رہنے لگے ہیں میز پہ صفحات منتشر

سید ذیشان

محفلین
رہنے لگے ہیں میز پہ صفحات منتشر
ہیں بعدِ عشق اپنے خیالات منتشر
ممکن اگر ہو ایسا، بیاں حالِ دل کروں
نہ ہونگے پھر یہ اپنے جوابات منتشر
مجھ کو جلا کے: "اب تو کہانی خَتَم ہوئی!"
دل کے ہَوا سے پھر ہوئے ذرات منتشر
یک سمت چل رہا تھا جب ہم آشنا نہ تھے
حرکت کی پھر ہوئی ہے مساوات منتشر
دیکھا دیارِ عشق تو حیران رہ گیا
تا از نگاہ ہر سو خرابات منتشر
سمجھا دیارِ عشق کو رضواں، عجب کیا!
دیکھے جو واں پہ ہر سو خرابات منتشر
خالق جو نہ ہو ایک تو وحدت نہ ان میں ہو
ہوں دنیا اپنی، ارض و سماوات منتشر
مرکوز تب ہی اپنے خیالات کی ہو رو
نہ ہو جو سب کی غایتِ غایات منتشر
 

سید ذیشان

محفلین
دیکھا دیارِ عشق تو حیران رہ گیا​
تا از نگاہ ہر سو خرابات منتشر​

اس کو اسطرح کر دیا:​
دیکھا دیارِ عشق تو حیران رہ گیا
حدِ نگاہ تک ہیں خرابات منتشر
 
Top