فارسی شاعری رباعیاتِ سرمد شہید مع اردو ترجمہ

محمد وارث

لائبریرین
سرمد شہید کا اورنگ زیب عالمگیر کے ہاتھوں قتل مذہب کے پردے میں ایک سیاسی قتل تھا، جیسا کہ مؤرخین اور صوفیاء کا خیال ہے اور علماء میں سے بھی امامِ الہند مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی ایسا ہی لکھا ہے اور مشہور محقق شیخ محمد اکرام نے بھی "رودِ کوثر" میں سرمد شہید کے حالات کے تحت اس واقعے پر روشنی ڈالی ہے۔ سرمد شہید کے قتل کی اصل وجہ انکی اورنگ زیب عالمگیر کے صوفی منش بھائی شہزادہ دارا شکوہ سے مصاحبت تھی لیکن الزام کفر اور زندقہ کا لگا۔ خیر یہاں مقصودِ نظر مذہب اور سیاست نہیں ہے بلکہ سرمد شہید کی شاعری ہے۔ سرمد شہید ایک انتہائی اچھے شاعر تھے۔ انکی رباعیات انتہائی پُر لطف اور پُر کیف ہیں اور سوز و مستی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔

سرمد شہید کی کچھ رباعیات اپنے ترجمے کے ساتھ پیش کر رہا ہوں، امید ہے اہلِ علم ترجمے کی فروگزاشات سے صرفِ نظر کریں گے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سرمد غمِ عشق بوالہوس را نہ دہند
سوزِ دلِ پروانہ مگس را نہ دہند
عمرے باید کہ یار آید بہ کنار
ایں دولتِ سرمد ہمہ کس را نہ دہند

اے سرمد، غمِ عشق کسی بوالہوس کو نہیں دیا جاتا۔ پروانے کے دل کا سوز کسی شہد کی مکھی کو نہیں دیا جاتا۔ عمریں گزر جاتی ہیں اور پھر کہیں جا کر یار کا وصال نصیب ہوتا ہے، یہ سرمدی اور دائمی دولت ہر کسی کو نہیں دی جاتی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سرمد تو حدیثِ کعبہ و دیر مَکُن
در کوچۂ شک چو گمرہاں سیر مَکُن
ہاں شیوہٴ بندگی ز شیطان آموز
یک قبلہ گزیں و سجدۂ غیر مَکُن

سرمد تو کعبے اور بُتخانے کی باتیں مت کر، شک و شبہات کے کوچے میں گمراہوں کی طرح سیر مت کر، ہاں تو بندگی کا شیوہ شیطان سے سیکھ کہ ایک قبلہ پسند کر لے (پکڑ لے) اور ﴿پھر ساری زندگی﴾ غیر کو سجدہ مت کر۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سرمد گلہ اختصار می باید کرد
یک کار ازیں دو کار می باید کرد
یا تن برضائے یار می باید داد
یا قطع نظر ز یار می باید کرد

سرمد گلے شکوے کو مختصر کر دے اور ان دو کاموں میں سے ایک کام کر، یا اپنے آپ کو یار کی رضا پر چھوڑ دے، یا (اگر ہو سکے تو) یار سے قطع نظر کر لے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
انتہائی خوبصورت نعتیہ رباعی

اے از رُخِ تو شکستہ خاطر گُلِ سُرخ
باطن ہمہ خونِ دل و ظاہِر گُلِ سرخ
زاں دیر برآمدی ز یُوسُف کہ بباغ
اوّل گُلِ زرد آمد و آخِر گُلِ سُرخ

اے کہ آپ (ص) کے رخ (کے جمال) سے گُلِ سرخ شکستہ خاطر ہے، اُس کا باطن تو سب دل کا خون ہے اور ظاہر گل سرخ ہے۔ آپ (ص) یوسف (ع) کے بعد اس لیئے تشریف لائے کہ باغ میں، پہلے زرد پھول آتا (کھلتا) ہے اور سرخ پھول بعد میں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
از منصبِ عشق سرفرازَم کردند
وز منّتِ خلق بے نیازَم کردند
چو شمع در ایں بزم گدازم کردند
از سوختگی محرمِ رازم کردند

مجھے منصبِ عشق سے سرفراز کر دیا گیا، اور خلق کی منت سماجت سے بے نیاز کر دیا گیا، شمع کی طرح اس بزم میں مجھے پگھلا دیا گیا اور اس سوختگی کی وجہ سے مجھے محرمِ راز کر دیا گیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
صد شُکر کہ دلدار ز من خوشنُود است
ہر دم بہ کرم و ہر نفَس در جُود است
نقصاں بہ من از مہر و محبت نہ رسید
سودا کہ دلم کرد، تمامش سُود است

خدا کا لاکھ لاکھ شکر کہ ہمارا دلدار ہم سے خوش ہے۔ ہر دم اور ہر لحظہ اسکے جوُد و کرم مجھ پر ہیں۔ اس مہر و محبت میں مجھے ذرہ بھر نقصان نہیں پہنچا کہ میرے دل نے جو سودا کیا ہے وہ تمام کا تمام منافع ہی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
آں شوخ بہ من نظر نہ دارَد، چہ کُنَم
آہِ دلِ من اثر نہ دارَد، چہ کُنَم
با آنکہ ہمیشہ در دلم می مانَد
از حالِ دلم خبر نہ دارَد، چہ کُنَم

وہ شوخ ہم پر نظر ہی نہیں کرتا، کیا کروں۔ میرے دل کی آہ کچھ اثر ہی نہیں رکھتی، کدھر جاؤں۔ وہ کہ جو ہمیشہ میرے دل میں جا گزیں ہے، اسے میرے دل کے حال کی کچھ خبر ہی نہیں ہے، ہائے کیا کروں، کدھر جاؤں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ہر چند گل و خار دریں باغ خوش است
بے یار دل از باغ نہ از راغ خوش است
چوں خونِ دلم، لالہ بہ بیں در رنگست
ایں چشم و چراغ نیز با داغ خوش است

ہرچند کہ اس گلستان میں پھول اور کانٹے خوب ہیں لیکن دوست کے بغیر دل نہ گلستان سے خوش ہے اور نہ ہی چمن زار سے۔ دیکھو کہ لالہ کا رنگ میرے دل کے خون کی طرح ہے، لیکن چمنستان کا یہ چشم و چراغ خوبصورت اسی وجہ سے ہے کہ اس کے دل میں بھی داغ ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دُوری نَفَسے مرا از اُو ممکن نیست
ایں یک جہتی بہ گفتگو ممکن نیست
اُو بحر، دلم سبوست، ایں حرفِ غلط
گنجائشِ بحر در سبو ممکن نیست

اس سے ایک لمحے کے لیے بھی دُوری میرے لیے ممکن نہیں، اور یہ یک جہتی باتوں باتوں میں ممکن نہیں۔ وہ سمندر ہے، میرا دل پیمانہ ہے، یہ سب باتیں غلط، کیونکہ سبو میں سمندر کی گنجائش ممکن ہی نہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دلخواہ نہ شد دو چار بارے بہ جہاں
غمخوار نہ دیدیم بکارے بہ جہاں
آں گل کہ دہد بوئے وفا نایاب است
کُن سیرِ خزانے و بہارے بہ جہاں

اس دنیا میں جسے میرا دل چاہتا ہے ایک بار بھی نہیں ملا اور نہ ہی یہاں کوئی غمخوار ملا ہے۔ وہ پھول کہ جس سے بوئے وفا آتی ہو نایاب ہے، چاہے تم اس جہان کی خزاں میں سیر کر لو چاہے بہار میں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
تنہا نہ ہمیں دیر و حرم خانہٴ اُوست
ایں ارض و سما تمام کاشانہٴ اُوست
عالم ہمہ دیوانہٴ افسانہٴ اُوست
عاقل بوَد آں کسے کہ ویوانہٴ اُوست

صرف یہ دیر و حرم ہی اسکے ٹھکانے نہیں ہیں بلکہ یہ تمام ارض و سماوات اسکے کاشانے ہیں۔ ساری دنیا اسکے افسانوں میں کھوئی ہوئی ہے لیکن عقل مند وہی ہے جو صرف اسکا دیوانہ ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سرمد در دیں عجب شکستے کردی
ایماں بہ فدائے چشمِ مستے کردی
با عجز و نیاز، جملہ نقدِ خود را
رفتی و نثارِ بُت پرستے کردی

سرمد تو نے مذہب میں عجب شکست و ریخت کر دی کہ اپنا ایمان ان مست نظروں پر قربان کر دیا اور اپنا سب کا سب (دین و دنیا کا) سرمایہ بُت پرست پر عجز و نیاز کے ساتھ نثار کر دیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
سرمد اگرش وفاست خود می آید
گر آمدنش رواست خود می آید
بیہودہ چرا درپئے اُو می گردی
بنشیں، اگر اُو خداست خود می آید

سرمد اگر وہ با وفا ہے تو خود ہی آئے گا۔ اگر اس کا آنا روا اور ممکن ہے تو وہ خود ہی آئے گا۔ تُو کاہے اسکی تلاش میں مارا مارا پھرتا ہے، آرام سے بیٹھ رہ، اگر وہ خدا ہے تو خود ہی آئے گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
از جُرم فزوں یافتہ ام فضل ترا
ایں شد سببِ معصیتِ بیش مرا
ہر چند گنہ بیش، کرم بیش تر است
دیدم ہمہ جا و آزمودم ہمہ را

میرے گناہوں سے تیرا فضل بہت بڑھ کے ہے اور میرے گناہ اسی وجہ سے زیادہ ہیں۔ ہر چند کہ میرے گناہ بہت زیادہ ہیں لیکن تیرا کرم ان سے بہت ہی زیادہ ہے اور یہی بات میں نے ہر جگہ دیکھی ہے اور یہی بات ہر کسی کا تجربہ ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مشہور شدی بہ دلربائی ہمہ جا
بے مثل شدی در آشنائی ہمہ جا
من عاشقِ ایں طورِ تو ام، می بینم
خود را نہ نمائی و نمائی ہمہ جا

ہر جگہ تیری دلربائی کہ وجہ سے تیرے چرچے ہیں، اور آشنائی میں بھی تو بے مثل ہے۔ میں تیرے انہی طور طریقوں پر عاشق ہوں اور دیکھتا ہوں کہ تُو خود کو عیاں نہیں کرتا اور ہر جگہ عیاں بھی ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ہرچند کہ صد دوست بہ من دشمن شُد
از دوستیِ یکے دلم ایمن شد
وحدت بگزیدم و ز کثرت رستم
آخر من ازو شدم و اُو از من شد

اگرچہ سینکڑوں دوست میرے دشمن بن گئے لیکن ایک کی دوستی نے میری روح کو امن و قرار دے دیا (اور مجھے سب سے بے نیاز کر دیا)۔ میں نے ایک کو پکڑ لیا اور کثرت کو چھوڑ دیا اور آخرِ کار میں وہ بن گیا اور وہ میں بن گیا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
دیوانہٴ رنگینیِ یارِ دگرم
حیرت زدہٴ نقش و نگارِ دگرم
عالم ہمہ در فکر و خیالِ دگر است
من در غم و اندیشہٴ کارِ دگرم

میں کسی اور ہی محبوب کی رنگینی کا دیوانہ ہوں۔ میں کسی اور ہی کے نقش و نگار سے حیرت زدہ ہوں۔ ساری دنیا اوروں کے خیال میں محو ہے جبکہ میں اور ہی طرح کے غموں میں مگن ہوں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
دیوانہٴ رنگینیِ یارِ دگرم
حیرت زدہٴ نقش و نگارِ دگرم
عالم ہمہ در فکر و خیالِ دگر است
من در غم و اندیشہٴ کارِ دگرم

میں کسی اور ہی محبوب کی رنگینی کا دیوانہ ہوں۔ میں کسی اور ہی کے نقش و نگار سے حیرت زدہ ہوں۔ ساری دنیا اوروں کے خیال میں محو ہے جبکہ میں اور ہی طرح کے غموں میں مگن ہوں۔
واہ جی واہ ۔کیا ہی عجیب روانی ہے لہجے میں۔۔۔۔۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اے جلوہ گرِ نہاں، عیاں شو بدر آ
در فکر بجستیم کہ ہستی تو کجا
خواہم کہ در آغوش وکنارت گیرم
تاچند تو در پردہ نمائی خود را

اے تو کہ جو پردوں کے پیچھے ہے، ظاہر ہو اور سامنے آ، میں اسی فکر میں سرگرداں رہتا ہوں کہ تیری ہستی کیا ہے۔ میری خواہش ہے کہ تیرا وصال ہو اور میں تجھے چھوؤں اور اپنی آغوش میں لوں، یہ پردوں کے پیچھے سے اپنے آپ کو نمایاں کرنا کب تک۔
 
Top