دو دل جلے باہم جلے تو روشنی ہوئی

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
احبابِ محفل یہ ایک بہت پرانی غزل نکل آئی ہے ۔ بحر بھی غیر مطبوع ہے ۔ شاید کسی کام کی ہو ۔

غزل

دو دل جلے باہم جلے تو روشنی ہوئی
کچھ وہ جلا ، کچھ ہم جلے تو روشنی ہوئی

اتنا بڑھا کچھ حبسِ جاں کہ بجھ گئےخیال
کچھ دَر کھلے کچھ غم جلے تو روشنی ہوئی

کل رات گھر کی تیرگی دل میں اُتر گئی
دو دیدہء پُرنم جلے تو روشنی ہوئی

اُلجھے ہوئے احساس نے دھندلا دیا شعور
جذبوں کے پیچ و خم جلے تو روشنی ہوئی

رستے سبھی تھے بے نشاں اپنی تلاش کے
انجم نما خود ہم جلے تو روشنی ہو ئی

اک عمر سے بے نور تھے زخموں کے سب چراغ
کچھ روز بے مرہم جلے تو روشنی ہوئی


ظہیر احمد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۹۹۹​
 
بہت عمدہ اور رواں غزل ہے۔ کیا کہنے ظہیر بھائی۔
مجھے تو یہ بحر پسند آئی۔
دیکھتے ہیں کہ سخن ور خواتین و حضرات اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ :)
احبابِ محفل یہ ایک بہت پرانی غزل نکل آئی ہے ۔ بحر بھی غیر مطبوع ہے ۔ شاید کسی کام کی ہو ۔

غزل

دو دل جلے باہم جلے تو روشنی ہوئی
کچھ وہ جلا ، کچھ ہم جلے تو روشنی ہوئی

اتنا بڑھا کچھ حبسِ جاں کہ بجھ گئےخیال
کچھ دَر کھلے کچھ غم جلے تو روشنی ہوئی

کل رات گھر کی تیرگی دل میں اُتر گئی
دو دیدہء پُرنم جلے تو روشنی ہوئی

اُلجھے ہوئے احساس نے دھندلا دیا شعور
جذبوں کے پیچ و خم جلے تو روشنی ہوئی

رستے سبھی تھے بے نشاں اپنی تلاش کے
انجم نما خود ہم جلے تو روشنی ہو ئی

اک عمر سے بے نور تھے زخموں کے سب چراغ
کچھ روز بے مرہم جلے تو روشنی ہوئی


ظہیر احمد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۱۹۹۹​
 
کیا بحر کے افاعیل مستفعلن مستفعلن مستفعلن فعل ہیں؟
مستفعلن سے فعل میرے ناقص علم کے مطابق تو حاصل نہیں کیا جا سکا۔

مستفعلن مستفعلن فعلن مفاعلن آخری دو ارکان پر حذذ اور خبن کے استعمال سے البتہ حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن میرا نہیں خیال کہ یہ کثرتِ عروضیان کے لیے قابلِ قبول ہوگا۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت شکریہ ! نوازش!
بہت عمدہ اور رواں غزل ہے۔ کیا کہنے ظہیر بھائی۔
مجھے تو یہ بحر پسند آئی۔
دیکھتے ہیں کہ سخن ور خواتین و حضرات اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ :)
آداب تابش بھائی ! اگر آپ کو رواں لگ رہی ہے تو یقینا رواں ہوگی ۔ لگتا ہے کہ ہمارا اور آپ کا شعری ذوق اور وجدان خاصا ملتا جلتا ہے ۔ :):):)
اللہ آپ کوخوش رکھے !
اچھی غزل ہے۔ بس اس کی روانی سے زبان کو مانوس ہونے میں چند لمحے (مصرعے) لگے۔ :)
شکریہ کاشف بھائی ! بہت نوازش!
کیا بحر کے افاعیل مستفعلن مستفعلن مستفعلن فعل ہیں؟
مستفعلن سے فعل میرے ناقص علم کے مطابق تو حاصل نہیں کیا جا سکا۔

مستفعلن مستفعلن فعلن مفاعلن آخری دو ارکان پر حذذ اور خبن کے استعمال سے البتہ حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن میرا نہیں خیال کہ یہ کثرتِ عروضیان کے لیے قابلِ قبول ہوگا۔

بالکل ٹھیک سمجھے ریحان! اس کا وزن مستفعلن مستفعلن مستفعلن فعل ہے ۔ یہ کوئی معروف بحر نہیں اور اس کا کوئی نام نہیں ۔ اردو اور فارسی میں تو رجز کے صرف چار پانچ اوزان ہی مستعمل ہیں۔ اور ان اوزان میں سے کسی میں بھی عروض یا ضرب میں فعل نہیں آتا ۔ عربی میں البتہ رجز خاصی مستعمل ہے اور اس کے متعدد اوزان ملتے ہیں ۔ عربی میں رجز کے زحافات فارسی اور اردو کی نسبت زیادہ ہیں ۔ لیکن میرا گمان ہے کہ عربی میں مستعمل بحور میں بھی فعل کی گنجائش نہین ہوگی ۔ عروض اور ضرب میں فعلن البتہ ملتا ہے ۔
یہ وزن میرا اجتہاد ہے ۔ ایک زمانے میں میں نے کئی عروضی تجربات کئے تھے ۔ دو تین نظمیں اور غزلیں وغیرہ اور بھی ہیں ۔ کبھی پوسٹ کروں گا ۔ نکتہ یہ ہے کہ شعر کے لئے صرف موزوں ہونا شرط ہے ۔ اس کا کسی خاص بحر میں ہونا ضروری نہیں ہے ۔ کسی بھی افاعیل کو ترتیب دے کر کوئی بحر بنائی جاسکتی ہے اور اشعار اس پر موزوں کئے جاسکتے ہیں ۔ اب یہ الگ بات ہے کہ افاعیل کی وہ ترتیب رواں ، مترنم اورسننے میں دلکش معلوم ہوتی ہے یا نہیں ۔ چونکہ ہر زبان اور علاقے کے لوگوں کا ذوق اور طبع مختلف ہوتی ہے اس لئے ضروری نہیں کہ جو شعری بحر یا موسیقی کی دھن ایک قوم یا علاقے مین مقبول ہو وہ ہر جگہ قبول عام پاجائے ۔ اردو میں مستعمل بحور گنی چنی ہی ہین اور اسی نوے فیصد شاعری تو رمل ، ہزج، مجتث اور مضارع وغیرہ ہی میں ہوتی ہے۔ اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ یہ اوزان ہمارے کانوں اور طبیعت کو بھلے محسوس ہوتے ہین ۔
ویسے آپ نے اس بارے مین رائے نہین دی کہ اس غزل کا آہنگ آپ کو کیسا لگا ۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
بحر میں روانی تو محسوس ہو رہی ہے۔ میرے خیال میں اسی بحر میں اور بھی غزلیں کہی گئی ہیں۔
البتہ یہ غزل کوئی اور مبتدی اصلاح سخن کے تحت شامل کرتا تو کہتا کہ مکمل ’تو‘ کانوں کو بھلا نہیں لگ رہا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
مجھے اس غزل کو پڑھنے میں کوئی مشکل نہیں ہوئی۔ بحور کے ساتھ تجربات ہوتے رہتے ہیں سو یہ بھی ایک اچھا تجربہ رہا :)
 
نکتہ یہ ہے کہ شعر کے لئے صرف موزوں ہونا شرط ہے ۔ اس کا کسی خاص بحر میں ہونا ضروری نہیں ہے ۔ کسی بھی افاعیل کو ترتیب دے کر کوئی بحر بنائی جاسکتی ہے اور اشعار اس پر موزوں کئے جاسکتے ہیں ۔
موزونیت والے نکتے سے اختلاف ممکن نہیں۔ مگر افاعیل کو الل ٹپ جوڑ کر جو وزن تشکیل دیا جائے گا وہ تب تک بحر نہیں کہلا سکے گا جب تک مناسب زحافات کے بحورِ نوزدگانہ پر عمل سے وہی صورت حاصل نہیں ہو جاتی۔ دراصل اس نکتے کے حوالے سے میں تقطیعِ حقیقی کی لازوال اہمیت کا قائل ہوں کیونکہ اسی کے طفیل عروض ایک نظام کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ جبکہ آپ کی بابت احساس ہوا تھا کہ آپ غالباً ایسا نہیں سمجھتے۔ شاید آپ کو محولۂِ ذیل گفتگو یاد ہو:
تقطیعِ حقیقی کی اساسی حیثیت کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ مفاعیلن کو اگر فعَل فعلن کر دیا جائے، جس قسم کے تصرف سے بقول آپ کے آپ کو کوئی غرض نہیں، تو خرم سے لے کر کف تک بہت سے زحافات کا اس پر عمل ہی ناممکن ہو جاتا ہے۔ کسی بھی مزاحف بحر کے ارکان کو متبادل صورت میں بیان کر دیا جائے، جو آپ کے نزدیک درست بھی ہے اور قابلِ قبول بھی، تو یہ سوال پھنکارنے لگتا ہے کہ ہم اس کی اس مزاحف شکل تک پہنچے کیسے؟ مثلاً خفیف مخبون محذوف کے ارکان "فاعلاتن مفاعلن فَعِلُن" کو اگر "فاعلن فاعلن مفاعلتن" کر دیا جائے تو کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ یہ خفیف سے ہے؟ اور ہے یا نہیں ہے تو بھی یہ وزن ہم نے کیسے اور کہاں سے نکالا؟
اگر غور کیا جائے تو تقطیعِ حقیقی، جسے آپ لکھنؤ کے متشاعروں پر طنز کا ایک حربہ خیال کرتے ہیں، عروض کی جانِ پاک کی حیثیت رکھتی ہے۔ عروض کی پوری عمارت ڈھانے کو فقط یہی کافی ہے کہ حقیقی اور غیرحقیقی تقطیع کا فرق اٹھا دیا جائے۔
آپ کے نزدیک یہ بحثیں فروعی ہوں گی مگر تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ جہانگیر کے سامنے کسی شاعر نے قصیدے کا یہ مصرع پڑھا ہی تھا کہ بادشاہ غضب ناک ہو گیا۔
اے تاج دولت بر سرت از ابتدا تا انتہا​
کڑک کر پوچھا، تو عروض جانتا ہے۔ شاعر نے انکار کیا۔ بادشاہ نے کہا، اگر جانتا ہوتا تو تیری گردن مروا دیتا۔
اس میں نکتہ یہی ہے کہ مصرعِ مذکور میں حشوِ اول کے مقابل "لت بر سرت" کا کلمہ آتا ہے جو قصیدہ تو ایک طرف، پاکیزگئِ سخن ہی کے شایان نہیں۔ میری معلومات کے مطابق جہانگیر شاعر نہیں تھا۔ مگر تقطیعِ حقیقی و غیرحقیقی کا امتیاز تو وہ ہے جو ہر سخن فہم کو کرنا لازم ہے۔ اس کے بغیر نہ صرف یہ کہ عروض کا فہم ممکن نہیں بلکہ اس فنِ شریف کا جواز ہی کالعدم ہو جاتا ہے۔
چونکہ رباعی کے تمام اوزان ایک نظم میں جمع کئے جاسکتے ہیں اس لئے اپنی آسانی کے لئے ان تمام اوزان کا یاد رکھنا رباعی گو شاعر کے لئے ضروری ہے ۔ اس کے لئے حقیقی اور غیر حقیقی تقطیع کے فرق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہر شاعر اپنا اپنا طریقہ اپنا سکتا ہے ۔ جو جس کی طبع اور ذہن کو راس آجائے ۔ یاد رکھنے کے لئے تو اسامہ سرسری صاحب کا فعلن فعلن والا طریقہ بھی مجھے اچھا لگا اگرچہ تقطیع اس کی غیر حقیقی ہے ۔
---
اب یہ الگ بات ہے کہ افاعیل کی وہ ترتیب رواں ، مترنم اورسننے میں دلکش معلوم ہوتی ہے یا نہیں ۔ چونکہ ہر زبان اور علاقے کے لوگوں کا ذوق اور طبع مختلف ہوتی ہے اس لئے ضروری نہیں کہ جو شعری بحر یا موسیقی کی دھن ایک قوم یا علاقے مین مقبول ہو وہ ہر جگہ قبول عام پاجائے ۔ اردو میں مستعمل بحور گنی چنی ہی ہین اور اسی نوے فیصد شاعری تو رمل ، ہزج، مجتث اور مضارع وغیرہ ہی میں ہوتی ہے۔ اس کی واحد وجہ یہی ہے کہ یہ اوزان ہمارے کانوں اور طبیعت کو بھلے محسوس ہوتے ہین ۔
متفق۔
ویسے آپ نے اس بارے مین رائے نہین دی کہ اس غزل کا آہنگ آپ کو کیسا لگا ۔ :)
ویسے یہاں پر محمد وارث بھائی، راحیل فاروق بھائی، محترم الف عین صاحب اور مزمل شیخ بسمل بھائی کی آراء آنی چاہئیں۔ :)
بندہ پرور، مجھ جیسے کھڑوسوں کے ہاں تو رجز سالم بھی کچھ خاص مطبوع نہیں۔ یہ تو پھر مخبون احذ ہے!
یہ رائے صرف بحر کے بارے میں ہے۔ غزل تو پھر ظہیرؔ بھائی کی غزل ہے! :redheart::redheart::redheart:
 

محمد وارث

لائبریرین
بندہ پرور، مجھ جیسے کھڑوسوں کے ہاں تو رجز سالم بھی کچھ خاص مطبوع نہیں۔ یہ تو پھر مخبون احذ ہے!
یہ رائے صرف بحر کے بارے میں ہے۔ غزل تو پھر ظہیرؔ بھائی کی غزل ہے! :redheart::redheart::redheart:
رجز سالم کو ابن انشا زبانوں پر چڑھا گئے ہیں اور کیا خوب چڑھا گئے ہیں۔
 
رجز سالم کو ابن انشا زبانوں پر چڑھا گئے ہیں اور کیا خوب چڑھا گئے ہیں۔
ابنِ انشا کی حد تک صد فی صد متفق، مگر اللہ جانتا ہے ان کے بعد کچھ مزا نہیں آیا۔ اکا دکا غزلیں نکل آئیں گی مگر اس سے بحر کے مطبوع ہونے کا فیصلہ تو شاید نہیں کرنا چاہیے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
ابنِ انشا کی حد تک صد فی صد متفق، مگر اللہ جانتا ہے ان کے بعد کچھ مزا نہیں آیا۔ اکا دکا غزلیں نکل آئیں گی مگر اس سے بحر کے مطبوع ہونے کا فیصلہ تو شاید نہیں کرنا چاہیے۔
درست فرماتے ہیں آپ، عربی جنگی ترانوں کی بحر ہے، ہمارے ہاں رائج نہیں ہے لیکن اگر اتفاق سے یا محنت اور محبت سے کسی کی کوئی اچھی غزل اس بحر میں بھی نکل آئے تو کچھ مضائقہ نہیں۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بندہ پرور، مجھ جیسے کھڑوسوں کے ہاں تو رجز سالم بھی کچھ خاص مطبوع نہیں۔ یہ تو پھر مخبون احذ ہے!

راحیل بھائی مذکورہ غزل کا وزن مخبون احذ نہیں ہے ۔ اگر اس کا وزن مستفعلن مستفعلن فعلن مفاعلن ہوتا (جیسا کہ یہ مفروضہ ریحان نے بھی اوپر لکھا ہے) تو اسے مخبون احذ نہیں بلکہ احذ مخبون (یا محذوذمخبون) کہا جا سکتا تھا ۔ لیکن یہ مفروضہ وزن بحر رجز میں ممکن ہی نہیں ہے ۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ حذذ کا زحاف صرف عروض اور ضرب ہی میں ممکن ہے ۔ حشو میں نہیں لگ سکتا ۔ جبکہ خبن ایک عام زحاف ہے اور ہر جگہ ممکن ہے ۔ چنانچہ محولہ بالہ غزل کسی معروف بحر میں نہیں ہے اور اردو میں رجز کے مروجہ اور جائز زحافات کی مدد سے اس وزن کا استخراج ممکن نہیں ہے۔

باقی رہی ذاتی پسند ناپسند کی بات تو یہ تو سرے سے کوئی بحث ہی نہیں ۔ ہر شاعر کا مطالعہ، تربیت اور طبیعت مختلف ہوتی ہے اور ضروری نہیں کہ اس کی طبع ہر بحر میں یکساں رواں ہو ۔ نو آموزی کے دنوں میں ہر شاعر مختلف بحور میں طبع آزمائی کرتا ہے اور مین سمجھتا ہوں کہ اسے کرنی بھی چاہئے ۔ متقدمین میں تو کسی کو تب تک مستند اور معتبرشاعر سمجھا ہی نہیں جاتا تھا تب تک کہ وہ تمام مستعمل بحور میں جوہرِ قلم نہ دکھائے ۔ خیر : وہ زمانے اور تھے ، یہ زمانہ اور ہے ( بحوالہ فلم: لال دو پٹہ ململ کا) :D
موزونیت والے نکتے سے اختلاف ممکن نہیں۔ مگر افاعیل کو الل ٹپ جوڑ کر جو وزن تشکیل دیا جائے گا وہ تب تک بحر نہیں کہلا سکے گا جب تک مناسب زحافات کے بحورِ نوزدگانہ پر عمل سے وہی صورت حاصل نہیں ہو جاتی۔ دراصل اس نکتے کے حوالے سے میں تقطیعِ حقیقی کی لازوال اہمیت کا قائل ہوں کیونکہ اسی کے طفیل عروض ایک نظام کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ جبکہ آپ کی بابت احساس ہوا تھا کہ آپ غالباً ایسا نہیں سمجھتے۔

راحیل بھائی ، یہ مقصد تو قطعی نہیں تھا کہ افاعیل کو الل ٹپ جوڑ دیا جائے ۔ گفتگو کے سیاق و سباق میں اس کا مطلب یہ تھا کہ ایک دائرہء بحور میں رہتے ہوئے اس کےافاعیل کو باہم جوڑا جاسکتا ہے ۔ اور جیسا کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ دائروں سے مختلف بحور اسی طرح حاصل ہوئی ہیں ۔ بلکہ مرکب بحور تو دو مختلف دائروں سے افاعیل لیکر ترتیب دی گئی ہیں ۔

یہ ایک بہت ہی دلچسپ اور عمیق موضوع ہے ۔ وقت کی کمی مارے ڈالتی ہے ۔ شاید کہیں اور کبھی اس پر مفصل گفتگو رہے گی ۔ مختصرا یہ کہوں گا کہ مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی عارنہیں کہ اگر افاعیل کو الل ٹپ جوڑ کر بھی کوئی وزن ترتیب دے دیا جائے تو اس مین قطعی کوئی حرج نہیں بشرطیکہ افاعیل کا وہ مجموعہ رواں اور مترنم ہو یعنی صوتی حد تک اس میں ’’ شعریت‘‘ کا عنصر موجود ہو ۔ بات یہ ہے کہ شاعری پہلے وجود میں آئی ہے اور عروض بعد میں ۔ یعنی شعر کے اوزان تو فطری طور پر پہلے ہی سے شعر میں موجود تھے ۔ عروضیوں نے تو تحقیق و تدقیق کے بعد اشعار میں موجود اصوات کی ترتیب اور ترنم کو دریافت کیا اور انہین ایک مربوط نظام میں منضبط کردیا ۔ پہلے الفاظ کو ان کے متحرک اور ساکن اجزا میں توڑا اور پھر اُن کو بیان کرنے کی خاطر افاعیل ایجاد کئے ۔ پھر اُن افاعیل کے تغیرات کی توضیح کرنے کے لئے زحافات ایجاد کئے ۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ عروض اپنی موجودہ صورت میں تقریبا تمام ممکنہ اوزان کا احاطہ کرتی ہے اور کسی بھی شعری وزن کو کسی نہ کسی معروف بحر پر منطبق کیا جاسکتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہین کہ اب کوئی نیا وزن سرے سے ’’ایجاد‘‘ ہی نہیں ہوسکتا ۔ علم عروض عربی الاصل ہے لیکن عجمیوں نے اس میں کتنی ہی نئی بحور کا اضافہ کیا ہے ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا ہر قوم اور علاقے والوں کا شعری مذاق مختلف ہوسکتا ہے ۔ کیا وجہ ہے کہ میر کی ہندی بحر اب تک مروجہ اردو عروض کے لئے ایک معمہ بنی ہوئی ہے ؟ حاصلِ کلام یہ کہ کسی نئے وزن میں شعر کہنا کوئی عیب نہیں اور یہ ضروری نہیں کہ اس وزن کو ہم مروجہ عروضی اصولوں سے ثابت بھی کریں ۔ اگر کوئی تجرباتی وزن رواں ہے اور کل کلاں کو مقبول بھی ہوجاتا ہے اور شعرا اسے استعمال کرنے لگتے ہیں تو کیا وجہ ہےکہ اس وزن کو کوئی نیا نام نہ دیا جائے ۔ اگر رجز مثمن کے عروض و ضرب میں وتد مجموع (فعل) کو جائز ثابت کرنے کے لئے کوئی نیا زحاف بھی ایجاد کرنا پڑے یا کسی موجودہ زحاف کو رجز میں قابلِ استعمال قرار دیا جانا پڑے تو اس میں کیا حرج ہے؟! عروض تو شاعری کی توضیح کرنے کے لیے ایجاد ہوا ہے ۔ شعر کے لئے موزونیت شرط ہے کسی خاص بحر کی پابندی لازم نہیں ۔
راحیل بھائی غزل پر آپ کے محبت بھرے کلمات کا بہت بہت شکریہ ۔ آپ کی فراخدلی اور حوصلہ افزائی کے لئے ممنون ہوں ۔ ان شا اللہ اس پر پھر کبھی تفصیلی گفتگو ہوگی ۔ فی الحال میں ایک سُوجا ہوا دردیلا گُھٹنا چیک کرنے جارہا ہوں ۔ :):):)
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بحر میں روانی تو محسوس ہو رہی ہے۔ میرے خیال میں اسی بحر میں اور بھی غزلیں کہی گئی ہیں۔
البتہ یہ غزل کوئی اور مبتدی اصلاح سخن کے تحت شامل کرتا تو کہتا کہ مکمل ’تو‘ کانوں کو بھلا نہیں لگ رہا۔
بہت بہت شکریہ اعجاز بھائی ۔ آپ کی رائے میرے لئے بڑی وقعت رکھتی ہے ۔
مجھے اس غزل کو پڑھنے میں کوئی مشکل نہیں ہوئی۔ بحور کے ساتھ تجربات ہوتے رہتے ہیں سو یہ بھی ایک اچھا تجربہ رہا :)
وارث بھا ئی بہت ممنون ہوں کہ آپ نے فیڈ بیک دیا ۔ آپ درست کہتے ہیں کہ بحروں کے ساتھ مختلف تجربات ہر دور مین ہوتے رہتے ہیں ۔ افتخار عارف اس کی زندہ مثال ہیں ۔ اس غزل پر آپ کی رائے گراں قدر ہے اور حوصلہ افزا ہے ۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے اور ہر قسم کے گرد و غبار اور دھویں سے دور رکھے! :)
 
کل رات گھر کی تیرگی دل میں اُتر گئی
دو دیدہء پُرنم جلے تو روشنی ہوئی

اک عمر سے بے نور تھے زخموں کے سب چراغ
کچھ روز بے مرہم جلے تو روشنی ہوئی
بہت خوب ظہیر بھائی ۔۔ بہت پیاری غزل ہے ۔:khoobsurat::great::zabardast1:
 
راحیل بھائی مذکورہ غزل کا وزن مخبون احذ نہیں ہے ۔ اگر اس کا وزن مستفعلن مستفعلن فعلن مفاعلن ہوتا (جیسا کہ یہ مفروضہ ریحان نے بھی اوپر لکھا ہے) تو اسے مخبون احذ نہیں بلکہ احذ مخبون (یا محذوذمخبون) کہا جا سکتا تھا ۔ لیکن یہ مفروضہ وزن بحر رجز میں ممکن ہی نہیں ہے ۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ حذذ کا زحاف صرف عروض اور ضرب ہی میں ممکن ہے ۔ حشو میں نہیں لگ سکتا ۔ جبکہ خبن ایک عام زحاف ہے اور ہر جگہ ممکن ہے ۔ چنانچہ محولہ بالہ غزل کسی معروف بحر میں نہیں ہے اور اردو میں رجز کے مروجہ اور جائز زحافات کی مدد سے اس وزن کا استخراج ممکن نہیں ہے۔​
غور کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ آخری رکن پر پہلے اگر خبن کا استعمال کیا جائے تو مفاعلن بچتا ہے اور مفاعلن پر حذذ کا استعمال کر کے فعَل حاصل کیا جا سکتا ہے۔
یعنی اس بحر کو رجز مثمن مخبون احذ قرار دیا جا سکتا ہے۔(رمل مثمن مخبون محذوف میں بھی فعِلن پہلے خبن اور پھر حذف کے استعمال سے حاصل کیا جاتا ہے)
روانی تو یقیناََ اس بحر میں موجود ہے۔ دو روایتی مستفعلن بعد از آں بغیر وقفے کے مستفعلن فعل۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
غور کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ آخری رکن پر پہلے اگر خبن کا استعمال کیا جائے تو مفاعلن بچتا ہے اور مفاعلن پر حذذ کا استعمال کر کے فعَل حاصل کیا جا سکتا ہے۔
یعنی اس بحر کو رجز مثمن مخبون احذ قرار دیا جا سکتا ہے۔(رمل مثمن مخبون محذوف میں بھی فعِلن پہلے خبن اور پھر حذف کے استعمال سے حاصل کیا جاتا ہے)
روانی تو یقیناََ اس بحر میں موجود ہے۔ دو روایتی مستفعلن بعد از آں بغیر وقفے کے مستفعلن فعل۔

جی ۔ بالکل ریحان میاں ! صرف اسی طریقے سے رجز میں فعل کا فروع لانا ممکن ہے ۔ اور جو طریقہ آپ نے استعمال کیا ہے وہ اجتہادی ہے ۔ اور ایسے ہی اجتہاد کی بات میں اوپر راحیل بھائی کے ساتھ کر آیا ہوں ۔ رمل میں تو مخبون محذوف کی لامحدود مثالیں ہیں اور فعِلن کو فاعلاتن کے فروعات میں مستند درجہ حاصل ہے ۔ لیکن اردو اور فارسی عروض میں رجز مخبون احذ کی کہیں کوئی مثال نہیں ملتی ہے ۔ عروض کی کوئی کتاب یہ نہیں کہتی کہ رجز مثمن سالم کے آخری رکن پر خبن اور پھر حذذ لگا کر فعل حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ مستفعلن کے جتنے فروعات عروضی کتابوں میں درج ملتے ہیں ان میں فعل شامل ہی نہیں ہے ۔ اس لئے رجز میں مخبون محذوذ صرف اجتہاد کے ذریعے حاصل ہوسکتا ہے ۔ جیسا کہ مین نے اوپر لکھا:

چنانچہ محولہ بالہ غزل کسی معروف بحر میں نہیں ہے اور اردو میں رجز کے مروجہ اور جائز زحافات کی مدد سے اس وزن کا استخراج ممکن نہیں ہے۔

اگر رجز مثمن کے عروض و ضرب میں وتد مجموع (فعل) کو جائز ثابت کرنے کے لئے کوئی نیا زحاف بھی ایجاد کرنا پڑے یا کسی موجودہ زحاف کو رجز میں قابلِ استعمال قرار دیا جانا پڑے تو اس میں کیا حرج ہے؟!

اب اس اجتہادی طریقے کو مان لیا جائے ( اور نہ ماننے کی کوئی وجہ مجھے نظر نہیں آتی) تو اس بحر کو رجز مثمن سالم مخبون محذوذ کا نام دیا جاسکتا ہے اور یہ ایک نئی بحر ہوگی ۔

راحیل فاروق
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
دراصل اس نکتے کے حوالے سے میں تقطیعِ حقیقی کی لازوال اہمیت کا قائل ہوں کیونکہ اسی کے طفیل عروض ایک نظام کی سی حیثیت رکھتا ہے۔ جبکہ آپ کی بابت احساس ہوا تھا کہ آپ غالباً ایسا نہیں سمجھتے۔ شاید آپ کو محولۂِ ذیل گفتگو یاد ہو:

راحیل بھائی اپنے پچھلے مراسلے میں وقت کی قلت کے باعث تقطیع حقیقی اور غیر حقیقی کی بابت آپ کے استفسار کا جواب نہیں دے سکا تھا ۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ یہ بات رجز کی بحث سے بالکل الگ ہٹ کر تھی سو میں خلط مبحث سے بھی بچنا چاہتا تھا ۔ اب چاہتا ہوں کہ اس بارے میں اپنا موقف بیان کردوں ۔ بھائی میں تو کبھی غیر حقیقی تقطیع کا قائل ہی نہیں رہا ۔ تقطیع تو عروض کے مروجہ طریق پر ہی ہوگی ۔ اس مستند طریقے سے ہٹ کر تقطیع کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے ۔ رباعی والی گفتگو میں میں نے غیر حقیقی تقطیع کو ماننے کی بات سرے سے کی ہی نہیں کی تھی ۔ صرف یہ عرض کیا تھا کہ رباعی کے اتنے سارے اوزان کو یاد رکھنے کے لئے اگر کوئی شخص ایسا فارمولا بنالیتا ہے کہ جو اسے آسان لگتا ہو اور یاد رکھنے میں ممد و معاون ہو تو اس میں کیا حرج ہے ۔ جیسے سائنسی علوم میں اکثر لوگ کسی فہرست یا ترتیب کو یاد رکھنے کے لئے کوئی mnemonic بنالیتے ہیں ۔ جب کسی رباعی کو پرکھاجائے گا تو اس کی تقطیع تو اسی معروف عروضی طریقے سے رباعی کےانہی معروف اوزان پر ہوگی ۔ فارمولے والا وزن تو شاعر لوگ صرف اپنی یاد داشت کے لئے بناتے ہیں ۔ جیسے اکثر مبتدیوں کو وزن سمجھانے کے لئے فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن کے بجائے دم دما دم ۔دم دمادم ۔ دم دمادم۔دم دما یا ٹک ٹکا ٹک۔ ٹک ٹکا ٹک وغیرہ سے سمجھایا جاتا ہے ۔

راحیل بھئی میری حقیر رائے میں علم عروض کے دو بنیادی اغراض و مقاصد ہیں ۔ نمبر ایک: شعر کے وزن کو افاعیل کے پیمانوں سے ناپ کر بیان کرنا ۔ نمبر دو : اوزان کا استخراج ، درجہ بندی اور جائز و ناجائز کے اصول متعین کرنا ۔ عروض کی اصل ضرورت اور اہمیت اس دوسرے والے کام کے لئے ہے ۔ پہلا کام یعنی شعر کے وزن کو کسی پیمانے کی رو سے بیان کرنا تو اور بھی کئی طریقوں سے انجام دیا جاسکتا ہے ۔ ضروری نہیں کہ عربی افاعیل کے پیمانے ہی استعمال کئے جائیں ۔ دم دمادم کی مثال میں اوپر لکھ چکا ۔ اب بہت سارے لوگ وزن کو اعداد کی مدد سے بھی بیان کرتے ہیں ۔ ڈیش اور ڈبل ڈیش کا طریقہ بھی وزن کو ظاہر کرسکتا ہے ۔ میں نے لوگوں کو وزن سمجھانے کے لئے تصویری طریقہ بھی استعمال کیا ہے ۔ سبب کو ایک دائرے اور وتد کو ایک تکون کی مدد سے ظاہر کیا ۔ اس طرح سے کاغذ پر ان اشکال کی جولڑی بنتی ہے وہ کسی مصرع میں اسباب و اوتاد کے ترتیبی نقشے کو بہت آسانی سے ذہن نشین کرادیتی ہے ۔ چنانچہ وزن کو بیان کرنا اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے ۔ مسئلہ تو اوزان کےا ستخراج اور ان کے اختلاط کا ہے ۔ اور یہیں آکر اس مین وہ اجتہاد کا عنصر بھی شاملِ بحث ہوتا ہے کہ جس کی بات مین نے پچھلے مراسلے میں کی تھی ۔ مختصرا یہ کہ شعر کے وزن کو صحیح صحیح شناخت کرنے اور اس کی درست بحر متعین کرنے سے ہی جائز و ناجائز کا پتہ چل سکتا ہے ۔ اس لئے حقیقی وزن اور حقیقی تقطیع کی بڑی اہمیت ہے اور جیسا کہ آپ نے کہا عروضی نظام کی بنیاد اسی پر قائم ہے۔ اس بارے میں آپ سے سو فیصد متفق ہوں ۔ امید ہے اس بارے میں میرامطمح نظر واضح ہوگیا ہوگا ۔
 
جی ۔ بالکل ریحان میاں ! صرف اسی طریقے سے رجز میں فعل کا فروع لانا ممکن ہے ۔ اور جو طریقہ آپ نے استعمال کیا ہے وہ اجتہادی ہے ۔ اور ایسے ہی اجتہاد کی بات میں اوپر راحیل بھائی کے ساتھ کر آیا ہوں ۔ رمل میں تو مخبون محذوف کی لامحدود مثالیں ہیں اور فعِلن کو فاعلاتن کے فروعات میں مستند درجہ حاصل ہے ۔ لیکن اردو اور فارسی عروض میں رجز مخبون احذ کی کہیں کوئی مثال نہیں ملتی ہے ۔ عروض کی کوئی کتاب یہ نہیں کہتی کہ رجز مثمن سالم کے آخری رکن پر خبن اور پھر حذذ لگا کر فعل حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ مستفعلن کے جتنے فروعات عروضی کتابوں میں درج ملتے ہیں ان میں فعل شامل ہی نہیں ہے ۔ اس لئے رجز میں مخبون محذوذ صرف اجتہاد کے ذریعے حاصل ہوسکتا ہے ۔
درست فرما رہے ہیں، بھائی۔
اصل میں آپ کی وقت کی قلت والی بات سے بدک گیا ورنہ آپ سے گفتگو کا مزا تو آتا ہے۔ اگر آپ تھوڑا تھوڑا وقت نکال کر اسی طرح بات جاری رکھ سکیں تو مجھے بہت خوشی ہو گی۔
اس کا وزن مستفعلن مستفعلن مستفعلن فعل ہے ۔
اگر اس کا وزن مستفعلن مستفعلن فعلن مفاعلن ہوتا (جیسا کہ یہ مفروضہ ریحان نے بھی اوپر لکھا ہے) تو اسے مخبون احذ نہیں بلکہ احذ مخبون (یا محذوذمخبون) کہا جا سکتا تھا ۔ لیکن یہ مفروضہ وزن بحر رجز میں ممکن ہی نہیں ہے ۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ حذذ کا زحاف صرف عروض اور ضرب ہی میں ممکن ہے ۔ حشو میں نہیں لگ سکتا ۔
تین باتیں پوچھنے کے لائق ہیں، بھائی۔
اول، جس وزن کو آپ نے احذ مخبون یا محذوذ مخبون قرار دیا ہے وہ محلِ نظر ہے۔ اگر عروض و ضرب میں مفاعلن آ رہا ہو تو بحر آخری رکن یعنی مستفعلن کی سین گر جانے کے بعد (مُتَفعَلُن مبدل بہ مفاعلن) رجز مخبون ہو گی۔ احذ مخبون کیسے ہو سکتی ہے؟ حذذ کا عمل تو وتدِ مجموع کے گرا دینے کا ہے۔ مگر وتد بدستور (علن کی صورت) میں موجود ہے۔
دوم، جو بحر ریحان نے استخراج کی ہے اس میں (مستفعلن مستفعلن مستفعلن فَعَل = رجز مخبون احذ) میں حذذ کا عمل عروض و ضرب ہی میں تو ہوا ہے۔ فَعَل حشوین میں نہیں بلکہ رکنِ رابع کی صورت میں موجود ہے۔ پھر آپ اسے کیوں ناجائز سمجھتے ہیں؟
سوم، بحر کی تسمیہ میں زحافات کے ناموں کا مقام یعنی تقدیم و تاخیر کا معاملہ کیا معنیٰ رکھتا ہے؟ مخبون احذ اور احذ مخبون میں کیا فرق ہے؟ یہ سوال میرے لیے بہت اہم ہے۔ میں ہی کیا، ریحان میاں بھی اس معاملے میں متذبذب رہے ہیں۔ ہم دونوں ایک بار عروض کے تسمیہ (nomenclature) کے اسی نکتے کو نہ سمجھنے کے باعث دلبرداشتہ ہو کر کسی نئے نظام کی تلاش میں بھی نکل کھڑے ہونے کو تھے۔ ریحان نے حیاتیاتی تسمیہ کے طرز پر کام کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ وہ تو سستی کے باعث بچت ہو گئی ورنہ اب تک کوئی نیا گل کھلا چکے ہوتے!
اگر رجز مثمن کے عروض و ضرب میں وتد مجموع (فعل) کو جائز ثابت کرنے کے لئے کوئی نیا زحاف بھی ایجاد کرنا پڑے یا کسی موجودہ زحاف کو رجز میں قابلِ استعمال قرار دیا جانا پڑے تو اس میں کیا حرج ہے؟! عروض تو شاعری کی توضیح کرنے کے لیے ایجاد ہوا ہے ۔
صد فی صد متفق۔
کیا وجہ ہے کہ میر کی ہندی بحر اب تک مروجہ اردو عروض کے لئے ایک معمہ بنی ہوئی ہے ؟
سچی سچی بات بتاؤں؟
میرا ارادہ تھا کہ ایک تحقیقی مقالہ لکھ کر اس مسئلے کو انجام تک پہنچایا جائے۔ میں نے عروض کا سنجیدہ مطالعہ کچھ ہی عرصہ پہلے شروع کیا ہے۔ کچھ دن موسیقاروں کا مغز کھانے، کچھ پڑھنے اور کچھ غور کرنے کے بعد میرا خیال ہے کہ میں اس گرہ کو کھول چکا ہوں۔ ہندی بھی اسی لیے سیکھنی چاہی تھی مگر اس سے پہلے کہ شاگردوں کی تابِ شکیب آزمائی جاتی، خود استاد موصوف چمپت ہو گئے۔ خیر، زبانِ ہندی تو ہماری بلا سے گئی ہندوستان، بحرِ ہندی پر دلائل و براہین کو مقالے کے چھپنے تک اٹھا رکھتے ہیں۔
راحیل بھائی اپنے پچھلے مراسلے میں وقت کی قلت کے باعث تقطیع حقیقی اور غیر حقیقی کی بابت آپ کے استفسار کا جواب نہیں دے سکا تھا ۔ اور دوسری وجہ یہ تھی کہ یہ بات رجز کی بحث سے بالکل الگ ہٹ کر تھی سو میں خلط مبحث سے بھی بچنا چاہتا تھا ۔ اب چاہتا ہوں کہ اس بارے میں اپنا موقف بیان کردوں ۔ بھائی میں تو کبھی غیر حقیقی تقطیع کا قائل ہی نہیں رہا ۔ تقطیع تو عروض کے مروجہ طریق پر ہی ہوگی ۔ اس مستند طریقے سے ہٹ کر تقطیع کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے ۔ رباعی والی گفتگو میں میں نے غیر حقیقی تقطیع کو ماننے کی بات سرے سے کی ہی نہیں کی تھی ۔ صرف یہ عرض کیا تھا کہ رباعی کے اتنے سارے اوزان کو یاد رکھنے کے لئے اگر کوئی شخص ایسا فارمولا بنالیتا ہے کہ جو اسے آسان لگتا ہو اور یاد رکھنے میں ممد و معاون ہو تو اس میں کیا حرج ہے ۔ جیسے سائنسی علوم میں اکثر لوگ کسی فہرست یا ترتیب کو یاد رکھنے کے لئے کوئی mnemonic بنالیتے ہیں ۔ جب کسی رباعی کو پرکھاجائے گا تو اس کی تقطیع تو اسی معروف عروضی طریقے سے رباعی کےانہی معروف اوزان پر ہوگی ۔ فارمولے والا وزن تو شاعر لوگ صرف اپنی یاد داشت کے لئے بناتے ہیں ۔ جیسے اکثر مبتدیوں کو وزن سمجھانے کے لئے فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن کے بجائے دم دما دم ۔دم دمادم ۔ دم دمادم۔دم دما یا ٹک ٹکا ٹک۔ ٹک ٹکا ٹک وغیرہ سے سمجھایا جاتا ہے ۔
درست۔
راحیل بھئی میری حقیر رائے میں علم عروض کے دو بنیادی اغراض و مقاصد ہیں ۔ نمبر ایک: شعر کے وزن کو افاعیل کے پیمانوں سے ناپ کر بیان کرنا ۔ نمبر دو : اوزان کا استخراج ، درجہ بندی اور جائز و ناجائز کے اصول متعین کرنا ۔ عروض کی اصل ضرورت اور اہمیت اس دوسرے والے کام کے لئے ہے ۔ پہلا کام یعنی شعر کے وزن کو کسی پیمانے کی رو سے بیان کرنا تو اور بھی کئی طریقوں سے انجام دیا جاسکتا ہے ۔ ضروری نہیں کہ عربی افاعیل کے پیمانے ہی استعمال کئے جائیں ۔ دم دمادم کی مثال میں اوپر لکھ چکا ۔ اب بہت سارے لوگ وزن کو اعداد کی مدد سے بھی بیان کرتے ہیں ۔ ڈیش اور ڈبل ڈیش کا طریقہ بھی وزن کو ظاہر کرسکتا ہے ۔ میں نے لوگوں کو وزن سمجھانے کے لئے تصویری طریقہ بھی استعمال کیا ہے ۔ سبب کو ایک دائرے اور وتد کو ایک تکون کی مدد سے ظاہر کیا ۔ اس طرح سے کاغذ پر ان اشکال کی جولڑی بنتی ہے وہ کسی مصرع میں اسباب و اوتاد کے ترتیبی نقشے کو بہت آسانی سے ذہن نشین کرادیتی ہے ۔ چنانچہ وزن کو بیان کرنا اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے ۔ مسئلہ تو اوزان کےا ستخراج اور ان کے اختلاط کا ہے ۔ اور یہیں آکر اس مین وہ اجتہاد کا عنصر بھی شاملِ بحث ہوتا ہے کہ جس کی بات مین نے پچھلے مراسلے میں کی تھی ۔ مختصرا یہ کہ شعر کے وزن کو صحیح صحیح شناخت کرنے اور اس کی درست بحر متعین کرنے سے ہی جائز و ناجائز کا پتہ چل سکتا ہے ۔
بجا۔
اصل میں سید قدرت نقوی صاحب کی ایک بات بڑی دیر سے میری سمجھ میں آئی مگر جب آئی تو حضرتِ داغؔ کی طرح بیٹھ ہی گئی۔ موصوف نے فرمایا تھا کہ عروض اور دیگر نظام ہائے آہنگ کا بنیادی فرق یہ ہے کہ عروض اطلاقی اور انطباقی ہے جبکہ پنگل اور پراسڈی (prosody) وغیرہ محض نظری اور وجدانی پیمانے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو، اور تاریخی حوالوں سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ، خلیل بصری رحمۃ اللہ علیہ کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ موصوف نے افاعیل کی صورت میں ہمیں ٹھوس، ریاضیاتی اور تقریباً ماورائے خطا ترازو مہیا کر دیے ہیں۔ دیگر معروف نظام ہائے آہنگ میں وجدان اور موزونئِ طبع پر انحصار کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ مگر افاعیل کو مستحضر کر کے چھ سال کا بے سرا بچہ بھی موزوں کلمات لکھنے پر قادر ہو سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عروض کی یہی اطلاقی اور انطباقی خوبی ایسی ہے جس کا فائدہ اٹھا کر اہلِ اردو عروض ڈاٹ کام جیسی ویب سائٹ بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ورنہ کہاں کمپیوٹر اور کہاں اوزانِ شعر؟
پھر سونے پہ سہاگا یہ کہ خلیل نے افاعیل کو آزاد نہیں رہنے دیا کہ کوئی بھی حسبِ آہنگ ان کی صورت طے کر لے بلکہ بحور اور زحافات کی گراریوں کا ایک پورا نظام قائم کر دیا تاکہ ضرورت بھی کسی قاعدے سے پوری ہو۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ علومِ اسلامیہ کی باقی بوقلمونیاں تو ایک طرف رہیں، عروض پر اگر غور کیا جائے تو یہ علم تنہا ہی مسلمانوں کی جدتِ طبع، اصول پسندی اور سلامت روی کو ثابت کرنے کو کافی ہے۔
جہاں تک جائز و ناجائز کے اصولوں کے تعین کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں عروض کو بہت سی اصلاح (reformation) کی ضرورت ہے۔ اہلِ عرب کے لیے تو یہ کافی ہے کہ تشکیل انھی کی خاطر پایا تھا۔ مگر ہمارے ہاں اس کا اطلاق بعض جگہوں پر ٹھیک نہیں ہو پاتا۔ اس سلسلے میں کام کی ضرورت ہے مگر میری پرزور سفارش ہے کہ جہاں تک ممکن ہو یہ کام عربی عروض کے نظامِ کار (framework) کی حدود میں رہتے ہوئے کیا جائے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمیں عربی عروض کے بنیادی سانچے سے دور جانے کی قطعاً ضرورت نہیں پڑے گی۔ ہم سے پہلے ایرانی یہ کام بطریقِ احسن کر چکے ہیں۔ ازروئے فطرت نقاش پر لازم ہے کہ نقشِ ثانی اول سے بہتر ہو!
 
Top