ریوڑوں کی قطاروں میں گم ہوگئے دن کے رستے تو آنکھیں کھلی رہ گئیں ۔ انور جمال

محمداحمد

لائبریرین
غزل
ریوڑوں کی قطاروں میں گم ہوگئے دن کے رستے تو آنکھیں کھلی رہ گئیں
لوٹ کے گھر نہ آئے سدھائے ہوئے جب پرندے تو آنکھیں کھلی رہ گئیں
آڑوؤں کے وہ پودے جو آنگن میں تھے، اُن کی خوشبوئیں پھل پھول بکِنے لگے
جانے والے سمندر کے اُس پار سے گھر کو لوٹے تو آنکھیں کھلی رہ گئیں
میں نے بیوی کو جھڑکا تو خود میرا خوں مُتّحد ہو کے میرے مقابل ہوا
اپنی ماں کی طرف ایک دم ہوگئے میرے بچے، تو آنکھیں کھلی رہ گئیں
جو تلاشِ صفِ دشمناں کی مہم میں میرے ساتھ پھرتے رہے شام تک
شب کو دیکھے جو میں نے وہی گھات میں چند چہرے تو آنکھیں کھلی رہ گئیں
پربتوں گھاٹیوں کا سفر دائرہ تھا کہ اک واہمہ تھا یہ کُھلتا نہیں
جس جگہ ہم ملے تھے اسی موڑ پر آ کے بچھڑے تو آنکھیں کھلی رہ گئیں
دوپہر کا عمل، منجمد ساعتیں، آسماں پاؤں میں تھا، زمیں سر پہ تھی
اب کے پہلے سے انورؔ ذرا مختلف خواب دیکھے تو آنکھیں کھلی رہ گئیں
انور جمال
 

نایاب

لائبریرین
سچ لکھا لفظ لفظ محترم انور جمال نے
سمندر پار سے پلٹنے والوں کا فسانہ
بہت شکریہ بہت دعائیں شراکت پر محترم احمد بھائی
 
بھئی اولا ریوڑوں کو میں نے رپورٹوں پڑھا اور جھٹ دیکھنا چاہا کہ یہ کیا بھلا یہ ۔ٖاحمد بھائی ! صحافت کے طالب علم جو ٹھہرے۔۔۔۔:) خیر غزل واقعی عمدہ ہے بہت خوب۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بھئی اولا ریوڑوں کو میں نے رپورٹوں پڑھا اور جھٹ دیکھنا چاہا کہ یہ کیا بھلا صحافت کے طالب علم جو ٹھہرے خیر غزل واقعی عمدہ ہے بہت خوب۔


چلیے۔۔۔۔! جیسے بھی سہی آپ آئے تو سہی۔۔۔۔!

ویسے آج آپ صبح میں کیسے نظر آ رہے ہیں، آپ تو اکثر رات کو ہی دکھائی دیتے ہیں۔ :)
 
Top