دوماہی طرحی ارکانیہ مشاعرہ

مغزل

محفلین
گزشتہ روز مجھے ایک مشاعرے میں شرکت کا دعوت نا مہ ملا ۔۔ بہر کیف میں اپنے ایک دوست کے ہمراہ وہاں پہنچا تو وہاں کوئی تیس شعراءموجود تھے جن میں زیادہ تعداد بزرگ شعرا ءکی تھی بہرکیف نشست کے اختتام پر معلوم ہوا کہ یہ ارکانیہ طرحی مشاعرہ ہے اور ہردوسرے ماہ پابندی سے برپا کیا جاتا ہے اس میں طرح کے طور پر صرف ارکان دیے جاتے ہیں ردیف و قوافی آپ کی مرضی پر منحصر ہیں میرے خیال میں یہ بحر ” مفول مفاعیل مفاعیل فعولن “ میں ابتدائی دو رکن کم کرکے ” مفتعلن مفتعلن مفتعلن فع“ کیا گیا ہے ۔ جو کلام مجھے دستیاب ہوا پیش کررہا ہوں ۔
والسلام۔

مفتعلن مفتعلن مفتعلن فع
ماہانہ ارکانیہ مشاعرہ

غزل

شاد تھے ہم نخوتِ پوشاک میں رہ کر
ایک فریب اور ملا خاک میں رہ کر

تیز ہواؤں سے گری ریت کی دیوار
عمر کٹی خواہشِ املاک میں رہ کر

ٹوٹ گیا رشتہِ امید بھی آخر
ڈوب گئے قربتِ خاشاک میں رہ کر

ایک شجر لاکھ ثمر دیتا ہے کیسے
راز کھلا پردہءادراک میں رہ کر

اصل میں ہر آدمی آئینہ صفت ہے
سنگ بنا صحبتِ سفّاک میں رہ کر

خلد سے نکلا تو ملی وسعتِ ہستی
آدمی محدود تھا افلاک میں رہ کر

معتبر اب ذات کی تکمیل ہو کیسے
گردِ طلب ہو گئے اس تاک میں رہ کر

معتبر شاہجہاں پوری
 

مغزل

محفلین
غزل

چاند نکلتا ہے نکلنے کی جگہ پر
رخ بھی بدلتا ہے بدلنے کی جگہ پر

موم بھی پتھر ہو اگر سرد ہوا ہو
سنگ پگھلتا ہے پگھلنے کی جگہ پر

کہہ کے مکرنا تو نہیں مرد کا شیوہ
مرد پھلستا ہے پھلسنے کی جگہ پر

سیر کو نکلے ہو کہاں آکے رکے ہو
دل تو بہلتا ہے بہلنے کی جگہ پر

ہاتھ بڑھاتا ہوں ، نکل کھائی سے نادان
گر کے سنبھلنا ہے سنبھلنے کی جگہ پر

شعر جو کہیے تو سدا یاد یہ رکھیے
دل تو مچلتا ہے مچلنے کی جگہ پر

سانپ بھی پابند اصولوں کا ہے ساگر
زہر اگلتا ہے اگلنے کی جگہ پر

عبید اللہ ساگر
 

مغزل

محفلین
غزل

ہاتھ ملانے کا مزہ اور ہی کچھ ہے
ساتھ نبھانے کا مزہ اور ہی کچھ ہے

دورِ کشاکش میں کسی بگڑے بشر کو
راہ پہ لانے کا مزہ اور ہی کچھ ہے

دیدہ ورو! تیزہواوؤں کی فضا میں
دیپ جلانے کا مزہ اور ہی کچھ ہے

ارضِ سخن سے نئے ارکان کو لے کر
لکھنے لکھانے کا مزہ اور ہی کچھ ہے

لطفِ تغّز ل کی قسم لے کی ادا سے
گیت کے گانے کا مزہ اور ہی کچھ ہے

ہم سخنو ! انجمنِ اہلِ خرد میں
شعر سنانے کا مزہ اور ہی کچھ ہے

بات بگڑنے کا مزہ اور ہے ساگر
بات بنانے کا مزہ اور ہی کچھ ہے

عبید اللہ ساگر
 

مغزل

محفلین
دیگر شعراء کے اشعار:

قہر و غضب سے کبھی دیکھا مجھے اس نے
لطف و کرم کی کبھی برسات ہوئی ہے

اب اور کہاں تک میں تری راہ تکوں گا
صبح ہوئی ، شام ہوئی، رات ہوئی ہے
عارف زیبائی
--------------------------------
دیکھ سفر میں وہ میرے ساتھ چلے گا
آدمی محدود تھا افلا ک میں رہ کر
عزیز الرحمٰن عزیز
----------------------------------
دھوپ کی شدت میں کبھی میری انا کا
رنگ جلا تھا نہ جلا ہے نہ جلے گا
محمداکرام اکرم
-------------------------------
منزلِ مقصود کی چاہت میں شدت
سخت سفر طے مجھے کرنا ہی پڑے گا
قمر الزماں پیہم
----------------------------------
فطرتِ انساں میں خطا ہے کہ نہیں ہے
توبہ کا دروازہ کھلا ہے کہ نہیں ہے

اب گردشِ حالات سے تم ہوگئے مایوس
مجھ کو بتاؤ تو خدا ہے کہ نہیں ہے
دلشاد تبسم
---------------------------------
شاخِ شجر اب کے نہیں سبز و شگفتہ
گل کی طلب بارِ دگر کیسے کرو گے
نسیم احمد نسیم
-----------------------------
کس کے لیے شمع کی مانند سرِ راہ
برسرِ پیکار رہے آپ ہوا سے
شاہد کرب
-----------------------------
رکھ بشریت کو الگ یوں نہ بشر سے
شہر میں گرجائے گا تو سب کی نظر سے
صابر عظیم آبادی

بہت بہت شکریہ ، والسلام
 
Top