دیئے گئے لفظ پر شاعری - دوسرا دور

شمشاد

لائبریرین
میری سوچوں سے مدینہ کی مسافت ہے طویل
میں ہوں اور خستہ تنی ہے مرے مکی مدنی
(رام ریاض)

سوچ
 

شمشاد

لائبریرین
طوافِ منزلِ جاناں، ہميں بھی کرنا ہے
فراز تم بھی اگر، تھوڑی دور ساتھ چلو
(احمد فراز)

منزل
 

شمشاد

لائبریرین
اس در سے بہے گا تری رفتار کا سیماب
اُس راہ پہ پھولے گی شفق تیری قبا کی
(فیض احمد فیض)

شفق
 

شمشاد

لائبریرین
بکھراتے ہو سونا حرفوں کا، تم چاندی جیسے کاغذ پر
پھر اِن میں اپنے زخموں کا، مت زہر ملاؤ انشا جی
(قتیل شفائی)

زخم
 

الف عین

لائبریرین
کبھی دل بھی نہیں، اک زخم ، آنکھوں کی جگہ آنسو
کبھی میں بھی نہ تھا، بس ڈائری میں شعر لکھا تھا
مابدولت


ڈائری!!!
 

عثمان رضا

محفلین
یاد ہے میں کیا تھا‘ پر اب جانے کیا ہو گیا
آئینے میں شکل دیکھے زمانہ ہو گیا

ختم ہوئی ڈائری‘ گرتے ہوے پتے ریاض
آ گیا ماہِ دسمبر‘ سال بوڑھا ہو گیا۔۔

بوڑھا
 

شمشاد

لائبریرین
خواتین و حضرات کوئی آسان اور عام فہم سا لفظ دیا کریں کہ کھیل چلتا رہے۔

اب میں “بوڑھا“ کس شعر میں لاؤں؟ :confused:
 

سارہ خان

محفلین
عشق اک مجنون بوڑھا دیوتا
ناشناسائی پہ حیراں
بے حسی پر سخت نالاں دہر کی
ہاتھ میں اک لے کے پڑیا زہر کی
بال بکھرائے
سمیٹے دھجیاں ملبوس کی
پاؤں میں پہنے ہوئے زخموں کی نعلینِ کہن
پتھروں کو کھٹکھٹاتا پھر رہا ہے
ڈالتا پھرتا ہے نظریں قہر کی
اپنے جھولے میں لیے کچھ بت پرانے
اور کچھ گڑیاں کسی بیتے زمانے کی
نہ جانے زیر لب کیا بڑبڑاتا پھر رہا ہے
بے خبر ہے اپنی حالت سے
خلقت ہنس رہی ہے ہر گلی کے موڑ پر
اور سن رہا ہے سسکیاں بھی فطرت نمناک کی
پر بیچ رستوں کی لگامیں تھام کر بھی
کائناتوں تجردّ انگلیوں سے باندھ کر بھی
دل میں کوئی غم چھپائے پھر رہا ہے
وقت کی دھڑکن پہ رکھتا اپنے قدموں کے نشاں
چکرا رہا ہے
اڑتے پھرتے کاغذوں پتوں پروں کے درمیاں
ہنس رہا ہے
روتے روتے
رو رہا ہے ہنستے ہنستے
پتھروں، پتھر گروں کے درمیاں
عشق اک مجنون بوڑھا دیوتا
ہاتھ میں اک لے کے پڑیا زہر کی

شاعر نا معلوم

حیراں
 

شمشاد

لائبریرین
یہ تو تم نے پوری نظم ہی لکھ ڈالی۔ اچھا کیا۔
-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-


جسم دمکتا، زلف گھنیری، رنگیں لب، آنکھیں جادو
سنگِ مرمر، اودا بادل، سرخ شفق، حیراں آہو
(جاوید اختر)

زلف
 

شمشاد

لائبریرین
نہ پوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتش
برستی آگ، جو باراں کی آرزو کرتے
(خواجہ حیدر علی آتش)

آگ
 

شمشاد

لائبریرین
سنسان راہیں خلق سے آباد ہو گئیں
ویران میکدوں کا نصیبہ سنور گیا
(فیض احمد فیض)

میکدہ
 

شمشاد

لائبریرین
آواز میں ٹھہراؤ تھا آنکھوں میں نمی تھی
اور کہہ رہا تھا کہ میں نے سب کچھ بھلادیا
(نامعلوم)

آواز
 
Top