دہشت گردی اور اس کی وکالت کرنے والے.

مہوش علی

لائبریرین
اس مضمون میں بہت زیادہ باتیں وہ ہیں جن سے میں مکمل متفق ہوں۔

دہشت گردی اور اس کی وکالت کرنے والے.....سویرے سویرے…نذیرناجی
http://search.jang.com.pk/details.asp?nid=319729


پہلے سوچیں مسمار ہوتی ہیں۔ پھر معاشرتی رشتے مسمار ہوتے ہیں۔ نظام اخلاقیات مسمار ہوتا ہے۔ اعتبارات مسمار ہوتے ہیں۔ادارے مسمار ہوتے ہیں اور پھر ریاست مسمار ہو جاتی ہے۔ ہم نے اپنا ملک معرض وجود میں آنے کے صرف 23 سال بعد یہ سارا عمل نہ صرف ہوتے ہوئے دیکھا بلکہ اسے جھیلنے کے اذیت ناک تجربے سے بھی گزرے ہیں۔ 69ء میں باقاعدہ ایک وزارت قائم کر کے سوچوں کی مسماری کا عمل شروع کیا گیا۔ اطلاعات و نشریات کی وزارت میں ایک شعبہ قومی سلامتی کے امور کے نام سے قائم کیا گیا۔ جس نے دیکھتے ہی دیکھتے سارے میڈیا اور رائے عامہ کی ساری ان آوازوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جو کہیں بھی سنائی دیتی تھیں۔ ان آوازوں نے ایسی تمام سوچوں کو مسمار کرنا شروع کر دیا جن میں کوئی دلیل‘ منطق‘ سوجھ بوجھ‘ دانش یا دور اندیشی پائی جاتی تھی۔ دلائل کو مذہبی حوالوں‘ فریب کاری پر مبنی حب الوطنی کے بناؤٹی جذبوں‘ مصنوعی قوم پرستی کے تصورات اور نفرت پر مبنی سیاست سے آلودہ کر کے ایسی فضا پیدا کر دی گئی‘ جس میں عام آدمی کے لئے سچائی تک پہنچنا ناممکن ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کے کروڑوں عوام کو غدار قرار دے دیا گیا۔ ان کے حق میں آواز اٹھانا حب الوطنی کے منافی ٹھہرا۔ ان کی منتخب قیادت کو غدار کہہ کر مسترد کر دیا گیا اور جس کسی نے ان کے حق اقتدار کو تسلیم کرنے کی بات کی‘ اسے جیل میں ڈال دیا گیا۔ ان میں ہمارے بزرگ عبداللہ ملک بھی شامل تھے۔ میں نے مشرقی پاکستان کے عوام پر فوج کشی کے منصوبے کی مخالفت کی تو اس وقت مغربی پاکستان کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ٹکا خان نے مجھے غیرمحبت الوطن لکھا۔ بعد میں انہی کی قیادت میں ڈھاکہ پر فوج کشی کی گئی۔ آج اس فضا کو یاد کر کے کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ کیا ہم سب پاگل ہو گئے تھے؟ ہم بحیثیت قوم سچائی دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئے تھے؟ اگر انتخابات نہ ہوتے تو یقین جانیئے کہ ہم چند لوگ جو سچائی تک پہنچنے کی جستجو میں رہتے تھے۔ اندھیروں کے سامنے بے بسی محسوس کرنے لگے تھے۔ ہمیں اپنے آپ پر شک ہونے لگا تھا۔ ایسے محسوس ہوتا تھا جیسے شاید ہم ہی غلط ہوں اور جسے ہم جھوٹ کا کارخانہ سمجھ رہے ہیں۔ شاید وہی سب کچھ ٹھیک ہو۔ لیکن جب انتخابات منعقد ہوئے تو ہم کیا؟ ان میں کامیاب ہونے والے بھی حیرت زدہ رہ گئے۔ پاکستان کے عوام نے ریاست‘ میڈیا اور رائے عامہ کی نمائندگی کا ڈھونگ رچانے والی ساری طاقتوں کے مسلط کئے ہوئے‘ فریب کاریوں کے تانے بانے کو ادھیڑ کے رکھ دیا۔ جنہیں غدار کہا گیا ہوا تھا وہ 90 فیصد سے زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ اور جنہیں کافر کہا گیا تھا مغربی پاکستان کے عوام کی بھاری اکثریت نے انہیں منتخب کر لیا۔ عوام کے اس فیصلے کو تسلیم کرنے کے بجائے‘ مقتدر قوتوں نے میڈیا اور سنگینوں کے بل بوتے پر کچلنے کا فیصلہ کر لیا۔ سنسر نافذ کر دیا گیا۔ آزادی صرف انہیں حاصل تھی‘ جو جھوٹ ‘ فریب اور ظلم کی طاقتوں کے ترجمان بنے ہوئے تھے۔جس کسی نے سچ لکھنے کی کوشش کی اسے شرمندہ اشاعت ہونے کا موقع نہیں گیا گیا۔ زبانیں بند تھیں۔ قلم گنگ تھے۔ مشرقی پاکستانی عوام کا خون بہانے والوں کے قصیدے لکھے جا رہے تھے اور جو لوگ یہ کہنے کی جسارت کرتے کہ ان مظالم کے نتیجے میں ملک کا بچنا محال ہو جائے گا۔ ان کے خلاف میکاولیانہ دہشت گردی شروع کر دی جاتی۔ کچھ خوف زدہ ہو کر بیٹھ گئے اور جو اس کے باوجود آواز اٹھانے کے گنہگار ہوئے ‘لائق تعزیر ٹھہرے۔
آج زمانہ بھی مختلف ہے۔ حالات بھی مختلف ہیں۔ جھوٹ بھی اور طرح کے ہیں۔ سچائیاں بھی اور طرح کی ہیں۔ لیکن مذہب ‘ جذباتیت‘ دلیل و منطق کی پامالی اور سچ لکھنے کی کوشش کرنے والوں کی کردار کشی کے انداز وہی ہیں‘ جن کا مشاہدہ ہم نے تاریکی کے اس دور میں کیا تھا۔ اس وقت ساری دنیا اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے‘ ان دہشت گردوں کی مذمت کر رہی تھی۔ جنہوں نے مشرقی پاکستان کے عوام پر فوج کشی کی تھی اور یہاں مغربی پاکستان میں بیٹھے ہوئے ہم سب لوگ ان دہشت گردوں کے خلاف آواز اٹھانے سے قاصر تھے۔ ہمیں بتایا جا رہا تھا کہ ساری دنیا جھوٹی اور گمراہ ہے۔ سچے صرف وہ دہشت گرد ہیں جو مشرقی پاکستان میں اپنے ہی بھائیوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں اور آج فاٹا کی کمین گاہوں میں بیٹھے چند دہشت گرد‘ ساری دنیا میں اسی طرح بے گناہوں کو مارنے کے منصوبے بناتے ہیں‘ جیسے 1970ء میں اسلام آباد کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے دہشت گرد‘ مشرقی پاکستان کے بے گناہوں کو مارنے کے لئے بنایا کرتے تھے۔ اس وقت بھی ہم نے اسلام اور حب الوطنی کے نام پر ان دہشت گردوں کی وکالت ہوتے دیکھی اور آج پھر ایک نئی طرز اور نئی ڈکشن کے ساتھ فاٹا میں بیٹھے دہشت گردوں کی وکالت ہوتے دیکھتے ہیں۔ آج پھر دنیا دہشت گردوں کی مخالفت کر رہی ہے۔ مگر ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ دنیا جھوٹ بول رہی ہے۔ امریکہ‘ سپین‘ برطانیہ اور اٹلی میں دہشت گردی کا شکار ہونے والے اسی انجام کے مستحق تھے۔ کیونکہ وہ سب اسلام کے دشمن ہیں۔ چونکہ امریکہ نے افغانستان اور عراق پر حملہ کیا۔ اس لئے ہم پر واجب ہے کہ ہم امریکہ اور یورپ والوں کو دنیا میں ہر جگہ نشانہ بنائیں‘ خواہ وہ جارحیت کے حامی ہیں یا مخالفین۔ بات یہیں تک رہتی تو ٹھیک تھا۔ لیکن دہشت گردوں نے ہماری طرف بھی اپنا رخ کر لیا اور گذشتہ چند سال کے دوران جتنے پاکستانی اور مسلمان بے گناہوں کا خون بہایا گیا۔ ان کی تعداد یورپ اور امریکہ میں مارے گئے کافروں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اس کے باوجود ہمیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ درست موقف رکھتے ہیں۔ سارا قصور امریکہ کا ہے۔ اگر وہ اپنی فوجیں عراق اور افغانستان سے واپس بلا لے تو دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے۔ مگر عراق‘ افغانستان اور پاکستان کے جن بے گناہ شہریوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی فوجیں کونسے اسلامی ملک میں بھیج رکھی ہیں؟ دنیا ہمیں کہتی ہے کہ آپ اپنی سرزمین پر دہشت گردی کے اڈے ختم کریں۔ ہم سات برس سے ایسا نہیں کر پا رہے۔ ہم اعتراف کرتے ہیں کہ ان علاقوں سے ہماری ریاستی عملداری ختم ہو چکی ہے۔ ہمارے ہم وطن مسلح دہشت گردوں کے سرمائے اور ہتھیاروں کے یرغمالی بنے ہوئے ہیں۔ وہ زبردستی ان کی آبادیوں میں ٹھکانے بناتے ہیں اور انہیں وہاں سے بھاگنے بھی نہیں دیتے اور جب دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر بیرونی یا پاکستانی افواج میزائل یا راکٹ پھینکتی ہیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ بے گناہ پاکستانیوں کا قتل عام ہو رہا ہے۔ پاکستانی افواج نے بالکل اسی طرح قبائلی علاقوں کے یرغمالی عوام کو بچانے کی کوشش کی۔ جس طرح کسی سکول یا گھر کے یرغمالی بنائے ہوئے بچوں یا اہل خانہ کی حفاظت کی جاتی ہے۔ اتحادی افواج اور امریکہ کی طرف سے بار بار مطالبے کئے گئے کہ ہم پر حملے کرنے والوں کا راستہ روکیں۔ ہماری افواج نے اپنے شہریوں کے تحفظ کی خاطر مختلف طریقے اختیار کئے تاکہ ہماری آبادیوں سے دہشت گرد نکل جائیں۔ اس سلسلے میں مذاکرات ہوئے۔ معاہدے ہوئے۔ وعدے وعید کئے گئے۔مطالبوں کے مطابق رعایتیں دے دی گئیں۔لیکن دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم نہیں ہوئے۔برطانیہ والے کہتے ہیں کہ وہاں دہشت گردی کرنے والوں کی جڑیں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پائی گئی ہیں۔ افغانستان والے کہتے ہیں کہ ان کے ہاں دہشت گردی کرنے والے قبائلی علاقوں میں رہتے ہیں۔ دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیاں رپورٹیں دیتی ہیں کہ دہشت گردوں کے ٹھکانے ہمارے قبائلی علاقوں میں ہیں۔ خود ہماری سکیورٹی ایجنسیاں تسلیم کرتی ہیں کہ دہشت گرد قبائلی علاقوں میں سرگرم ہیں۔ باجوڑ اور سوات میں وہ ہماری سکیورٹی فورسز سے باقاعدہ جنگ لڑ رہے ہیں۔ سارے قبائلی علاقوں میں فرائض انجام دینے والے سکیورٹی اور سول انتظامیہ کے اہلکاروں اور ہلاک اور اغوا کیا جاتا ہے۔پاکستان کی سکیورٹی فورسز پاکستان کے علاقوں میں اپنی ریاست کی عملداری قائم کرنے کے لئے سرگرم ہیں۔ جبکہ دہشت گرد ان کی مزاحمت کرتے ہیں۔ اس مزاحمت کا حق انہیں دنیا کا کونسا قانون‘کونسا اخلاق‘ کونسے ضابطے اور کونسے اصول دیتے ہیں؟ اس کے باوجود ان کی وکالت ایسے انداز میں کی جاتی ہے کہ ہمیں دہشت گردی کے خطرے کی نشاندہی کرنے والے سب لوگ پاگل نظر آتے ہیں۔ امریکہ‘ چین‘ برطانیہ‘ سپین‘ اٹلی‘ افغانستان سب پاگل ہیں۔ سب اسلام کے دشمن ہیں۔ سب مسلمانوں کو برباد کرنا چاہتے ہیں۔ صرف ہم سچے ہیں۔ ہم کسی کے سامنے جوابدہ نہیں۔ دنیا ہمارے سامنے جوابدہ ہے۔ ہم نے 1970ء میں بھی یہی سمجھا تھا۔ مگر جھوٹ بولنے والی دنیا کے سامنے ہماری سچائی کو ہتھیار ڈالنا پڑے تھے۔ آج ہم پھر اپنی سوچی ہوئی سچائی کو‘ اپنی بنائی ہوئی سچائی کو ‘ اپنی تراشی ہوئی سچائی کو‘ دنیا سے منوانے پر مصر ہیں۔ ہماری سوچ میں اصلی سچائی کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ ہم اس عمل میں داخل ہو چکے ہیں جس کے دوران۔ پہلے سوچیں مسمار ہوتی ہیں۔ پھر معاشرتی رشتے مسمار ہوتے ہیں۔ نظام اخلاقیات مسمار ہوتا ہے۔ اعتبارات مسمار ہوتے ہیں۔ادارے مسمار ہوتے ہیں اور پھر ریاست مسمار ہو جاتی ہے۔
 

جیسبادی

محفلین
محفل کے منتظمین سے سوال۔

کیا آپ لوگوں نے جنگ والوں سے طبع مکرر کے حقوق لے رکھے ہیں؟

یا جو لوگ ان کالم نگاروں کو پیسے دے کر کہانیاں لکھواتے ہیں، ان سے کوئی معاملہ ہے؟
 

گرو جی

محفلین
دماغی خلل ہے موصوف کا
یہ کسی حال میں خوش نہیں رہتے اور اس کا اندازہ آپ ان کے کالمز سے کر سکتے ہیں
 

مہوش علی

لائبریرین
علی ابن ابی طالب کا ایک قول میرے پسندیدہ اقوال میں سے ہے اور زندگی میں اتنا اس سے واسطہ پڑا ہے کہ کسی اور حکمت کی بات سے نہیں پڑا:

قول ہے: "یہ دیکھو کہ کیا کہا جا رہا ہے، اور یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے۔"

ہمارے معاشرے میں غیبت بہت عام ہے۔ لیکن اسی کے مقابلے کی ہی عام بیماری ہے "دلائل" کی بجائے "شخصیت" کے پیچھے پڑ جانا۔
 

گرو جی

محفلین
علی ابن ابی طالب کا ایک قول میرے پسندیدہ اقوال میں سے ہے اور زندگی میں اتنا اس سے واسطہ پڑا ہے کہ کسی اور حکمت کی بات سے نہیں پڑا:

قول ہے: "یہ دیکھو کہ کیا کہا جا رہا ہے، اور یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے۔"

ہمارے معاشرے میں غیبت بہت عام ہے۔ لیکن اسی کے مقابلے کی ہی عام بیماری ہے "دلائل" کی بجائے "شخصیت" کے پیچھے پڑ جانا۔
انساں کی گفتگو اس کی شخصیت کی عکاسی کرتی ہے لہذا اگر کوئی ایسا شخص ایسی بات کرے جو اس سے میل نہ کھاتی ہو تو پہر ایسا ہی ہوتا ہے، اور جو اشخاص سکہ بند لوٹے ہوں تو ان کی کتنی باتوں پر بندہ یہ سوچے کہ یار بات دیکھو۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کا قول بلکل بجا ہے اور میں‌ان کے قول کے مخالف جانے کا ہر گِز نہیں سوچ رہا ہون لہذا اب یہ مت کہیے گا کہ میں نعوز بِااللہ صحابِی رسول کے مخالف ہوں
 

طالوت

محفلین
علی ابن ابی طالب کا ایک قول میرے پسندیدہ اقوال میں سے ہے اور زندگی میں اتنا اس سے واسطہ پڑا ہے کہ کسی اور حکمت کی بات سے نہیں پڑا:
قول ہے: "یہ دیکھو کہ کیا کہا جا رہا ہے، اور یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے۔"
ہمارے معاشرے میں غیبت بہت عام ہے۔ لیکن اسی کے مقابلے کی ہی عام بیماری ہے "دلائل" کی بجائے "شخصیت" کے پیچھے پڑ جانا۔

میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ آپ صرف سیدنا علی کے اقوال ہی کیوں بیان کرتی ہیں ، مگر رسول عربی کا بھی قول ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار ڈسا نہیں جاتا ۔۔ (صلوۃ و سلام ہو تمام انبیاء پر) ۔۔
آپ کو اس مراسلے میں غیبت کا ذکر کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ بتانا پسند کریں گیں ؟
وسلام
 

مہوش علی

لائبریرین
میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ آپ صرف سیدنا علی کے اقوال ہی کیوں بیان کرتی ہیں ، مگر رسول عربی کا بھی قول ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار ڈسا نہیں جاتا ۔۔ (صلوۃ و سلام ہو تمام انبیاء پر) ۔۔
آپ کو اس مراسلے میں غیبت کا ذکر کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ بتانا پسند کریں گیں ؟
وسلام

بھائی صاحب عجیب سوال ہے آپ کا۔ علی ابن ابی طالب نے خود فرما دیا ہے کہ انہیں یہ تعلیم رسول ص نے دی ہے۔ ۔۔۔۔۔ اور اگر نہ بھی دی ہوتی تو حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے اور حکم ہے کہ اسے جہاں پاو لے لو۔
اور میں اس قول کا اسی محفل میں کئی بار ذکر کر چکی ہوں کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔

اور میں نے معاشرے کی ایک اُس برائی کا ذکر کیا ہے جو کہ معاشرے میں ایسے ہی عام ہے جیسا کہ غیبت، مگر لوگوں کو اسکا ادراک نہیں [یعنی جو بات کہی جا رہی ہے وہ کتنہی ہی اچھی اور ثبوتوں سے بھری کیوں نہ ہوں، بس اسے چھوڑ کر شخصیت کے پیچھے بھاگتے پھرو]
 

ابوشامل

محفلین
علی ابن ابی طالب کا ایک قول میرے پسندیدہ اقوال میں سے ہے اور زندگی میں اتنا اس سے واسطہ پڑا ہے کہ کسی اور حکمت کی بات سے نہیں پڑا:

قول ہے: "یہ دیکھو کہ کیا کہا جا رہا ہے، اور یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے۔"

ہمارے معاشرے میں غیبت بہت عام ہے۔ لیکن اسی کے مقابلے کی ہی عام بیماری ہے "دلائل" کی بجائے "شخصیت" کے پیچھے پڑ جانا۔
محترمہ! حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ قول بہت زیادہ پیش کیا جاتا ہے اور بلاشبہ اس سے ان کی دانائی ظاہر ہوتی ہے لیکن ہر مرتبہ معاملہ ایسا نہیں ہوتا کہ آپ یہ نہ دیکھیں کہ کون کہہ رہا ہے۔ ایک سادہ سی مثال: جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم معراج سے واپس آئے تو اگلے روز مشرکین مکہ نے حضرت ابوبکر صدیق سے کہا کہ دیکھو! تمہارا نبی کیا کہہ رہا ہے، کہتا ہے کہ میں ایک ہی رات میں بیت المقدس تک گیا اور پھر ساتوں آسمان تک ہو کر واپس آیا؟ بھلا یہ بھی سچ ہو سکتا ہے؟ حضرت ابو بکر نے جواب دیا "اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا ہے تو سچ ہی ہوگا۔" اور اسی بیان کی بنیاد پر انہیں "صدیق" کا لقب ملا۔ دیکھیں یہاں کیا کہا جا رہا ہے اس کی اہمیت نہیں بلکہ کون کہہ رہا ہے اس کی اہمیت ہے۔



باقی رہے نذیر ناجی، تو میں ان پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میں ان کی باتوں کو اپنے تبصرے کے لائق نہیں سمجھتا۔
 

مہوش علی

لائبریرین
محترمہ! حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ قول بہت زیادہ پیش کیا جاتا ہے اور بلاشبہ اس سے ان کی دانائی ظاہر ہوتی ہے لیکن ہر مرتبہ معاملہ ایسا نہیں ہوتا کہ آپ یہ نہ دیکھیں کہ کون کہہ رہا ہے۔ ایک سادہ سی مثال: جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم معراج سے واپس آئے تو اگلے روز مشرکین مکہ نے حضرت ابوبکر صدیق سے کہا کہ دیکھو! تمہارا نبی کیا کہہ رہا ہے، کہتا ہے کہ میں ایک ہی رات میں بیت المقدس تک گیا اور پھر ساتوں آسمان تک ہو کر واپس آیا؟ بھلا یہ بھی سچ ہو سکتا ہے؟ حضرت ابو بکر نے جواب دیا "اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا ہے تو سچ ہی ہوگا۔" اور اسی بیان کی بنیاد پر انہیں "صدیق" کا لقب ملا۔ دیکھیں یہاں کیا کہا جا رہا ہے اس کی اہمیت نہیں بلکہ کون کہہ رہا ہے اس کی اہمیت ہے۔



باقی رہے نذیر ناجی، تو میں ان پر تبصرہ نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میں ان کی باتوں کو اپنے تبصرے کے لائق نہیں سمجھتا۔

ابو شامل بھائی،
میری ناقص رائے کے مطابق مثتثنیات اور معجزات جیسی چیزوں سے کبھی بھی کوئی اصول وضع نہیں کیے جاتے ہیں۔
 

ابوشامل

محفلین
ابو شامل بھائی،
میری ناقص رائے کے مطابق مثتثنیات اور معجزات جیسی چیزوں سے کبھی بھی کوئی اصول وضع نہیں کیے جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں مجھے آپ کی رائے واقعی ناقص ہی لگتی ہے۔
بہرحال کہیں آپ کی بات صادق آتی ہے اور کہیں یہ دلیل۔ کبھی ہمیں بات کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے اور کبھی کبھار شخصیت کو۔
 

گرو جی

محفلین
بات کو اہمیت تب دی جاتی ہے جب شخصیت جو کہ بظاہر قابلِ اعتبار نہ ہو مگر بات عقل کی کہہ جائے، کل کو آپ یہ بہی کہیں گی کہ یار بندے نے شراب پہی ہے تو کیا ہوا مگر بات تو دیکہو۔
بندہ اور بات دونوں دیکھیں جاتیں ہیں، خالی بات کا اچار ڈالنا ہے کیا، آپ کی اسہی بات پر مجہے کسی رکںِ محفل کا دھاگہ یاد آگیا جس میں انھوں نے کراچی کا کنگ کوں "بھیک منگتا" کا ذکرِ ذلیل و خوار کیا ہے تو آپ مزید ریفرنس کے لئے اس دھاگے کی مدد لے سکتی ہیں۔
شکریہ
 

مہوش علی

لائبریرین
معذرت کہ علی ابن ابی طالب کے قول پر میں آپ لوگوں سے مزید بحث نہیں کروں گی کیونکہ اولا یہ قول بذات خود بڑا واضح ہے، اور دوم آپ بھی اور میں بھی اپنا اپنا موقف پیش کر چکے ہیں۔

باقی جو اوپر والے کالم میں حقائق موجود ہیں، اگر دل صاف رکھا جائے تو اس سے قوم بہت کچھ سبق حاصل کر سکتی ہے۔ یہ ہماری قوم کی تاریخ کا وہ آئینہ ہے کہ جسے قوم دیکھنا نہیں چاہتی، اور دیکھتی ہے تو پھر دہشتگردوں کی طرح اپنے اس عکس کا بھی انکار کر رہی ہے۔
//////////////////////////////////////////////////

ناجی صاحب کا آج ایک اور کالم شائع ہوا ہے، جس میں جذبات سے بپھری انڈیا اور پاکستانی اقوام کے لیے پھر دانائی کا پیغام ہے۔

headlinebullet.gif
shim.gif
dot.jpg
shim.gif
۔۔۔۔۔۔ قارئین کو میری باتیں یاد ہوں گی، جو میں اکثر لکھتا رہتا ہوں کہ پاکستان اور بھارت میں خصوصی نوعیت کے جو تعلقات ہیں۔ دنیا میں ایسی دوسری کوئی مثال نہیں۔ یہ دونوں حالتِ امن میں ہوں، تو جنگ کے بہانے ڈھونڈتے ہیں اور حالتِ جنگ میں ہوں تو فائر بندی کے لئے دنیا کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔ ہم حقیقی امن اور حقیقی جنگ سے ہر وقت یکساں فاصلے پر رہتے ہیں۔ ممبئی کے سانحے پر، اپنے پہلے کالم مِیں ہی مَیں نے عرض کیا تھا کہ اس کے نتیجے میں ہم جنگ اور امن دونوں کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ لیکن امن کا راستہ آسانی سے دستیاب نہیں ہو گا۔ حالات اسی طرح کے بن رہے ہیں۔ بھارت اشتعال کی حالت میں ہے۔ ان کی طرف سے کسی بھی پاگل پن کی توقع کی جا سکتی ہے۔ ہمیں اسی طرح صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا ہو گا، جیسے شاہ محمود قریشی نے دہلی میں رہ کر کیا۔ ہمارا جوابی پاگل پن برصغیر کو مکمل تباہی کے منہ میں دھکیل سکتا ہے۔ اشتعال کی حالت میں بھارت کے تمام غیر محتاط بیانوں اور اقدامات کے جواب میں ہمیں اس سے گریز کرنا چاہئے۔ یہ کوشش جاری رکھنا چاہئے کہ وہ اشتعال کے فطری ردعمل کی حالت سے نکل آئیں۔ منطق اور دلیل سننے کے قابل ہو جائیں اور پھر انہیں اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ دہشت گردی کے خلاف ہم نے جو مشترکہ میکنزم کا انتظام کیا ہے۔ اس سے بقائے باہمی اور تعاون کے جذبے کے تحت کام لیا جائے، اور غور کیا جائے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کی دہشت گردی کا شکار ہیں یا کسی تیسرے کی؟
آج وزیراعظم کی بلائی ہوئی کل جماعتی کانفرنس بھی ہے۔ اس میں شریک ہونے سے پہلے وہاں جانے والے کوئی صاحب یہ کالم پڑھ لیں۔ تو ان سے درخواست کروں گا کہ مندرجہ بالا نکتے زیرغور ضرور لائیں۔ یعنی یہ کہ کیا ہم واقعی ایک دوسرے کی دہشت گردی کا شکار ہیں یا کوئی تیسرا ہمیں جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے؟ دنیا میں ایک ہی ایسی تنظیم ہے جو پورے عالمی نظام کو تہس نہس کرکے اپنے تصور کے مطابق اس پر قبضہ کرنے کے ناممکن خواب دیکھ رہی ہے۔ اس قوت نے امریکہ کو مشتعل کیا، یورپ میں اشتعال انگیزیاں کیں، اور میرے خیال میں، اب یہ برصغیر میں بھی اپنا نیٹ ورک قائم کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ اس کے عالمی مقاصد کی تکمیل یہاں آسانی سے ہو سکتی ہے۔ یہ تنظیم انسانی زندگی اور تہذیب و تمدن کی بقا کو کوئی اہمیت نہیں دیتی۔ اس کا خیال یہ ہے کہ سب کچھ تباہ بھی کر دیا جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اپنا مقصد حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس کی قیادت پاکستان اور بھارت دونوں سے یکساں نفرت کرتی ہے۔ وہ ہمارے رہنماؤں کو بھی قتل کرنے کی دھمکیاں دیتی ہے اور بھارتی حکمرانوں کو بھی۔ اگر وہ یہ سوچ رہی ہو تو یقین کر لینا چاہئے کہ ان دو ایٹمی طاقتوں کو جنگ میں جھونکنا سب سے آسان ہے۔ یہ واحد ایٹمی ملک ہیں جو اسلحہ استعمال کرنے پر تیار رہتے ہیں۔ اگر انہیں بھڑکا کر آپس میں ٹکرانے پر آمادہ کر دیا جائے تو وہ عظیم تباہی ممکن ہو سکتی ہے، جس کے یہ تنظیم خواب دیکھ رہی ہے۔ اس کے تصورِ حیات میں وہ کھنڈرات بھی اس کے مقصد کو پورا کر سکتے ہیں، جن پر ایٹمی جنگ کے نتیجے میں اس کا قبضہ ہو جائے۔ تمام عالمی ایجنسیوں کی تحقیق کے مطابق القاعدہ کا ہیڈ کوارٹر فاٹا میں موجود ہے۔ افغانستان میں وہ مدت سے سرگرم ہے۔ دوبئی میں اس کے رابطے موجود ہیں۔ ان تینوں جگہوں پر بھارتی باشندے بھی آسانی سے ملتے ہیں۔ فاٹا میں بھارت کے ایجنٹ ہیں، دوبئی اور افغانستان میں بھارتی شہری۔ عام شہری کو ایجنٹ بنانے میں مشکل ہوتی ہے۔ لیکن کسی بنے بنائے ایجنٹ کو اپنا ایجنٹ بنا لینا کوئی مشکل نہیں ہوتا۔ خاص طور سے القاعدہ کے ماہرین کے لئے۔۔۔۔۔۔۔۔
مزید پڑھیں
 

طالوت

محفلین
موصوف کا تو دماغ چل گیا ۔۔ شرم بھی نہیں آتی لوگوں کو گمراہ کرتے ہوئے کہ ہمیشہ تصویر کا ایک رخ پیش کرتے ہیں ۔۔
وسلام
 

گرو جی

محفلین
بھائی سکہ بند لوٹے کے کالمز شاید اس کے گھر والے بھی نہیں پڑھتے ہوں گے۔
لاہور میں تو اب دو آدمی مشہور ہیں جن کو لوگ بھانڈ کہتے ہیں‌ایک تو سلمان تاثیر اور دوسرا نذیر ناجی
 

ساجداقبال

محفلین
ہندوستان تو چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ وہ جنگ کرنے کے موڈ میں نہیں اور کیا کرے۔ من موہن سنگھ ناجی صاحب سے ملکر انہیں یقین دلائے؟
بھارت اشتعال کی حالت میں ہے۔ ان کی طرف سے کسی بھی پاگل پن کی توقع کی جا سکتی ہے۔
کمال ہے یہی حضرت ہندوستانی لیڈروں کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے اور اب انہی سے پاگل پن کی توقع کر رہے ہیں؟ میں کونسی بات مانوں؟
 

گرو جی

محفلین
ہندوستان تو چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ وہ جنگ کرنے کے موڈ میں نہیں اور کیا کرے۔ من موہن سنگھ ناجی صاحب سے ملکر انہیں یقین دلائے؟

کمال ہے یہی حضرت ہندوستانی لیڈروں کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے اور اب انہی سے پاگل پن کی توقع کر رہے ہیں؟ میں کونسی بات مانوں؟

جو اچھی لگے
 
Top