی بات پر ناراض ہو رہا تھا۔ اس کا اس بڑھیا سے گہرا تعلق تھا اور وہ اس تعلق کا خاتمہ نہیں چاہتا تھا۔ کوئی لڑائی جھگڑا ہو‘ محبت ہو یا کوئی گیت گا رہا ہو تو یہ باتیں انسان اور انسان کے درمیان ہوتی ہیں اور یہ انسان کو ایک دوسرے کے قریب لا رہی ہوتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب تک انسان انسان کے قریب نہیں آئے گا تب تک وہ سب کچھ ہونے کے باوصف کچھ نہیں ہو سکے گا جس کی ہمیں آرزو ہے اور جس خواہش اور آرزو کے لیے ہم اپنا دامن پھیلائے رکھتے ہیں اور اس آس میں زندہ رہتے ہیں کہ وہ جنت ارضی کہاں ہے جس کی ہمیں تلاش ہے۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین۔ اللہ حافظ۔
 

فریب

محفلین
21
پانی کی لڑائی اور سندیلے کی طوائفیں
ہم اہل “زاویہ“ کی طرف سے آپ سب کی خدمت میں سلام پہنچے۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے جب ہم میز کے گرد جمع ہو رہے تھے تو ہم دریاؤں، پانیوں اور بادلوں کی بات کر رہے تھے اور ہمارے وجود کا سارا اندرونی حصہ جو تھا وہ پانی میں بھیگا ہوا تھا اور ہم اپنے اپنے طور پر دریاؤں کے منبعے ذہنی طور پر تلاش کر رہے تھے کیونکہ زیادہ باہر نکلنا تو ہمیں نصیب نہیں ہوتا۔ جغرافیے کی کتابوں یا رسالوں ، جریدوں کے ذریعے ہم باہر کی دنیا کے بارے معلوم کرنا چاہتے ہین اور معلوم کر بھی لیتے ہیں۔ دریاؤں کی باتیں جب ہو رہی تھیں تو میں سوچ رہا تھا کہ دریا بھی عجیب و غریب چیز ہیں اور ان کو کیسے پرہ چل جاتا ہے، نہ ان کا کوئی نروس سسٹم ہے نہ دماغ ہے پھر کس طرح سے دریا کو پتہ چل جاتا ہے کہ سمندر کس طرف ہے اور اسے ایک دن جا کے ملنا ہے، بغیر کسی نقشے کے۔ دریا بغیر کسی سے پوچھے رواں دواں ہے اور کہیں اگر اس کے دو حصے ہو جاتے ہیں تو دونوں چکر کاٹ کے مل کے پھر سمندر ہی کی طرف محوِسفر رہتے ہیں اور اگر بدقسمتی سے دریا کی کوئی شاخ کسی ایسے مقام پر رک جاتی ہے جہاں بہت ہی سنگلاخ چٹان ہو اور وہ شاخ اس سے سر ٹکراتی ہے اور وہاں سر پھوڑتی ہے کہ مجھے مت روکو، مجھے جانے دو اور سنگلاخ چٹان اسے کہتی ہے کہ میں تو سوا کڑوڑ سال سے یہاں کھڑی ہوں، میں کیسے ایک طرف کو ہٹ جاؤں۔ وہ بھی ( دریا کی شاخ) ضدی ہوتی ہے اور کہتی ہے اگر تو مجھے نہیں گزرنے دے گی تو میں بھی یہاں کھڑی ہوں، چناچہ دریا کے اس پانی کے ساتھ جو اس سنگلاخ چٹان کے ساتھ ٹکرا کر رک جاتا ہے کیڑے پٹ جاتے ہیں، وہاں بھینسیں آجاتی ہیں، گوبر جمع ہونے لگتا ہے، بدبودار اور متعفن پانی گزرتا ہےاور اس کا وہ حصہ جو سفر پر رواں دواں تھا اور ایسی سنگلاخ چٹان آنے پر راستہ چھوڑ کے دوسری طرف سے گزر جاتا ہے وہ دریا اپنی منزل تک پہنچ جاتا ہے، بالکل اسی طرح سے انسانی زندگی ہے جہاں انسان ضد میں آکر رکتا ہے، لڑائی جھگڑا کرتا ہے تو پھر اس کے آگے بڑھنے اور منزل تک پہنچنے کے جو بھی مقامات ہیں مسدود ہو جاتے ہیں۔ آج سے بہت عرصہ پہلے، میرے خیال میں سو ڈیڑھ سو برس قبل کی بات ہے، لکھنؤ (بھارتی شہر) کے قریب ایک قصبہ “سندیلہ“ ہے وہاں کے لڈو اور شاعر مشہور ہیں۔ وہ شاعر بڑے اعلا پائے کے ہیں۔ لکھنؤ میں بھی بڑے شاعر تھے لیکن سندیلے کے شاعر اصلاح دیتے تھے اور اس کی اجرت وصول کرتے تھے۔ ایک دفعہ یہ ہوا کہ سندیلے میں بہر زبردست Drought یعنی خشک سالی ہو گئی اور وہاں کے نواب اور چھوٹی چھوٹی راج دھانیاں تمام کی تمام سوکھے ( خشک سالی) کا شکار ہو گئیں۔ اس قدر صورتھال خراب ہوئی کہ زمیں کا کلیجہ خشکی سے پھٹنے لگا۔ جگہ جگہ پر پھٹی ہوئی زمین کے آثار نظر آنے لگے۔ ڈھور ڈنگر ( مویشی) مرنے لگے اور ان کے بڑے بڑے پنجر اور سینگ جگہ جگہ پڑے نظر آتے۔ پریندوں نے وہ علاقہ چھوڑ دیا۔ ایک دفعہ گئے تو پھر لوٹ کر نہیں آئے، لوگوں نے آ کر “ مکھیا“ سردار کے پاس شکایت کی۔ وہ مکھیا لڑکھڑاتا نواب کے پاس گیا کہ حضور لوگ گاؤں چھوڑ کر جانا چاہ رہے ہیں لہٰذا نمازِاستسقاء پڑھی جانی چاہیے کیونکہ اس طرح تو گاؤں ہی خالی ہو جائے گا۔ چناچہ نمازِ استسقاء ادا کی گئی لیکن اس کا کوئی اثر نہ ہوا جس سے لوگوں کی مایوسی میں مزید اضافہ ہو گیا۔ ہندوؤں نے کہا کہ ہم اپنا“ ناکوس“ بجا کر اور بھجن گا کر بھگوان لو راضی کرتے ہیں شاید وہ بارش بھیج دے۔ انہوں نے اپنا پورا زور لگایا لیکن کچھ نہ ہوا۔ جب ڈھور ڈنگروں کے ساتھ انسان بھی مرنے لگے تو اس علاقے کی طوائفیں ( وہ سارے اترپردیش میں مشہور تھیں) اپنا چھوٹا سا گروہ لے کر نواب صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور انہوں نے کہا کہ جنتا ( عوام) پر بہت کڑا اور برا وقت آیا ہے اور اس برے وقت میں ہم سب ماؤف ہو گئے ہیں۔ ہمارے ذہن میں ایک بات آتی ہے اگر ہمیں اس کی اجازت دی جائے تو ہم شاید اس علاقے اور آپ لوگوں کی مدد کر سکیں۔ نواب صاحب نے کہا کہ اس سے اچھی اور کیا بات ہو سکتی ہے۔ طوائفوں نے کہا کہ ہم بھی ایک مخصوص مقام پر پہنچ کر کھلے میدان میں جا کر بیٹھیں گی اور ہم بھی کچھ گریہ وذاری کریں گی لیکن شرط یہ ہے کہ کوئی آدمی اس طرف نہ آنے پائے۔ ان کی وہ شرط منظور کر لی گئی۔ وہ اپنے قیمتی گھروں اور سونے چاندی کے زیورات اور جو کچھ بھی ان کے پاس تھا اپنے بالا خانوں پر چھوڑ کر سیڑھیاں اتریں۔ انہوں نے سفید رنگ کی نیلی کنی والی دھوتیاں باندھی ہوئی تھیں۔ جیسے کلکتے والی خواتیں پہنتی ہیں۔ خاص طور پر جیسے مدر ٹریسا پہنتی تھیں۔( ایک چرواہے نے آنکھوں دیکھا حال بتایا تھا حالانکہ کسی مرد کو وہاں جانے کی اجازت نہ تھی) وہ جب اس مخصوص جگہ پر آئیں تو انہوں نے گڑگڑا کر اللہ سے درخواست کی اے خدا تو جانتا ہے ہمارے افعال کیسے ہیں اور کردار کیسا ہے اور ہم کس نوعیت کی عورتیں ہیں۔ تو نے ہمیں بڑا برداشت کیا ہے۔ ہم تری بڑی شکر گزار ہیں لیکن یہ ساری مصیبت جو انسانیت پر بڑی ہے یہ ہماری یہ وجہ سے ہے۔ اس علاقے میں جو خشک سالی آئی ہے وہ ہماری موجودگی سے آئی ہے اور اس سارئ خشک سالی کا “ کارن“ ہم ہیں۔ ہم تیرے آگے سجدہ ریز ہو کر دل سے دعا کرتی ہیں کہ بارش برسا اور ان لوگوں اور جانوروں کو پانی عطا کر تاکہ اس بستی پر رحم ہو اور وہ ہجرت کر کے جانے والے پرندوں کو واپس آنے کا پھر سے موقع ملے اور وہ یہاں خوشی کے نغمے گائیں۔ چرواہا کہتا ہے کہ جب انہوں نے سجدے سے سر اٹھایا تو اتنی گِھر کے سیاہ گھٹا آئی اور وہ جشمِ زدن میں بارش میں تبدیل ہو گئی اور ایسی زبردست موسلادھار بارش ہوئی کہ سب جل تھل ہو گیا اور وہ عورتیں اس بارش میں بھیگیں اور ان کی بغلوں میں چھوٹی چھوٹی پوٹلیاں تھیں جنہیں لے کر وہ ایک طرف کو نکل گئیں۔ پھر کسی نے نہ ان کا پوچھا اور نہ ہی ان کا کوئی پتہ چلا کہ کہاں سے آئیں تھیں اور کہاں چلی گئیں۔ انہیں زمیں چاٹ گئی یا آسمان کھا گیا لیکن ساری بستی پھر سے ہری بھری ہو گئی۔ ان طوائفوں کے گھروں کے دروازے کھلے تھے، لوگوں نے ایک دو ماہ تو جبر کیا لیکن پھر آہستہ آہستہ ان کا قیمتی سامان چرانا شروع کر دیا اور تاریخ دان کہتے ہیں کہ ان کے گھروں سے بڑی دیت تک ایسی قیمتی چیزیں برامد ہوتی رہیں اور انڑی چور اور پکے چور کئی سال تک وہاں سے چیزیں لاتے رہے۔ ان کی یہ Sacrifice ان کی یہ قربانی اور لوگوں کے ساتھ محبت اور تال میل اور گہری وابستگی کو جب میں آج کے تناظر میں دیکھتا ہوں اور آج میں اپنا اخبار پڑھتا ہوں تو مجھے بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ ہم جو پڑھے لکھے لوگ ہیں جو ان (طوائفوں) سے بہت آگے نکل کر پانی پر جھگڑا کرتے ہیں کہ اس صوبے نے میرے اتنے قطرے پانی کے چھین لیے۔ دوسرو کہتا ہے کہ میں نے تجھے اتنے قطرے زیادہ دے دیے۔ ان بیبیوں جیسی بلکہ بازاری بیبیوں جیسی کام کی بات نہیں کرتا اور ایسی کوئی بات کسی کے دل میں نہیں آتی اور کوئی بھی اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ یہ پانی جو اللہ کی عطا ہے اور جو ہم کو جس قدر بھی مل رہا ہے اس کو بانٹ کے کس طرح استعمال کرنا ہے۔ جب بھی ایسی خبریں دیکھتا ہوں تو میرے ذہن میں اور دل میں ان طوائفوں سے منسوب اس کہانی کا پس منظر آجاتا ہے، تو میں اپنے ارد گرد کے لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا ہم جو بہت اچھے بھلے اور پاکیزہ لوگ ہیں ان طوائفوں کی قربانی کے جذبے کے نقشِ قدم پر چل سکتے ہیں۔ تو مجھے ہر طرف سے جہروں پر نفی کے آثار ملتے ہیں کہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔! ہم ایسا نہیں کر سکتے۔ میں حیران ہوتا ہوں کہ ہم کیسے اس Source کو ڈھونڈ سکیں اور پانی کے اس منبعے تک پہنچ سکیں جو ہماری روحوں کی آبیاری کرے لیکن یہ ہو نہیں پاتا۔اس کی طرف ہم جا نہیں سکتے۔
بہت ممکن ہےکہ میرے پیارے مہمانوں (حاضرین زاویہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) میں سے کوئی مجھے تھوڑی سی Guidence اس حوالے سے عطا کرے کہ کس طرح سے ہم اس منزل تک پہنچ سکیں جس منزل تک وہ پاکیزہ بیبیاں ایک ہی فیصلے پر پہنچ گئیں۔
(پروگرام میں سوال و جواب کا سیشن شروع ہوتا ہے)
اشفاق صاحب سوال کرتے ہیں۔ شہزاد صاحب وہ بیبیاں ایک ہی فیصلے پر پہنچ گئیں۔ اس حوالے سے آپ کا کیا خیال ہے؟
شہزاد صاحب:- آپ نے یہ جو سوال اٹھایا ہے یہ آپ کے لیے بھی بہت مشکل سوال ہے اور ہم سب کے لیے بھی مشکل ہے۔ اصل میں جو کہانی آپ نے بیان کی اس کے جو معانی میرے ذہن میں آتے ہیں وہ یہ ہیں کہ ہم سب اپنے اپنے گناہوں اور اعمال کی ذمہ داری قبول کریں اور پھر اس ذمہ داری کو قبول کرنے کے بعد نہ صرف یہ کہ اپنی ہی اصلاح کریں بلکہ کسی بہت بڑی قربانی کے لیے تیار ہو جائیں اور یہ گلا نہ کریں کہ کس کو کتنا پانی ملا اور کس کو کتنا پانی نہیں ملا۔ اس سے ایک ایسی بارش ہو سکتی ہے جو ہم سب کو سیراب کردے۔
اشفاق احمد صاحب:- ہماری اس محفل میں ڈاکٹر توفیق صاحب بھی موجود ہیں۔ ان کے پاس بھی بڑے مریض آتے ہیں اور یہ بڑے نیکی کے کام کرتے ہیں۔ ان سے بھی پوچھا جائے کہ ہم میں کس طرح سے وہ جذبہ پیدا ہو جو آپ میں ہے کیونکہ میں نے آپ کو لگن اور محنت سے کام کرتے دیکھا ہے جبکہ اس کے برعکس ہم رکتے اور گھٹتے ہیں۔ ہم بھی پھیلنا چاہتے ہیں۔
ڈاکٹر توفیق:- میرا خیال ہے کہ ہمیں چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھنے کی بھی کوشش کریں اور ایک دوسرے سے جو توقعات ہم رکھ رہے ہیں ان توقعات کا دائرہ بھی جانچیں اور ایک دوسرے کو چیزیں دینے کی ہمت بھی رکھیں۔ صرف لینے پر ہی مصر نی رہیں۔ جب یہ سارے جذبے ہم میں آ جائیں گے تو ہم مل بیٹھ کر پانی کے قطروں کو جو بھی ہمارے پاس ہیں ان کو خوش اسلوبی سے بانٹ لیں۔
اشفاق احمد:- پروین اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
پروین صاحبہ:- میں سمجھتی ہوں کہ میرا جو زاویہ نظر ہے وہ یہ ہے کہ جیسے توفیق صاحب نے فرمایا کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھیں گے تو ہم قطرے بانٹیں گے مجھے یہ نہیں لگتا کہ میں اور آپ اس میں قصور وار ہیں یا کہ ہم لوگ اپنی سطح پر غلطی پر ہیں۔ ہمیں ان عناصر کے مذموم مفادات کو پن پوائنٹ کرنا ہو گا جو اپنے ذاتی اغراض و مقاصد اور فوائد کے لیے اس طرح کی بانٹ یا اس طرح کی بندر بانٹ ہم کو سکھاتے ہیں۔ اگر ہم میں حب الوطنی کا جذبہ بیدار ہو جائے اور ہم سمجھیں کہ اتفاق اور محبت سے ہی مسائل حل کر سکتے ہیں۔ وہ بیبیاں جن کی مثال دی گئی ہے وہ متحد ہو کر جنگل میں گئی تھیں اور ان کے دل میں درد تھا اور انہوں نے اپنا ذاتی فائدہ چھوڑ دیا تھا تب وہ مسلہ حل ہوا تھا۔ ہمارے اوپر جو بھی مسائل آ رہے ہیں وہ پانی کے ہوں یا اناج کے اس میں Vasted Interest کا بہت زیادہ ہاتھ ہے۔
اشفاق احمد:- چونکہ پانی کی باتیں ہو رہی ہیں اور ہم نے یہ بھی کوشش کی ہے کہ گلیشیر کو پگھلا کر اپنے آئندہ مصارف کے لیے پانی حاصل کریں گے تو مجھے یاد آیا کہ ایک دفعہ ہم ناران جا رہے تھے کہ ہمیں یہ کہ کر روک دیا کہ گلیشیر کی کیفیت ٹھیک نہیں ہے۔ آپ کو ایک دو دن یہاں بالاکوٹ میں قیام کرنا پڑے گا۔ بالا کوٹ میں تب ایسا کوئی ہوٹل نہیں تھا۔ ہمارے ساتھ ممتاز مفتی صاحب بھی تھے۔ وہ کہنے لگے یا ہم نے کتابوں میں پڑھا ہے کہ مسافر مسجد میں وقت گزارتے تھے تو چلو کسی مولوی صاحب سے پوچھتے ہیں۔ ہم پانچ آدمی تھے مولوی صاحب کے پاس گئے ان سے کہا کہ آپ کیا ہمیں مسجد میں رہنے کی اجازت دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہاں جی کیوں نہیں۔ ادھر برامدہ ہے، صف ہے، مجھے افسوس ہے کہ میرے پاس ایسی کوئی دری نہیں جو میں آپ کی خدمت میں پیش کر سکتا۔ ہم نے کہا نہیں اس کی ضرورت نہیں ہمارے پاس Sleeping Bages ہیں۔ مولوی صاحب بھی وہ سلیپنگ بیگ دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ یہ بری مزیدار چیز ہے کہ آدمی اس کے اندر گھس جائے اور سکون سے سو جائے۔ ہم ایک دو دن وہاں ویسے ہی سوتے رہے۔ ابھی ہمیں آگے جانے کی کلیئرنس نہیں مل رہی تھی۔ وہ مولوی صاحب بھی عجیب و غریب آدمی تھے ان کے گھر کے دو حجرے تھے۔ ہم سے کہنے لگے ( ممتاز مفتی ان کے بڑے دوست ہو گئے) میرے ساتھ چائے پئیں وہ ہمیں اپنے گھر لے گئے اور جس کمرے میں ہمیں بٹھایا اس میں ایک صندوقچی تھی بیٹھ کر جس پر وہ لکھتے تھے اور باقی صف بجھی ہوئی تھی۔ ممتاز مفتی تھوڑی دیر ادھر ادھر دیکھ کر کہنے لگے مولوی صاحب آپ کا سامان کہاں ہے، تو وہ کہنے لگے آپ ہم کو بتاؤ آپ کا سامان کدھر ہے؟ ممتاز مفتی کہنے لگے میں تو مسافر ہوں۔ مولوی صاحب نے کہا میں بھی تو مسافر ہوں۔ کیا جواب تھا، اس طرح کے لوگ بھی ہوتے ہیں مولوی صاحب کا ایک خادم تھا وہ اذان دیتا تھا۔ اس نے واسکٹ پہنی ہوئی تھی۔ وہ اندر آکر کبھی ایک اور کبھی دوسری جیب میں ہاتھ ڈالتا تھا۔ میں سمجھا کہ اسے کوئی خارش کا مرض لاحق ہو گا یا ایک “جھولے“ کا مرض ہو جاتا ہے اور وہ ہو گا۔ وہ بار بار جیب دیکھتا تھا۔ اس سے مجھے بڑا تجسس پیدا ہوا۔ میں نے کہ امولوی صاحب آپ کا یہ خادم کیا بیمار ہے۔ کہنے لگے نہیں، اللہ کے فضل سے بہر صحت مند، بہت اچھا اور نیک آدمی ہے۔ میں نے کہا جی یہ ہر وقت جیب میں ہاتھ ڈال کر کچھ ٹٹولتا رہتا ہے۔ کہنے لگے جی یہ اللہ والا آدمی ہے اور خدا کے اصل بندے جو ہیں وہ ہر وقت جیبوں کی تلاشی لیتے رہتے ہیں کہ اس میں کوئی چیز تو نہیں پڑی جو اللہ کو نا پسند ہو۔ میں نے کہا ہم تو بڑے بدنصیب ہیں اور اس شہر سے آتے ہیں جہاں ناپسند چیزیں ہم جیبوں میں ہی نہیں دل کے اندر تک بھرتے ہیں اور بہت خوش بھی ہوتے ہیں۔ اس طرح کے آدمی یا کردار جب پیدا ہونے لگیں گے تو پھر ظاہر ہے کچھ مشکلار دور ہوں گی اور یہ کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھنے کے لیے اور ایک دوسرے کو جاننے کے لیے ہمیں شاید وقت درکار ہو یا ہمیں اپنے ارد گرد کے لوگ ویسے نہ نظر آتے ہوں جیسے نظر آنے چاہئیں یا وہ Leve ہم نے Create ہی نہ کیا ہو جو بڑے مہذب ملکوں نے کیا ہوا ہے یا ہمارے سامنے اور دیکھتے دیکھتے چائنا نے Create کر لیا ہے۔ ہمارے چودہ کڑور افراد ایک طرف ہیں اور ہم جو مراعات یافتہ لوگ ہیں ہم نے انہیں خود سے الگ کیا ہوا ہے۔ ہمارے اور ان کے درمیاں ایک بہت بڑی گہری کھائی ہے جو کبھی تو پانے سے بھر جاتی ہے اور کبھی سوکھ جاتی ہے پانی سے خالی ہو جاتی ہے۔ ان اس مکالمے میں ہم عطاءالحق قاسمی سے پوچھتے ہیں کہ ہم وہ کونسا راستہ پکڑیں جس میں ہم لوگوں کو آسانیاں عطا فرمائیں اور یہ معاشرتی مسائل جو پیدا ہوتے ہیں یہ پیدا نہ ہوں۔
عطاء الحق قاسمی:- اشفاق صاحب! آپ نے جو حقائق بیان کیےہیں اور جو حکایت بیان کی ہے وہ اس قدر دلچسپ ہے اور اس میں اتنے معانی پوشیدہ ہیں اور سچی بات یہ ہے کہ اس کے بعد کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ میں آپ ہی کی بات کو دھرانا چاہتاہوں کہ ہم ١٤ کروڑ عوام سب بہت اچھے ہیں۔ ہم میں سے کچھ کو چاہیے کہ اپنے آپ کو برا سمجھیں اور جاکر ان ہی بازاری عورتوں کی طرح گریہ زاری کریں تب شاید ہمارا مسلہ حل ہو جائے۔
اشفاق احمد:- عاصم قادری آپ بھی کچھ فرمائیں۔
عاصم قادری:- لوگ ایثار و قربانی کی شیئرنگ اور مل بانٹنے کی بات کرتے ہیں۔ ہم لوگ ہر گھنٹہ ہر منٹ ایک ایسی بے یقینی اور غربت کی طرف چلتے چلے جا رہے ہیں جہاں پر سوچ کی Maturity ہم سے بہت دور ہے اور ہم میں چھین کے کھالینے کی حس بیدار ہوتی جا رہی ہے۔ آپ اس مسئلے کو جو مسئلہ ہر دن ہمیں غربت اور بے یقینی کی جانب گھسیٹتا چلا جا رہا ہے اس کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
اشفاق احمد:- ہمارے اندر نیلم احمد تشریف رکھتی ہیں۔ وہ اس عہد کی بہت معتبر نوجوان افسانہ نگار اور قلم کار ہیں اس سلسلے میں جس میں ہم پھنسے ہوئے ہیں اس کی بابت ان سے پوچھتے ہیں۔
نیلم احمد:- اشفاق صاحب کی بیان کرہ حکایت سے دو باتیں میرے ذہن میں آئیں۔ ایک یہ کہ جن خواتیں کا انہوں نے تذکرہ کیا انہیں معاشی طور پر اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا لیکن پھر بھی ان کے دل میں ایک مقصد تھا جس کی وجہ سے انہوں نے خدا سے دعا کی اور وہ ایک عظیم تر مقصد تھا۔ دوسری بات جو پانی کی ہے یہ مسئلہ روز اخباروں میں آتا ہے اور اس سے ہم کافی افسردہ بھی ہوتے ہیں۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہم سب میں Tolerance کی کمی ہے۔ برداشت کا مادہ شاید کم ہو گیا ہے اور ایک دوسرے کے لیے کچھ کر گزرنے کا جذبہ بھی کافی کم ہے اس لیے اگر ہم میں سے کچھ قطرے کسی کو زیادہ مل جائیں یا کچھ کم تو ہم لوگ واویلا مچا دیتے ہیں جبکہ یہ پوری قوم کا مسئلہ ہے اگر ایک صوبے کو پانی ملے گا اور دوسرے کو نہیں تو یہ بھی ٹھیک نہیں ہو گا۔ سارے ملک کو پانی ملے گا اور فصلیں پیدا ہوں گی تو سب ہی خوشحال ہوں گے۔
(عطاءالحق قاسمی درمیان میں بولتے ہیں)
اشفاق صاحب اس حوالے سے ایک بہت ضروری بات میں کہنا چاہ رہا ہوں اور وہ اخباروں کے کردار کے حوالے سے ہے۔ اخبار اس ایشو کو جس طرح سے اٹھاتے ہیں میں سمجھتاہوں وہ بالکل قومی مفاد میں نہیں ہے۔ سیکتریوں کی جو میٹنگز ہوتی ہیں یہ بات وہیں تک رہنی چاہیے جبکہ اس کے برعکس یوں لگتا ہے کہ دو صوبوں کی صف آراء ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف طبلِ جنگ بجا دیا گیا ہے۔ یہ صورتحال قطعا قومی مفاد میں نہیں ہے۔ اس سلسلے میں اخبارات کو اپنا کردار بہت احتیاط کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔
اشفاق احمد:- آپ بالکل ٹھیک کہ رہے ہیں اور گھوم پھر کر بات پھر اسی مرکز پر آ جاتی ہے کہ جب تک ہم میں تعلیم کا فقدان رہے گا اور جب تک تعلیم یافتہ لوگوں کی تربیت درست انداز، خطوط اور سطح پر نہیں ہو گی اس وقت تک ہم ایسی الجھنوں کا شکار ہوتے رہیں گے اور اس میں مبتلا ہوتے رہیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جو صاحبانِ اختیار و اقتدار ہیں اور جن کے ہاتھ میں لوگوں کی زندگیوں کی قدرت ہے ان کو دوبارہ اپنے آپ کو بھی درست کرنا چاہیے اور اس تعلیم کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔ اس حوالے سے تربیت کی واقعی ضرورت ہے۔ تربیت حاصل کرنے کے لیے کوئی اور راستی اختیار کیا جانا چاہیے میں تو اکثر ایک ہی بات کہا کرتا ہوں کہ جب تک آپ اپنے ١٤ کروڑ بھائیوں کو ان کو عزتِ نفس نہیں لوتائیں گے آپ پوری طرح سے بتے رہیں گے اور کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ ان کو ان کی عزت لوٹا دیجیے اوران کو سلام کیجیے۔ آپ کے گھر دانوں سے بھر جائیں گے اور آپ کی چاتیاں مکھن سے لبریز ہو جائیں گی۔ آپ سے اجازت لوں گا۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ۔
 

شمشاد

لائبریرین
باب 29

“ نظرِ بد “

ہم اہل زاویہ کی طرف سے آپ سب کی خدمت میں محبت بھرا سلام پہنچے۔

میں ایک تھوڑے سے دکھی دل کے ساتھ، طبیعت پر بوجھ لے کر آپ سے بات کر رہا ہوں ور امید ہے کہ آپ بھی میرے اس دکھ میں شرکت فرمائیں گے۔ ایک زمانے میں جب میں بہت چھوٹا تھا تو میری بڑی آپا جو نظرِ بد پر بڑا اعتقار رکھتی تھیں، میں اس وقت باوصف کہ بہت چھوٹا تھا اور میں بھی نظر وظر کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتا تھا لیکن چونکہ میرے بڑے بھائی مجھے سیر کے لیے اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور مین نیلی نیکر پہن کر اپنے سنہرے بالوں کے ساتھ “ باوا “ سا بنا ہوا ساتھ چلتا تھا تو میری بڑی آپا کہتی تھیں کہ ٹھہرو میں اس کے ماتھے پر تھوڑی کالک لگا دون کہ کہیں نظر نہ لگ جائے۔ لیکن میں ان کے اس عمل سے بڑا گھبراتا تھا۔ کئی گھرانوں میں نظر کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ میں کالک لگانے سے گھبراتا کہ میرے ماتھے پر کالک کیوں لگائی جاتی ہے؟ میری چھوٹی آپا اس پر کوئی یقین نہین رکھتی تھیں اور جیسے جیسے مین بڑا ہوتا گیا تو مجھے پتہ چلا کہ یہ ماتھے پر کالک نہیں لگاتے بلکہ اس طریقے سے نظر اتاری جاتی ہے۔ میری ماں سرخ مرچیں لے کر انہیں جلتے ہوئے کوئلوں پہ رکھ کر کہا کرتیں کہ اگر ان کے جلنے سے بدبو آتی ہے تو نظر ہے اگر نہیں آتی تو پھر نظر نہیں ہوتی ہے۔ میرے والد صاحب اور میرے بھائی ان کے اس اعتقاد پر بہت ہنسا کرتے تھے کہ یہ کیا فضول بات ہے۔ نظر نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ میری نانی کہتی تھیں کہ تمہارے ماموں اعجاز اور تمہاری ممانی رضیہ جو منگورہ (سوات) میں اس وقت موقع پر ہی جاں بحق ہر گئے جب ایک درخت ان کی کار پر آن گرا، انہیں نظر لگ گئی تھی۔ اس بارے میں میری ماں بتاتی تھیں کہ ہم نے ماں کو ایسے ہی بتایا ہے۔ ان کی کار پر کوئی درخت ورخت نہین گرا تھا بلکہ سڑک کنارے ایک بلڈوزر کھڑا ہوا تھا۔ جب ان کی کار گزری تو اس بلڈوزر کا مٹی اٹھانے والا بھاری بھر کم “ چمچہ “ عین اس وقت ان کی گاڑی پر گر گیا جب موٹر اس کے نیچے سے گزر رہی تھی۔ ایسی بہت سی کہانیاں زندگی میں چلتی رہتی ہیں۔ آپ نے بھی سنی ہوں گی لیکن ہم تعلیم کی وجہ سے ایسی کہانیوں پر کچھ زیادہ اعتماد نہیں کرتے۔ ایک وقت ایسی صورتحال میری زندگی میں بھی پیدا ہوئی جب میں بڑی بری طرح سے نظرایا گیا۔ میں بڑا ہو چکا تھا اور پڑھ لکھ چکا تھا۔ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو چکا تھا۔ اس واقعہ میں مجھ پر اس قدر بوجھ پڑا کہ میں نے گھبرا کر اور سر جھکا کے اس بات کا اعلان کیا کہ واقعی نظرِ بد کوئی چیز ہے اور نظر لگانے والا بڑے اہتمام کے ساتھ Plan کر کے نظر لگاتا ہے۔ یہ نہیں کہ نظر اتفاق سے لگ گئی۔ نظر لگانے والا اندر سے بڑا کینہ پرور ہوتا ہے اور بے ایمان ہوتا ہے۔ ہم 52-1950ء کے قریب پہلی مرتبہ مشرقی پاکستان گئے۔ ہم نے چار پانچ دن وہاں گزارے اور پہلی مرتبہ ہم نے جی بھر کے کیلے کھائے۔ جب ہمارا وہاں سے لوٹنے کا پروگرام ختم ہوا تو ہمارا وہاں سے واپس آنے کو جی نہیں چاہتا تھا۔ وہ ایسی محبت والے لوگ تھے جو خود بھی نہیں چاہتے تھے کہ ہم واپس جائیں لیکن ہمیں مجبوراً واپس آنا پڑا۔ اللہ نے ہماری خواہش ایک بار پھر پوری کی کہ ہمیں تقریباً آٹھ ماہ کے بعد دوبارہ وہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ ہم بہت سارے شاعر، ادیب اور رائٹر تھے جو وہاں ایک اجلاس میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ ہمیں وہاں حد سے زیادہ محبت ملی اور ہمارے وہ بھائی ہمیں ایسی چیزیں کھانے کو دیتے جو ہم نے پہلے کبھی دیکھی بھی نہیں تھیں۔ بنگال اکیڈمی والوں جے مجھے کہا کہ اشفاق صاحب ہم نے آپ کے لیے یہ ایک بہت بڑا پھل رکھا ہے جو ناریل سے بھی بڑا تھا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ اپ اس کو کاٹیں لیکن اسے آپ احتیاط سے کاٹیں کیونکہ یہ پیچھے پڑ جاتا ہے۔ اسے “کٹھل“ کہتے تھے۔ جب میں نے اسے چھری سے کاٹنا شروع کیا۔ میں نے ایک آدھ بار تو چھری چلائی لیکن اس نے واقعی میرے دونوں ہاتھوں کو وہیں سے پکڑ لیا جہاں پر تھے۔

دنیا کی اگر کوئی پاورفل گوند یا گلو اگر کہیں سے ملتی ہے تو وہ “ کٹھل “ سے نکلتی ہے۔ وہ سب ہمیں کہتے تھے کہ کوئی داڑھی والا آدمی اسے نہ کاٹے کیونکہ اگر اس کے کاٹتے ہوئے ہاتھ داڑھی کو لگ گیا تو وہ ساری نوچ کے نکالنی پڑے گی۔ اس کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں ہو گا۔ وہاں ہم نے خوب کٹھل کھایا۔ میں نے اپنے استاد غلام مصطفٰی تبسم کے کہا جی میں ہوٹل سے نیچے گیا تھا اور آپ کے لیے یہ انناس لایا ہوں۔ میں نے دس انناس کو دھاگے کے ساتھ باندھ کے لٹکا رکھا تھا۔ وہ کہنے لگے تو ان کو کیوں لے آیا۔ میں نے کہا سر یہاں آئے ہیں تو انناس توکھائیں گے۔

وہ پوچھنے لگے کتنے کے آئے ؟

میں نے جواب دی جی ایک روپیہ دس آنے کے یہ دو انناس آئے ہیں۔

وہ غصے میں آ کر کہنے لگے اسے کاٹے گا تیرا باپ۔ ہم کو تو پتہ ہی نیہں کہ انہیں کیسے کاٹا جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ جی میں وہ تھی “سائی“ (طے کر کے) لگا کے آیا ہوں ابھی ہوٹل میں کام کرنے والا لڑکا اوپر آئے گا اور وہ دو مزید انناس بھی لا رہا ہے۔

وہ کہنے لگے ارے برباد ہو جائیں گے۔ میں نے کہا جناب انہیں فرج میں رکھیں گے اور شوق سے کھائیں گے ایسا موقع بار بار کہاں ملتا ہے۔ چنانچہ وہ لڑکا آیا، اس نے کاٹ کے طشتری میں رکھ دیئے۔ ہمارے وہاں قیام کے وقت ہمارے لیے اور ہمارے پیارے میزبانوں کے لیے یہ ایک عید کا سا سماں تھا۔ وہاں محبت کی اتنی بڑی دنیا آباد ہو گئی تھی کہ میں نے زندگی میں اس سے پہلے محبت کا ایسا مظہر نہیں دیکھا تھا۔

وہاں پر ایک بی بی جس کا نام اوما تھا اس نے ہمیں علامہ اقبال کی ایک نظم :

پھر چراغ لالہ سے روشن ہوئے کوہ و دمن
مجھ کو پھر افسانوں پہ اکسانے لگا مرغِ چمن

سنائی۔ ایسی خوبصورت آواز اور اچھی انداز میں میں نے یہ نظم نہیں سنی۔ اس موقع پر مجھے انشاء جی کہنے لگے کہ ہمیں شرم آنی چاہیے اور ہمیں بھی کچھ آنا چاہیے۔ یہ اقبال کی نظم کتنے اچھے انداز میں گا رہی ہے۔ ہم نے اپنے بیرے سے کہا کہ یار ہمیں بھی کچھ گانا سکھا دو چنانچہ ہم نے پہلا گانا مشرقی پاکستان میں اپنے پاکستانی بھائیوں سے سیکھا وہ یہ تھا :

اللہ میک دے، پانی دے، چھایا دے تُو ای
ہو اللہ میک دے، پانی دے، چھایا دے تُو ای
(گانے کے انداز میں)

ہم یہ شعر تو گا کر کہہ لیتے تھے لیکن “ اللہ “ کہنے کا خوبصورت انداز صرف انہی کو آتا تھا۔

خواتین و حضرات کیا آپ نے کبھی کسی سندھی کو “ اللہ “ کہتے ہوئے سنا ہے۔ جب کوئی سندھی اپنی کسی نظم میں یا کلام میں “ اللہ “ کہتا ہے تو میں اس پر قربان ہو جاتا ہوں یعنی میرے میں طاقت ہی نہیں رہتی۔ میں نے “ اللہ “ کا اُچارن “ اللہ “ کا تلفظ اور اس لفظ کی قرات ان سے زیادہ خوبصورت انداز میں سوائے سندھیوں کے کسی کے منہ سے نہیں سنی۔ ایسے ہی ہمارے مشرقی پاکستان کے بھائی وہ ادا کرتے تھے۔ ہم نے وہاں سائیکلیں لے لیں۔ وہ اپنا گھر تھا اور میزبان اپنے بھائی تھے۔ ہم صبح سویرے سائیکلیں لے کر نکلتے اور سائیکلیں چلاتے ہوئے گانا گاتے پھرتے تھے۔ جس کا ترجمہ کچھ اس طرح سے تھا :

“ اے اللہ ہم تو تیرے بندے ہیں اور تیرا نام بار بار لیتے ہیں۔“

ہم سب اپنی اپنی اونچی، نیچی اور بیٹھی آوازوں میں گانے گاتے پھرتے تھے۔ ہمارے ساتھ گانے والے احمد راہی کی آواز تو بالکل ہی بیٹھی ہوئی تھی۔ ہم جب وہاں شہر میں گاتے پھرتے تھے اور شہر کا چکر لگاتے تو پتہ چلتا کہ جیسے جسم میں توانائی بڑھتی ہی چلی جاتی ہے اور میں نے اس وقت یہ بھی محسوس کیا کہ ایک تیسری آنکھ جو نظرِ بد والی آنکھ کہلاتی ہے وہ ہم لوگوں کو دیکھ رہی ہے۔ میں نے اس بات کو شدت سے محسوس کیا کہ وہ آنکھ ہم پر اثر انداز ہو رہی ہے اور اس آنکھ نے باقاعدہ Plan کر کے منصوبہ بندی کرکے ہمارے درمیان تفرقہ ڈالا ہے اور یہ آپ سب کو معلوم ہے مشرقی پاکستان کی سرحد سے تقریباً پچاس ساٹھ میل کے فاصلے پر ایک شہر ہے۔ خواتین و حضرات، براعظم ایشیاء کے اندر اگر کوئی دہشت گردی کا مرکز پہلی مرتبہ قائم ہوا تو وہ اس “ اگر تلہ “ شہر میں ہوا۔ وہاں تیسری آنکھ نے بڑی ہمت سے بڑی محنت کر کے ہمارے درمیان نفرتیں بھی پھیلائیں۔ غلط فہمیاں بھی پھیلائیں اور اس سے وہ تانا بانا بُنا کہ وہ دہشت گردی نہ صرف اس علاقے میں رہی بلکہ وہاں سے پھیلتی پھیلتی دوسرے علاقوں میں بھی چلی گئی۔ وہاں سے نکل کر سری لنکا میں بھی چلی گئی، وہاں کے ٹرینڈ کیے ہوئے دہشت گرد باہر نکل کر دوسرے علاقوں پر حملہ آور ہوتے اور بڑی اچھی اور پرسکون زندگی گزارنے والوں کو ذلیل و خوار کرتے پھر انہوں نے میرے ہی ان بھائیوں کو جن کے ساتھ مل کر ہم گانے گاتے تھے جن میں ہم نے قدرت اللہ شہاب کو بھی ملا لیا تھا اور ہم وہاں سے میٹھا دہی کھایا کرتے تھے اور اس دہی کے بڑے بڑے بھرے ہوئے “ کونڈے “ جہاز میں رکھ کر لاہور بھی لے آئے تھے۔ (وہ اس دہی میں کھجور کا شیرہ ڈالتے ہیں اور اس سے اچھی سویٹ ڈش میں نے پہلے یقیناً نہیں کھائی تھی اور نہ آپ نے کھائی ہو گی)۔ ان کے اور ہمارے دلوں میں غلط فہمیاں ڈال دیں اور اس تیسری نظرِ بد والی آنکھ نے وہیں سے ہمارے اپنوں، دوستوں، جاننے والوں اور ہماری جان و جگر کو لیا اور ان کو مکتی باہنی کا نام دے کر ان کی ٹریننگ شروع کر کی جس میں انڈین فورسز کے آدمی بھی تھے اور انہوں نے بھی مکتی باہنی کی وردیاں پہن رکھی تھیں۔ اس تیسری آنکھ کو یہ خوف تھا کہ اگر ان دونوں (مشرقی اور مغربی پاکستان) کے درمیان محبت اور یگانگت بڑھتی رہی اور یہ ایک دوسرے کے اس شدت کے ساتھ قریب آتے رہے اور دین کے رشتے کے بعد یہ ثقافتی رشتوں میں بھی مزید بندھتے چلے گئے تو پھر ہمیں انہیں ایک دوسرے سے علیحدہ کرنا یا “ نکھیڑنا “ بڑا مشکل ہو جائے گا۔ چنانچہ انہوں نے منصوبہ بندی کر کے اور دنیا کے دوسرے ملکوں کو ساتھ ملا کے یہ پروگرام بنایا کہ کسی نہ کسی طرح سے اس رشتے کو توڑ دیا جائے۔

انہوں نے جو سب سے بڑا کام کیا وہ یہ تھا کہ اس تیسری نظرِ بد والی آنکھ نے ہمیں اپنی ہی نگاہوں میں پامال کر دیا۔ شرمندہ کر دیا۔ سارا بوجھ اور الزام اٹھا کر ہمارے اوپر رکھ دیا اور ہم وہ سارا بوجھ ابھی تک اٹھائے پھرتے ہیں۔ یہ ان کا بڑا کمال ہے۔ اس شرمندگی نے کس طرح سے آپ پر اور آپ کی نفسیات پر اثر ڈالا ہے۔ یہ وہ لوگ بڑی اچھی طرح سے جانتے ہیں لیکن ایشیاء کے اور پاکستان کے لوگ نہیں جانتے صرف ہندوستان کے لوگ ہی جانتے ہیں کہ دہشت گردی کا جو پہلا اڈا اور مرکز قائم ہوا وہ کہاں قائم ہوا تھا۔ جہاں سے دہشت گردی کی شاخیں پھوٹی تھیں۔ جب آپ دہشت گردی کا نام لیتے ہیں اور دہشت گردی کی بات کرتے ہیں تو ان کا پہلا مقام “ اگر تلہ “ ہی تھا اور وہ دہشت گردی کا پودا اب تک پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہم جو مظلوم و مقہور ہیں، جن پر ظلم کیا گیا ہے اور پوری دنیا یا گلوب میں پاکستان واحد ملک ہے جو دہشت گردی کا شکار ہوا اور اس کا ایک حصہ دہشت گردی کے زور پر جدا کیا گیا۔ یہ نظرِ بد یونہی نہیں لگ جاتی اس کے لیے خاص منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے۔ ہم جو بھائی آپس میں ملتے تھے “ جھپیاں “ ڈالتے تھے، کل کر کبھی سُر میں اور کبھی بے سُرے ہو کر گاتے تھے وہ سارے کے سارے ملیا میٹ ہو گئے۔ (اس موقع پر اشفاق احمد بنگلہ زبان میں کوئی محبت اور دوستی کا گیت گاتے ہیں۔) اب لوگ چلے تو پھرتے ہیں اور ابلاغ کا ایسا زور ہے کہ بہت سے لوگ سچ مچ یہ ماننے لگے ہیں کہ شاید پاکستانی بھی دہشت گرد ہیں۔ ہمیں ہر روز دہشت گرد باور کرایا جاتا ہے اور ہم ہر روز شرمندگی کی آنکھوں پر لجاجت کا ہاتھ رکھ کر گھروں میں داخل ہوتے ہیں اور باہر نکلتے ہیں۔ یہ آخر کیسے اور کس طرح سے ہو گیا۔ اب پھر کون سا ایسا گانا اور ترانا گایا جائے کہ ہمیں اس بات کا احساس نہ رہے ہم ایک بڑی پوری اور زندہ قوم ہیں اور ہم نیوکلیئر پاور ہیں۔ کسی سے کم تر نہیں ہیں۔ میں اب کس بابے کو جا کر ملوں کہ وہ میرے ملک کے بندوں کے دل سے شکوک و شبہات نکال دے۔

مجھے ہالینڈ میں ایک بھارتی دوست ملے۔ میں نے کہا کہ وہ ایک ظلم تو تم نے کیا اور کمال اور بڑی چالاکی کے ساتھ کیا لیکن یہ فن تم نے کس طرح سے اجتماعی زندگیوں پر اپلائی کیا کہ ہم خود کو ذمہ دار سمجھنے لگے۔

وہ کہنے لگے کہ اگر ہم یہ کمال آپ کو بتا دیں تو پھر ہمارے پاس کیا رہ جائے گا۔ ہم اب بھی کوشش کریں گے اور کرتے رہیں گے اور آپ کو چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔ یہ ہمارا منتہائے مقصود ہے۔ اس نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ اگر پاکستان جغرافیائی طور پر ہندوستان سے دور ہو یا مثال کے طور پر انڈونیشیا کے قریب ہو تو پھر ساری دنیا اس ملک کو ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے دیکھے۔ اب یہ ایسی جگہ پر پھنس گیا ہے ایک ایسے ظالم پڑوسی کے چنگل میں آ گیا ہے کہ یہ جسمانی طور پر تو شاید طاقتور رہے گا اور ہے بھی لیکن نفسیاتی طور پر اس شرمندگی سے نہیں نکل سکتا۔ جس میں اسے مبتلا کر دیا گیا ہے۔ نظر اور نظرِ بد کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ میں اس کو تسلیم نہیں کرتا تھا اور ماتھے پر کالک لگانے کے فلسفے کو نہیں مانتا تھا۔ اب مان گیا ہوں۔

چٹاگانگ میں دریائے ہگلی کے کنارے ایک بزرگ معزالدین شازی رح تھے۔ وہاں انہوں نے کٹیا ڈالی ہوئی تھی۔ ہم سب ان کو سلام کرنے گئے۔ اس زمانے میں میں نظرِ بد کے معاملے کو نہیں مانتا تھا۔ وہ ہم سے بڑی محبت سے ملے۔ سوکھے اور دبلے سے تھے۔ ان میں روحانی طاقت ظاہری طور پر نظر آتی تھی اور بڑی شائستہ گفتگو کرتے تھے۔ ہم سے دین، ایمان اور یکجہتی کی باتیں کرتے رہے۔ ہم جب اجازت لے کر جانے لگے تو انہوں نے اپنی انگلی سے ہمارے ماتھے کے اوپر ایسے کچھ لکھا۔ ہم اس کو مانتے نہیں تھے لیکن جب ایک بزرگ محبت سے ایسا کر رہا تھا تو ہم کیسے انکار کر سکتے تھے۔ ابن انشاء نے کہا کہ میں نہیں لکھواتا اور وہ ایک طرف ہو کر کھڑے ہو گئے۔ جمیل الدین عالی نے کہا کہ میں لکھوا تو لیا ہے لیکن میں اسے مانتا نہیں۔ میں نے کہا کہ نہیں جی میں لکھوا بھی لیتا ہوں اور مان بھی لیتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کی بڑی برکت تھی۔ میں بعد میں بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا۔

ایک بار چٹاگانگ میں میں فیض احمد فیض سے ملا تو انہوں نے کہا کہ اشفاق میں تجھے ایک دنیا کی مزیدار ترین آئس کریم کھلاتا ہوں اور انہوں نے ایسی آئس کریم لا کر دی جو ہم نے واقعی ہی پہلے کبھی نہیں کھائی تھی۔ میری بیوی نے کھاتے ہی کہا کہ اشفاق صاحب دودھ دہی تو ہمارے ملک میں بھی ہوتا ہے یہ اتنی مزیدار آئس کریم یہاں کیسے بنتی ہے۔اس پر فیض احمد فیض کہنے لگے کہ سارا دودھ دہی تو تم کھا جاتے ہو آئس کریم کیسے بنے۔ میں نے آئس کریم کھلانے پر ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ آئیں میں اب آپ کو ایک بابے سے ملواتا ہوں۔ وہ بھی بڑی محبت کے ساتھ چل پڑے۔

اب میں عمر کے اس حصے میں جب ان باتوں کو اپنے اس ملک اور بھائیوں کو سوچتا ہوں تو میرے دل میں یہ بات آتی ہے کہ جتنا بڑا ظلم ہماری ذات پر بھائیوں سے جدائی کو صورت میں ہوا ہے اس سے بڑا ظلم کرہ عرض پر کسی قوم پر نہیں ہوا اور پھر صورتِ حال ایسی ہے کہ چور “ چتر “ بھی بن گیا۔

اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور میری بڑی آرزو ہے کہ اللہ ان آسانیوں کو تقسیم کرنے کا بھی شرف عطا فرمائے۔ آمین۔

اللہ حافظ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
باب نمبر 17

شک
میں ایک بہت ضروری اور اہم بات لے کر گھر سے چلا تھا لیکن سٹوڈیو پہنچنے سے پہلے ایک عجیب و غریب واقعہ رونما ہوا جس نے میرا سارا ذہن اور آپ سے بات کرنے کا سوچا ہوا انداز ہی تبدیل ہوکر رہ گیا اور جو بات میرے ذہن میں تھی، وہ بھی پھسل کر ایک اور جگہ مقید ہو گئی ہے۔ میں جب گھر گیا تو میں نے دیکھا کہ میرے بیوی نے ہمارا ایک نیا ملازم جو گاؤں سے آیا ہے، اس کم سن کے ہاتھ کے ساتھ ایک چھوٹی سی رسی باندھ کر اسے چارپائی کے پائے کے ساتھ باندھ کے بندر کی طرح‌بٹھایا ہوا ہے۔ میں نے کہا، یہ کیا معاملہ ہے؟ وہ کہنے لگی اس نے میرے پرس میں سے ایک پانچ سو کا، دو سو سو اور تین نوٹ دس دس روپے کے چرا لئے ہیں اور اس نے یہ سات سو تیس روپے کی چوری کی ہے۔ یہ ابھی نیا نیا آیا ہے اور اس کی آنکھوں میں‌دیکھو صاف بے ایمانی جھلکتی ہے۔ میں نے کہا، مجھے تو ایسی کوئی چیز نظرنہیں آتی۔ کہنے لگی، نہیں آپ کو اندازہ نہیں ہے، جب یہ آیا تھا تب اس کے کان ایسے نہیں تھے اور اب جب اس نے چوری کر لی ہے تو اس کے کانوں‌میں فرق پیدا ہو گیا ہے۔ میں نے کہا، دیکھئے یہ آپ شک وشبہ کی بات کرتی ہیں۔ اس حوالے سے آپ یقین سے کچھ نہیں کہ سکتیں۔ خدا کے واسطے اسے چھوڑ دو۔ تو کہنے لگی کہ میں اسے کچھ کہوں گی تو نہیں اور نہ ہی اسے کوئی سزا دوں گی لیکن میں نے اسے باندھ کے اس لئے بٹھایا ہے کہ اسے اندازہ ہو کہ ایک اچھے گھر انے میں جہاں اس کے ساتھ اچھا برتاؤ ہو رہا ہے، اس نے کس قسم کی غلط حرکت کی ہے۔ ابھی ہم اس گفتگو میں مشغول ہی تھے کہ میرا چھوٹا بیٹا گھر آیا اور اس نے آتے ہی پکار کر کہا کہ امی آپ تھیں‌نہیں اور مجھے باہر جانا تھا تو میں نے آپا کے پرس سے سات سو بیس روپے کے قریب رقم لی تھی۔ یہ آپ واپس لے لیں۔ اب اس کی ماں‌نے پیسے تو پکڑ لئے اور لوٹ کے اس بندر(لڑکے) کی طرف نہیں‌دیکھا جو ہاتھ پر رسی بندھوا کر چارپائی کے پاس بیٹھا تھا اور میں‌ شرمندہ کھڑا تھالیکن مجھ میں تھوڑی سی ایسی تمکنت ضرور تھی کہ جیسے ایک چھوٹے لیول کے بادشاہوں میں ہوا کرتی ہے۔ میں نے کہا بتائیے! وہ کہنے لگی، دیکھیں مجھے تو تقریباً اس لڑکے کی حرکت ہی لگی تھی۔ میں نے کہا کہ شک و شبہ اور ظن میں ایسے ہی ہواکرتا ہے اور اس میں آدمی بغیر کسی منطق کے، بغیر کسی دلیل کے اور بغیر کسی الجھن کے الجھ جاتا ہے اور یہ اکیلا فرد ہی نہیں، قومیں اور ملک بھی اس میں الجھ جاتے ہیں۔ فرض کریں کہ ایک ملک کو دوسرے ملک پہ شک پڑ گیا کہ اس نے میرے خلاف کاروائی کی اور تاریخ کے واقعات اس کے شاہد ہیں کہ ایسا بھی ہوا کہ اس ملک نے دوسرے پر حملہ کر دیا اور بغیر سوچے سمجھے، ثبوت حاصل کئے ہزاروں لاکھوں جانیں ختم کر دیں۔ میں جب سٹوڈیو آ رہا تھا تو بات آپ سے کچھ اور کہنی تھی لیکن مجھے اپنی آپا صالح یا آ گئیں۔ وہ عمر میں ہم سے ذرا سی بڑی تھیں اور ہم جب بی۔اے اور ایم۔اے میں تھے تو اس وقت ان کی شادی ہو چکی تھی اور وہ اپنے خاوند کے ساتھ ولایت چلی گئیں اور وہاں ایک عرصہ تک رہیں۔ جب دبئی معرضٍ وجود میں‌آ یا تو پھر وہ لوگ دبئی آ گئے۔ یہاں‌انہوں نے کچھ سرکاری اور کچھ نیم سرکاری کام کیے۔ لوٹ کر وہ پھر ولایت چلی گئیں اوروہاں جا کر انہوں نے اپنا وہی پرانا کام سنبھال لیا جو وہ اپنی کمپنی میں کرتے تھے۔ایک روز کسی انگریز خاتون نے صالح‌آپا کو بتایا کہ اگر پلاٹینیم کے زیورات کو موٹے باجرے کے آٹے میں‌رکھا جائے تو ان کی دکھ(چمک) میں بڑا اضافہ ہوتا ہے اور یہ بہت صاف ستھرے ہو جاتے ہیں اور بس یہ ایسا علاج اور نسخہ ہےکہ اس سے بہتر پلاٹینیم کے زیورات کے لئے وجود میں نہیں آیا۔ اب ظاہر ہے کہ خواتین کی کاسمیٹک اور زیورات سے گہری دلچسپی ہوتی ہے اور وہ ان کی بابت زیادہ گفتگو کرتی ہیں۔ آپا صالح کو بھی اس خاتون کی بات بڑی دل کو لگی۔ چنانچہ انہوں نے باجرے کا آٹا حاصل کیا اور اس میں اپنے کان کے دو بالے دبا دئے۔ صبح‌اٹھ کر انہوں نے آٹے کی پڑیا کھولی تو حیران رہ گئیں کہ آٹے میں صرف ایک ہی بالا تھا اور دوسرا بالا موجود نہیں تھا۔ اب وہ پریشان ہو گئیں کیونکہ پلاٹینیم کا بالا کچھ کم قیمت تو ہوتا نہیں۔ اس کمرے میں‌سوائے ان کے اور ارشد بھائی(ان کے خاوند) کے کوئی تھا بھی نہیں۔اب جب ارشد بھائی غسل خانے سے شیو بنانے کے بعد باہر نکلے تو آپا صالح‌کہتی ہیں‌کہ مجھے پہلی مرتبہ باوجود اس کے کہ وہ میرے خاوند ہیں اور ہماری شادی کو 21 برس ہو گئے ہیں لیکن وہ مجھے چہرے سے چور نظر آئے اور ایسے محسوس ہوا کہ انہوں نے راتوں‌رات وہ بالا چرا لیا ہے اور وہاں پہنچانے کی کوشش کی ہے جہاں‌میری منگنی سے پہلے ان کی کسی دوسری رشتہ دار لڑکی کے ساتھ منگنی طے ہو رہی تھی اور وہ لڑکی (ظاہر ہے اب تو وہ عورت ہو چکی ہوگی) لندن آئی ہوئی تھی اور اس ا ٹیلی فون ارشد صاحب کو آیا تھا جس میں اس نے ارشد کو بتایا تھا کہ میں اور میرا خاوند لندن آئے ہوئے ہیں اور ہم ملنا چاہتے ہیں۔ بتائیے ہم کب آ سکتے ہیں۔ اب آپا صالح‌کو پکا یقین ہو گیا کہ یہ بالا سوائے ارشد بھائی کے اور کسی نے نہیں چرایا، کیونکہ کمرے میں اور کوئی تھا ہی نہیں۔چنانچہ تین چار روز انہوں نے بڑے کرب کی کیفیت میں گزارے اور جب وہ خاتون جن سے شاید ارشد بھائی کی شادی ہو جاتی کیونکہ دونوں گھرانوں کے درمیان ہاں‌بھی ہو گئی تھی لیکن کسی وجہ سے وہ ہاں ناں‌میں‌ تبدیل ہو گئی۔وہ اپنے خاوند کے ساتھ ارشد بھائی سے آ کر ملی تو آپا سارا وقت ٹکٹکی باندھ کر ارشد بھائی کے چہرے کی طرف دیکھتی رہیں اور انہیں ارشد صاحب کے چہرے پر سے بھی ایسے آثار واضح نظر آرہے تھے کہ انہوں نے بالا چرایا ہے اور اس خاتون کو دےد یا ہے یا اس کو بعد میں‌پہنچا دیں گے۔ اب ارشد بھائی اور صالح آپا کے درمیان ایک بہت بڑی خلیج حائل ہو گئی اور وہ شک و شبہ میں زندگی بسر کرنے لگے۔ باوجود اس کے کہ ارشد بھائی بار بار پوچھتے تھے کہ تمہاری طبعیت پر مجھے کچھ بوجھ سا لگتا ہے لیکن صالح‌آپا نفی میں سر ہلا دیتیں اور کہتیں کہ خیر جو ہونا تھا، ہو چکا لیکن انہیں اپنے قیمتی بالے کے گم ہونے کا افسوس ہے۔ ارشد بھائی کو بھی اس بات کا بہت افسوس تھا کہ وہ بالا اگر گم ہو گیا ہے تو اسے تلاش کیا جانا چاہیے لیکن چونکہ اپ کی نظر میں‌خود چور تھے، اس لئے وہ تلاش کرنے میں ارشد بھائی کی کوئی مدد نہیں کرتی تھیں۔ پانچویں‌روزاس کمرے میں تھوڑی سی بدبو کے آثار پیدا ہوئے۔ شام تک وہ بدبو کافی بڑھ گئی۔ پھر یہ ڈھونڈیا پڑی کہ وہ بدبو کہاں‌سے آ رہی ہے۔چنانچہ سارے کونے کھدرے تلاش کئے گئے اور ایک بڑا سا قالین جو کہ اخباروں کے اوپر پڑا ہوا تھا اور پرانے اخباروں کی ٹوکری اس پر اوندھی لیٹی ہوئی تھی جب وہ اٹھا کر دیکھا گیا تو اس کے نیچے ایک چوہا مرا ہوا پڑا تھا اور اس چوہے کے گلے میں‌وہ پلاٹینیم کا بالا پھنسا ہوا تھا۔ رات کو وہ باجرے کا آٹا کھانے آیا اور شوق میں اپنا منہ دھنساتا ہوا اتنی دور لے گیا کہ بالا اس کے حلق کا پھندا بن گیا اور پھر وہ اسے پنجوں‌کی کوشش کے باوجود نکال یا اتار نہ سکا اور اس کا دم گھٹ گیا، بڑی مشکل کے ساتھ اس سڑی ہوئی لاش سے وہ بالا چھڑایا گیا اور صالح‌آپا کو اطمینان نصیب ہوا جو اللہ کے فضل سے اب تک ہے۔شک و شبہ کی دنیا بڑی عجیب و غریب ہوتی ہے اور اس پر کسی کا بس نہیں چلتا۔ جب یہ ایک بار ذہن میں‌جاگ اٹھتی ہے تو اس کا ذہن سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ نفسیات دان یہ کہتے ہیں کہ شک کے نکلنے کے لئے ہمارے پاس کوئی فارمولا نہیں‌ہے جو Apply کر کے انسان کو شک و شبہ کی اذیت سے نجات دلا دے۔ البتہ اللہ ضرور اس بات کا حکم دیتا ہے کہ تم لوگوں‌کی ٹوہ میں‌نہ رہا کرو۔ یہ مت دیکھو کہ اس کے گھر میں کیا آیا ہے، اس کو کون ملنےآیا۔ اس کو چھوڑو، وہ اللہ کا بندہ ہے اور اسے اللہ ہی پوچھے گا اور تم زیادہ تجسس میں‌نہ پڑو، یہ اللہ کا حکم ہے۔ اسی طرح جب آپ شک میں پڑتے ہیں تو آپ اس حکم کو یقیناً چھوڑ دیتے ہیں جو بڑے واضح‌انداز میں Categorically اللہ نے ہم، آپ اور سب کو کہ دیا ہے کہ ایسے “سُوں“ (جاسوسی) لینے کے لیے اور ایسی سی آئی ڈی کرنے کے لئے مت جایا کرو۔ اپنی زندگی کے اندر کوئی سی آئی اے(CIA)، کوئی کے جی بی(KGB) نہ بنائیں، کوئی موساد، کوئی راء‌نہ بنائیں ورنہ آپ کی زندگی عذاب میں‌پڑ جائے گی۔ جن ملکوں‌نے ایسے ادارے بنائے ہیں بظاہر تو وہ بہت خوش ہیں اور ان پر فخر کرتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ اس قسم کے ادارے ان کو ایسی الجھنوں میں مبتلا کر دیتے ہیں کہ وہ پھر ان سے نکل ہی نہیں سکتے۔ شک کے حوالے سے مجھے بڑی گزری باتیں یاد آ رہی ہیں۔جوانی میں‌مجھے درختوں اور پودوں سے بڑا شغف تھا۔ اس وقت میرے پاس ایک چھوٹی آری ہوا کرتی تھی جس سے میں‌درختوں کی شاخیں‌کاٹتا تھا اور ان کی اپنی مرضی سے تراش خراش کیا کرتا تھا اور ہمارے ہمسائیوں کو ایک بچہ جو پانچویں، چھٹی میں‌پڑھتا ہوگا۔ وہ اس ولائیتی آری میں‌بہت دلچسپی لیتا تھا۔ ایک دو مرتبہ مجھ سے دیکھ بھی چکا تھا اور اسے ہاتھ سے چھو کر بھی دیکھ چکا تھا۔ ایک روز میں نے اپنی وہ آری بہت تلاش کی لیکن مجھے نہ ملی۔ میں نے اپنے کمرے اور ہر جگہ اسے تلاش کیالیکن بے سود۔ اب جب میں گھر سے باہر نکلا تو میں نے پڑوس کے اس لڑکے کو دیکھا۔ اس کی شکل، صورت، چلنے بات کرنے کا انداز، سب بدل گیا تھا۔ جیسے جو ملک دوسرے پر حملہ آورہونا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں‌کہ یہ Culprit ہے یا اس نے کوئی اسی کوتاہی کی ہے جو ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوئی اور ان کو یہ لگنے لگتا ہے کہ اس میں‌یہ، یہ خرابی ہے اور مجھے بھی پڑوس کے اس لڑکے پر سارے شک وارد ہونے لگے۔ اب مجھے ایسا لگتا کہ جس طرح وہ پہلے مسکراتا تھا، اب ویسے نہیں مسکراتا۔ مجھے ایسے لگتا جیسے وہ مجھے اپنے دانتوں کے ساتھ چڑا رہا ہو۔ اس کے کان جو پہلے چپٹے تھے، وہ اب مجھے کھڑے دکھائی دیتے اور اس کی آنکھوں‌میں‌ایسی چیز دکھائی دیتی جو ایک آری چور کی آنکھوں میں نظر آ سکتی ہے لیکن مجھے اس بات سے بڑی تکلیف ہوئی جیسے صالح‌آپا کو بھی ہوتی تھی۔ جب میں نے اس آری کو گھر میں موجود پایا کیونکہ میں‌خود ہی اس آری کو اٹھا کر گھر کے اندر سے آیا تھا اور ایک دن ایسے ہی اخباروں کی الٹ پلٹ میں مجھے وہ آری مل گئی، جب مجھے وہ آری مل گئی اور میں شرمندگی کے عالم میں باہر نکلا تو یقین کیجئے وہی لڑکا مجھے اپنی ساری خوبصورتیوں اور بھولے پن کے ساتھ اور ویسی ہی معصومیت کے ساتھ مجھے نظر آرہا تھا۔ میں‌کہاں تک آپ کو یہ باتیں سناتا چلا جاؤں؟ آپ خود سمجھدار ہیں اور جانتے ہیں شک کی کیفیت میں‌پوری بات ہاتھ میں نہیں آتی۔‌اس موقع پر مجھے علامہ اقبال کا ایک شعر یاد آرہا ہے
مشامٍ تیز سے صحرا میں‌ملتا ہے سراغ اس کا
ظن و تخمیں سے ہاتھ آتا نہیں آہوئے تاتاری
جو قومیں شک وشبہ سے یہ اندازہ لگا لیتی ہیں کہ میرے نگاہوں میں‌جو Culprit ہے، بس وہی مجرم ہے، غلط اور شک پر مبنی اندازوں سے اصل بات یا آہوئے تاتاری گرفت میں نہیں آتاہے۔ آپا صالح کا ذکر کرتے ہوئے مجھے اپنے ایک دوست سعید اللہ صاحب یاد آ گئے، وہ سائیکالوجی کے پرفیسرے تھے اور وہ لندن پی ایچ ڈی کرنے گئے تھے۔ جب وہ پی ایچ ڈی کر رہے تھے اور وہاں انہیں تین چار سال ہو گئے تھے (اس زمانے میں پی ایچ ڈی ذرا مشکل کام تھا) تو ان کی بیوی کے ساتھ ایک عجیب و غریب حادثہ گزرا۔ وہ جب تہہ خانے میں نہانے کے لئے جاتی اور پانی گرم کرنے والا الیکٹرک راڈ پانی میں ڈال کر کپڑے اتار کر نہانے لگتی تو عین اسی وقت ان کے ٹیلی فون کی گھنٹی بج اٹھتی تھی اور وہ دوبارہ سے کپڑے پہن کر سیڑھیاں چڑھ کے ٹیلی فون کا ریسیور اٹھا کر جب ہیلو کہتی تو انہیں کوئی جواب نہیں ملتا تھا اور ان کے ساتھ یہ واقعہ تقریباً ہر روز پیش آتا۔اس پر پروفیسر سعید اللہ صاحب نے وہاں کی پولیس کو اطلاع کر دی اور پولیس نے تفتیش اور تحقیق شروع کر دی۔ جب ہماری آپا (پروفیسر دوست کی اہلیہ) نہانے کے لئے نیچے گئیں اور انہوں نے کپڑے اتارے تو گھنٹی بجی۔ پولیس والوں نے فون اٹھایا لیکن کوئی جواب موصول نہ ہوا۔ پولیس اس حوالے سے تحقیق جاری رکھنے کا کہ کر چلی گئی۔ اب پروفیسر کو اندازہ ہوا کہ ہمارے سامنے جو مکار اور موٹا سا آدمی جس کی ٹانگ کٹی ہوئی تھی، رہتا ہے یہی فون کرتا ہوگا اور وہ تھا بھی کچھ بدتمیز قسم کا۔ چنانچہ پولیس نے بھی اس کے نمبر پر پہرہ بٹھا دیا۔ حالانکہ وہ شخص فون نہیں کرتا تھا۔ پولیس نے ایکسچینج سے بھی پتہ کیا لیکن وہاں سے پروفیسر صاحب کے نمبر پر کوئی فون کال آنے کی بابت تصدیق نہ ہوئی۔ لندن کا یہ واقعہ اتنا مشہور ہوا اور یہ ذرائع ابلاغ کی زینت بن گیا۔ ہر چھوٹے بڑے صبح، دوپہر کے اخبارات میں اس بات کا ذکر ضرور آتا تھا۔ ابھی تک وہ ملزم گرفتار نہیں ہوا اور اس چور کا پتہ نہیں چل سکا۔ چنانچہ سب تھک ہار کر بیٹھ گئے۔ پروفیسر سعید اللہ صاحب کی بیوی نے کہا کہ اب اسے اس ملک میں نہیں رہنا اور انہیں یہاں سے چلے جانا چاہئے کیونکہ یہاں‌کے لوگ بدتمیز اور بدمعاش ہین اور ان کا اندازٍ زیست شریفوں والا نہیں ہے۔ پروفیسر صاحب بے کہا کہ میرا تھوڑا ساکام باقی رہ گیا ہے، وہ ختم کر لیں تو چلتے ہیں۔ ان کی بیوی نے کہا کہ دفع کرو، کیا پی ایچ ڈی کے بغیر زندگی بسر نہیں ہوت؟جب پروفیسر صاحب پر اہلیہ کا شدید دباؤ پڑا تو انہیں پی ایچ ڈی بالکل غرق ہوتی نظر آئی تو انہوں نے کہا کہ میں اس کی تحقیق کرتا ہوں۔ پروفیسر صاحب بتایا کرتے ہیں کہ وہ کسی زمانے میں ریڈیو کے ٹرانسسٹر بنایا کرتے تھے۔ ان ٹرانسسٹرز کو کرسٹل سیٹ کہا جاتا تھا جس میں ایک لمبے سے ایریل کو نیچے گملے وغیرہ میں ارتھ دے کر گھمایا جاتا تھا اور کبھی نہ کبھی کوئی نہ کوئی اسٹیشن پکڑا ہی جاتا تھا۔ یہ سن سینتیس اڑتیس کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں اپنا الیکٹرانکس کا علم جتنا بھی ہے، اسے استعمال کروں گا۔ چنانچہ انہوں نے اس فون کے بجنے کی آواز پر اپنے کان رکھے اور جونہی نیچے ان کی بیوی نہانے کے لئے گئیں، انہوں نے آواز دے کر کہا، بیگم راڈ لگایا، جب آواز آئی ہاں تو پروفیسر صاحب بے کہا، دیکھو ابھی گھنٹی بجی! اور عین اسی وقت گھنٹی بج اٹھی۔ اس پر پروفیسر صاحب نے تحقیق شروع کر دی اور 6 دن کے اندر اندر انہوں نے چور پکڑ لیا، جو ساری لندن پولیس اور کانسٹیبلری سے پکڑا نہ جا سکا تھا۔ وہ چور پروفیسر صاحب بے پکڑ لیا۔ چور یہ تھا کہ جب وہ بجلی کا راڈ آن ہوتا تھا اور پانی ابالنے کے لئے اس میں ڈالا جاتا تھا تو اس بجلی کی تار کے قریب سے فون کی تار نیچے زمین سے گزرتی تھی۔ جونہی وہ بجلی کی تارEnergise ہوتی، وہ فون کی تار کو بھی Heat Up کر دیتی تھی اور اس وجہ سے فون کی تار کرنٹ محسوس کر کے گھنٹی بجانا شروع کر دیتی تھی اور اس میں کوئی آدمی ملوث نہیں تھا۔ پروفیسر صاحب کہتے ہیں کہ جس کرب کی حالت میں انہوں نے وہ پورا سال گزارا تھا، وہ یا میں جانتا ہوں یا میری بیوی جانتی ہے۔ اس طرح‌کے واقعات حیات انسانی میں گزرتے رہتے ہیں اور اب بھی گزررہے ہیں تو اس عذاب سے نکلنے کے لئے روحانی طور پر اللہ سے مدد مانگی جا سکتی ہے کیونکہ اس نے شک سے منع فرمایا ہے۔ ہم خدا سے مدد مانگ کر اس قسم کے کربناک مرض سے باہر نکل سکتے ہیں۔ اگر کبھی آپ کو ایسی مشکل دورپیش ہو کہ ہم شک و شبہ یا ظن میں مبتلا ہو جائیں‌تو پھر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام کر اور اپنا آپ سارے کا سارا ڈھیلا چھوڑ کر خود کو اس کے حوالے کر کے اس کا حل تلاش کریں تو اس کا حل تلاش کرنا ممکن ہے۔ میں‌آپ کو آخر میں یہ تسلی دے دوں کہ اس بچے کو جس کو میری بیوی نے شک میں باندھ دیا تھا، اس سے ہم دونوں میاں بیوی نے معافی مانگ لی ہے اور میرا بیٹا اس کو اپنے ساتھ لے جا کر کچھ مٹھائی شٹھائی بھی کھلا چکا ہے۔ ایسے واقعات رونما ہو تے رہتے ہیں لیکن ان کو بڑی بصیرت، خوش دلی، سبھاؤ اور برداشت کے ساتھ نمٹانا چاہئے۔ اگر جلد بازی اور خوش دلی سے کام نہ لیا گیا تو وہی صورتحال ہو گی جو میری آری چور کے بارے میں ہو گئی تھی یا دیگر واقعات کی مانند۔ اب اجازت چاہوں گا۔ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں‌تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ فی امان اللہ۔
 

شمشاد

لائبریرین
باب 30

باب 30

“ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے “

خطوط کی دنیا بھی ایک نرالی دنیا ہے اس کا انسانی زندگی پر اور انسانی تاریخ پر بڑا گہرا اثر ہے۔ خط کب سے لکھے جانے شروع ہوئے اور کب آ کر ختم ہوئے۔ میں اس کے بارے میں یہ تو عرض کر سکتا ہوں کہ کب آ کر ختم ہوئے لیکن ان کے لکھے جانے کی تاریخ اس کے بارے میں یقین اور وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لکھے جانے تو اب ختم ہوئے ہیں جب کوئی ای - میل کا سلسلہ شروع ہوا ۔ جب Chatting کا نیا لفظ ایجاد ہوا۔ جب کمپیوٹر کے ذریعے طرح طرح کے طریقے انسان کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنے ہیں لیکن خطوںکا جو حسن تھا اور خطوں میں جو بات ہوتی تھی اور ان کے اندر جس طرح سے اپنا آپ، اپنی روح، زندگی اور نفسیات نکال کر پیش کر دی جاتی تھی وہ اب نہیں رہی۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاید ہم اس یونیورسٹی کے آخری طالبِ علم تھے جو چوری چوری خط لکھا کرتے تھے اور بڑے اچھے خط لکھا کرتے تھے۔ اب میں اپنے سٹوڈنٹس، بیٹوں، پوتوں اور نواسیوں کو دیکھتا ہوں تو وہ کہتے ہیں Stop it Dada because this way of Communication is very silly and we can not write.

ہمیں تو اتنا وقت ہی نہیں ملتا کہ خط لکھتے پھریں۔ خواتین و حضرات وقت خدا جانے کدھر چلا گیا ہے کہ آدمی آدمی سے خط و کتابت کے ذریعے رابطہ قائم نہیں کر سکتا۔ آپ یہ تو ضرور جانتے ہوں گے کہ خط کس کس طرح کے لکھے گئے، کیسی کیسی خطوط پر مبنی کتابیں چھپیں۔ آپ دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ رومی فلاسفر جو فورم میں کھڑے ہو کے باتیں کرتے تھے اور ان کی باتیں آگے پہنچائی جاتی تھیں۔ سقراط آیا، اس کے بعد افلاطون اور ارسطو آیا۔ ارسطو کے فلسفے کو آگے پہنچانے کے لیے لوگوں نے چھوٹے چھوٹے رقعوں میں اس کے فلسفے کو بیان کیا اور اسے آگے اپنے دوستوں تک ارسال کیا۔ اس طرح ہمارے صوفیائے کرام نے خطوں کے ذریعے دور بسنے والے اپنے مریدیں کے لیے اپنے پیغامات پہنچائے۔ بادشاہوں نے بھی خطوط کا یہی سہارا لیا۔ مجھے اورنگزیب عالمگیر کی مشہور تصنیف رقعاتِ عالمگیری یاد آ رہی ہے جو خطوط پر مبنی ہے۔ اس میں وہ خط ہیں جو وہ اپنے بیٹوں کو لکھتا رہا تھا جس میں وہ شہزادوں کو مخاطب کرتا ہے۔ ایک خط فارسی میں لکھا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ “ شکار بے کاروں کا کام ہے۔“ (شہزادہ شکار پر گیا ہو گا تو بادشاہ نے اسے یہ خط لکھا ہو گا۔ محبت کے خزانے بھی خطوط کے ذریعے ہی بھرے گئے۔)

ادب نواز لیلٰی کے خطوط کو جانتے ہیں اس کے بعد مجنوں کی ڈائری چھپنی شروع ہوئی پھر سجاد، زبیر اور رضیہ کے خطوط چھپے۔ اس طرح خط زندگی پر چھائے رہے اور بہت قریب اور غالب آ کر چھائے رہے۔ مرزا غالب کے خط تو آپ سب نے ضرور پڑھے ہوں گے۔ غالب بڑی محبت اور روانی و شستگی سے بات کرتا تھا۔ اور اس کی باتیں ایسی ہوتی تھیں جیسے کوئی ڈاہیلاگ رائٹر لکھ سکتا ہے۔ جتنے بھی بچے جو ڈرامہ نگار میرے پاس کچھ پوچھنے یا سیکھنے کے لیے آتے میں انہیں یہی مشورہ دیتا کہ آپ غالب کے خط جب تک نہیں پڑھیں گے آپ کے اندر ڈرامے اور مکالمے کی سینس پیدا نہیں ہو گی کیونکہ غالب کے بات کرنے کا ڈھنگ ہی نرالا ہے۔ آٹھویں یا نویں جماعت کی اردو کی کتاب میں سے مجھے غالب کے خط کے چند فقرے یاد آ رہے ہیں :

“میر مہدی مجروح تم مشقِ سخن کر رہے ہو میں مشقِ فنا میں مستغرق ہوں۔ ارے میاں، ارے میاں اس دنیا میں اگر کوئی پہلوان ہوا تو کیا؟ کوئی نامی گرامی جیا تو کیا؟ کوئی گمنام مرا تو کیا؟ یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ تھوڑی سے پونجی ہے، تھوڑی سی صحت جسمانی، باقی سب وہم ہے پیارے جانی۔“

جب کبھی غالب تھک جاتا ہے تو کہتا ہے

“ میں کیا کروں، اگرچہ اس وقت اللہ کے ساتھ شکوہ نہیں کیا جا سکتا لیکن آرزو کرنا آئینِ عبودیت کے خلاف نہیں ہے۔ میری آرزو ہے کہ اب میں زندہ نہ رہوں اور اگر رہوں تو کم از کم اس ملک میں نہ رہوں کہیں اور خراسان، ایران نکل جاؤں۔ یہاں کے لوگ بڑے ظالم ہیں۔“

ایک اور جگہ کہتا ہے :

“ رکاب پر پاؤں ہے اور راس پر ہاتھ ہے۔ دور دراز کا سفر درپیش ہے۔ سقر مکر ہے اور حاویہ زاویہ ہے اور کیا کسی کا ایک اچھا شعر ہے (ذوق کا ہے)

اب تو گھبرا کے کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

ایک زمانے میں محبوب کبوتر کے گلے میں پرچی ڈال کر بھیج دیا کرتے تھے کیونکہ ایک دوسرے سے ملنا جلنا مشکل ہوتا تھا۔ ان کبوتروں کی خدمات سے بعد میں جنگوں میں بھی فائدہ اٹھایا گیا اور دوسری جنگِ عظیم میں باقاعدہ کبوتر کو ٹریننگ دی گئی اور ان کے پنجوں کے ساتھ ایلوموینم کی ایک باریک سے پنسل جیسی نلکی میں خط لپیٹ کر رکھ دیا جاتا تھا اور کبوتروں نے جاسوسی کا کام خوب کیا اور خوش اسلوبی سے انجام دیا۔ میں یہ ساری باتیں اس لیے کر رہا ہوں کہ میرے پاس بھی ایک خط ہے اور میں اسے لیے پھرتا ہوں۔ میں اسے ضرور سناؤں گا۔ یہ خط سنانے سے پہلے مجھے خطوں کی اور باتیں بھی یاد آ رہی‌ ہیں۔

اکبر الہ آبادی کے بیٹے جو لندن میں تھے وہ خط نہیں لکھتے تھے جس پر اکبر الہ آبادی ان سے بہت شاکی رہتے تھے۔ اس زمانے میں خط سمندر سے یا بحری جہازوں کے ذریعے آتے تھے۔ ایک بار انہوں نے اپنے بیٹے کو خط میں لکھا تو ان کے بیٹے نے جواب میں لکھا کہ ابا جان جب واقعات گزرتے ہیں تو میں مصروف ہوتا ہوں جس کے باعث خط نہیں لکھ سکتا اور جب واقعات نہیں ہوتے تو کوئی چیز لکھنے والی نہیں ہوتی اور میں اس وجہ سے خط نہیں لکھتا۔

(محفل میں سے ایک صاحب اس خط کے بابت ایک شعر بھی یاد کرواتے ہیں، جس کا ایک مصرعہ اس طرح سے ہے “ کھا کے لندن کی ہوا عہد وفا بھول گیا۔)

جب بچے بڑی یونیورسٹیوں میں پڑھنے کے لیے چلے جاتے ہیں تو میری طرح کے تھوڑے پڑھے لکھے والدین خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ ایک بار دو بابے بیٹھے ہوئے تھے اور باتیں کر رہے تھے۔ ایک نے کہا کہ یار میرا بیٹا جو خط لکھتا ہے تو مجھے بڑی پریشانی ہوتی ہے اور مجھے اس کے خط کو لے کر لائبریری جانا پڑتا ہے اور مجھے وہاں جا کر موٹی ڈکشنری کھول کے مشکل الفاظ کے معانی دیکھنے پڑتے ہیں۔ کیونکہ میں زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہوں۔

دوسرا کہنے لگا یار کیا کمال کی بات ہے میرے بیٹے کا جب بھی خط آتا ہے تو مجھے بینک جانا پڑتا ہے کیونکہ اس نے خط میں پیسے مانگے ہوئے ہوتے ہیں۔

خطوں سے وابستہ بڑی لمبی داستانیں ہیں۔ اگر ہم اس کی طرف چل نکلے تو بڑا وقت لگ جائے گا اور میرا یہ خط رہ جائے گا جو آپ کو سنانا بڑا ضروری ہے۔ ہم نے پہلے دوسری جنگِ عظیم کا ذکر کیا تو آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ اس جنگ میں ہمارے علاقے کا سب سے بڑا اور طاقتور محاذ برما تھا اور ہمارے بہت سارے فوجی وہاں پر تھے۔ وہ فوجی جو محاذِ جنگ پر ہوتے ہیں ان کی سب سے بڑی آرزو اور تمنا گھر سے آنے والے خط کی ہوتی ہے چنانچہ ان پر پریشانیوں کی جو پرچھائیاں پڑتی ہیں وہ خطوں کے ریفرنس سے ہی ہوتی ہیں۔ فوجی دروانِ جنگ جنگل میں تھے اور ڈاک جب تقسیم ہوئی تو کسی فوجی کے گھر سے کوئی خط نہ آیا اور چار پانچ چھ دن ایسے ہی گزر گئے۔ ایک دن ایک خوش نصیب کا خط آ گیا اور دوسرے جو تین چار پانچ فوجی بیٹھے تھے کیونکہ ان کا کوئی خط نہیں آیا تھا اور جس کا خط آیا تھا اس نے خوشی سے لفافہ لہرایا اور کہا کہ دیکھو ایسے خط ہوتے ہیں جو گھر سے آتے ہیں۔ اس نے لفافہ چاک کیا اور اس سے کاغذ نکالا۔ اس کاغذ ‌کے دونوں طرف کچھ بھی لکھا ہوا نہیں تھا، وہ بالکل کورا کاغذ تھا۔

دوسرے فوجی اس کا مذاق اڑانے لگے لیکن اس نے کہا کہ نہیں کہ کورا کاغذ نہیں بلکہ باقاعدہ ایک خط ہے۔ یہ میری بیوی کا خط ہے۔ آج کل ہماری بول چال بند ہے اس لیے یہ خالی کاغذ ہے لیکن مجھے یہ پتہ ہے کہ خط میری بیوی کا ہے۔

خواتین و حضرات، میرے ہاتھ میں جو خط ہے وہ کچھ اس طرح سے ہے :

“جناب نامعلوم مگر موجود یہیں کہیں السلام علیکم !

مجھے یقین ہے کہ آپ کو 8 جون کی تاریخ اسی طرح سے یاد ہو گی جیسی کہ مجھ کو ہے۔ اس روز میں نے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ میں آپ کو عمر بھر نہیں بھلاؤں گا۔ اس تاریخ سے پہلے میں اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ پارک میں جاتا تھا۔ ہم بینچ پر بیٹھتے تھے اور ہمارا بچہ ہمارے سامنے پھولوں کی کیاریوں کے درمیان بھاگا کرتا تھا۔ اس تاریخ سے پہلے میں نے اپنے پورے خاندان کا بوجھ اٹھایا ہوا تھا اور میں کبھی کبھی دو چار آنے فقیروں کو بھی خیرات کر دیا کرتا تھا۔ اب عرصہ دس سال سے میں بیکار پڑا ہوں۔ ٹھیک آٹھ جون سے، ٹھیک اس رات سے جب تم نے میری کمر میں اپنے پستول کو گولی اتاری تھی اور وہ ریڑھ کی ہڈی میں پھنس گئی تھی۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ اس رات تم بہت ہی نروس تھے اور پستول تمہارے ہاتھ میں کانپ رہا تھا۔ میں نے اندازہ لگایا تھا کہ تم پہلی بار کسی پٹرول پمپ کو لوٹنے آئے ہو۔ میں نے دن بھر کی کمائی ساری کی ساری تم کو دے دی تھی۔ پھر پتہ نہیں تم کو کیا ہوا اور تم نے کیوں میرا دایاں بازو مڑور کر میری کمر سے لگا دیا اور مجھے دھکیلتے ہوئے اندر کمرے میں لے گئے۔ وہاں تم نے میرے سر میں پستول کا بٹ مار کر مجھے اوندھے منہ فرش پر گرا دیا۔ پھر پتہ نہیں میرے اوندھے منہ گر جانے کے بعد تم نے پستول کیوں چلایا؟ ایک زور دار دھماکہ ہوا اور اندھیرے کمرے میں ایک شعلہ سا لپکا۔ پھر مجھے کچھ ہوش نہ رہا اور جب میں جاگا تو گردن کے نیچے میرا سارا جسم شل ہو چکا تھا اور میں فرش پر بے حس و حرکت پڑا تھا۔ پھر تین لڑکے اپنی موٹر سائیکلوں میں پٹرول بھروانے آئے اور انہوں نے مجھ سے میرا حال دریافت کیا۔ میرا خیال تھا کہ میں زور زور سے پکار کر چیخیں مار کر لوگوں کو اپنی طرف بُلا رہا تھا مگر ان لڑکوں نے مجھے بتایا کہ تمہارے منہ سے صرف سرگوشی جیسی آواز نکل رہی تھی جو بہت ہلکی تھی۔ مجھے بالکل یاد نہیں کہ کس طرح مجھ کو لوگوں نے حیدرآباد کے ہسپتال میں پہنچایا جہاں مجھے داخل کرا دیا گیا۔ میری 19 سالہ روتی ہوئی بیوی کو ڈاکٹروں نے بتایا کہ ہم مجبور ہیں اور ہم مجبور ہیں اور ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ہڈی میں پھنسی ہوئی گولی کو نکالنا خطرناک ہے۔ میری بیوی مجھے اٹھا کر گوٹھ لے آئی اور ہم سب میرے مرنے کا انتظار کرنے لگے۔ میں دن رات ایک پھٹے (تختے) پر لیٹا ایک کوٹھری میں پڑا رہتا اور میری بیوی مجھے دوا کی گولیاں کھلاتی رہتی۔ ایک روز میں نے دیکھا کہ ایک نہایت تیز دھار قینچی میرے تختے کے پاس کھلی پڑی تھی۔ اس کا ایک پھل بہت آسانی سے میرا کام تمام کر سکتا تھا۔ مجھے اسے اس قدر قریب دیکھ کر خوشی ہوئی لیکن میرا بے حس ہاتھ اسے اٹھانے سے معذور تھا۔ میری موت بھی میرے اختیار میں نہیں تھی۔ میں اس کو دیکھ رہا تھا اور وہ میرے قریب نہیں آ رہی تھی۔ میں تمہیں صاف صاف بتا دوں کہ تمہارے پستول کی گولی پورے چھ ماہ میری ریڑھ کے مہرے میں موجود رہی اور میں اسے دل سے لگا کے بے حس و حرکت جیتا رہا۔ پھر مجھے کراچی کے آغا خان ہسپتال لے جایا گیا۔ جہاں ڈاکٹروں نے مل کر بڑی احتیاط سے پھنسی ہوئی گولی میرے وجود سے نکال دی لیکن مجھے بتایا گیا کہ میں زیادہ سے زیادہ اب اٹھ کر اپنی چارپائی کے کنارے پر بیٹھ سکوں گا۔ بشرطیکہ میرے ارد گرد اور میری کمر کے پیچھے لکڑی کا ایک مخصوص ڈبہ بنا کر رکھا جائے۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ میں ٹھوڑا سا بیٹھ کر کھانا کھا سکا کروں گا لیکن یہ بہت مشکل تھا۔ میری بیوی اور میرا بوڑھا باپ مجھے اٹھا کر لکڑی کے سہارے بٹھا دیتے تھے اور پھر مجھے اس لکڑی کے تختے کے ساتھ باندھ دیتے تھے۔ میں کچھ لقمے خود کھا سکتا اور گلاس اٹھا کر پانی بھی پینے لگا تھا۔ گھر والے شام کر مجھے اٹھا کر صحن میں لمبی صف پر ڈال دیتے اور میں اس پر کھسکتا کھسکتا اس صف کے دوسرے کنارے پہنچ جاتا ہوں پھر ادھر سے اسی طرح سے واپس آ جاتا۔ میں خوش ہوں کہ کسی کے مدد کے بغیر بدن کو خود حرکت دے سکتا ہوں۔ پھر مجھ پر درد کے خزانے نچھاور ہو گئے۔ پہلے میرے بازوؤں میں درد اٹھا اور میں پندرہ دن تک تڑپتا رہا۔ پھر درد ٹانگ میں منتقل ہو گیا اور مجھے یوں لگتا گویا میری ٹانگ آری سے کاٹی جا رہی ہے اور الگ ہونے کو نہیں آتی پھر یہی درد پیٹ میں چلا گیا اور میں قے کر کر کے عاجز آ گیا۔ اس کے بعد میرے اوپر کے دھڑ میں تھوڑی طاقت آنے لگی اور میں بیساکھیوں کے سہارے کھڑا بھی ہونے لگ گیا لیکن چونکہ ٹانگوں میں کوئی حس موجود نہیں اس لیے میں چل نہیں سکتا۔ اب میرے ہاتھوں اور بازوؤں میں ایک سنسناہٹ ہے لیکن ٹانگیں بالکل ساکت ہیں۔ بیساکھیوں کے سہارے کھڑے کھڑے کئی مرتبہ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نے کھولتے ہوئے پانی کے حمام میں اتار دیا ہو۔ میرا سارا بدن جل جاتا ہے سوائے میری ٹانگوں کے۔ میں نے خدا سے دعا کی تھی کہ یااللہ اگر تو نے مجھے کچھ اور نہیں دینا تو مجھے مسلسل درد عنایت فرما دے کیونکہ مکمل بے حسی کے مقابلے میں درد ایک بڑی نعمت ہے۔ انسان کو پتہ چلتا رہتا ہے کہ وہ موجود ہے اور وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ موجود ہے۔ درد کے زور پر کئی مرتبہ میرے دونوں ہاتھ ایک ساتھ اٹھ جاتے ہیں اور میں آدھے منٹ تک انہیں وہاں فضا میں رکھ سکتا ہوں۔ پھر میرے ہاتھ نیچے گر جاتے ہیں۔ اور میں درد کی دوسری لہر کا انتطار کرنے لگتا ہوں۔ جس رات تو نے مجھے گولی ماری تھی اس سے کچھ ماہ بعد جب میرا سارا وجود ساکت اور صرف گردن کے اوپر کا حصہ زندہ تھا میں نے خدا سے ایک اور آرزو کی تھی کہ میرے دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر دو منٹ تک کے لیے اٹھے رہنے کی سکت عنایت فرما دے تا کہ میں کوئی چھوٹی سے دعا مانگ سکوں۔ میری آرزو پوری ہو گئی اور میں چارپائی پر لیٹ کر اس عید کے موقع پر جو ابھی گزری ہے گاؤں کی عیدگاہ میں پہنچ گیا۔ میرے والد اور ماموں نے مجھے بیساکھیاں دے کر ایک درخت کے سہارے کھڑا کر کے مجھے وہاں باندھ دیا تا کہ گِر نہ جاؤں اور میں نمازیوں کو وہاں جمع ہوتے ہوئے دیکھنے لگا۔ مولوی صاحب نے خطبے میں فتح مکہ کے تعلق سے ایک شخص کی معافی کا واقعہ سنایا۔ یہ وہ شخص تھا جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب چچا حضرت حمزہ رضی اللہ کو نیزہ مار کر شہید کیا تھا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دوستوں جیسے پیارے چچا کی رحلت کا بڑا ہی غم تھا لیکن اس گہرے غم کے باوجود آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص “ وحشی “ کو معاف کر دیا۔ میں نے عین اسی وقت جب میں یہ واقعہ سن رہا تھا دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کی کہ “ اے میرے اللہ اس نوجوان کو جس نے 8 جون کو مجھے گولی ماری تھی، وہ جہاں کہیں بھی ہے معاف کر دینا۔ اس بے چارے کو پتہ نہیں تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ میرے گمنام دوست مجھے آپ کا نام معلوم نہیں ہے اور نہ ہی آپ مجھ سے کبھی مل سکیں گے اس لیے میں آپ کو یہ خط لکھ رہا ہوں۔ میرے پاس آپ تک پہنچنے کا اس سے بہتر اور کوئی ذریعہ نہیں تھا جو میں نے اختیار کر لیا ہے۔ اس دن سے لے کر آج تک کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب میں نے صبح سویرے سب سے پہلے تمہاری صحت و سلامتی کی دعا نہ کی ہو اور اونچی آواز میں پی ٹی وی کی مشہور عالم صدا نہ دی ہو کہ اللہ تم کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔“

خدا حافظ۔
 

ماوراء

محفلین
چلا س کی محبتیں​


جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے پچھلی باتیں بڑی شدت، صفائی اور جزویات کے ساتھ یاد آتی چلی جا رہی ہیں لیکن خدا کا شکر ہے کہ ان میں کوئی ایسی ناخوشگوار بات نہیں ہے صرف اس بات کا ان یادوں میں ضرور احساس پایا جاتا ہے کہ وہ لوگ اور وہ زمانے جس میں شفقت و محبت اور انس زیادہ تھا وہ کہاں چلے گئے اور ہم اس قدرکیوں مصروف ہو گئے۔ اس میں ہماری کوئی خرابی نہیں ہے بلکہ سارا چکر مصروفیات کا ہے اور ہماری مصروفیات کا عالم ایسا ہے کہ ہم ان شفقتوں سے کٹ گئے جو محبتیں خدا نے ہمیں عطا کی تھیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ شقیق قلوب جو ہیں انہوں نے کتاب سے پڑھ کر شفقت حاصل نہیں کی تھی یا کسی سے سیکھ کر محبت کا علم نہیں پایا تھا بلکہ اللہ نے وہ دل ہی ایسے پیدا کیے تھے کہ ان کے اندر محبت و شفقت بھری ہوئی تھی اور وہ جو بھی کام کرتے تھے ان میں لوگوں کے لیے بے شمار آسانیاں ہوتی تھیں۔ بہت دیر کی بات ہے ہماری ایک سوسائٹی تھی جو کافی دیر تک چلتی رہی اس کا نام “چھڈیار“ تھا۔ اس میں ہم سات ممبر تھے۔ پہلے میں شامل افراد صرف ریڈیو سے متعلق تھے پھر ٹیلی ویژن سے بھی آ کر شامل ہو گئے۔ اس سوسائٹی کے چیئرمین ممتاز مفتی تھے جبکہ ہمارے لیڈر عمر بقری تھے۔ اس چھوٹی سی انجمن کا نام ہم نے “چھڈ یار“ یہ سوچ کر رکھا کہ دفعہ کرو دنیا کے جھگڑے جیہڑے، چھڈ یار ان کو اور اٹھ کھڑا ہو، نکل پڑ کیونکہ یہ تو ساتھ ہی چمٹے رہیں گے۔ چنانچہ ایک تاریخ مقرر کر دی جاتی تھی اور اس میں چھڈ یار کا لیڈر اعلان کر دیتا تھا کہ “چھڈ یار“ نے ١٣ تاریخ کو “اٹھ یار“ میں تبدیل ہو جانا ہے۔ اس مقرر کردہ تاریخ کو ہم اپنے سلیپیگ بیگ اور اپنے ساتھ مکھن، سیب اور ڈبل روٹی وغیرہ لے کر نکل پڑتے تھے اور ہماری منزل ناردرن ایریا ز یعنی شمالی علاقہ جات ہوتا تھا۔ وہ دنیا کا خوب صورت ترین علاقہ ہے۔ یہ بات میں اس لیے نہیں کہتا کہ میں پاکستانی ہوں بلکہ اس سے زیادہ خوب صورت علاقے میں نے امریکہ اور انگلستان میں بھی نہیں دیکھے۔ خدا نے جانے کس طرح سے ان حسین وادیوں کو ترتیب دیا اور بنایا ہے۔ ایک طرف راکاپوشی پہاڑ سینہ تانے کھڑا نظر آتا ہے تو دوسری طرف ناگا پربت کھڑا ہے۔

ایک بار جب ہم علاقے میں گئے اور ایک جگہ چائے پینے کے لیے رکے تو وہاں اڑھائی سو جرمن مرد، عورتیں اور ان کے بچے چارپائیاں کرائے پر لے کر بیٹھے ہوئے تھے اور کسی سے بات نہیں کرتے تھے۔ وہاں اس بس اڈے پر لوگوں نے بتایا کہ یہ ناگا پربت دیکھنے آئے ہیں۔ ناگا پربت کا حسن لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتا ہے۔ وہ جرمن سیاح تین روز سے چارپائیاں کرایہ پر لیے بیٹھے تھے اور اپنے سامنے ناگا پربت کو مسلسل دیکھ رہے تھے۔ نہ کھانا کھایا، نہ لیٹے بس چائے کی ایک ایک پیالی اور خدا کی عظیم قدرت کا نظارہ کرتے رہے۔ ہم وہاں یہ ضرور سوچتے تھے کہ خدا ہمیں بھی یہ توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنی چیزوں کو پسند کر سکیں اور ان کے قریب آ سکیں۔ ہم شاہراہ ریشم پر چل رہے تھے اور ہمیں شام پانچ چھ بجے کے قریب چلاس پہنچنا تھا۔ چلاس پہاڑی علاقہ ہے اور کافی اونچائی پر ہے۔ یہ خوب صورت علاقہ ہے اور اس کے پہاوں کے شگافوں میں ایک سیاہ رنگ کی دوائی (سلاجیت) پیدا ہوتی ہے وہ بہت قیمتی ہوتی ہے۔ ہمارے لیڈر نے وہاں رکنے کا بندوبست کیا تھا اور وہاں ایک سکول ماسٹر کے گھر پر ہمارے ٹھہرنے کا انتظام تھا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو شام پانچ کی بجائے ہمیں رات کے دس بج گئے۔ اس دیر کی بابت ہم سب نے فیصلہ کیا کہ اتنی رات کو کسی گھر جانا برا لگتا ہے چنانچہ ایک صاف سے پہاڑ پر جس پر ایک عدد سرکاری بتی بھی لگی تھی ہم اپنے بستر کھول کر اس بتی کے نیچے بیٹھ گئے۔ بڑی مزیدار ہوا چل رہی تھی۔ وہاں قریب ہی پانی کا ایک نل تھا جو کسی بہت ہی خوشگوار چشمے کے ساتھ وابستہ تھا۔ ہم وہاں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ اچانک بہت خوفناک طوفان چلنے لگا۔ تیز ہوا کے اس طوفان سے عجیب طرح کا ڈر لگ رہا تھا۔ اس تیز ہوا کے سبب ریت بھی اڑنے لگی۔ جن لوگوں نے چلاس دیکھا ہے انہیں پتہ ہو گا کہ وہاں اگر تقریباً دو کلومیٹر کا فاصلہ طے کریں تو ریگستان شروع ہو جاتا ہے اور پہاڑوں پر چلتے ہوئے اچانک حد نگاہ تک ریت دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس تیز طوفان کے ساتھ ہی تیز بارش بھی ہونے لگی اور اولے بھی پڑنے لگے۔ ہمارے پاس Protectionکے لیے کوئی چیز یا جگہ نہ تھی۔ اس موقع پر ہمارے لیڈر عمر بقری مرحوم نے کہا کہ ماسٹر صاحب کے گھر چلنا چاہیے۔ خیر ہم نے اس اندھیرے اور طوفان میں آخر کار گھر تلاش کر ہی لیا۔ جب وہاں پہنچے تو ماسٹر صاحب پریشان کھڑے تھے اور ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ کسی کے سوئم پر گئے تھے لیکن اپنی بیوی کو اشارہ دے کر گئے تھے کہ میرے دوست آئیں گے۔ ان ماسٹر صاحب کی بیوی بھی ایک سکول ٹیچر تھی۔ جب ہم وہاں بیٹھے باتیں واتیں کر رہے تھے تو وہاں اس سخت بادوباراں میں ایک دس بارہ برس کا لڑکا جس کا نام جس عبدالمجید تھا وہ اپنی بیساکھی ٹیکتا ہوا آیا۔ وہ بے چارہ ٹانگ سے معذور تھا۔ اس نے دروازہ کھٹکھٹایا تو استانی صاحبہ نے دروازہ کھولا اور اس نے کہا کہ میرے ابا جی نے کہا ہے کہ ماسٹر صاحب آج قریب کے گاؤں میں گئے ہوئے ہیں اور تو آپا جی کی خبر لیکر آ کہ وہ ٹھیک ٹھاک ہیں کہ نہیں انہیں کوئی مسئلہ تو نہیں ہے۔ اس دوران بارش مزید تیز ہونے لگی اور ژالہ باری بھی تیز ہو گئی۔ وہ لڑکا ڈر گیا اور کہنے لگا کہ آپا جی آپ کو ڈر لگتا ہے تو میں درمیان میں حماقت یا اپنے علم کا اظہار کرنے کے لیے بول پڑا کہ اس میں ڈرنے والی کیا بات ہے؟ یہ تو موسم ہے لیکن آپا جی کہنے لگیں کہ ہاں مجھے ڈر لگتا ہے اور بالکل ایسے ہی ڈرتی ہوں جیسے تم ڈرتے ہو لیکن جب مرد گھر میں ہوں تو پھر مجھے ڈر نہیں لگتا (اس زمانے میں شاید تحریک نسواں نہیں چلی تھی اور مرد عورتوں میں کافی اچھے تعلقات تھے) مجھے ان کی بات سن کر شرمندگی کا احساس ہوا کہ یااللہ میں نے یہ کیا بات کر دی۔ میں اب محسوس کرتا ہوں کہ اس آپا جی نے اتنی سی بات کر کے اس معذور لڑکے کو ایک پوری شخصیت عطا کر دی تھی اور وہ تگڑا ہو کے کہنے لگا اچھا جی میں اب جاتا ہوں اور اپنے ابا جی کو جا کے بتاتا ہوں کہ وہ خیریت سے ہیں۔
خواتین و حضرات! جی چاہتا ہے کہ کاش میرا دل بھی ایک دن یا ایک ہفتے کے لیے ویسا ہو جائے جیسا آپا جی کا تھا لیکن ہوتا نہیں ہے۔ میں زور لگا کر زبردستی شرافت اختیار کر سکتا ہوں لیکن جو پیدائش اور جبلی شرافت میرے پاس نہیں ہے۔ جب ہم اگلے دن سفر کر رہے تھے تو میں اپنے بچپن کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ جب میں پانچ چھ برس کا تھا۔ اس وقت میری ماں نے اپنی سہیلیوں کی دعوت کی تھی۔ یہ غالباً ١٩٣٠ء کی بات ہے۔ میری ماں نے اپنی سہیلیوں کے لیے مراد آباد کے برتنوں میں کھانا لگایا۔ پھول وغیرہ بھی لگائے۔ جب میں نے اپنی ماں کا اتنا اہتمام دیکھا تو میں نے سوچا کہ مجھے بھی اس میں حصہ بٹانا چاہیے۔ میرے پاس ایک طوطا تھا جس طرح کا سڑکوں پر نجومیوں نے کارڈ نکالنے کے لیے رکھا ہوتا ہے۔ اس کا رنگ اصلی طوطے کا تھا لیکن وہ گتے کا بنا ہوا تھا اور اس کے اندر لکڑی کا برادہ بھرا ہوا تھا۔ وہ طوطا دو آنے کا ملتا تھا اور اس کے ساتھ ربڑ کا دھاگہ بندھا ہوا ہوتا تھا۔ میں نے وہ طوطا لا کر وہاں رکھ دیا جہاں ماں نے تزئین و آرائش کی ہوئی تھی اور جہاں کھانے کا انتظام تھا اگر شاید آج کی سمجھدار ماں ہوتی تو اس بھدے سے طوطے کو اٹھا کر پھینک دیتی اور کہتی کہ تم کیا بدتمیزی کر رہے ہو لیکن وہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھی۔ وہ صرف ماں تھی اسے مامتا کے سوا اور کچھ نہیں آتا تھا۔ اس نے ایک رکابی کو اوندھا کر کے اس کے اوپر طوطا رکھ دیا اور جب ان کی سہیلیاں آئیں تو وہ انہیں بتانے لگیں کہ بھئ یہ طوطا اشفاق کا ہے جو اس خوبصورتی میں اضافہ کرنے کے لیے رکھا ہوا ہے۔ ان کی سہیلیوں نے بھی اس کی تعریف کی۔ اتنے برس گزر جانے کے بعد مجھے خیال آتا ہے کہ وہ Gracious Hearted شفیق دل ان لوگوں کو کیسے مل جاتے تھے۔ میری یہ بڑی حسرت ہے کہ ایسا دل چاہے چند روز کے لیے ہی سہی مجھے بھی مل جائے۔
جب میں اٹلی میں تھا تو میرے ایک دوست بالدی کا بھتیجا تھا اسے کچھ Tonsillitis کی مشکل آئی اور اس کا ایک پیچیدہ سا آپریشن تھا۔ اسے ہم ہاسپٹل لے گئے۔ میرے ان کے ساتھ فیملی فرینڈ شپ اور گہرے تعلقات تھے وہ لڑکا بھی کہنے لگا کہ یہ (اشفاق احمد) بھی ساتھ جائیں۔ اس لڑکے کے پاس ایک بھالو تھا وہ اس اس نے ساتھ پکڑا ہوا تھا۔ اس کا باپ کہنے لگا کہ یہ اس بھالو کو چھوڑتا نہیں ہے۔ میں کسی طریقے سے اس کو اس سے الگ کرتا ہوں۔ وہ کوشش کرتا رہا لیکن اس نے اسے نہ چھوڑا۔ خواتین و حضرات اس لڑکے کا بھالو کا نا تھا۔ ایک آنکھ کا بٹن کہیں گر گیا ہو گا۔ جب اس کو آپریشن کے لیے ٹیبیل پر لٹایا گیا تو نرس نے اس سے کہا کہ یہ بھالو مجھے دے دو لیکن اس نے دینے سے انکار کر دیا۔ اب Anaesthetist بھی پریشان کھڑے تھے کہ سرجن آ گیا۔ اس نے دیکھتے ہی صورتحال کو بھانپ لیا اور کہا کہ اچھا اتنا خوب صورت بھالو بھی ہے۔ نرس نے کہا کہ سر یہ اس بھالو کو چھوٹ نہیں رہا ہے۔ تو سرجن نے کہا کہ نہیں نہیں یہ اس کے ساتھ ہی رہے گا۔ ابھی تو اس بھالو کی آنکھ کا آپریشن بھی ہونا ہے۔ یہ سن کر اس لڑکے کا دل خوشی سے معمور ہو گیا۔ جب اس لڑکے کا آپریشن جاری تھا تو ایک شخص کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ اس بھالو کی جو ایک آنکھ نہیں ہے اسے ابھی بازار سے لگوایا جائے۔ (یہ معمولی باتیں ہوتی ہیں لیکن ان کے اثرات دیر پا اور مستحکم اور گہرے ہوتے ہیں) ایک طرف اس بچے کا آپریشن ہوتا رہا تو دوسری طرف اس کے محبوب بھالو کی آنکھ ڈلوائی گئی اور بچے کے ہوش میں آنے سے پہلے اسے وہیں رکھ دیا گیا جہاں سے اٹھوایا تھا اور اس نئی آنکھ پر ایک خوب صورت پٹی بھی باندھ دی گئی۔ وہ اس خوب صورتی سے باندھی گئی تھی کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی Living انسان کو بندھی ہوئی نہیں دیکھی۔ جب وہ بچہ ہوش میں آیا تو اس پٹی کو دیکھ کر کہنے لگا کہ اس بھالو کو کیا کیا ہے؟ اسے پٹی کیوں بندھی ہے؟
وہ سٹاف کہنے لگا کہ اس کی آنکھ کا آپریشن کیا ہے جو کامیاب ہوا ہے۔ اس پٹی کو دو دن نہیں کھولنا۔ وہ خوش خوش بھالو کو لے کر چلا گیا۔ اس سرجن کا نقشہ میری آنکھوں کے سامنے آج بھی ہے۔ اس کا لمبا سا قد تھا اور اس کے اندر شفقت اور Greatness اور محبت و پیار ایسی بھری ہوئی تھی جو کہیں سے ملتی ہی نہیں ہے۔ مجھے اس تناظر میں اور بھی باتیں یاد آ رہی ہیں۔
ماڈل ٹاؤن لاہور میں ایک بڑا گول چکر ہے وہاں ایک بڈھا بابا ایک نیم کے پیڑ کے نیچے ٹھیلا لگاتا ہے۔ اس کے ساتھ اس کا ایک بیٹا ہوتا ہے جو اس کی مدد کرتا ہے۔ میری چھوٹی آپا ایک روز مجھے کہنے لگیں کہ میں ذرا اس ٹھیلے سے سبزی لے لوں۔ اس بڈھے بابے کے لڑکے نے آپا کو کچھ گوبھی، بینگن اور کچھ ٹماٹر بڑی احتیاط کے ساتھ دیئے اور آپا کی پسند اور کہنے کے مطابق الگ الگ لفافوں میں ڈال کے وہ رکھتا رہا۔ اب وہ لڑکا آپا جی کے پرس کی جانب دیکھ رہا تھا کہ وہ اسے پیسے دیں گی۔ لیکن آپا ایک چکر کاٹ کے اس لڑکے کے باپ کی طرف چلی گئیں گو یہ ایک معمولی اور عام سی بات تھی لیکن لڑکے کے چہرے کے تاثرات کیا تھے یہ آپ بخوبی جان سکتے ہیں اور کوئی بھی صاحبِ دل جان سکتا ہے ۔کہ اس بچے کے دل پر کیا بیتی ہو گی کیونکہ جس نے سروس کی تھی اس پر بھی اعتماد کیا جانا چاہیے تھا۔ اس بات کا میرے دل پر بڑا بوجھ تھا لیکن میں اس لڑکے سے زیادتی کو Compensate کیسے کر سکتا تھا۔ ایک دن میں اپنی بڑی آپا کے ساتھ گاڑی میں جا رہا تھا۔ یہ اس واقعہ سے تین چار ماہ بعد کی بات ہے۔ آپا نے اسی ٹھیلے کو دیکھ کر کہا کہ ” رکو اس ٹھیلے والے کے پاس تو کتنی اچھی سٹرابری اور شہتوت ہیں وہ لے لیتے ہیں۔ آپا نے ٹھیلے والے سے کہا کالے شہتوت ذرا کھٹے ہوتے ہیں، اس لڑکے نے کہا کہ نہیں جی یہ بہت میٹھے ہیں۔ وہ شہتوت بھی آپا نے لیے، آپا نے وہ ساری چیزیں پنے بہرے پن کے باوجود اچھے انداز میں لے لیں اور اسے پچاس روپے کا ایک نوٹ دیا اور ساتھ پوچھا کہ کتنے روپے ہوئے۔ اس نے اونچی آواز میں چیخ کر کہا کہ اٹھارہ روپے اور کچھ پیسے ہوئے ہیں اور بڑی آپا نے اس لڑکے کو ہی پیسے دے دئیے کیونکہ اس نے ہی سروس کی تھی۔ اس لڑکے نے فٹا فٹ ٹھیلے پر سے رکھی بوری کا پہلوا اٹھایا اور بقایا ریزگاری نکال کر آپا کو دے دی۔ میں یہاں پھر دل کی اور دل میں پنہاں شفقت کے اس خانے کی بات کرتا ہوں جو خانہ کسی کسی کو ہی نصیب ہوتا ہے۔ یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے آپا اسے کہنے لگیں کاکا تو نے تو کمال کر دیا۔ فوراً حساب کر کے پیسے دئیے مجھے تو کافی وقت لگ جاتا تو بڑے کمال کا بچہ ہے۔ یہ تو نے کہاں سے سیکھا تو اس نے کہا کہ جی ہمارا تو یہ روز کا کام ہے۔ ابا سے سیکھا ہے۔
خواتین و حضرات! بظاہر یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو نصیب والوں کو ملتی ہیں ایسے لوگ اب جگہ جگہ مل جاتے ہیں لیکن ہماری مصروفیات کا یہ عالم ہے اور ہمارے اوپر بوجھ اتنے پڑ گئے ہیں کہ ہم اگر چاہیں تب بھی اپنے دل کے اس پنہاں خانے اور دل کے بٹوے کو کھول کر اس میں جھانک نہیں سکتے لیکن اب وہ کھلتا نہیں ہے اور اب جب ہمارا تعلق شمالی علاقہ جات سے ٹوٹ چکا ہے اور ہماری کمپنی یا حلقہ احباب کے بہت سے لوگ اس دنیا سے رحلت کر چکے ہیں اور اب ہم دو تین باقی رہ گئے ہیں (یہ پروگرام اشفاق احمد کے انتقال کے کچھ سال پہلے ریکارڈ کیا گیا تھا) اور ہم بھی اکیلے اکیلے ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ باتیں یاد آتی ہیں اور چلاس بھی یاد آتا ہے۔ میں چلاس کے لوگوں کو مبارکباد دیتا ہوں اور ان کے لیے بڑی دعا کرتا ہوں۔ چلاس والوں نے ہمیں بڑی خوشیاں دی ہیں۔ بہت اچھے موسم عطا کیے ہیں۔ جب بھی اس علاقے سے گزرے اس نے بڑی محبتیں عطا کیں۔ اس رشتے سے چلتے ہوئے، اس پیچھے آتے ہوئے اور اس نیم کے درخت تک پہنچتے ہوئے جہاں وہ بابا ٹھیلے والا اور اس کا بیٹا اب بھی ریڑھی لگا کر کھڑے ہوتے ہیں۔ یقیناً اب وہاں شفقت کا مظاہرہ کرنے والے لوگ آتے ہوں گے لیکن دل میں کچھ خوف سا سمٹ کے آتا ہے کہ شاید اب ایسے لوگ کم ہوتے جا رہے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین۔ اللہ حافظ۔
 

ماوراء

محفلین
تسلیم و رضا کے بندے​


انسان عجیب عجیب قسم کی مشکلات میں مبتلا رہتا ہے اور اسے اس مشکلات کا کوئی مناسب حل سوجھتا نہیں ہے۔ کوئی شخص اگر اپنے قد اور سوچ سے بڑی بات کرنے لگا جائے تو وہ پھر بری طرح سے پھنس جاتا ہے۔ مجھ سے لوگ آ کر پوچھتے ہیں کہ آخر ” خوش کیسے رہا جائے” اور سکونِ قلب کے لیے کونسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ اب ظاہر ہے کہ میرے پاس کوئی طب یا ہومیو پیتھک کی دوا تو نہیں ہے جو میں انہیں دے کر کہوں کہ اس کی چند خوراکیں کھاؤ تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میرے پاس تو تجربات و مشاہدات ہی ہیں جن کی بنا پر میں ان سے کچھ کہہ سکتا ہوں گو تمام کے تمام واقعات مجھے پر گزرے نہیں ہیں۔ لیکن میں ان شاہد ضرور ہوں۔ خواتین و حضرات خوش رہنے کے لیے ایک مشکل سا طریقہ یہ ہے کہ دوسروں کو اپنی خوشی میں شریک کیا جائے۔ اب یہ بڑا مشکل کام ہے لیکن سائنس کے فارمولے کی طرح کہ پانی یا لیکوڈ اپنی سطح ہموار رکھتا ہے اس طرح کی کوئی بات خوشی کے حصول کے لیے دستیاب کرنا مشکل ہے بلکہ خوشی کے حصول کے لیے دوسروں کو شریک کرنا پڑتا ہے وگرنہ آپ خوش نہیں رہ سکتے۔ اگر خوش قسمتی کے ساتھ کوئی ایسی کیفیت اگر حاصل ہو جائے کہ آدمی کے پاس اتنا علم نہ ہو جتنا علم وہ ساری زندگی اکٹھا کرتا رہتا ہے اور انسان میں معصومیت کی وہ لہر باقی ہو جو اسے اللہ نے عطا کر کے دنیا میں بھیجا ہے اس کیفیت یا صورت میں تو آسانی میسر آ سکتی ہے۔ اس طرح کا آدمی اپنے ارد گرد کو دیکھ کر بھی پریشان نہیں ہوتا بلکہ خوش رہتا ہے۔ آپ دیکھتے ہوں گے کہ درختوں کو قادر مطلق نے جس طرح کا پیدا کر دیا وہ وہاں ہی کھڑے ہیں۔ ایک درخت کبھی دوسرے درخت سے حاسد نہیں ہوتا۔ کبھی درخت یہ نہیں کہتا کہ ہمیں تو جی آم کا درخت بنا دیا اور لوگ ہمیں کھا کھا کر موجیں کر رہے ہیں اور ہمیں نوچ نوچ کر ٹوکریاں بھر کر لے جا رہے ہیں۔ کاش خدا نے ہمیں شہتوت کا درخت بنایا ہوتا اور مجھ پر رنگ برنگے شہتوت لگتے۔
خواتین و حضرات! انسان ہمیشہ اپنی قسمت پر شاکی رہتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ مجھے ایسا ہونا چاہیے تھا، کوئی کہتا ہے مجھے ویسا ہونا چاہیے تھا لیکن درخت ایسا شکوہ نہیں کرتا۔ کبھی درختوں نے یہ شکایت نہیں کی کہ جناب جب سے پیدا ہوئے ہیں وہیں گڑھے ہوئے ہیں۔ نہ کہیں سیر کی ہے نہ گھوم پھر کے دیکھا ہے۔ لیکن وہ ہمیشہ خوشی سے جھومتے رہتے ہیں اور آپ کو بھی خوشیاں عطا کرتے ہیں اور ہم باغوں کی سیریں کرتے ہیں۔ ایسے ہی پرندے اور جانور ہیں کبھی کبھی شیر نے زیبرا بننے کی خواہش نہیں کی۔ یا کسی ہرن نے کبھی فاختہ بننے کا نہیں سوچا۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کو بنانے والا علیم مطلق بہتر سمجھتا ہے کہ ہمیں کیسا ہونا چاہیے۔ اگر میں اپنے آپ کو نہ بدلوں تو مجھے کہا جائے گا کہ اشفاق صاحب آپ اپنے Status کا خیال رکھیں۔ ہمارے ہاں اس قسم کی عجیب و غریب Terms بن چکی ہیں اور وہ انسان کو شرمندہ کرتی ہیں۔ ہمیں زندگی میں کبھی کبھی ایسا انسان ضرور مل جاتا ہے جس دیکھ کر حیرانی ضرور ہوتی ہے کہ یہ کیسا بادشاہ آدمی ہے؟ یہ مالی طور پر بھی کمزور ہے۔ علمی و عقلی اور نفسیاتی طور پر کمزور ہے لیکن یہ خوش ہے۔ ہمارے علاقے ماڈل ٹاؤن میں ایک ڈاکیا ہے جو بڑا اچھا ہے۔ اب تو شاید چلا گیا ہے۔ اس کا نام اللہ دتہ ہے۔ اس جیسا خوش آدمی میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ اس کا عشق ڈاک اور ہر حال میں خط پہنچانا ہے۔ چاہے رات کے نو بج جائیں وہ خط پہنچا کر ہی جاتا ہے۔ وہاں علاقے میں کرنل صاحب کا ایک کتا تھا۔ اللہ دتہ کو پتہ نہ چلا اور ایک روز اچانک اس کتے نے اس کی ٹانگ پر کاٹ لیا اور اس کی ایک بوٹی نکال لی۔ خیر وہ ٹانگ پر رومال باندھ کر خون میں لت پت ڈاکخانے آ گیا۔ اسے دیکھ کر پوسٹ ماسٹر صاحب بڑے پریشان ہوئے۔ اللہ دتہ نے انہیں ساری بات سے آگاہ کیا۔ پوسٹ ماسٹر صاحب کہنے لگے کہ کیا تم نے کچھ لگایا بھی کہ نہیں! وہ کہنے لگا نہیں جی بس بے چارہ پھیکا ہی کھا گیا۔ میں نے وہاں کچھ لگایا تو نہیں تھا۔ اب وہ ناداں سمجھ رہا تھا کہ آیا پوسٹ ماسٹر صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ اس نے ٹانگ پر کتے کے کاٹنے سے پہلے کچھ لگایا ہوا تھا کہ نہیں۔ ہم اسے بعد میں ہسپتال لے کر گئے اور اسے ٹیکے ویکے لگوائے۔ وہ بڑی دیر کی بات ہے لیکن وہ مجھے جب بھی یاد آتا ہے تو خیال آتا ہے کہ وہ کتنا عجیب و غریب آدمی تھا جو گھبراتا ہی نہیں تھا اور ایسے آدمی پر کبھی خواہش گھیرا نہیں ڈال سکتی۔ انسان جب بھی خوش رہنے کے لیے سوچتا ہے تو وہ خوشی کے ساتھ دولت کو ضرور وابستہ کرتا ہے اور وہ امارت کو مسرت سمجھ رہا ہوتا ہے۔ حالانکہ امارت تو خوف ہوتا ہے اور آدمی امیر دوسروں کو خوفزدہ کرنے کے لیے بننا چاہتا پے۔ جب یہ باتیں ذہن کے پس منظر میں آتی ہیں تو پھر خوشی کا حصول ناممکن ہو جاتا ہے۔ ہم ایک بار ایک دفتر بنا رہے تھے اور مزدور کام میں لگے ہوئے تھے۔ وہاں ایک شاید سلطان نام کا لڑکا تھا وہ بہت اچھا اور ذہین آدمی تھا اور میں متجسس آدمی ہوں اور میرا خیال تھا کہ کام ذرا زیادہ ٹھیک ٹھاک انداز میں ہو۔ میں اس مزدور لڑکے کا کچھ گرویدہ تھا۔ اس میں کچھ ایسی باتیں تھیں جو بیان نہیں کی جا سکتیں۔ ہم دوسرے مزدوروں کو تیس روپے دیہاڑی دیتے تھے لیکن اسے چالیس روپے دیتے تھے۔ وہ چپس کی اتنی اچھی رگڑائی کرتا تھا کہ چپس پر کہیں اونچ نیچ یا دھاری نظر نہیں آتی تھی۔ وہ ایک دن دفتر نہ آہا تو میں نے ٹھیکدار سے پوچھا کہ وہ کیوں نہیں آیا۔ میں بھی دیگر افسر لوگوں کی طرح جس طرح سے ہم گھٹیا درجے کے ہوتے ہیں میں نے اس کا پتہ کرنے کا کہا۔ وہ اچھرہ کی کچی آبادی میں رہتا تھا۔ میں اپنے سیکرٹری کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ کر اسے لینے چلا گیا۔ بڑی مشکل سے ہم اس کا گھر ڈھونڈ کر جب وہاں گئے تو سیکرٹری نے سلطان کر کے آواز دی۔ اس نے کہا کہ کیا بات ہے؟
میرے سیکرٹری نے کہا کہ صاحب آئے ہیں۔ اس نے جواب دیا کیہڑا صاحب! سیکرٹری نے کہا کہ ڈائریکٹر صاحب۔ وہ جب باہر آیا تو مجھے دیکھ کر حیران رہ گیا اور اس نے انتہائی خوشی کے ساتھ اندر آنے کو کہا۔ لیکن میں نے اس سے کہا کہ میں سخت ناراض ہوں اور میں تمھاری سرزنش کے لیے آیا ہوں۔ وہ کہنے لگا کہ سر میں بس آج آ نہیں سکا۔ ایک مشکل ہو گئی تھی۔
میں نے کہا کونسی مشکل۔ تم ہمیں بغیر بتائے گھر بیٹھے ہوئے ہو اور اس طرح سے میری بڑی توہین ہوئی ہے کہ تم نے اپنی مرضی سے چھٹی کر لی۔ وہ کہنے لگا کہ سر آپ برائے مہربانی اندر تو آئیں۔ وہ مجھے زبردستی اندر لے گیا۔ اس کی بیوی چائے بنانے لگ گئی۔ میں نے اس سے کہا میں چائے نہیں پیئوں گا۔ پہلے یہ بتاؤ کہ تم نے چھٹی کیوں کی؟
وہ کہنے لگا کہ سر جب کل شام کو میں گھر آیا تو ٹین کے کنستر میں میں نے سورج مکھی کا ایک پودا لگایا ہوا تھا اور اس می ڈوڈی کھل کے اتنا بڑا پھول بن گیا تھا کہ میں نے کھڑا کھڑا اسے دیکھتا رہا اور میری بیوی نے کہا کہ یہ پہلا پھول ہے جو ہمارے گھر میں کھلا ہے۔
وہ کہنے لگا کہ سر مجھے وہ پھول اتنا اچھا لگا کہ میں خوشی سے پاگل ہو رہا تھا اور جب ہم کھانا کھا چکنے کے بعد سونے لگے تو میری بیوی نے مجھے کہا کہ ”سلطان کیا تمھیں معلوم ہے آج ہمارا کاکا چلنے لگا ہے اور اس نے آٹھ دس قدم اٹھائے ہیں۔” اس وقت کاکا سو چکا تھا لیکن جب میں صبح اٹھا تو میں نے اپنے بیٹے کو بھی جگایا اور ہم میاں بیوی دور بیٹھ گئے۔ ایک طرف سے میری بیوی کاکے کو چھوڑ دیتی۔ اور وہ ڈگمگاتا ہوا میری طرف چلتا ہوا آتا اور جب وہ مجھ تک پہنچتا تو میں اس کی ماں کی طرف اس کا منہ کر دیتا تو وہ ڈر مگ ڈگ مگ کرتا ماں تک پہنچتا اور ٹھاہ کر کے اس سے چمٹ جاتا۔ ہم بڑی دیر تک اپنے بیٹے کو دیکھتے رہے۔ وہ کہنے لگا ”سر اتنا اچھا پھول کھلا ہو اور بچے نے ایسا اچھا چلنا سیکھا ہو اور ایسا خوب صورت دن ہو تو اسے چالیس روپے میں تو نہیں بیچا جا سکتا نا!
سر آج کا دن میرا ہے۔ اب میں شرمندہ سا ہو کر واپس آ گیا۔
خواتین و حضرات! اگر انسان میں اتنی طاقت ہو اور وہ ایسی صلاحیت رکھتا ہو تو پھر وہ خوشیوں کے ساتھ وابستہ ہو جاتا ہے لیکن اگر اس کی زندگی کی خوشیاں ایسی ہوں جیسی ہماری ہیں اور جن کے ہم قریب بھی نہیں پھٹک سکتے اور ٹین کے کنستر میں لگا پھول ہمیں کبھی نظر ہی نہیں آ سکتا ہے۔ ہمیں خوشیاں بانٹنا آتا ہی نہیں۔ ہم نے یہ فن سیکھا ہی نہیں ہے۔
شیئر کرنا ایک ایسا مشکل کام ہے کہ ہمیں یہ کسی سکول، کالج یا یونیورسٹی نے سکھایا نہیں ہے۔ ہمیں اپنی چیزیں سنبھال کر رکھنے کی ہی ہمیشہ تلقین کی گئی ہے۔ جب پاکستان نہیں بنا تھا اس وقت تو ہمارے ہندو دوست کھانا کھاتے ہوئے اوپر پردہ ڈال لیتے تھے کہ کہیں کوئی اور کھانا نہ مانگ لے اور شریک نہ ہو جائے۔ اب ہمارے ہاں بھہ ایسا رواج پروان چڑھ گیا ہےاور ہمیں بھی چھپانا آ گیا ہے اور ہم شیئر کرنے سے گھبراتے ہیں۔ اور ہماری گردنوں پر یہی بوجھ و بال بنا ہوا ہے۔ میں اکثر چھوٹے بچوں، اپنے پوتوں پوتیوں اور نواسیوں سے کہتا ہوں کہ تمہارا زیادہ قصور نہیں ہے۔ ہمارے سارے ہی علاقے پر تیزاب کی بارش ہو رہی ہے اور جب باہر نکلو گے تو اس کے چھینٹے پڑیں گے ہی اور آپ کو ڈپریشن کا شکار ہونا پڑے گا کیونکہ آپ اپنا آپ کھول نہیں سکتے ہیں۔ اللہ کہتا ہے کہ جس طرح کا میں نے تمھیں بنایا ہے تم ویسے ہی ٹھیک ہو۔ آپ اس ناک۔ آنکھ ، کان اور بالوں کو دیکھ کر خدا کی تعریف کرو اور سبحان اللہ کہو پھر دیکھو کتنی نعمتیں آپ پر وارد ہوتی ہیں۔ جیسے جانوروں، درختوں اور پرندوں پر وارد ہوتی ہیں۔ آپ نے کبھی دیکھا کہ پرندہ کس قدر خوش نصیب ہے جو گاتے گاتے فوت ہو جاتا ہے۔ اس کی موت کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ وہ ہم انسانوں کی طرح موت سے خوف زدہ ہو کر کئی دفعہ نہیں مرتا ہے۔ اسے فکرِ فردا نہیں ہوتی ہے۔ ہم فکرِ فردا کے عذاب میں مبتلا ہو کر مرتے جا رہے ہیں۔
بانو قدسیہ کی والدہ جو میری ساس تھیں وہ لمبے لمبے دوروں پر جایا کرتی تھیں۔ وہ اپنے ساتھ ”کروشیا” ضرور رکھتی تھیں۔ (شاید ہمارے ان بچوں کو کروشیئے کا پتہ نہ ہو۔) وہ سفر میں اپنے ساتھ کروشیئے کے ساتھ کھٹا کھٹ بنتی جاتی ہوتی تھیں اور جب دورے سے لوٹ کر آتی تھیں تو ان کے پاس کچھ نہ کچھ بنا ہوا اور مکمل ہوا ہوتا تھا۔ جب کبھی ولائیت کی خواتین آتی تھیں تو انہیں دیکھ کر بہت حیران ہوتی تھیں۔ ایک دفعہ ہم اسلام آباد جا رہے تھے تو انہوں نے اپنا کروشیا نکال لیا اور کچھ بننے لگیں۔ ان کے ساتھ ایک خاتون بیٹھی تھیں۔ وہ انہیں بڑے غور سے دیکھنے لگیں۔ (ان دنوں فوکر کا زمانہ تھا) وہ خاتون کہنے لگیں کہ آپ نے تو بڑے کمال کا ڈیزائن بنایا ہے۔ یہ بہت خوب صورت ہے۔ وہ گلاس کے نیچے رکھنے والی کوئی چیز تھی۔ میری ساس اس خاتون کو کہنے لگی کہ یہ اب مکمل ہو گیا اور یہ اب تمھارا ہوا۔ اس نے بڑی مہربانی اور شکریے سے وصول کیا۔ جب میری ساس صاحبہ اس طرح کی کوئی دوسری چیز بنانے لگیں تو اس خاتون نے کہا کہ یہ تو میں حیدر کو دے دوں گی اور میں چاہتی ہوں کہ اس جیسا ایک اور میرے پاس بھی ہو۔ میری ساس کہنے لگی کہ وقت تھوڑا ہے اور یہ بن نہیں پائے گا۔ آپ مجھے اپنا ایڈریس دے دیں میں پہنچا دوں گی۔ لیکن انہوں نے بنانا شروع کر دیا۔ جب ہم پنڈی پہنچے تو اناؤنسمنٹ ہوئی کہ بہت دحند ہے جس کی وجہ سے لینڈنگ ممکن نہیں ہے لٰہذا اس جہاز کو پشاور لے جایا جا رہا ہے۔ اس سے میری ساس بڑی خوش ہوئی کہ اسے مزید وقت مل گیا ہے۔ جب پشاور لینڈ کرنے لگے تو پائلٹ کی آواز آئی کہ ہم یہاں لینڈ کرنے آئے تھے لیکن حیرانی کی بات ہے کہ اب یہاں کا موسم بھی پنڈی جیسا ہو گیا ہے۔ لٰہذا ہمیں واپس پنڈی جانا ہو گا کیونکہ اطلاع ملی ہے کہ وہاں کا موسم ٹھیک ہو گیا ہے۔ جب ہم پنڈی آئے تو وہ چیز تھوڑی سی رہ گئی اور مکمل نہیں ہوئی تھی۔ پائلٹ کی آواز پھر گونجی کہ ہم لینڈنگ کرنے والے ہیں لیکن ایک دو چکر اور لگائیں گے تاکہ رن وے کا درست اندازہ ہو سکے۔ جب وہ چیز مکمل بن چکی اور دو چکر بھی مکمل ہو گئے تو جہاز میں موجود ایک فوجی نے تالی بجائی اور میری ساس کو مخاطب کرتے ہوئے بولا کہ ” بیگم صاحبہ اب لینڈ کرنے کی کیا اجازت ہے۔” میری ساس نے کہا کہ ہاں اب ہے کیونکہ یہ بن چکا ہے۔
ہم نے اور آپ نے کبھی شیئر کرنے والا کام نہیں کیا ہے۔ ہم نے کبھی خوشیوں کو شئیر نہیں کیا۔ آپ ہمارے ٹی وی اسٹیشن کے سٹوڈیو میں داخل ہوتے ہیں تو آپ کو ایک کوری ڈور کے درمیاں میں ایک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم کا ارشادِ گرامی لکھا ملے گا کہ ” مسکراہٹ بھی ایک صدقہ جاریہ ہے۔” لیکن ہم نے اپنی مسکراہٹ پر بھی کنٹرول رکھا ہوا ہے کہ خبردار مسکرانا نہیں۔ جب ہم کالج یونیورسٹی میں جاتے ہیں تو ہمارا منہ ایسے سو جا ہوتا ہے جیسے پتہ نہیں کیا غضب ہو گیا اور ہم کہتے ہیں کہ ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہم مسکراتے پھریں۔ ہمارا تو دین ہی سلامتی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جب ہم کسی کو السلام و علیکم کہہ دیں تو پھر اس کا قتل نہیں کر سکتے۔
آپ کا اگر کسی کو قتل کرنے کا ارادہ ہو خدانخواستہ تو پھر السلام و علیکم نہ کہنا(مسکراتے رہنا) کیونکہ آپ اس شخص پر پہلے سلامتی بھیج دیں گے تو اسے قتل کیسے کریں گے۔ جب تک آپ خوشیاں بانٹیں گے نہیں خوشیاں پا نہیں سکتے۔
(حاضرین محفل میں سے ایک صاحب بولتے ہیں) اشفاق صاحب ایک حوالے سے حالی کا ایک شعر ہے۔

پر طلب ہو کر مزے سے زندگی کرتے رہے
اس خاموشی نے ہمارا بوجھ ہلکا کر دیا​

اشفاق صاحب: واہ واہ کیا بات ہے۔ (ایک اور صاحب گویا ہوتے ہیں)۔
شیئر کرنے میں ہماری سوسائٹی میں ایک خوف بھی پایا جاتا ہے کہ کہیں ہم سے کوئی کچھ ثھین نہ لے۔
اشفاق احمد: تھوڑا نہیں بہت زیادہ خوف پایا جاتا ہے لیکن اگر سٹارٹ مسکراہٹوں سے لیا جائے چاہے وہ کروشیئے سے ہی کیوں نہ ہو تو وہ خوف ناک بات نہیں ہے۔ ہمارے بابا جی نور والے ایک دن کہنے لگے کہ اشفاق میاں تمھارے پاس جو لکھنے والا پین ہے وہ کتنے کا ہے۔ میں نے کہا جناب جو میرے پاس ہے وہ ایک سو نوے روپے کا ہے اور بہت اچھا ہے۔ وہ کہنے لگے جب بھی پین خریدیں سستا خریدیں۔
وہ پوچھنے لگے کہ سستا کتنے کا آتا ہے۔؟
میں نے کہا کہ وہ ایک روپے اسی پیسے کا آتا ہے۔ (اس زمانے میں آتا تھا)۔ فرمانے لگے بس وہی لے لیا کرو۔ میں نے کہا کہ اتنا سستا پین خریدنا تو میری بڑی بے عزتی ہے۔ وہ کہنے لگے پت جب کبھی آپ ڈاکخانے جائیں اور کوئی آپ سے پین مانگ لے کہ مجھے پتہ لکھنا ہے اور وہ بھول کر اپنی جیب میں لگا کے چلا جائے تو آپ کو کوئی غم نہیں ہو گا اور آپ آرام سے سو جائیں گے لیکن اگر ایک سو نوے روپے والا ہو گا تو آپ کو بڑا دکھ ہو گا۔ خواتین و حضرات اپنے دکھ اور کوتاہیوں دور کرنے کے لیے آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم تسلیم کرنے والوں میں ماننے والوں میں شامل ہو جائیں اور جس طرح خداوند تعالٰی کہتا ہے کہ دین میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ۔ میرا بڑا بیٹا کہتا ہے کہ ابو دین میں پورے کے پورے کس طرح داخل ہو جائیں تو میں اس کو کہتا ہوں کہ جس طرح سے ہم بورڈنگ کارڈ لے کر ایئر پورٹ میں داخل ہو جاتے ہیں اور پھر جہاز میں بیٹھ کر ہم بے فکر ہو جاتے ہیں کہ یہ درست سمت میں ہی جائے گا اور ہمیں اس بات کی فکر لاحق نہیں ہوتی کہ جہاز کس طرف کو اڑا رہا ہے۔ کون اڑا رہا ہے بلکہ آپ آرام سے سیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں اور آپ کو کوئی فکر فاقہ نہیں ہوتا ہے۔ آپ کو اپنے دین کا بورڈنگ کارڈ اپنے یقین کا بورڈنگ کارڈ ہمارے پاس ہونا چاہیے تو پھرہی خوشیوں میں اور آسانیوں میں رہیں گے وگرنہ ہم دکھوں اور کشمکش کے اندر رہیں گے اور تسلیم نہ کرنے والا شخص نہ تو روحانیت میں داخل ہو سکتا ہے اور نہ ہی سائنس میں داخل ہو سکتا ہے۔ جو چاند کی سطح پر اترے تھے جب انہوں نے زمین کے حکم کے مطابق ورما چلایا تھا تو اس نے کہا کہ ورما ایک حد سے نیچے نہیں جا رہا۔ جگہ پتھریلی ہے لیکن نیچے سے حکم اوپر گیا کہ نہیں تمھیں اسی جگہ ورما چلانا ہے۔ وہ ماننے والوں میں سے تھا اور اس نے بات کو تسلیم کرتے ہوئے اسی جگہ ورما چلایا اور اس کے بلآخر وہ گوہر مقصود ہاتھ آ گیا جس کی انہیں تلاش تھی۔
خواتین و حضرات ماننے والا شخص اس زمین سے اٹھ کر افلاک تک پہنچ جاتا ہے اور وہ براق پر سوار ہو کر جوتوں سمیت اوپر پہنچ جاتا ہے اور جو نہ ماننے والا ہوتا ہے وہ بے چارہ ہمارے ساتھ یہیں گھومتا پھرتا رہ جاتا ہے۔ سائنسدان کہتے ہیں کہ جب ہم یہ مان لیتے ہیں کہ زمین میں کششِ ثقل ہے تو پھر ہم آگے چلتے ہیں اور ہمارا اگلا سفر شروع ہوتا ہے جبکہ نا ماننے سے مشکل پڑتی ہے۔
اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ اللہ حافظ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

ماوراء

محفلین
توّکل​


ہم سب کی طرف سے اہل زاویہ کو سلام پہنچے۔ اس میز پر ہم گزشتہ کئی ماہ اور ہفتوں سے پروگرام کر رہے ہیں۔ اس میز پر کچھ کھانے پینے کی اشیاء ہوتی ہیں۔ ابھی ایک لمحہ قبل میں حاضرین سے درخواست کر رہا تھا کہ یہ آپ کے لیے ہیں اور آپ انہیں بڑے شوق سے استعمال کر سکتے ہیں لیکن ہم زندگی میں اتنے سیانے محتاط، عقل مند اور اتنے ”ڈراکل” ہو گئے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ شاید اس میں کوئی کوتاہی یا غلطی ہو جائے گی اور جب میں اس بات کو ذرا وسیع کر کے دیکھتا ہوں اور اپنی زندگی کا جائزہ لیتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ ہم صرف احتیاط کرنے کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور جب اس کو ذرا اور وسیع تر دائرے میں میں پھیلاتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے کہ میں اور میرے معاشرے کے لوگ سارے کے سارے ضرورت سے زیادہ خوفزدہ ہو گئے ہیں اور انہیں ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں ہم سے کوئی کوتاہی نہ ہو جائے۔ ہم آج کل نقصان کی طرف مائل ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتے اسی لیے اگر ہم کو کوہ پیمائی کرنا پڑے۔ ہمالیہ کی چوٹی سر کرنی پڑے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ تو بڑا ”رسکی” کام ہے۔ رسک کاہے کو لینا، بہتر یہی ہے کہ آرام سے رہیں اور چار پیسے بنانے کے لیے کوئی پروگرام بنائیں۔ چار پیسے بنانا اور اپنی مالی زندگی کو مزید مستحکم کرنا کچھ ضرورت سے زیادہ ہو گیا ہے۔ ہم تعلیم اس لیے حاصل کرتے ہیں کہ یہ ہم کو فائدہ دے گی یا ہم اس سے پیسے حاصل کریں گے اور تعلیم کا تعلق ہم نوکری کے ساتھ جوڑتے ہیں حالانکہ علم اور نوکری کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ اگر ایمانداری کے ساتھ دیکھا جائے تو پتہ یہ چلتا ہے کہ علم حاصل کرنا تو ایک اندر کی خوب صورتی ہے۔ جیسے آپ باہر کی خوب صورتی کے لیے پاؤڈر لگاتے ہیں اور میک اپ کرتے ہیں۔ لڑکیاں لپ اسٹک اور کاجل لگاتی ہیں اسی طرح انسان اپنی روح کو بالیدگی عطا کرنے کے لیے علم حاصل کرتا ہے۔ لیکن ہم نے علم کو نوکری سے وابستہ کر دیا ہے۔ آئے روز اخباروں میں چھپتا ہے کہ جی تین ہزار نوجوان ایم۔بی۔اے ہو گئے ہیں انہیں نوجری نہیں ملتی۔ ایک زمانے میں میں یہ بات سمجھنے میں پھنس گیا کہ صاحبِ علم کون لوگ ہوتے ہیں اور یہ بات میری سمجھ اور گرفت میں نہیں آتی تھی۔ میں یونیورسٹی میں دوستوں اور پروفیسروں سے اس بابت پوچھا لیکن کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا۔ پھر میں نے ولایت والوں سے خط و کتابت میں پوچھنا شروع کیا اور ان سے پوچھا کہ

۔Who is Educated Person in tha Real Sense of its Term

ان کی طرف سے موصول ہونے والے جواب بھی ایسے نہیں تھے جن سے میں مطمئن ہو جاتا۔ میرے پاس لوگوں کے اس بابت جوابات کی ایک موٹی فائل اکھٹی ہو گئی۔ ایک دن میں نے اپنے بابا جی کے پاس ڈیرے پر گیا۔ اس دن ڈیرے پر گاجر گوشت پکا ہوا تھا۔ مجھے کہنے لگے کہ کھاؤ۔ میں نے کھانا کھایا اور وہ فائل ایک طرف رکھ دی۔ گرمیوں کے دن تھے۔ مجھ سے کہنے لگے کہ اشفاق میاں یہ کیا ہے۔ میں نے بتایا یہ فائل ہے۔
کہنے لگے یہ تو بڑی موٹی ہے اور اس میں کاغذات کای ہیں۔ میں نے کہا کہ جی یہ آپ کے کام کے نہیں ہیں۔ یہ انگریزی میں ہیں۔
وہ دیکھ کر کہنے لگے کہ اس میں تو چھٹیاں بھی ہیں۔ ان پر ٹکٹ بھی لگے ہوئے ہیں اور ان پر تو بڑے پیسے لگے ہوئے ہو گے۔
مجھے سے فرمانے لگے کہ تو باہر خط کیوں لکھتا ہے؟ میں نے کہا بابا جی ایک ایسا مسئلہ سامنے آ گیا تھا جو مجھے باہر کے لوگوں سے حل کروانا تھا کیونکہ ہمارے ہاں ساری دانش ختم ہو گئی ہے۔ وہ کہنے لگے ایسی کونسی بات ہے میں نے انہیں بتایا کہ میں ایک مسئلے میں الجھا ہوا ہوں۔ وہ یہ ایک کہ آخر صاحب علم کون ہوتا ہے؟
وہ کہنے لگے۔ بھئی تم نے اتنا خرچا کیوں کیا۔ آپ میرے پاس ڈیرے پر آتے اور یہ سوال ہم سے پوچھ لیتے۔ ہمارے بابا جی باوصف اس کے کہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے انہیں ایک لفظ "Note" آتا تھا۔ جانے انہوں نے کہاں سے یہ لفظ سیکھا تھا۔
مجھے کہنے لگے۔ "Note" !
”صاحب علم وہ ہوتا ہے جو خطرے کے مقام پر اپنی جماعت میں سب سے آگے ہوا اور جب انعام تقسیم ہونے لگے تو جماعت میں سب سے پیچھے ہو۔”
یہ سننے کے بعد میں بڑا خوش ہوا کیونکہ جب انسان کو علم عطا ہو جاتا ہے تو اس کو بڑی خوشی ہوتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں اور ممکن ہے میرا یہ خیال غلط ہو لیکن میرا خیال ہے کہ ہمارے ہاں کسی نہ کسی طرح سے علم کی کمی ہو رہی ہے اور احتیاط کی زیادتی ہو رہی ہے۔ میں خود بڑا محتاط ہوں۔ میرے پوتے’ نواسے نواسیوں کی تعداد بڑھی تو میں ایک خوفزدہ انسان میں تبدیل ہو گیا کہ ان کا کیا بنے گا۔ یہ کدھر جائیں گے؟ ایسے کیوں ہو گا؟ دھوبی کا خرچ کم کیسے ہو گا؟
میں ہر وقت یہی سوچنے میں لگا رہتا تھا۔ اس سے خرابی یہ پیدا ہوتی ہے جو میں اپنے میں، اپنے دوستوں اور عزیز و اقارب میں دیکھتا ہوں کہ خدا کی ذات پر سے اعتماد کم ہونے لگا ہے۔ جب آدمی بہت محتاط ہو جاتا ہے تو پھر ذرا وہ گھبرانے لگتا ہے اور ہم سب اس قسم کی گھبراہٹ میں شریک ہو گئے ہیں۔ اگر اس گھبراہٹ کو ذرا آگے بڑھایا جائے تو اس کے نقصانات بھی بہت زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ہم عموماً ایک جملہ بولتے ہیں کہ ”جی بڑا دو نمبر کام کر رہا ہے۔” اس کی وجہ گھبراہٹ ہی ہے۔ جب ہم خوف اور گھبراہٹ کے پیش نظریہ یہ سوچنا شروع کر دیتے ہیں کہ کہیں مجھ میں مالی کمزوری پیدا نہ ہو جائے دو نمبر کام کرتے ہیں۔ مجھے یاد آتا ہے کہ 1866ء میں ہندوستان کا ایک وائسرائے تھا۔ (میرا خیال ہے کہ لارڈ کرزن ہی ہو گا) اس کو ہندوستان کے مختلف علاقوں میں جا کر Cultural Pattern تلاش کرنے کا بڑا شوق تھا اور بھارت میں میوزیم وغیرہ اس نے Sattle کیے تھے۔ وہ ایک دفعہ ایک گاؤں گیا۔ اس نے وہاں اپنا کیمپ لگایا۔ اس کے ساتھ دو اڑھائی آدمیوں کا اس کا عملہ بھی تھا۔ اس وقت وائسرائے بڑی زبردست اور Powerfull چیز ہوا کرتی تھی۔ لارڈ کرزن لکھتا ہے کہ جب وہ اپنے کیمپ میں سویا ہوا تھا تو آدھی رات کے قریب مجھے اپنے سینے پر بہت بوجھ محسوس ہوا۔ وہ بوجھ اس قدر زیادہ تھا کہ مجھے سانس لینا مشکل ہو گیا۔ جب میں نے لیٹے لیٹے آنکھ کھولی تو کوئی پچیس تیس سیر کا کوبرا میرے سینے پر بیٹھا ہوا تھا اور اس نے پھن اٹھایا ہوا تھا اور اس کوبرے کا منہ میرے چہرے کی طرف تھا اور ہر لمحہ زندگی اور موت کے درمیان فاصلہ کم ہوتا چلا جا رہا تھا لیکن میں ہلا نہیں بلکہ اسی طرح خاموش لیٹا رہا اور کوئی چیخ و پکار نہیں کی اور میں اس انتظار میں تھا کہ چونکہ خدا کی طرف سے بھی کبھی نہ کبھی تائید غیبی انسان کو پہنچی ہے اور میں اس کا انتظار کرنے لگا۔
خواتین و حضرات اس طرح کے لمحات میں اس طرح کی سوچ ایک بڑے حوصلے اور اعتماد کی بات کی بات ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے دوسرے ہی لمحے میں نے دیکھا کہ میرے کیمپ کا پردہ اٹھا کر ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ اس آدمی نے جب صورتِ حال دیکھی تو وہ الٹے پاؤں واپس چلا گیا اور اس نے دودھ کا ایک بڑا سا مرتبان لیا اور اس میں گرم دودھ ڈالا اور اس آدمی نے وہ دودھ بڑی ہمت کے ساتھ سانپ کے آگے رکھ دیا۔ جب سانپ نے دودھ کا مرتبان یا جگ دیکھا اور اس نے دودھ کی خوشبو محسوس کی تو سانپ مرتبان کے اندر داخل ہونے لگا اور مزے سے دودھ پینے لگا۔ جب سانپ اس کے مکمل اندر جا چکا تو اس شخص نے مرتبان کو بند کر دیا۔ لوگوں کو جب واقعہ کا پتہ چلا تو ہر طرف حال دوہائی مچ گئی اور سارا عملہ کیمپوں سے باہر آگیا۔ وائسرائے صاحب اس شخص سے بڑے خوش ہوئے اور کہا کہ اس شخص کو انعام ملنا چاہیے۔ اس شخص نے کہا جی میں نے آپ کی جان بچائی ہے۔ میرے لیے یہ بھی ایک بہت بڑا انعام ہے۔
میں اور کچھ لے کر بھی کیا کروں گا۔ لوگوں نے دیکھا کہ یہ تو ہمارے عملے کا آدمی ہے ہی نہیں۔ یہ تو کوئی باہر کا آدمی ہے۔ پھر اس سے استفسار کیا کہ تم کون ہو؟ وہ کہنے لگا کہ جی میں بندھیڑ کھنڈ کا نامی گرامی چور ہوں۔ میں یہاں چوری کی نیت سے آیا تھا اور میں نے سوچا کہ وائسرائے جو کہ بادشاہ وقت کی طرح ہے اس کے کیمپ سے قیمتی چیزیں ملیں گی اور جب میں کیمپ کے اندر داخل ہوا تو میں نے یہ سین دیکھا اور یہ اب آدمیت کا تقاضا تھا کہ میں اپنا پیشہ ایک طرف رکھوں اور جان بچانے کا کام پہلے کروں۔
خواتین و حضرات! اللہ کی مدد ایسے بھی آ جاتی ہے اور اتنے محتاط ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ کبھی تھوڑا آرام بھی کر لینا چاہیے۔ کبھی کبھار سیٹی بھی بجا لینی چاہیے۔ میں جب اپنے سٹوڈنت بچے بچیوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا سیٹی بجانی آتی ہے تو وہ نفی میں جواب دیتے ہیں۔ بات اصل میں یہ ہے کہ ان کے پاس سیٹی بجانے کا وقت ہی نہیں ہے۔ مجھے اپنے ساتھیوں اور ہم وطنوں کو تنی ہوئی زندگی گزارتے دیکھ کر دکھ جاتے ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کورسیوں میں جکڑ رکھا ہے۔ کوئی دن یا کوئی تہوار بھی انجوائے نہیں کیا جاتا۔ بلکہ وہ ایک عذاب میں پڑے ہوئے ہیں۔
ایک مراکو کا بادشاہ تھا۔ اس کی عمر کوئی اسّی، سو برس کے قریب تھی۔ وہ ایک شخص سے ناراض ہو گیا اور اس بارے حکم دیا کہ اس کو زنداں میں ڈال دیا جائے اور کل صبح چھ بجے جلا دبلا کر اس کا سر قلم کر دیا جائے۔ اب وہ شخص صبح چھ بجے کا انتظار کرنے لگا اور وہ خوفزدہ نہیں تھا۔ اس نےجیل کے داروغہ کو دیکھا جسے شطرنج کھیلنے کا بڑا چسکا تھا اور اس سے کہا کہ سر آ جائیں بیٹھیں ایک بازی تو لگ جائے۔ اس نے بھی کہا کہ آ جاؤ۔ وہ شطرنج کھیلنے لگے اور اس بندے نے جس نے حکم شاہی کے مطابق قتل ہونا چاہیے تھا نے داروغہ کو شکست دے دی اور داروغہ سے کہا کہ اب آپ آرام کریں صبح ملیں گے۔ جب اس کے قتل کیے جانے کا وقت ہوا تو داروغہ پھر آ گیا اور کہنے کگا کہ آؤ جناب ایک بازی ہو جائے۔ یہ قتل وتل تو روز کا کام ہے ہوتا ہی رہے گا۔ وہ قیدی اس سے کہنے لگا کہ تیرا ستیاناس بادشاہ نے صرف تیری نوکری ختم کر دینی ہے۔ بلکہ میرے ساتھ تجھے بھی قتل کروا دینا ہے۔ لیکن وہ پھر بھی کھیلنے لگا۔ وہ صبح سے شام تک کھیلتے رہے۔ بازی پھنس جاتی تو اگلے دن پھر چلتی۔ اسی طرح چار راتیں ہو گئیں۔ (یہ میں آپ سے ایک (Historical Fact) بیان کر رہا ہوں۔) اور اس کے قتل کیے جانے کا وقت بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ وہ ایک شام کو بیٹھا شطرنج کھیل رہے تھے کہ ایک شخص دھول سے اٹا ہوا اور سر پٹ گھوڑا دوڑاتا ہوا ان کی طرف آیا۔ وہاں پہنچ کر وہ اس قیدی میں گر گیا اور پکار پکار کر کہنے لگا ” باادب با ملاحظہ ہوشیار’ شہنشاہ جہاں فلاں فلاں’ شہنشاہ مراکو۔” اب جیل کا دراوغہ اور وہ قیدی حیران و پریشان کھڑے دیکھ رہے ہیں اور اس سے پوچھا کہ کیا ہو۔ اس نے بتایا کہ بلوائیوں نے مراکو کے بادشاہ کو قتل کر دیا ہے اور آپ چونکہ اس کے چھوٹے بھائی ہیں۔ اب آپ ہی تخت و تاج کے وارث میں لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایک اکیلے مجھے علم تھا کہ آپ زندہ و سلامت ہیں۔ چنانچہ اس کو بڑی عزت و احترام کے ساتھ گھوڑے پر بٹھا کر لایا گیا اور جس بادشاہ نے اس کے قتل کا حکم نامہ جاری کیا تھا اسی کے تخت پر بٹھا دیا گیا اور وہ بادشاہ بن گیا۔ یہ ٹینشن اور ڈپریشن کا مرض اس قدر ظالم، مہلک اور خطرناک ہے کہ کوئی منتر، کوئی گولی اور کوئی جادو ٹونا آپ کی مدد نہیں کر سکتا اور جوں جوں خدا کی ذات پر سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے یہ مرض بڑھتا چلا جا رہا ہے اور اس کو دور کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ چلئے اپنی زندگی کے 365 دنوں میں چار دن تو ایسے نکال لیں کہ واقعی ان دنوں میں اللہ پر اعتماد کر کے بیٹھ جائیں۔ میری پیارے ملک کے پیارے لوگ اس قدر کچھاؤ میں ہیں کہ ہر وقت خوف کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ مجھے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے غالباً یہ واں رادھا رام یا راجہ جنگ کی بات ہے کہ وہاں ایک بینک کھلا۔ وہ چلتا رہا۔ ان علاقوں میں بینکوں کی ڈکیتیاں عام ہیں۔ اب کسی ڈکیت نے سوچا کہ یہ قبضے کا بینک ہے اس میں آسانی سے واردات ہو سکتی ہے لٰہذا اس نے اپنی کلاشنکوف لی۔ جیپ باہر کھڑی کی اور اس نے اس بینک میں ایک گولی گائر کی اور سب کو ڈرا کر ہینڈز اپ کرا دئیے اور کیشیئر کے آگے جتنی رقم تھی وہ اس نے اپنے تھیلے میں ڈال لی۔ اس رقم میں سارے ملے جلے نوٹ تھے۔ جب وہ بینک سے باہر نکلا تو عجیب سماں تھا۔ اس کے فائر کرنے کی وجہ سے باہر لوگوں کو صورتحال کا اندازہ ہو چکا تھا۔ اور ان گاؤں والوں نے اس بینک ڈکیتی کو اپنی عزت بے عزتی کا معاملہ بنا لیا تھا اور وہ اپنے گھروں سے اپنی پرانی بندوقیں نکال لر باہر لے آئے۔ کسی کے پاس رائفل بھی تھی اور وہ سارے اکھٹے ہو کر آئے اور آتے ہی اس ڈاکو کی جیب کے ٹائر پنکچر کر دیئے۔ پھر شور مچانا شروع کر دیا۔ اس ڈکیت بے بھاگنے کی کوشش کی اور فائرنگ کرتا رہا لیکن وہ لوگ بھی ارادے کے پکے تھے اور انہوں نے گھیراؤ کر لیا۔ جب ڈاکو کے ہاتھ سے روپوں والا تھیلا چھوٹ اتو نوٹ بکھر گئے۔ اب لوگوں نے ڈاکو کو تو جانے دیا لیکن روپوں کو اکھٹا کرنا شروع کر دیا اور سارے نوٹ سنبھال کر بینک مینجر کو دے آئے۔
خواتین و حضرات یہ دنیا کی واحد بینک ڈکیتی ہے جس میں بینک کو 32 روپے کا فائدہ ہوا کیونکہ کئی لوگوں کی جیبوں سے گر کر پیسے اس رقم میں شامل ہو گئے
تھے اور اس طرح بینک نے لوٹے ہوئے 28 ہزار کی جگہ 28 ہزار 32 روپے حاصل کیے۔
برداشت کرنے اور حوصلہ کرنے سے کچھ ایسے فائدے کی راہیں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ پریشان ہونے کی اس لیے بھی ضرورے نہیں ہے کیونکہ وہ تو ہو کر رہے گا جو ہو کر رہنے والا ہے۔


بہتر ہے دل کے پاس رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے​

اب میں آپ لوگوں کو پھنسے ہوئے نہیں دیکھ سکتا اور میری آرزو اور بڑی تمنا ہے کہ آپ ایک سہل زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں تاکہ بہت سے بڑے بڑے کام جو انتظار کر رہے ہیں اور بہت سی فتوحات جو آپ نے کرنی ہیں وہ آپ کر سکیں اور یہ اسی صورت ممکن ہو گا کہ آپ خداوند تعالٰی پر مکمل یقین رکھیں اور قلب کو بھی مانیں۔ آپ 99 فیصد مادہ پرستہ کو تھامے رکھیں اور صرف ایک فیصد تو اپنی ذات کو آزاری کی اجازت دے دیں اور کہہ دیں کہ اگر آج سو روپے کا نقصان ہونا ہے تو ہولے کوئی بات نہیں۔
اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین۔اللہ حافظ۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 

قیصرانی

لائبریرین
رشوت
آج سے کوئی دس بارہ برس بیشت کچھ Socialogist جن میں دو تین امریکی اور چار پانچ Scandinavion تھے، وہ یہاں تشریف لائے۔ وہ اس بارے میں تحقیق کر رہے تھے کہ پاکستان اور دوسرے ملکوں میں رشوت کی رسم کیوں عام ہے اور سرکاری وغیر سرکاری افسر جب بھی موقع ملے رشوت کیوں‌لیتے ہیں؟اور اپنے ہی ہم وطنوں کو اس طرح سے کیوں پریشان کرتے ہیں؟ تقریباً ایک برس یا اس سے کچھ زائد عرصہ میں بھی ان کے ساتھ تفریح‌کے طور پر رہا کہ دیکھتے ہیں ان کی تحقیق کا آخر کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ آخر کار یہ بات پایہء ثبوت کو پہنچی کہ اس کوئی شخص اس وقت تھ رشوت نہیں لے سکتا جب تک کہ وہ اپنے آپ کو خوار، ذلیل، پریشان اور زبوں حال نہ سمجھے۔ پہلے اپنے دل اور اپنی روح کے نہاں خانے میں انسان اپنے آپ کو ذلیل، کمینہ، چھوٹا اور گھٹیا سمجھتا ہے۔ اس کے بعد وہ رشوت کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے۔ اگرکوئی شخص عزت ووقار اور اطمینان اور Dignity کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے تو وہ کسی حال میں رشوت کی طرف رجوع نہیں کرتا۔ ہمارے دین میں‌بھی اس بات پر بڑا زور دیا گیا ہے کہ آپ وقار، عظمت اور تمنکنت کا دامن کسی صورت میں بھی ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور اپنے آپ کو ایک اعلٰی اور ارفع مخلوق جانیں کیونکہ آپ کو اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کر دیا گیا ہے۔ اس لئے آپ ہر وقت اشرف المخلوقات کے فریم ورک کے اندر اپنی زندگی بسر کریں یا بسر کرنے کی کوشش کریں۔ اکثر ہم سوچتے ہیں اور کتابوں میں بھی پڑھتے ہیں کہ کتے کو ہمارے ہاں نجس جانور سمجھا جاتا ہے اور اسے پالنے کی ترغیب نہیں دی گئی۔ ماسوائے اس کے کہ یہ ریوڑ کی رکھوالی کرے اور محض‌اس کام کے لئے اس کورکھنے کی اجازتے ہے۔ گھروں میں اسے پالنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے بارے میں‌بہت سے منطقی دلائل بھی دئے جاتے ہیں اور اس میں‌دینی دلائل بھی شامل ہو جاتے ہیں اور اس صورتحال میں‌ہمارے نئی نسل کے بچے بہت ناراض ہوتے ہیں(مجھے میرے پوتےپوتیاں‌کہتے ہیں کہ دادا آپ اس کی کیوں اجازت نہیں دیتے کہ کتے کو گھر میں رکھا جائے) ہم طوعاً وکرہاً بچوں کی بات مانتے ہوئی اجازت تو دے دیتے ہیں لیکن اس پر غور ضرور کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی کیا جاتا ہے کہ ایسا حکم آخر کیوں‌ہے؟ اگر یہ ناپاک ہے یا گند ڈالتا ہے تو بہت سے جانورایسے ہیں جو ناپاک ہوتےہیں اور گند ڈالتے ہیں لیکن بطور خاص اس کے اوپر کیوں قدغن ہے؟ پتہ یہ چلا کہ کتا چونکہ تمام جانوروں میں سے اور خاص طور پر پالتو جانوروں میں سے Psychophysicist (خوشامد پسند) جانور ہے اور ہر وقت مالک کے سامنے جاو بے جا دم ہلاتا رہتا ہے۔ اس لئے ہمارے دین نے یہ نہیں چاہا کہ ایک ایسا ذی روح آپ کے قریب رہے جو ہر وقت آپ کی خوشامد میں مبتلا رہے اور یہ خیال کیا گیا کہ یہ انسانی زندگی پر ایک منفی طور پر اثر انداز ہوگا اور یہ خوشامد پسند ہر وقت دم ہلا ہلا کے اور پاؤں میں لوٹ لوٹ کے اور طور و بے طور آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ اس لئے حکم ہوا کہ ایسا جانور مت رکھیں، یہ خصوصیات آپ میں‌بھی پیدا ہو جائیں گی اور جب آپ کے اندرPsychophyncy اور خوشامد پسندی اور بلا وجہ لوگوں کو خوش کرنے کا جذبہ پیدا ہونے لگے گا تو آپ کی شخصیت، انفرادیت اور وجاہت پر اس کا منفی اور برا اثر پڑے گا۔ اس لئے اس جانور کہ نہ رکھیں۔ آپ بلی کو رکھ کر دیکھیں، کبھی آپ کی خوشامد نہیں‌کرتی بلکہ جب موڈ بنے، پنجہ مارتی ہے، گھوڑا کتنا پیارا جانور ہے اور انسان کا پرانا دوست ہے۔ انسان پر اپنی جان فدا کرتا ہے لیکن جب آپ اس کو بری نظر سے دیکھیں گے یا زیادتی کریں‌گے تو “الف“ ہو جائے گا اور دونوں‌ٹانگیں اوپر اٹھا کر سیدھا کھڑا ہو جائے گااور کبھی خوشامد نہیں کرے گا اور آپ کے ساتھ برابری کی سطح پر چلے گا اور سارے جانور ہیں، عقاب ہے، باز ہے۔ آپ نے اکثر باز کو دیکھا ہوگا۔ جیسے ہمارے ہاں‌عرب شہزادے آتے ہیں اور انہوں نے اس کو ہاتھوں پر بٹھایا ہوتا ہے اور اس کی آنکھوں‌کو بند کر کے رکھا جاتا ہے۔ اس لئے اس کے سر پر ٹوپی دی ہوتی ہے۔ اگر اس کی آنکھوں کو بند کر کے نہ رکھا جائے تو وہ مالک جس نے اس کو اپنی کلائی کے اوپر بٹھایا ہوتا ہے، اس پر بھی جھپٹ سکتا ہے کہ مجھے پاؤں‌میں دھاگے اور زنجیریں ڈال کر کیوں‌قیدی بنایا ہے۔ ایسی چیزوں کو رکھنے کی اجازت ہے لیکن جو آپ کی عظمت اور وقار میں کمی کا باعث بنیں اور آپ کو خوشامد سکھائیں تو ایسے جانوروں کو رکھنے کی اجازت نہیں ہے اور ہمیں اس بات کا حکم ہے کہ ہم اپنی وجاہت کو ہر حال میں قائم رکھیں اور اس کے ساتھ ساتھ فرعونیت، تکبر اور گھمنڈ سے پرہیز کرتے رہیں اور اپنے اور تکبر کے درمیان ایک لائن ہر وقت کھینچ کر رکھیں۔ انسان کی اپنی بھی بڑی مجبور زندگی ہے کہ جگہ جگہ پر اسے لائنیں کھینچنی پڑتی ہیں حتٰی کہ اسے اپنی Biological Needs یعنی اپنی جبلی خواہشات کے آگے بھی لائنیں‌کھینچنے کا حکم ہے۔ یہ میری جبلی خواہش ہے کہ میں کھانا کھاؤں، اچھا کھانا کھاؤں۔ بہتر، مزید اور لذیذ کھانا کھاؤں لیکن مجھے حکم ہے کہ بس آج لائن کھینچ دوں۔ آج آپ صبح سے شام تک کچھ نہیں کھا سکتے۔ نہایت لذیذ کھانے آپ کے سامنے آتے رہیں گے، اشتہا انگیز چیزیں آپ کو اکساتی رہیں گی لیکن کھا نہیں سکتے۔ حکم یہ ہے کہ آپ کے لئے آپ کو روک دیا گیا ہے کیونکہ آپ انسان ہیں اور آپ بلند تر چیز ہیں۔ انسان کو اس لئے اشرف المخلوقات کہا گیا ہے کہ جب وہ پورے کا پورا آزاد ہو جاتا ہے اور جب وہ کرنے اور نہ کرنے کی یکسان صلاحیت رکھتا ہو اور یہاں وہ انسان آزاد ہو جاتا ہے لیکن وہ اس لمحے وہ کرتا ہے جس میں وہ اپنی ذات کو لگام ڈال کے بے جا اور ناجائز خواہشیں اور عمل سے محفوظ رکھتا ہے۔ اس سے وہ اشرف المخلوقات بنتا ہے۔ آزادی یہ نہیں کہ کسی کے خلاف مضمون لکھ دیا، تقریر کر دی بلکہ اپنی ذات کو لگام ڈال کے اور باگیں‌کھینچ کر رکھنے کا نام آزادئ انسان کا نام دیا جاتا ہے۔ بھینس برسیم کےکھیت میں‌چلی جا رہی ہے تو وہ اٍدھر اُدھر منہ مارے گی، کُتا نجس بھی کھاتا جائے گا اور پاک چیزیں بھی لیکن انسان وہ ہے کہ جو کھا بھی سکتا ہے اور پھر بھی نہیں کھاتا اور خود کو پابند بھی رکھتا ہے اس اور پابندی کے دوران سو مہمان بھی اس کے پاس آئیں تو وہ ان کی خدمت کرتا ہے، کھلاتا پلاتا ہے، مہمان نوازی کرتا ہے لیکن خود نہیں کھائے گا۔ انسان کی جبلی خواہشات پر پابندی لگانے کا مقصد انسانوں‌کو بھوکا رکھنا نہیں بلکہ انسان کی عظمت اور وقار کو برقرار رکھنا مقصود ہے تاکہ وہ بوقتٍ ضرورت خود پر کنٹرول رکھے۔ ہمارے یہاں‌لاہور ماڈل ٹاؤن میں‌ایک برگیڈئیر صاحب ہیں، انہیں‌کتے رکھنے کا بہت شوق ہے۔ ان کا ایک اچھا السیشن کتا تھا۔ وہ شاید برگیڈئیر صاحب کی نظر سے گر گیا تھا اور وہ کھلا بھی چھوڑ دیا کرتے تھے اور وہ کتا اپنی مرضی سے ادھر ادھر گھومتا تھا۔ وہ کتا دورانٍ آوارگی قصاب کی دوکانوں پر چھیچھڑے اور کچا گوشت کھاتا، سنتے ہیں کہ کچا گوشت کتے کے لئے بہت مہلک ہوتا ہے۔ جب وہ دوکانوں‌سے گھوم پھر کر اور کچا گوشت کھا کے آجاتا اور اس کے “لچھن“ بھی کچھ اچھے نہیں تھے۔ اس وجہ سے برگیڈئیر صاحب نے اس کے گلے میں دھاگہ ڈال کر ایک کارڈ ڈال دیا جس پر لکھا تھا “مہربانی فرما کر اس کتے کو گوشت نہ ڈالا جائے اور اگر یہ قصاب کی دوکان پر آئے تو قصاب حضرات اس کو دھتکار کر پرے بھیج دیں۔“ اب بیچارےتمام قصاب ڈر گئے اور وہ برگیڈئیر صاحب کے کتے کو کچھ نہیں دیتے تھے اور ایک دوسرے کو بھی انتباہ کرتے کہ خبردار اسے کچھ نہ دینا ورنہ مارے جاؤ گے۔ اسے یونہی بھوکا پیاسا ہی رہنے دو اور وہ بیچارہ ویسے ہی لوٹ جاتا۔ کتا جیسا کہ میں‌کہ رہا تھا کہ ایک خوشامد پسند جانور ہے، اس نے بھی سوچا کہ اس طرح تو میری جان آفت میں پھنس گئی ہے، میں‌کیا کروں۔ السیشن کتے بڑے ذہین ہوتے ہیں، چنانچہ اسے پتہ چلا کہ یہ سب خرابی میرے گلے میں‌لٹکتے ہوئے کارڈ کی ہے تو اس نے پنجوں‌کے زور سے اور دانتوں سے وہ گتہ یا کارڈ کاٹ کر گلے سے اتار پھینکا۔ جب اگلے دن وہ باہر گیا تو ظاہر ہے کہ اب اس کے گلے میں کوئی ایسا ویسا نوٹس نہیں تھا اور وہ مزے سے کھا پی کے واپس آگیا توایسی زندگی بسر کرنے سے بہتر ہے کہ انسان ایک غار میں چلا جائے اور بے غیرتی اور کم مائیگی کی زندگی بسر نہ کرے اور ایسی زندگی نہ کرے جس طرح‌کی عام طور پر حشرات الارض کرتے ہیں۔
ایک بار ایک عالمی سطح کے ہئیت دانوں‌کی کانفرنس ہو رہی تھی۔ اس میں آئن سٹائن بھی شریک تھے۔ ایک ہئیت دان نے دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد آئن سٹائن سے کہا کہ جناب دیکھئے!اگر ہم کائناتوں کو ذہن میں رکھیں اور جتنے بھی عالم اللہ تعالٰی نے بنائے ہیں، ان کو بھی اپنی نظر سے جانچنے کی کوشش کریں تو انسان کا مقام Mathematically ایک ذرے سے بھی بے حد کم تر رہ جاتا ہے یعنی وہ کچھ بھی نہیں ہے اور انسان تو اتنی بڑی کائنات کے اندر ایک بے معانی سی چیز ہے۔ یہ سن کر آئن سٹائن نے کہا، ہاں‌واقعی آپ ٹھیک کہ رہے ہیں اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہ ایک بے معانی، بے مایہ اور کم تر، کم حقیقت انسان جس کی حیثیت ایک ذرے سے بھی کم ہے، وہ ہی دوربین لگا کر ان کائناتوں کا مطالعہ کر رہا ہے اوروہی ان کائناتوں کے بھیدکھول رہا ہے اور لوگوں کو ان کائناتوں کی تفصیل سے آگاہ کر رہا ہے اور لوگوں کو کائنات کی جزیات کی بابت بتاتے ہیں۔ اپنے آپ کو اتنا بھی حقیر نہیں سمجھا جانا چاہئے کہ وہ رشوت کی لپیٹ میں آجائے۔ کوئی بھی آدمی جو بظاہر آپ کو ہنستا ہوا دکھائی دے اور بظاہر یہ کہے کہ جی ساری دنیا ہی رشوت لیتی ہے۔ بظاہر وہ آپ سے کہے کہ جی Values Change ہو گئی ہیں اور قدریں وہ نہیں رہیں۔ ان سے وہ اپنے آپ کو ضرور گھٹیا، کمینہ اور ذلیل انسان ہی سمجھتا رہتا ہے اور اس کے اندر Guilt کا جذبہ ہر وقت اپنا کام دکھاتا چلاجاتا ہے۔ اللہ میاں‌نے ہم کو عجیب وغریب طرح سے باندھا ہوا ہے۔ آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ اس بھری دنیا میں جتنی بھی قومیں، جتنی بھی نسلیں اور گروہٍ انسانی آباد ہیں، ان سب کا دن طلوع آفتاب سے شروع ہوتا ہے، سورج نمودار ہوا اور دن چڑھ گیا اور کہا گیا کہ آج یکم دسمبر یا جنوری کی پہلی تاریخ‌ہے، صرف ایک امہ ایسی ہے پوری کائنات میں جس کا دن شام کے وقت سے شروع ہوتا ہے۔ جب شام پڑتی ہے تو اس کا نیا دن معرضٍ وجود میں آتا ہے اور وہ امہ اسلام کی امہ ہے، آپ نے رمضان المبارک میں دیکھا ہوگاشام کو نقارہ بجتا ہے، توپ چلتی ہے، اعلان ہوا یا سائرن بجتا ہے اور مغرب کے بعد اعلان ہوتا ہے کہ اب ہم رمضان کے مہینے میں داخل ہو گئے ہیں، ہم رمضان میں‌صجح‌کو وقت نہیں داخل ہوتے بلکہ رات کے وقت ہوتے ہیں۔ یہ عجیب دین ہے کہ شام سے یا رات سے منسوب کر کے اس کے دن اور مہینہ سے آغاز کیا جاتا ہے، دنیا کے کسی اور مذہب میں ایسا نہیں ہے اور کسی امت پر ایسا بوجھ نہیں۔ اس کی وجہ جو میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ اس امت کو بارٍ گراں عطا کیا گیا ہے کہ باوصف اس کے کہ تمھارا نیا دین چڑھ گیا ہے، تم نئے ماہ میں داخل ہو گئے ہو اور اس کے بعد پوری تاریک رات کا سامنا ہے لیکن تم ایک عظیم Dignified امہ ہو۔ تم ایک پروقار امت سے تعلق رکھتے ہو۔ تم اس سے تاریکی سے گھبرانا ہرگز ہرگز نہیں بلک اس تاریکی میں سے گزر کر اپنے وجود پر اعتماد کر کے تمہیں اس صبح تک پہنچنا ہے جس سے ساری جگہ روشنی پھیلے گی، گویا اس تاریکی کے اندر ہی آپ کو اپنی ذات، وجود اور شخصیت سے روشنی کرنی ہے۔ ہم، تم، آپ سب کے سب اپنا مہینہ، اپنا دن مغرب کے بعد رات سے شروع کرتے ہین اور بحیثیت مسلمان یقین ہوتا ہے، یہ تاریکی ہمیں‌کسی قسم کی گزند یا تکلیف نہیں پہنچا سکتی۔ ہم ہیں اور یہ تاریکی ہے اور ہمارے وجود سے ہی اس تاریکی میں روشنی ہے۔ ہم روشن دن کی آرزو میں یا روشن صبح کو پکڑنے کے لئے ہرگز ہرگز اتنے بے چین‌نہیں ہیں جس قدر دنیا کی دوسری قومیں ہیں مضطرب ہیں، ہم اپنی سانسوں سے تاریک راتوں میں‌اجالا کرتے ہین اور اپنی سانسوں سے شمعیں روشن کرتے ہیں۔ یہ وقار اور عظمت جو ہے یہ ہمارا طرہء‌امتیاز ہے لیکن کہیں‌کہیں ہم کمزور ہو جاتے ہیں اور وقار سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ پھر ہمارے اندر Guilt کا احساس ضرور پیدا ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ اپنے آپ پر کچھ ایسی خود تنقیدی سے کہیں کہ نہیں اب زمانہ بدل گیا ہے، اب ساری دنیا ایسی ہو گئی ہے تو ہم بھی ویسے ہو جائیں۔ یہ بڑے شوق سے کہ لیں یا بڑے شوق سے لکھ لیں، بڑے شوق سے اپنے Guilt کو Argument کر لیں، جان نہیں چھوٹنی کیونکہ جو حکم آپ کے اوپر جاری کر دیا گیا ہے، اور جس فریم ورک میں آپ کو رکھ دیا گیا ہے ہونا وہی ہے۔ مجھے حضرت نظام الدین اولیا رح کے خلیفہ خواجہ نصیرالدین چراغ دہلوی کی وہ بات یاد آتی ہے جب ایک بار قحط پڑ گیا اور دٍلی میں‌بہت “سوکھا“ ہو گیا تو لوگوں نے کہا کہ یا حضرت‌(وہ چبوترے پر تشریف فرما تھے) آپ تو چراغٍ دلی ہیں، آپ جا کے نمازٍ استسقاء پڑھائیے اور بارانٍ رحمت کے لئے دعا کیجئے تو وہ کہنے لگے کہ میں کچھ متردد ہوا، پریشان ہوا کہ میں‌کیسے دعا کروں۔ یہ تو خدا کی مرضی ہے کہ وہ بارانٍ رحمت کرے یا نہ کرے۔ خیر وہ طے شدہ مقام پر نمازٍ استسقاء پڑھانے چلے گئے۔ وہاں‌جا کر نماز پڑھائی اور دعا کی اور دعا کے بعد دیکھا کہ آسمان پر کچھ بھی نہیں، نہ کوئی ابر کے آثار ہیں نہ بارش کے۔ وہ لوٹ آئے اور کچھ شرمندہ تھے۔ وہاں‌ایک بزرگ یوسف سرہندی تھے۔ انہوں نے کہا کہ صاحب پہلے بھی ایک ایسا واقعہ پیش آچکا ہے۔ ہم نے بھی ایک بار بارش کے لئے دعا کی تھی لیکن وہ بدترین قحط اورDrought کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو سکا تھا اور اب کی بار بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ کہنے لگے کہ ہمارے زمانے میں میرے پاس آئے اور انہوں‌نے کہا کہ اگر تم بارانٍ رحمت کے لئے دعا کرانا چاہتے ہو تو کسی ‌جب دعا قبول نہیں ہوئی تھی تو ایک صاحب میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ اگر تم بارانٍ رحمت کے لئے دعا کروانا چاہتے ہو تو کسی باوقار Editorialised آدمی سے کرواؤ اور اللہ باوقار اور غیرت مند آدمی پر بڑا اعتماد کرتا ہے اور اس کی بات سنتا ہے۔ تو میں‌نے کہا، ٹھیک ہے۔ ہمیں‌اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے تو بتاؤ کہ کس سے دعا کروائیں تو اس شخص نے بتایا کہ سیری دروازے کے پاس ایک بزرگ رہتے ہیں، وہاں چلتے ہین۔ یوسف سرہندی نے مزید کہا کہ وہ شخص مجھے ان کےپاس لے گیا اور میں دیکھ کر بہت حیران اور شرمندہ بھی ہوا کہ بزرگ جو تھے وہ خواجہ سرا تھے یعنی ہیجڑے(مخنث تھے اور ان کا نام خواجہ راحت تھا)۔ اب وہ شخص کو مجھے وہاں لے کر گیا تھا، اس نے خواجہ رحمت مخنث سے کہا کہ یہ (یوسف سرہندی) آپ کی خدمت میں اس لئے حاضر ہوئے ہیں کہ آپ مینہ یا باراں یا Fain Fall کے لئے دعا فرمائیں تو انہوں نے کہا،کیوں کیا ہوگا؟ اس شخص نے کہا یا حضرت(اس ہیجڑے سے کہا، مجھے انہیں ہیجڑا کہتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے اور یہ لفظ استعمال کرتے ہوئے ایسی بزرگ شخصیت کے لئے لیکن چونکہ وہ مخنث تھے اور اپنے آپ کو خود بھی کہتے تھے، دیکھئے باوقار لوگبھی کیا ہوتے ہیں۔ ان کا تعلق کسی ذات، عورت، مرد یا مخنث سے تعلق نہیں ہوتا۔یہ وقار ایک الگ سی چیزہے جو انسان کے اندر روح سے داخل ہوتا ہے) دلی سوکھا ہے، بارش نہیں ہو رہی۔ ان حضرت نے اپنی خادمہ سے کہا کہ پانی گرم کرو، وضو کیا اور دعا مانگی اور اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ پھر کہنے لگے کہ اے یوسف سرہندی آپ جائیں‌اور اپنے معروف طریقے سے بارش کے لئے نماز ادا کرو اور خدا سے دعا مانگیں کہ وہ اپنی مخلوق کو بارش عنایت فرمائے لیکن اگر پھر بھی بارش نہ ہو تو (انہوں‌نے اپنی قباسے ایک دھاگہ یا بڑھا ہوا ڈورا کھینچا) اس ڈورے کو اپنے دائیں ہاتھ پر رکھ کر اللہ سے درخواست کرنا کہ یہ خواجہ رحمت مخنث جس نے تیری رضا کا چولا پہن لیا ہے اور اب لوگوں سے نہیں ملتا اور ایک مقام پر ایک وقار کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے اور اس طرح‌مخلوق میں بھی شامل نہیں‌ہوتا کہ وہ دعائیں منگواتا پھرے۔ اس نے بارش کے لئے عرض کیا ہے۔ یوسف صاحب کہنے لگے کہ ہم نے ایسا ہی کیا۔ وہاں‌بہت سے لوگ اکٹھے تھے۔ پورا دلی امڈ کے آیا ہوا تھا۔ وہاں نماز استسقا پڑھی لیکن بد قسمتی سے کچھ بھی نہ ہوا۔ پھر میں‌نے اپنی دستار سے خواجہ رحمت مخنث کی قباء کا وہ ڈورا نکالا اور اسے دائیں‌ہاتھ پر رکھ کر خدا سے دعا کی تو وہاں‌کھڑے کھڑے بادل گھٍر کر آیا اور موسلا دھار بارش ہون ے لگی اور اس قدر زور کی بارش شروع ہو گئی کہ لوگ تیزی سے بھاگنے کے باوجود اپنے گھروں تک نہ پہنچ سکے۔
خواتین و حضرات اب یہ فیصلہ ہمارا ہے کہ ہم کس وقار کے ساتھ اور اس امہ سے تعلق رکھتے ہوئی کیسی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ خدا ہم کو عزت و وقار سے زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ میری دعا ہے کہ اللہ آپ کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین۔
 
Top