دہشت گردی اور مدرسے

نبیل

تکنیکی معاون
اس سے پہلے کہ اس موضوع پر بحث دوبارہ چھڑ جائے ،میرے خیال میں اس موضوع کو مقفل کر دینا چاہیے۔ یہ موضوع ہمارے دوست زکریا کے والد صاحب افتخار اجمل بھوپال صاحب نے شروع کیا تھا اور اس کے بعد وہ دوبارہ ہماری فورم پر نہیں آئے۔ چند روز قبل مہوش علی جب اس فورم پر رجسٹر ہوئیں تو انہوں نے اس موضوع پر نئے سرے سے گرماگرم بحث کا آغاز کر دیا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر افتخار اجمل صاحب نے اگر اسے آج سے دو مہینے بعد بھی دیکھا تو اسی پوائنٹ سے بحث شروع کریں گے۔ اسی لیے میں اس موضوع کو مقفل کر دینا چاہتا ہوں اگر کسی کو کوئی اعتراض نہ ہو تو۔
 

جیسبادی

محفلین
فورم کا بنیادی مقصد بحث اور اظہارِ خیال ہی ہوتا ہے۔ اگر کوئی مزید بحث کرنا چاہتا ہے تو کرنے دیں۔ گرما گرمی سے گھبرانا کیسا۔ ہر شخص اپنی تحریر کا خود ذمہ دار ہے۔ کسی کے خیالات سے منتظمین کا متفق ہونا ضروری تو نہیں۔
 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رجسٹریشن کی کہانی ماضی کی زبانی
السلام علیکم :۔ دوستو! میں پہلی مرتبہ آپ کی محفل میں حصہ لے رہا ہوں۔ رجسٹریشن کا جو حکومت نے ڈرامہ کھڑا کیا ہوا ہے اس کے بارے میں بات ہو رہی ہے ہر کوئی اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہے۔ میں نے بھی سوچا کیوں نہ ماضی کو دیکھا جائے تا کہ پتہ چلے کہ معاملہ ہے کیا۔

بات مدراس کی رجسٹریشن کی ہوئی کیوں کیا اس وجہ سے کہ مدارس دہشت گردی کا منبہ ہیں ، یا فرقہ واریت کی اشاعت کرتے ہیں۔ اگر یہی وجہ تھی تو دہشت گردی آج سے تھوڑی ہو رہی ہے۔ ٨٠ کی دہائی کے اوئل یا وسط سے یہ کام شروع ہے اور بڑے شد مد سے ہوتا رہا۔ غلام حکمران سوتے کیوں رہے۔ (غلام حکمران کی وضاحت بعد میں کروں گا) یہ کام جاری رہا جاری رہا۔ اور جاری بھی حکومت کی سرپرستی سے رہا۔ صرف غلام حکمرانوں کی خواہش ہی شامل نہیں تھی بلکہ ان کے آقا بیرونی حکمران ان سے ایسا کرنے کا تقاضا کرتے تھے۔ کیونکہ یہ دنیا کے دو بلاکوں کی جنگ تھی۔ روس کے خلاف یہ امریکا کی جنگ تھی جو افغانستان کی سر زمین پر لڑی جاتی رہی۔ جس کا ایندھن بدقسمت پاکستانی بنتے تھے۔ پاکستان کی غلام حکومتوں نے اپنے آقا امریکاکے اشارےپر جہادی آرگنائزیشن کو فیڈ کرنا شروع کر دیاتا کہ یہ پاکستانی جہادی افراد روس کا ناک زمین کے ساتھ مل سکیں۔ امریکا اشارہ کرتا اور پاکستان جہادی طاقتوں کو محاذ پر پہنچا دیتا۔ جہاد اسلامی، حرکت المجاہدین، حرکت النصار یہ ساری بالواسطہ طور پر امریکا کے لئے کام کرتی رہیں۔ اور پاکستانی سکیورٹی کے ادارے ان کی تربیت کرتے رہے۔ مشرف نے خود اپنی تقریر میں کہا تھا کہ مغرب، مجاہدین کو اکٹھا کرتا اور ان کی تربیت پاکستان کے ذریعے کروا کر افغانستان بھجوا دیتا۔
یہ جہادی تنظیمیں صرف افغانستان تک ہی محدود نہیں رہیں بلکہ انہوں نے اپنے مقاصد کے لئے پاکستان کی سرزمین پر بھی قدم جمانے شروع کر دئیے۔ انہوں نے افغانستان سے خالد بن ولید کیمپ سے ٹریننگ حاصل کرنا شروع کر دی اور آکر پاکستان میں کاروائیاں کرنی شروع کر دیں، کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق یہاں بھی کافر بستے ہیں۔ مسجدوں اور امامبارگاہوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ کون نہیں جانتا یہ خالد بن ولید کیمپ پاکستان کے سیکورٹی کے اداروں کے انڈر کام نہیں کرتا رہا۔ اور یہ بھی کون نہیں جانتا کہ قاتل ریاض بسرا اسی کیمپ کا تربیت یافتہ ہے بلکہ وہاں سےمختلف گروپوں کی ٹریننگ کے اختتام پر گارڈ آف آنر حاصل کرتا تھا۔
قتل و غارت گری کا پاکستان میں فرقہ واریت کے نام پر بازار گرم رہا۔ یہاں تک سب خوش تھے۔ امریکا بھی۔ پاکستانی سیکورٹی ادارے بھی۔ جہادی طاقتیں بھی۔ پاکستان میں بس بے نام سے افراد مساجد اور امامبارگاہوں میں عبادت کرتے ہوئے قتل ہو جاتے۔ ان کا نوحہ کون سننے والا تھا۔ کون غلام حکومتوں تک ان کو آہ و زاری پہنچانے والا تھا۔ بس یہ تھا کہ سب خوش تھے۔
پھر وہاں سے روس کے انخلا شروع ہو گیا۔۔ اب امریکا کسی حد تک لاتعلق ہو گیا۔ روس ٹوٹ چکا تھا۔ مگر جہادی طاقتیں بدستور کام کرتی رہیں۔ پاکستان کو ابھی ان کی ضرورت تھی۔ نو آزاد ریاستوں تک مغربی تاجر رسائی چاہتے تھے۔ ان کو کم از کم ایک محفوظ شاہراہ چاہیے تھی جو ان کو آزاد ریاستوں تک پہنچا سکے۔ بے نظیر نے اپنے وقت کے وزیر داخلہ کو یہ ٹاسک سونپا کہ کم از کم ایک شاہراہ مجھ کو محفوظ چاہیے جس پر افغانستان میں سفر کے کے روس کی نو آزاد ریاستوں تک پہنچا جا سکے۔
بس کام شروع ہوا اور سیکورٹی اداروں نے پھر سے توڑ جوڑ شروع کی۔ طالبان کو معرض وجود میں لایا گیا۔ ابھی یہ دہشت گرد نہیں تھے۔ غلام حکومت کے یہ بڑے قابل فخر دوست تھے۔
امریکا بھی اس گیم میں انوالو ہو گیا۔
فاروق لغاری کا بیان بڑا قابل غور ہے ، فاروق لغاری کہتا ہے کہ
(فاروق لغاری ان دنوں صدر تھا ) میں نے بےنظیر کو کہا کہ کیوں طالبان کی سپورٹ کی جا رہی ہے۔ ظاہر شاہ کو کیوں نہیں لاتے۔(قبائلی حوالے سے فاروق لغاری پرو ظاہر شاہ تھا) بے نظیر نے کہا کہ امریکا چاہتا ہے کہ شیعہ سٹیٹ کے مقابلے میں سنی سٹیٹ کو لایا جاے۔
تو دوستو! پاکستان میں سیکورٹی اداروں کے تعاون سے یہ کھیل جاری تھا نہ کوئی ان دنوں دہشت گرد تھا۔ نہ ان دونوں مدارس کی رجسٹریشن کا چکر تھا بلکہ بے نظیر نے تو رجسٹریشن کا چکر ہی ختم کر دیا۔ کہ کھل کر کھیلو۔
ملا عمر نے پاکستانی علما سے گذارش کی بامیان اور وادی پنج شیر کو فتح کرنے کے لئے میری مدد کی جائے پھر کیا تھا۔ پورے پاکستان میں جہاد کی کال دی گئی۔اکوڑہ خٹک کے مدرسہ سے اور اس سے الحاق شدہ مدارس سے تقریبا دس ہزار مجاہدین جہاد کے لئے اور افغانستان کی سرزمین پر مخالفوں کو قتل کرنے نکلے۔ بنوری ٹاون سے ٤ ہزار طلبہ جہاد پر گئے
حوالے کے لئے دیکھیں کتاب (طالبان)
کوئی پاکستانی سیکورٹی ادارہ نہیں بولا۔ سب خاموش تھے۔
پاکستان میں صرف چند افراد روتے پیٹتے مل جاتے جو اس کا شکار ہو رہے تھے۔ طالبان طاقت حاصل کرتے رہے۔ پاکستانی ایجنسیز فیڈ کرتی رہیں۔ باہر سے پیسہ ان کو ملتا رہا۔ پھر ناین الیون کا واقعہ ہو گیا۔
بس مسئلہ یہیں سے خراب ہو گیا۔ کل کے دوست ۔ آج کے دشمن ہو گئے۔ وہی مدارس جن کو جہادی افراد پرڈیوس کرنے پر لگایا ہوا تھا اب وہ دشمن نظر آنے لگے۔ اب اکوڑہ خٹک کے افراد جو روس کے خلاف جہاد کرتے تھے اب وہ امریکا کے خلاف بولنے لگے ۔اب یہ مقدس ماب دینیئل پرل کو قتل کرنے لگے تھے اب پاکستان میں جو طوفان ایا دہشت گردی کے نعروں کا ۔ بھئی تم پاکستانی افراد کو تو قتل کرتے تھے ہم نہیں بولتے تھے کیونکہ تم ہمارے ہی مقاصد حاصل کرتے تھے۔ ہم تمھاری گورنمنٹ کو بھی نہیں بولنے دیتے تھے۔ یہ کیا اب تم ہمارے ہی ہاتھوں سے پلے ہونے کے باوجود ہم ہی کو مارو گے۔ اب امریکا بہادر کو اس پر غصہ آیا۔ بلکہ غلام حکومت ، غلام اسٹبلشمنٹ کو بھی غصہ آیا کہ بھئی ہماری بلی اور ہمیں میاوں،
اب کوئی ایسا چکر چلانا چاہیے کہ ان مدارس کو زیر کیا جا سکے۔ اوپر سے (امریکا) اسٹریٹجی بن کر آئی کہ ان کو رجسٹریشن کرواو، ابھی بولتی بند ہو جائے گی سب کی۔ بس پھر کیا تھا ۔ غلام حکومت نے نعرہ لگایا اور میدان میں آ گئی۔
صاحبو! یہ تھی رجسٹریشن کی کہانی ماضی کی زبانی۔
فی الحال فرصت نہیں کہ غلام حکومتوں کے بارے میں بھی کوئی کہانی سناوں آئندہ پر اٹھا رکھتا ہوں، اگر موقع ملا اور دوستوں نے کوئی ناراضگی کا اظہار نہ کیا تو۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
سلطان ٹیپو صاحب، ہمیں کوئی ناراضگی نہیں کسی بات کی بھی۔ آپ شوق سے ہمیں کہانیاں سنائیں، لیکن بہتر ہوگا اگر تعارف والی فورم میں اپنے متعلق کچھ بتاتے جائیں۔ کافی پراثر تحریر ہے آپ کی، پڑھ کر مزا آیا۔ بس ذرا خبردار رہیے گا، ہمارے یہاں ایک محترمہ مہوش علی ہوتی ہیں، اس موضوع پر اب تک ان کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکا۔ :wink:
 
السلام علیکم
ارے نبیل بھیا! کہانیوں میں حقائق اکثر کم ہی ہوتے ہیں۔ اگر آپ میری ہیڈنگ (سرخی، کہہ دینا بہتر ہے کوئی اردو دان لٹھا لے کر پیچھے ہی نہ پڑھ جاے) کی وجہ سے کہہ رہے ہیں تو مہربانی تصحیح کر لیں کے یہ سارے حقائق پر مشتمل تھی۔ اور جہاں تک آپ نے خبردار کرنے کی بات کی تو بھیا
صلاح عام ہے یاران نقطہ داں کےلئے۔
جہاں تک تعارف کی بات ہے۔ تو سچی بات ہے ابھی تک مجھ کو اس ویب سائیٹ کے سارے عقدے نہیں کھلے۔
زندہ رہیں، خوش رہیں۔ آپ یقینا اردو ادب کو ڈیجیٹلائز(معذرت دوستو! اس اصطلاح کااردوترجمہ تلاش نہیں کر سکا۔) کرنے کےلئے قوم و ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔ انشااللہ ائندہ حاضر ہوتا رہوں گا۔
والسلام
سلطان ٹیپو
 

نبیل

تکنیکی معاون
سلطان ٹیپو، بھائی ہم نے سیدھی سادی فورم بنائی ہے، اس میں عقدے نہ کھلنے والی کونسی بات ہے۔ آپ مناسب سمجھیں تو اپنا تعارف کرائیں ورنہ جیسا آجکل نیٹ پر فیشن ہے، اپنی شخصیت کو پردہ راز میں بھی رکھ سکتے ہیں۔ آپ شوق سے ان موضوعات پر طبع آزمائی فرمائیں، ہماری طرف سے کوئی قدغن نہیں ہے۔ ویسے پہلے ہی کافی طویل بحث ہو چکی ہے اس موضوع پر، اگر اسے پڑھ لیں تو بہتر ہوگا۔ اس سے اس میں ضرور مدد ملے گی کہ آپ کوئی نیا نکتہ اٹھا سکیں۔ یہ محض ایک عاجزانہ مشورہ تھا جسے قبول کرنا نہ کرنا آپ کے اختیار میں ہے۔

ڈیجیٹلائز کرنے کا قریب ترین ترجمہ میرے خیال میں برقیانا ہوگا۔ ہمم۔۔اس سے یوں تاثر ملتا ہے جیسے کتابوں کو بلینڈر جیسی کسی مشین میں ڈال کر برقیایا جا رہا ہو۔ :p
 

الطاف

محفلین
اصل دھشتگرد بُش و بلیر

عرفان صاحب صحیح فرمایا کہ مدرسے میں دھشتگردی نہی اصل دھشتگرد وائٹ ھاوس میں ھے۔ اصل دھشتگرد بُش، بلیر اور شارون ھے جو معصوم فلسطینی، عراقی، افغان اور کشمیری مسلمانوں کے قتل میں مشغول ھے۔ اللہ تعالے ان سب کو برباد کرے۔
 
Top