دو باتیں از قلم نیرنگ خیال

نیرنگ خیال

لائبریرین
دو باتیں

کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں طوطے پکڑنے والے ایک سادہ سا طریقہ استعمال کیا کرتے تھے۔ وہ دو درختوں کے درمیان ایک رسی باندھ دیتے۔ اور پھر اس رسی پر چھوٹی چھوٹی لکڑیاں اَڑا دیتے تھے۔ طوطے ان لکڑیوں پر آکر بیٹھتے ۔ ان کے وزن سے لکڑی الٹ جاتی، اور طوطا اس لکڑی کو سیدھا کرنے کی کوشش میں لگا رہتا۔ الٹا لٹکنے کے سبب وہ موت کے ڈر سے لکڑی نہیں چھوڑتے تھے ،اور یکسر بھول جاتے تھے کہ گرنا ان کی شان کے خلاف ہے۔ وہ پر رکھتے ہیں۔ یوں اسی لکڑی کو سیدھا کرنے کی کوشش میں اور اپنی اڑ جانے کی صلاحیت کو بھول جانے کے صلے میں ان کو ایک پنجرے کی قید ملتی۔

انسان بھی گورکھ دھندہ ہے۔ وہ جس تجربے سے گزرتا ہے۔ اس کو پلے سے باندھ لیتا ہے۔ اس کی جان نہیں چھوڑتا۔ یہ وہ لکڑیاں ہیں جو اگر سیدھی ہیں تو صرف اس لیے کہ ان پر ضرورت سے زیادہ بوجھ نہیں پڑا۔ اور اگر الٹی ہیں تو ایک خوف ایک ڈر نے گھیر رکھا ہے کہ ہائے سیدھی کیسے ہو؟ ہماری زندگی میں بارہا ایسے لمحات آتے ہیں جن میں ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ جو معاملہ الٹا ہے اس کو سدھار لیں۔ اس کو سلجھا لیں۔ اور اس کوشش میں ہم بالکل بھول جاتے ہیں کہ یہ معاملہ ہمارے بوجھ ہی سے الٹا ہے۔ اگر اس میں سے ہم اپنا آپ نکال لیں تو سب سیدھا ہوجائے گا۔لیکن ہم اس پکڑ کو چھوڑنا نہیں چاہتے، اس کو اپنی زندگی موت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ ہمارے ذہن پر یہ بات حاوی ہوتی ہے کہ ہم اس چیز سے بندھے ہیں یا پھر یہ جو سب معاملات ہیں یہ ہماری وجہ سے ہی چل رہے ہیں۔ ہم نہ ہوں گے تو جانے کیا حالات ہوں۔ یہ پکڑ یہ بندھن اندرونی ہے۔ اس کو کسی نے باہر سے آکر نہیں کھولنا۔ اس کو ہم نے خود ہی کھولنا ہے۔ اچھا اس پکڑ سے مجھے ایک دلچسپ تاریخی واقعہ یاد آگیا۔

ایک بار حضرت فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ چند عقیدت مند وں کے ساتھ بازار سے گزر رہے تھے۔ کہ آپ کی نظر ایک شخص پر پڑی، جو کہ گائے کو لیکر جا رہا تھا۔ آپ نے اپنے ساتھ موجود لوگوں سے سوال کیا کہ کیا یہ گائے اس شخص سے بندھی ہے یا پھر یہ شخص گائے سے بندھا ہے؟ عقیدت مندوں نے جواب دیا کہ ظاہری سی بات ہے گائے اس شخص کے ساتھ بندھی ہے کیوں کہ رسی گائے کے گلے میں اور شخص کے ہاتھ میں ہے۔ آپ نے فرمایا، اچھا! اگر ایسی بات ہے تو یہ بتاو کہ اگر رسی درمیان سے کاٹ دی جائے، تو کیا گائے اس شخص کے پیچھے بھاگے گی یا یہ شخص گائے کے پیچھے بھاگے گا؟ اس پر ساتھ موجود لوگ خاموش ہوگئے۔

سال گزرتے جاتے ہیں۔ معاملات سنبھلتے بگڑتے رہتے ہیں۔ خواہشات کی گائے پیچھے پیچھے رسی سے بندھی چلی آتی ہے۔ یہ سالہا سال کی چھوٹی چھوٹی لکڑیاں جو قدرت کی کارگر ی نے زندگی سے موت کے درمیان ڈوری پر لگائی ہوئی ہیں، یہ سب استعارے ہیں۔ پر کھولو، ان لکڑیوں کے سیدھے الٹے ہونے پر وقت مت ضائع کرو۔ اگر اڑنے کی تاب باقی ہے تو کیسے گر سکتے ہو۔ مٹھی کھولواور خواہشات کی رسی کو چھوڑو۔ دیکھو کہ وہ تمہاری وفادار نہیں ہیں۔ یہ تم ہو جو ان کے پیچھے بھاگتے ہو۔ ان کو اپنے ساتھ گھسیٹے پھرتے ہو۔نئے سال کی لکڑی پر بیٹھتے ہوئے یہ مت سوچو کہ یہ الٹنے والی ہے۔ کیوں کہ الٹنا ہی اس کا مقدر ہے۔ اپنے ہاتھوں کو بےنام خواہشات کی رسی سے آزاد کرو کہ یہ رسی تمہیں خود ہی توڑنی ہے۔

نیرنگ خیال
یکم جنوری 2020
یکم جنوری 2019 کو لکھی گئی تحریر "کچھ آگہی کی سبیلیں بھی ہیں انتشار میں"
یکم جنوری 2018 کو لکھی گئی تحریر "تتلیاں"
یکم جنوری 2017 کو لکھی گئی تحریر "عجب تعلق"
یکم جنوری 2016 کو لکھی گئی تحریر "اوستھا"
2 جنوری 2015 کو لکھی گئی تحریر "سال رفتہ"
31 دسمبر 2013 کو لکھی گئی تحریر" کہروا"
 

سیما علی

لائبریرین
دو باتیں

کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں طوطے پکڑنے والے ایک سادہ سا طریقہ استعمال کیا کرتے تھے۔ وہ دو درختوں کے درمیان ایک رسی باندھ دیتے۔ اور پھر اس رسی پر چھوٹی چھوٹی لکڑیاں اَڑا دیتے تھے۔ طوطے ان لکڑیوں پر آکر بیٹھتے ۔ ان کے وزن سے لکڑی الٹ جاتی، اور طوطا اس لکڑی کو سیدھا کرنے کی کوشش میں لگا رہتا۔ الٹا لٹکنے کے سبب وہ موت کے ڈر سے لکڑی نہیں چھوڑتے تھے ،اور یکسر بھول جاتے تھے کہ گرنا ان کی شان کے خلاف ہے۔ وہ پر رکھتے ہیں۔ یوں اسی لکڑی کو سیدھا کرنے کی کوشش میں اور اپنی اڑ جانے کی صلاحیت کو بھول جانے کے صلے میں ان کو ایک پنجرے کی قید ملتی۔

انسان بھی گورکھ دھندہ ہے۔ وہ جس تجربے سے گزرتا ہے۔ اس کو پلے سے باندھ لیتا ہے۔ اس کی جان نہیں چھوڑتا۔ یہ وہ لکڑیاں ہیں جو اگر سیدھی ہیں تو صرف اس لیے کہ ان پر ضرورت سے زیادہ بوجھ نہیں پڑا۔ اور اگر الٹی ہیں تو ایک خوف ایک ڈر نے گھیر رکھا ہے کہ ہائے سیدھی کیسے ہو؟ ہماری زندگی میں بارہا ایسے لمحات آتے ہیں جن میں ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ جو معاملہ الٹا ہے اس کو سدھار لیں۔ اس کو سلجھا لیں۔ اور اس کوشش میں ہم بالکل بھول جاتے ہیں کہ یہ معاملہ ہمارے بوجھ ہی سے الٹا ہے۔ اگر اس میں سے ہم اپنا آپ نکال لیں تو سب سیدھا ہوجائے گا۔لیکن ہم اس پکڑ کو چھوڑنا نہیں چاہتے، اس کو اپنی زندگی موت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ ہمارے ذہن پر یہ بات حاوی ہوتی ہے کہ ہم اس چیز سے بندھے ہیں یا پھر یہ جو سب معاملات ہیں یہ ہماری وجہ سے ہی چل رہے ہیں۔ ہم نہ ہوں گے تو جانے کیا حالات ہوں۔ یہ پکڑ یہ بندھن اندرونی ہے۔ اس کو کسی نے باہر سے آکر نہیں کھولنا۔ اس کو ہم نے خود ہی کھولنا ہے۔ اچھا اس پکڑ سے مجھے ایک دلچسپ تاریخی واقعہ یاد آگیا۔

ایک بار حضرت فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ چند عقیدت مند وں کے ساتھ بازار سے گزر رہے تھے۔ کہ آپ کی نظر ایک شخص پر پڑی، جو کہ گائے کو لیکر جا رہا تھا۔ آپ نے اپنے ساتھ موجود لوگوں سے سوال کیا کہ کیا یہ گائے اس شخص سے بندھی ہے یا پھر یہ شخص گائے سے بندھا ہے؟ عقیدت مندوں نے جواب دیا کہ ظاہری سی بات ہے گائے اس شخص کے ساتھ بندھی ہے کیوں کہ رسی گائے کے گلے میں اور شخص کے ہاتھ میں ہے۔ آپ نے فرمایا، اچھا! اگر ایسی بات ہے تو یہ بتاو کہ اگر رسی درمیان سے کاٹ دی جائے، تو کیا گائے اس شخص کے پیچھے بھاگے گی یا یہ شخص گائے کے پیچھے بھاگے گا؟ اس پر ساتھ موجود لوگ خاموش ہوگئے۔

سال گزرتے جاتے ہیں۔ معاملات سنبھلتے بگڑتے رہتے ہیں۔ خواہشات کی گائے پیچھے پیچھے رسی سے بندھی چلی آتی ہے۔ یہ سالہا سال کی چھوٹی چھوٹی لکڑیاں جو قدرت کی کارگر ی نے زندگی سے موت کے درمیان ڈوری پر لگائی ہوئی ہیں، یہ سب استعارے ہیں۔ پر کھولو، ان لکڑیوں کے سیدھے الٹے ہونے پر وقت مت ضائع کرو۔ اگر اڑنے کی تاب باقی ہے تو کیسے گر سکتے ہو۔ مٹھی کھولواور خواہشات کی رسی کو چھوڑو۔ دیکھو کہ وہ تمہاری وفادار نہیں ہیں۔ یہ تم ہو جو ان کے پیچھے بھاگتے ہو۔ ان کو اپنے ساتھ گھسیٹے پھرتے ہو۔نئے سال کی لکڑی پر بیٹھتے ہوئے یہ مت سوچو کہ یہ الٹنے والی ہے۔ کیوں کہ الٹنا ہی اس کا مقدر ہے۔ اپنے ہاتھوں کو بےنام خواہشات کی رسی سے آزاد کرو کہ یہ رسی تمہیں خود ہی توڑنی ہے۔

نیرنگ خیال
یکم جنوری 2020
یکم جنوری 2019 کو لکھی گئی تحریر "کچھ آگہی کی سبیلیں بھی ہیں انتشار میں"
یکم جنوری 2018 کو لکھی گئی تحریر "تتلیاں"
یکم جنوری 2017 کو لکھی گئی تحریر "عجب تعلق"
یکم جنوری 2016 کو لکھی گئی تحریر "اوستھا"
2 جنوری 2015 کو لکھی گئی تحریر "سال رفتہ"
31 دسمبر 2013 کو لکھی گئی تحریر" کہروا"
جناب !!!!!
آپ تو سچ مچ کمال کرتے ہیں !
ڈھیر ساری دعائیں۔ جیتے رہیے:):):):)
 

عمار نقوی

محفلین
دو باتیں

کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں طوطے پکڑنے والے ایک سادہ سا طریقہ استعمال کیا کرتے تھے۔ وہ دو درختوں کے درمیان ایک رسی باندھ دیتے۔ اور پھر اس رسی پر چھوٹی چھوٹی لکڑیاں اَڑا دیتے تھے۔ طوطے ان لکڑیوں پر آکر بیٹھتے ۔ ان کے وزن سے لکڑی الٹ جاتی، اور طوطا اس لکڑی کو سیدھا کرنے کی کوشش میں لگا رہتا۔ الٹا لٹکنے کے سبب وہ موت کے ڈر سے لکڑی نہیں چھوڑتے تھے ،اور یکسر بھول جاتے تھے کہ گرنا ان کی شان کے خلاف ہے۔ وہ پر رکھتے ہیں۔ یوں اسی لکڑی کو سیدھا کرنے کی کوشش میں اور اپنی اڑ جانے کی صلاحیت کو بھول جانے کے صلے میں ان کو ایک پنجرے کی قید ملتی۔

انسان بھی گورکھ دھندہ ہے۔ وہ جس تجربے سے گزرتا ہے۔ اس کو پلے سے باندھ لیتا ہے۔ اس کی جان نہیں چھوڑتا۔ یہ وہ لکڑیاں ہیں جو اگر سیدھی ہیں تو صرف اس لیے کہ ان پر ضرورت سے زیادہ بوجھ نہیں پڑا۔ اور اگر الٹی ہیں تو ایک خوف ایک ڈر نے گھیر رکھا ہے کہ ہائے سیدھی کیسے ہو؟ ہماری زندگی میں بارہا ایسے لمحات آتے ہیں جن میں ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ جو معاملہ الٹا ہے اس کو سدھار لیں۔ اس کو سلجھا لیں۔ اور اس کوشش میں ہم بالکل بھول جاتے ہیں کہ یہ معاملہ ہمارے بوجھ ہی سے الٹا ہے۔ اگر اس میں سے ہم اپنا آپ نکال لیں تو سب سیدھا ہوجائے گا۔لیکن ہم اس پکڑ کو چھوڑنا نہیں چاہتے، اس کو اپنی زندگی موت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ ہمارے ذہن پر یہ بات حاوی ہوتی ہے کہ ہم اس چیز سے بندھے ہیں یا پھر یہ جو سب معاملات ہیں یہ ہماری وجہ سے ہی چل رہے ہیں۔ ہم نہ ہوں گے تو جانے کیا حالات ہوں۔ یہ پکڑ یہ بندھن اندرونی ہے۔ اس کو کسی نے باہر سے آکر نہیں کھولنا۔ اس کو ہم نے خود ہی کھولنا ہے۔ اچھا اس پکڑ سے مجھے ایک دلچسپ تاریخی واقعہ یاد آگیا۔

ایک بار حضرت فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ چند عقیدت مند وں کے ساتھ بازار سے گزر رہے تھے۔ کہ آپ کی نظر ایک شخص پر پڑی، جو کہ گائے کو لیکر جا رہا تھا۔ آپ نے اپنے ساتھ موجود لوگوں سے سوال کیا کہ کیا یہ گائے اس شخص سے بندھی ہے یا پھر یہ شخص گائے سے بندھا ہے؟ عقیدت مندوں نے جواب دیا کہ ظاہری سی بات ہے گائے اس شخص کے ساتھ بندھی ہے کیوں کہ رسی گائے کے گلے میں اور شخص کے ہاتھ میں ہے۔ آپ نے فرمایا، اچھا! اگر ایسی بات ہے تو یہ بتاو کہ اگر رسی درمیان سے کاٹ دی جائے، تو کیا گائے اس شخص کے پیچھے بھاگے گی یا یہ شخص گائے کے پیچھے بھاگے گا؟ اس پر ساتھ موجود لوگ خاموش ہوگئے۔

سال گزرتے جاتے ہیں۔ معاملات سنبھلتے بگڑتے رہتے ہیں۔ خواہشات کی گائے پیچھے پیچھے رسی سے بندھی چلی آتی ہے۔ یہ سالہا سال کی چھوٹی چھوٹی لکڑیاں جو قدرت کی کارگر ی نے زندگی سے موت کے درمیان ڈوری پر لگائی ہوئی ہیں، یہ سب استعارے ہیں۔ پر کھولو، ان لکڑیوں کے سیدھے الٹے ہونے پر وقت مت ضائع کرو۔ اگر اڑنے کی تاب باقی ہے تو کیسے گر سکتے ہو۔ مٹھی کھولواور خواہشات کی رسی کو چھوڑو۔ دیکھو کہ وہ تمہاری وفادار نہیں ہیں۔ یہ تم ہو جو ان کے پیچھے بھاگتے ہو۔ ان کو اپنے ساتھ گھسیٹے پھرتے ہو۔نئے سال کی لکڑی پر بیٹھتے ہوئے یہ مت سوچو کہ یہ الٹنے والی ہے۔ کیوں کہ الٹنا ہی اس کا مقدر ہے۔ اپنے ہاتھوں کو بےنام خواہشات کی رسی سے آزاد کرو کہ یہ رسی تمہیں خود ہی توڑنی ہے۔

نیرنگ خیال
یکم جنوری 2020
یکم جنوری 2019 کو لکھی گئی تحریر "کچھ آگہی کی سبیلیں بھی ہیں انتشار میں"
یکم جنوری 2018 کو لکھی گئی تحریر "تتلیاں"
یکم جنوری 2017 کو لکھی گئی تحریر "عجب تعلق"
یکم جنوری 2016 کو لکھی گئی تحریر "اوستھا"
2 جنوری 2015 کو لکھی گئی تحریر "سال رفتہ"
31 دسمبر 2013 کو لکھی گئی تحریر" کہروا"
ماشاء اللہ
خوبصورت اور سبق آموز تحریر کے لئے داد قبول کیجئے !!
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں طوطے پکڑنے والے ایک سادہ سا طریقہ استعمال کیا کرتے تھے۔ وہ دو درختوں کے درمیان ایک رسی باندھ دیتے۔ اور پھر اس رسی پر چھوٹی چھوٹی لکڑیاں اَڑا دیتے تھے۔ طوطے ان لکڑیوں پر آکر بیٹھتے ۔ ان کے وزن سے لکڑی الٹ جاتی، اور طوطا اس لکڑی کو سیدھا کرنے کی کوشش میں لگا رہتا۔ الٹا لٹکنے کے سبب وہ موت کے ڈر سے لکڑی نہیں چھوڑتے تھے ،اور یکسر بھول جاتے تھے کہ گرنا ان کی شان کے خلاف ہے۔ وہ پر رکھتے ہیں۔ یوں اسی لکڑی کو سیدھا کرنے کی کوشش میں اور اپنی اڑ جانے کی صلاحیت کو بھول جانے کے صلے میں ان کو ایک پنجرے کی قید ملتی۔

انسان بھی گورکھ دھندہ ہے۔ وہ جس تجربے سے گزرتا ہے۔ اس کو پلے سے باندھ لیتا ہے۔ اس کی جان نہیں چھوڑتا۔ یہ وہ لکڑیاں ہیں جو اگر سیدھی ہیں تو صرف اس لیے کہ ان پر ضرورت سے زیادہ بوجھ نہیں پڑا۔ اور اگر الٹی ہیں تو ایک خوف ایک ڈر نے گھیر رکھا ہے کہ ہائے سیدھی کیسے ہو؟ ہماری زندگی میں بارہا ایسے لمحات آتے ہیں جن میں ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ جو معاملہ الٹا ہے اس کو سدھار لیں۔ اس کو سلجھا لیں۔ اور اس کوشش میں ہم بالکل بھول جاتے ہیں کہ یہ معاملہ ہمارے بوجھ ہی سے الٹا ہے۔ اگر اس میں سے ہم اپنا آپ نکال لیں تو سب سیدھا ہوجائے گا۔لیکن ہم اس پکڑ کو چھوڑنا نہیں چاہتے، اس کو اپنی زندگی موت کا مسئلہ بنا لیتے ہیں۔ ہمارے ذہن پر یہ بات حاوی ہوتی ہے کہ ہم اس چیز سے بندھے ہیں یا پھر یہ جو سب معاملات ہیں یہ ہماری وجہ سے ہی چل رہے ہیں۔ ہم نہ ہوں گے تو جانے کیا حالات ہوں۔ یہ پکڑ یہ بندھن اندرونی ہے۔ اس کو کسی نے باہر سے آکر نہیں کھولنا۔ اس کو ہم نے خود ہی کھولنا ہے۔ اچھا اس پکڑ سے مجھے ایک دلچسپ تاریخی واقعہ یاد آگیا۔

ایک بار حضرت فرید الدین گنج شکر رحمتہ اللہ چند عقیدت مند وں کے ساتھ بازار سے گزر رہے تھے۔ کہ آپ کی نظر ایک شخص پر پڑی، جو کہ گائے کو لیکر جا رہا تھا۔ آپ نے اپنے ساتھ موجود لوگوں سے سوال کیا کہ کیا یہ گائے اس شخص سے بندھی ہے یا پھر یہ شخص گائے سے بندھا ہے؟ عقیدت مندوں نے جواب دیا کہ ظاہری سی بات ہے گائے اس شخص کے ساتھ بندھی ہے کیوں کہ رسی گائے کے گلے میں اور شخص کے ہاتھ میں ہے۔ آپ نے فرمایا، اچھا! اگر ایسی بات ہے تو یہ بتاو کہ اگر رسی درمیان سے کاٹ دی جائے، تو کیا گائے اس شخص کے پیچھے بھاگے گی یا یہ شخص گائے کے پیچھے بھاگے گا؟ اس پر ساتھ موجود لوگ خاموش ہوگئے۔

سال گزرتے جاتے ہیں۔ معاملات سنبھلتے بگڑتے رہتے ہیں۔ خواہشات کی گائے پیچھے پیچھے رسی سے بندھی چلی آتی ہے۔ یہ سالہا سال کی چھوٹی چھوٹی لکڑیاں جو قدرت کی کارگر ی نے زندگی سے موت کے درمیان ڈوری پر لگائی ہوئی ہیں، یہ سب استعارے ہیں۔ پر کھولو، ان لکڑیوں کے سیدھے الٹے ہونے پر وقت مت ضائع کرو۔ اگر اڑنے کی تاب باقی ہے تو کیسے گر سکتے ہو۔ مٹھی کھولواور خواہشات کی رسی کو چھوڑو۔ دیکھو کہ وہ تمہاری وفادار نہیں ہیں۔ یہ تم ہو جو ان کے پیچھے بھاگتے ہو۔ ان کو اپنے ساتھ گھسیٹے پھرتے ہو۔نئے سال کی لکڑی پر بیٹھتے ہوئے یہ مت سوچو کہ یہ الٹنے والی ہے۔ کیوں کہ الٹنا ہی اس کا مقدر ہے۔ اپنے ہاتھوں کو بےنام خواہشات کی رسی سے آزاد کرو کہ یہ رسی تمہیں خود ہی توڑنی ہے۔
بہت خوب لکھا ہے نیرنگ بھائی۔
 

مومن فرحین

لائبریرین
بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے حالات میں اس قدر الجھ جاتے ہیں کہ وہ اس پر کبھی غور ہی نہیں کر پاتے ۔۔۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں جو حالات پر غور کر کے اسے سمجھ لیتے ہیں ۔۔۔ لیکن ایسے لوگ بہت ہی کم ہوتے ہیں جو اسے سمجھ کر اس پر قابو پا کر اسے اس خوبصورتی سے دوسروں کے لیے مشعل راہ بنا دیتے ہیں تاکہ ہر آنے والا اس کے اجالے سے اپنی راہ روشن کر سکے ۔۔۔
آپ کی تحاریر سے بھی ایسی ہی روشنی پھوٹ رہی ہے نیرنگ جی ۔۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے حالات میں اس قدر الجھ جاتے ہیں کہ وہ اس پر کبھی غور ہی نہیں کر پاتے ۔۔۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں جو حالات پر غور کر کے اسے سمجھ لیتے ہیں ۔۔۔ لیکن ایسے لوگ بہت ہی کم ہوتے ہیں جو اسے سمجھ کر اس پر قابو پا کر اسے اس خوبصورتی سے دوسروں کے لیے مشعل راہ بنا دیتے ہیں تاکہ ہر آنے والا اس کے اجالے سے اپنی راہ روشن کر سکے ۔۔۔
آپ کی تحاریر سے بھی ایسی ہی روشنی پھوٹ رہی ہے نیرنگ جی ۔۔۔۔
آپ کی اس خوبصورت تعریف کے لیے شکرگزار ہوں۔ خون بڑھ گیا ہے۔ وہ تو شکر ہے کہ ابھی چند دن قبل ہی دیا تھا۔ اس لیے اب مکمل ہوگیا۔ :)
آپ کی حوصلہ افزائی پر سراپا سپاس ہوں۔
 
Top