ذِکر ایک صُوفی کا

بابا-جی

محفلین
صُوفی تبسم کی افسانوی دُنیا میں یِہ بھی مُمکن ہے کِہ ناؤ میں ندی ڈُوب جائے، چیونٹی ہاتھی کی مُرمت کرتی پھرے اور شیر میاں بی بکری کے ہمراہ ایک گھاٹ پر پانی پیتے پائے جائیں۔ بچوں کے لیے نظموں کا افسانوی ماحول ایسی ہے کِہ آدھی رات کو چاند اور سُورج بادل کے گھر آتے ہیں تو بجلی جھٹ سے دروازہ کھول کر اُنہیں پریشانی میں مُبتلا کر دیتی ہے۔ کہیں ثریا کی گڑیا نہاتے نہاتے ڈُوبنے لگ جاتی ہے تو اُسے بڑی مشکل سے کنارے پر لایا جاتا ہے اور کہیں مُنا کھیرا چاقُو سے چیرتا ہے تو یِہ ایک واقعہ بن جاتا ہے۔ بلی کو سمجھانے کے لیے کئی ہزار چُوہے دوڑتے بھاگتے پہنچ جاتے ہیں اور مانو بلی ایک بات بھی مانے نہیں دیتی۔ کہیں تیتر اور بٹیر کی لڑائی میں ایک کی چونچ اور ایک کی دُم غائب ہو جاتی ہے۔

پطرس بخاری صُوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی کتاب 'جھولنے' کے دیپاچہ میں رقم طراز ہیں،

ایسی ہلکی پھلکی کتاب پر جو چھوٹے بچوں کے لیے لکھی گئی ہے، دیباچے کا بوجھ نہ پڑنا چاہیئے تھا۔ لیکن بچوں کے ساتھ قدرت نے والدین کی اور انسان کے ساتھ استاد کی پخ بھی لگا رکھی ہے۔ صوفی تبسم کو جو مصنف ِ کتاب ہونے کے علاوہ "والدین" بھی ہیں اور استاد بھی، یہ گوارا نہ ہوا کہ بچوں کو تو بہلایا جائے اور والدین اور استادوں کی پروا نہ کی جائے۔ اس لئے قرار پایا کہ وہ بچوں کو نظمیں سنائیں اور میں والدین کو باتوں میں لگائے رکھوں۔
بچوں کا بہلانا سہل ہے، بڑوں کا بہلانا سہل نہیں۔ بچوں نے تو یہ پڑھا کہ ٍ"چیچوں چیچوں چاچا۔گھڑی پہ چوہا ناچا" اور خوش ہو لئے۔ بڑے کہیں گے چیچوں ہم نے تو کسی لغت میں دیکھا نہیں اور اگر چاچا سے مراد چچا ہے تو یہ شائستہ لوگوں کی زبان نہیں۔ اور یہ گھڑی پہ چوہا ناچا تو آخر کیوں؟ اور بہر حال اس تک بندی کا نتیجہ کیا؟ اس سے بچوں کو کون سا سبق حاصل ہوا؟

یہ سب سوال نہایت ہی ذمہ دارانہ ہیں۔ بالفاظ دیگر ان لوگوں کے سوال ہیں جو اپنا بچپن بھلا بیٹھے ہیں۔ یا جو یہ تہیہ کیے بیٹھے ہیں کہ جن باتوں سے ان کا بچپن رنگین ہوا تھا وہ اس دنیا میں اب نہ دہرائی جائیں گی۔تک ملانا بے فائدہ بات ہے۔ بوجھوں مارنا چاہیے۔

خدا کا شکر ہے، صوفی تبسم کو ایک ایسی دانائی عطا ہوئی ہے کہ وہ نادانی کی لذت سے ابھی محروم نہیں ہوئے۔ وہ جانتے ہیں کہ بچوں کا ذہن وہ عجیب و غریب دنیا ہے جس میں پیڑوں پر ناگ ناچتے ہیں اور بلیاں بیر کھاتی ہیں اور ٹر ٹر موٹر۔ چھم چھم ٹم ٹم میں آہنگ اور لے کی وہ تمام لذتیں سما جاتی ہیں جو بڑے ہو کر تان سین کی کرامات سے بھی حاصل نہیں ہوتیں۔ یہ وہ دنیا ہے جس میں گڑیاں اور جانور اور پرندے اور انسان سے ایک دوسرے کے دوست ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک رہتے ہیں۔ گویا سب مخلوق ایک ہی خدا کی مخلوق ہوتی ہے۔ بڑے ہو کر ذہن انسانی ہزار فلسفیانہ کشمکش اور خیال آفرینی کے بعد بھی مشکل سے اس سطح پر پہنچا ہے۔


صُوفی غلام مُصطفیٰ تبسم ہمہ جہت شخصِیت تھے۔ بچوں کے لیے لافانی کردار تخلِیق کِیے جِس میں بالخصُوص ٹوٹ بٹوٹ کا کِردار بچوں کی اُردو نظموں کے حوالے سے خصوصی شناخت رکھتا ہے اور اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں بھی ان کرداروں کی مقبولیت قائم و دائم ہے۔

شاعر بھی کمال کے تھے، مگر اِس حوالے سے کم معروف رہے۔ مُجھے تو اُن کی شاعری جان دار لگتی ہے۔

چند اشعار بطور حوالہ:

دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے
آغاز بھی رسوائی ِ ِ ِ ِ ِ انجام بھی رسوائی

۔ ۔ ۔

حسن کا دامن پھر بھی خالی
عشق نے لاکھوں اشک بکھیرے

۔ ۔ ۔

ایسا نہ ہو یہ درد بنے درد لا دوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو


وطن کی محبت سے سرشار تھے اور جنگ کے سائے منڈلائے تو صُوفی صاحب نے حُب الوطنی کے جذبات سے مغلوب ہو کر ایسے قومی و ملی نغمات تخلیق کیے۔
میرا ڈھول سپاہیا
اے پتر ہٹاں تے نئیں وِکدے
۔ ۔ ۔

اُردو اور فارسی کے علاوہ پنجابی زبان پر بھی عُبور رکھتے تھے اور مترجم تو غضب کے تھے۔ غالب کی فارسی غزل کا پنجابی ترجمہ خاصے کی چیز ہے جِسے اُستاد غلام علی نے گا کر گویا امر ہی کر دِیا۔ سُنی تو ہو گی نا!

میرے شوق دا نیں اعتبار تینوں ۔۔۔۔۔ آ جا ویکھ میرا انتظار آ جا
اینوں لڑن بہانڑے لبھناایں ۔۔۔۔۔۔کی تو سوچناایں سِتمگار آ جا

بھانویں ہجرتے بھانویں وصال ہووئے ۔۔۔۔ وکھووکھ دوہاں دیاں لذتاں نیں
میرے سوہنئیا جا ہزار واری ۔۔۔۔۔آ جا پیاریا تے لکھ وار آجا

ایہہ رواج مسجداں مندراں دا ۔۔۔۔۔ اوتھے ہستیاں تے خود پرستیاں نے
میخانے وِچ مستیاں ای مستیاں نیں ۔۔۔۔۔ ہوش کر بن کے ہُشیار آ جا

تُوں سادہ تے تیرا دل سادہ ۔۔۔۔۔ تینوں اینویں رقیب کُراہ پایا
جے تو میرے جنازے تے نیں آیا ۔۔۔۔۔راہ تکدا تیری مزار آ جا

سُکھیں وسنا جے تُوں چاہونا ایں ۔۔۔۔ میرے غالبا ایس جہان اندر
آجا رنداں دی بزم وِچ آ بہہ جا ۔۔۔۔ ایتھے بیٹھ دے نیں خاکسار آ جا

---

حکومتِ پاکستان نے ستارہء امتیاز اور تمغہ حُسن کارکردگی سے نوازا تو ایران کی حکومت نے نشانِ سپاس عطا کیا مگر ایسے عالی مغز کے لیے ایوارڈز کی کُچھ خاص اہمیت نہیں ہے۔

ادارت کی طرف آئے تو ماہنامہ لیل و نہار کے مُدیر بنے، شعبہء تدریس سے وابستہ ہوئے تو گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ اردو اور شعبہ فارسی کے سربراہ مُقرر ہوئے۔ فیض احمد فیض، قدرت اللہ شہاب، اشفاق احمد، بانو قدسیہ اور حنیف رامے و دیگر کے اُستاد رہے۔

اور آخر میں، اُن کی ایک غزل۔

سو بار چمن مہکا، سو بار بہار آئی
دنیا کی وُہی رونق، دِل کی وُہی تنہائی
 
آخری تدوین:
Top