دکھوں سے دوستی میری پرانی ہے

قرۃالعین اعوان

لائبریرین
جانے کیوں مسکرا کر سب سے ملتی ہوں
دکھوں سے دوستی میری پرانی ہے

شاید یون بہلاتی رہتی ہوں میں اپنے آپ کو
یہی بات تو کسی کو مجھے سمجھانی ہے

آشنائی سے کیا دکھ ملا یہ جانتی ہوں
مگر اپنے دل کی خلش بھی تو مٹانی ہے

بھیگی آنکھوں میں جو عکس اسی کا رہتا ہے
آنکھوں کی رنگت شاید مری پرانی ہے

یہ بادل جو بارش کا اعلان کر رہا ہے
اسے کہو آنسوؤں میں ابھی بہت روانی ہے

اس حسین موسم سے مجھے ہے کیا لینا
مجھے تو اس کی یاد دل سے مٹانی ہے

یہ جو رشتے ناطے میں نبھاہتی رہتی ہوں
یہ عدات نئی نہیں مری پرانی ہے

اگر دل میں ہو بغض تو آنکھوں میں نظرآتا ہے
تمہاری آنکھوں میں دیکھ کر یہ حقیقت پہچانی ہے

مجھے محبت تو اپنے سب ہمنشینوں سے ہے مگر
تم سے کچھ زیادہ ہے یہ اقرار لافانی ہے

کوئی تعلق جوڑ کر پھر توڑنا نہیں آتا
حقیقت ہے یہی مگر کتنی سہانی ہے

تم نے تو یہ کہا تھا کہ پل بھر میں بھول جاؤں گی
تو پھر آج تک یہ کس کی یادوں کی خاک چھانی ہے

مشغول ہو کر بھی اک دن گم ہم نے ہوجانا ہے
دنیا میں دل کیا لگانا دنیا تو بس فانی ہے
 

رانا

محفلین
بہت اعلی۔
مجھے ڈر ہے اگر آپ نے اعجاز صاحب کے مشورے پر عمل کرلیا تو محفل کے پرانے شاعر بےروزگار نہ ہوجائیں کہیں۔:)
 
Top