دیوان غالب

الف عین

لائبریرین
میں ہوں مشتاقِ جفا، مجھ پہ جفا اور سہی
تم ہو بیداد سے خوش، اس سے سوا اور سہی
غیر کی مرگ کا غم کس لئے، اے غیرتِ ماہ!
ہیں ہوس پیشہ بہت، وہ نہ ہُوا، اور سہی
تم ہو بت، پھر تمھیں پندارِ خُدائی کیوں ہے؟
تم خداوند ہی کہلاؤ، خدا اور سہی
حُسن میں حُور سے بڑھ کر نہیں ہونے کی کبھی
آپ کا شیوہ و انداز و ادا اور سہی
تیرے کوچے کا ہے مائل دلِ مضطر میرا
کعبہ اک اور سہی، قبلہ نما اور سہی
کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں ہے، واعظ!
خلد بھی باغ ہے، خیر آب و ہوا اور سہی
کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں، یا رب
سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی
مجھ کو وہ دو کہ جسے کھا کے نہ پانی مانگوں
زہر کچھ اور سہی، آبِ بقا اور سہی
مجھ سے غالب یہ علائی نے غزل لکھوائی
ایک بیداد گرِ رنج فزا اور سہی
 

الف عین

لائبریرین
عجز و نیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر
دامن کو اس کے آج حریفانہ کھینچیئے

مستعدِ قتلِ یک عالم ہے جلاّدِ فلک
کہکشاں موجِ شفق میں تیغِ خوں آشام ہے

نہ حیرت چشمِ ساقی کی، نہ صحبت دورِ ساغر کی
مری محفل میں غالب گردشِ افلاک باقی ہے

زندانِ تحّمل ہیں مہمانِ تغافل ہیں
بے فائدہ یاروں کو فرقِ غم و شادی ہے
 
Top