نصیر الدین نصیر "دِیں ہمہ اُوست" سےجمع کردہ مقطعے بہ غرضِ تفہیمِ اسلوبِ نصیر الدین نصیر

الف نظامی

لائبریرین
سرِ کوئے تو چمنِ کرم ، درِتُست نازِ حیاتِ ما
سر، ماہ و نسبتِ خاکِ تُو ، ز حیاتِ ما ، بہ مماتِ ما
(نصیر)

دین ہمہ اُوست
(مجموعہ حمد و نعت)
از
پیر سید نصیر الدین نصیر گیلانی
سن طباعت: مئی 2012ء ، اشاعتِ سوم
صفحات: 357

پیش گُفتار
از دل و دیں چہ آورم ہدیہء رُونمائے تُو
ایکہ بہ شانِ دلبری ہر دو جہاں فدائے تُو
نعت عربی زبان کا لفظ ہے ، جس کے لغوی معنیٰ تعریف کرنے کے ہیں ، مگر اصطلاح میں اِس سے مُراد وہ بیانِ منظوم ہے ، جس میں شاعر بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں اپنی عقیدت اور آپ کی ذاتِ والا صفات سے اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے۔ نعت کا موضوع بظاہر محدود دِکھائی دیتا ہے ، مگر چوں کہ اِس کا موضوع وہ عظیم ہستی ہے ، جس میں تمام انفس و آفاق کی وُسعتیں سمٹ آئی ہیں ، اِس لئے یہ صنفِ شعر بھی حد درجہ لامحدود و وسیع ہے۔ آپ کی محبت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے۔ کلمہء طیبہ کو ہی لیجئے۔ جب تک اقرارِ توحید کے ساتھ آنحضرت ﷺ کی رسالت کا اقرار و اعلان نہ کیا جائے ، ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ عہد بہ عہد عربی ، فارسی اور پھر اُردو میں شعراء نے جس تواتر اور تسلسل کے ساتھ اس صنفِ خاص سے اپنے شغف کا اظہار کیا ہے۔ اِس کی نظیر دُنیا کی کسی زبان اور اُس کے ادب میں نظر نہیں آتی۔ بقول خواجہ حافظ شیرازی
نہ من برآں گُلِ عارض غزل سرایم و بس
کہ عندلیبِ تُو از ہر طرف ہزار انند
دیں ہمہ اُوست کی اشاعتِ سوم پیشِ خدمت ہے ، اس میں وہ نعتیں بھی شامل کر دی گئی ہیں ، جو پہلی اور دوسری اشاعت کے بعد کہی گئیں۔ اللہ تعالیٰ میرے اِن اشعار کو روزِ قیامت میری بخشش کا وسیلہ بنائے اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام مجھے اپنی شفاعت سے بہرہ مند فرمائیں
؎

چو بازُوئے شفاعت را کُشائی بر گنہگاراں
مکن محروم جامی را دراں آں یا رَسُولؐ اللہ
اِس آرزو کے علاوہ دل میں کوئی آرزو نہیں۔ مجھے زبان دانی کا دعوٰی ہے اور نہ علم و فن کا ادعا ، بلکہ میرے دامن میں تو سرمایہء عجز کے سِوا کچھ بھی نہیں
؎

ز جامِ حُبِ تُو مستم ، بہ زنجیرِ تُو دل بستم
نمی گویم کہ من ہستم ، سُخَنداں یا رَسُولؐ اللہ


گدائے شہرِِ مدینہ
نصیر الدین نصیر کان اللہ لہ ،
گولڑہ شریف
-​
اسلوبِ نصیر سے شناسائی کی غرض سے مذکورہ کتاب سے اشعار( مقطعے) پیشِ خدمت ہیں:
اہلِ فکر و نظر جانتے ہیں تجھے کچھ نہ ہونے پہ بھی مانتے ہیں تجھے
اے نصیر! اِس کو تُو فضلِ باری سمجھ ، ورنہ تیری طرف دیکھتا کون ہے
-
کیہ جن و بشر ، کیہ شاہ و گدا
ڈِٹھی جس وی نصیر اوہ شانِ خُدا
اُڈے ہوش تے مونہوں بول اُٹھیا
سبحان اللہ مااجملک
مااحسنک ما اکملک
کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا
گستاخ اکھیں کتھے جا اَڑیاں

-
دل و دیدہ کردہ اسیرِِ تُو ، بہ درت نشستہ نصیرِ تُو
مددے! کہ دافعِ مُشکلی ،نظرے! کہ عُقدہ کُشا توئی
-
بہ بخشا بہ حالِ نصیرِ حزیں
بجاہِ محمدؐ رسولِ امیں
-
دامن کو پھیلا کے بن التجائی
کب تک یہ خاموشی یہ بے صدائی
کچھ تو نصیر آج کر لب کُشائی
گم صم کھڑا کیا ہے ، پھر مانگ پھر مانگ
-
بینند نصیر اہلِ نظر جلوہء حُسنَش
گاہے بہ سرِ منبر و گاہے بہ سرِ دار

-
لنا فی الدین والدنیا نصیر
بانعام و لطف و امتنان

-
بر بندگِیت نصیر نازد
اے نازشِ مُرسَلان عالم
-
بہ درگاہت نصیرِ بے بضاعت آرزو مند است
کہ تا مُردن تُرا باشد ثنا خواں یا رسوؐلَ اللہ
-
گردیدہ نصیر از ذوقِ ثنا بر بختِ رسائے خود نازاں
گُستردہ پئے درماں طلبی دامانِ دعا سُبحانَ اللہ
-
کاش! گوید نصیر در محشر
رُو بروئے تُو "یارسوؐلَ اللہ"
-
نصیر از پُرسشِ محشر چہ باک است
کہ ہستیم از غلامانِ محمدﷺ
-
شکر کن شکر کہ اندر سفرِ عشق نصیر
طے نمودیم نشیب و بہ فراز آمدہ ایم
-
یارب! کرم بہ حالِ نصیرِ حزیں کہ اُو
ادنٰی گدائے کوچہء آلِ محمدؐ است
-
گُسستن بندِ ناکامی ز لطفش
بہ عقبٰی کوثر آشامی ز لطفش
نصیر است ایں دلآرامی ز لطفش
مشرف گرچہ شد جامی ز لطفش
خدایا ایں کرم بارِ دگر کن

-
مدینے کے لئے ہے دل مُشَوش
نظر میں ہے وہیں کا حُسنِ دلکش
نصیر آنے لگے ہیں پے بہ پے غَش
مشرف گرچہ شد جامی ز لطفش
خدایا ایں کرم بارِ دگر کن

-
پئے دیدار تھی بے حد کشا کش
نصیر اکثر مجھے پڑتے رہے غَش
اچانک خواب میں دیکھا وہ مہ وَش
مشرف گرچہ شد جامی ز لطفش
خدایا ایں کرم بارِ دگر کن

-
میرے نزدیک یہی توشئہ عقبی ہے نصیر!
حُبِ اصحابِ نبی ﷺ ، اُلفتِ اولاد بتول
-
یہ صبحِ مسرت ہے خوشیاں مناو
دُرود و سلام اپنے ہونٹوں پہ لاو
محمدؐ کے جلووں پہ قربان جاو
ادب سے نصیر اپنی آنکھیں جھکاو
شہنشاہِ کون و مکاں آ رہے ہیں
-
صدقِ دل سے ہے نصیر اہلِ طلب میں شامل
آسرا حشر میں ہے اے شہِ والا ! تیرا
-
صدقے جاوں نصیر اُس آقا اُس مولا کی رحمت پر
راہ دکھا کر اُس دَر کی مجھ نِردھن پر احسان کیا
-
جنونِ عشقِ نبی کی سند مِلی ہم کو
نصیر! ہم نے گریباں جو تار تار کیا
-
ترے طفیل ہے محشر میں سَر بلند نصیر
ترا کرم کہ اسے اُمتی شمار کیا
-
نصیر ! تا بہ ابد واجبُ العمل ٹھہرا
وہ دینِ حق ، جو محمدﷺ نے آشکار کیا
-
جسے خیرات بے طلب ملے بابِ رسول ﷺ سے
اُسے دارین میں نصیر غرض ماسوا سے کیا
-
میں بھی شیدا ہوں نصیر! اُس شہ خوباں کا ، مگر
میں محبت کو تماشہ نہیں ہونے دیتا
-
مرحلہ پرسشِ اعمال کا تھا سخت نصیر!
مل گیا اُن کا سہارا ، تو کہیں کام چلا
-
نصیر اُڑ کر نہ پہنچا جو مدینے کی فضاوں تک
وہی باغِ جہاں میں طائرِ بے بال و پر ٹھہرا
-
شاہِ عرب کے در پر رسائی ہوئی نصیر
غیروں میں بس رہا تھا اب اپنوں سے آ ملا
-
تم پر اللہ کے الطاف نصیر! ایسے ہیں
نعت اِس شان سے لکھی کہ قلم توڑ دیا
-
مانے گا ان کی بات خدا ، حشر میں نصیر
بن مصطفے ﷺ ، خدا کو منایا نہ جائے گا
-
کوئی پوچھے تو ذرا حضرتِ موسی سے نصیر
عالمِ ہوش میں جب آئے تو پھر کیا دیکھا؟
-
سُرخرو ہو نہ سکے گی وہ کسی طور نصیر
ان سے ہٹ کر جو خدا ڈھونڈ رہی ہے ، دنیا
-
میری آنکھوں میں شبیہِ شہِ والا ہے نصیر
اشک جو ہوگا ، وہ تابندہ گُہر بھی ہوگا
-
یہی خواہش تھی ، یہی اپنی تمنا تھی نصیر
میرا سَر ، اور درِ شاہِ مدینہ ﷺ ہوتا
-
ابھی ذوقِ جنُوں ، سوزِ دُروں ، بخشا ہے حضرتﷺ نے
نصیر اُن کی محبت میں نہ جانے اور کیا ہوگا
-
تیرے جلووں پہ ہے قربان یہ نصیرِ شیدا
تُو ہے کونین میں آئینہ ء اسرارِ حیات
-
شہرِ نبی کی یاد نے تڑپا دیا ہمیں
تم نے نصیر! آج سُنا دی کہاں کی بات
-
خوش نصیبی ہے جو توفیقِ عبادت ہو نصیر
مرحبا آج کا دن ، صلِ علٰے آج کی رات
-
آج کی رات اُجالا ہی اُجالا ہے نصیر
اُن کا مشتاقِ زیارت ہے خدا آج کی رات
-
ہم نصیر اپنے نبی پر دل و جاں سے قرباں
عام ہے اُن کی شفاعت کی خبر آج کی رات
-
متاعِ عظمتِ کون و مکاں ملی اُس کو
نصیر! مِل گئی جس کو حُضور ﷺ کی نسبت
-
نصیر! صدق و صفائے رسول کے آگے
فروغ پا نہ سکی مکر و زُور کی نسبت
-
میں ہوں گدائے کوچہء آلِ نبی نصیر
دیکھے تو مجھ کو نارِ جہنم لگا کے ہاتھ
-
اُٹھی جہاں نصیر! نگاہِ رسولِ حق
ہو جائیں گے قلم وہیں تیغِ جفا کے ہاتھ
-
دیوانہ ء حبیبِ خدا ، جو نصیر ہو
باتیں کریں فرشتے بھی اُس سے ملا کے ہاتھ
-
مجھ کو ہے بس نصیر شفیع الورٰی کی دُھن
پھیریں گے میرے سَر پہ وہی ، مُسکرا کے ہاتھ
-
درکار ہے نصیر اُنہیں دولتِ بقا
رکھتے نہیں ہیں اُن کے گدا سیم و زر پہ ہاتھ
-
کیا ڈر مجھے کہ سایہ فگن ہیں نصیر آپ ﷺ
ڈرتا ہے وہ ، کسی کا نہ ہو جس کے سَر پہ ہاتھ
-
میں کیا نصیر اور مِرے شعر کیا ، مگر
اللہ کی عطا سے ہے دوشِ ہنر پہ ہاتھ
-
اللہ نے کیا ہے عطا دردِ دل نصیر
خاکِ درِ رسول ہے بس آپ کا علاج
-
نصیر کو بھی اجازت ملے خدا کے لیے
پڑا رہے تِری دہلیز پر گدا کی طرح
-
مجھ کو ہے نصیر اُن کی شفاعت پہ بھروسہ
جو اَب ہیں ، وہی حشر میں ہوں گے نگراں اور
-
آفاق میں نہ کس لیے گونجے مِری صدا
میں بھی تو ہُوں نصیر! شریکِ دُعائے خیر
-
نسبت ہے اُن کے سلسلہء فقر سے نصیر
آباد میرے دل میں ہے اک خانقاہِ خیر
-
کچھ کم نہیں نصیر وہ شمر و یزید سے
مطلوب ہو نہ جس کو محمدﷺ کے گھر کی خیر
-
لکھے گا بصد شوق ، نصیر آپ ﷺ کی نعتیں
اب سلسلہ جُنباں ہے قلم آپ ﷺ کی خاطر
-
میں وہ دیوانہ ہُوں دربارِ محمد کا نصیر
ہیں فرشتے وجد میں میرا تماشا دیکھ کر
-
دیکھ اللہ کا گھر شوق سے پھر جا کے نصیر
پہلے دل میں کسی انسان کے گھر پیدا کر
-
اک طرفہ قیامت ہے نصیر اُن سے جدائی
اُلفت ہو تو فُرقت کی سزا بھی ہے بڑی چیز
-
کعبہ ء فقر و غنا اہلِ جہاں میں ہے نصیر
آ کے سُلطان کریں اُن کے گداگر کا طواف
-
نصیر ! ڈھونڈتا پھرتا ہے دل دیارِ حجاز
وہی مقام ہے دنیا میں معتبر اب تک
-
نصیر! اپنی حیاتِ مختصر میں
نبی کا تذکرہ آٹھوں پَہر رکھ
-
خدائی بھر میں ہے اُن کے جمال کا شُہرہ
تمہیں نصیر نہیں اور بھی نثار ہیں لوگ
-
ہے تیرا ذہن اُن کے تصور سے مفتخر
تجھ کو نصیر مِل گئی دارائیِ خیال
-
اوروں کے در پہ جانے کا سوچُوں میں کیوں نصیر
مجھ کو نہیں قبول یہ رُسوائیِ خیال
-
نصیر کہتی ہے یہ آیتِ وَعَلمَکَ

وہ ہیں علیم و خبیر ، اُن کو کیا نہیں معلوم
-
دارِ فانی میں محبت اُن کی ہے وجہِ بقا
جو نصیر اُن پر مِٹا ، اُس کو مِٹا سکتا ہے کون
-
نصیر! نام جب آتا ہے اُن کا ہونٹوں پر
دُرود پڑھتے ہیں ، سارے سلام کہتے ہیں
-
نصیر! اُن کی عنایت ہے دَم بہ دَم مجھ پر
نوازتے ہیں وہی مجھ کو ، ورنہ کیا ہُوں مَیں
-
رسول اللہ مجھ پر مہرباں ہیں
نصیر! اُن کی عطا ہے اور میں ہوں
-
کس شے سے نصیر اُن کی تجلی نہیں ظاہر
ہر سُو اُنہیں ہم جلوہ نُما دیکھ رہے ہیں
-​
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
نصیر! اُس آستاں پر جو پہنچ جاتے ہیں قسمت سے
اِسی عالَم میں وہ بخشش کا ساماں دیکھ لیتے ہیں
-
دیوانہ و بیتاب ہُوں ایسا کہ نصیر اب
ہر وقت مدینے کا ہے سودا مِرے سَر میں
-
کھینچتی ہے ہوائے مدینہ
میں نصیر اب اُڑا چاہتا ہوں
-
نصیر! اُن کے تصور سے دل کو روشن کر
تری نگاہ کو تابِ شعاعِ نُور کہاں
-
سنگِ اسود ہے نصیر اپنی جگہ اپنا جواب
زینتِ دیوارِ کعبہ یُوں کوئی پتھر کہاں
-
نصیر! نقشِ کفِ پائے مصطفٰے ﷺ کے سبب
تمام ذرے ہیں لعل و گُہر مدینے میں
-
چاند تاروں میں نصیر آج بڑی ہلچل ہے
یہی آثار بتاتے ہیں کہ آپ ﷺ آتے ہیں
-
جو پُل صِراط پہ ہم پر بھی پڑ گئی وہ نظر
تو پھر نصیر سمجھ لو کہ پار ہم بھی ہیں
-
یہ بھی ہے عرضِ تمنا کا اک انداز نصیر
شاہِ کونین کے غم میں نہیں بے کار آنسو
-
کل بَھلا محشر میں پہچانے گا کون اُس کو نصیر
قبر میں جس کی محمد ﷺسے شناسائی نہ ہو
-
ہم ہیں اور اُن کی عنایات کا اقرار نصیر
نعت لکھنی ہے ، زباں کوئی ، زمیں کوئی ہو
-
کہنے کو تو نعتیں سب نے کہیں ، یہ نعت نصیر آفاقی ہے
"کتھے مہر علی کتھے تیری ثنا" کیا خُوب کہا ، سبحان اللہ
-
وہ ذات نصیر اس دنیا میں بے مثل کچھ ایسی پائی گئی
حیرت سے پکار اُٹھی ساری مخلوقِ خدا سبحان اللہ
-
اُٹھتی ہے نصیر اُن کی نظر جب کسی جانب
ہو جاتا ہے لوگوں کا بَھلا اور زیادہ
-
نصیر! شکر ادا کر سکوں ، مجال یہ کب ہے
دیا حضور ﷺ نے مجھ کو مِری طلب سے زیادہ
-
کہاں یہ تاب کہ دُوری تمہارے دَر سے ہو
نہیں اُٹھے گا نصیر آج یا رسول اللہ ﷺ
-
نصیرِ غمزدہ پر بھی عنایت ہو ، نوازش ہو
دُہائی دے رہا ہے غم کا مارا یا رسول اللہ ﷺ
-
نصیر اپنی کوشش نہیں کام آتی
بلاتے ہیں خود تاجدارِ مدینہ
-
چادرِ زہرا کا سایہ ہے مِرے سَر پر نصیر
فیضِ نسبت دیکھیے ، نسبت بھی زہرائی ملی
-
ہم ہوئے کچھ اور گُم اُن کے تصور میں نصیر
جس گھڑی فرصت مِلی ، جس وقت تنہائی مِلی
-
آیا ہے نصیر آج تمنا یہی لے کر
پلکوں سے کیئے جائے صفائی ترے در کی
-
کرم کی بھیک ملے اِس کو یا رسول اللہ!
نہیں نصیر کا اب اور آسرا کوئی
-
کچھ تو نصیر ہوگا صلہ عشق و آہ کا
کچھ تو وفا کی راہ میں پائیں گے ہم کبھی
-
چھینٹا پڑا نہ جس پہ کوئی اُن کے لطف کا
پُھولی پَھلی نصیر نہ ایسی زمیں کبھی
-
وہ اہلِ ذوق ، کہاں رہ گئے زمانے میں
نصیر جیسے ملیں گے کہیں کہیں پھر بھی
-

 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
کون روکے دلِ مضطر کو نصیر
اب تو ہاتھوں سے چلا ہے یہ بھی
-
ہوش کھو بیٹھے نصیر اہلِ نظر
دیکھ لینے کی ادا ہے یہ بھی
-
بے نیازِ مال و منصب ہے نصیرِ سیر چشم
آپ ﷺ کے خادِم کو کافی ہے دُعا ہی آپﷺ کی
-
یہی نعت ہے جو نصیر کی ، وہ صدا ہے اُس کے ضمیر کی
چلو وہ خدائے سخن نہیں ، کہو ناخدائے سخن تو ہے
-
اُن کی ہر ایک صِفَت جب کہ ہے اعجاز ، نصیر!
اُن کی مَدحت کے بھی انداز نرالے ہوں گے
-
ادب ہی بارگاہِ مصطفائی ﷺ میں سعادت ہے
نصیر اپنی محبت آزما کر ہم بھی دیکھیں گے
-
گدائی مِل گئی ہے اے نصیر اُس شاہِ بطحا کی
نظر اب کج کلاہوں سے مِلا کر ہم بھی دیکھیں گے
-
عجب کیا ہے ، نصیر ! اعمالِ ناقص اپنے دُھل جائیں
ندامت سے بھرے آنسو بہا کر ہم بھی دیکھیں گے
-
کلیمُ اللہ سے پوچھو نصیر اسرار جلووں کے
وہ سمجھے ہیں چراغِ طُور کی دلکش ضیا کیا ہے
-
یہ محشر ، پرسشِ اعمال ، دار و گیر کا عالَم
نصیر اب اُن کے قدموں سے لپٹ جا دیکھتا کیا ہے
-
نصیر! اب ایک ہی دُھن ہے کہ دیکھیں کب زیارت ہو
دیارِ مصطفٰے ﷺ میں کب ہمارا کارواں پہنچے
-
نصیب ہو جو کبھی اے نصیر راہِ مدینہ
تُو ذرے ذرے کو بڑھنا ادب سے چُوم کر آگے
-
نصیر خلد کے جلوے اُنہی کا حصہ ہیں
جمالِ مصطفوی ﷺ سے جو دل سجا لیں گے
-
اُس کو درکار نصیر اور ہو کونین میں کیا
جو نظر رُوے محمد ﷺ کی ضیا تک پہنچے
-
کم نہیں ہے یہی سرکارِ دوعالم کا کرم
ہم نصیر اُن کے توسل سے خدا تک پہنچے
-
کیوں کر کہوں نصیر زمانے سے حالِ دل
گھر میں رہے جو بات وہی بات گھر کی ہے
-
نصیر ! اہلِ سِتم سے بھی یہ سلوک رہا
نبی ﷺ کے دستِ مبارک پئے دعا اُٹھے
-
نصیر بھی ہے تمنائی یا رسول اللہ!
اب اِس طرف بھی نگاہِ کرم ذرا اُٹھے
-
ذرے کو آفتاب بناتے ہیں وہ نصیر
جس پر کرم کریں وہی تابندہ تر لگے
-
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
آقا ہمارے سرورِؐ کونین ہیں نصیر
دونوں جہان میں ہمیں اب کس کا ڈر لگے
-
یہ کرم ہو خاص نصیر پر کہ ہو مصطفٰےؐ کی نظر اِدھر
وہی مُسکرا کے کرم کریں کوئی اور غم کو ہَوا نہ دے
-
نصیر نعتِ نبیؐ کا ہو فیض یُوں جاری
نظر نظر میں ہمارا کلام آجائے
-
نصیر وہ جو بُلائیں تو کون رُکتا ہے
وہ جا پہنچتے ہیں جو بال و پَِر نہیں رکھتے
-
ہر نفس رحمتِ بے حد کی تمنا ہے اگر
درِ آقاؐ پہ نصیر! اپنا ٹِھکانہ کر لے
-
آستاں سے ترے دُوری پہ پریشاں ہے نصیر
ساری دُنیا کی خوشی بھی اُسے کیا خوش رکھے
-
سجدہء شوق کا ارمان اُدھر لے پہنچا
اُن کے در پر ہیں نصیر اب تو مِرے سَر کے مزے
-
زُلف و رُوئے مصطفٰےؐ سے یہ کُھلا ہم پہ نصیر
صبحِ گُلشن ، بُوئے گُل ، بادِ صبا کیا چیز ہے
-
اعلان ہے نصیر! یہ ربِ کریم کا
عشقِ رسولؐ شرط ہے اسلام کے لیے
-
میں مدینے میں ابد کی نیند سو جاوں نصیر
رہنے بسنے کو مجھے اِتنی سی جا درکار ہے
-
پڑھتے رہو دن رات نصیر اُن کا وظیفہ
ایسا عملِ ردِ بَلا ، کوئی نہیں ہے
-
میرے نزدیک مقدر کا دھنی ہے وہ نصیر
جس پہ اُن کی نظرِ لطف و عطا ہو جائے
-
بھیک تو مل کے رہے گی درِ مولیٰؐ سے نصیر
یہ الگ بات ، مِلے دیر سے یا جلدی سے
-
عشقِ سرکار کی دولت کو کریں عام نصیر
گھر کی دولت ہے ، مگر اس کو نہ گھر میں رکھیے
-
بابِ حرم ، نصیر! بہت دُور تھا ، مگر
اُس تک مِرے بڑوں کی دُعا لے گئی مجھے
-
بیچارگی میں کوئی وسیلہ نہ تھا مِرا
اُن تک نصیر! آہِ رسا لے گئی مجھے
-
بہ فیضِ ساقئی کوثر مِٹے گی تشنہ لبی
نصیر! حشر میں جس دم لگے گی پیاس مجھے
-
اُس آستان پہ ہم ہیں تصور میں سجدہ ریز
سب سے جدا نصیر ہماری نماز ہے
-
میں نصیر آج لایا وہ نعتِ نبیؐ
نعت گو مُنہ میرا دیکھتے رہ گئے
-
سارا جہاں بھی درپئے آزار ہو تو ہو
کچھ غم نہیں نصیر خدا میرے ساتھ ہے
-
کیوں نہ پلڑا تیرے اعمال کا بھاری ہو نصیر
اب تو میزان پہ سرکار بھی آئے ہوئے ہیں
-
ہے نصیر اُنس کا گہوارہ مدینے کی زمیں
ایسا لگتا ہے کہ اپنے ہی گھر آئے ہوئے ہیں
-
جان کر اُن کو آقائے درد آشنا
جو غُلامانہ آداب لائے بجا
اے نصیر! اُس سخنور پہ لاکھوں سلام
شافعِؐ روزِ محشر پہ لاکھوں سلام
-
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
اِس جہاں سے جب سفر ہو
رُوئے پاک پر نظر ہو
یہ کرم نصیر پر ہو
اُس کا سَر ہو ، تیرا دَر ہو
یانبیؐ! سلامُ علیک
یارسولؐ! سلامُ علیک
یا حبیبؐ! سلامُ علیک
صلوٰۃُ اللہ علیک
-
میرے اعمال تو بخشش کے نہ تھے ، پھر بھی نصیر!
کی محمد ﷺ نے شفاعت تو خدا مان گیا
-
چھپا لیجے نصیرِ بے نوا کو اپنے دامن میں
بہ علمِ حیدر و صبرِِ حسین و چادرِ زہرا
-
شہِؐ انام کے درسِ فروتنی کی قسم
نصیر ، بندہ عاجز ہے ، خود پسند نہیں
-
رہے سَر پر تاجِ شفاعت سلامت ، ترا دَر رہے تا قیامِ قیامت
توجہ کی خیرات لے کر اُٹھے گا ، نصیر آج بیٹھا ہے بن کر سوالی
-
نصیر اپنی اُمیدیں بھی ہیں اُس کوچے سے وابستہ
کہ جس کُوچے کے بے زر ، وقت کے بُوذر نکلتے ہیں
-
بن جائے گی محشر میں نصیر اب تری بگڑی
سرکارؐ ، شفاعت کے لئے آئے ہوئے ہیں
-
جھپکے جو نصیر آنکھ دمِ نزع تو یارب!
پُتلی میں پھرے احمدِؐ مختار کا چہرا
-
کہتے ہیں جس کو عشق وہ اک آگ ہے نصیر
بُجھتی نہیں سُنی ہے یہ اکثر ، لگی ہوئی
-
نصیر! تجھ کو مبارک ہو یہ ثباتِ قدم
کہ اِس زمیں میں اکابر بھی لڑکھڑا کے چلے
-
مجھ پہ محشر میں نصیر اُن کی نظر پڑ ہی گئی
کہنے والے اِسے کہتے ہیں "خدا کا کرنا"
-
کیوں نصیر اہلِ دنیا پہ رکھیں نظر
ہم کو ہے دینے والا ہمارا نبیؐ
-
صدقے جاوں نصیر اُس آقا اُس مولا کی رحمت پر
راہ دکھا کر اس در کی مجھ نردھن کو دھنوان کیا
-
وہ جانیں اے نصیر اب یا جانے اُن کا خالق
ہم نے تو دل کے دُکھڑے اُن کو سُنا دئیے ہیں
-
کیجئے بند انکھیں نصیر اور پھر
بھیجئے اُن کی صورت پہ لاکھوں سلام
-
کڑی دُھوپ کے سفر میں نہیں کچھ نصیر کو غم
ترے سایہ ء کرم میں یہ غلام چل رہا ہے
-
مزا جب ہو کہ بابِ خُلد پر جس دم نصیر آئے
کہے رضوان! راستہ دو ، محمدؐ کا غلام آیا
-
جو پُل صراط پہ ہم پر بھی پڑ گئی وہ نظر
تو پھر نصیر سمجھ لو کہ پار ہم بھی ہیں
-
کرتا ہوں اختتامِ سخن اِس پہ اب نصیر
کچھ سُوجھتا نہیں کہ میں کیا کیا کہوں تجھے
-
لَحد سے نصیر اب چلو تم بھی اُٹھ کر
اُنہیں دیکھنے کو خدائی گئی ہے
-
محرومِ کرم اِس کو رکھیئے نہ سرِ محشر
جیسا ہے نصیر آخر سائل تو پُرانا ہے
-
پُوچھنے پھر کون آئے گا نصیر اُن کے سوا
جب لحد میں تجھ کو سب لوٹیں گے تنہا چھوڑ کر
-
دل میں مرے نہاں یہ خلش عمر بھر کی ہے
آقا! یہ التجا ترے آشفتہ سر کی ہے
رسوا نہ ہونے پائے قیامت میں کل نصیر
گھر میں رہے یہ بات کہ یہ بات گھر کی ہے
-
میں جانڑاں میرا مالک جانڑیں اَینویں نہ گھبرائیں ھُو
ہُن کی خوف نصیر مینوں مرا جیوے سِر دا سائیں ھُو
-
مُکدی گل نصیر ایہہ آکھے پَے پَے تیریاں پَیراں ھُو
رکھیں کول تے دَر تے مارِیں نہ پاوِیں وس غیراں ھُو
-
جے نصیر نوں تَیں چھڈیا رُل جاسی وانگوں ککھاں ھُو
اُس نوں تیرے جیہا نہ کوئی اُس جہئے تینوں لکھاں ھُو
-

(تکمیل)​
 
آخری تدوین:
Top