روحانی اقوال

اگر آسانیاں بانٹی نہ جائیں تو مشکلیں جمع ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آسانیاں بانٹنا

آج وہ اپنی تمام مصروفیات کو پس پشت ڈال کر درویش کے پاس پہنچا تھا..... جب اس کی باری آئی تو اس نے دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کیا بلاتمہید درویش سے دعا کرنے کو کہا ...... درویش نے نوجوان کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور بڑے جذب سے دُعا دی:​

"اللہ تجھے آسانیاں بانٹنےکی توفیق عطا فرمائے"
دعا لینے والے نے حیرت سے کہا:
"حضرت! الحمد للہ ہم مال پاک کرنے کے لیے ھر سال وقت پر زکاۃ نکالتے ہیں، بلاؤں کو ٹالنے کے لیے حسبِ ضرورت صدقہ بھی دیتے ہیں.... اس کے علاوہ ملازمین کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھتے ہیں، ہمارے کام والی کا ایک بچہ ہے، جس کی تعلیم کا خرچہ ہم نے اٹھا رکھا ہے، الله کی توفیق سے ہم تو کافی آسانیاں بانٹ چکے ہیں .....
درویش تھوڑا سا مسکرایا اور بڑے دھیمے اور میٹھے لہجے میں بولا:
"میرے بچے! سانس، پیسے، کھانا ... یہ سب تو رزق کی مختلف قسمیں ہیں، اور یاد رکھو "رَازِق اور الرَّزَّاق" صرف اور صرف الله تعالٰی کی ذات ہے.... تم یا کوئی اور انسان یا کوئی اور مخلوق نہیں ..... تم جو کر رہے ہو، اگر یہ سب کرنا چھوڑ بھی دو تو الله تعالٰی کی ذات یہ سب فقط ایک ساعت میں سب کو عطا کر سکتی ہے ، اگر تم یہ کر رہے ہو تو اپنے اشرف المخلوقات ہونے کی ذمہ داری ادا کر رہے ہو."
درویش نے نرمی سے اس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھ میں لیا اور پھر بولا:
"میرے بچے! آؤ میں تمہیں سمجھاؤں کہ آسانیاں بانٹنا
کسے کہتے ہیں.....
*- کبھی کسی اداس اور مایوس انسان کے کندھے پے ہاتھ رکھ کر، پیشانی پر کوئی شکن لائے بغیر ایک گھنٹا اس کی لمبی اور بے مقصد بات سننا..... آسانی ہے!
*- اپنی ضمانت پر کسی بیوہ کی جوان بیٹی کے رشتے کے لیے سنجیدگی سے تگ ودو کرنا.... آسانی ہے!
*- صبح دفتر جاتے ہوئے اپنے بچوں کے ساتھ محلے کے کسی یتیم بچے کی اسکول لے جانے کی ذمہ داری لینا.... یہ آسانی ہے!
*- اگر تم کسی گھر کے داماد یا بہنوئی ہو تو خود کو سسرال میں خاص اور افضل نہ سمجھنا... یہ بھی آسانی ہے!
*- غصے میں بپھرے کسی آدمی کی کڑوی کسیلی اور غلط بات کو نرمی سے برداشت کرنا.... یہ بھی آسانی ہے!
*- چائے کے کھوکھے والے کو اوئے کہہ کر بُلانے کی بجائے بھائی یا بیٹا کہہ کر بُلانا..... بھی آسانی ہے!
*- گلی محلے میں ٹھیلے والے سے بحث مباحثے سے بچ کر خریداری کرنا..... یہ آسانی ہے!
*- تمہارا اپنے دفتر، مارکیٹ یا فیکٹری کے چوکیدار اور چھوٹے ملازمین کو سلام میں پہل کرنا، دوستوں کی طرح گرم جوشی سے ملنا، کچھ دیر رک کر ان سے ان کے بچوں کا حال پوچھنا..... یہ بھی آسانی ہے!
*- ہسپتال میں اپنے مریض کے برابر والے بستر کے انجان مریض کے پاس بیٹھ کر اس کا حال پوچھنا اور اسے تسّلی دینا..... یہ بھی آسانی ہے!
*- ٹریفک اشارے پر تمہاری گاڑی کے آگے کھڑے شخص کو ہارن نہ دینا جس کی موٹر سائیکل بند ہو گئی ہو ...... سمجھو تو یہ بھی آسانی ہے!"
درویش نے حیرت میں ڈوبے نوجوان کو شفقت سے سر پر ھاتھ پھیرا اور سلسلہ کلام جارے رکھتے ہوئے دوبارہ متوجہ کرتے ہوئے کہا:
"بیٹا جی! تم آسانی پھیلانے کا کام گھر سے کیوں نہیں شروع کرتے؟
*- آج واپس جا کر باھر دروازے کی گھنٹی صرف ایک مرتبہ دے کر دروازہ کُھلنے تک انتظار کرنا ،
*- آج سے باپ کی ڈانٹ ایسے سننا جیسے موبائل پر گانے سنتے ہو ،
*- آج سے ماں کے پہلی آواز پر جہاں کہیں ہو فوراً ان کے پہنچ جایا کرنا.... اب انھیں تمہیں دوسری آواز دینے کی نوبت نہ آئے ،
*- بہن کی ضرورت اس کے تقاضا اور شکایت سے پہلے پوری کریا کرو ،
*- آیندہ سے بیوی کی غلطی پر سب کے سامنے اس کو ڈانٹ ڈپٹ مت کرنا ،
*- سالن اچھا نہ لگے تو دسترخوان پر حرف شکایت بلند نہ کرنا ،
*- کبھی کپڑے ٹھیک استری نہ ہوں تو خود استری درست کرلینا ،
میرے بیٹے! ایک بات یاد رکھنا زندگی تمہاری محتاج نہیں ، تم زندگی کے محتاج ہو ، منزل کی فکر چھوڑو، اپنا اور دوسروں کا راستہ آسان بناؤ ، ان شاء الله تعالٰی منزل خود ہی مل جائے گی ....!!!!
آئیں! صدقِ دِل سے دُعا کریں کہ الله تعالٰی ہم سب کو آسانیاں بانٹنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ثم آمین
 
مدیر کی آخری تدوین:
اختر شیرانی کا عشق رسول
==================
اختر شیرانی اک بلانوش شرابی، محبت کا سخنور اور رومان کا تاجر تھا۔ لاہور کے ایک مشہور ہوٹل میں ایک دفعہ چند کمیونسٹ نوجوانوں نے جو بلا کے ذہین تھے رومانوی شاعر اختر شیرانی سے مختلف موضوعات پر بحث چھیڑ دی۔ وہ بلانوش تھے شراب کی دو بوتلیں وہ اپنے حلق میں انڈیل چکے تھے، ہوش و حواس کھو چکے تھے تمام بدن پر رعشہ طاری تھا حتی کہ دم گفتار الفاظ بھی ٹوٹ ٹوٹ کر زباں سے نکل رہے تھے۔
ادھر اختر شیرانی کی انا کا شروع ہی سے یہ عالم تھا کہ اپنے سوا کسی کو مانتے نہیں تھے۔ نجانے کیا سوال زیر بحث تھا فرمایا ’’مسلمانوں میں اب تک تین شخص ایسے پیدا ہوئے ہیں جو ہر اعتبار سے جینیس (ذہن و فطین) بھی ہیں اور کامل فن بھی، پہلے ابوالفضل، دوسرے اسداللہ خان غالب، تیسرے ابوالکلام آزاد۔ ۔ شاعر وہ شاذ ہی کسی کو مانتے تھے ہمعصر شعراء میں جو واقعی شاعر تھے انہیں بھی اپنے سے کمتر خیال کرتے تھے۔ کمیونسٹ نوجوانوں نے فیض کے بارے میں سوال کیا، طرح دے گئے۔ ۔ ۔ جوش کے متعلق پوچھا، کہا : وہ ناظم ہے۔ ۔ ۔ سردار جعفری کا نام لیا تو مسکرا دیئے۔ ۔ ۔فراق کا ذکر چھیڑا تو ہوں ہاں کر کے چپ ہو گئے۔ ۔ ۔ ساحر لدھیانوی کی بات کی، سامنے بیٹھا تھا، فرمایا : مشق کرنے دو۔ ۔ ۔ظہیر کاشمیری کے بارے میں کہا : نام سنا ہے۔ ۔ ۔ احمد ندیم قاسمی؟ فرمایا : میرا شاگرد ہے۔ ۔ ۔
نوجوانوں نے جب دیکھا کہ ترقی پسند تحریک ہی کے منکر ہیں تو بحث کا رخ پھیر دیا۔ کہنے لگے حضرت فلاں پیغمبر علیہ السلام کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آنکھیں مستی میں سرخ ہو رہی تھیں، نشے میں چور تھے، زباں پر قابو نہیں تھا لیکن چونک کر فرمایا : کیا بکتے ہو؟ ادب و انشاء یا شعر و شاعری کی بات کرو‘‘۔ ۔ ۔ اس پر کسی نے فوراً ہی افلاطون کی طرف رخ موڑ دیا کہ اس کے مکالمات کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ارسطو اور سقراط کے بارے میں سوال کیا مگر اس وقت وہ اپنے موڈ میں تھے فرمایا اجی! یہ پوچھو کہ ہم کون ہیں؟ یہ ارسطو افلاطون یا سقراط آج ہوتے تو ہمارے حلقے میں بیٹھتے۔ ہمیں ان سے کیا غرض کہ ہم ان کے بارے میں رائے دیتے پھریں۔
ان کی لڑکھڑاتی ہوئی آواز سے شہ پا کر ایک ظالم کمیونسٹ نے چبھتا ہوا سوال کیا آپ کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں کیا خیال ہے۔ ۔ ۔؟ اللہ اللہ! نشے میں چور اک شرابی۔ ۔ ۔جیسے کوئی برق تڑپی ہو، بلور کا گلاس اٹھایا اور اسکے سر پر دے مارا۔ ۔ ۔بدبخت اک عاصی سے سوال کرتا ہے۔ ۔ ۔اک روسیاہ سے پوچھتا ہے۔ ۔ ۔اک فاسق سے کیا کہلوانا چاہتا ہے۔ ۔ ۔؟ غصے سے تمام بدن کانپ رہا تھا، اچانک رونا شروع کر دیا حتی کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔ ایسی حالت میں تم نے یہ نام کیوں لیا؟ تمہیں جرات کیسے ہوئی؟ گستاخ! بے ادب "باخدا دیوانہ باش بامحمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوشیار" اس شریر سوال پہ توبہ کرو میں تمہارے خبث باطن کو سمجھتا ہوں۔ خود قہر و غضب کی تصویر ہو گئے۔ اس نوجوان کا حال یہ تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔ اس نے بات کو موڑنا چاہا مگر اختر کہاں سنتے تھے۔ اسے محفل سے نکال دیا پھر خود بھی اٹھ کر چل دیئے۔ ساری رات روتے رہے کہتے تھے ’’یہ لوگ اتنے بے باک ہو گئے ہیں کہ ہمارا آخری سہارا بھی ہم سے چھین لینا چاہتے ہیں، میں گنہگار ضرور ہوں لیکن یہ مجھے کافر بنا دینا چاہتے ہیں‘‘۔
 
عوارف المعارف جو کہ حضرت شیخ شہاب الدین عمر سہروردی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی شہرہ آفاق تصنیف ہے اس کے صفحہ نمبر 402 پر رقم ہے۔ "حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے فرمایا! کھانے کی ابتداء اور انتہاء نمک سے کروکیونکہ اس میں 70 بیماریوں کا علاج ہے جس میں پانچ بیماریاں یہ ہیں
جذام
برص
دارڈ کا درد
پیٹ کا درد اور جنون
جنون
واقعی۔۔۔یہ قول رسول کریم ﷺ کا ہے ؟
 
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر !
ایک ہیڈ ماسٹر کے بارے میں ایک واقعہ بہت مشہور ہوا، جو بہت سے لوگوں کی زبانی میں نے ان کی وفات کے بعد سنا۔ جب وہ کسی سکول میں استاد تعینات تھے تو انہوں نے اپنی کلاس کا ٹیسٹ لیا۔
ٹیسٹ کے خاتمے پر انہوں نے سب کی کاپیاں چیک کیں اور ہر بچے کو اپنی اپنی کاپی اپنے ہاتھ میں پکڑکر ایک قطار میں کھڑا ہوجانے کو کہا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جس کی جتنی غلطیاں ہوں گی، اس کے ہاتھ پر اتنی ہی چھڑیاں ماری جائیں گی۔
اگرچہ وہ نرم دل ہونے کے باعث بہت ہی آہستگی سے بچوں کو چھڑی کی سزا دیتے تھے تاکہ ایذا کی بجائے صرف نصیحت ہو، مگر سزا کا خوف اپنی جگہ تھا۔
تمام بچے کھڑے ہوگئے۔ ہیڈ ماسٹر سب بچوں سے ان کی غلطیوں کی تعداد پوچھتے جاتے اور اس کے مطابق ان کے ہاتھوں پر چھڑیاں رسید کرتے جاتے۔
ایک بچہ بہت گھبرایا ہوا تھا۔ جب وہ اس کے قریب پہنچے اور اس سے غلطیوں کی بابت دریافت کیا تو خوف کے مارے اس کے ہاتھ سے کاپی گرگئی اور گھگیاتے ہوئے بولا:
”جی مجھے معاف کر دیں میرا توسب کچھ ہی غلط ہے۔“
معرفت کی گود میں پلے ہوئے ہیڈ ماسٹر اس کے اس جملے کی تاب نہ لاسکے اور ان کے حلق سے ایک دلدوز چیخ نکلی۔ ہاتھ سے چھڑی پھینک کر زاروقطار رونے لگے اور بار بار یہ جملہ دہراتے:
”میرے اللّٰه! مجھے معاف کردینا۔ میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے۔“
روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی۔ اس بچے کو ایک ہی بات کہتے
”تم نے یہ کیا کہہ دیا ہے
، یہ کیا کہہ دیا ہے میرے بچے!“
”میرے اللّٰه! مجھے معاف کردینا۔ میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے"
"اے کاش ہمیں بھی معرفتِ الٰہی کا ذره نصيب ہو جاۓ اور بہترین اور صرف اللّٰه کے لۓ عمل کر کے بھی دل اور زبان سے نکلے.....میرے اللّٰه! مجھے معاف کردینا۔ میرا تو سب کچھ ہی غلط ہے
 
اپنے ماحول پر گہری نظر رکھیں - اور اس کا بغور مطالعہ کریں۔ غور کریں کہ آپ کے بیوی بچے ، ماں باپ ، بہن بھائی ، عزیز و اقارب ، یار دوست ، آپ کے بارے میں کیا خیال کرتے ہیں -لوگ آپ کے سامنے آپ کو کیا کہتے ہیں -آپ کی عدم موجودگی میں آپ کا تذکرہ کس انداز میں کرتے ہیں -
کبھی کبھی ، خاموشی سے اپنے گھر کے سامنے سے اجنبی ہوکر گزر جائیں -اور سوچیں کہ اس گھر میں آپ کب تک ہیں -وہ وقت دور نہیں جب یہ گھر تو ہوگا آپ نہیں ہونگے -
اس وقت اس گھر میں کیا ہوگا ؟
اور آپ کا تذکرہ کس انداز میں ہوگا ؟
از واصف علی واصف کرن کرن سورج
 
ﺍﯾﮏ استاد ﺍﯾﮏ شاگرد ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﭼﮩﻞ ﻗﺪﻣﯽ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ شاگرد ﺍﭘﻨﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺘﻘﺒﻞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﺻﺎ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﮮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ استاد ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﻣﺴﺘﻘﺒﻞ ﮐﯿﺴﺎ ﮨﻮ ﮔﺎ؟ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮨﮯ؟ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺪﺩ ﮐﺮﻭ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮩﺖ ﻭﮨﻢ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺪﯾﺸﮯ ﮔﮭﯿﺮﮮ ﺭﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ استاد ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺻﺒﺮ ﮐﺮﮮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺎﻍ ﮐﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺣﺼﮯ ﺗﮏ ﭼﻠﮯ۔ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺎﻍ ﮐﮯ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﮐﻮﻧﮯ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ استاد ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﻮﻧﭙﻞ ﺗﻮﮌﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﭘﮑﮍﺍ ﺩﯼ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ شاگرد ﮐﻮ ﺑﻮﻻﮐﮧ ﺗﻢ ﻧﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﮭﻼ ﮨﻮﺍ ﭘﮭﻮﻝ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ؟ ﻭﮦ ﺑﻮﻻ ﮐﮧ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺭ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮨﮯ۔ استاد ﻧﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﻮﻧﭙﻞ ﮐﻮ ﭘﮭﻮﻝ ﺑﻨﺎ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﻮ؟
ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﺘﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﺗﻨﯽ ﺍﺣﺘﯿﺎﻁ ﺳﮯ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮐﮭﺎﺅ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺍﺱ ﮐﻮ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﺩﮮ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﻮ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﻣﺸﮑﻞ ﮐﺎﻡ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺍﺗﻨﯽ ﻧﺎﺯﮎ ﮐﻮﻧﭙﻞ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﺍﯾﮏ ﺧﻄﺎ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﭘﺘﯿﺎﮞ ﭨﻮﭦ ﮐﺮ ﺑﮑﮭﺮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ۔ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺑﻮﻻ ﮐﮧ ﺗﻢ ﮐﻮﺷﺶ ﺗﻮ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺩﯾﮑﮭﻮ۔ شاگرد ﻧﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﺍﺣﺘﯿﺎﻁ ﺳﮯ ﺩﻭ ﭼﺎﺭ ﭘﺘﯿﺎﮞ ﮐﮭﻮﻝ ﻟﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﻠﯽ ﭘﺘﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﭨﻮﭦ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﻧﭙﻞ ﭘﮭﻮﻝ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮓ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺳﮯ ﻣﻌﺬﺭﺕ ﮐﯽ۔ استاد ﻣﺴﮑﺮﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻻ ﮐﮧ ﺟﺲ ﻃﺮﺡ ﮨﻢ ﺍﺱ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﻭﺍﻗﻒ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﮐﺴﯽ ﮐﻮﻧﭙﻞ ﮐﯽ ﭘﺘﯿﺎﮞ ﮐﮭﻠﻨﮯ ﺳﮯ ﮨﯽ ﻭﮦ ﭘﮭﻮﻝ ﺑﻨﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﮨﻢ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﮭﯽ ﻭﻗﺖ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﮭﻼ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﮯ، ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﮐﺎ ﻓﺎﺭﻣﻮﻟﮧ ﺳﺐ ﮐﻮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﻗﺖ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﺼﯿﺐ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻞ ﺳﮑﺘﺎ۔
ﺍﮔﺮ ﮨﺮ ﺷﮯ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﭘﻼﻧﻨﮓ ﮐﮯ ﺫﺭﯾﻌﮯ ﺣﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﺗﻮ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﺩﮬﻢ ﻣﭻ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺩﺭﮬﻢ ﺑﺮﮬﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺻﺒﺮ ﮐﺮﻭ ﺍﻭﺭ ﺳﺐ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﺨﻠﺼﯽ ﺭﻭﺍ ﺭﮐﮭﻮ۔ ﺟﺐ ﻭﻗﺖ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﺳﺐ ﺧﻮﺩ ﺑﺨﻮﺩ ﭨﮭﯿﮏ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺷﺎﮔﺮﺩ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺳﺒﻖ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﺴﺘﻘﺒﻞ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﯾﺸﻮﮞ ﺳﮯ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮ ﮐﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﺎﺅﮞ ﻣﺎﺭﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻤﺠﮭﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﺴﯽ ﺣﺮﮐﺖ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﻣﻞ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻏﻠﻂ ﻓﮩﻤﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮯ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ، ﮨﻮﺗﺎ ﻭﮨﯽ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺧﺪﺍ ﮐﯽ ﭼﺎﮨﺖ ﮨﻮ۔ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺍﮔﺮ ﮐﺴﯽ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﺳﮯ ﺧﺪﺍ ﭘﺮ ﺑﮭﺮﻭﺳﮧ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺻﺮﻑ ﻭﮨﯽ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﻼ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺧﺪﺍﻭﻧﺪ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ۔
 
عروج کی طرف جاتے ہوئے راستے میں پھولوں کے بیج پھینکتے جاؤ .
زوال کا سفر پرسکون رہے گا .
اگر کانٹے پھینک کر جاؤ گے تو واپسی پر خار دار جھاڑیاں ملیں گی . اور .
واپسی کا سفر تو ہر صورت طے کرنا ہوتا ہے.
 
ایک دلچسپ مکالمہ
-----------
محقق اصفہانی نے حلیۃ الاولیاء میں سیدنا علی مرتضی کرم اللہ وجہ اور حضرت حسن بن علی رض کا ایک دلچسپ اور معرفت سے بھرپور مکالمہ ذکر کیا ہے، اس میں حضرت علی ابن ابی طالب کے کچھ سوالات اور حضرت حسن ابن علی کی جانب سے ان سوالات کے جواب دیئے گئے ہیں:
حضرت علی : راہ راست کیا ہے؟
حضرت حسن : برائی کو بھلائی کے ذریعہ دور کرنا۔
حضرت علی : شرافت کیا ہے؟
حضرت حسن : خاندان کو جوڑ کر رکھنا اور ناپسندیدہ حالات کو برداشت کرنا۔
حضرت علی : سخاوت کیا ہے؟
حضرت حسن : فراخی اورتنگ دستی دونوں حالتوں میں خرچ کرنا۔
حضرت علی : کمینگی کیا ہے؟
حضرت حسن : مال کو بچانے کے لئے عزت گنوا بیٹھنا۔
حضرت علی : بزدلی کیا ہے؟
حضرت حسن : دوست کو بہادری دکھانا اوردشمن سے ڈرتے رہنا۔
حضرت علی : مالداری کیا ہے؟
حضرت حسن : اللہ تعالیٰ کی تقسیم پر راضی رہنا، خواہ مال تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔
حضرت علی : بردباری کیا ہے؟
حضرت حسن : غصے کو پی جانا اورنفس پر قابو رکھنا۔
حضرت علی : بے وقوفی کیا ہے؟
حضرت حسن : عزت دارلوگوں سے جھگڑا کرنا
حضرت علی : ذلت کیا ہے؟
حضرت حسن : مصیبت کے وقت جزع فزع اور فریاد کرنا۔
حضرت علی : تکلیف دہ چیز کیاہے؟
حضرت حسن : لایعنی اورفضول کلام میں مشغول ہونا۔
حضرت علی : بزرگی کیا ہے؟
حضرت حسن : لوگوں کے جرمانے ادا کرنا اور جرم کو معاف کرنا۔
حضرت علی : سرداری کس چیز کا نام ہے؟
حضرت حسن : اچھے کام کرنا اوربرے امور ترک کر دینا۔
حضرت علی : نادانی کیا ہے؟
حضرت حسن : کمینے لوگوں کی اتباع کرنا اور سرکش لوگوں سے محبت کرنا۔
حضرت علی : غفلت کیا ہے؟
حضرت حسن : مسجد سے تعلق ختم کرلینا اوراہل فساد کی اطاعت کرنا۔
حلیۃ الأولیاء:۲/۳۶،
المعجم الکبیر:۳/۶۸
 
سکون حاصل کرنے کی کوشش چھوڑ دو سکون دینے کی فکر کروتو سکون مل جائے گا اللہ کے فیصلوں پر تنقید نا کرنا تو سکون مل جائے گا
بے سکونی تمنا کا نام ہے جب تمنا فرمان الہیٰ کے تابع ہو جائے تو سکون پیدا ہو جاتا ہے،
( واصف علی واصف)
بہت ہی اچھی بات شریک محفل کی ہے ۔۔خوش رہیں سلامت رہیں۔۔بہت دعائیں۔۔
 
رُوپوشی....
میں واصف صاحب پر بات کرنے کی اہل تو نہیں لیکن کاشف اس بات پر مُصر ہیں کہ جو کچھ بھی ہے ‘اسے منکشف کیاجائے ۔ کچھ سال ادھر کی بات ہے ، جمیلہ ہاشمی ابھی حیات تھیں ، ان کا فنکشن تھا ”دشت سُوس“ کا ۔ میں نے بڑی خبر گیری کے ساتھ اور بڑی محنت کے ساتھ ایک مضمون لکھا اور وقت پر پہنچی اور وقت پر پڑھا۔ جب میں مضمون پڑھ کر نیچے اُتر رہی تھی تو کچھ لوگوں نے مجھے گھیرے میں لے لیا اور میری بڑی تعریف کی۔ کچھ فاصلے پر واصفؒ صاحب بیٹھے ہوئے مجھے دیکھ رہے تھے۔ میرا خیال تھا کہ وہ میری تعریف کرنے والے ہیں اس لیے میں اُن کے پاس گئی اور میں نے کہا ، واصفؒ صاحب ، آپ کو مضمون پسند آیا؟ تو انہوں نے کہا دو منٹ بیٹھ جایئے، میں تفصیل سے آپ کے مضمون کی تعریف کرنا چاہتا ہوں۔میں ان کے پاس بیٹھ گئی تو انہوں نے مجھے کہا کہ بانو ! کیا آپ منصورؒ حلّاج رحمتہ اللہ علیہ پر بات کرنے کی اہل ہیں ؟ میں چپ ہو گئی اور میں نے کہا کہ جی میں اہل تو نہیں لیکن میں نے ناول بڑے غورسے پڑھا ہے اور بڑی دیر تک میں نے اس پر ریسرچ کی ہے۔ کہتے ہیں ریسرچ سے اہلیت پیدا نہیں ہوتی۔ پھر وہ مجھے کہنے لگے بانو ! تم سے ایک خواہش بھی ہے‘ اور ایک درخواست بھی ہے، شاید تم عمل کر جاﺅ، کہ جو طاقت ہے ، دراصل انسان کی طاقت ہی اس کی خرابی ہوتی ہے اور اسی طاقت کی وجہ سے اس کو آزمایا بھی جاتا ہے۔ ہو سکے تو جو طاقت تم میں موجود ہے ، اسے مخفی کر جاﺅ ، اسے چھپا جاﺅ۔ میں نے کہا کہ جی مجھ میں تو کوئی طاقت نہیں ہے ، میں تو اتنی کمزور ہوں کہ ایک ٹرنک بھی نہیں اٹھا سکتی۔ کہنے لگے میں اس طاقت کا ذکر نہیں کر رہا، ہر انسان میں کوئی نہ کوئی ایسی خوبی اللہ نے دی ہے جو اس کی طاقت بن جاتی ہے ‘تو خوبصورت عورت کو اپنا حسن مخفی رکھنا چاہیے۔ میں نے کہا واصفؒ صاحب آپ اس عہد میں کیا اُلٹی بات کر رہے ہیں۔ کہنے لگے ‘اسے معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے پاس کتنا بڑا ہتھیار ہے اور کتنا بڑا نقصان کر سکتی ہے۔ امیر آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی دولت کو چھپا جائے، اگر وہ دے نہیں سکتا تو کم از کم چھپا جائے تاکہ دوسروں کے لیے جن کے پاس دولت نہیں ہے یہ اتنا بڑا عذاب نہ بن جائے ، سخی انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی سخاوت کو چھپا جائے، شہرت والے کو چاہیے کہ وہ اپنی شہرت کو ہضم کر لے اور چھپا جائے۔ میں نے کہا واصفؒ صاحب عزت تو اوپر والا دیتا ہے اور اس کو چھپایا کیسے جا سکتا ہے؟
”امیر آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی دولت کو چھپا جائے، اگر وہ دے نہیں سکتا تو کم از کم چھپا جائے تاکہ دوسروں کے لیے جن کے پاس دولت نہیں ہے یہ اتنا بڑا عذاب نہ بن جائے ، سخی انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی سخاوت کو چھپا جائے، شہرت والے کو چاہیے کہ وہ اپنی شہرت کو ہضم کر لے اور چھپا جائے“
فرمانے لگے ، اس کو چھپانے کا بڑا معمولی سا طریقہ ہے اور وہ یہ کہ انسان عُزلت نشیں ہو جائے۔ میں نے کہا کہ اس سے کسی کا کیا نقصان ہے۔ شہرت خدا نے دی ہے ، آدمی پھرتا ہے اور وہ خوشبو کی مانند آپ کو لپٹتی رہتی ہے۔ کہنے لگے ‘بانو !اس شہر میں ضرور ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے آپ سے زیادہ محنت کی ہو گی ، وہ آپ سے زیادہ توفیق رکھتے ہوں گے کہ ان کو شہرت ملے لیکن وہ ان کو نہیں ملی ، کوئی وجہ ایسی ہو گی جب وہ آپ کو دیکھتے ہوں گے تو ان کو کتنا رنج پہنچتا ہو گا۔ تو کیا آپ اتنا بھی نہیں کر سکتیں کہ کبھی کبھی نظروں سے اوجھل ہو جائیں اور نظر نہ آئیں۔ میں نے کہا واصفؒ صاحب یہ ساری باتیں تو سمجھ آتی ہیں لیکن کوئی اور بھی درجہ ہے چھپ جانے کا، طاقت کا۔ کہنے لگے ایک اور بہت ظالم درجہ ہے اور وہ فقیری کا ہے۔ میں نے کہا ، واصفؒ صاحب فقیری کیسے چھپائی جا سکتی ہے، فقیر تو مشہور ہو جاتا ہے ، لوگوں کی ضرورتیں پوری کرتا ہے‘ تو لوگ اسے جاننے لگتے ہیں، ایک انسان دوسرے سے ذکر کرتا ہے اور دوسرا تیسرے سے کرتا ہے، یہ تو شہر میں آگ لگ جاتی ہے ۔کہنے لگے جب تک خلق آپ کو فقیر سمجھے تب تک نقصان نہیں ہوتا ‘لیکن جب فقیر کو احساس ہونے لگے کہ اس کے پاس طاقت آ گئی ہے تو اسے رُو پوش ہو جانا چاہیے۔ جب میں آخری مرتبہ انہیں ہسپتال میں ملی تو انہوں نے مجھے کہا کہ ابھی تھوڑی دیر ٹھہر جاﺅ تو مجھے یقین ہو گیا تھا کہ اب وہ رُو پوش ہونے والے ہیں ‘کیونکہ انہیں احساس ہو گیا تھا کہ اب وہ واصف علی واصفؒ فقیر نہیں رہے بلکہ اب وہ ایک طاقت بن گئے ہیں ،اور یقین کیجیے جب اللہ کو پتہ چل جاتا ہے کہ اس کا کوئی فقیر رُوپوش ہونا چاہتا ہے تو پھر وہ ان کی بہت مدد کرتا ہے…. اس لیے وہ اس ارادے سے لندن گئے اور پھر آپ لوگوں سے نہیں ملے۔ کاشف اور عائشہ تو نہیں مانیں گے لیکن یہ اِرادہ اُن کا اپنا رُوپوش ہو جانے کا تھا ‘کیونکہ وہ اپنی طاقت چھپا دینا چاہتے تھے....
"بانو قدسیہ"
(سیمینار سے خطاب…. الحمرا ہال، لاہور…(جنوری 1991)
 
موت_کے_وقت_کی_کیفیت
جب روح نکلتی ہے تو انسان کا منہ کھل جاتا ہے ہونٹ کسی بھی قیمت پر آپس میں چپکے ہوئے نہیں رہ سکتے ... روح پیر کو کھںچتی ہوئی اوپر کی طرف آتی ہے جب پھیپڑوں اور دل تک روح کھینچ لی جاتی ہے تو انسان سانس ایک ہی طرف یعنی باہر ہی چلنے لگتی ہے یہ وہ وقت ہوتا ہے جب چند سیکنڈ میں انسان شیطان اور فرشتوں کو دنیا میں اپنے سامنے دیکھتا ہے ...
ایک طرف شیطان اس کے کان کے ذریعہ کچھ مشورے تجویز کرتا ہے تو دوسری طرف اس کی زبان اس کے عمل کے مطابق کچھ لفظ ادا کرنا چاہتی ہے اگر انسان نیک ہوتا ہے تو اس کا دماغ اس کی زبان کو کلمہ اے شہادت کی ہدایت دیتا ہے اور اگر انسان کافر مشرک بددين یا دنیا پرست ہوتا ہے تو اس کا دماغ كنفيوژن اور ایک عجیب ہیبت کا شکار ہو کر شیطان کے مشورے کی پیروی ہی کرتا ہے اور انتہائی مشکل سے کچھ لفظ زبان سے ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے ....
یہ سب اتنی تیزی سے ہوتا ہے کی دماغ کو دنیا کی فضول باتوں کو سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا .... انسان کی روح نکلتے ہوئے ایک زبردست تکلیف ذہن محسوس کرتا ہے لیکن تڑپ نہیں پاتا کیونکہ دماغ کو چھوڑ کر باقی جسم کی روح اس کے حلق میں اکٹھی ہو جاتی ہے اور جسم ایک گوشت کے بے جان لوتھڑے کی طرح پڑا ہوا ہوتا ہے جس میں کوئی حرکت کی گنجائش باقی نہیں رہتی ....
آخر میں دماغ کی روح بھی کھینچ لی جاتی ہے آنکھیں روح کو لے جاتے ہوئے دیکھتی ہیں اس لیے آنکھوں کی پتلیاں اوپر چڑھ جاتی ہیں یا جس سمت فرشتہ روح قبض کرکے جاتا ہے اس طرف ہو جاتی ہیں ...
اس کے بعد انسان کی زندگی کا وہ سفر شروع ہوتا ہے جس میں روح تکلیفوں کے تہہ خانوں سے لے کر آرام کے محلات کی آہٹ محسوس کرنے لگتی ہے جیسا کہ اس سے وعدہ کیا گیا ہے ... جو دنیا سے گیا وہ واپس کبھی نہیں لوٹا ...

صرف اس لئے کیونکہ اس کی روح عالم اے برذكھ میں اس گھڑی کا انتظار کر رہی ہوتی ہے جس میں اسے اس کا ٹھکانا دے دیا جائے گا ... اس دنیا میں محسوس ہونے والی طویل مدت ان روحوں کے لیے چند سےكےڈو سے زیادہ نہیں ہوگی یہاں تک کہ اگر کوئی آج سے کروڑوں سال پہلے ہی کیوں نہ مر چکا ہو ....
مومن کی روح اس طرح کھینچ لی جاتی ہے جیسے آٹے میں سے بال نکالا جاتا ہے ... گناہ گار کی روح خار دار درخت پر پڑے سوتی کپڑے کی طرح کھینچی جاتی ہے ....
اللہ تعالی ہم سب کو موت کے وقت کلمہ نصیب فرماكر آسانی کے سات روح قبض فرما اور نبی پاک ﷺ کا دیدار نصیب فرما ....

آمین یا رب العالمین!
 

یوسف سلطان

محفلین
موت_کے_وقت_کی_کیفیت
جب روح نکلتی ہے تو انسان کا منہ کھل جاتا ہے ہونٹ کسی بھی قیمت پر آپس میں چپکے ہوئے نہیں رہ سکتے ... روح پیر کو کھںچتی ہوئی اوپر کی طرف آتی ہے جب پھیپڑوں اور دل تک روح کھینچ لی جاتی ہے تو انسان سانس ایک ہی طرف یعنی باہر ہی چلنے لگتی ہے یہ وہ وقت ہوتا ہے جب چند سیکنڈ میں انسان شیطان اور فرشتوں کو دنیا میں اپنے سامنے دیکھتا ہے ...
ایک طرف شیطان اس کے کان کے ذریعہ کچھ مشورے تجویز کرتا ہے تو دوسری طرف اس کی زبان اس کے عمل کے مطابق کچھ لفظ ادا کرنا چاہتی ہے اگر انسان نیک ہوتا ہے تو اس کا دماغ اس کی زبان کو کلمہ اے شہادت کی ہدایت دیتا ہے اور اگر انسان کافر مشرک بددين یا دنیا پرست ہوتا ہے تو اس کا دماغ كنفيوژن اور ایک عجیب ہیبت کا شکار ہو کر شیطان کے مشورے کی پیروی ہی کرتا ہے اور انتہائی مشکل سے کچھ لفظ زبان سے ادا کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے ....
یہ سب اتنی تیزی سے ہوتا ہے کی دماغ کو دنیا کی فضول باتوں کو سوچنے کا موقع ہی نہیں ملتا .... انسان کی روح نکلتے ہوئے ایک زبردست تکلیف ذہن محسوس کرتا ہے لیکن تڑپ نہیں پاتا کیونکہ دماغ کو چھوڑ کر باقی جسم کی روح اس کے حلق میں اکٹھی ہو جاتی ہے اور جسم ایک گوشت کے بے جان لوتھڑے کی طرح پڑا ہوا ہوتا ہے جس میں کوئی حرکت کی گنجائش باقی نہیں رہتی ....
آخر میں دماغ کی روح بھی کھینچ لی جاتی ہے آنکھیں روح کو لے جاتے ہوئے دیکھتی ہیں اس لیے آنکھوں کی پتلیاں اوپر چڑھ جاتی ہیں یا جس سمت فرشتہ روح قبض کرکے جاتا ہے اس طرف ہو جاتی ہیں ...
اس کے بعد انسان کی زندگی کا وہ سفر شروع ہوتا ہے جس میں روح تکلیفوں کے تہہ خانوں سے لے کر آرام کے محلات کی آہٹ محسوس کرنے لگتی ہے جیسا کہ اس سے وعدہ کیا گیا ہے ... جو دنیا سے گیا وہ واپس کبھی نہیں لوٹا ...

صرف اس لئے کیونکہ اس کی روح عالم اے برذكھ میں اس گھڑی کا انتظار کر رہی ہوتی ہے جس میں اسے اس کا ٹھکانا دے دیا جائے گا ... اس دنیا میں محسوس ہونے والی طویل مدت ان روحوں کے لیے چند سےكےڈو سے زیادہ نہیں ہوگی یہاں تک کہ اگر کوئی آج سے کروڑوں سال پہلے ہی کیوں نہ مر چکا ہو ....
مومن کی روح اس طرح کھینچ لی جاتی ہے جیسے آٹے میں سے بال نکالا جاتا ہے ... گناہ گار کی روح خار دار درخت پر پڑے سوتی کپڑے کی طرح کھینچی جاتی ہے ....
اللہ تعالی ہم سب کو موت کے وقت کلمہ نصیب فرماكر آسانی کے سات روح قبض فرما اور نبی پاک ﷺ کا دیدار نصیب فرما ....

آمین یا رب العالمین!
آمین
 
میرا ایک سوال ہے سر!" ایک نو عمر،لمبا سا لڑکا مائیک پہ آیا.
" میں نے آپ کے پچھلے لیکچر سے متاثر ہو کر قرآن سیکھنا شروع کیا تھا.مگر قرآن پڑھتے اب مجھ پر پہلے والی کیفیت طاری نہیں ہوتی. دل میں گداز نہیں پیدا ہوتا. میں قرآن پڑھتا ہوں تو میرا ذہن بھٹک رہا ہوتا ہے."
تیمور نے مائیک قریب کیا، پھر بغور اس لڑکے کو دیکھتے ہوئے پوچھا." آپ کہیں جھوٹ تو نہیں بولتے؟"
"جی؟" وہ بھونچکا رہ گیا .
"ایک بار یاد رکھیے گا، قرآن صرف صادق اور آمین کے دل میں اترتا ہے. میں نے اس کتاب کے بڑے بڑے علماء کو دیکھا ہے، جو امانت کی راہ سے ذرا سے پھسلے اور پھر ان سے قرآن کی حلاوت چھین لی گئی. اور پھر کبھی وہ اس کتاب کو ہاتھ نہ لگا سکے."
بات کرتے ہوئے تیمور ہمایوں کی کانچ سی بھوری آنکھوں میں ایک کرب ابھرا تھا.اس نے صوفے کی پشت پہ ہاتھ رکھے.
فرشتے ساکت کھڑی تھی.اس کے پیچھے دیوار میں شیلف بنا تھا. ایک طرف میز تھی .میز پہ تازہ تہہ کی ہوئی جائے نماز ابھی ابھی رکھی گئی تھی.
ساتھ شیلف کے سب سے اوپر والے خانے میں احتیاط سے غلاف میں لپٹی ایک کتاب رکھی تھی. اس کا غلاف بہت خوبصورت تھا. سرخ ویلویٹ کے اوپر سلور ستارے. مگر گذرتے وقت نے غلاف کے اوپر گرد کی ایک تہہ جما دی تھی اور وہ شیلف اتنا اونچا تھا کہ اس تک اسٹول پہ چڑھے بغیر ہاتھ نہیں جاتا تھا.
"جس شخص میں صداقت اور امانت ہوتی ہے اور وہ واقعی قرآن حاصل کرنا چاہتا ہے تو قرآن اس کو دے دیا جاتا ہے." اسکرین پہ وہ روشن چہرے والا شخص کہ رہا تھا."
" ہم حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے زمانے کے عرب معاشرے کے بارے میں عمومی تاثر یہ رکھتے ہیں کہ وہ بہت جاہل اور گنوار لوگ تھے اور بیٹیوں کو زندہ دبانے والے وحشی تھے. لیکن ان لوگوں میں بہت سی خوبیاں بھی تھیں. وہ مہمان نواز تھے، عہد کی پاس داری کرتے تھے. جہاں تک بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کا تعلق ہے تو یہ کام عرب کے کچھ غریب قبائل کرتے تھے اور اس وقت بھی انسانی حقوق کی تنظیمیں تھیں جو فدیہ دے کر ان بچیوں کو چھڑاتی تھیں.
اور رہی بات صداقت کی تو عرب معاشرے میں جھوٹ بولنا انتہائی قبیح عمل سمجھا جاتا تھا اور لوگ اس شخص پہ حیران ہوتے تھے جو جھوٹ بولتا ہو."
"اسی لئے ان لوگوں کو قرآن دیا گیا تھا اور اسی لئے ہم لوگ اس کی سمجھ سے محروم کر دے گئے ہیں، کیوں کہ نہ تو ہم سچ بولتے ہیں اور نہ ہی امانت کا خیال رکھتے ہیں بھلے وہ کسی ذمہ داری کی امانت ہو، کسی کی عزت کی یا کسی کے راز کی."
(نمرە احمد کے ناول "مصحف"سے اقتباس)
 
پریتم ایسی پریت نہ کریو، جیسی کرے کھجور
دھوپ لگے تو سایہ ناہیں،بھوک لگے پھل دور
پریت کبیرا: ایسی کریو،جیسی کرے کپاس
جیو تو تن کو ڈھانکے،مرو تو نہ چھوڑے ساتھ
پریت نہ کیجیو پنچھی جیسی،جل سوکھے اڑ جائے
پریت تو کیجیو مچھلی جیسی، جل سوکھے مرجائے
بھگت کبیر
 
Top