میر رہی نگفتہ مرے دل میں داستاں میری

سید زبیر

محفلین
رہی نگفتہ مرے دل میں داستاں میری
نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری

بہ رنگِ صوتِ جرس تجھ سے دور ہوں تنہا
خبر نہیں ہے تجھے آہ کارواں میری

ترے نہ آج کے آنے میں صبح کے مجھ پاس
ہزار جائے گئی طبعِ بدگماں میری

شب اُس کے کُوچے میں جاتا ہوں اس توقع پر
کہ ایک دوست ہے واں خوابِ پاسباں میری

اُسی سے دور رہا اصلِ مدّعا جوتھا
گئی یہ عمرِ عزیز آہ رائگاں میری

ترے فراق میں جیسے خیال مفلس کا
گئی ہے فکرِ پریشاں کہاں کہاں میری

دیا دکھائی مجھے تو اُسی کا جلوہ میرؔ
پڑی جہان میں جا کر نظر جہاں میری
میر تقی میر
 

شوکت پرویز

محفلین
ترے نہ آج کے آنے میں صبح کے مجھ پاس
ہزار جائے گئی طبعِ بدگماں میری

ترے فراق میں جیسے خیال مفلس کا
گئی ہے فکرِ پریشاں کہاں کہاں میری

بہت خوب شیئرنگ، شکریہ۔۔
 

فاتح

لائبریرین
واہ واہ جناب سید زبیر صاحب، میر کی کیا ہی خوبصورت غزل یاد دلا دی۔
مکمل غزل آپ کے حسنِ انتخاب اور محبتوں کی نذر:
رہی نگفتہ مرے دل میں داستاں میری
نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری

برنگِ صوتِ جرَس تجھ سے دُور ہوں تنہا
خبر نہیں ہے تجھے آہ کارواں میری

ترے نہ آج کے آنے میں صبح کے مجھ پاس
ہزار جائے گئی طبعِ بد گماں میری

وہ نقش پائے ہوں میں، مٹ گیا ہو جو رَہ میں
نہ کچھ خبر ہے نہ سُدھ ہے گی رہرواں میری

شب اس کے کوچے میں جاتا ہوں اس توقع پر
کہ ایک دوست ہے واں خواب پاسباں میری

اسی سے دُور رہا اصلِ مدّعا جو تھا
گئی یہ عمرِ عزیز آہ رائگاں میری

تر ے فراق میں جیسے خیال مفلس کا
گئی ہے فکرِ پریشاں کہاں کہاں میری

نہیں ہے تاب و تواں کی جدائی کا اندوہ
کہ ناتوانی بہت ہے مزاج داں میری

رہا میں در پسِ دیوارِ باغ مدت لیک
گئی گلوں کے نہ کانوں تلک فغاں میری

ہُوا ہوں گریۂ خونیں کا جب سے دامن گیر
نہ آستین ہوئی پاکِ دوستاں میری

دیا دکھائی مجھے تو اسی کا جلوہ میرؔ
پڑی جہان میں جا کر نظر جہاں میری
میر تقی میر​
 

مہ جبین

محفلین
اُسی سے دور رہا اصلِ مدّعا جوتھا​
گئی یہ عمرِ عزیز آہ رائگاں میری​

ترے فراق میں جیسے خیال مفلس کا​
گئی ہے فکرِ پریشاں کہاں کہاں میری​

عمدہ انتخابِ کلام ہے سید زبیر بھائی
 

باباجی

محفلین
واہ کیا ہی خوبصورت غزل ہے


دیا دکھائی مجھے تو اُسی کا جلوہ میرؔ
پڑی جہان میں جا کر نظر جہاں میری
 
رہی ناگفتہ مرے دل میں داستاں میری
نہ اس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری
برنگ صورت جرس تجھ سے دور ہوں تنہا
خبر نہیں ہے تجھے آہ کارواں میری
ترے نہ آج کے آنے میں صبح کے مجھ پاس
ہزار جائے گی طبع بدگماں میری
وہ نقش پائے ہوں میں مٹ گیا ہو جو رہ میں
نہ کچھ خبر ہے نہ سدها ہے گی رہرواں میری
شب اس کے کوچے میں جاتا ہوں اس توقع پر
کہ اس دوست ہے واں خواب پاسباں میری
اس سے دور رہا ، اصل مدعا جو تھا
گئی یہ عمر عزیز ، آہ رائیگاں میری
ترے فراق میں جیسے خیال مفلس کا
گئی ہے فکر پریشان کہاں کہاں میری
نہیں ہے تاب و تواں کی جدائی کا اندوہ
کہ ناتوانی بہت ہے مزاج داں میری
ہوا ہوں گریہ خونیں کا جب سے دامن گیر
نہ آستین ہوئی پاک دوستاں میری
دیا دکھائی مجھے تو اسی کا جلوہ میر
پڑی جہاں میں جاکر نظر جہاں میری
 
Top