محب علوی
مدیر
جب میں زندگی میں پہلی مرتبہ ہانگ کانگ گیا تو جیسے ہر نئے ملک اور شہر میں جانے کا ایک نیا تجربہ ہوتا ہے اس طرح میرا ہانگ کانگ جانے کا تجربہ بھی میری زندگی کے ساتھ ایسے چھوتے ہوئے گزرا کہ میرے اندر تو شاید وہ سب کچھ تھا جسے اجاگر ہونے کی ضرورت تھی لیکن وہ باہر برآمد نہیں ہوپاتا تھا۔ میں وہاں جس دفتر میں جانا تھا وہاں کے باس جس سے میں نے براڈ کاسٹنگ کے سلسلے میں ملاقات کرنا تھی وہ بیمار ہو کر ہسپتال میں داخل ہوچکے تھے اور اس کے دفتر والے کچھ پریشان تھے۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی کے مہرے یا کمر کے مہرے ایک دوسرے پر چڑھ گئے تھے۔ میں نے ان سے ملنے کی خواہش ظاہر کی لیکن دفتر والوں نے کہا کہ وہ بات کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں اور کافی تکلیف میں ہیں۔ ان صاحب کا دفتر جو بڑا اچھا اور خوبصورت دفتر تھا۔ اس میں کچھ تبدیلی ہورہی تھی۔ اس کی سیکرٹری چیزوں کو ہٹانے ، رکھنے یا جگہ بدلنے بارے ہدایت دے رہی تھی۔ وہاں ایک چھوٹے سے قد کا آدمی بھی آیا ہوا تھا جو Instructions دے رہا تھا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہ آپ لوگ کیا کررہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہم دفتر کی “فونگ شوئی“ کر رہے ہیں اور یہ شخص “فونگ شوئی“ کے Expert ہیں۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ہمارے دفتر کی فونگ شوئی بہت خراب تھی اور اس کی وجہ سے ہمارے باس پر بیماری کا حملہ ہوا۔ اب ڈاکٹر ان کے باس کا ڈاکٹری انداز میں علاج کر رہے تھے لیکن وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ اگر دفتر کی فونگ شوئی بہتر ہوتی تو ایسے نہ ہوتا۔
میں نے ان سے پوچھا کہ یہ فونگ شوئی کیا ہوتی ہے۔ تو انہوں نے بتایا کہ اس کا لفظی مطلب پانی اور ہوا ہے۔ اس دفتر کی آب و ہوا نا مناسب تھی جس سے صاحب بیمار ہوگئے۔ ہمیں اس Expert نے کہا تھا اس دفتر کی کھڑکی کے سامنے جو عمارت ہے وہ اس انداز میں بنی ہے جو اس دفتر پر منفی انداز میں اثر انداز ہو سکتی ہے اور اگر اس کھڑکی پر ایک دبیز پردہ مسلسل لٹکتا رہے تو پھر اس کے اثرات سے بچا جا سکتا ہے۔ دوسری بات وہ یہ کہہ رہا تھا کہ اس کمرے میں ایک شیشے کا بڑا حوض رکھا جائے اور اس میں کالی مچھلیاں ہوں اور اس باس کی جو میز اور کرسی ہے وہ جہاں اب ہے وہاں نہ ہو بلکہ دروازے کے ساتھ ہو۔
خواتین و حضرات! گو یہ شگون کی سی بات کررہا تھا لیکن زندگیوں میں شگون عجیب طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان کو منطقی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ تعلق نہیں کہا جاسکتا۔ دفتر والوں کے مطابق ان کے باس کو سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ وہ بالکل دروازے کے ساتھ میز کرسی نہیں لگوا سکتے کیونکہ دنیا میں آج تک کسی باس کی میز کرسی بالکل دروازے کے ساتھ نہیں ہوتی ہے لیکن فونگ شوئی ماسٹر کا اصرار تھا کہ اس دفتر کا جغرافیہ اس امر کا تقاضہ کر رہا ہے۔ جب دفتر کی ساری تبدیلیاں ہوچکیں تو انہوں نے کہا کہ اب باس کی طبیعت پہلے سے کچھ بہتر ہوگئی ہے تو میں نے کہا کہ کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ کام یہاں ہو رہا ہے لیکن طبیعت وہاں بہتر ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آب و ہوا اور رخ کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ ہمیں بھی اللہ نے ایک رخ کا آرڈر دیا ہے کہ تم اپنا رخ ادھر کو رکھنا پھر عبادت کرنا یا کوئیقسماٹھانا تو رخ ادھر کرکے اٹھانا۔ اگر آپ کی سوئی متعین رخ سے ادھر ادھر ہلتی یا ہٹتی ہے تو آپ کا عمل چاہے کتنا بھی اچھا ہو، علم کتنا بھی اچھا ہو تو مشکل پیدا ہوجائے گی۔ میں اس وقت یہی سوچتا رہا کہ ہمیں خدا نے کہا ہے کہ اپنا چہرہ قبلہ رخ کرکے نماز پڑھو تو ظاہر ہے اس میں کوئی حکمت ضرور ہوگی جس کا مجھے علم نہیں ہے۔ یہ بات سوچ کے مجھے اپنی جوانی کے اس وقت کا خیال یا جب ہم ہڑپہ دیکھنے گئے تھے۔ وہاں جو بستیاں بسائی گئی تھیں ان کا ایک زمانے کے لوگوں نے ایک خاص رخ رکھا تھا۔ پانچ ہزار سال پہلے بھی ان بستیوں کا باقاعدہ رخ رکھاگیا۔ ہماری طرح سے ٹاؤن پلاننگ کیے گئے گھر تھے۔ اس فونگ شوئی کے تصور سے میرے ہاتھ ایک بہت اچھی بات آئی۔ وہ یہ تھی کہ میں ایک پڑھا لکھا آدمی ہونے کی حیثیت سے اعتراض کیا کرتا تھا کہ بھئی آپ کیوں کہتے ہیں کہ کندھے سے کندھا ملا کر لائن سیدھی کرلیں۔ جس طرح ہرنماز کے وقت امام صاحب کہتے ہیں میں کہتا تھا کہ اگر ایک انچ آگے یا پیچھے ہو بھی جائے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ مجھے تب احساس ہونے لگا کہ یقیناّ فرق پڑتا ہے لیکن میں اس کو نہیں سمجھتا۔ میں اس بات پر بھی بہت چڑتا تھا اور میرے اور بھی بچے چڑتے ہوں گے کہ ٹخنوں سے اونچا پائینچہ کیوں رکھیں۔ اس کا ہمیں کیوں کہاجاتا ہے۔ ہم کہتے کہ اس سے کیا ہوتا ہے لیکن فونگ شوئی کا وہ سارا Process دیکھنے کے بعد میں نے سوچا کہ اس سے روح کی آب وہوا میں ضرور فرق پڑتا ہوگا اور ہم کیوں نہ ایسا کرلیں جیساکہ ہمارے بڑوں اور پرکھوں نے کیا ہے۔ ہم اپنے سرجنوں کی بات تو مانتے ہیں اور اتنا ہی کاٹ دیا جاتا ہے جیسے وہ کہتے ہیں۔ اس طرح روحانی آپریشن میں بھی بابوں کی یا بڑوں کی بات مان لی جائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ برطانیہ کاجو ایک جیوگرافک میگزین ہے اس میں لکھنے والے ان دنوں ایک Research کرکے حیران ہو رہے ہیں کہ وہ مسلمان جو عرب سے چل کر ایسی عجیب و غریب جگہوں پر پہنچے جن کے جغرافیے سے وہ آشنا نہیں تھے۔ ان لوگوں نے چودہ یا پندرہ سو برس پہلے جو مساجد بنائیں تھیں ان کا رخ کس طرح سے کعبے یا حرم شریف کی طرف رکھا گیا تھا۔ کیونکہ ان کے پاس اطراف کا تعین کرنے والا کوئی آلہ نہیں ہوتا تھا اور کوئی قطب نما نہیں تھا۔
اس حوالے سے میگزین میں ریسرچ سلسلہ وار چھپتی رہی۔ ایک مضمون میں انہوں نے لکھا کہ چونکہ وہ بحری سفر کرتے تھے اور وہ ستارہ شناس تھے اس لیے وہ اطراف کا تعین درست رکھتے تھے اور مساجد کا رخ درست رکھتے تھے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کشتیوں والے تاجر یا ملاں تو ان بابوں کو ان ویران علاقوں میں چھوڑ کر چلے جاتے تھے اور یہ مساجد وغیرہ یہ بابے ہی بناتے تھی۔ سینکیانگایک عجیب و غریب علاقہ ہے ۔ اگر آپ کبھی شاہراہ ریشم ہر گئے ہوں اور پھر آگے چین کے بارڈر تک جائیں تو وہ انتہائی غیر آباد علاقہ تھا۔ وہاں آنے والوں کو آخر کس نے بتایا تھا کہ اس مسجد کا رخ کعبے کی سمت کرنا ہے اور کعبہ کس طرف ہے؟
میگزین کے مطابق ایک اکیلا شخص انڈونیشیا گیا۔ اس نے بھی پھونس لکڑی، پتھر جوڑ جاڑ کے ایک مسجد بنائی اور اس کا رخ بھی Correct کعبے کی طرف رکھا۔ میں نے جب یہ مضمون پڑھا تو پھر مجھے حیرانی ہوئی اور فونگ شوئی کا مسئلہ بھی ذہن میں آیا اور میں نے سوچا کہ رخ کا درست رکھنا کس قدر ضروری ہے۔ میں نے آج سے پچیس تیس برس پہلے جب اپنا گھر بنایا تھا تو یہ رخ والی اور فونگ شوئی کی بات ذہن میں نہیں رکھی تھی البتہ اب یہ بات ذہن میں آتی ہے۔ اس وقت بانو قدسیہ نے کہا کہ ایک کمرہ ایسا ہونا چاہیے جس میں ایک بہت اچھا اور خوبصورت قالین بچھاہوا ہو۔ میں نے کہا قالین تو بھئی بہت مہنگی چیز ہے ہم کہاں سے لیں گے۔ وہ کہنے لگے کہ میرے پاس پانچ سات ہزار روپے ہیں اس کا لے لیں گے۔ میں کہا اتنے پیسوں سے قالین تو نہیں آئے گا البتہ اس کا ایک دھاگہ ضرور آجائے گا۔ میرے ایک دوست حفیظ صاحب کا بہت بڑا قالینوں کا شوروم تھا جس کا نام “بخارا کارپٹس“ تھا انہوں نے کہا کہ آُپ زحمت نہ کریں ہم لوڈر میں ڈال کر کچھ قالین بھیج دیں گے آپ کو اور آپا کو جو پسند آجائے وہ رکھ لیں۔ اب وہ قالین لانے والے ایک ایک کرکے قالین دکھاتے جاتے اور ہم جو دیکھتے وہ ہی اچھا اور بھلا لگتا۔ جس طرح لڑکیاں کپڑا خریدنے جاتی ہیں تو انہیں بہت سارے کپڑوں میں سے کوئی پسند نہیں آتا ہے بالکل یہی کیفیت ہماری تھی اور ہم سے کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا کہ کونسے رنگ کا قالین رکھیں۔ ابھی ہم شش و پنج میں ہی تھے کی ہماری بلی میاؤں کرتی ہوئی کمرے میں آئی اور وہ بچھے ہوئے قالینوں پر بڑے نخرے کے ساتھ چلنے لگی اور ایک قالین پر آکر بیٹھ گئی اور پھر نیم دراز ہو گئی۔ میں نے کہا کہ یہ ہی ٹھیک ہے۔ اگر اس نے چوائس کیا اور اللہ نے اس کو چوائس کی وہ صلاحیت دی ہے جو ہم میں نہیں ہے تو ہم اسی قالین کو رکھ لیں گے۔ وہ قالین اب تک ہمارے پاس ہے اور وہ زیادہ پرانا ہو کر زیادہ قیمتی ہوگیا ہے۔
میں نے ان سے پوچھا کہ یہ فونگ شوئی کیا ہوتی ہے۔ تو انہوں نے بتایا کہ اس کا لفظی مطلب پانی اور ہوا ہے۔ اس دفتر کی آب و ہوا نا مناسب تھی جس سے صاحب بیمار ہوگئے۔ ہمیں اس Expert نے کہا تھا اس دفتر کی کھڑکی کے سامنے جو عمارت ہے وہ اس انداز میں بنی ہے جو اس دفتر پر منفی انداز میں اثر انداز ہو سکتی ہے اور اگر اس کھڑکی پر ایک دبیز پردہ مسلسل لٹکتا رہے تو پھر اس کے اثرات سے بچا جا سکتا ہے۔ دوسری بات وہ یہ کہہ رہا تھا کہ اس کمرے میں ایک شیشے کا بڑا حوض رکھا جائے اور اس میں کالی مچھلیاں ہوں اور اس باس کی جو میز اور کرسی ہے وہ جہاں اب ہے وہاں نہ ہو بلکہ دروازے کے ساتھ ہو۔
خواتین و حضرات! گو یہ شگون کی سی بات کررہا تھا لیکن زندگیوں میں شگون عجیب طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان کو منطقی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ تعلق نہیں کہا جاسکتا۔ دفتر والوں کے مطابق ان کے باس کو سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ وہ بالکل دروازے کے ساتھ میز کرسی نہیں لگوا سکتے کیونکہ دنیا میں آج تک کسی باس کی میز کرسی بالکل دروازے کے ساتھ نہیں ہوتی ہے لیکن فونگ شوئی ماسٹر کا اصرار تھا کہ اس دفتر کا جغرافیہ اس امر کا تقاضہ کر رہا ہے۔ جب دفتر کی ساری تبدیلیاں ہوچکیں تو انہوں نے کہا کہ اب باس کی طبیعت پہلے سے کچھ بہتر ہوگئی ہے تو میں نے کہا کہ کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ کام یہاں ہو رہا ہے لیکن طبیعت وہاں بہتر ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آب و ہوا اور رخ کا بڑا اثر ہوتا ہے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ ہمیں بھی اللہ نے ایک رخ کا آرڈر دیا ہے کہ تم اپنا رخ ادھر کو رکھنا پھر عبادت کرنا یا کوئیقسماٹھانا تو رخ ادھر کرکے اٹھانا۔ اگر آپ کی سوئی متعین رخ سے ادھر ادھر ہلتی یا ہٹتی ہے تو آپ کا عمل چاہے کتنا بھی اچھا ہو، علم کتنا بھی اچھا ہو تو مشکل پیدا ہوجائے گی۔ میں اس وقت یہی سوچتا رہا کہ ہمیں خدا نے کہا ہے کہ اپنا چہرہ قبلہ رخ کرکے نماز پڑھو تو ظاہر ہے اس میں کوئی حکمت ضرور ہوگی جس کا مجھے علم نہیں ہے۔ یہ بات سوچ کے مجھے اپنی جوانی کے اس وقت کا خیال یا جب ہم ہڑپہ دیکھنے گئے تھے۔ وہاں جو بستیاں بسائی گئی تھیں ان کا ایک زمانے کے لوگوں نے ایک خاص رخ رکھا تھا۔ پانچ ہزار سال پہلے بھی ان بستیوں کا باقاعدہ رخ رکھاگیا۔ ہماری طرح سے ٹاؤن پلاننگ کیے گئے گھر تھے۔ اس فونگ شوئی کے تصور سے میرے ہاتھ ایک بہت اچھی بات آئی۔ وہ یہ تھی کہ میں ایک پڑھا لکھا آدمی ہونے کی حیثیت سے اعتراض کیا کرتا تھا کہ بھئی آپ کیوں کہتے ہیں کہ کندھے سے کندھا ملا کر لائن سیدھی کرلیں۔ جس طرح ہرنماز کے وقت امام صاحب کہتے ہیں میں کہتا تھا کہ اگر ایک انچ آگے یا پیچھے ہو بھی جائے تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ مجھے تب احساس ہونے لگا کہ یقیناّ فرق پڑتا ہے لیکن میں اس کو نہیں سمجھتا۔ میں اس بات پر بھی بہت چڑتا تھا اور میرے اور بھی بچے چڑتے ہوں گے کہ ٹخنوں سے اونچا پائینچہ کیوں رکھیں۔ اس کا ہمیں کیوں کہاجاتا ہے۔ ہم کہتے کہ اس سے کیا ہوتا ہے لیکن فونگ شوئی کا وہ سارا Process دیکھنے کے بعد میں نے سوچا کہ اس سے روح کی آب وہوا میں ضرور فرق پڑتا ہوگا اور ہم کیوں نہ ایسا کرلیں جیساکہ ہمارے بڑوں اور پرکھوں نے کیا ہے۔ ہم اپنے سرجنوں کی بات تو مانتے ہیں اور اتنا ہی کاٹ دیا جاتا ہے جیسے وہ کہتے ہیں۔ اس طرح روحانی آپریشن میں بھی بابوں کی یا بڑوں کی بات مان لی جائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ برطانیہ کاجو ایک جیوگرافک میگزین ہے اس میں لکھنے والے ان دنوں ایک Research کرکے حیران ہو رہے ہیں کہ وہ مسلمان جو عرب سے چل کر ایسی عجیب و غریب جگہوں پر پہنچے جن کے جغرافیے سے وہ آشنا نہیں تھے۔ ان لوگوں نے چودہ یا پندرہ سو برس پہلے جو مساجد بنائیں تھیں ان کا رخ کس طرح سے کعبے یا حرم شریف کی طرف رکھا گیا تھا۔ کیونکہ ان کے پاس اطراف کا تعین کرنے والا کوئی آلہ نہیں ہوتا تھا اور کوئی قطب نما نہیں تھا۔
اس حوالے سے میگزین میں ریسرچ سلسلہ وار چھپتی رہی۔ ایک مضمون میں انہوں نے لکھا کہ چونکہ وہ بحری سفر کرتے تھے اور وہ ستارہ شناس تھے اس لیے وہ اطراف کا تعین درست رکھتے تھے اور مساجد کا رخ درست رکھتے تھے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کشتیوں والے تاجر یا ملاں تو ان بابوں کو ان ویران علاقوں میں چھوڑ کر چلے جاتے تھے اور یہ مساجد وغیرہ یہ بابے ہی بناتے تھی۔ سینکیانگایک عجیب و غریب علاقہ ہے ۔ اگر آپ کبھی شاہراہ ریشم ہر گئے ہوں اور پھر آگے چین کے بارڈر تک جائیں تو وہ انتہائی غیر آباد علاقہ تھا۔ وہاں آنے والوں کو آخر کس نے بتایا تھا کہ اس مسجد کا رخ کعبے کی سمت کرنا ہے اور کعبہ کس طرف ہے؟
میگزین کے مطابق ایک اکیلا شخص انڈونیشیا گیا۔ اس نے بھی پھونس لکڑی، پتھر جوڑ جاڑ کے ایک مسجد بنائی اور اس کا رخ بھی Correct کعبے کی طرف رکھا۔ میں نے جب یہ مضمون پڑھا تو پھر مجھے حیرانی ہوئی اور فونگ شوئی کا مسئلہ بھی ذہن میں آیا اور میں نے سوچا کہ رخ کا درست رکھنا کس قدر ضروری ہے۔ میں نے آج سے پچیس تیس برس پہلے جب اپنا گھر بنایا تھا تو یہ رخ والی اور فونگ شوئی کی بات ذہن میں نہیں رکھی تھی البتہ اب یہ بات ذہن میں آتی ہے۔ اس وقت بانو قدسیہ نے کہا کہ ایک کمرہ ایسا ہونا چاہیے جس میں ایک بہت اچھا اور خوبصورت قالین بچھاہوا ہو۔ میں نے کہا قالین تو بھئی بہت مہنگی چیز ہے ہم کہاں سے لیں گے۔ وہ کہنے لگے کہ میرے پاس پانچ سات ہزار روپے ہیں اس کا لے لیں گے۔ میں کہا اتنے پیسوں سے قالین تو نہیں آئے گا البتہ اس کا ایک دھاگہ ضرور آجائے گا۔ میرے ایک دوست حفیظ صاحب کا بہت بڑا قالینوں کا شوروم تھا جس کا نام “بخارا کارپٹس“ تھا انہوں نے کہا کہ آُپ زحمت نہ کریں ہم لوڈر میں ڈال کر کچھ قالین بھیج دیں گے آپ کو اور آپا کو جو پسند آجائے وہ رکھ لیں۔ اب وہ قالین لانے والے ایک ایک کرکے قالین دکھاتے جاتے اور ہم جو دیکھتے وہ ہی اچھا اور بھلا لگتا۔ جس طرح لڑکیاں کپڑا خریدنے جاتی ہیں تو انہیں بہت سارے کپڑوں میں سے کوئی پسند نہیں آتا ہے بالکل یہی کیفیت ہماری تھی اور ہم سے کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا کہ کونسے رنگ کا قالین رکھیں۔ ابھی ہم شش و پنج میں ہی تھے کی ہماری بلی میاؤں کرتی ہوئی کمرے میں آئی اور وہ بچھے ہوئے قالینوں پر بڑے نخرے کے ساتھ چلنے لگی اور ایک قالین پر آکر بیٹھ گئی اور پھر نیم دراز ہو گئی۔ میں نے کہا کہ یہ ہی ٹھیک ہے۔ اگر اس نے چوائس کیا اور اللہ نے اس کو چوائس کی وہ صلاحیت دی ہے جو ہم میں نہیں ہے تو ہم اسی قالین کو رکھ لیں گے۔ وہ قالین اب تک ہمارے پاس ہے اور وہ زیادہ پرانا ہو کر زیادہ قیمتی ہوگیا ہے۔