دوزخ میں ہے دنیا اسے جنت کی پڑی ہے ۔۔۔ حامد سلیم

حماد

محفلین
آندھی ہے تلاطم ہے مصیبت ہے بلا ہے
شعلے ہیں شرارے ہیں جہنم کی ہوا ہے
نفرت کا یہ موسم ہے تعصب کی فضا ہے
محشر سے بہت پہلے یہاں حشر بپا ہے
سجدے بھی کیےخاک پہ مانگی ہے دعا بھی
ناراض ہے اس قوم سے شاید کہ خدا بھی
ہر سمت یہاں نالہ و فریاد و فغاں ہے
بستی کہاں بستی ہے قیامت کا سماں ہے
دنیا کی ہے یہ شکل کہ دوزخ کا گماں ہے
اے مالکِ کونین ترا رحم کہاں ہے
برہم ہوئے انسان غم و رنج و الم سے
مایوس نہ کر اِن کو عنایت سے کرم سے
افسوس کہ آپس میں ہیں ہم بر سرِ پیکار
روتے ہیں یہاں لوگ تو خوش ہوتے ہیں اغیار
اِس قوم کو کیا جانئے کیا لگ گیا آزار
انجام سے ڈرتا ہوں کہ اچھے نہیں آ ثار
حالات سے ہر ایک ہے بے چین پریشان
اِس ملک میں چلتا ہے کسی اور کا فرمان
حیران ہوں یہ لوگ بھی انسان ہیں یا رب
جاتے ہیں جہاں موت کا سامان ہیں یا رب
چلتا ہوا پھرتا ہوا طوفان ہیں یا رب
دنیا کی نظر میں یہ مسلمان ہیں یا رب
بندے ہیں ترے دہر میں یہ کام کیا ہے
ہر دیس میں اسلام کو بدنام کیا ہے
اس طرح کے بے رحم بھی ہوتے ہیں مسلمان
دکھ درد سے بےحس ہیں کہ جیسے کوئی بے جان
دیندار ہیں ایسے کہ نہیں دین کی پہچان
رکھتے ہیں تمنا کہ ہر اک شہر ہو سنسان
کوتاہی افکار ہے اور ذہن ہیں بیمار
دوزخ کے ہیں معمار یہ جنت کے طلبگار
ظالم ہیں کہ مظلوم ہیں کیا جانئے کیا ہیں
یہ اہلِ ستم ہیں کہ گرفتارِ بلا ہیں
بیداد کی تصویر ہیں نفرت کی ادا ہیں
بت خانہ عالم میں پرستارِ خدا ہیں
مرنے کے سوا کوئی تمنا نہیں رکھتے
بیمار ہیں پر شوقِ مسیحا نہیں رکھتے
گزری ہے کچھ ایسی کہ زمانے سے ہیں بیزار
پھولوں سے نہیں گلشنِ ہستی میں سروکار
ہر موجِ صبا کرتی ہے اک درد کو بیدار
مرنے کو ہیں تیا ر یہ نا واقفِ اسرار
پیدا ہوئے جس دن سے مرے ہیں نہ جئے ہیں
بے خوف و خطر جسموں سے بم باندھ لئے ہیں
جا کر کسی مسجد میں اڑا دیتے ہیں خود کو
بچوں کے سکولوں میں جلا دیتے ہیں خود کو
قاتل ہیں کچھ ایسے کہ مٹا دیتے ہیں خود کو
نفرت کی یہ حد ہے کہ بھلا دیتے ہیں خود کو
مل جائے گا کیا اِن کو اگر سوگ بہت ہوں
مرتے ہیں وہاں جا کے جہاں لوگ بہت ہوں
مقصد ہے کہ شہروں میں تباہی سی مچا دیں
اونچی ہیں سروں سے جو عمارات گرا دیں
بارود کے شعلوں میں گلستاں کو جلا دیں
مٹنا ہے اگر خود تو ہر اک چیز مٹا دیں
جیتے رہے کچھ اور تو کیا اِن کو ملے گا
وہ زخم ہے دل پر نہ مٹے گا نہ سلے گا
مانا کہ بڑے قہر سے گزرے ہیں بچارے
ماں باپ بہن بھائی مرے جنگ میں سارے
بمباریاں اِن پر ہوئیں برسے ہیں شرارے
احباب جو باقی تھے وہ جنت کو سدھارے
دو بار قیامت تو بپا ہو نہیں سکتی
دکھ ایسے ملے ہیں کہ دوا ہو نہیں سکتی
کس سمت کو جانا ہے بتاتا ہے کوئی اور
یہ راہِ ستم اِن کو دکھاتا ہے کوئی اور
مرنے کے یہ انداز سکھاتا ہے کوئی اور
آگ اپنی ہے پر اِس کو لگاتا ہے کوئی اور
ناقص ہیں جو چلتے ہیں سہارے پہ کسی کے
سب کارِ نمایاں ہیں اشارے پہ کسی کے
دنیا نے ہمیں جو بھی کہا مان لیا ہے
حکام نے امداد کا احسان لیا ہے
خیرات پہ جینا ہے یہی ٹھان لیا ہے
غیروں نے ہر اک رمز کو پہچان لیا ہے
مسجد میں یونہی جاتے ہیں راحت کے پجاری
پیسوں سے یہ بن جاتے ہیں ظالم کے حواری
رستہ کوئی واضح ہے نہ منزل کا نشاں ہے
سب نفع کے پیچھے ہیں یہی سب کا زیاں ہے
سونے کی نظر ہے یہاں پیسے کی زباں ہے
ارزاں ہے کوئی چیز تو اک خواب گراں ہے
الجھی ہوئی باتوں میں بہت پیچ ہیں خم ہیں
بت خانہ مذہب میں تخیل کے صنم ہیں
لازم ہیں ترقی کے لئے صنعت و ا یجاد
اب علم پہ ہے قوتِ اقوام کی بنیاد
ہوتی ہے سدا مفلس و کمزور پہ بیداد
ہم قیدِ غلامی میں ہیں اب تک نہیں آزاد
یہ بات نہ سمجھیں گے اسیرانِ روایات
جاری ہیں لبِ واعظ و ملا پہ حکایات
اوپر کوئی دنیا ہے کہ حوروں سے بھری ہے
کیا گیسو و رخسار ہیں کیا جلوہ گری ہے
ہر شاخ گلستانِ تمنا کی ہری ہے
واعظ کا مصلیٰ نہیں لالچ کی دری ہے
کچھ فکر نہیں سب پہ مصیبت کی گھڑی ہے
دوزخ میں ہے دنیا اِسے جنت کی پڑی ہے
(حامد سلیم)
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب حقیقت کا عکاس کلام
بہت شکریہ محترم حماد بھائی
کوتاہی افکار ہے اور ذہن ہیں بیمار
دوزخ کے ہیں معمار یہ جنت کے طلبگار
 
Top