@ظہیراحمدظہیر کے ریٹائرمنٹ کے بار بار ذکر سے خیال آیا کہ یہ ایک اہم موضوع ہے اور محفل کے بیس سال میں یہاں ارکان شاید اتنے بوڑھے ہو گئے ہیں کہ اس بارے میں سوچا جائے۔
سچی بات یہ ہے کہ چند سال قبل تک ریٹائرمنٹ کا سوچا بھی نہ تھا لیکن پھر ہسپتال کے بستر پر لیٹے یہ خیال آیا کہ صحت بڑی نعمت ہے اور بہتر یہی ہے کہ صحت کے دنوں ہی میں سیر سپاٹا اور شغل میلا کر لیا جائے۔ ضعیف العمری میں اس سب کی ہمت کہاں رہے گی۔ اس سب عیاشی کے لئے فراغت لازم ہے لہذا جلد ریٹائرمنٹ اب ایک اہم خواب ہے۔
ریٹائرمنٹ کے لئے کئی چیزیں ضروری ہیں۔
ایک تو ریٹائرمنٹ کے بعد کے لئے معاشی وسائل۔ اس کی کوشش جاری ہے۔
دوسرے بچوں کا اپنے پیروں پر کھڑے ہونا (کیا یہ صحیح اردو محاورہ ہے؟) اس معاملے میں ابھی کالج گریجویٹ کرنےکا انتظار ہے۔
تیسرے بڑھاپے کے عارضوں کے لئے انتظام یعنی ہمارے ہاں میڈیکیئر۔ سچی بات یہ ہے کہ اگر میڈیکیئر 65 سال سے کم عمر میں شروع ہوتا تو میں جلد ہی ریٹائر ہو جاتا۔
ریٹائرمنٹ کے بعد کیا کریں گے؟ یہ فکر بھی لوگوں کو پریشان کرتی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ ہزار کام ہیں کرنے کو۔ سائیکلنگ، لانگ ڈرائیو ز، ہائیکنگ، میوزیم، دنیا بھر کا سیر سپاٹا (کہ @مریم افتخار سے آگے بھی رہنا ہے) اور یار دوستوں کے ساتھ وقت گزاری۔ پھر والنٹیئر ورک وغیرہ۔ بہت کچھ آپکو مصروف رکھ سکتا ہے۔
آپ بتائیں آپ کے ریٹائرمنٹ بارے کیا ارادہ ہے؟
ریٹائرمنٹ چونکہ زندگی کا ایک اہم اور بڑا فیصلہ ہوتا ہے چنانچہ اس کے لیے کئی سالوں پر محیط منصوبہ بندی اور سوچ بچار لازمی ہے ۔ پاکستان سمیت تیسری دنیا کے ممالک میں تو عام آدمی کو ریٹائرمنٹ عموماً تبھی نصیب ہوتی ہے جب اس کے بچے بڑے ہو کر معاشی ذمہ داریاں سنبھال لیں یا پھر ریٹائرمنٹ کی عیاشی سرکاری ملازمین اور بڑی بڑی کمپنیوں میں کام کرنے والے لوگوں ہی کو میسر آتی ہے کہ جنہیں پنشن وغیرہ کا آسرا ہوتا ہے۔ ریٹائر ہونے کی نیت سے بچت تو بہت کم لوگ ہی کر پاتے ہیں اور وہاں بچت کرنا ویسے بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔ اکثر لوگ جب تک جان ہے تب تک کام ہے کے اصول پر چلتے رہتے ہیں۔ چنانچہ پاکستانیوں کے لیے ریٹائر ہونے کا عمل امریکہ میں رہنے والوں سے بہت مختلف ہو سکتا ہے۔ میں تو صرف اپنی طرف کے بارے میں اپنے مشاہدات اور رائے پیش کرسکتا ہوں۔
میری رائے میں ریٹائرمنٹ کا فیصلہ کرنے میں سب سے اہم دو باتیں ہوتی ہیں ۔ مالی وسائل اور علاج معالجے کا بندوبست یعنی ہیلتھ کیئر ۔
1۔ مالی وسائل کی منصوبہ بندی : ریٹائر منٹ کے بعد آپ کو کتنے عرصے تک کتنے وسائل کی ضرورت پڑے گی اس کا دارو مدار کئی باتوں پر ہے۔(اگرچہ کسی کو نہیں معلوم کہ وہ کتنا عرصہ جیے گالیکن اپنی عمر ، صحت ، موروثیت اور دیگر عناصر کو دیکھتے ہوئے اپنی بقیہ عمر کا ایک تخمینہ ضرور لگایا جاسکتا ہے) ۔ سب سے پہلے تو ریٹائرمنٹ کے بعد سالانہ آمدنی کا تخمینہ ضروری ہے ۔ سوشل سیکیورٹی ، پنشن، سرمایا کاری ، بچت اور دیگر ذرائع آمدنی سے کیا کچھ ملے گا۔ اس کے بعد اپنی معاشی ذمہ داریوں کا ٹھیک ٹھیک حساب لگانا بہت اہم ہے ( کتنے افراد آپ کے زیرِ کفالت ہیں ، ان کے اخراجات کیا ہیں اور کب تک جاری رہیں گے وغیرہ) ۔ پھر سب سے اہم اپنے طرزِ زندگی کو دیکھنا ہوتا ہے۔ اکثر لوگ ریٹائر منٹ سےکچھ پہلےیا فوراً بعد بڑا گھر بیچ کر ایک چھوٹی رہائش گاہ میں منتقل ہوجاتے ہیں کہ نہ صرف اس سے گھر کے ماہانہ لازمی اخراجات ( بل وغیرہ) کم ہوجاتے ہیں بلکہ چھوٹے گھر کی دیکھ بھال بھی آسان ہوتی ہے۔ ویسے بھی ڈھلتی عمر کے ساتھ بڑے گھر کی دیکھ بھال مشکل تر ہوتی جاتی ہے۔ مستقبل میں متوقع بڑے اخراجات کو بھی نظر میں رکھنا ہوتا ہے ۔ کچھ پیسےغیر متوقع اخراجات کی مد میں بھی رکھنے چاہئیں ۔ اپنے سالانہ اخراجات کا ایک فراخدلانہ تخمینہ لگا کر دیکھنا چاہیے کہ انہیں پورا کرنا کس حد تک ممکن ہوگا اور کس کس مد میں کمی یا کٹوتی کرنی پڑے گی۔ اپنے طرزِ زندگی کے کن پہلوؤں کو کتنا اور کیسے بدلنا پڑے گا۔ وغیرہ۔
کئی لوگ مکمل ریٹائرمنٹ سے پہلے ایک دوسال تک جزوی ریٹائرمنٹ کا تجربہ کرتے ہیں ۔ پارٹ ٹائم کام کرتے رہتے ہیں اور اس طرح انہیں اپنی آمدنی ، اخراجات اور دیگر باتوں کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ آیا وہ ریٹائرمنٹ سے خوش بھی ہیں یا ان کے لیے فارغ وقت گزارنا مشکل ثابت ہورہا ہے۔ کئی لوگ ریٹائرمنٹ ترک کرکے دوبارہ فل ٹائم یا پارٹ ٹائم کام شروع کردیتے ہیں کہ انہیں اپنے وقت کا بہتر مصرف کام ہی نظر آتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جزوی ریٹائرمنٹ ایک اچھی حکمت عملی ہے۔ اگر مالی وسائل اور اخراجات کی پیشگی منصوبہ بندی نہ کی جائے تو ریٹائرمنٹ لائف مشکل ثابت ہوسکتی ہے۔
امریکا میں عموماً مالی وسائل کا انتظام و اہتمام ریٹائرمنٹ سے دہائیوں پہلے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ ریٹائرمنٹ فنڈ میں سرمایا کاری عام بات ہے۔ ویسے تو عام طور پر جتنی رقم آپ ہر سال فنڈ میں ڈالتےہیں آپ کا ایمپلائر اتنی یا اس سے دگنی رقم خوبخود آپ کے فنڈ میں جمع کرواتا ہے لیکن میں نے آج تک کبھی کسی ریٹائرمنٹ فنڈ میں رقم نہیں ڈالی کہ میں کسی ایسی کمپنی یا بزنس میں سرمایا کاری کا قائل نہیں ہوں کہ جو حلال کاروبار نہیں کرتے۔ (انہی وجوہات کی بنا پر کبھی لائف انشورنس بھی نہیں لی۔) ریٹائرمنٹ فنڈ میں عدم شرکت کے باعث مجھے ایمپلائر کی طرف سے ملنےوالی میچنگ سے ہاتھ ضرور دھونے پڑے (جو کہ پچیس سالوں میں ایک خطیر رقم بن سکتی تھی) لیکن الحمدللہ کئی ہم عقیدہ اور ہم خیال دوستوں نے مل کر حلال کاروبار مثلا کنسٹرکشن اور سونے چاندی وغیرہ میں سرمایا کاری کی اور ٹھیک رہے۔ الحمدللہ !
2۔ علاج معالجہ کی منصوبہ بندی : گزرتی عمر کے ساتھ صحت کے مسائل کا پیدا ہونا متوقع بلکہ لازمی ہے۔ 65 سال کے بعد آپ کو میڈیکیئر تو مل جاتا ہے لیکن خدانخواستہ اگر آپ کسی دائمی یا ایسے امراض کا شکار ہیں کہ جن کا علاج مہنگا ہو تو ایک اضافی انشورنس کی ضروت بھی پڑسکتی ہے ۔ اگر کوئی بڑی سرجری وغیرہ بھی متوقع ہو تو اس کے اخراجات کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا۔ امریکا میں 65 سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کی ایک کثیر تعداد اپنی زیادہ تر آمدنی دواؤں اور علاج معالجے پر خرچ کرتی ہے۔ اس لیے صحت کی مد میں متوقع اخراجات کو بہت اچھی طرح جانچنا اور ان کا ممکنہ حد تک پیشگی انتظام کرنا نہایت ضروری ہے ورنہ ریٹائر منٹ لائف ذہنی دباؤ اور پریشانی کا شکار ہوسکتی ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ میرا ریٹائرمنٹ کے بعد کیا کرنے کا ارادہ ہے تو اول تو مجھے ریٹائرمنٹ کا حقدار ہونے میں ابھی پانچ سال باقی ہیں لیکن اس کے بعد بھی مکمل ریٹائرمنٹ میرے لیے ممکن نہیں ہوگی ۔ زیادہ تر امکان یہی ہے کہ میں ہفتے میں ڈیڑھ یا دو دن کام کرتا ہی رہوں گا ۔جس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ مجھےاپنا کام بہت زیادہ پسند ہے اور یہ میرے لیے ہمیشہ باعثِ تسکین رہا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو کام مجھے کرنا ہیں اس کے لیے ہفتے میں اگر فراغت کے چار پانچ دن بھی مل جائیں تو میرے لیے بہت ہوں گے ۔ میں طب کے جس شعبےسے منسلک ہوں اس میں تجربہ کار ڈاکٹروں کو مختلف قسم کی مراعات و سہولیات اور دیگر " رشوتوں" کے ذریعے ممکنہ حد تک ہسپتال سے منسلک رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

خصوصا پڑھانے اور سپروائز کرنے کی ذمہ داریوں میں ان کا کردار اہم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ میں خاص طور پر آخری عمر میں اپنے آپ کو ذہنی طور پر مصروف رکھنا بہت ضروری سمجھتا ہوں۔
ریٹائرمنٹ کے بعد کے جو منصوبے ہیں ان میں بنیادی طور پر کچھ خدمت خلق کے کام ہیں۔ کچھ تو اب بھی جاری ہیں لیکن انہیں بڑھانے کا ارادہ ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ ممکن ہوتو ہر سال پاکستان میں چند ہفتے کسی کلینک یاہسپتال میں مفت خدمات فراہم کی جائیں۔ پھر بہت سارا لکھنے پڑھنے کا ارادہ ہے ۔کئی ادبی مضامین اور قافیےاور عروض پر پر تحقیقی کام ادھورے ہیں جو وقت طلب ہیں اور جن کے لیے مسلسل بیٹھنا اور ماخذات دیکھنا ضروری ہے۔ ایک قدیم اور شدید خواہش ہے کہ چند ہفتے برٹش انڈیا لائبریری میں رہ کرگزارے جائیں اور اردو رسم الخط کی ابتدا اور ارتقا پر تحقیق کی جائے۔ بشرطِ منظوری ہوم گورنمنٹ یہ کام ریٹائرمنٹ کے پہلے دو تین سالوں ہی میں کرنے کا ارادہ ہے۔پھر آرٹ کو پوری طرح سے توجہ اور وقت دینے کا ارادہ ہے۔ سانتا فے کی سالانہ آرٹ کی نمائش میں شامل ہونا بھی خواہشات کا حصہ ہے۔ گھر کا ایک کمرہ لڑجھگڑ کر ہتھیانے اور اس میں اپنا اسٹوڈیو بنانے کا خفیہ منصوبہ ہے کہ جس کے در ودیوار پر جہاں چاہے اور جب چاہے رنگوں کے چھینٹے اڑا سکوں ، مونگ پھلی کھا کر اس کے چھلکے جہاں چاہے فرش پر پھینک سکوں اور جس کونے میں چاہے لیٹ کر غزل گنگنا سکوں۔ وغیرہ وغیرہ ۔
خیر ، یہ تو رہی خواہشات کی بات ۔ خواہشات نامہ تو ہر شخص کا طویل ہی ہوتا ہے۔ انسان کتنے منصوبے بناتا ہے لیکن حقیقت وہی ہے کہ ۔۔۔۔ ۔ سامان سو برس کا پل کی خبر نہیں! تو سب سے پہلے تو مجھے آگے کی تیاری کرنی ہے ۔ میرا ایمان ہے کہ ہر انسان دو دفعہ جیتا ہے۔ اسے زندگی دو دفعہ ملتی ہے ۔ ایک تو اس دنیا کی زندگی کہ جو کارگاہِ عمل ہے اور پھر اس کے بعد ایک ابدی زندگی ہے کہ جس میں ہم یہاں کا بویا ہوا کاٹیں گے۔ اس زندگی کی تیاری بہت ضروری ہے بلکہ سب سے زیادہ ضروری یہی چیز ہے ۔ چنانچہ کوشش ہوگی کہ بہت سا وقت اہلِ علم کی صحبت میں اور علومِ دین سیکھنے سکھانے میں لگ سکے ۔ الحمدللہ ، مجھ پر اللہ کریم کی خاص عنایت رہی ہے اور کئی اہلِ علم لوگوں کے سامنے زانوئے تلمذ تہ رہتا ہے۔ اللہ کریم آگے بھی آسانیاں عطا فرمائے۔ آمین ۔
میں نے آپ کےحسبِ فرمائش جو کچھ اس موضوع پر میری سمجھ میں آیا لکھ دیا ۔ اگرچہ یقین ہے کہ یہ سب باتیں یہاں رہنے والوں کو پہلے ہی بخوبی معلوم ہیں ۔ لیکن ہوسکتا ہے کہ کوئی چھوٹی سی کام کی بات کسی کا فائدہ کرجائے۔
زیک