روحانی اقوال



نہ غم و خوشی سے مطلب نہ لگاؤ جسم و جاں سے
مین وہاں پہنچ گیا ہون وہ قریب ہیں جہاں سے
میری عظمتوں کو پوچھے کوئی میر کارواں سے
کہ بچھڑ بچھڑ گیا ہوں کئی بار درمیاں سے
میں چھپا رہا ہوں اب تک وہی راز، رازداں سے
جو برس پڑے نظر سے جو چھلک پڑے زباں سے
میری زیست عشق اُنکا میری موت عشق اُنکا
وہی انتہا بھی ہوگی ہوئی ابتدا جہاں سے
میرا حالِ دل نہ پوچھو میری بے کسی کو دیکھو
وہ نظر سے کہہ رہا ہوں جو نہ کہہ سکا زباں سے
وہ جبیں کسی کے در پر نہ جھکی نہ جھک سکے گی
جسے خاص نسبتیں ہیں تیرے سنگِ آستاں سے
رخِ جلوہِ حقیقت کہیں ہونہ جائے رسوا
میری زندگی کا پردہ نہ اٹھاؤ درمیاں سے
وہی میرا دل ہے شعری وہی میری جاں ہے شعری
وہی عمر بھر کہوں گا جو ابھی کہا زباں سے
کلام صاحبزادہ عاصم مہاروی چشتی
چیئرمین، چشتیہ رباط

شعری یا شیری تخلص ہے
[/FONT]​
 
یک ﻣﻠﮏ ﮐﺎ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﻪ ﺑﮩﺖ ﺍﻧﻮﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﻩ ﻫﺮ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﻥ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﺑﺪﻝ ﻟﯿﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﺍٓﺧﺮﯼ ﺩﻥ ﺟﻮ ﺑﮭﯽﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯﻣﻠﮏ ﮐﯽ ﺣﺪﻭﺩ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﻫﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻧﯿﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩﻣﻨﺘﺨﺐ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﮯ ﺍﻭﺭﻣﻮﺟﻮﺩﻩ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﻮ ’ ﻋﻼﻗﻪ ﻏﯿﺮ ‘ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﯾﮏﺍﯾﺴﯽ ﺟﮕﻪ ﭼﮭﻮﮌ ﺍٓﺗﮯ ﺟﻬﺎﮞ ﺻﺮﻑ ﺳﺎﻧﭗ، ﺑﭽﮭﻮ ﺗﮭﮯﺍﻭﺭ ﮐﮭﺎﻧﮯﭘﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﻪ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﮔﺮ ﻭﻩ ﺳﺎﻧﭗ، ﺑﭽﮭﻮ ﻭﮞ ﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﻪﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﭽﺎ ﻟﯿﺘﺎ ﺗﻮ ﺑﮭﻮﮎ ﭘﯿﺎﺱ ﺳﮯ ﻣﺮ ﺟﺎﺗﺎ۔ ﮐﺘﻨﮯﻫﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﺍﯾﺴﮯ ﻫﯽ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﻫﯽ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ " ﻋﻼﻗﻪ ﻏﯿﺮ " ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻣﺮ ﮐﮭﭗ ﮔﺌﮯ۔
ﺍﺱ ﺩﻓﻌﻪ ﺷﻬﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﻫﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺭ ﺩﺭﺍﺯ ﮐﮯﻋﻼﻗﮯ ﮐﺎ ﻟﮓ ﺭﻫﺎ ﺗﮭﺎ ﺳﺐ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺩﯼﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﻪ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﭼﻦ ﻟﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﻫﮯ ﺍﻭﺭﺍﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﺍﻋﺰﺍﺯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺤﻞ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ، ﻭﻩ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺑﮭﯽ ﻫﻮﺍﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﺑﮭﯽ۔ ﺗﺨﺖ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ ﻫﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﻪ ﻣﺠﮫﺳﮯ ﭘﮩﻼ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﮩﺎﮞ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺩﺭﺑﺎﺭﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﺱ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ ﻗﺎﻧﻮﻥ
ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﻪ ﻫﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﻮ ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎﺟﺎﺗﺎ ﻫﮯ ﺍﻭﺭﻧﯿﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﭼﻦ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﻫﮯ ﯾﻪ ﺳﻨﺘﮯ ﻫﯽ ﻭﻩ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﻪ ﺗﻮ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥﻫﻮﺍ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﻘﻞ ﮐﻮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﻫﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﻪﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺟﮕﻪ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺟﺎﺅ ﺟﮩﺎﮞ ﺗﻢ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺁﺗﮯ ﻫﻮ۔ﺩﺭﺑﺎﺭﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﭙﺎﻫﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﺳﻼﻣﺖ ﮐﻮ ﻭﻩﺟﮕﻪ ﺩﮐﮭﺎﻧﮯ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ ، ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﻧﮯ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﺱ ﺟﮕﻪﮐﺎ ﺟﺎﺋﺰﻩ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﮔﯿﺎ۔
ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻼ ﺣﮑﻢ ﯾﻪ ﺩﯾﺎ ﮐﻪ ﻣﺤﻞ ﺳﮯ ’ ﻋﻼﻗﻪﻏﯿﺮ ‘ ﺗﮏ ﺍﯾﮏ ﺳﺮﺳﺒﺰ ﻭ ﺷﺎﺩﺍﺏ ﺭﺍﺳﺘﻪ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺟﮕﻪ ﮐﮯﺑﯿﭽﻮﮞ ﺑﯿﺞ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺭﻫﺎﺋﺶ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻫﺮ ﻗﺴﻢﮐﯽ ﺳﻬﻮﻟﺖ ﻫﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺭﺩﮔﺮ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺑﺎﻍ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ۔ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﮯ ﺣﮑﻢ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﻫﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﻫﻮﮔﺌﯽ ، ﮐﭽﮫ ﻫﯽﻋﺮﺻﻪ ﻣﯿﮟ ﺳﮍﮎ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻞ ﻭﻏﯿﺮﻩ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺗﯿﺎﺭ ﻫﻮﮔﺌﮯ۔
ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﭘﻮﺭﮮ ﻫﻮﺗﮯ ﻫﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﻧﮯ ﺩﺭﺑﺎﺭﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﻪﺍﭘﻨﯽ ﺭﺳﻢ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﻭ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﻫﺎﮞ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺅ ﺟﻬﺎﮞ ﻣﺠﮫ ﺳﮯﭘﮩﻠﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﻫﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﮯ ﺁﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺩﺭﺑﺎﺭﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﻪ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩﺳﻼﻣﺖ ﺍﺱ ﺳﺎﻝ ﺳﮯ ﯾﻪ ﺭﺳﻢ ﺧﺘﻢ ﻫﻮﮔﺌﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﻪ ﻫﻤﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻋﻘﻞﻣﻨﺪ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﻣﻞ ﮔﯿﺎ ﻫﮯ، ﻭﻫﺎﮞ ﺗﻮ ﻫﻢ ﺍﻥ ﺑﮯﻭﻗﻮﻑ ﺑﺎﺩﺷﺎﻫﻮﮞ ﮐﻮﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺁﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﻫﯽ ﮐﮯ ﻣﺰﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻗﯽ
ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ کو ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﻧﻪ ﮐﺮﺗﮯ، ﻟﯿﮑﻦﺁﭖ ﻧﮯ ﻋﻘﻠﻤﻨﺪﯼ ﮐﺎ ﻣﻈﺎﻫﺮﻩ ﮐﯿﺎ ﮐﻪ ﺁﻧﮯﻭﺍﻟﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﺎﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭﻋﻤﺪﻩ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖﻓﺮﻣﺎﻟﯿﺎ۔ ﻫﻤﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ ﻫﯽ ﻋﻘﻞ ﻣﻨﺪ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﯽﺿﺮﻭﺭﺕ ﺗﮭﯽ ﺍﺏ ﺁﭖ ﺁﺭﺍﻡ ﺳﮯﺳﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻫﻢ ﭘﺮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﺮﯾﮟ۔
* * * * * * * *
ﺍﺱ ﺍﻧﻮﮐﮭﮯ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ’ﺩﻧﯿﺎ ‘ ﻫﮯ؛ ﻭﻩ ﻧﯿﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﻫﯿﮟ-
ﺍﻭﺭ "ﻋﻼﻗﻪ ﻏﯿﺮ"،ﻫﻤﺎﺭﯼ ﻗﺒﺮ ﻫﮯ۔
ﺍﺏ ﺁﭖ ﺧﻮﺩ ﻓﯿﺼﻠﻪ ﮐﺮﻟﯿﺠﯿﮯ ﮐﻪ ﮐﭽﮫ ﺩﻥ ﺑﻌﺪ ﻫﻤﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﯾﻪ ﺩﻧﯿﺎﻭﺍﻟﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﮕﻪ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﻫﻢ ﻧﮯ ﻋﻘﻞ ﻣﻨﺪﯼ ﮐﺎﻣﻈﺎﻫﺮﻩ ﮐﺮﺗﮯ ﻫﻮﺋﮯ ﻭﻫﺎﮞ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﺤﻞ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻏﺎﺕ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮﻟﯿﮯ ﻫﯿﮟ ﯾﺎﺑﮯ ﻭﻗﻮﻑ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺍﺳﯽ ﭼﻨﺪ ﺭﻭﺯﻩ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﻣﺰﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﮯ ﻫﻮﺋﮯﻫﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﺎﻭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﻣﺪﺕ ﺷﺎﻫﯽ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺳﮯﮔﺰﺍﺭ ﮐﺮ ﺿﺎﺋﻊ ﮐﺮ ﺭﻫﮯ ﻫﯿﮟ
ﺫﺭﺍ ﺳﻮﭼﺌﮯ ﮐﻪ ﭘﮭﺮ ﭘﭽﮭﺘﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﻣھﻠﺖ ﻧﻬﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﯽ۔
 
میں عشق الست پرست ہوں، کھولوں روحوں کے بھید
مرا نام سنہرا سانورا، اک سندرتا کا وید
مری آنکھ قلندر قادری، مرا سینہ ہے بغداد
مرا ماتھا دن اجمیر کا، دل پاک پٹن آباد
میں کھرچوں ناخنِ شوق سے ،اک شبد بھری دیوار
وہ شبد بھری دیوار ہے، یہ رنگ سجا سنسار
میں خاص صحیفہ عشق کا، مرے پنے ہیں گلریز
میں دیپک گر استھان کا، مری لو میٹھی اور تیز
میں پریم بھری اک آتما، جو خود میں دھیان کرے
میں جیوتی جیون روپ کی، جو ہر سے گیان کرے
یہ پیڑ پرندے تتلیاں، مری روح کے سائے ہیں
یہ جتنے گھایل لوگ ہیں، میرے ماں جائے ہیں
میں دور حسد کی آگ سے، میں صرف بھلے کا روپ
مرا ظاہر باطن خیر ہے، میں گیان کی اجلی دھوپ
من مکت ہوا ہر لوبھ سے، اب کیا چنتا؟ کیا دُکھ؟
رہے ہر دم یار نگاہ میں، مرے نینن سکھ ہی سکھ
ہیں ایک سو چودہ سورتیں، بس اک صورت کا نور
وہ صورت سوہنے یار کی، جو احسن اور بھرپور
میں آپ اپنا اوتار ہوں، میں آپ اپنی پہچان
میں دین دھرم سے ماورا، میں ہوں حضرت انسان
علی زریون
 
لوہے کی فطرت پانی میں ڈوبنا ہے اور لکڑی کی فطرت پانی میں تیرنا ہے،
لیکن اگر لوہے کو لکڑی کے ساتھ جوڑ کر پانی میں ڈالا جائے تو جس لوہے کی فطرت ڈوبنا تھی وہ بھی تیرنے لگ جائے گا.
اہل اللہ فرماتے ہیں کہ:
اے نادان! ذرا تو سوچ تو سہی کہ تو "فانی" ہے اور تیرا مالک اللہ "باقی" ہے،
اگر تو اپنے دل کا تعلق باقی والے کے ساتھ بنالے تو تو بھی فانی سے باقی والا بن جائے گا.
اور اگر مٹی پر ہوگا یا مٹی کے نیچے، تجھے بقا عطا فرما دی جائے گی اور قبر کی مٹی کی بھی جرات نہیں کہ تیرا نام و نشان مٹا سکے.
 
ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا.؛ قبلہ! ذرا یہ تو بتائیں کہ سب سے تیز تلوار، سب سے مہلک زہر اور سب سے اندھیری رات کون سی ہے؛ بزرگ نے جواب دیا :سب سے تیز تلوار وہ لفظ ہے جو غصے کی حالت میں نکلے، سب سے مہلک زہر لالچ ہے اور سب سے اندھیری رات جہالت ہے.-
 
میرزا حبیب معروف بہ قآنی شیرازی نے دو لُکنت زدہ پیرو طِفل کی باہمی گفتگو کو انہی کی زبان میں منظوم پیش کیا،،،، با ذوق اور ذہین حضرات کی نذر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (محترمی و مکرمی سید شاکر القادری صاحب دام ظِلکُم کی اس کلام بارے رہنمائی پر شکر گزار ہوں۔۔۔ )
پیرکی لال سحرگاه به طفلی الکن
می‌شنیدم که بدین نوع همی‌راند سخن
ایک ہَکلا بوڑھا صبح کے وقت ایک ہکلے بچے سے
کچھ اس قسم کی باتیں کر رہا تھا جو میں نے سنیں.
کای ز زلفت صصصبحم شا شا شام تاریک
وی ز چهرت شا شا شا مم صصصبح روشن
اے کہ تیری زلفوں کی وجہ سے میری صبح تاریک شام بن چکی ہے
اور اے کہ تیرے (روشن) چہرے کی وجہ سے میری تاریک شامیں روشن صبحیں بن چکی ہیں۔
تتتریاکیم و بی شششهد للبت
صصبر و تا تا تابم رررفت از تتتن
۔تیرے لبوں کا شہد (جوکہ میرا تریاک ہے) کے بغیر اب مجھ میں صبر نہیں رہا اور مجھ میں تاب نہیں۔۔
طفل گفتا: مممن را تتو تقلید مکن
گگگم شو ز برم ای کککمتر از زن
۔بچہ (لڑکا) بولا تو میری نقالی نہ کر
میرے سامنے سے دفع ہوجا اے عورت سے بھی کم تر درجہ کے بوڑھے۔
مَممی خواهی مَمشتی به کککلت بزنم
که بیفتد مممغزت ممیان ددهن؟
۔تم چاہتے ہو کہ میں سر پر ایک ایسا مکا ماروں کہ تمہارا مغز تمہارے منہ میں گر پڑے۔۔
پیر گفتا وووالله که معلومست این
که که زادم من بیچاره ز مادر الکن
بُوڑھا بولا اللہ کی قسم مجھے معلوم ہے کہ مجھ بے چارہ کو میری ماں نے ہکلا پیدا کیا ہے (میں تمہاری نقل نہیں اتار رہا)
هههفتاد و ههشتاد و سه سالست فزون
گگگنگ و لا لا لا لم به خخلاق زمن
سَتر70 اسی 80 اور تین3 سال اوپر ہوگئے کہ میں جہان بھر کے لوگوں کے سامنے گونگا اور ہکلا ہوں۔۔
طِفل گُفتا خخُدا را صصصد بار شششکر
که برستم به جهان از مملال و ممهن
لڑکا بولا : اللہ تیرا شکر ہے کہ میں اس دنیا کے طعنوں اور ملامت اور غم سے بچ گیا ہوں۔۔
مَممن هم گگنگم مممثل تتتو
تتتو هم گگگنگی مممثل مممن
میں تمہاری طرح گونگا/ ھکلا ہوں اور تم میری طرح گونگے/ ھکلے ہو۔۔

[FONT=Jameel Noori Nastaleeq, Alvi Lahori Nastaleeq, Alvi Nastaleeq, Tahoma]کلام ،، حضرت قآنی شیرازی[/FONT]
[FONT=Jameel Noori Nastaleeq, Alvi Lahori Nastaleeq, Alvi Nastaleeq, Tahoma]یوسف سلطان
[/FONT]​
 
دل بتوں پر نثار کرتے ہیں
کفر کو پائیدار کرتے ہیں
جن کا مذہب صنم پرستی ہو
کافری اختیار کرتے ہیں
اوس کا ایمان لوٹتے ہیں صنم
جس کو اپنا شکار کرتے ہیں
حوصلہ میرا آزمانے کو
وہ ستم بار بار کرتے ہیں
ایس سے بڑھ کر نہیں نماز کوئی
اپنی ہستی سے پیار کرتے ہیں
اے فنا دل سنبھال کر رکھنا
بت نگاہوں سے وار کرتے ہیں

[FONT=Jameel Noori Nastaleeq, Alvi Lahori Nastaleeq, Alvi Nastaleeq, Tahoma]یہ فنا بلند شہری کا کلام ہے (بلند شہر انڈیا میں ہے)[/FONT]
[FONT=Jameel Noori Nastaleeq, Alvi Lahori Nastaleeq, Alvi Nastaleeq, Tahoma][/FONT]​
 
اسم اعظم
اسم اعظم پر لوگ مختلف مباحث کرتے ہیں اسم اعظم میری تحقیق کے مطاب دراصل تین طرح سے ہے ایک تو وہ اسم اعظم ہے جو کہ اصل ہے جس کو طریقت کا اسم اعظم کہتے ہیں یعنی وہ انسان خود ہے۔ انسان بذات خود اسم اعظم ہے
میں وہ اسم عظیم ہوں جس کو
جن و ملائک نے سجدہ کیا تھا
میں وہ صبر صمیم ہوں جس نے
بارِ امانت سر پہ لیا تھا
دوسرا اسم اعظم وہ ہے جو اللہ کے سات ذاتی صفات سے متعلق ہے
۱۔ حیات(حی)
۲۔ علم (علیم)
۳۔ قدرت(قادر)
۴۔ ارادہ(مرید)
۵۔ سمع(سمیع)
۶۔ بصر(بصیر)
۷۔ کلام(متکلم)اور اس کے مظہر کو لسانُ الحق یا لسانُ الغیب بھی کہتے ہیں
ان میں سے ہر ایک دوسرے کے لیئے لازم و ملزوم ہے ۔مثلاً اگر جب تک حیات نہ ہو تو علم کیسے ہوسکتا ہے اوراگر قدرت نہ ہو تو پھر ارادہ کیسے ہوسکتا ہے۔اور اگر ارادہ نہ ہو تو کلام کیسے ہوسکتا ہے
انسان چونکہ ذات حق کا پرتو ہے اس لیئے اس میں بھی یہ ساری صفات پائی جاتی ہیں لیکن بعض انسانوں میں ان صفات کا ظہور اپنے اپنے مشہود میں کچھ زیادہ ہی شہود پاتا ہے جس کی وجہ سے وہ ابھر کر سامنے آتے ہیں جیسے اگر کسی نے پرانی عربی تاریخ پڑھی کو ھوازن کے قریب بنی طے ایک قبیلہ ہے جس کے حاتم طائی کو بڑی شہرت حاصل ہوئی اس قبیلے کی ایک لڑکی جس کا نام زرقا تھا وہ کسی بلند ٹیلے پر کھڑی ہوکر پانچ میل دور تک ننگی آنکھ سے دیکھ لیتی تھی
اسی طرح کچھ اؤلیاء کرام کی ذات پر ان صفات میں ایک صفت اور بعض پر دو اور بعض پر تین صفات اور میرے آقا و مولیٰ حضور سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی قدس سر العزیز پر سات کی سات صفات نے کھل کر ظہور کیا۔
تیسرا اسم اعظم عملیاتی اسم اعظم ہوتا ہے یہ اضمار کی شکل میں ہوتا ہے اور ان کو پڑھنے کی صورت میں کائنات عالم میں تصرف کیا جاتا ہے

 
علامہ ابن منظور "لسان العرب" میں لفظ "منافق" کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"منافق" نفق سے ماخوذ ہے۔ جس کا معنی سرنگ ہے اور بعض نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ لومڑی اپنے بل کے دو منہ رکھتی ہے۔ ایک کا نام نافقاء اور دوسرے کا نام قاصعاء ہے۔ ایک طرف سے وہ داخل ہوتی ہے اور جب کوئی شکاری اس کا تعاقب کرتا ہے تو وہ دوسری طرف سے نکل جاتی ہے اور اگر دوسری جانب سے کوئی اس کا تعاقب کرتا ہے تو وہ پہلے سوراخ سے نکل جاتی ہے۔ اس کے بل کے ایک طرف کا نام نافقاء ہے، اسی سے "منافق" ماخوذ ہے۔ اس کے بھی دو پہلو ہیں۔ ایک کفر، جو اس کے دل میں ہے۔ دوسرا ایمان جو اس کی زبان پر ہے۔ اگر کفر سے اسے کسی نقصان کا اندیشہ ہو تو وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے لگتا ہے اور اگر اسلام کے باعث اسے کوئی تکلیف پہنچ رہی ہو تو وہ فوراََ اپنے کافر ہونے کا اعلان کر دیتاہے۔
اسلامی آداب و اخلاق از مفتی حافظ محمد حسام اللہ شریفی
صفحہ 48
 
عدم سے لائی ہے ہستی میں آرزوئے رسول
کہاں کہاں لیے پھرتی ہے جستجوئے رسول
خوشآ وہ دل کہ ہو جس دل میں آرزوئے رسول
خوشآ وہ آنکھ جو ہو محو حسنِ روئے رسول
تلاش نقشِ کفِ پائے مصطفٰے کی قسم
چنے ہیں آنکھوں سے ذراتِ خاک کوئے رسول
پھر ان کے نشۂ عرفاں کا پوچھنا کیا ہے
جو پی چکے ہیں ازل میں مئے سبوئے رسول
بلائیں لوں تری اے جذب شوق صل علٰی!
کہ آج دامن دل کھنچ رہا ہے سوئے رسول
شگفتہ گلشن زہرا کا ہر گل تر ہے
کسی میں رنگ علی اور کسی میں بوئے رسول
عجب تماشا ہو میدان حشر میں بیدمؔ
کہ سب ہوں پیش خدا اور میں رو بروئے رسول
بیدم شاہ وارثی رحمہ اللہ
 

محمد فہد

محفلین
حضور ﷺ نے فرمایا :
اللہ تعالی پاک ہے اور صرف پاک ہی کو قبول فرماتا ہے ۔۔
اسی طرح حضور ﷺ کا ایک اور ارشاد گرامی ہے
اللہ تعالی وتر ہے اور وتر کو پسند فرماتا ہے
لفظ وتر سے مراد نمود و نمائش سے بلند تر ہوتا ہے
یعنی اللہ تعالی، بناوٹ سے پاک ہے اور اعمال میں اخلاص کو پسند فرماتا ہے
از حضرت شیخ عبد القادر جیلانی "سر الاسرار" صفحہ 79
 
ہر انسان کو کسی بھی دوسرے انسان کی غیر اخلاقی بات سننی نہیں چاہیئے اگر اس کو زبان سے منع کرسکتا ہے تو زبان سے منع کرے اور اگر نہیں کرسکتا ہے تو چاہیئے کہ فورا جگہ چھوڑ دے۔
قریبا دس سال پہلے آفس میں کسی موضوع پر بات ہورہی تھی تو اچانک بات کا رخ عورتوں کی طرف مڑ گیا تو میرے ایک کولیگ نے کہا کہ فلا ں مشہور سٹور پر ایک انتہائی خوبصورت شوقین مزاج عورت آتی ہے اور کسی خوش شکل مرد جو اسکو پسند آجاتا ہے اس کو ساتھ لے جاتی ہے جب اس سے دل بھر جاتا ہے تو نیا شکار ڈھونڈتی ہے تو میں نے اس کو کہا کہ ایسی عورت سٹور پر کیسے آتی ہے اس کو لوگ تنگ نہیں کرتے ہیں تو اس نے کہا کہ وہ ایک بہت بڑے افسر کی بیوی ہے اور اس کے ایک فون پر پولیس تنگ کرنے والے کو اٹھا کر لے جاتی ہے اور ایسا کئی بار ہوا ہے۔
میرے کولیگ نے بتایا کہ ایک بار جب وہ سٹور آئی ہوئی تھی تو اتفاقا میں بھی سٹور پر کھڑا تھا میں اس کو کن اکھیوں سے دیکھ رہا تھا عورت سمجھ گئی جب میں جانے لگا تو عورت نے مجھے سٹور میں ہی آواز دی اور کہا کہ میرا سامان میرے ساتھ اٹھا کر گاڑی تک لے جاو میں سامان اٹھا کر گاڑی تک لے گیا تو اس عورت نے کہا کہ آو میرے ساتھ چلو گھر چلتے ہیں چائے پیتے ہیں تو میں ڈر گیا اور انکار کرکے نکل کھڑا ہوا اور پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا اس کے بعد جب میں گھر پہنچا تو اپنی کم ہمتی اور خوف پر بہت افسوس ہوا ۔ اس واقعے کے بعد میں کئی بار سٹور گیا اور اس عورت کے بہت آگے پیچھے ہوا لیکن اس نے کوئی توجہ نہ دی۔
قارئین اردو محفل یہ تو اس کولیگ کا بیان تھا میرے اس واقعے کو آج دس سال بعد بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ میں نے ایک عالم مجھے اس کو عالم کا نام بھول گیا ہے غالبا نعمان بن ثابت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تھے ان کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے کہ ان کے زمانے میں ایک شخص نے نبوت کا دعوی کردیا ایک دن اتفاق سے کسی مجلس میں وہ بھی آیا ہوا تھا تو آپ نے اس کو کہا کہ وہ توبہ کرے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم خاتم النبین ہیں تو اس نے کہا کہ میں دلیل سے ثابت کرتا کہ میں بنی برحق ہوں تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہاری کوئی دلیل بھی نہیں سنتا ہوں۔ بعد میں کسی نے پوچھا کہ جناب دلیل سننے میں کیا حرج تھا تو آپ نے فرمایا کہ ہوسکتا ہے کہ بعد میں اس دلیل کی رو سے شیطان مجھے پریشان کرتا اس لیئے میں نے اس کی کوئی دلیل نہیں سنی۔
سو مجھے بھی اسی وقت جب تمام لوگ اس کی بات کو سن رہے تھے فورا جگہ چھوڑ دینی چاہیئے تھی میں آج آفس آرہا تھا تو راستے میں اچانک اس سٹور پر نظر پڑ گئی تو تصور ہی تصور میں اپنے اس کولیگ کو دیکھا کہ کس طرح وہ دوبارہ سٹور میں موجود ہے اور اچانک وہ عورت بھی آجاتی ہے اور پھر وہ عورت اس کو اپنی گاڑی میں اپنے بنگلے لے جاتی ہے اور پھر دونوں زنا کے مرتکب ہوتے ہیں یہ سارا منظر میں تصور ہی تصور میں دیکھ رہا تھا جب وہ زنا کے بعد فارغ ہوگئے تو اچانک میرے منہ سے لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم نکلا ۔ اور دل و دماغ میں بہت ندامت ہوئی کہ میں کیسی سوچ میں کھو گیا تھا۔
 
بچے ﮐﮯ ﮐﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺫﺍﻥ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﯽ ﺣﮑﻤﺖ
ﻓﺮﺍﻧﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﮧ ﺍﯾﮏ ﻟﮍﮐﯽ ﮐﻮﺩﻭﺭﮮ ﭘﮍﻧﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺋﮯ ﺟﺐ ﺍﺳﮯﺩﻭﺭﮦ ﭘﮍﺗﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺟﺮﻣﻦ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﻌﺾ ﻣﺬﮨﺒﯽ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﭘﮍﮬﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯾﺘﯽ ﻭﮦ ﻓﺮﺍﻧﺴﯿﺴﯽ ﻟﮍﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭﺟﺮﻣﻦ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺣﺮﻑ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺟﺐ ﺩﻭﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯﺟﺮﻣﻦ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﮟ ﺗﻮﮈﺍﮐﭩﺮﻭﮞ ﻧﮯ ﻓﻮﺭﺍً ﺷﻮﺭ ﻣﭽﺎ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﺗﻮ ﺟﻦ ﺛﺎﺑﺖ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ ﯾﮧ ﻟﮍﮐﯽ ﺗﻮ ﺟﺮﻣﻦ ﺯﺑﺎﻥ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺘﯽ۔ﯾﮧ ﺟﻮ ﺟﺮﻣﻦ ﺯﺑﺎﻥ ﺑﻮﻝ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺿﺮﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺟﻦ ﺳﻮﺍﺭ ﮨﮯﺁﺧﺮ ﺍﯾﮏ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺘﻌﻠﻖ ﺗﺤﻘﯿﻘﺎﺕ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯽ ﻭﮦ ﺣﺎﻓﻈﮧ ﮐﺎ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﻣﺎﮨﺮ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﯽ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﺟﺐ ﯾﮧ ﻟﮍﮐﯽ ﺩﻭ ﺍﮌﮬﺎﺋﯽ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺟﺮﻣﻦ ﭘﺎﺩﺭﯼ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻣﻼﺯﻡ ﺗﮭﯽ ﺟﺐ ﻭﮦ ﭘﺎﺩﺭﯼ ﺟﺮﻣﻦ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﻣﻦ ﭘﮍﮬﺘﺎ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻟﮍﮐﯽ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﭘﻨﮕﮭﻮﮌﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﮍﯼ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﺐ ﺍﺳﮯ ﯾﮧ ﺑﺎﺕ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﺱ ﺟﺮﻣﻦ ﭘﺎﺩﺭﯼ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ ﻧﮑﻼ ﺍﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺟﺮﻣﻦ ﭘﺎﺩﺭﯼﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺳﭙﯿﻦ ﻣﮞﺎ ﮨﮯ۔ ﺳﭙﯿﻦ ﭘﮩﻨﭽﻨﮯ ﭘﺮ ﺍﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﭘﺎﺩﺭﯼ ﺭﯾﭩﺎﺋﺮ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺟﺮﻣﻨﯽ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﻼﺵ ﻣﯿﮟ ﺟﺮﻣﻨﯽ ﭘﮩﻨﭽﺎ۔ ﻭﮨﺎﮞ ﭘﮩﻨﭻ ﮐﺮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﭘﺎﺩﺭﯼ ﻣﺮ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﮕﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻧﮧ ﭼﮭﻮﮌﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻧﮯﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ﭘﺎﺩﺭﯼ ﮐﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﮐﺎﻏﺬﺍﺕ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮐﮭﺎﺋﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ۔ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﻼﺵ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﻌﺾ ﮐﺎﻏﺬﺍﺕ ﺩﯾﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﻥ ﮐﺎﻏﺬﺍﺕ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡﮨﻮﺍ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ ﺟﻮ ﺑﮯ ﮨﻮﺷﯽ ﮐﯽﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﯽ ﭘﮍﮬﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ ﻭﮦ ﻭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﻮﺍﺱ ﭘﺎﺩﺭﯼ ﮐﯽ ﺳﺮﻣﻦ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﻮ ﺩﻭ ﺍﮌﮬﺎﺋﯽ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﭘﺎﺩﺭﯼ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺑﻌﺾ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﯿﮟ ﺟﻮﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻣﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻧﮯ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ۔ﯾﮩﯽ ﻭﺟﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺟﺐ ﮐﺴﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﮧ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮ ﺗﻮ ﻓﻮﺭﺍً ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺫﺍﻥ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﻗﺎﻣﺖ ﮐﮩﻮ۔ ﯾﻮﺭﭖ ﮐﮯ ﻣﺪﺑﺮﯾﻦ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺁﺝ ﯾﮧ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﺩﻣﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﺳﺎﻟﮩﺎ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﮕﺮ ﻣﺤﻤﺪﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯﺁﺝ ﺳﮯ ﭼﻮﺩﮦ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺱ ﻧﮑﺘﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺗﻮﺟﮧ ﺩﻻﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺑﭽﮧ ﮐﮯ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯽ ﺗﻢﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺫﺍﻥ ﮐﮩﻮ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﺏ ﻭﮦ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺁﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺩﻣﺎﻍ ﺍﺱ ﻗﺎﺑﻞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺭﮐﮭﮯ۔
 
واللہ انسان اللہ تبارک تعالی کے حضور یا مرشد کامل کے روبرو بالکل ایسی ہی حالت میں پڑا رہتا ہے جیسا کہ گوندھی ہوئی کھنکتی مٹی خَلَقَ الْإِنسَانَ مِن صَلْصَالٍ كَالْفَخَّارِ بعینہ یہ تراب کمہار کے چاک پر توجہ کی طالب رہتی ہے بالکل اس نوزائیدہ بچے کی طرح جس کو ماں کی توجہ اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے اس دوران اس کے دل میں الایمان بین الخوف والرجاء،خوف اور امید، آس و نارسائی، اور نہ جانے کیسے کیسے خوف و خطرات لاحق ہوتے ہیں ان کیفیات کو شاعر نے بہت ہی خوبصورتی سے در المنظوم کردیا ہے۔


تو گزر گیا کسی موج میں، جسے توڑ کر میرے کوزہ گر
میرے خال و خد کے نقوش تھے، اسی چاک پر میرے کوزہ گر

ترے بعد کوزہ فروش نے، مجھے طاقچے میں سجا دیا
جہاں ٹوٹ جانے کا خوف تھا، مجھے رات بھر میرے کوزہ گر

تیری کار گاہ کی خامشی، مجھے نا تمام نہ چھوڑ دے
تو دوام ھوتے سکوت میں، کوئی بات کر میرے کوزہ گر

کہیں یوں نہ ھو تیرے بعد میں، یونہی خاک پر ھی پڑا رھوں
میرے سونے نقش و نگار میں کوئی رنگ بھر میرے کوزہ گر

جو ظروف خانہ بدوش تھے، مجھے کوزہ گاہ میں دیکھ کر
سبھی حیرتوں میں چلے گئے، مجھے چھوڑ کر میرے کوزہ گر

ابھی آگ سے میری گفتگو کو تمام ھونے میں وقت ھے
میں ہنوز نم ھوں کہیں کہیں، ذرا دیر کر میرے کوزہ گر

مجھے شکل دے کے درود پڑھ، میرے ساتھ اسمِ وجود پڑھ
کسی صبح اوّلیں وقت میں، مجھے نقش کر میرے کوزہ گر

فیصل ھاشمی
 
سر اس سے کیا مراد ہے آپکی ۔۔؟؟
مرشد کامل کے روبرو
جس طرح دودھ پیتا بچہ مکمل طور پر اپنی ماں کے رحم و کرم پر ہوتا ہے اسی طرح سالک جس کی ابھی تربیت نہیں ہوئی ہوتی ہے یعنی وہ زیر تربیت ہوتا ہے اسی طرح وہ بھی اپنے مربی اپنے مراد اپنے پیر اپنے ھادی و رہنما کے بالکل دودھ پیتے بچے کی طرح ہوتا ہے۔
دراصل شاعری ایک مجازی چیز ہے اس غزل کو جب اس حقیر نے پڑھا تو جو معنی میرے ننھی سی عقل پر منکشف ہوئے وہ میں نے بیان کردیئے ہیں جس طرح انسان کے ہاتھ کی انگلیاں مختلف ہوتی ہیں اسی طرح ہر بندے کی سوچ بالکل الگ ہوتی ہے سو ہر بندہ اپنی عقل سوچ ماحول اور تربیت کے مطابق نتائج و فہم، اخذ و کشید کر پاتا ہے۔
 
اپنے مربی اپنے مراد اپنے پیر اپنے ھادی و رہنما کے بالکل دودھ پیتے بچے کی طرح ہوتا ہے۔
مطلب ہم اپنے ہادی ومربی و مرشد کے بیٹے ہوتے ہیں۔۔؟؟ اور وہ ہمارا باپ ؟ یا آپکی مراد یہ ہے کہ اسکے سامنے۔۔۔اور آپ سے صد فی صد متفق ہوں ہم اپنی اپنی تربیت کے مطابق مفاہیم اخذ کرتےہیں ۔۔میرا سوال یہ تھا کہ مرشد کامل کون ہے یا کس کو ہم مرشد پکڑیں۔۔؟
 
آٹھ مسئلے
ایک روز شیخ شفیق بلخی رحمہ اللہ نے اپنے شاگرد حاتم رحمہ اللہ سے پوچھا.. “حاتم ! تم کتنے دنوں سے میرے ساتھ ہو..؟”انہوں نے کہا.. “بتیس برس سے..”شیخ نے پوچھا.. “بتاؤ اتنے طویل عرصے میں تم نے مجھ سے کیا سیکھا..؟”حاتم نے کہا.. “صرف آٹھ مسئلے..”شیخ نے کہا.. “انا للہ وانا الیہ راجعون.. میرے اوقات تیرے اوپر ضائع چلے گئے.. تْو نے صرف آٹھ مسئلے سیکھے..؟”حاتم نے کہا.. “استادِ محترم ! زیادہ نہیں سیکھ سکا اور جھوٹ بھی نہیں بول سکتا..”شیخ نے کہا.. “اچھا بتاؤ کیا سیکھا ہے..؟”حاتم رحمتہ اللہ علیہ نے کہا
۔1میں نے مخلوق کو دیکھا تو معلوم ہوا ہر ایک کا محبوب ہوتا ہے قبر میں جانے تک.. جب بندہ قبر میں پہنچ جاتا ہے تو اپنے محبوب سے جدا ہو جاتا ہے.. اس لیے میں نے اپنا محبوب “نیکیوں” کو بنا لیا ہے کہ جب میں قبر میں جاؤں گا تو یہ میرا محبوب میرے ساتھ قبر میں رہے گا..
۔2لوگوں کو دیکھا کہ کسی کے پاس قیمتی چیز ہے تو اسے سنبھال کر رکھتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے.. پھر فرمانِ الہی پڑھا..
“جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ خرچ ہو جانے والا ہے.. جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے..” (سور? النحل آیت 96)۔
تو جو چیز مجھے قیمتی ہاتھ آئی اسے اللہ کی طرف پھیر دیا تا کہ اس کے پاس محفوظ ہو جائے جو کبھی ضائع نہ ہو..
۔3 میں نے خدا کے فرمان پر غور کیا..
“اور جس نے اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا خوف کیا اور نفس کو بْری خواہشات سے باز رکھا’ جنت اسی کا ٹھکانہ ہو گا..” (سورۃ النازعات آیت 40)۔
تو اپنے نفس کو بْرائیوں سے لگام دی.. خواہشاتِ نفسانی سے بچنے کی محنت کی , یہاں تک کہ میرا نفس اطاعتِ الٰہی پر جم گیا..
۔4 لوگوں کو دیکھا ہر ایک کا رجحان دنیاوی مال , حسب نسب , دنیاوی جاہ و منصب میں پایا.. ان امور میں غور کرنے سے یہ چیزیں ہیچ دکھائی دیں.. اْدھر فرمان الٰہی دیکھا..
“درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے..” (سورۃالحجرات آیت 13)۔
تو میں نے تقوٰی اختیار کیا تاکہ اللہ کے ہاں عزت پاؤں..
۔5 لوگوں میں یہ بھی دیکھا کہ آپس میں گمانِ بد رکھتے ہیں , ایک دوسرے کو بْرا کہتے ہیں.. دوسری طرف اللہ کا فرمان دیکھا..
“دنیا کی زندگی میں ان کی بسر اوقات کی ذرائع تو ہم نے ان کے درمیان تقسیم کیے ہیں..” (سورۃ الزخرف آیت 32)۔
اس لیے میں حسد کو چھوڑ کر خلق سے کنارہ کر لیا اور یقین ہوا کہ قسمت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے.. خلق کی عداوت سے باز آگیا..
۔6 لوگوں کو دیکھا کہ ایک دوسرے سے سرکشی اور کشت و خون کرتے ہیں.. اللہ کی طرف رجوع کیا تو فرمایا..
“درحقیقت شیطان تمہارا دشمن ہے اس لیے تم بھی اسے اپنا دشمن سمجھو..” (سورۃ فاطر آیت 6)۔
اس بنا پر میں نے صرف اس اکیلے شیطان کو اپنا دشمن ٹھہرا لیا اور اس بات کی کوشش کی کہ اس سے بچتا رہوں..
۔7 لوگوں کو دیکھا پارہ نان (روٹی کے ٹکرے) پر اپنے نفس کو ذلیل کر رہے ہیں , ناجائز امور میں قدم رکھتے ہیں.. میں نے ارشادِ باری تعالیٰ دیکھا..
“زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو..” (سورۃ ہود آیت6)۔
پھر میں ان باتوں میں مشغول ہوا جو اللہ کے حقوق میرے ذمے ہیں.. اس رزق کی طلب ترک کی جو اللہ کے ذمے ہے..
۔8 میں نے خلق کو دیکھا , ہر ایک کسی عارضی چیز پر بھروسہ کرتا ہے.. کوئی زمین پر بھروسہ کرتا ہے , کوئی اپنی تجارت پر , کوئی اپنے پیشے پر , کوئی بدن پر , کوئی ذہنی اور علمی صلاحیتوں پر بھروسہ کیے ہوئے ہے.. میں نے خدا کی طرف رجوع کیا.. یہ ارشاد دیکھا..
“جو اللہ پر بھروسہ کرے اس کے لیے وہ کافی ہے..” (سورۃ طلاق آیت3)۔
تو میں نے اپنے خدا پر توکل کیا.. وہی مجھے کافی ہے..”
شیخ بلخی رحمہ اللہ نے فرمایا.. “اے میرے پیارے شاگرد حاتم ! خدا تمہیں ان کی توفیق نصیب کرے.. میں نے قران کے علوم پر مطالعہ کیا تو ان سب کی اصل جڑ انہی آٹھ مسائل کو پایا.. ان پر عمل کرنے والا گویا چاروں آسمانی کتابوں کا عامل ہوا..”
بحوالہ الاحیاء العلوم.. امام غزالی رحمۃ اللہ.
 
امانت کا بوجھ
وہ بارِ امانت جس کے متحمل ہونے کی صلاحیت آسمان و زمین نے اپنے نفس میں نہ پائی جس کی تاب پہاڑ نہ لاسکے ۔یہ بوجھ نہ صرف آسمان بلکہ آسمان والوں سے بھی نہ اٹھ سکا ۔لیکن حضرتِ انسان نے اس بوجھ کو اٹھا لیا ۔وہ ظہور وجود ہے ۔ظہورِ وجود یعنی ظہورِ ذات مع الصفات والاسماء کا حامل صرف انسانِ کامل ہے ۔ذات و اسماء و صفات کے پرتو (مظہریت یا عکس) کی قبولیت کی استعداد و صلاحیت صرف انسانِ کامل ہی میں پائی جاتی ہے ۔(اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَا وَاَشْفَقْنَ مِنْہَا وَ حَمَلَھَا الْاِنْسَانْ۔اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًاجَھُوْلًا۔)تحقیق روبرو کیا تھا ہم نے امانت کو اوپر آسمان اور زمین کے اور پہاڑوں کے پس انکار کیا سب نے اس سے کہ اٹھاویں اس کو اور ڈر گئے اُس سے ،اور اٹھا لیا اس کو انسان نے تحقیق وہ تھا ظلومی جہولی۔(الاحزاب:۷۲)ظلوماً جہولاً سے یہی مراد ہے کہ انسان میں اس بارِ گراں کے تحمل کی استعداد تھی ۔ظلومی سے یہاں مراد ظلم نہیں بلکہ ظلمت ہے اورظلمت ضد ہے نور کی ۔جہل بھی تاریکی ہے جو ضد ہے علم کی اور علم نور ہے اس ظلمت اور جہل نے زنگار کا کام دیا اور انسان نے الٰہیت کے پرتو کو قبول کیا ۔دراصل ظلمتِ طبیعت ،احساس کے نور سے روشن ہوتی ہے اور جہل علم اور معلوم کے نور سے روشن ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنی امانت کو آسمانوں اور زمینوں اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا اور انہوں نے اور ان میں رہنے والوں نے اس قبول نہ کیا ۔ہم ایک کثیف دیوار کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور اس میں اپنا چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں مگر دیوار ہمارے چہرے کے عکس کو قبول نہیں کرتی ۔ہم چہرے کو ایک لطیف اور شفاف شیشے میں دیکھنا چاہتے ہیں لیکن وہ بھی عکس کو قبو ل نہیں کرتا پھر ہم اپنے چہرے کو ایک ایسے آئینے کے سامنے لاتے ہیں جو ایک طرف سے تو نہایت اجلا صاف اور چمکدار ہے اور دوسری طرف اس کے زنگار لگی ہوتی ہے تو چہرہ فوراًاس میں ظاہر ہوجاتا ہے آئینہ زنگاری نے ہماری شکل کو قبول کرلیا زنگاری میں عکس کے نمایاں ہونے کی صلاحیت ہے۔جس کا اظہار اس نے ہمارے چہرہ کے سامنے آتے ہی کردیا۔شفاف آئینہ یا دیوار میں یہ صلاحیت نہ تھی اس لیئے اللہ کی ذات و صفات کے پرتو کو آسمان والوں نے قبول نہ کیا کیونکہ وہ مثل شفاف آئینوں کے تھے اور نہ زمین و پہاڑ وں نے اسے قبول کیا کیونکہ وہ مثل کثیف دیوار کے تھے انسان نے اسے فوراً قبول کرلیا کیونکہ انسان مثلِ آئینہ زنگاری کے ہے اس کی ایک جانب لطافتِ ملکوتی ہے اور دوسری جانب کثافتِ حیوانی ،ایک جانب وجود کا نور ہے دوسری جانب عدم کی ظلمت ایک جانب علم کی روشنی ہے دوسری جانب جہل کی تاریکی اس جامعیت نے انسان کو اس قابل بنادیا کہ امانتِ جامعیتِ ذات و صفات کو اٹھا لے ؎ٍ
لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
چمن زنگار ہے آئینۂِ بادِ بہاری کا(غالبؔ)​
 
Top