روحانی اقوال

ہرذرہ سے ایک سورج ظاہر ہورہا ہے۔ اگر تم بنظر تحقیق دیکھو تو دریا کی موج اور حباب بھی دریا ہی ہے اگر تو اپنی ہستی ہیکل جسمے انسانی کا طلسم اپنی خودی کے گرز سے توڑ دے تو تجھے ایسا خزانہ حاصل ہوگا جس کی نہ کوئی حد ہے اور نہ کوئی حساب۔ اگر تو مثل محمود اپنی ہستی سومنات کو خودی کے گرز سے توڑ دے تو من عرف نفسہ فقد عرب ربہ کے مصداق تو نے اپنی شناخت کو پالیا تو گویا تونے پورے عالم کو فتح کرلیا۔
کھلے جاتے ہیں اسرار نہانی
گیا دور حدیث لن ترانی
ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار
وہی مہدی ، وہی آخر زمانی
 

Saif ullah

محفلین
ہرذرہ سے ایک سورج ظاہر ہورہا ہے۔ اگر تم بنظر تحقیق دیکھو تو دریا کی موج اور حباب بھی دریا ہی ہے اگر تو اپنی ہستی ہیکل جسمے انسانی کا طلسم اپنی خودی کے گرز سے توڑ دے تو تجھے ایسا خزانہ حاصل ہوگا جس کی نہ کوئی حد ہے اور نہ کوئی حساب۔ اگر تو مثل محمود اپنی ہستی سومنات کو خودی کے گرز سے توڑ دے تو من عرف نفسہ فقد عرب ربہ کے مصداق تو نے اپنی شناخت کو پالیا تو گویا تونے پورے عالم کو فتح کرلیا۔
کھلے جاتے ہیں اسرار نہانی
گیا دور حدیث لن ترانی
ہوئی جس کی خودی پہلے نمودار
وہی مہدی ، وہی آخر زمانی
لا جواب
 
جبریل اور روحوں کا قبلہ سدرہ ہے..
پیٹ کے بندوں کا قبلہ دسترخواں ہے..
عارف کا قبلہ وصال کا نور ہے.. فلسفی کی عقل کا قبلہ وہم ہے.. زاہد کا قبلہ مُحسن خدا ہے.. لالچی کا قبلہ سونے کی تھیلی ہے..
مردان خدا کا قبلہ نیک اعمال ہے..
نااہل کا قبلہ ذلیل جہل ہے..
اہل باطن کا قبلہ، صبر اور سکون ہے..
ظاہر پرستوں کا قبلہ پتھر کا نقش ہے..
خلوت گزینوں کا قبلہ خدا ہے.. ظاہر پرستوں کا قبلہ عورت کا چہرا ہے..
اے بیٹا...!
عاشق خدا کا قبلہ خدا ہے..
باطل کا قبلہ شیطان ہے..
فرعوں کا قبلہ سراسر نیل ہے..
جس کا جو قبلہ وہ اسی کی طرف دوڑتا ہے
حضرت مولانا جلال الدین رحمۃ اللہ علیہ
 

Saif ullah

محفلین
جبریل اور روحوں کا قبلہ سدرہ ہے..
پیٹ کے بندوں کا قبلہ دسترخواں ہے..
عارف کا قبلہ وصال کا نور ہے.. فلسفی کی عقل کا قبلہ وہم ہے.. زاہد کا قبلہ مُحسن خدا ہے.. لالچی کا قبلہ سونے کی تھیلی ہے..
مردان خدا کا قبلہ نیک اعمال ہے..
نااہل کا قبلہ ذلیل جہل ہے..
اہل باطن کا قبلہ، صبر اور سکون ہے..
ظاہر پرستوں کا قبلہ پتھر کا نقش ہے..
خلوت گزینوں کا قبلہ خدا ہے.. ظاہر پرستوں کا قبلہ عورت کا چہرا ہے..
اے بیٹا...!
عاشق خدا کا قبلہ خدا ہے..
باطل کا قبلہ شیطان ہے..
فرعوں کا قبلہ سراسر نیل ہے..
جس کا جو قبلہ وہ اسی کی طرف دوڑتا ہے
حضرت مولانا جلال الدین رحمۃ اللہ علیہ
کمال
 

Saif ullah

محفلین
واہ واہ وحدت کیتا شور
انحد بانسری دی گھنگھور
اساں ہن پایا تخت لاہور

ماہی نہیں کوئی نور الٰہی
انحد دی جس مرلی واہی
مٹھیوس ہیر سیال
ڈاڈھے کامن پا کے

جاں پیا دیاں خبراں پئیاں
منطق نحو سبھے بھل گئیاں
اس انحد تار وجائے
روزے حج نماز نی مائے
مینوں پیا نے آن بھلائے

بلھے شاہؒ:

امیر خسرو کلام :
انہد باجے باجن لاگے۔ چھوڑ نگر سبھ بھاگن لاگے
گورو نجام کی پڑی دوہائی۔ خسرو نے یہ میگھ رچائی
 

Saif ullah

محفلین
جو کلھ کرنا کر اج کڑے،
ہور چھڈ دے سارے پجّ کڑے ۔

سمن بکمن امین رہیئے،
دل اپنے ول منہ کر بہیئے،
فیدا کی ہے پاہیا گجّ کڑے،
ہور چھڈ دے سارے پجّ کڑے ۔

تیری عمر مسافراں رین کڑے،
توں کیوں بیٹھی کرکے چین کڑے،
کجھ کر تاہی رہسی لج کڑے،
ہور چھڈ دے سارے پجّ کڑے ۔

گھر وچ ویکھ پیارے تائیں،
ظاہر باطن جہڑا سائیں،
کر کر درشن رجّ کڑے،
ہور چھڈ دے سارے پجّ کڑے ۔

وافیئنسکم حکم خدا،
اوہ پیارا ن اک دم ہووے جدا،
توں راہ اولے نہ بھجّ کڑے،
ہور چھڈ دے سارے پجّ کڑے ۔

لے غلام جیلانی توں مت کڑے،
نی توں گھر بہہ آپ کت کڑے،
تیرا دم دم ہووے حج کڑے،
ہور چھڈ دے سارے پجّ کڑے ۔
 

اکمل زیدی

محفلین
تقویٰ کیا ہے ؟؟...تمھارے اعمال ایک تھالی میں رکھ کر سر بازار گھمایا جائے اور تمہیں اس نمائش میں شرم محسوس نہ ہو ...( مولا علی)
 
حضرت علی : سخاوت کیا ہے؟
حضرت حسن : فراخی اورتنگ دستی دونوں حالتوں میں خرچ کرنا
حضرت علی : کمینگی کیا ہے؟
حضرت حسن : مال کو بچانے کے لئے عزت گنوابیٹھنا
حضرت علی : بزدلی کیا ہے؟
حضرت حسن : دوست کو بہادری دکھانا اوردشمن سے ڈرتے رہنا
حضرت علی : مالداری کیا ہے؟
حضرت حسن : اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر راضی رہنا،خواہ مال تھوڑا ہی کیوں نہ ہو
حضرت علی : بردباری کیا ہے؟
حضرت حسن : غصے کو پی جانا اورنفس پر قابورکھنا
حضرت علی : بے وقوفی کیا ہے؟
حضرت حسن : عزت دارلوگوں سے جھگڑا کرنا
حضرت علی : ذلت کیا ہے؟
حضرت حسن : مصیبت کے وقت جزع فزع کرنا
حضرت علی : تکلیف دہ چیز کیاہے؟
حضرت حسن : لایعنی اورفضول کلام میں مشغول ہونا
حضرت علی : بزرگی کیا ہے؟
حضرت حسن : لوگوں کے جرمانے ادا کرنا اورجرم کو معاف کرنا
حضرت علی : سرداری کس چیز کا نام ہے؟
حضرت حسن : اچھے کام کرنا اوربرے امور ترک کردینا
حضرت علی : نادانی کیا ہے؟
حضرت حسن : کمینے لوگوں کی اتباع کرنا اورسرکش لوگوں سے محبت کرنا
حضرت علی : غفلت کیا ہے؟
حضرت حسن : مسجد سے تعلق ختم کرلینا اوراہل فساد کی اطاعت کرنا
(حلیۃ الأولیاء:۲/۳۶، المعجم الکبیر:۳/۶۸)
 
واہ واہ وحدت کیتا شور
انحد بانسری دی گھنگھور
اساں ہن پایا تخت لاہور

ماہی نہیں کوئی نور الٰہی
انحد دی جس مرلی واہی
مٹھیوس ہیر سیال
ڈاڈھے کامن پا کے

جاں پیا دیاں خبراں پئیاں
منطق نحو سبھے بھل گئیاں
اس انحد تار وجائے
روزے حج نماز نی مائے
مینوں پیا نے آن بھلائے

بلھے شاہؒ:

امیر خسرو کلام :
انہد باجے باجن لاگے۔ چھوڑ نگر سبھ بھاگن لاگے
گورو نجام کی پڑی دوہائی۔ خسرو نے یہ میگھ رچائی
ہندی کے دو چشمی ھ کے ساتھ انھد ہے
انھد ہندی زبان کا شبد ہے اس کو اردو یا فارسی میں صوت سرمدی کہتے ہیں اور عربی تصوف میں اس کا نام صلصلۃ الجرس ہے ۔
 

Saif ullah

محفلین

دیارِ یار میں سَر کو جھکائے بیٹھے ہیں
کرم کی آس صنم سے لگائے بیٹھے ہیں

سنا ہے دید کی دولت اُنہیں ہُوئی حاصل
جو تیری راہ میں سب کچھ لٹائے بیٹھے ہیں

نہیں ہے دوسرا کوئی خیال میں میرے
حضور آپ میرے دل میں آئے بیٹھے ہیں


ہمیں بھی ناز ہے محبوب کی عنایت پر
اِسی اُمّید میں دامن بِچھائے بیٹھے ہیں


کرم کی ایک نظر جِس پہ ڈال دی تم نے
وہ آج سارے زمانے پہ چھائے بیٹھے ہیں
 

Saif ullah

محفلین
یہ کیا کیا مجھے اپنا بنا کے چھوڑ دیا
ذرا سا چہرے سے پردہ ہٹا کے چھوڑ دیا
جزانواز نے سب کے تو ہاتھ تھام لیے
ہمارا دست طلب مسکرا کے چھوڑ دیا
 

Saif ullah

محفلین
جلوہ بہ قدر ظرف نظر دیکھتے رہے
کیا دیکھتے ہم ان کو مگر دیکھتے رہے

اپنا ہی عکس پیش نظر دیکھتے رہے
آئینہ رو برو تھا جدھر دیکھتے رہے

ان کی حریم ناز کہاں اور ہم کہاں
نقش و نگار پردہ ء در دیکھتے رہے

ایسی بھی کچھ فراق کی راتیں گزر گئیں
جیسے انہی کو پیش نظر دیکھتے رہے

ہر لحظہ شان حسن بدلتی رہی جگر
ہر آن ہم جہانِ دِگر دیکھتے رہے
 
جو کلھ کرنا کر اج کڑے،
ہور چھڈ دے سارے پجّ کڑے ۔

سمن بکمن امین رہیئے،
دل اپنے ول منہ کر بہیئے،
فیدا کی ہے پاہیا گجّ کڑے،
ہور چھڈ دے سارے پجّ کڑے ۔

تیری عمر مسافراں رین کڑے،
توں کیوں بیٹھی کرکے چین کڑے،
کجھ کر تاہی رہسی لج کڑے،
ہور چھڈ دے سارے پجّ کڑے ۔

گھر وچ ویکھ پیارے تائیں،
ظاہر باطن جہڑا سائیں،
کر کر درشن رجّ کڑے،
ہور چھڈ دے سارے پجّ کڑے ۔

وافیئنسکم حکم خدا،
اوہ پیارا ن اک دم ہووے جدا،
توں راہ اولے نہ بھجّ کڑے،
ہور چھڈ دے سارے پجّ کڑے ۔

لے غلام جیلانی توں مت کڑے،
نی توں گھر بہہ آپ کت کڑے،
تیرا دم دم ہووے حج کڑے،
ہور چھڈ دے سارے پجّ کڑے ۔
یہ جوگ ساگر والے غلام جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں
 
دوستو محبت ایک ایسا جذبہ ہے کہ اور ایک ایسی کیفیت کا نام ہے کہ جس نے اس لطف کا مزہ چکھ لیا درس و تدریس اور تعلیم و تعلم سے ماورا ہوجاتا ہے نہ اسے غرض دنیوی رہتی ہے اور نہ فکر عاقبت غرض ہر کام سے فارغ کردینا ہی محبت کا ثمر بارآؤر ہے۔
جس کی گلے میں محبت کی مالا لپیٹ دی گئی اسے تسبیح و مصلیٰ سے کیا سروکار۔

دوستو!
اگر اصل زندگی اور اس عیش و سکون چاہتے ہوتو صدق دل سے عشق کے راستے پر چلیں اور فارمولے کے مطابق چلیں یعنی اس شارع پر جو عام نہیں ہے دوران سفر اپنی ظاہری ذات جو آپ نے اپنے قلب و دماغ پر طاری کرکھی ہے اس سے نجات حاصل کر کے چلیں تو کامیابی آپ کے قدم چوم لے گی۔
اپنی چشم ظاہراور باطنی بصیرت کی عین سے زماں و مکاں (ٹائم اینڈ سپیس) کو مراۃ تصور کریں اور پھر جو معانی ظاہر ہوں ان پر غور کریں یہان تک کہ ماسوا کے کچھ نظر نہ آوے تو جان لے کہ تیرا وہم کافر باطل ہوگیا ہے اور تجھے اپنے نفس میں ہی محبوب کا قرب حاصل ہوگیا ہے۔
اے سالک!
جب حق الیقین سے تجھ پر یہ بات ثابت ہوگئی کہ
عدم اصلی مؤجود ہی نہیں
غیر و سوا کچھ مؤجود ہی نہین
تو پھر کون ان صورتوں اور معانی مین ظاہر ہورہا ہے اس امر پرتفکر سے فکر کر۔ جب عیان ثابتہ علمی صورت ہے اوراعیان خارجہ کا نورہر صفت میں عین ذات ہے جو ذات باطن مین نہاں ہے جہان ہر عقل و ادراک عاجز ہے وہی ذات ظاپر مین ہرصورت میں جلوہ گری کررہی ہے جب ذات واحد کے بھید سے واقفیت حاصل ہوجاتی ہے توپھر نفی اثبات کرنے کی حاجت نہین رہتی ہے۔
 
https://scontent-kul1-1.xx.fbcdn.ne...=417386ae070b88616488ce59fe4db5f4&oe=56AE70BF
الف قائم بالذات اور ایسا حرف ہے جو اگر کسی حرف کے شروع میں واقع ہو تو الگ رہتا ہے اور انفرادی حیثیت قائم رکھتا ہے کسی مابعد سے تعلق نہیں رکھتا لہٰذا یہ ذات مطلق کی صفت ہے کہ انفرادیت اور قائم بالذات ناقابل رسائی اور انبیاءو رسل اولیاءمقربین کو بھی اس کے عرفان میں سوائے حیرت کے کچھ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ یہ حرف جب کسی لفظ کے اول واقع ہوتا ہے تو اپنی ذات کو اپنے متعلقہ لفظ سے الگ رکھتا ہے اور یہ قطب الحروف ہے لیکن جب یہ حرف کسی لفظ کے آخر میں واقع ہوتا ہے تو باقی حروف سے متصل ہوتا ہے اور الگ نہیں لکھا جاسکتا اور ہر لفظ اس پر آکر ختم ہوجاتا ہے یہ حرف یا تو اول لکھا جاسکتا ہے اور اگر وسط میں لکھا جائے تو پھر بھی اپنی انفرادیت کو کھوتا نہیں سوائے اشارہ کے اور اس میں بھی اپنی انفرادی شان سے نمایاں ہوتا ہے اس حرف کا عدد از روئے بداع ایک (1)ہے جو اس کا ہمشکل ہے اور عربی میں ایک کو ” احد “ کہا جاتا ہے اور یہ اسمِ ذات ہے ۔معلوم ہوا ذات احد اول و آخر موجود ہے ۔ہر شئے کے اول میں ذات مطلق کی شان سے اور ہر تعین اور تعلق سے پاک اور اشارہ و کنایہ کی اس میں گنجائش نہیں ہے ” الم “ میں اسی احدیت التنزیہہ الخاص کی طرف اشارہ ہے مگر مخفی طور پر اپنے وصفِ باطن کو بھی بیان کررہا ہے کہ اگر الف اول ہے تو آخر بھی ہوگا اگر آخر ہوگا تو وہ کسی لفظ کی کنہ میں واقع ہوکر اس کی آخریت کا مظہر ہوگا اور اس کی ذات سے اس قدر قریب کہ اس کو گمان ہوگا کہ یہ میری ہی ذات ہے کیونکہ جب یہ آخر واقع ہوتا ہے تو متصل ہوجاتا ہے لہٰذا احد اول و آخر کے اوصاف کے ساتھ متصل و منفصل ذات کا حکم رکھتا ہے یہ ذات کا ذاتی مشہد ہے اور قرآن سے مراد ذات ہے اور احدیت اس کا پہلا مشہد ہے ہم اسی مشہد ِ احدیت کو اولیت و آخریت ذات انفصال و اتصال کے رنگ میں بیان کرآئے ہیں کسی ذات کی کنہ سے مراد اس کی احدیت ہے جو ہر ذات میں اجمال و تفصیل کے ساتھ موجود ہے پھر یہ حروف صورتاً و روحاً تمام حروف کی اصل ہے۔
وہ اس طرح کہ صورت میں ہر حرف یا تو خط پر مشتمل ہوتا ہے یا نقطہ پر اب اس حروف کو جب لکھنے کے لیئے یا کسی بھی حرف کو لکھنے کے لیئے جب قلم کوکاغذ پر رکھا جاتا ہے تو نقطہ ظہور میں آتا ہے پھر اسی نقطہ کو پھیلا کر ہم ایک خط سیدھا یا مخصوص وضع کا بنا دیتے ہیں تو معلوم ہوا کہ نقطہ اول ہے اور خط اسی کا پھیلاؤہے ۔
گویا نقطہ میں خط مخفی ہے اب کسی بھی حرف کے بَل اگر نکال دیئے جائیں تو وہ الف بن جائے گا اور نقطہ چونکہ خط کی اصل ہے اس لیئے اُسے خط کے ساتھ یکجان کردیا جائے گا لہٰذا صورتاً ہر حرف الف سے صورت میں آیا ہے اور روحاً اس طرح کہ علمائے ابجد کے نزدیک کسی حرف کے اعداد اس کی روح ہوتے ہیں اور اعداد سے حروف اورحروف سے اعداد ہم آہنگ ہیں ابجد کی رُو سے الف کے اعداد(111)ہیں ان کے حروف احاد عشرات میآت (اکائی دھائی سینکڑہ) کے حساب سے بنائے تو (ای ق)بنے اب ان کو دوگنا کرلیں 111+111=222حروف (ب ک ر)بنے اب ان کو تیسری بار جمع کریں111+111+111=333حروف (ج ل ش)بنے اسی طرح ان کو جمع کرتے جائیں تو پوری ابجد استخراج ہوجائے گی۔معلوم ہوا تمام حروف کی روح میں بھی اسی حرف کی روح کا سریان ہے اور صورت میں بھی اسی حرف کا سریان ہے اس طرح استخراج سے تسعہ(9) مراتب حاصل ہوئے ان حروف کی تعداد (ا ل ف ل ا م م ی م)بھی 9ہی ہے جو عدد کمال ہے اور اعداد کی نہایت اسی عدد تک ہے چونکہ ” الف “ احد ہمشکل ہے عدد ایک کا ،اس سے شمارِ اعدادکیا تو 9پر منتھی ہوا یہ تعدادِ حروف ہے اور احدیت کے کمال کو ظاہر کررہی ہے اور اس عددِ کمال کی یہ خاصیت ہے کہ اگر کوئی عدد (ھستی) اس کے ساتھ ضرب کرے یعنی مخالف ہو جیسے نفرت ،عدم توجہ وغیرہ تو یہ عدد اس (ھستی )عدد کو فنا کردیتا ہے اور اپنی ذات کو قائم رکھتا ہے جیسے کافر شرک وغیرہ لوگ فنا ہوگئے اور ذات باقی ہے۔
اور اگر احدیت کی طرف اپنا قبلہ درست کرے اور جمعیتِ خاطر سے اسکی طرف متوجہ ہو اور محبت رکھے تو یہ ھستی اپنی ذات کو اس کی ھستی میں قائم کردیتی ہے اور اسے بقا سے سرفراز کرتی ہے یعنی اگر عدد 9 کسی عدد میں ضرب کھائے گا تو اس عدد کو فنا کرکے اپنا آپ قائم رکھے گا اور اس عدد کو فنا کردے گا اور اگر کسی کے ساتھ جمع ہوگا تو اپنی ذات اس عدد کی ذات میں گم کردے گا اور یہی کمالِ الٰھی ہے ۔اب ہمارے سامنے تین باتیں آئیں۔
۱۔ مشہدِ ذاتی یعنی احدیت ذات
۲۔ صورت اور معنی کے اندر سریانِ الف دیگر حروفات میں
۳۔ کمال ِ عدد کا اظہار

یہ تو ہوا معرفتی بیان ہوا تھوڑا سا روحانی بیان بھی کرتا چلوں۔
قمر کی پہلی منزل شَرطَین ہے اس میں دو ستارے ہیں ایک جنوب میں کونے پر اور دوسرا شمال میں کونے پر اور یہ دونوںبرج حمل کے سینگ ہیں ان دونوں ستاروں میں زیادہ روشن ناطح ہے اور حرف اسکا الف ہے ستارہ اس کا مریخ ہے جب قمر اس میں آتا ہے تو دنیا میں فساد اور خون کی زیادتی ہوتی ہے بعض لوگ اس میں خواب ہائے پریشان بھی دیکھتے ہیں لہٰذا اس وقت سونا بھی درست نہیں ہے ۔جو بچہ اس میں پیدا ہوتا ہے بڑا فسادی اور شریر ہوتا ہے ۔بخور اس کاسیاہ دانہ اور سیاہ مرچ ہے ۔
روحانی معارف:اسم الٰہی اس منزل کا اسم بدیع ہے اور دنیاوی نام عقل کل ہے ۔اسم بدیع حرف الف کی ایجاد پر متوجہ ہوا جس سے کہ جملہ حروف بنے اور منزل شرطین وجود میں آئی۔
واضح ہو کہ تما م مرتبے الف سے ہی ہیں اور سب حروف الف کے محتاج ہیں اور یہ خود اور حروف سے غنی ہے اور جو حرف الف کے ظاہرو باطن کو پا گیا وہ درجہ صدیقین اور مقربین تک پہنچ گیا ۔

حرف الف کے ۳ ظواہر ہیں عرش و لوح و قلم اور الف مرکب ہے ۳ نقطوں سے اور بواطن اس کے ۵ ہیں باطن اول اس کے ۳ ہیں عقل و روح و نفس اور باطن ثانی اس کا ۰۱۱ہے (یعنی لف کا)جو کہ عدد اسم اعظم ہے کیونکہ علی کے اعداد بھی ۰۱۱ ہیں پس جب ۰۱۱ سے ۱۱ منہا کیئے تو ۹۹ باقی بچے کہ جو ۹۹ اسماءالحسنیٰ کی تعدا د کے برابر ہیں اور باطن ثالث اس ۱۷ ہے جوکہ لام جو کہ لام کے عدد مفصل یا لام کا جمل کبیر ہے اور لام ہی قلب الف ہے کیونکہ لام الف کے درمیان میں آتا ہے یہ عدد بھی مادہ اسم اعظم کا ہے اور باطن رابع اس کا ۲۹ ہے کہ یہ فیض لام ہے یعنی میم کہ عدد اس کے ۰۹ ہیں اور ۲ عددالف و لام میں ہیں اور یہ عدد ظاہر اسم اعظم ہے اور باطن خامس اس کا ۹ ہے کہ مفردات الف کو فی نفسہ ضرب کرنے سے ۹ ہوتے ہیں یعنی الف ے ۳ حروف ہیں ۳ کو ۳ میں ضرب دیا تو ۹ حاصل ہوئے اور اگر الف کو بسط حرفی کریں تو بھی ۹ حرف ہوتے ہیں اس طرح (ا ل ف ل ا م م ی م)اور مفردات عرش و لوح و قلم بھی ۹ ہیں اس طرح ع ر ش ل و ح ق ل م اور مفردات عقل و روح و نفس بھی ۹ ہیں اس طرح ع ق ل ر و ح ن ف س ۔

پس نفس روح سے استمداد کرتا ہے اور روح عقل سے مدد طلب کرتی ہے اور جمیع انوارعلویہ حرز عرش سے استمداد کرتے ہیں جسطرح کہ نورِ الف سے تمام حروف استمداد کرتے ہیںاور ہر ایک حرف قائم ہے سر الف سے اورالف سر کلمہ ہے جو متعلق ہے ساتھ عقل کے اور قائم ہے ساتھ سر عقل کے اور عقل قائم ہے ساتھ اس کے اور تمام حروف سر الف میں ہیں لیکن درمیان اُن سب کے فرق ہے مراتب میں، پس الف عقل ہے اورا لف ہی روح مبسوط ہے۔
ہر حرف کا راز الف میں اور تما م لکھت پڑھت یعنی کتابت کا راز ۸۲ حروف ابجد میں ہے اور حروف کی الگ الگ خاصیت ہے اور حروف کا راز یا روحانیت اعداد میں ہے اور جو حرف طاق ہے وہ جلالی خاصیت رکھتا ہے اور جفت ہے وہ جمالی خاصیت رکھتا ہے ۔
لفظ الف کا پہلا حرف یعنی (ا)چابی ہے رازوں کی اور بینات یعنی حرف الف کے آخری دو حرف یعنی (لف)جن کی عددی قیمت ۰۱۱ہے جو کہ اسم علی کے قائم مقام ہے اور نصف اس کا ۵۵ ہے جو کہ اسم مجیب کے قائم مقام ہے اور عشر اس کا گیارہ ہے جو کہ اسم ھو کے قائم مقام ہے اور ان تما م کا مجموعہ یعنی110+55+11=176ہے جو کہ قائم مقام ہے اَللّٰہُ لَااِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۔اور نصف اس۸۸ بنتا ہے جو کہ اسم حلیم کا قائم مقام ہے اسم حلیم کا نصف ۴۴ اور ۴۴ کا نصف ۲۲ اور ۲۲ کا نصف گیارہ ہے اور ان سب کا مجموعہ ۵۶۱ ہے جو کہ لا الہ الا اللہ ہے اس کے علاوہ زبر و بینات الف کے ایک سو گیارہ ہیں اوراسم کافی کے بھی اعداد اتنے ہی ہیں اور جواہر خمسہ جو کہ شاہ محمد غوث گوالیاری رحمة اللہ علیہ کی تصنیف لطیف ہے اس میں مرقوم ہے کہ ہر حرف بذاتہ مرکز ہے اور مدار ظہور اس کا اُسی سے ہے اور مرکز کل حروف کا الف ہے اور الف قطب حروف ہے اور قطب اسمائے الٰہی ہے کیونکہ اعداد الف اور اعداد قطب ایک ہی ہیں یعنی ۱۱۱ پس جس کسی پر حرف الف کے اسرار کھلتے ہیں وہ قطب عالم ہوجاتا ہے ۔
الف کے اور بھی اسرار بیان ہوسکتے ہیں مگر میرے خیال سے اتنا کافی ہے ۔
 
اس راہ میں ادب ہر شئے پر مقدم ہے۔ پس جسے ادب عطا ہوا اسے تمام کی تمام خیر حاصل ہوئی اور جو ادب سے محروم کیا گیا، وہ ہر بھلائی سے محروم رہا۔
اور ادب مرید کے ساتھ چھ جہات سے تعلق رکھتا ہے۔ چنانچہ اوپر کی سمت سے تعلق رکھنےوالا ادب اللہ اور اسکے رسول اور اس کے بعد شیخ کا ادب ہے۔ اور نیچے کی سمت سے تعلق رکھنے والا ادب مرید کا اپنے نفس کے ساتھ روا رکھے جانے والا ادب ہے۔ باقی کی چار سمتوں کے حوالے سے دائیں سمت کا ادب مرید کے ہم پلہ احباب کا ادب ہے۔ بائیں سمت کا ادب مرید کا مخالفین کے ساتھ ادب ہے۔ سامنے کی سمت سے تعلق رکھنے والا ادب ان کے لئے ہے جو سلوک و تصوف میں مرید سے بڑھے ہوئے ہیں اور اس سے سبقت لئے ہوئے ہیں۔ جبکہ پچھلی سمت کے ادب کا تعلق ان سے ہے جواس راہ میں مرید سے کسی قدر پیچھے ہیں۔اور ہم ادب کی ان تمام اقسام کا مرید کے مقام (مبتدی، متوسط اور منتہی ) کے مطابق ذکر کریں گے۔
. . . اقتباس از کتاب المنہاج القویم بقلم الشیخ عبدالغنی العمری الحسنی ۔ ۔ ۔
اردو ترجمہ محمود احمد غزنوی
 
مرید اور آدابِ نفس
::::::::::::::::::::::::
مرید کا اپنے نفس کے باب میں ادب، نفس کی اصل کو ملحوظِ خاطر رکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ نفس کا اصلی مقام سفل یعنی نچلی جگہ ہے اور اسفل السافلین یعنی نچلا ترین مقام عدم کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ لیکن چونکہ آداب پر نظر ڈالتے ہوئے مرید کے مقام کو بھی پیشِ نظر رکھنا لازم ہے، اسی لئے ہم اس باب میں اپنے کلام کو تین اقسام کے مطابق پیش کریں گے ایک قسم کا تعلق مبتدی سے ہے۔ ایک کا تعلق متوسط سے جبکہ ایک قسم اصحابِ نہایت یعنی منتہی درجے کے مریدوں سے تعلق رکھتی ہے۔

ادبِ مبتدی
"""""""""""
مبتدی کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے عجز اور فقر کو ہمیشہ مدِّ نظر رکھے۔اورایسا کرتے وقت اپنے آپ کو دھوکا مت دے بلکہ صدق پر قائم رہے۔ اور اگر وہ چاہے کہ اس کا معاملہ تکمیل کو پہنچے تو جو کچھ اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت سے اسے معلوم ہوا ہے، اس کے مطابق عمل کرے۔ اور اپنے حال کو صحابہ کرام اور تابعین کے احوال پر ظاھراّ اور باطناّ پیش کرتا رہے (موازنہ کرتا رہے)۔ چنانچہ یہ بات اسے عنقریب اسے ایک تکلیف دہ حقیقت (یعنی اپنے نفس کی حالت کے ادراک) کے سامنے لاکھڑا کرے گی اور اس پست حال سے بلند تر حال کی جانب ترقی کا ایک سبب بن جائے گی، اگر اللہ نے چاہا۔ اور اگر مبتدی نے اپنے نفس سے یہ کہا کہ " ان احوال کے حامل صحابہ اور تابعین تو اللہ کے چُنے ہوئے بندے تھے اور ہم تو مساکین کے علاوہ اور کچھ نہیں اور ہمارے حق میں تو یہی بہت ہے کہ اللہ ہمیں بخش دے " تو اگرچہ یہ بات حق ہے، لیکن ضروری نہیں کہ ہر حق بات مرید کے لئے فائدہ مند بھی ہو۔ چنانچہ اس صورت میں یہ مرید اپنے نفس کے ساتھ خیانت کا مرتکب ہوگا اور اپنے آپ کو ضائع کرنے والا ہوگا۔ اور شائد تم جان چکے ہو گے کہ اس طرح کا ادب بلند ہمت مریدوں کا نصیب ہے۔

ادبِ متوسط
"""""""""""
جہاں تک متوسط کی بات ہے، تو اسے اپنے نفس کے بارے میں اپنے علم کے موافق عمل کرنا چاہئیے۔ اور ایسا اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے نفس کی ان صفات کے برعکس نہ چلے جو اس میں غلبہ و شہرت اور سربلندی کی طلب پیدا کرتی ہیں اور جن کے زیرِ اثر اس نے ایک عمر گذار ڈالی ہوتی ہے۔ اور وہ برعکس صفات وہ ہیں جو نفس کے ان تقاضوں کو دبا کر رکھتی ہیں۔ اور مرید اس مقصد میں اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے نفس کے حق میں گویا ایک ظالم نہیں بن جاتا، اور دوسروں کے حق کو اپنے حق پر ترجیح نہیں دینے لگتا۔ اور ان جگہوں پر اس کو لے کر نہیں جاتا جہاں اس کی اہانت کی جائے یا کوئی قدر و منزلت نہ کی جاتی ہو، اگر وہ عزت و تکریم کا عادی رہا ہو۔ اور یہی مرحلہ حقیقی طور پر مجاہدے اور صبر والا مرحلہ ہے۔ پس جس نے اس مرحلے میں صبرِ جمیل کو پیشِ نظر رکھا تو وہ عنقریب ایک پاکیزہ اور شیریں شھد جیسا نتیجہ پالے گا۔ اور جو شخص یہاں سے الٹے قدموں واپس لوٹ گیا، اور نفس کی ذلت کی کڑواہٹ کو برداشت نہ کرسکا تو وہ عنقریب اس طریق سے منقطع ہوجائے گا۔
ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اس بات کا ذکر بھی کرتے چلیں کہ نفس کی صفات دفعۃّ اور یکدم محو نہیں ہوتیں، بلکہ بندہ ایک ایک کرکے بتدریج ان سے خلاصی حاصل کرتا ہے۔ اور اس بات پر عمل اسی صورت میں معتبر ٹھہرے گا جب یہ کسی شیخِ ربّانی کی نظر کے تحت رہتے ہوئے کیا جائے۔ کیونکہ نفس اپنی بیماری کے لئے جو دوا خود سے پیش کرتا ہے وہ اکثر اوقات مطلوبہ حالت کے برعکس نتائج پیدا کرتی ہے۔ چنانچہ بجائے اس کے کہ اس کی صفاتِ نفس محو ہوتیں، وہ مزید قوت پکڑنے لگتی ہیں اور وہ اپنے رب سے قریب ہونے کی بجائے دور ہونے لگتا ہے۔ اور خودپسندی میں مبتلا ہوجانا اس کی ایک ادنیٰ مثال ہے۔ کچھ لوگوں نے اس بنیادی بات کو اہمیت نہ دی اور اسے حقیر سمجھا، چنانچہ وہ دوسرے لوگوں کے لئے عبرت کی مثال بن گئے، اگرچہ خود ان کو اپنی اس بری حالت کا شعور تک نہ ہو۔ اور بے شک شعور بھی توفیق کی علامات میں سے ہے۔

ادبِ منتھی
"""""""""""
اور اصحابِِ نہایت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اس بوجھ سے مخلصی حاصل کرچکے ہوتے ہیں کیونکہ ان کے نفوس واپس عدم کی گہرائیوں میں گر کر کھو چکے ہوتے ہیں۔ چنانچہ وہ اس تمام مصیبت کی جڑ سے نجات حاصل کرکے فرحاں و شاداں ہوتے ہیں۔ لیکن ان کا ادب یہ ہے کہ وہ عبودیت کی رسوم کو باقی رکھیں اور اپنے ظاھر کو ،ان رسومِ عبودیت کو باقی رکھتے ہوئے مزیّن کئے رہیں تاکہ ان کے باطن کے انوار اور اسرار چُھپے رہیں۔ اور وہ جس قدر ان رسوم ِ عبودیت کو باقی رکھنے والے ہونگے اتنے ہی ادب میں کامل ہونگے۔ اور جتنا ادب کامل ہوگا اتنی ہی ان کی بلندی ہوگی۔
اور اس ادب کے بالمقابل وہ ادب ہے جس کا تعلق اوپر کی جہت سے ہے۔ (جس کا بیان آگے آئے گا)۔
۔۔۔۔۔(از کتاب منہاج القویم فی التزکیۃ بقلم الشیخ سید عبدالغنی العمری الحَسَنی)۔۔۔۔۔
(اردو ترجمہ: محمود احمد غزنوی)
 
حق کے ساتھ ادب
::::::::::::::::::::::
حق کے ساتھ ادب تین مراتب میں ہے۔ اللہ کے ساتھ، اس کے رسول کے ساتھ اور پھر وارث کے ساتھ۔ اور ہم نے ان تینوں مراتب کو ایک ہی عنوان یعنی "حق" کے تحت جمع کیا ہے تاکہ تم پر واضح ہو کہ جمع ہی اصل ہے، اور تاکہ تم تفریق کے وھم سے بچے رہو، جو تمہیں دوری میں ڈالتا ہے۔ اور مریدِ صادق کی علامات میں سے ہے کہ جب وہ شیخِ ربّانی سے ملتا ہے تو یہ اس کے لئے حق کو پانے کے برابر ہوتا ہے۔ اور وہ اس بات کو اپنے اندر محسوس کرلیتا ہے اگرچہ مراتبِ وجود اور حقائق کے علم سے ابھی نابلد ہی کیوں نہ ہو۔ اور جس شخص کو یہ وجد حاصل نہیں ہوتا، اس کے لئے مقصود تک پہنچنا دشوار ہوجاتا ہے اور وہ عامۃ الناس کی سطح تک ہی رہ جاتا ہے، جب تک یہ چیز اسکے شاملِ حال نہ ہو، خواہ ساری عمر شیخ کی صحبت میں گذاردے۔ ہمارے نزدیک توحیدِ توجّہ توحیدِ شہودی (جو آخر میں حاصل ہوتی ہے) کا بیج ( تخم )ہے۔ اور مرید کے لئے کم از کم اتنا تو ضرور ہونا چاہئیے کہ وہ شیخ کی حسّی صورت کے پیچھے غیبی طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم تصور کرے اور ان کے پیچھے اللہ تعالیٰ کے اسم کو تصور میں لائے (توجہ کی ردرستگی کے لئے کم ازم کم اتنا تو ہو) کہ یہ تمام عقلی صورتیں ایک خطِّ واحد میں ہوں۔ اور جس شخص کے نزدیک شیخ کی صورت اللہ اور اس کے رسول کے خظ ( Line) سے خارج ہے، تو ایسا شخص ہمارے اس کلام کا مخاطب نہیں ہے، اگرچہ شیخ ایسے کسی شخص کو اپنے ساتھ وابستہ کئے رکھتا ہے تاکہ ایک مدت تک اس کی استعداد کی تکمیل ہوجائے اور وہ توحیدِ توجہ کے قابل ہوسکے۔ اور شیخ کا ایسے شخص کو اپنے ساتھ وابستہ کئے رکھنا اس لئے نہیں ہوتا کہ وہ جیسا بھی ہے ویسے کا ویسا ہی رہے، نہیں ایسا نہیں کیونکہ شیخ کسی کا شرک پر برقرار رہنا پسند نہیں کرتا۔ اس بات کو اچھی طرح جان لو تاکہ مختلف اشخاص کو بظاہر ایک یکساں صورتِ حال میں دیکھ کر غلطی میں نہ جاپڑو۔ کیونکہ علمی مکانت (قدر و منزلت) ہی وہ چیز ہے جس کا اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ اور جو شخص ان امور میں امتیاز نہیں کرسکتا، وہ ان مریدوں جیسی تقلید میں جا پڑتا ہے جو ابھی درست طور پر مرید نہیں بن سکے، چنانچہ اللہ کی مشئیت کے مطابق محجوب رہ جاتا ہے۔ لیکن جیسے جیسے اس کا صدقِ ارادت بڑھتا جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے شعور و ادراک عطا فرماتا جاتا ہے جس سے اس کے دل میں قرب اور بُعد کو محسوس کرنے کا ملکہ پیدا ہوتا جاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں راہِ سلوک میں قدم رکھنے سے قبل ہی یہ شعورِ تمیز عطا فرمایا جو ہمارے لئے اس راہ پر قدم رکھنے کا سبب بنا۔ الحمد للہ۔

ادبِ مبتدی
""""""""""
مرید کے لئے لازم ہے کہ وہ اس بات کا اعتقاد رکھے کہ اس کا شیخ اللہ کا ولی ہے۔ اور وہ ہر معاملے میں اس سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ اور کسی توجیہہ میں اسکی مخالفت نہ کرے، اگرچہ ابھی اس کی حکمت سے آگاہ نہ ہوا ہو۔ وہ مرید جو شیخ سے صرف وہی کچھ قبول کرتا ہے جو اس کی سمجھ میں آئے، تو اس راہ کے دستور کے مطابق وہ مرید نہیں ہے۔
اپنے معاملاتِ عامّہ میں مرید کو شرع کے مطابق چلنا چاہئیے، لیکن اگر شیخ اسے کسی مستحب امر سے منع کردے یا خلافِ اولیٰ کا حکم کرے، تو شیخ کی توجیہہ کو اپنے اوپر لازم کرے کیونکہ ضرور ایسی کسی بات میں کوئی نہ کوئی حکمت ہے جو مرید کے لئے فائدہ مند ہے۔ اور ایسا مت کہے کہ " شیخ نے شریعت کی مخالفت کی" اور نفرت و بغض میں پڑجائے۔ بے شمار لوگ اسی طرح شیوخ کی حرمت کی رعایت نہ کرنے کی وجہ سے ہلاکت میں پڑگئے، کیونکہ انہوں نے شیوخ کو دوسروں کی طرح سمجھا۔ خدا کی قسم ایسا نہیں ہے !۔ کیونکہ جس طرح انکی تابعداری کرنا حیاتِ روحانی کا باعث بنتا ہے اسی طرح ان کی بے ادبی روحانی طور پر مردہ کردینے والی چیز ہے۔ اور اس دھوکے میں نہ رہنا اگر ظاھری طور پر ان پر کسی عقوبت کے آثار دکھائی نہ دیں، کیونکہ اگر عقوبت کا ظاھر پیچھے رہ گیا تو باطن کبھی بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ اور ہم تمہیں نصیحت کر رہے ہیں تاکہ تم اپنے معاملات کو اس کی روشنی میں دیکھو اور نصیحت پکڑو۔
مبتدی کے لئے اس مرحلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادب یہ ہے کہ ان کے کلام کی تعظیم کرے اور عمل سے اسکی تصدیق کرے، صحابہ کرام اور اہلِ بیت کی توقیر کرے اور ہر مسلمان کے حقوق کو سمجھے، خواہ وہ نیک ہوں یا گنہگار۔ اور مبتدی کا اللہ کے ساتھ ادب یہ ہے کہ اللہ کے کلام کی تصدیق کرے جیسا کہ تصدیق کا حق ہے اور اس کے احکامات کو بجالائے۔ اور اللہ کی تمام مخلوق خواہ وہ مومن ہو یا کافر، سب کے حقوق کی رعایت کرے۔

ادبِ متوسط
"""""""""""
اس مرحلے میں مرید اپنے شیخ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت کا مشاھدہ کرنے لگتا ہے۔ پس اگر اس کے ساتھ ایسا معاملہ ہونے لگے، تو اسے چائیے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو جن آداب کا حکم دیا ہے، ان آداب کی رعایت کرے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے سورہ حجرات میں فرمایا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ( 1 )
مومنو! (کسی بات کے جواب میں) اللہ اور اس کے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بےشک خدا سنتا جانتا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ( 2 )
اے اہل ایمان! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کرو اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو (اس طرح) ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔
إِنَّ الَّذِينَ يَغُضُّونَ أَصْوَاتَهُمْ عِندَ رَسُولِ اللَّهِ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ امْتَحَنَ اللَّهُ قُلُوبَهُمْ لِلتَّقْوَىٰ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ ( 3 )
جو لوگ اللہ کے رسول کے سامنے دبی آواز سے بولتے ہیں اللہ نے ان کے دل تقویٰ کے لئے آزما لئے ہیں۔ ان کے لئے بخشش اور اجر عظیم ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِن وَرَاءِ الْحُجُرَاتِ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ ( 4 )
جو لوگ تم کو حجروں کے باہر سے آواز دیتے ہیں ان میں اکثر بےعقل ہیں۔
وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّىٰ تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ( 5 )
اور اگر وہ صبر کئے رہتے یہاں تک کہ تم خود نکل کر ان کے پاس آتے تو یہ ان کے لئے بہتر تھا۔ اور اللہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔
چنانچہ بالعموم مرید کا حال یہاں صحابہ کے حال کی طرح ہوتا ہے، فرق یہ ہے کہ اس کا شمار صحابہ میں نہیں کیا جاسکتا۔ اور جس طرح صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاملات روا رکھتے تھے، ان کی اقتداء میں اپنی استطاعت کے مطابق اعمال سرانجام دے اور ان کو اپنا امام بنائے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کی استعدادات مختلف قسم کی بنائی ہیں، تاکہ ہر پیروی کرنے والا اپنی استعداد کی مناسبت سے ان کی اقتداء کرے۔
اور جس شخص کے لئے حق تعالیٰ اس کے شیخ کے مظہر میں تجلی فرمائے تو وہ اپنے معاملات متعلقہ آداب کے مطابق سرانجام دے۔ یعنی سننا اور اطاعت کرنا، موافقت کرنا، اور اس کے حکم کو وجہِ وجوب اور جس بات سے وہ منع کرے اسے وجہِ تحریم پر رکھنا۔
اور عمومی طور پر اس مرحلے میں اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ معاملہ شیخ کے ساتھ معاملے میں مندرج ہوتا ہے۔ اور یہ اس معاملہِ ایمانی کی نفی نہیں کرتا جو اس سے پہلے والے مرحلے میں مرید کو حاصل تھا، بلکہ اس کے برقرار رہتے ہوئے نیا معاملہ درپیش ہوتا ہے جو شہود پر مبنی ہوتا ہے اور یہ معاملہ پہلے والے سے اتمّ و اکمل ہے۔

ادبِ منتھی
"""""""""""
اور جب مرید وصول الی اللہ کے درجے تک پہنچ جاتا ہے اور اسے اپنے نفس میں حق کے ساتھ تحقق حاصل ہوجاتا ہے تب اس پر واجب ہے کہ وہ اپنے نفس میں حق کی رعایت کرے اور اس مقام پر اس کا اللہ اور اسکے رسول سے معاملہ، اپنے آپ کے اندر پیش آتا ہے، جس قدر اس کا ایمان اور جس قدر اس کا ذوق اس کی اجازت دیتے ہیں۔ اور جس قدر اس کا دائرہءِ ذوق وسعت اختیار کرتا ہے، اسی قدر اس کا دائرہءِ ایمان وسیع ہوتا ہے اور غیب کی جہت میں ایمان اور ذوق میں وسعت ہوتی ہے۔ یہ نہیں کہ مغیبات کا دائرہ سمٹ کر ختم ہوجائے، ایمان کا دائرہ جتنا بھی وسیع ہوجائے، ایمان میں بھی وسعت کی گنجائش ہمیشہ رہتی ہے اور غیب بھی ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ فرق صرف ان دائروں کی وسعتوں میں پڑتا ہے۔ اور بعض اھل اللہ نے کہا کہ " آخر کار ایمان بالغیب ایمان بالشہادۃ بن جاتا ہے" اور سننے والوں نے اس بات کو من و عن اپنے اطلاق کے ساتھ قبول کرلیا اور یہ نہ سمجھا کہ ان کے کلام کا تعلق صرف دائرہءِ ایمان میں بقدرِ شہود وسعت سے ہے جیسا کہ ہم نے واضح کیا۔ پس خبردار رہو کہ اس بات سے کہیں اپنے رب سے مھجوب نہ رہ جانا۔
اور اس مقام پر کلام کافی طویل ہوسکتا ہے لیکن ہم مرید کو ایسے امور میں منہمک نہیں کرنا چاہتے جو ابھی اس کے طَور سے خارج ہیں۔ جب وہ ان مذکورہ امور سے متحقق ہوجائے، تب ہی مزید تفصیلی گفتگو کا متحمل ہوسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔(کتاب المنہاج القویم فی التزکیہ بقلم الشیخ سید عبدالغنی العمری الحَسَنی)۔۔۔۔
(اردو ترجمہ: محمود احمد غزنوی)
 
اصطلاحاتِ طریق ۔۔ توجّہ
:::::::::::::::::::::::::::
توجّہ کسی خاص جہت کی جانب رخ پھیرنے کا نام ہے۔ محسوسات کی دنیا میں کسی شئے کے سامنے بیٹھنے کو توجّہ کہا جاتا ہےگویا یوں کہا جاتا ہے کہ "فلاں شخص قبلے کی جانب متوجہ ہوکر بیٹھا" ۔ کسی شئے کی طرف چلنے کو بھی توجّہ کے معنوں میں لیا جاتا ہے جیسے کوئی کہے کہ "فلاں شخص نے شہرِ مکّہ کا رخ کیا" یعنی مکّے کی جانب سفر اختیار کیا۔ لیکن اھلِ طریق ( اھلِ تصوف) کی اصطلاح میں قلب کا رخ اللہ کے چہرے (وجہ اللہ)کی جانب پھیر دینا توجّہ کہلاتا ہے۔ اور وجہ اللہ وہ صورت ہے جس کو اللہ نے قلوب کے قبلے کے طور پر چُن لیا، بالکل اسی طرح جیسے کعبہ کو اللہ سبحانہ نے ابدان ( اجسام)کے قبلے کے طور پر چُن لیا ۔
اور توجہ کے مختلف مراتب ہیں اور یہ مراتب متوجہ الیہ (جس کی جانب توجہ کی جائے) کی صورت کے مطابق ہوتے ہیں۔ چنانچہ عوام الناس اور اھلِ کلام (اھلِ عقائد) کی توجہ خیالی ہوتی ہے جس کا رخ ان کے ذھنوں میں موجود انکے اعتقاد کی ایک ذھنی صورت کی جانب ہوتا ہے۔ اور اس خیالی توجہ کے لئے ضروری نہیں کہ وہ کسی جسمانی تصور کے ساتھ وابستہ ہو، بلکہ یہ ایک معنوی اور تنزیہی (Transcended ) صورت بھی ہوسکتی ہے، بشرطیکہ یہ تنزیہہ تعطیل کی حد تک نہ پہنچی ہوئی ہو۔ ہماری مراد ہے ایسی تنزیہہ جس میں کسی قدر تشبیہہ( Likening) کی بُو پائی جائے، خواہ توجّہ کرنے والے کو اس بات کا علم ہو یا نہ ہو۔
توجہ کا دوسرا مرتبہ ، مریدین کا مرتبہ ہے۔ اور ان کی توجہ کا رخ ان کے شیوخ کی صورت کی جانب ہوتا ہے۔، جیسا کہ درمیانے اور اونچے درجات سے تعلق رکھنے والے صحابہ کرام کی توجّہ تھی، جو ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب متوجّہ رہا کرتے تھے۔
اور بعض تقلیدی عقول کے نزدیک یہ حسّی توجہ بہت بعید ہے اور ان پر بہت گراں گذرتی ہے اور وہ اسے شرک کی قبیل سے سمجھتے ہیں کہ جس سے تخلص حاصل کرنا واجب ہے۔ لیکن ان کا یہ وھم غلط ہے اور اس کی دو وجوھات ہیں :
1- محسوسات دراصل معانی کی تکثیف شدہ (Condensed ) صورت کے سوا اور کچھ نہیں۔ جس طرح حسِ لطیف کو معانی کہا جاتا ہے، اسی طرح معانی کی تکثیف ( Condensation) کو محسوسات کہا جاتا ہے، کیونکہ ان کی اصل ایک ہی ہے۔ چنانچہ معنی اور حس کی تقسیم صرف عوام اور مبتدیوں یعنی ابتدائی سطح کے افراد میں پائی جاتی ہے۔ اور اسی باب سے معانی کا خواب و خیال اور مشاہدات میں حسّی صورتوں کی شکل میں ظہور ہوتا ہے۔
2- عبدِ ربّانی جو بالاصالت صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں یا بالنیابت وارثین نبوّت ہیں، ان کا معاملہ ان بندوں جیسا نہیں جو اھلِ ظلمت ہیں اور اھلِ نفس ہیں۔ چنانچہ عبدِ ربّانی کی حقیقت کی رُو سے دیکھا جائے تو جو شخص ان کی جانب متوجہ ہوتا ہے، وہ دراصل اللہ سبحانہ کی جانب ہی متوجہ ہوتا ہے، خواہ توجّہ کرنے والے کو اس بات کا علم ہو یا نہ ہو۔
اور توجّہ کا تیسرا مرتبہ وہ ہے جو عارفین کا نصیب ہے۔ اور یہ توجہ مقیّد نہیں بلکہ مطلق ہوتی ہے اور ہر وہ حسّی و معنوی صورت جس پرحق کی تجلّی ہوتی ہے، یہ عارفین ان صورتوں میں اس حق کی جانب متوجہ رہتے ہیں۔ اور کتاب میں ان عارفین کی سند اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے {وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ} [البقرة: 115] (اور اللہ ہی کے لئے ہیں مشرق اور مغرب، پس تم جدھر کابھی رخ کرو، ادھر اللہ کا چہرہ ہے۔ بے شک اللہ بہت وسعت والا اور علم والا ہے)۔ پس مشرق وہ ہے جو عالمِ حس میں صورتوں سے ظاہر ہوا، اور مغرب وہ ہے جو عالمِ معقولات میں پوشیدہ ہوا، اور وسعتِ الٰہیہ ان سب کے عموم کو شامل ہے اور یہی وسعتِ علمیہ ہے جو تمام معلومات کو محیط ہے۔
چنانچہ مرید یعنی اللہ کے چہرے کا ارادہ کرنے والے پر لازم ہے کہ اس آیت {وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ} [البقرة: 272] کے معنی کے مطابق جان لے کہ وجہ اللہ وہ صورت ہے جس پر آدم علیہ السلام کی تخلیق ہوئی۔ حدیثِ مبارکہ میں آیا ہے کہ «خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ»[متفق علیہ] ( اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا) اور وہ صورت سوائے حقیقتِ محمّدیہ (انسانِ مطلق) کے اور کچھ نہیں۔ کہ جو عین کے اعتبار سے اللہ کی صورت ہے۔ اور ہر وہ شخص جو یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں صورت سے ماوراء تجلّی فرماتا ہے، اسے اس مسئلے میں سے کسی شئے کا علم نہیں ہوسکا۔
چنانچہ معرفتِ الٰہیہ کے ارکان میں سے سب سے خاص رکن یہ توجّہ ہی ہے،خواہ یہ معرفت عقلی ہو یا شہودی۔ بالک اسی طرح جیسے لا الہ الّا اللہ ، ارکانِ دین میں سے خاص ترین رکن ہے، خواہ دین اپنے تینوں مراتب یعنی اسلام، ایمان اور احسان میں سے کسی بھی مرتبے سے تعلق رکھتا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔بقلم الشیخ سیدی عبدالغنی العمری الحسنی۔۔۔۔۔۔۔
(اردو ترجمہ: محمود احمد غزنوی)
 
Top