روحانی اقوال

1378049_617770234998929_607767820103645621_n.jpg
 
السلام علیکم
دنیا کاہر انسان یہ چاہتا ہے کہ میں کامیاب ہو جاؤں

ساری دنیا کے سارے انسانوں کی دنیا اور آخرت ساری کی ساری کامیابی
اللہ رب العزت نے اپنےپورے کے پورے دین رکھی ہے
اب جو بھی دنیا و آخرت میں کامیاب ہونا چاہتا ہے
اسے اس دین کو اپنانا ہو گا جس کو حضور پاکﷺ لے کر آئے
فرمایا جس کی زندگی میں دین ہو گا صرف اور صرف وہی کامیاب ہو گا
اللہ رب العزت ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
 
آج فیس بک کھولی تو ایک ایرانی نے یہ اشعار اپنی ٹائم لائن میں لکھے تھے تو اچانک صاعقہ کی رفتار سے 1990 کا منظر ذہن میں گھوم گیا میں صدر اپنے ایک دوست سے ملنے گیا تو اس کے ساتھ ایک اور لڑکا کھڑا تھا اور اس کو اپنی تازہ کہی ہوئی غزل سنا رہا تھا میں اسوقت دسویں کا طالب علم تھا میرے دوست کو کوئی ضروری کام تھا تو اس نے مجھے کہا کہ آپ جائیں اور معذرت کرلی اور ساتھ ہی کہا ان سے ملیں یہ ہیں وقار جو کہ مہر تخلص کرتے ہیں یہ آپ کے گھر کے قریب ہی رہتے ہیں بہرحال ہم باتیں کرتے ہوئے واپس گھر کو آنے لگے تو راستے میں پتہ چلا کہ مؤصوف بھی میٹرک کے طالب علم ہیں اور شاعری وغیرہ کرتے ہیں دوران راہ خوب علمی گفتگو ہوئی غالب، داغ اور اقبال پر سیر حاصل گفتگو ہوئی پھر فراز پر خوب تبادلہ خیال ہوا۔ مؤصوف ہر ایک پر اعتراضات اٹھائے جارہے تھے میرے لیئے یہ بہت حیرت کا باعث تھا کیونکہ میرے لیئے تو اس وقت یہ شعراء ایک دیوتا کی حیثیت رکھتے تھے جن کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن بہرحال جس کمال مہارت سے موصوف علمی گفتگو علم عروض کے حوالے سے فرمارہے تھے تو وہ میری چھوٹی سے عقل سے باہر تھی اس دوران موصوف کا گھر آگیا تو کہنے لگے اب اجازت چاہتا ہوں تو میں آخر وہ سوال جو کہ میرے ذہن میں کافی دیر سے کلبلا رہا تھا آخر کر ہی دیا میں نے کہا کہ جناب آپ کی بالی عمریا اور یہ خیالات کے بڑے بڑے مہان شکتی مان دیوتاؤں پر نکتہ اعتراض و فنی خامیاں ایں چہ بوالعجبی است تو موصوف کہنے لگے کہ میں ان چھوٹے چھوٹے شعراء کو نہیں پڑھتا ہوں بلکہ ان کو تو میں ساتویں کلاس میں ہی سارا پڑھ لیا ہے اور اب میں حافظ عرفی عراقی خاقانی اور بیدل کو پڑھنا ہوں اور جھٹ جیب سے ایک کیسٹ نکال کر دی اور کہا کہ اس کو سننا پھر بات کریں گے اور اللہ حافظ کہہ کر اپنی گلی کی طرف مڑلیے۔

میں نے کیسٹ پر دیکھا تو اس پر لکھا تھا ناشناس یہ ناشناس سے میرا پہلا تعارف تھا اس میں ایک کلام یہی ہے جو کہ میں اب آپ سے شریک محفل کرنے جارہا ہوں۔

http://dari.irib.ir/images/media/n.saeghe.mp3

راز آتشکدہ اے دل به کسے نتوان گفت
خبرِ صاعقہ در گوشِ خسے نتوان گفت

دل میں بھڑکتی آگ کا راز محرم راز کے سوا کسی کو نہیں بتلایا جاسکتا ایسے ہی بجلی کے چمکنے کی خبر(بمعنی آگ یا شعلہ) خس(بھوسہ) کے کان میں نہیں کہی جاسکتی ہے
ہمچو اے پروانہ خموشانہ شوَم خاکستر
کہ سر عشق بہ ھر بوالھوس نتوان گفت
مجھے پروانے کی طرح خاموشی سے اپنی آگ میں جل کر خاک ھونا پڑے گا۔ کیونکہ عشق کے اِسرار کسی ہوس کے پجاری کو بتائے نہیں جا سکتے ہیں

راهزن تا رهِ منزل نزَند اے راهرَو
مقصدِ قافلہ را بہ جرسے نتوان گفت
اے سلوک کے راستہ چلنے والے جب تک تو منزل پر نہیں پہنچ جاتا تو قافلہ کے قصد و مقصد و منزل کا پتہ قافلے کی جرس(گھنٹی) کو بھی نہیں بتایا جاسکتا کیونکہ راہزن بمعنی شیطان کا خطرہ مؤجود ہے۔

اے تنُک حوصلہ تُو محرمِ اسرا ر نہ ای
دردِ سیمرغ بہ پیشے مگسے نتوان گفت
اے کم حوصلہ سالک تو اسرار الٰہی کا امین کیسے ہوسکتا ہے کہ تھوڑی سی آزمائش سے ہی گھبرا گیا ہے۔ ایسے ہی سیمرغ کا راز کسی مکھی کو کیسے بتایا جاسکتا ہے۔
محمود احمد غزنوی نایاب الف نظامی تلمیذ باباجی فاتح
 
اس نے پُوچھا کہ ابا عشق کیسے ہو سکتا ہے اُس سے جس کو دیکھا نہ ہو ؟اپنے وجود پر غور کرنا شروع کر ، پیدا ہُوا تو کیڑے جیسا تھا ، اپنے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا ، نہ اپنی حفاظت نہ زندگی کا اہتمام ، رب نے تیری حفاطت کی ، تُجھے پالا ، دو ہاتھ دیے ، دوٹانگیں دیں، کام کرتی ہُوئی دو آنکھیں دیں ، بینائی دی ، عقل دی ، تجھے ایک مکمل انسان بنایا ، کوئی کمی کوئی محرومی تیرے لیے نہیں چھوڑی ، سب سے بڑھ کر تُجھے ایک مُسلمان کے گھر میں پیدا کیا ، تاکہ تجھے حق کیتلاش میں نہ بھٹکنا پڑے ، یہ سب احسان تجھ پر کیے ، اس نے جو بے نیاز ہے ، جس کو کسی سے غرض نہیں ، اسے کسی سے کچھ نہیں چاہیے ، اور اتنے احسانوں کے بعد اس نے بھلائی کا راستہ دکھا کر تُجھ پر احسان کیا ، اب اس کہ جواب میں تُو کیا کرے گاالہی بخش کچھ دیر سوچتا رہا ، سوال مشکل تھا ، سوچتے سوچتے ذہن منتشر ہو ا جارہا تھاوہ اپنی سوچوں کو یکجا کرنے کی کوشش کر رہا تھا ، میں اللہ کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کروں گانماز پڑھوں گا ، عبادت کروں گا ، اُس کے بتائے ہُوئے سیدھے راستے پر چلوں گا ،اُس کا شکر ادا کروں گایہ بھی تو اللہ کا احسان ہو گا تجھ پر ، باپ نے کہا اس لیے کہ یہ سب کچھ کرنا تو تیرے لیے فائدہ مند ہے ، پھر بتا تُو نے کیا کیا کچھ بھی تو نہیں.یاد رکھ توفیق بھی اللہ ہی دیتا ہے......!!
(علیم الحق حقی کی کتاب "عشق کا عین" سے اقتباس)
 
فقر کے لغوی معنی احتیاج کے ہیں۔ عام طور پر اس سے تنگ دستی' غربت' مفلسی اور ناداری مراد لی جاتی ہے۔ دینِ اسلام میں ''فقر'' سے وہ راہ یا وہ طریق مراد ہے جو بندے اور اللہ کے درمیان سے تمام حجابات کو ہٹا کر بندے کو اللہ کے دیدار اور وصال سے فیض یاب کرتا ہے۔ ''فقر'' دراصل دینِ اسلام کی حقیقت ہے۔ جو اولیاء کرام اور ہمارے سلف صالحین کا اللہ تک رسائی کا طریقہ رہا ہے لیکن دورِ جدید کے علمائے سو اور مغرب زدہ طبقہ نے اس طریق اور علم سے ناواقفیت کی بنا پر عوام الناس کی توجہ اس راہ سے ہٹا کر ظاہریت پرستی کی طرف مبذول کرا دی ہے اور عوام روح اور اللہ کے تعلق کو بھلا کر صرف جسمانی اعمال و عبادات میں الجھ گئے ہیں۔ آج مسلمان بھی اس لفظ ''فقر'' اور اس کی حقیقت سے اتنے ہی ناآشنا ہیں جتنے غیر مسلم ۔حالانکہ ہمارے آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فقر کو اپنا فخر فرمایا ہے اور اسے بطور خاص اپنی ذات سے منسوب فرمایا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد پاک ہے..الفقر فخری:
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بے حساب کمالات اور اوصاف سے نوازا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی کسی خوبی پر فخر نہیں فرمایا۔ صدق پر نہ عدل پر' نہ تقویٰ و صبر پر' نہ سخاوت پر نہ شجاعت پر' نہ ترک نہ توکل پر' نہ فصاحت و بلاغت پر' نہ حسن پر' نہ صادق و امین ہونے پر اور نہ نسب پر حتیٰ کہ مشکوٰۃ المصابیح میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ''میں اللہ کا حبیب ہوں لیکن اس پر فخر نہیں۔'' آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صرف اور صرف فقر پر فخر فرمایا۔ اسی طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تمام علومِ دین کا منبع اور سرچشمہ ہیں۔ قرآن و حدیث' فقہ' تمام بنیادی عقائد و عبادات آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ہی اُمت کو حاصل ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کسی علم کو اپنی ذات سے منسوب نہ فرمایا سوائے فقر کے۔ ''فقر'' یعنی روح کے اللہ تعالیٰ سے قرب کی وہ انتہا جہاں روح اللہ کا دیدار اور اللہ سے وصال کی تکمیل پاتی ہے' معراج کی رات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسے اللہ تعالیٰ سے اپنی امت کے لیے تحفتاً مانگ لیا۔ چنانچہ ظاہری پاکیزگی کے لیے نماز اور روزوں کا تحفہ ملا اور باطنی پاکیزگی کے لیے فقر کا نور عطا کر کے دیدارِ الٰہی کی راہ اُمت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر کھول دی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پہلے جب بھی کسی نبی نے دیدارِ الٰہی کی التجا کی تو انہیں '''' یعنی ''تو ہرگز نہیں دیکھ سکتا ''کی صدا سننا پڑی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کے وسیلے سے اُن کی اُمت کو اپنے دیدار کی نعمت عطا کی جو اس کائنات کی سب سے اعلیٰ نعمت ہے اور اس لذتِ دیدار سے بڑھ کر اور کوئی لذت نہیں۔ اسی نعمت کے حصول کی خاطر تمام انبیاء نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اُمت میں شامل ہونے کی دعا کی تھی اور اللہ کی اسی عنایتِ خاص کی وجہ سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تمام انبیاء پر اور اُمت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تمام امتوں پر فضیلت حاصل ہے جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان مبارک ہے:
ترجمہ : فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے ۔ اور فقر ہی کی بدولت مجھے تمام انبیاء و مرسلین پر فضیلت حاصل ہے۔ (عین الفقر)
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ''فقر لوگوں کی نگاہ میں معیوب و حقیر ہے لیکن قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں بے حد گراں قدر چیز ہوگی''۔ (i) ایک اور حدیث پاک میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ''فقر دنیا میں مومن کے لیے (اللہ تعالیٰ کا) تحفہ ہے۔'' (مکاشفۃ القلوب، باب فضیلتِ فقراء از امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ) (ii) مزید فرمایا ۔ترجمہ:''فقر اس کے اہل کے لیے موجبِ عزت ہے''۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دیدارِ الٰہی کی نعمتِ فقر کو اللہ کے خزانوں میں سے ایک خزانہ قرار دیا کیونکہ اس خزانے کو حاصل کرنے والا دنیا و آخرت کی تمام نعمتوں' آسائشوں اور خزانوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ جسے تمام خزانوں کا مالک (اللہ) مل جائے اسے باقی خزانوں کی کیا ضرورت ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ترجمہ: فقر اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے ۔ فقر کا یہ خزانہ روح کی معراج پر بصورتِ وصالِ حق تعالیٰ بندے کو عطا ہوتا ہے۔ معراج کی رات اللہ تعالیٰ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قرب و وصال کی انتہا کو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر قرآن پاک میں ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: ترجمہ: پھر( اللہ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے درمیان) صرف دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا اس سے بھی کم۔ (اس سے بھی کم فاصلہ) کی تفصیل کوئی نہیں جانتا کہ اللہ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے درمیان قرب کی انتہا کیا تھی البتہ معراج کے بعد نازل ہونے والی کچھ آیات اس قرب و وصال کی انتہائی صورت یعنی یکتائی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ترجمہ: میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (میدان جنگ میں) دشمنوں کو جو کنکریاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ماریں وہ دراصل (آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے نہیں بلکہ) اللہ نے ماریں تھیں۔ ترجمہ: جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی انہوں نے (درحقیقت) اللہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ ترجمہ: وہ (نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) اپنی مرضی سے کچھ نہیں بولتے۔ ایک حدیث قدسی میں بھی بندے کے اللہ سے وصال کی اسی صورت کو بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ترجمہ: ''جب بندہ زائد عبادات سے میرے قریب ہو جاتا ہے تو میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں وہ مجھ سے دیکھتا ہے میں اس کے کان بن جاتا ہوں وہ مجھ سے سنتا ہے' میں اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں وہ مجھ سے پکڑتا ہے' میں اس کی زبان بن جاتا ہوں وہ مجھ سے بولتا ہے' میں اس کے پاؤں بن جاتا ہوں وہ مجھ سے چلتا ہے۔'' فقر دراصل روحانیت کی وہ معراج اور کمال ہے جب روح نورانیت اور پاکیزگی کی اس انتہا کو چھو لیتی ہے جہاں وہ اپنے پاک ربّ سے یوں وصال پالیتی ہے جیسے قطرہ سمندر سے مل کر خود سمندر ہو جاتا ہے۔ فقر کی انتہا خود کو اپنے رب کی ذات میں یوں گم کر دینا ہے کہ انسان کا اپنا وجود ختم ہو جائے اور باقی رہے وہ ذات جسے دائمی بقا ہے۔ فقر کے اسی انتہائی مقام پر پہنچ کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ذاتِ الٰہی کے کامل مظہر بن گئے جیسا کہ مولانا روم رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا
:
مصطفئ آئینہ روئے خداست
منعکس دروئے ہمہ خوئے خداست

ترجمہ: حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ تعالیٰ کے چہرے کا آئینہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ذات اور ہر صفت ان میں منعکس(ظاہر) ہے۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ''فقر (دیدار و وصال الٰہی) مجھ سے ہے۔'' یعنی میری ذات ہی 'فقر' ہے۔ ترجمہ:''جس نے مجھے دیکھا بے شک اس نے حق کو دیکھا۔'' یعنی جس نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حقیقت کو پہچانا اس نے اللہ کو پہچانا ۔ جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے فقر حاصل کر لیا وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ہی ہوگئے۔ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے فقر کی یہ نعمت فقر کی پہلی سلطان حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا نے حاصل کی یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات کی حقیقت تک رسائی حاصل کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ''فاطمہؓ مجھ سے ہے۔'' پھر بابِ فقر حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات میں فنا ہو کر حقیقتِ فقر کو پاگئے تو فرمایا ''علیؓ مجھ سے ہیں۔'' پھر حسنین کریمین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو یہ خزانہ عطا ہوا تو فرمایا: ''حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ مجھ سے ہیں۔'' پھر یہ خزانۂ فقر سینہ بہ سینہ اُمت کو منتقل ہوا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہر اُمتی جو اُن سے سچا عشق رکھتا ہے اور اُن کے واسطے سے اپنے ربّ سے ملاقات کا خواہاں ہے' اس خزانۂ فقر کا وارث ہے۔جیسا کہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا
:
فقر ذوق و شوق و تسلیم و رضاست
ما امینیم ایں متاع مصطفئ است

ترجمہ: فقر ذوق و شوق اور تسلیم و رضا کا نام ہے۔ یہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی میراث ہے اور ہم اس کے وارث ہیں۔
فقر و شا ہی واردات مصطفئ است
ایں تجلیات ذات مصطفئ است

ترجمہ: فقر اور سلطانی مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جانب سے وارد اور عطا ہوتے ہیں۔ یہ سب ان کی پاک ذات کی تجلیات ہیں۔
ہر اُمتی اپنی اپنی استعداد اور توفیق کے مطابق راہِ فقر اختیار کر کے روحانیت کی وہ معراج پاسکتا ہے جہاں وہ اپنے رب کا دیدار کرے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرمان ''نماز مومن کی معراج ہے'' میں ہر مومن کو معراج کی خوشخبری سنا دی گئی ہے البتہ خواہش اور کوشش اُس کے اپنے ذمہ ہے۔ راہِ فقر ان تمام مومنین کی راہ ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنا انعام نازل کیا اور جن کی راہ اختیار کرنے کی ہم سورۃ فاتحہ میں دعا مانگتے ہیں۔ فقر ہی وہ صراطِ مستقیم ہے جو بندے کو سیدھا اس کے رب سے ملاتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فقر کے متعلق فرماتے ہیں: ترجمہ:''جو اہلِ بیت (علیہم السلام) سے محبت کرے اسے جامۂ فقر پہننے کے لیے تیار ہو جانا چاہیے'' (نہج البلاغہ)

غوث الاعظم حضرت سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کو جب اللہ تک معراج نصیب ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اُن سے فرمایا: ''اے غوث الاعظم اپنے اصحاب اور احباب سے کہہ دو اگر میری صحبت چاہتے ہیں تو فقر اختیار کریں۔ جب اُن کا فقر پورا ہوجائے تو وہ نہیں رہتے بجز میرے۔ (رسالۃ الغوثیہ)
پھر فرمایا ''اے غوث الاعظم ! جب تم کسی فقیر (وہ انسان جو فقر کی انتہا تک پہنچ جائے) کو اس حال میں دیکھو کہ وہ فقر کی آگ میں جل گیا ہے اور فاقہ کے اثر سے شکستہ حال ہے تو اس کے قریب ہو جاؤ کیونکہ میرے اور اس کے درمیان کوئی پردہ نہیں۔'' (رسالۃ الغوثیہ) غوث الاعظم حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اپنی تصنیف سرّ الاسرار میں فقر کی تعریف بڑے جامع انداز میں فرماتے ہیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ فرماتے ہیں: ''حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرمان ''فقر میرا فخر ہے اور میرے لیے باعث افتخار ہے'' میں 'فقر' سے مراد وہ فقیری (غربت و افلاس) نہیں جو عوام میں مشہور ہے بلکہ یہاں حقیقی فقر مراد ہے جس کا مفہوم اللہ کے علاوہ کسی بھی اور کا محتاج نہ ہونا اور اس ذاتِ کریم کے علاوہ تمام لذات و نعم کا بجان و دل ترک کر دینا ہے۔ جب انسان اس مرتبہ پر فائز ہو جاتا ہے تو یہی مقام فنا فی اللہ ہے کہ اس ذاتِ وحدہٗ لاشریک کے سوا انسان کے وجود میں کسی اور کا تصور تک باقی نہ رہے اور اس کے دل میں ذاتِ خداوندی کے علاوہ کسی اور کا بسیرا نہ ہو۔'' فقر کے متعلق آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ مزید فرماتے ہیں: (i) شانِ فقر موٹے کپڑے پہننے اور بے مزہ کھانا کھانے میں نہیں۔ شانِ فقر تو تیرے دل کے زُہد اختیار کرنے میں ہے۔ (الفتح الربانی) (ii) فقر و تصوف جدوجہد کا نام ہے اس میں کسی بیہودہ چیز کی آمیزش نہ کر۔ اللہ ہمیں ا ور تمہیں اس کی توفیق کی ارزانی کرے۔ (فتوح الغیب) حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ فقر کے متعلق فرماتے ہیں: فقر ایسی صفت ہے کہ اللہ کی خاص مخلوق کے لیے زیبا ہے۔ (کشف المحجوب) حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: فقر دنیا میں آخرت کے غنا کی چابی ہے۔

حضرت شیخ ابراہیم الخواص رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
فقر شرف اور بزرگی کی چادر، مرسلین علیہم السلام کا لباس اور صالحین کے اوڑھنے کی چادر ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تعلیمات کو نہ تو تصوف اور نہ ہی طریقت کا بلکہ 'فقر' کا نام دیا ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی تمام تر تعلیمات راہِ فقر اور اس سے منسلک مقامات اور افکار سے متعلق ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ حقیقتِ فقر ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں: 1- جو شخص اللہ اور اس کا دیدار چاہتا ہے وہ فقر اختیار کرے۔ (عین الفقر) 2- فقر عین ذات پاک ہے۔ (عین الفقر) 3- فقر دراصل دیدارِ الٰہی کا علم ہے۔ (عین الفقر) 4- جس نے بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی راہ کو اختیار کیا' اس نے فقر محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنا رفیق بنا لیا۔ فقر سے بلند تر اور فخر والا کوئی دوسرا مرتبہ نہیں اور نہ کوئی ہو سکتا ہے۔ فقر ہمیشہ کی زندگی ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں) 5- فقر کے پاس تمام الٰہی خزانے ہوتے ہیں۔ دنیاوی خزانے کو زوال ہے اور دنیا خواب و خیال ہے۔ فقر کا خزانہ معرفت اور توحیدِ لازوال ہے۔ جو بعینہٖ وصال ہے۔ دنیاوی لذت چند روزہ ہے۔ آخر معاملہ اللہ تعالیٰ سے ہی پڑتا ہے۔ (توفیق الہدایت)
فقر شاہے دو عالم بے نیاز و با خدا
احتیاجش کس نہ با شد مد نظرش مصطفئ

ترجمہ: فقر ایک بادشاہ ہے جو خدا کے قرب میں ہونے کی بنا پر دونوں جہانوں سے بے نیاز ہے اسے کسی کی پرواہ نہیں کہ وہ ہر وقت حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مدِ نظر رہتا ہے۔(محک الفقر کلاں) 6- راہِ فقر ہدایت ہے جس کے ہادی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ (عین الفقر)
جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ''فقر مجھ سے ہے'' راہِ فقر اختیار کرنے والا جب روحانی و باطنی پاکیزگی کی انتہا کو پہنچتا ہے تو اسے روحانی طور پر دیدارِ الٰہی سے اللہ کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دائمی حضوری نصیب ہوتی ہے۔ جہاں آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خود اس کی رہنمائی اور تربیت فرماتے ہیں۔ وہ ہر وقت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مدِّنظر رہتا ہے اور ان کی مجلس جہاں اُن کے اصحاب رضی اللہ عنہم اور عارفین کی ارواح موجود ہیں' سے باطنی طور پر بلاواسطہ فیض یاب ہوتا ہے۔ یہی وہ مقام ہیں جہاں دین کی بنیاد کی تکمیل ہوتی ہے۔ باطن میں ان سے اعلیٰ اور کوئی مقام نہیں۔ جب بندے کا دین ان ٹھوس بنیادوں پر استوار ہوگا اور وہ ہادی عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے رہنمائی حاصل کرے گا تو اس کے دین کی عمارت بھی مضبوط اور مکمل ہوگی۔ اسی لیے علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام تک رسائی کو دین کی بنیاد قرار دیا ہے۔ اس مقام تک رسائی کے بغیر دین بے بنیاد اور کھوکھلا ہے۔

بہ مصطفئ برساں خویش را کہ دین ہمہ است
اگر بہ او نرسیدی تمام بولہہبی است

ترجمہ: تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (کی مجلس) تک خود کو پہنچا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی مکمل دین ہیں اگر تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک نہیں پہنچتا تو تیرا سارا دین ابولہب کا دین ہے۔(اقبالؒ ) اقبال رحمتہ اللہ علیہ خود بھی راہِ فقر کے راہی ہیں اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کے افکار و اشعار کا محور فقر ہی ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فقر کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فقر کے ہیں معجزات تاج و سریر و سپا ہ
فقر ہے میروں کا میر فقر ہے شاہوں کا شاہ

مقام فکر ہے کتنا بلند شا ہی سے
روش کسی کی گدایانہ ہو تو کیا کہیے

اک فقر ہےشبیری اس فقر میں ہے میری
میراث مسلمانی سرمایہ شبیری

فقر مومن چیست؟ تسخیر جہا ت
بندہ از تاثیر او مولا صفات

ترجمہ: مومن کا فقر کیا ہے' جہان کی تسخیر اور اس فقر سے بندہ صفاتِ حق تعالیٰ سے متصف ہو جاتا ہے۔ جس طرح دنیاوی علم کا مقصد دنیا کی اشیاء کے متعلق معلومات حاصل کرنا ہے اسی طرح فقر کا مقصد اللہ کی پہچان اور معرفت حاصل کرنا ہے۔ علم اسی دنیا اور اشیائے دنیا تک محدود ہے جبکہ فقر کی رسائی پروردگار عالم تک ہے۔ اقبال ؒ علم اور فقر کا موازنہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
علم کا مقصود ہے پاکی عقل و خرد
فقر کا مقصود ہے عفت قلب و نگاہ

علم فقیہہ و حکیم فقر مسیح و کلیم
علم ہے جویاے راہ فقر ہے دا نائے راہ

علم مقام خبر فقر مقا نظر
علم کا موجود اور،فقر کا موجود اور

حاصلِ بحث یہ کہ فقر دینِ اسلام کا انتہائی اہم اور بنیادی حصہ ہے جس میں انسان اللہ کا دیدار کر کے اس کی پہچان اور معرفت حاصل کرتا ہے اور باطنی طور پر اپنے محبوب آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس تک رسائی حاصل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ترجمہ: اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اسلام میں پورے داخل ہو جاؤ۔ اسلام صرف حقوق العباد اور حقوق اللہ کے نام پر صرف نماز روزے کا نام نہیں۔ معرفتِ الٰہی کا حصول بھی دین کا ایک اہم اور بنیادی حصہ ہے لیکن عام مسلمانوں نے اسے دین سے بالا کوئی شے سمجھ کر اسے صرف ایک طبقے (اولیاء اللہ) تک محدود کر دیا اور خود کو اس سے مبرّا سمجھ لیا حالانکہ قرآن کا مخاطب ہر وہ انسان ہے جو خود کو مسلمان کہتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو فقر ہی اصل دین ہے کیونکہ دین کا مقصد اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے اور یہ مقصد راہِ فقر پر چل کر ہی پورا ہو سکتا ہے۔ اسی لیے علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا
:
لفظ اسلام سے اگر یورپ کو کد ہے تو خیر
دوسرا نام اسی دین کا ہے فقر غیور

موجودہ دور میں جب ہم اپنے اردگرد نظر ڈالتے ہیں تو سوائے فتنہ' فساد اور انتشار کے کچھ نظر نہیں آتا اور جب اپنے اندر جھانکتے ہیں' تو بے سکونی' خوف اور فرسٹریشن ہماری حسیات پر غالب نظر آتی ہیں۔ اسلام یعنی سلامتی والے دین کے پیروکار ہوتے ہوئے بھی ہر جگہ سے سلامتی اور سکون مفقود ہے۔ محسنِ انسانیت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جو دین لائے ہیں' وہ ہر انسان کی ظاہری و باطنی اور انفرادی و اجتماعی بہتری کا دین ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور خلفائے راشدین کے دور میں اس انفرادی و اجتماعی فلاح کی گواہی تمام تاریخ دیتی ہے لیکن آج اسی دین کی پیروی کرنے کے باوجود مسلمانوں میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی۔ وجہ یہی ہے کہ ہم اپنے دین کی ادھوری پیروی کر رہے ہیں اور اسلام میں پورے داخل نہیں ہو رہے۔ صرف ظاہری عبادات اور عقائد پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کر کے دین کی اصل روح یعنی معرفتِ الٰہی کو مجروح کر رہے ہیں۔ معرفتِ الٰہی حاصل کیے بغیر عبادات کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم۔ بے روح عبادات بے سود اور بے کار ہیں' ان سے وہ مطلوبہ نتائج کبھی حاصل نہیں کیے جاسکتے جو دینِ اسلام کا مقصد ہیں یعنی روحانی ترقی اور ظاہری فلاح و بہبود۔
ماخوذ
 
ﺍﺑﻦ ﺳﺎﺑﺎﻁ ﮐﯽ ﺗﻮﺑﮧ
" ﺍﺑﻦ ﺳﺎﺑﺎﻁ ﺑﻐﺪﺍﺩ ﮐﺎ ﻧﺎﻣﯽ گرامی ﭼﻮﺭ ﺗﮭﺎ - ﮐﻮﺋﯽ ﺷﺮﯾﻒ ﺁﺩﻣﯽ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﻧﻔﺮﺕ ﮐﺎ ﺍﻇﮩﺎﺭ ﮐﯿﺌﮯ ﺑﻨﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ - ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯﭘﯿﺸﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﻣﺎﮨﺮ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺑﯿﺴﯿﻮﮞ ﭼﻮﺭﯾﺎﮞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﮐﯽ ﮔﺮﻓﺖ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺁﺧﺮ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺣﮑﺎﻡ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮔﺮﻓﺘﺎﺭ ﮐﺮ ﮨﯽ ﻟﯿﺎ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﺎﭦ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻧﺎﻗﺎﺑﻞ ﺍﺻﻼﺡ ﻣﺠﺮﻡ ﻗﺮﺍﺭ ﺩﯾﮑﺮ ﻣﺪﺕ ﺍﻟﻌﻤﺮ ﮐﮯﻟﯿﮯ ﺟﯿﻞ ﺑﮭﯿﺞ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﮨﻞ ﺑﻐﺪﺍﺩ ﺍﺏ ﺍﺱ ﺫﮐﺮ ﮨﺘﮫ ﮐﭩﮯ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺩﺱ ﺑﺮﺱ ﮐﯽ ﻗﯿﺪ ﮐﺎﭨﻨﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﺑﻦ ﺳﺎﺑﺎﻁ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﯿﻞ ﺳﮯ ﺑﮭﺎﮒ ﻧﮑﻼ ﺍﻭﺭ ﻗﯿﺪ ﺧﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﺗﮯ ﮨﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺪﯾﻢ ﭘﯿﺸﮯ ﮐﻮ ﺍﺯﺳﺮ ﻧﻮ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﮐﺮﻟﯿﺎ ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﮐﮯ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﺍﺭ ﻗﯿﺪ ﻭﺑﻨﺪ ﮐﯽ ﻃﻮﯾﻞ ﭘﺮ ﺻﻌﻮﺑﺖ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﺍﻭﺭ ﻣﺰﺍﺝ ﭘﺮ ﺫﺭﮦ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﺍﺛﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮈﺍﻻ ﺗﮭﺎ۔
ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﯽ ﻓﻀﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﮯ ﮨﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭼﻮﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﻧﮯ ﺳﺮ ﺍﭨﮭﺎﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺭﺍﺕ ﮐﺎ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﭘﮭﯿﻠﺘﮯ ﮨﯽ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﮩﻢ ﭘﺮ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ۔ﺍﺩﮬﺮ ﺍﺩﮬﺮ ﭘﮭﺮﺗﮯ ﭘﮭﺮﺍﺗﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻭﺳﯿﻊ ﺣﻮﯾﻠﯽ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﯽ ﺟﺲ ﮐﮯ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﻃﺮﻑ ﺩﻭﺭ ﺩﻭﺭ ﺗﮏ ﺳﻨﺎﭨﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﺑﻦ ﺳﺎﺑﺎﻁ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﮭﺎﭨﮏ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺭﮎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﭼﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺗﺪﺑﯿﺮ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮨﺎﺗﮫ ﺣﻮﯾﻠﯽ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﭘﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻭﮦ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻼ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺁﮨﺴﺘﮕﯽ ﺳﮯ ﺣﻮﯾﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﮔﯿﺎ ۔ﺍﻧﺪﺭ ﺍﯾﮏ ﻭﺳﯿﻊ ﺍﺣﺎﻃﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﺭﻭﮞ ﻃﺮﻑ ﮐﻤﺮﮮ ﺑﻨﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﺍ ﮐﻤﺮﮦ ﻭﺳﻂ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺍﺑﻦ ﺳﺎﺑﺎﻁ ﺍﺳﯽ ﺑﮍﮮ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﺳﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﺴﯽ ﺑﮍﮮ ﺍﻣﯿﺮ ﯾﺎ ﺳﻮﺩﺍﮔﺮ ﮐﺎ ﻣﮑﺎﻥ ﮨﮯ ﺟﻮﻧﮩﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﮍﮮ ﮐﻤﺮﮮ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﻞ ﮔﯿﺎ ﯾﮧ ﺑﮍﺍ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺍ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎﮐﺮ ﺑﮍﯼ ﻣﺎﯾﻮﺳﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮧ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﺳﺎﺯ ﻭ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﮐﮭﺠﻮﺭ ﮐﮯ ﭘﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﭼﭩﺎﺋﯽ ﺑﭽﮭﯽ ﺗﮭﯽ-
ﺍﺱ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﭼﻤﮍﮮ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺗﮑﯿﮧ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯿﮍ ﮐﯽ ﮐﮭﺎﻝ ﮐﯽ ﭼﻨﺪ ﭨﻮﭘﯿﺎﮞ ﭘﮍﯼ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﮔﻮﺷﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﺸﻤﯿﻨﮧ ﮐﮯ ﻣﻮﭨﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﮐﮯ ﭼﻨﺪ ﺗﮭﺎﻥ ﺑﮑﮭﺮﮮ ﭘﮍﮮ ﺗﮭﮯ ﺍﻥ ﺳﺎﺑﺎﻁ ﺍﯾﺴﮯ ﻣﻌﻤﻮﻟﯽ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺟﮭﻼ ﺍﭨﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﮑﺎﻥ ﻣﺎﻟﮏ ﮐﻮ ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ ﺩﯾﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺗﻨﮯ ﺑﮍﮮ ﻣﮑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺴﺎ ﺑﮯﮐﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﮔﭩﮭﯿﺎ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ۔ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﯾﮧ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺰﺍﺝ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺍﺳﯽ ﮐﻮ ﭼﻮﺭﯼ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﯿﺎ- ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺗﮭﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﮔﮭﭩﮍﯼ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﺎﻧﺪﮬﻨﮯﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯﮐﮯ ﺑﺎﻋﺚ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮔﺮﮦ ﻧﮧ ﻟﮕﺎ ﺳﮑﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﻧﭙﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﯿﺎ ﻋﯿﻦ ﺍﺳﯽ ﻭﻗﺖ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﮭﻼ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﭼﺮﺍﻍ ﻟﯿﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ﺍﺑﻦ ﺳﺎﺑﺎﻁ ﮐﺎ ﺧﻮﻑ ﺳﮯ ﺑﺮﺍ ﺣﺎﻝ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﭘﺮ ﻟﺮﺯﮦ ﻃﺎﺭﯼ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺍﯾﮏ ﺩﺭﺍﺯ ﻗﺪ، ﺧﻤﯿﺪﮦ ﮐﻤﺮ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﻧﺨﯿﻒ ﺁﺩﻣﯽ ﺗﮭﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﭘﺮ ﻣﻠﮕﺠﮯ ﺭﻧﮓ ﮐﯽ ﻗﺒﺎ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺑﮭﯿﮍ ﮐﯽ ﮐﮭﺎﻝ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﭨﻮﭘﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺭ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﯽ ﭼﻤﮏ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﺩ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﺛﺮ ﻟﯿﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﻧﮧ ﺭﮦ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﻧﻮ ﻭﺍﺭﺩ ﻧﮯ ﭼﺮﺍﻍ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﻧﺮﻣﯽ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺧﺪﺍ ﺗﻢ ﭘﺮ ﺭﺣﻤﺖ ﮐﺮﮮ ﯾﮧ ﮐﺎﻡ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺳﺎﺗﮭﯽ ﮐﮯ ﺑٍﻐﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ- ﺩﯾﮑﮭﻮ ﯾﮧ ﭼﺮﺍﻍ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻣﺪﺩ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﮞ ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﯾﮧ ﮐﺎﻡ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺮﻟﯿﮟ ﮔﮯ - ﺍﺑﮭﯽ ﺍﺑﻦ ﺳﺎﺑﺎﻁ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﻮﺍﺳﻮﮞ ﭘﺮ ﻗﺎﺑﻮ ﭘﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﯿﺎ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﮨﮯ ﺍﺗﻨﮯﻣﯿﮟ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﻧﮯ ﺗﮭﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﻭ ﺣﺼﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺩﻭ ﺍﻟﮓ ﺍﻟﮓ ﮔﮭﭩﮍﯾﺎﮞ ﺑﻨﺎﺋﯿﮟ۔
ﺍﭼﺎﻧﮏ ﺍﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺑﻦ ﺳﺎﺑﺎﻁ ﮐﻮ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮐﮩﺎ “ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﻧﺎ ﻣﺠﮭﮯ ﺧﯿﺎﻝ ﮨﯽ ﻧﮧ ﺭﮨﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﺴﺎ ﺗﮭﮑﺎ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻝ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﮭﻮﮎ ﻟﮓ ﺭﮨﯽ ﮨﻮﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﯿﮯ ﺩﻭﺩﮪ ﮔﺮﻡ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻻﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﺳﮯ ﭘﯽ ﮐﺮ ﺗﻢ ﺗﺎﺯﮦ ﺩﻡ ﮨﻮ ﺟﺎﺅ ﮔﮯ “ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻞ ﮔﯿﺎ۔ ﺍﺑﻦ ﺳﺎﺑﺎﻁ ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﺗﮏ ﺗﻮ ﻋﺎﻟﻢ ﺗﺤﯿﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﻮﯾﺎ ﺭﮨﺎ ﺍﻭﺭ ﯾﮑﺎﯾﮏ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺎﺗﮭﮯ ﭘﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ۔ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺴﺎ ﺍﺣﻤﻖ ﮨﻮﮞ ﺍﺗﻨﺎ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﺳﮑﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﺍ ﮨﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﮨﻢ ﭘﯿﺸﮧ ﮨﮯ ﺍﺗﻔﺎﻕ ﺳﮯ ﺁﺝ ﮨﻢ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﺱ ﺍﯾﮏ ﮨﯽ ﻣﮑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻟﺒﺘﮧ ﯾﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﺑﮭﯿﺪﯼ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺁﺝ ﯾﮧ ﻣﮑﺎﻥ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻭﮦ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺁﯾﺎ ﮨﮯ۔ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺍﺱ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺁﺩﮬﮯ ﮐﺎ ﺣﻖ ﺩﺍﺭ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﯾﻨﮯ ﭘﺮ ﺁﻣﺎﺩﮦ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮨﮯ “ ﻭﮦ ﺍﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﺳﻮﭺ ﮨﯽ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻧﻮ ﻭﺍﺭﺩ ﺩﻭﺩﮪ ﮐﺎ ﭘﯿﺎﻟﮧ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻟﯿﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﭘﯿﺎﻟﮧ ﺍﺑﻦ ﺳﺎﺑﺎﻁ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯽ ﭘﮑﮍﺍ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﭘﯽ ﻟﻮ ﯾﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺑﮭﻮﮎ ﺍﻭﺭ ﺗﮑﺎﻥ ﮐﻮ ﺩﻭﺭ ﮐﺮﺩﮮ ﮔﺎ۔
ﺍﺑﻦ ﺳﺎﺑﺎﻁ ﮐﻮ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺑﮭﻮﮎ ﻟﮓ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﺩﻭﺩﮪ ﮐﺎ ﭘﯿﺎﻟﮧ ﺧﺎﻟﯽ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﮐﮍﮎ ﮐﺮ ﺑﻮﻻ “ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﺎﻣﺎﻥ ﺗﮏ ﺗﻢ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﯿﺸﮯ ﮐﮯ ﺍﺻﻮﻝ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺍﺱ ﻣﺎﻝ ﭘﺮ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﻖ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺗﺎﮨﻢ ﺗﻢ ﻧﮯ ﻣﺎﻝ ﺳﻤﯿﭩﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺲ ﻣﺴﺘﻌﺪﯼ ﮐﺎ ﺛﺒﻮﺕ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﯿﺶ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺑﮩﺖ ﻣﺎﻝ ﺩﯾﺪﻭﮞ ﮔﺎ ﭼﻠﻮ ﺍﺏ ﮔﮭﭩﮍﯾﺎﻥ ﺍﭨﮭﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭼﻠﯿﮟ “ ﺍﺑﻦ ﺳﺎﺑﺎﻁ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﭘﺮ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﻣﺴﮑﺮﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺷﻔﻘﺖ ﺳﮯ ﺑﻮﻻ “ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺗﻢ ﻣﯿﺮﮮ ﺣﺼﮯ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﻝ ﮐﯿﻮﮞ ﻣﯿﻼ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﺼﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﻮﻧﮕﺎ۔ ﺗﻤﮩﺎﺭﺍ ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﮨﮯ ﺗﻢ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﮔﮭﭩﮍﯼ ﺍﭨﮭﺎﻧﺎ ﻣﯿﮟ ﺑﮍﯼ ﮔﮭﭩﮍﯼ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﻮﮞ۔ ﺟﮩﺎﮞ ﺗﻢ ﮐﮩﻮ ﻣﯿﮟ ﻭﮨﺎﮞ ﺗﮏ ﺍﺳﮯ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ “ ﺍﺑﻦ ﺳﺎﺑﺎﻁ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺑﺲ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺳﺎﺭﮮ ﻣﻠﮏ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻞ ﺳﮑﺘﺎ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﮔﮭﭩﮍﯼ ﺍﭨﮭﺎ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻢ ﺑﮍﯼ ﮔﮭﭩﮍﯼ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﮮ ﺁﮔﮯ ﭼﻠﻮَ “ ﺍﺱ ﻧﺨﯿﻒ ﺍﻟﺠﺜﮧ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﻧﮯ ﭘﻮﺭﺍ ﺯﻭﺭ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﯼ ﮔﮭﭩﮍﯼ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﻤﺮ ﭘﺮ ﻻﺩ ﻟﯽ۔ ﺍﺳﮑﯽ ﺧﻤﯿﺪﮦ ﮐﻤﺮ ﮔﮭﭩﮍﯼ ﮐﮯ ﺑﻮﺟﮫ ﺳﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﮭﯽ ﺧﻤﯿﺪﮦ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﻗﺪﻡ ﺍﭨﮭﺎﺗﺎ ﺍﺑﻦ ﺳﺎﺑﺎﻁ ﮐﮯ ﺁﮔﮯ ﭼﻞ ﭘﮍﺍ۔
ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺑﻦ ﺳﺎﺑﺎﻁ ﮐﻮ ﺑﮩﺖ ﺟﻠﺪﯼ ﺗﮭﯽ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﺭﺍﺕ ﺑﮍﯼ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﺑﺎﺭ ﺑﺎﺭ ﺍﺱ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﮐﻮ ﭨﮭﻮﮐﺮ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﮐﮩﺘﺎ ﮐﮧ ﺗﯿﺰ ﭼﻠﻮ۔ﺍﺟﻨﺒﯽ ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺭ ﻟﮍﮐﮭﮍﺍ ﮔﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﺍﭨﮫ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﻧﭙﺘﺎ ﮐﺎﻧﭙﺘﺎ ﭘﮭﺮ ﺗﯿﺰ ﺗﯿﺰ ﻗﺪﻡ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ۔ﺍﯾﮏ ﺟﮕﮧ ﭼﮍﮬﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﺨﺖ ﻣﺸﮑﻞ ﭘﯿﺶ ﺁﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮯ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮔﺮ ﭘﮍﺍ ﺍﺑﻦ ﺳﺎﺑﺎﻁ ﻧﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﮔﺎﻟﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﻮﭼﮭﺎﮌ ﮐﺮﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﻤﺮ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺯﻭﺭ ﺩﺍﺭ ﻻﺕ ﺟﻤﺎﺩﯼ،ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺟﻮﮞ ﺗﻮﮞ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﻦ ﺳﺎﺑﺎﻁ ﺳﮯ ﻣﻌﺬﺭﺕ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺍﺑﻦ ﺳﺎﺑﺎﻁ ﻧﮯ ﮔﮭﭩﮍﯼ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﻤﺮ ﭘﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﭼﻠﺘﮯ ﭼﻠﺘﮯ ﺩﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﮐﮭﻨﮉﺭ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺍﺑﻦ ﺳﺎﺑﺎﻁ ﮐﯽ ﭘﻨﺎﮦ ﮔﺎﮦ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﮭﭩﮍﯼ ﺑﺎﮨﺮ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﭘﺮ ﺳﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﻮﺩ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﻧﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮔﮭﭩﮍﯾﺎﮞ ﺑﺎﮨﺮ ﺳﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺩﯾﮟ، ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﺑﻦ ﺳﺎﺑﺎﻁ ﻧﮯ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ ﺳﮯ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﺎ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﯽ ﭼﺎﻧﺪﻧﯽ ﻣﯿﻦ ﺟﺎﺋﺰﮦ ﻟﯿﺎ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﺳﮯ ﻧﻮﺭ ﮐﯽ ﺷﻌﺎﻋﯿﮟ ﭘﮭﻮﭦ ﭘﮭﻮﭦ ﮐﺮ ﻧﮑﻞ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ
۔ﭘﮭﺮ ﯾﮑﺎﯾﮏ ﻭﮦ ﺍﺑﻦ ﺍﺳﺎﺑﺎﻁ ﺳﮯ ﻣﺨﺎﻃﺐ ﮨﻮﺍ “ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﯾﮧ ﺳﺎﺭﺍ ﻣﺎﻝ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮨﻮ، ﺍﺱ ﻣﮑﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﺎﻟﮏ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﻣﺎﻝ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﺨﺸﺘﺎ ﮨﻮﮞ، ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺎﻃﺮ ﺧﻮﺍﮦ ﺧﺪﻣﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺳﮑﺎ ﺑﻠﮑﮧ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﺑﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﻤﺰﻭﺭﯼ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻟﯿﮯ ﺯﺣﻤﺖ ﮐﺎﺑﺎﻋﺚ ﺑﻨﺎ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﺩﻭ،ﺍﭼﮭﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﺏ ﭼﻠﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﺧﺪﺍ ﺣﺎﻓﻆ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﯾﮧ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﺗﯿﺰﯼ ﺳﮯ ﺷﮩﺮ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺭﻭﺍﻧﮧ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺧﻨﺠﺮ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺍﺑﻦ ﺳﺎﺑﺎﻁ ﮐﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﻮﺳﺖ ﮨﻮﮔﺌﮯ، ﺳﯿﺎﮦ ﮐﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﺍﺱ ﭘﺘﻠﮯ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻭ ﺩﻣﺎﻍ ﮐﻮ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻣﺤﯿﺮ ﺍﻟﻌﻘﻞ ﺣﺴﻦ ﺳﻠﻮﮎ ﻧﮯ ﺟﻨﺠﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ ﻭﮦ ﺳﻮﭺ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﻠﻮﮎ ﮐﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﯿﺎ ﺳﻠﻮﮎ ﮐﯿﺎ؟ ﯾﮧ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﻣﺎﻍ ﻣﺎﺅﻑ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔
ﺿﻤﯿﺮ ﮐﯽ ﺧﻠﺶ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﮯ ﭼﯿﻦ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﺳﻮﯾﺮﺍ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯽ ﻭﮦ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ ﻧﮑﻞ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﺍ۔ ﺍﺏ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻮﻑ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺑﺲ ﯾﮩﯽ ﺁﺭﺯﻭ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﮐﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﺎ ﺳﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﮮ۔ ﺭﺍﺕ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﮑﺎﻥ ﮐﻮ ﺩﮬﻮﻧﮉﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻗﺖ ﻧﮧ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﮑﺎﻥ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﯾﮏ ﻓﺮﺩ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻣﮑﺎﻥ ﮐﺲ ﺗﺎﺟﺮ ﮐﺎ ﮨﮯ؟ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﻧﮯ ﺣﯿﺮﺕ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﺗﻢ ﺷﺎﯾﺪ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﺴﯽ ﺗﺎﺟﺮ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﮐﺎﻡ ﯾﮧ ﺗﻮ ﺟﻨﺎﺏ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ﮐﺎ ﻣﮑﺎﻥ ﮨﮯ۔ ﺍﺑﻦ ﺳﺎﺑﺎﻁ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﺗﻮ ﺳﻦ ﺭﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻥ ﮐﺎ ﺷﮑﻞ ﺁﺷﻨﺎ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺑﮍﮮ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻭﮨﯽ ﺭﺍﺕ ﻭﺍﻻ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺗﯿﺲ ﭼﺎﻟﯿﺲ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﻣﺆﺩﺑﺎﻧﮧ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺑﻦ ﺳﺎﺑﺎﻁ ﭨﮭﭩﮭﮏ ﮐﺮ ﺭﮎ ﮔﯿﺎ ﺍﺗﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺠﺪ ﺳﮯ ﺁﺯﺍﻥ ﮐﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺋﯽ ﻟﻮﮒ ﺍﭨﮫ ﮐﮭﮍﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺳﺐ ﭼﻠﮯ ﮔﺌﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﭨﮭﺎ ﺟﻮﻧﮩﯽ ﺍﺱ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﻧﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻗﺪﻡ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﺑﻦ ﺳﺎﺑﺎﻁ ﺭﻭﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﺮ ﮔﺮ ﮔﯿﺎ ﺍﻧﻔﻌﺎﻝ ﮐﮯ ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﺳﯿﺎﮨﯽ ﺩﮬﻮ ﮈﺍﻟﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﻧﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﺍﻭﺭ ﺷﻔﻘﺖ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﺳﮯ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮔﻠﮯ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺍﺑﻦ ﺳﺎﺑﻂ ﮐﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﺍﺏ ﺑﺪﻝ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﻧﮯ ﺟﻮ ﺭﺍﮦ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻃﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺑﻦ ﺳﺎﺑﺎﻁ ﻧﮯ ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻃﮯ ﮐﺮﻟﯽ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺍﺟﻨﺒﯽ ﮐﮯ ﺣﻠﻘﮧ ﺍﺭﺍﺩﺕ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻓﯿﺾ ﺳﮯ ﮨﺘﮫ ﮐﭩﮯ ﺷﯿﻄﺎﻥ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺷﯿﺦ ﺍﺣﻤﺪ ﺳﺎﺑﺎﻁ ﮐﮯ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﮨﻞ ﺍﻟﻠﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺷﻤﺎﺭ ﮨﻮﺍ
ﺟﺲ ﺷﺨﺺ ﮐﻮ ﭼﺎﻟﯿﺲ ﺳﺎﻝ ﺗﮏ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﮨﻮﻟﻨﺎﮎ ﺳﺰﺍﺋﯿﮟ ﻧﮧ ﺑﺪﻝ ﺳﮑﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﻣﺮﺩ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﺣﺴﻦ ﺳﻠﻮﮎ ﻧﮯ ﺑﺪﻝ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺣﺴﻦ ﺳﻠﻮﮎ ﺍﻭﺭ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﭼﻨﺪ ﺳﺎﻋﺘﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺧﺎﺻﺎﻥ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﺻﻒ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﺁﭖ ﮐﻮ ﭘﺘﮧ ﮨﮯ ﻭﮦ ﮐﻮﻥ ﺑﺰﺭﮒ ﺗﮭﮯ ؟ ﻭﮦ ﺑﺰﺭﮒ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﯿﺦ ﺟﻨﯿﺪ ﺑﻐﺪﺍﺩی ﺗﮭﮯ
ﻧﮕﺎﮦ ﻗﻠﻨﺪﺭ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺗﺎﺛﯿﺮ ﺩﯾﮑﮭﯽ
ﺑﺪﻟﺘﯽ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﺗﻘﺪﯾﺮ ﺩﯾﮑﮭﯽ
 

قیصرانی

لائبریرین
آج فیس بک کھولی تو ایک ایرانی نے یہ اشعار اپنی ٹائم لائن میں لکھے تھے تو اچانک صاعقہ کی رفتار سے 1990 کا منظر ذہن میں گھوم گیا میں صدر اپنے ایک دوست سے ملنے گیا تو اس کے ساتھ ایک اور لڑکا کھڑا تھا اور اس کو اپنی تازہ کہی ہوئی غزل سنا رہا تھا میں اسوقت دسویں کا طالب علم تھا میرے دوست کو کوئی ضروری کام تھا تو اس نے مجھے کہا کہ آپ جائیں اور معذرت کرلی اور ساتھ ہی کہا ان سے ملیں یہ ہیں وقار جو کہ مہر تخلص کرتے ہیں یہ آپ کے گھر کے قریب ہی رہتے ہیں بہرحال ہم باتیں کرتے ہوئے واپس گھر کو آنے لگے تو راستے میں پتہ چلا کہ مؤصوف بھی میٹرک کے طالب علم ہیں اور شاعری وغیرہ کرتے ہیں دوران راہ خوب علمی گفتگو ہوئی غالب، داغ اور اقبال پر سیر حاصل گفتگو ہوئی پھر فراز پر خوب تبادلہ خیال ہوا۔ مؤصوف ہر ایک پر اعتراضات اٹھائے جارہے تھے میرے لیئے یہ بہت حیرت کا باعث تھا کیونکہ میرے لیئے تو اس وقت یہ شعراء ایک دیوتا کی حیثیت رکھتے تھے جن کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن بہرحال جس کمال مہارت سے موصوف علمی گفتگو علم عروض کے حوالے سے فرمارہے تھے تو وہ میری چھوٹی سے عقل سے باہر تھی اس دوران موصوف کا گھر آگیا تو کہنے لگے اب اجازت چاہتا ہوں تو میں آخر وہ سوال جو کہ میرے ذہن میں کافی دیر سے کلبلا رہا تھا آخر کر ہی دیا میں نے کہا کہ جناب آپ کی بالی عمریا اور یہ خیالات کے بڑے بڑے مہان شکتی مان دیوتاؤں پر نکتہ اعتراض و فنی خامیاں ایں چہ بوالعجبی است تو موصوف کہنے لگے کہ میں ان چھوٹے چھوٹے شعراء کو نہیں پڑھتا ہوں بلکہ ان کو تو میں ساتویں کلاس میں ہی سارا پڑھ لیا ہے اور اب میں حافظ عرفی عراقی خاقانی اور بیدل کو پڑھنا ہوں اور جھٹ جیب سے ایک کیسٹ نکال کر دی اور کہا کہ اس کو سننا پھر بات کریں گے اور اللہ حافظ کہہ کر اپنی گلی کی طرف مڑلیے۔

میں نے کیسٹ پر دیکھا تو اس پر لکھا تھا ناشناس یہ ناشناس سے میرا پہلا تعارف تھا اس میں ایک کلام یہی ہے جو کہ میں اب آپ سے شریک محفل کرنے جارہا ہوں۔

http://dari.irib.ir/images/media/n.saeghe.mp3

راز آتشکدہ اے دل به کسے نتوان گفت
خبرِ صاعقہ در گوشِ خسے نتوان گفت

دل میں بھڑکتی آگ کا راز محرم راز کے سوا کسی کو نہیں بتلایا جاسکتا ایسے ہی بجلی کے چمکنے کی خبر(بمعنی آگ یا شعلہ) خس(بھوسہ) کے کان میں نہیں کہی جاسکتی ہے
ہمچو اے پروانہ خموشانہ شوَم خاکستر
کہ سر عشق بہ ھر بوالھوس نتوان گفت
مجھے پروانے کی طرح خاموشی سے اپنی آگ میں جل کر خاک ھونا پڑے گا۔ کیونکہ عشق کے اِسرار کسی ہوس کے پجاری کو بتائے نہیں جا سکتے ہیں

راهزن تا رهِ منزل نزَند اے راهرَو
مقصدِ قافلہ را بہ جرسے نتوان گفت
اے سلوک کے راستہ چلنے والے جب تک تو منزل پر نہیں پہنچ جاتا تو قافلہ کے قصد و مقصد و منزل کا پتہ قافلے کی جرس(گھنٹی) کو بھی نہیں بتایا جاسکتا کیونکہ راہزن بمعنی شیطان کا خطرہ مؤجود ہے۔

اے تنُک حوصلہ تُو محرمِ اسرا ر نہ ای
دردِ سیمرغ بہ پیشے مگسے نتوان گفت
اے کم حوصلہ سالک تو اسرار الٰہی کا امین کیسے ہوسکتا ہے کہ تھوڑی سی آزمائش سے ہی گھبرا گیا ہے۔ ایسے ہی سیمرغ کا راز کسی مکھی کو کیسے بتایا جاسکتا ہے۔
محمود احمد غزنوی نایاب الف نظامی تلمیذ باباجی فاتح
ڈاکٹر ناشناس :)
 

الف نظامی

لائبریرین
آج فیس بک کھولی تو ایک ایرانی نے یہ اشعار اپنی ٹائم لائن میں لکھے تھے تو اچانک صاعقہ کی رفتار سے 1990 کا منظر ذہن میں گھوم گیا میں صدر اپنے ایک دوست سے ملنے گیا تو اس کے ساتھ ایک اور لڑکا کھڑا تھا اور اس کو اپنی تازہ کہی ہوئی غزل سنا رہا تھا میں اسوقت دسویں کا طالب علم تھا میرے دوست کو کوئی ضروری کام تھا تو اس نے مجھے کہا کہ آپ جائیں اور معذرت کرلی اور ساتھ ہی کہا ان سے ملیں یہ ہیں وقار جو کہ مہر تخلص کرتے ہیں یہ آپ کے گھر کے قریب ہی رہتے ہیں بہرحال ہم باتیں کرتے ہوئے واپس گھر کو آنے لگے تو راستے میں پتہ چلا کہ مؤصوف بھی میٹرک کے طالب علم ہیں اور شاعری وغیرہ کرتے ہیں دوران راہ خوب علمی گفتگو ہوئی غالب، داغ اور اقبال پر سیر حاصل گفتگو ہوئی پھر فراز پر خوب تبادلہ خیال ہوا۔ مؤصوف ہر ایک پر اعتراضات اٹھائے جارہے تھے میرے لیئے یہ بہت حیرت کا باعث تھا کیونکہ میرے لیئے تو اس وقت یہ شعراء ایک دیوتا کی حیثیت رکھتے تھے جن کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن بہرحال جس کمال مہارت سے موصوف علمی گفتگو علم عروض کے حوالے سے فرمارہے تھے تو وہ میری چھوٹی سے عقل سے باہر تھی اس دوران موصوف کا گھر آگیا تو کہنے لگے اب اجازت چاہتا ہوں تو میں آخر وہ سوال جو کہ میرے ذہن میں کافی دیر سے کلبلا رہا تھا آخر کر ہی دیا میں نے کہا کہ جناب آپ کی بالی عمریا اور یہ خیالات کے بڑے بڑے مہان شکتی مان دیوتاؤں پر نکتہ اعتراض و فنی خامیاں ایں چہ بوالعجبی است تو موصوف کہنے لگے کہ میں ان چھوٹے چھوٹے شعراء کو نہیں پڑھتا ہوں بلکہ ان کو تو میں ساتویں کلاس میں ہی سارا پڑھ لیا ہے اور اب میں حافظ عرفی عراقی خاقانی اور بیدل کو پڑھنا ہوں اور جھٹ جیب سے ایک کیسٹ نکال کر دی اور کہا کہ اس کو سننا پھر بات کریں گے اور اللہ حافظ کہہ کر اپنی گلی کی طرف مڑلیے۔

میں نے کیسٹ پر دیکھا تو اس پر لکھا تھا ناشناس یہ ناشناس سے میرا پہلا تعارف تھا اس میں ایک کلام یہی ہے جو کہ میں اب آپ سے شریک محفل کرنے جارہا ہوں۔

http://dari.irib.ir/images/media/n.saeghe.mp3

راز آتشکدہ اے دل به کسے نتوان گفت
خبرِ صاعقہ در گوشِ خسے نتوان گفت

دل میں بھڑکتی آگ کا راز محرم راز کے سوا کسی کو نہیں بتلایا جاسکتا ایسے ہی بجلی کے چمکنے کی خبر(بمعنی آگ یا شعلہ) خس(بھوسہ) کے کان میں نہیں کہی جاسکتی ہے
ہمچو اے پروانہ خموشانہ شوَم خاکستر
کہ سر عشق بہ ھر بوالھوس نتوان گفت
مجھے پروانے کی طرح خاموشی سے اپنی آگ میں جل کر خاک ھونا پڑے گا۔ کیونکہ عشق کے اِسرار کسی ہوس کے پجاری کو بتائے نہیں جا سکتے ہیں

راهزن تا رهِ منزل نزَند اے راهرَو
مقصدِ قافلہ را بہ جرسے نتوان گفت
اے سلوک کے راستہ چلنے والے جب تک تو منزل پر نہیں پہنچ جاتا تو قافلہ کے قصد و مقصد و منزل کا پتہ قافلے کی جرس(گھنٹی) کو بھی نہیں بتایا جاسکتا کیونکہ راہزن بمعنی شیطان کا خطرہ مؤجود ہے۔

اے تنُک حوصلہ تُو محرمِ اسرا ر نہ ای
دردِ سیمرغ بہ پیشے مگسے نتوان گفت
اے کم حوصلہ سالک تو اسرار الٰہی کا امین کیسے ہوسکتا ہے کہ تھوڑی سی آزمائش سے ہی گھبرا گیا ہے۔ ایسے ہی سیمرغ کا راز کسی مکھی کو کیسے بتایا جاسکتا ہے۔
محمود احمد غزنوی نایاب الف نظامی تلمیذ باباجی فاتح
دردِ سیمرغ بہ پیشِ مگسے نتوان گفت
زبردست!
 
پروفیسر: 'برائی' کیا ہے؟
شاگرد: سر میں بتاتا ہوں، مگر پہلے مجھے کچھ پوچھنا ہے۔۔۔۔
"کیا ٹھنڈ کا وجود ہے؟"
پروفیسر: ہاں
شاگرد: غلط، 'ٹھنڈ' جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی، بلکہ یہ حرارت کی عدم دستیابی کا نام ہے۔۔۔۔۔۔
شاگرد نے دوبارہ پوچھا: "کیا اندھیرا ہوتا ہے؟"
پروفیسر: ہاں
شاگرد: نہیں سر، اندھیرا خود کچھ نہیں ہے، بلکہ یہ روشنی کی غیر حاضری ہے، جسے ہم اندھیرا کہتے ہیں۔۔۔
فزکس کے مطابق ہم روشنی اور حرارت کا مطالعہ تو کر سکتے ہیں، مگر ٹھنڈ یا اندھیرے کا نہیں۔۔۔۔
سو برائی کا بھی کوئی وجود نہیں ہے، یہ دراصل ایمان، محبت اور اللہ پر پختہ یقین کی کمی یا غیر موجودگی ہے۔۔۔جسے ہم برائی کہتے ہیں۔۔۔۔
یہ شاگرد "البیرونی" تھے۔۔۔۔
 
ہمارے بُت
“بچہ اپنے کھیل میں جیسی سنجیدگی اور ہمہ تن محوئیت اور خود فراموشی دکھاتا ہے، بڑوں کے کسی مشن اور مہم میں اس کا عُشرِ عشیربھی نظر نہیں آتا۔اس میں شک نہیں کہ دنیا کا بڑے سے بڑا فلسفی بھی کسی کھیل میں منہمک بچے سے زیادہ سنجیدہ نہیں ہو سکتا۔کھلونا ٹوٹنے سے اچانک بچے نے روشنی کی طرف دیکھا تو آنسوؤں میں دھنک جھلمل جھلمل کرنے لگی تھی۔ پھر وہ سبکیاں لیتے لیتے سو گیا تھا۔ وہی کھلونا بڑھاپے میں کسی جادو کے زور سے اس کے سامنے لا کر رکھ دیا جائے تو وہ بھونچکا رہ جائے کہ اس کے ٹوٹنے پر بھی بھلا کوئی اس طرح جی جان سے روتا ہے۔ یہی حال ان کھلونوں کا ہوتا ہے جن سے آدمی زندگی بھر کھیلتا رہتا ہے۔ ہاں، عمر کے ساتھ یہ بھی بدلتے اور بڑے ہوتے رہتے ہیں۔ کچھ کھلونے خود بخود ٹوٹ جاتے ہیں۔ کچھ کو دوسرے توڑ دیتے ہیں۔ کچھ کھلونے پروموٹ ہو کر دیوتا بن جاتے ہیں اور کچھ دیویاں دل سے اترنے کے بعد گودڑ بھری گڑیاں نکلتی ہیں۔پھر ایک ابھا گن گھڑی ایسی آتی ہے جب وہ ان سب کو توڑ دیتا ہے۔اس گھڑی وہ خود بھی ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔۔۔تراشیدم، پرستیدم، شکستم“

مشتاق احمد یوسفی
 
کبھی دن نہیں، کبھی شب نہیں
کبھی لفظ گم، کبھی لب نہیں
کبھی بات کا کرنے کا ڈھب نہیں
کبھی تب نہیں،کبھی اب نہیں
یوں چل رہے ہیں قطار میں
کبھی بے زبانی کی مار میں
کبھی بدنصیبی کی جیت میں
کبھی خوش نصیبی کی ہار میں
 
ہم خاک نشینوں سے ہی کیوں کرتے ہیں نفرت
کیا پردہ نشینوں میں غلاظت نہیں ہوتی
یہ بات نئی نسل کو سمجھانی پڑے گی
عریانی کبھی بھی ثقافت نہیں ہوتی
سر آنکھوں پر ہم اس کو بٹھا لیتے ہیں اکثر
جس کے کسی وعدے میں صداقت نہیں ہوتی
پہنچا ہے اگرچہ بڑا نقصان ہمیشہ
پھر بھی کسی بندے کی اطاعت نہیں ہوتی
 
نماز کی عجیب برکات
قیام جتنا لمبا ہوگا موت کی سختی اتنی آسان ہوتی چلی جائے گی۔لمبی نمازم موت کی سختی کو دھو دیتی ہے۔
رکوع کا جتنا وزن ہے اس قدر سونا صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا اور جب رکوع سے کھڑا ہوتا ہے تو اللہ تبارک تعالیٰ محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
جب سجدے میں جاتا ہے تو سارے گناہ دھل جاتے ہیں۔
جب التحیات پڑھتا ہے تو صابرین کا اجر پاتا ہے۔
جب نماز میں درودشریف پڑھتا ہے تو اللہ دس بار اس نمازی پر درود بھیجتا ہے۔
جب سلام پھیرتا ہے تو گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے۔
 
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺧﻮﺍﺟﮧ ﺻﺎﺣﺐ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ’’ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻧﺼﯿﺐ ﺍﮔﺮ ﺗﺤﺮﯾﺮ
ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺩﻋﺎ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ؟‘‘
ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻝ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﭨﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻣﺪﺕ ﺗﮏ
ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ‘ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ‘ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻣﻮﺕ‘ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺗﺮﻗﯽ ‘ ﮨﻤﺎﺭﯼ
ﺧﻮﺵ ﺣﺎﻟﯽ‘ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺷﺎﺩﯼ‘ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺍﻭﻻﺩ ‘ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺭﺯﻕ‘ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻋﺰﺕ
ﺍﻭﺭﮨﻤﺎﺭﺍ ﺑﺮﺍ ﻭﻗﺖ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﺗﻤﺎﻡ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ
ﺳﮯ ﻗﺒﻞ ﻟﻮﺡ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﭘﺮ ﺩﺭﺝ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﮨﯿﮟ ‘ ﺍﮔﺮ ﺍﺑﻦ ﻓﻼﮞ ‘ ﺍﺑﻦ ﻓﻼﮞ
ﺍﻭﺭ ﺍﺑﻦ ﻓﻼﮞ ﮐﯽ ﺣﯿﺎﺕ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﮏ ﺳﯿﮑﻨﮉ ﺩﺭﺝ ﮨﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﻮﺷﺶ
ﺍﻭﺭ ﺩﻋﺎ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﮔﻨﺠﺎﺋﺶ ﺭﮦ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ۔
ﺁﭖ ﻗﺪﺭﺕ ﮐﮯ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﮐﻮ ﺗﺴﻠﯿﻢ ﮐﯿﺠﯿﮯ‘ ﺳﺮ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﯿﺠﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﺻﺎﺑﺮ
ﺍﻭﺭﺷﺎﮐﺮ ﺭﮦ ﮐﺮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺍﺭ ﺩﯾﺠﯿﮯ‘ ﺁﭖ ﮐﻮ ﻧﻤﺎﺯ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﺍﻥ‘ ﺩﺭﮔﺎﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ‘ ﺫﮐﺮ ﺍﺫﮐﺎﺭ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﻭﺭ ﺧﺎﻧﮧ ﮐﻌﺒﮧ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺠﺪ ﻧﺒﻮﯼ ﻣﯿﮟ ﮔﮍ ﮔﮍﺍ
ﮐﺮ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ؟ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮭﺮ ﮐﺮ‘
ﺑﮭﺮﺍﺋﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﺎﻟﻖ ‘ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ
ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ؟ ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻝ ﮨﺮ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ ﺍﭨﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺗﺮ ﻟﻮﮒ
ﮔﺴﺘﺎﺧﯽ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﻑ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ‘ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ
ﺳﻮﺍﻝ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ‘ ﺧﻮﺍﺟﮧ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﮯ ﺗﻮ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮈﺭﺗﮯ ﮈﺭﺗﮯ ﯾﮧ ﺳﻮﺍﻝ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺎ۔
ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﭼﮩﺮﮮ ﮐﻮ ﺩﯾﺮ ﺗﮏ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺭﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ
ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ’’ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺳﺴﭩﻢ ﺩﻭ ﺣﺼﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮨﮯ‘ ﺍﯾﮏ ﺣﺼﮧ ﻓﺎﺋﻨﻞ
ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺣﺼﮧ ﺁﭘﺸﻨﻞ‘ ﻓﺎﺋﻨﻞ ﺳﺐ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺸﺘﺮﮐﮧ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻣﺜﻼً
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﮨﺮ ﺫﯼ ﺭﻭﺡ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﺗﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ‘ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﮨﺮ ﺍﻧﺴﺎﻥ
ﮐﻮ ﮨﻮﺍ ‘ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ ‘ ﮔﺮﻣﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﺮﺩﯼ ﻧﺒﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ
ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﭘﺘﮭﺮ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﺟﺴﺪ ﺍﻃﮩﺮ
ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻟﮕﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺧﻮﻥ ﺑﮩﮯ ﮔﺎ‘ ﭘﺘﮭﺮ ﻟﮕﮯ ﺗﻮ ﺩﻧﺪﺍﻥ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺷﮩﯿﺪ
ﮨﻮﮞ ﮔﮯ‘ ﻏﻢ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮ ﮔﺎ‘
ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﮈﺭ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﻑ ﮐﺎ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﻮ
ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﻟﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﮑﻤﻞ ﺭﮨﺎﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎ ﺳﮑﮯ ﮔﺎ‘ ﺩﺭﺟﮧ ﺣﺮﺍﺭﺕ
ﭘﭽﺎﺱ ﺳﯿﻨﭩﯽ ﮔﺮﯾﮉ ﺳﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﮨﺮ ﺟﺎﻧﺪﺍﺭ ﮐﯽ ﺳﺮﻭﺍﺋﯿﻮﻝ
ﺧﻄﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﮍ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ‘ ﭘﺎﻧﯽ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺒﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ‘
ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺒﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ‘ ﺁﮐﺴﯿﺠﻦ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﮭﯽ
ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺒﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮨﻢ ﺳﺐ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﭼﺎﮨﯿﮯ
ﺍﻭﺭ ﻧﺒﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ‘ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﺳﺴﭩﻢ ﻣﯿﮟ ﻣﺸﺮﻕ‘ ﻣﺸﺮﻕ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ
ﻣﻐﺮﺏ‘ ﻣﻐﺮﺏ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﯾﮧ ﺳﺴﭩﻢ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺗﺒﺪﯾﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﺎ‘
ﮨﻢ ﺳﺐ ﺍﺱ ﺳﺴﭩﻢ ﮐﻮ ﻓﺎﺋﻨﻞ ﺟﺎﻥ ﮐﺮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﻤﺠﮭﻮﺗﮯ ﭘﺮ
ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺐ ﮐﮧ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺣﺼﮧ ﺁﭘﺸﻨﻞ ﮨﮯ‘ ﯾﮧ ﺣﺼﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ
ﮐﯽ ﻧﻮﺍﺯﺷﺎﺕ ﭘﺮ ﻣﺒﻨﯽ ﮨﮯ۔
ﺍﻟﻠﮧ ﺭﺯﻕ ﮨﺮ ﺟﺎﻧﺪﺍﺭ ﮐﻮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ۔ﯾﮧ ﻓﺎﺋﻨﻞ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﺭﺯﻕ ﮐﯽ ﮐﻮﺍﻟﭩﯽ
ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺍﻧﭩﭩﯽ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﮔﯽ‘ ﯾﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺧﺼﻮﺻﯽ ﻧﻮﺍﺯﺵ ﻣﯿﮟ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ‘ ﺍﯾﮏ
ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮔﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﺮ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﺮﺑﻮﺯ ﺗﻮﮌﺗﺎ ﮨﮯ
ﺍﻭﺭﺧﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﮧ ﮈﺍﻝ ﮐﺮﺗﺮﺑﻮﺯ ﮐﮭﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ‘ ﯾﮧ ﺭﺯﻕ ﮨﮯ‘ ﺩﻭﺳﺮﮮ
ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﻓﺎﺋﯿﻮ ﺍﺳﭩﺎﺭ ﮨﻮﭨﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻭﺭﺩﯼ ﺑﯿﺮﺍ‘ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺷﺎﻧﺪﺍﺭ ﻣﺎﺣﻮﻝ
ﻣﯿﮟ‘ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﮈﺍﺋﻨﻨﮓ ﭨﯿﺒﻞ ﭘﺮ ﺍﻭﺭ ﭼﻤﮑﺘﯽ ﺳﻔﯿﺪ ﭘﻠﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺗﺮﺑﻮﺯ
ﭘﯿﺶ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻓﺮﺍﻧﺲ ﮐﮯ ﮐﺎﻧﭩﮯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﺮﺑﻮﺯ ﮐﯽ ﻗﺎﺷﯿﮟ ﮐﮭﺎﺗﺎ
ﮨﮯ‘ ﯾﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽ ‘ ﯾﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻮﺍﺯﺵ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ‘ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ
ﺑﺪﻥ ﭘﺮ ﭼﯿﺘﮭﮍﮮ ﻟﭙﯿﭧ ﮐﺮ ﮔﺎﺅﮞ ﮐﮯ ﺟﻮﮨﮍ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﮯ
ﺑﺎﮨﺮﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺟﺴﻢ ﭘﺮ ﻏﻼﻇﺖ ﻟﮕﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻓﺎﺋﯿﻮ
ﺍﺳﭩﺎﺭ ﮨﻮﭨﻞ ﮐﮯ ﺳﻮﺋﻤﻨﮓ ﭘﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﺻﺎﻑ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﻏﻮﻃﮧ ﺯﻧﯽ ﮐﺮﺗﺎ
ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺟﺐ ﭘﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﮔﺮﻡ ﺗﻮﻟﯿﮧ ﺍﻭﺭ ﺳﻔﯿﺪ
ﮔﺎﺅﻥ ﭘﯿﺶ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ‘ ﯾﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻧﻮﺍﺯﺵ‘ ﯾﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽ ﮨﻮﺗﯽ
ﮨﮯ‘ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺭﺯﻕ ‘ ﺩﻭﻟﺖ ﺍﻭﺭ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﺭ ﺩﺭ ﺑﮭﯿﮏ ﻣﺎﻧﮕﺘﺎ
ﮨﮯ ﺟﺐ ﮐﮧ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺷﺨﺺ ﮐﺎﻏﺬ ﭘﺮ ﺩﺳﺘﺨﻂ ﮐﺮ ﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﺭﺟﻨﻮﮞ
ﻏﺮﯾﺐ ﺍﻣﯿﺮ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ‘ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ
ﮐﮭﻞ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ‘ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﭼﻤﮏ ﺍﭨﮭﺘﯽ ﮨﮯ‘ ﯾﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ
ﺧﺼﻮﺻﯽ ﻧﻮﺍﺯﺵ‘ ﺧﺼﻮﺻﯽ ﮐﺮﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ‘ ﮨﻢ ﺳﺐ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ‘
ﮨﻤﯿﮟ ﭼﻮﭦ ﻟﮕﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻟﻮﮒ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﺠﮫ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﮨﻢ
ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ ﺟﻠﺪ ﺻﺤﺖ ﯾﺎﺏ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ‘ ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ
ﺩﺭﺩ ﺟﻠﺪ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﺑﮩﺖ ﺟﻠﺪ ﺣﻞ
ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ‘ ﮐﯿﻮﮞ؟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﻥ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺧﺼﻮﺻﯽ ﮐﺮﻡ‘ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ
ﺧﺼﻮﺻﯽ ﻧﻮﺍﺯﺵ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ‘ ﯾﮧ ﺁﭘﺸﻨﻞ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺁﭘﺸﻦ
ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻭ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﻭﺿﻊ ﮐﯿﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ ‘‘ ﻭﮦ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ۔
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ’’ ﻭﮦ ﻃﺮﯾﻘﮯ ﮐﯿﺎ ﮨﯿﮟ؟ ‘‘
ﺧﻮﺍﺟﮧ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ’’ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﭘﺮ ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ
ﺣﻀﻮﺭ ﺩﻋﺎ ‘‘
ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ‘
ﻭﮦ ﺑﻮﻟﮯ ’’ ﺁﭖ ﺍﮔﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﮯ ﻧﺎﺩﺍﺭ ﺑﻨﺪﻭﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ‘ ﺁﭖ ﺍﻥ
ﮐﯽ ﻣﺸﮑﻠﯿﮟ ﺁﺳﺎﻥ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﮐﮯ ﺩﮐﮫ ﺩﺭﺩ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﺁ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺁﭖ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﻮﺍﺯﺷﺎﺕ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ
ﮐﺎ ﺗﻌﻠﻖ ﺧﻮﺍﮦ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﺬﮨﺐ ‘ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻃﺒﻘﮯ‘ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﮔﮭﺮﺍﻧﮯ
ﺳﮯ ﮨﻮ ﺁﭖ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺣﻖ ﺩﺍﺭ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ‘ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﻧﻌﻤﺘﯿﮟ ﺩﺳﺘﯿﺎﺏ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﯿﮟ‘ ﺁﭖ ﺍﺱ ﻣﻌﺎﻣﻠﮯ ﻣﯿﮟ
ﯾﻮﺭﭖ ﺍﻭﺭ ﺍﻣﺮﯾﮑﺎ ﮐﮯ ﺍﺭﺏ ﭘﺘﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﻟﮯ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ‘ ﺑﻞ ﮔﯿﭩﺲ
ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﮐﺮﻡ ﮨﮯ‘ ﮐﯿﻮﮞ؟ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﻮ ﺁﺳﺎﻥ
ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺎ‘ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﭘﺮﺳﻨﻞ ﮐﻤﭙﯿﻮﭨﺮ ﺩﮮ ﺩﯾﺎ ‘ ﯾﮧ ﭘﻮﻟﯿﻮ ﮐﯽ
ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ ﺑﻨﻮﺍ ﮐﺮ ﭘﻮﺭﯼ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﻣﻔﺖ ﻓﺮﺍﮨﻢ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ‘ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻥ ﺍﻭﺭ
ﺍﻓﻐﺎﻧﺴﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺑﻞ ﮔﯿﭩﺲ ﮐﯽ ﻋﻄﯿﮧ ﮐﺮﺩﮦ ﻭﯾﮑﺴﯿﻦ
ﭘﻼﺋﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ‘ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﻧﺴﺎﻧﯿﺖ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺑﺪﻟﮯ ﻣﯿﮟ
ﺑﻞ ﮔﯿﭩﺲ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﻮﺍﺯﺷﺎﺕ ﮐﮯ ﮔﯿﭩﺲ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﯾﮯ‘ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻃﺮﯾﻘﮧ
ﺩﻋﺎ ﮨﮯ ‘ ﮨﻢ ﻟﻮﮒ ﺟﺐ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﺎﻟﻖ ﺳﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ‘ ﺭﺯﻕ‘ ﻏﺮﺑﺖ‘ ﺻﺤﺖ‘
ﺳﮑﻮﻥ ‘ ﺷﮩﺮﺕ ﺍﻭﺭ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺧﻮﺵ
ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﻮﺍﺯﺷﺎﺕ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﮐﮭﻮﻝ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ‘ ﮨﻢ ﺍﮔﺮ
ﺍﺱ ﮐﺎ ﺭﺣﻢ‘ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮐﺮﻡ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺎﻧﮕﻨﺎ ﮨﻮ
ﮔﺎ‘ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻃﻠﺐ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﮔﺎ ‘‘
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ’’ ﮐﯿﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮐﯽ ﻧﻮﺍﺯﺷﺎﺕ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﻣﮑﻤﻞ
ﺑﻨﺪ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺟﺐ ﻣﺎﻧﮕﺘﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﻠﺘﮯ؟ ‘‘
ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ’’ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﮐﯽ ﮐﻢ ﺗﺮﯾﻦ
ﺿﺮﻭﺭﯾﺎﺕ ﻃﮯ ﮐﺮ ﺭﮐﮭﯽ ﮨﯿﮟ ‘ ﯾﮧ ﭘﺘﮭﺮ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﮐﯿﮍﮮ ﮐﻮ ﮨﻮﺍ‘ ﭘﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ
ﺧﻮﺭﺍﮎ ﭘﮩﻨﭽﺎﺗﺎ ﮨﮯ ‘ ﯾﮧ ﺭﯾﺸﻢ ﮐﮯ ﮐﯿﮍﮮ ﮐﻮ ’’ﮐﻮ ﮐﻮﻥ‘‘ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ
ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺭﺯﻕ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ‘ ﯾﮧ ﺁﮒ ﮐﮯ ﮐﯿﮍﻭﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺧﻮﺭﺍﮎ
ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺳﻤﻨﺪﺭ ﮐﯽ ﺗﮩﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻗﯿﺪ ﻣﯿﻞ ﻣﯿﻞ ﻟﻤﺒﯽ
ﻣﭽﮭﻠﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺭﺯﻕ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﯾﮧ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻧﻮﺍﺯﺵ ﮐﮯ
ﺑﻐﯿﺮ ﺳﻄﺢ ﺁﺏ ﭘﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺳﮑﺘﯽ‘ ﺭﯾﺸﻢ ﮐﺎ ﮐﯿﮍﺍ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽ ﮨﯽ
ﺳﮯ ’’ﮐﻮ ﮐﻮﻥ ‘‘ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺟﮭﺎﻧﮏ ﺳﮑﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﮒ ﺍﻭﺭ ﭘﺘﮭﺮ ﮐﮯ ﮐﯿﮍﻭﮞ
ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻮﺍﺯﺵ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﮨﯽ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻣﻠﮯ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﯾﮧ ﻣﺮﺣﻠﮧ ﺻﺪﻗﮯ ﺍﻭﺭ ﺩﻋﺎ ﺳﮯ ﻃﮯ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ‘ ﺻﺪﻗﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ
ﺭﺿﺎ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺨﻠﻮﻕ ﭘﺮ ﻣﮩﺮﺑﺎﻧﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﺐ ﮐﮧ ﺩﻋﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ
ﻣﺎﻧﮕﻨﺎ‘ ﺍﻟﻠﮧ ﺳﮯ ﻃﻠﺐ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ‘‘
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ’’ ﺣﻀﻮﺭ ﺩﻣﺎﻍ ﮐﯽ ﺍﺑﮭﯽ ﺳﺎﺭﯼ ﮔﺮﮨﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ
ﮐﮭﻠﯿﮟ ‘‘
ﺧﻮﺍﺟﮧ ﺻﺎﺣﺐ ﻧﮯ ﻗﮩﻘﮩﮧ ﻟﮕﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻟﮯ ’’ ﮨﻢ ﻟﻮﮒ ﺟﺐ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺗﮯ
ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﻮﺍﺯﺷﺎﺕ ﮐﯽ ﭼﯿﮏ ﺑﮏ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﭼﯿﮏ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ‘ ﺍﺱ ﭼﯿﮏ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻣﻨﻈﻮﺭﯼ ﮐﯽ ﻣﮩﺮ
ﻟﮕﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺑﺲ ﺍﻣﺎﺅﻧﭧ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﮈ ﺁﻑ ﭘﮯ ﻣﻨﭧ ﮐﺎ ﺧﺎﻧﮧ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﻮﺗﺎ
ﮨﮯ‘ ﺍﻣﺎﺅﻧﭧ ﺍﻭﺭ ﻣﻮﮈ ﺁﻑ ﭘﮯ ﻣﻨﭧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺳﮯ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﺗﯽ
ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺟﻮﮞ ﺟﻮﮞ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺎﻧﮕﺘﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺍﻣﺎﺅﻧﭧ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ
ﭘﺮ ﮨﻨﺪﺳﮯ ﺑﮍﮬﺎﺗﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﭼﯿﮏ ﮐﯿﺶ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﺁ ﺟﺎﺗﺎ
ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﻧﮩﺎﻝ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ‘‘
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ’’ ﻣﮕﺮ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﮨﺮ ﺩﻋﺎ ﻗﺒﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ‘‘
ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ’’ ﺩ ﻋﺎﺋﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺩﻭ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ‘ ﺍﯾﮏ ﻭﮦ ﺟﻦ
ﮐﮯ ﮨﻢ ﺍﮨﻞ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻭﮦ ﺟﻦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮨﻢ ﮐﻮﺍﻟﯽ ﻓﺎﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ‘
ﻣﺜﻼً ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﺱ ﻭﮨﯽ ﮨﻮ ﮔﺎ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ ﺩﯾﺎ ﮨﻮﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻻﺩ
ﺍﺳﮯ ﮨﯽ ﻣﻠﮯ ﮔﯽ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﯽ ﮨﻮﮔﯽ‘ ﮨﻢ ﺍﮔﺮ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ ﺩﯾﮯ ﺑﻐﯿﺮ
ﭘﺎﺱ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﺩﻋﺎ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﯾﮧ ﺩﻋﺎ ﻗﺒﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﯽ
ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮨﻢ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﻮﺍﻟﯽ ﻓﺎﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻢ ﺍﮔﺮ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﮐﮯ
ﻟﯿﮯ ﮐﻮﺍﻟﯽ ﻓﺎﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﺩﻋﺎ ﮐﯽ ﻗﺒﻮﻟﯿﺖ ﺗﮭﻮﮌﮮ
ﻋﺮﺻﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺆﺧﺮ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ‘ ﯾﮧ ﮨﻤﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﻨﮯ
ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﭘﺎﺱ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﯾﮧ ﻣﻤﮑﻦ
ﻧﮧ ﮨﻮ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ‘ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻧﺴﻞ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺳﮯ ﺍﯾﺴﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﺨﺎﺏ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺩﻋﺎﺅﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﻮﺍﻟﯽ
ﻓﺎﺋﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ‘ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺩﻋﺎﺅﮞ ﮐﮯ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﻣﯿﮟ
ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﻮﮞ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺩﻋﺎﺅﮞ ﮐﺎ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﺍﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﮨﻢ
ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ‘ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺩﻋﺎﺅﮞ ﮐﺎ ﭼﯿﮏ ﺑﻌﺾ ﺍﻭﻗﺎﺕ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺍﻭﻻﺩ
ﺑﮭﯽ ﮐﯿﺶ ﮐﺮﺍ ﻟﯿﺘﯽ ﮨﮯ‘ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺳﻦ ﻟﯿﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺍﻭﻻﺩ
ﮐﻮ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺩﻋﺎﺅﮞ ﮐﮯ ﻧﺘﺎﺋﺞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﻮﺍﻟﯽ ﻓﺎﺋﯽ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﻮﮞ ﮨﻢ
ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﻮ ﺧﻮﺵ ﺣﺎﻝ‘ ﺑﺎﻋﺰﺕ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺧﺘﯿﺎﺭ ﮨﻮﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ‘‘
 

قیصرانی

لائبریرین
اچھا لکھا، لیکن چند باتوں سے اختلاف ہے، جیسا کہ شادی اور اولاد کو لازم و ملزوم قرار دینا، اسلامی معاشرے کی ایک شرط کہہ لیجئے لیکن یہ عمومی نہیں ہے۔ بل گیٹس پر نوازشات کے دروازے کھلنے کی وجہ یہ نہیں جو بتائی گئی ہے بلکہ انتہائی امیر ہونے کے بعد بل گیٹس نے یہ کام شروع کئے ہیں۔ اس کے امیر ہونے کے پیچھے کافی کالے راز ہیں :)
میل میل لمبی مچھلی کون سی ہے بھلا؟ اس پر روشنی ڈالئے گا :)
اس کے علاوہ اس بات پر بھی کوئی روشنی نہیں ڈالی گئی کہ مغربی معاشرے یا ترقی یافتہ ممالک کے عوام کا معیارِ زندگی ہمارے ترقی پذیر ممالک کے امیروں سے بھی زیادہ بلند ہوتا ہے؟ حالانکہ وہ دعا پر بھی یقین نہیں رکھتے؟ :)
 
Top