دور حاضر کا سرسید، عمران خان

نبیل

تکنیکی معاون
khan.jpg


عمران خان کو سرسید سے تشبیہ دینے پر کچھ لوگ یقیناً چونک اٹھیں گے لیکن مجھے پاکستان سے ملنے والی ایک خبر نے اس superlative کا استعمال کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اور یہ خبر میانوالی میں نمل کالج کے افتتاح کی خبر ہے۔ وطن عزیز، جہاں سے کوئی اچھی خبر سنے ہوئے مدت ہو گئی ہے، یکایک اس عظیم کارنامے کی خبر پر بلاشبہ میری آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے تھے۔ اب بھی الفاظ میرے جذبات کا ساتھ نہیں دے پا رہے ہیں۔ مجھے عمران خان کے پرانے انٹرویوز سے اس کے تعلیمی میدان میں کچھ کام کرنے کے ارادے کا علم ضرور تھا لیکن مجھے اس چیز کی خبر نہیں تھی کہ عمران خان صرف باتیں ہی نہیں کر رہا بلکہ اپنے منصوبوں کو عملی جامہ بھی پہنا رہا ہے۔ ایک مرتبہ پھر قوم کے اس عظیم سپوت نے تمام رکاوٹوں اور مخالفتوں کو زیر کرکے ایک شاندار منصوبے کو عملی جامہ پہنایا ہے۔ میری نظر میں تعلیمی اداروں کا قیام قوم کی نسلوں پر احسان کے مترادف ہوتا ہے اور میانوالی کے ایک پسماندہ علاقے میں ایک عالمی معیار کی یونیورسٹی کے قیام سے حاصل ہونے والے ثمرات کا ادراک کچھ مدت گزرنے کے بعد ہی ہوگا۔

شاید کچھ لوگ یہ نہ جانتے ہوں کہ عمران خان کو ایک اور منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ برطانیہ کی بریڈ فورڈ یونیورسٹی کا چانسلر بھی ہے۔ اور بریڈ فورڈ یونیورسٹی ہی نمل کالج کے نصاب کی تیاری اور اس کے معیار کو یقینی بنانے کی ذمہ دار ہوگی۔ عمران خان کا ویژن یہ ہے کہ نمل کالج میں آکسفورڈ سے مماثلت رکھتا ہوا تعلیم اور تحقیق کا ماحول فراہم کیا جائے۔ نمل کالج کی فیکلٹی میں آغاز میں جن انجینیرنگ کے مضامین کی تعلیم دی جائے گی ان میں الیکٹریکل انجینیرنگ، آٹو موٹو انجینیرنگ، زرعی انجینیرنگ، کنسٹرکشن اور سیمنٹ انڈسٹری ورک شامل ہیں۔ مجھے نمل کالج کے ایجنڈے میں ایک اور چیز متاثر کن لگی ہے کہ اس میں مقامی سکولوں اور ان کے اساتذہ کے معیار کو بہتر بنانے کا پروگرام بھی شامل ہے۔ اس پروگرام کے مطابق میانوالی کے سکولوں کے اساتذہ کی قابلیت کو بہتر بنانے کے لیے انہیں ٹریننگ دی جائے گی اور وہاں کے طلبا و طالبات کا معیار بہتر بنانے کے لیے انہیں‌ انگریزی اور ریاضی کے مضامین پڑھائے جائیں گے۔ اس کے علاوہ سکولوں کے نصاب اور ان کی لیبارٹریز کو بہتر بنانے پر بھی توجہ دی جائے گی۔ اس کام کے لیے ان لوکل پارٹنرز کا تعاون حاصل کیا جائے گا جو علاقے میں معیاری تعلیم فراہم کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس طرح نمل کالج علاقے میں اعلی تعلیم کا کوئی الگ تھلگ جزیرہ نہیں بنے گا بلکہ اس کے ثمرات پورے علاقے تک پھیلیں گے۔

شوکت خانم میموریل ہسپتال کی طرح نمل کالج کو چلانے کے لیے بھی کروڑوں بلکہ شاید اربوں روپے درکار ہوں گے۔ یہ رقم بھی عوام اور حکومت کے تعاون سے ہی اکٹھی ہو سکتی ہے۔ نمل کالج کے افتتاح کے موقع پر اگرچہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے نمل کالج کے لیے گرانٹ کا اعلان کیا لیکن اس موقع پر پنجاب حکومت کا رویہ قدرے مایوس کن تھا۔ مجھے اس موقعے پر پاکستانی الیکٹرانک میڈیا کا رویہ بھی شرمناک لگا ہے۔ جہاں ہر چینل پر معمولی سے واقعے کو بریکنگ نیوز بنا کر پیش کیا جاتا ہے، وہاں نمل کالج کے افتتاح جیسے تاریخ ساز لمحات کا مکمل بلیک آؤٹ کیا گیا۔ میڈیا کا یہ رویہ ہماری قوم کے مجموعی علم دشمن رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ نمل کالج کی تعمیر کے دوران بھی اس بات پر علاقے میں کشیدگی پھیلی رہی ہے کہ یہ کالج نیازیوں کی بجائے اعوانوں کے علاقے میں کیوں بنایا جا رہا ہے۔ اگر اس کالج کی تعمیر کسی عالمی ادارے کے ہاتھ میں ہوتی تو یہ پاکستان میں کبھی بھی نہ بن پاتا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ کسی زمانے میں ورلڈ بینک نے بلوچستان میں زرعی یونیورسٹی کے قیام کے لیے کئی سو ملین روپے کی امداد کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد بلوچستان میں ایک طویل عرصے تک پشتونوں اور بلوچوں میں اس ضد پر فسادات ہوتے رہے کہ یہ یونیورسٹی ان کے علاقے میں بننی چاہیے۔ مجبوراً ورلڈ بینک کو اپنی امداد واپس لینی پڑی۔ اس سے ملتی جلتی داستانیں پاکستان کے اعلی تعلیمی اداروں میں بھی پائی جاتی ہیں۔ اگر کسی ایک یونیورسٹی کو سینٹر آف ایکسیلینس قائم کرنے کے لیے گرانٹ ملنے کا امکان پیدا ہو جائے تو باقی یونیورسٹیاں اس میں سے حصہ لینے کے لیے بضد ہو جاتی ہیں۔

عمران خان کے ناکام سیاستدان ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ وہ غالباً عوامی سیاست میں کبھی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکے گا۔ لیکن ملک وقوم کے لیے اس کی خدمات ہمیشہ اس کا نام روشن کیے رکھیں گی۔ عمران خان نے نمل کالج کے پراجیکٹ میں بھی رزاق داؤد کا تعاون حاصل کیا ہے۔ رزاق داؤد اور بابر علی جیسے لوگ نام و نمود کی پرواہ کیے بغیر معاشرے کی خدمت کرتے رہتے ہیں۔ یہ رزاق داؤد اور بابر علی ہی تھے جنہوں نے لاہور میں عالمی معیار کی منیجمنٹ سائنسز کی یونیورسٹی لمز کی بنیاد رکھی۔ بعد میں عمران خان نے انہیں شوکت خانم ہسپتال کے پراجیکٹ کا ذمہ دار بھی بنایا۔ اور اب یہ نمل کالج کے پراجیکٹ میں عمران خان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ کسی قوم کو عروج بخشنے کے لیے چند عزم اور حوصلہ رکھنے والے افراد ہی کافی ہوتے ہیں۔ عمران خان اور اس کے رفقاء کار اس کی زندہ مثالیں ہیں۔ نمل کالج کے پراجیکٹ میں تعاون یا ڈونیشن کے لیے معلومات اس ربط پر موجود ہیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
حوالہ: حرف تمنا، ارشاد احمد حقانی (روزنامہ جنگ، 27 اپریل 2008 )

انگریزی کا ایک مقولہ ہے: Talent does what it can; genius does what it must. اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک صاحب استعداد اور صاحب صلاحیت آدمی وہی کارنامہ سرانجام دے سکتا ہے جو اس کے بس میں ہے لیکن ایک عبقری وہ کام کرکے رہتا ہے جس کا وہ ارادہ کرے میں عمران خان کی شخصیت پر نظر ڈالتا ہوں تو بہت سے حوالوں سے وہ مجھے ایک عبقری محسوس ہوتا ہے اس نے پاکستان کو دنیائے کرکٹ کا سب سے بڑا اعزاز دلوانے کااہتمام کیا۔ اس کے لئے رات دن ایک کر دیا، جان لڑا دی اور اور آخر کار کامیاب ہوگیا۔ اس نے معاصر دنیا کی تاریخ میں پہلا فری کینسر ہسپتال پاکستان جیسے کم ترقی یافتہ ملک میں قائم کرنے کا ارادہ کیا تو لوگوں نے اس کی حقیقت پسندی بلکہ ہوشمندی پر سوالات اٹھائے لیکن اس عبقری نے یہ معجزہ کر دکھایا۔ کراچی والوں نے عمران خان سے کہا کہ ہمارے ہاں بھی ایک کینسر ہسپتال بنا دو اس نے وعدہ کر لیا اور یہ وعدہ پایہ تکمیل کو پہنچ رہا ہے لاہور کا ہسپتال تمام مریضوں کا بالکل مفت علاج تونہیں کرتا لیکن جو جس قدر ضرورت مند ہوتا ہے اس کی مدد بہرحال کی جاتی ہے اور کوئی شخص محض غربت اور و سائل کی کمی کی وجہ سے وہاں علاج سے محروم نہیں رہتا۔ مجھے یقین ہے کہ کراچی کا ہسپتال بھی اس طرح ایک مثالی ادارہ ہوگا جس طرح لاہور کا شوکت خانم کینسر ہسپتال ہے۔ دو ایسے منصوبے جن پر ایک سال نہیں دوسال نہیں سال ہا سال تک کروڑوں اور اربوں کے اخراجات اور وسائل فراہم کرنے پڑیں گے۔ عمران خان کا ایک ایسا لازوال اور یادگار کارنامہ ہے جو سماجی میدان میں پاکستان کی تاریخ میں اسکا نام ہمیشہ زندہ رکھنے کے لئے کافی ہوگا۔ اب اس نے ایک قریب قریب ویسا ہی بلکہ بعض حوالوں سے مشکل تر کارنامہ انجام دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

اور

عمران خان سے جب شروع شروع میں پوچھا گیا کہ آپ اس منصوبے کیلئے امداد دینے پر اپنے دوستوں اور عام پاکستانیوں کو کس طرح مائل اور آمادہ کریں گے تو انہوں نے جواب دیا کہ مجھے اپنے وسائل سے کام کی ابتدا کرلینے دیجئے۔ جب زمین پر اس منصوبے کے کچھ نتائج دکھائی دینے لگیں گے تو امداد کی کمی نہیں ہوگی۔ عمران خان کے اس جواب پر مجھے سرسید احمد خان یاد آگئے۔ ا نہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی کیلئے شروع میں جو وسائل جمع کئے ان سے ایک بڑی پُرشکوہ عمارت یا عمارات کے سلسلے کا آغاز کیا۔ کچھ لوگوں نے اس پر تنقید کی اور کہا کہ ابتدا ہی میں وسائل کاایک قابل لحاظ حصہ بڑی بڑی عمارات پر صرف کر دیا گیا ہے۔تعلیم کی ابتداء تو معمولی عمارات میں بلکہ درختوں کے نیچے بھی کی جا سکتی تھی۔ سرسید احمد خان کا جواب تھا۔ میں نے اس جامعہ کی تعمیر کا آغاز چند پُرشکوہ عمارات سے اس لئے کیا ہے کہ لوگ ان عمارات کو دیکھ کر متاثر ہوں گے اور سمجھیں گے کہ یہ منصوبہ چل پڑا ہے اور کامیاب ہوگیا ہے ۔ الطاف حسین حالی نے اپنی ”حیات جاوید“ میں سرسید کے اس جواب کی تفصیل اور حکمت بیان کی ہے۔ عمران خان کی اپروچ بھی یہ تھی۔ جب انہوں نے نمل کالج کی عمارت کا آغاز کیا تو ان سے کہا گیا کہ پہلے کچھ وسائل جمع کر لئے جاتے تو یہ بہتر ہوتا تاکہ عمارت کی تکمیل میں کوئی رکاوٹ نہ پڑتی۔ عمران خان کا جواب بالکل وہی تھا جو سرسید کا اپنے زمانے میں تھا۔ انہوں نے کہا جب لوگ زمین پر کھڑی خوبصورت عمارات دیکھیں گے تو انہیں اس منصوبے کے قابل عمل ہونے کا یقین آجائے گا اور ان کے لئے امداد دینا آسان ہوجائے گا۔ اب ان کا ارادہ ہے کہ اس منصوبے کے دوسرے مرحلے کے آغاز پر وہ ملک کے بڑے بڑے صنعتی گھرانوں اور کمپنیوں سے اپیل کریں گے اور انہیں بتائیں گے کہ یہ کام آپ کی صنعتوں کے لئے بڑی تعداد میں ماہرین پیدا کرے گا جس سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ان کا تعاون آسانی سے دستیاب ہو جائے گا۔ عمران خان نے نمل کالج کے قیام سے آکسفورڈ کی طرز کے ایک یونیورسٹی ٹاؤن کے قیام کا راستہ ہموارکر لیا ہے اب کارکنوں کا اخلاص اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور فضل شامل حال رہے تو یہ منصوبہ عمران خان کے خواب کی ایک زندہ اور تابندہ تصویر بن جائے گا اور اس پورے علاقے کی خوشحالی اور ترقی کا ضامن ثابت ہوگا۔ عمران خان نے جو پودا لگایا ہے مجھے اللہ کی رحمت سے قوی امید ہے کہ یہ ایک تناور درخت بن جائے گا جو برگ و بار لائے گا جو اس سنگلاخ علاقے کی مکینوں کو سایہٴ رحمت فراہم کرے گا اور ان کی نسلیں عمران خان کو یاد رکھیں گی اور دعائیں دیں گی۔



مکمل مضمون پڑھیں۔۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
نمل کالج کے افتتاح کے موقعے پر کئی خبریں شائع ہوئی ہیں اور کچھ بلاگز پر بھی اس سلسلے میں پوسٹ کی گئی ہیں۔ میں ان کے روابط اس پوسٹ میں اکٹھے کرتا رہوں گا۔


خبریں

Namal College: another feather in Imran Khan’s cap!
University delegation goes east to establish new College


بلاگ پوسٹس

Namal College - Imran Khan’s Brainchild Launched in Mianwali (پاکستانیت ڈاٹ کام)
Namal University Mianwali by Imran Khan (پاکستان سپکٹیٹر)
 

محسن حجازی

محفلین
میں نے عمران خان کا خطاب براہ راست دیکھا اور کئی بار اشکبار ہوا۔ یقینی طور پر یہ ایک بہت بڑا کا رنامہ ہے اور اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ نوجوان بے ہنر ہیں۔
لیکن مجھے شکایت ہے کہ الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا نے اسے وہ توجہ نہیں دی جس کا یہ معاملہ مستحق تھا۔ جنگ نے تو گیلانی کا بیان اٹھا کر سرخی جمائی ہے اور اسے ذیلی موضوع کے طور پر پیش کیا ہے۔
 

ساجداقبال

محفلین
بہترین۔۔۔
صرف جینیئس ہی ایسے کام کر سکتے ہیں۔ اللہ انہیں جزائے خیر دے۔ بہت خوشی ہو رہی ہے پورے عشرے میں واحد جانفزا خبر سننے پر۔
 

باسم

محفلین
عمران خان قوم کی خدمت کے اس میدان میں کافی کامیاب ہیں
اگر وہ اسی طرف توجہ مرکوز رکھیں کیا ہی بات ہو
ہاں اب "ساڈے لوکاں نوں" پڑھنے کیلیے زیادہ دور نہیں جانا پڑے گا اور قریب ہی بہتر طریقے سے تعلیم حاصل کرسکیں گے
مگر شرط یہ ہے کہ کالج سے نکلنے کے بعد ہوٹل میں اپنی جگہ پر کسی اور کے بیٹھنے پر اسے قتل کرنے والے نہ ہوں
 

بلال

محفلین
آج نوائے وقت میں ایک کالم تھا جو امیر نواز نیازی صاحب نے لکھا تھا اس میں بھی اسی کالج کا ذکر تھا۔ کالم کا عنوان "عمران خان کا ایک اور کارنامہ" ہے۔۔۔ بہت اچھی تفصیل دی ہے انہوں نے بھی اپنے کالم میں۔۔۔
لگتا ہے عمران خان کچھ کرے گا۔۔۔ مزید۔۔۔
 

وجی

لائبریرین
عمران خان نے یہ کام کرکے مثال قائم کردی ہے کہ اقتدار نہ بھی ہو تو بھی کام کیا جاسکتا ہے اور پاکستان کو ایسے حکمرانوں کی ضرورت ہے
 

پپو

محفلین
عمران خان کے ناکام سیاستدان ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ وہ غالباً عوامی سیاست میں کبھی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکے گا۔
نبیل بھائی میں آپکی اس بات سے متفق نہیں ہوں انشااللہ جلد یہ انسان سیاست میں بھی کامیابی سے ہمکنار ہو گا ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم خاندانی سیاست کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ اور سیاست میں جگہ بنانے کے لئے وہ شخص جس کا کوئی سیاسی پس منظر نہ ہو اس کیلئے پاکستانی سیاست میں جگہ بنانا بہت مشکل ہوتی ہے۔ لیکن میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں‌ انشااللہ جلد وہ وقت آئے گا جب عام آدمی بھی سیاست میں حصہ لے سکے گا اور اپنا کردار ادا کر سکے گا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
پپو، میں دل سے چاہتا ہوں کہ عمران خان سیاست میں کامیاب ہو۔ لیکن پاکستان کی سیاست میں تحریک انصاف اپنے موجودہ انداز میں کبھی بھی نہیں ابھر سکے گی۔
پاکستان کے عوام عوامی سیاست کرنے والوں کو پذیرائی بخشتے ہیں، دوسرے لفظوں میں یہاں وہی سیاستدان کامیاب ہیں جو لوٹ کھسوٹ کرنے کے باوجود ہرمرتبہ مسند اقتدار پر براجمان ہوتے ہیں۔
میں عمران خان کی سیاست پر کسی اور تھریڈ پر بات کروں گا۔
 
ارشاد حقانی کے کالم نے کتنی ہی دیر مجھے بھی ساکت رکھا تھا ۔۔ ۔ ۔ ۔ بعض دفعہ کسی کا کوئی عمل اتنا خاص ہوتا ہے کہ اس لئے لفظ بہت چھوٹے لگتے ہیں
 
عمران نے بلاشبہ ثابت کیا ہے کہ اگر انسان مخلص ہو تو کوئی بھی کام ناممکن نہیں۔ عمران کے دونوں کارنامے بے مثال ہیں اور اسے ملکی تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں۔
عمران کا سیاسی ووٹ بڑھا ہے اور مجھے امید ہے کہ اگر عمران اپنی مثبت پالیسی پر کاربند رہتا ہے اور ڈٹا رہے تو عمران کا اثر و رسوخ بڑھتا رہے گا۔ عمران کو چاہنے والوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہی ہوا ہے کمی نہیں ہوئی یہ اور بات ہے کہ عین الیکشن کے وقت لوگ حد سے زیادہ خوش فہمیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں یا دوسرے حسابات میں مشغول ہو جاتے ہیں اس کے باوجود اس بار عمران کو پہلے سے زیادہ ووٹ پڑنے تھے اور اگلی بار یقینی طور پر کئی گنا زیادہ ووٹ پڑیں گے۔
 

زینب

محفلین
میں نے یہ تقریب براہ راست دیکھی تھی۔یہ ایک اور قابل ستائش کارنامہ اور پاکستان سے بڑھ کے پاکستانیوں سے محبت کا ثبوت ہے۔۔عمران خان ان لوگوں میں سے ہے جو پاکستان کے لیے"کچھ کرنے" کے لیے اقتدار میں انے کے منتظر نہیں جو لوگ کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ اقتدار سے باہر رہ کے بھی بہت کچھ کر جاتے ہیں بس نیت ہونی چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عمران خان نے جو کام کیا وہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔اور یقینا ہمیں اپنی ڈونیشنز کے زریعے اس نیک کام میں‌عمران کا ہاتھ بٹانا چاہیے۔کہوہ یہ سب کچھ ہمارے لیے ہماری انے والی نسلوں‌کے لیے ہی تو کر رہا ہے۔اللہ سے دعا ہے کہ وہ عمران خان کو ہمت صحت اور عمر دراز عطا کرے۔۔۔کہ ہمارے ملک کو اس کی اور اس جیسے لوگوں‌کی اشد ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ہر بندے کا ایک مخصوص دائرہ عمل ہوتا ہے۔ عمران خان جیسا بندہ خدمت خلق کے لئے جتنا مشہور ہے سیاست میں اتنا ہی ناکام۔ اس سلسلے میں ایدھی کا تذکرہ کرنا بہتر رہے گا جو اپنے دائرے میں ہی محدود رہ کر کام کر رہا ہے۔ عمران خان اگر اپنا فوکس درست رکھے تو میرا خیال ہے کہ سیاست شاید اس کے لیول سے نیچے کی چیز ہے
 

وجی

لائبریرین
ہر بندے کا ایک مخصوص دائرہ عمل ہوتا ہے۔ عمران خان جیسا بندہ خدمت خلق کے لئے جتنا مشہور ہے سیاست میں اتنا ہی ناکام۔ اس سلسلے میں ایدھی کا تذکرہ کرنا بہتر رہے گا جو اپنے دائرے میں ہی محدود رہ کر کام کر رہا ہے۔ عمران خان اگر اپنا فوکس درست رکھے تو میرا خیال ہے کہ سیاست شاید اس کے لیول سے نیچے کی چیز ہے
[FONT="Urdu_Umad_Nastaliq"]قیصرانی بھائی آپ نے بلکل عام پاکستانیوں والی بات ایک آدمی اچھا ہے تو ہم اسے اور کام کرنے سے کیوں روک رہے ہیں سیاست میں گند ہے تو کسی کو تو آگے بڑھنا ہوگا اور اس گند کو صاف کرنا ہوگا ویسے میرے خیال یہ جمہوریت کا نظام ٹھیک نہیں میرا ووٹ اور کسی انپڑھ کا ووٹ اور کسی ڈاکٹر کا ووٹ کیسے ایک ہوسکتے ہیں سوچ کے لحاظ سے
آپ کی بات پڑھ کر مجھے وہ دن یاد آگئے جب میں نے داڑھی رکھنا شروع کی تھی تو اکثر حضرات جن کے داڑھی بھی نہیں تھی مجھے یہ کہتے نہ تھکتے تھے کہ اسلام میں تو مش بھر داڑھی جائز ہے یعنٰی کوئی کام کر رہا ہے تو اس کی حوصلا افضائی کی بجائے ہم ایسی باتیں کرتیں ہیں کہ اگلے کی ہمت پست ہوجائے
[/FONT]
 

پپو

محفلین
پپو، میں دل سے چاہتا ہوں کہ عمران خان سیاست میں کامیاب ہو۔ لیکن پاکستان کی سیاست میں تحریک انصاف اپنے موجودہ انداز میں کبھی بھی نہیں ابھر سکے گی۔
پاکستان کے عوام عوامی سیاست کرنے والوں کو پذیرائی بخشتے ہیں، دوسرے لفظوں میں یہاں وہی سیاستدان کامیاب ہیں جو لوٹ کھسوٹ کرنے کے باوجود ہرمرتبہ مسند اقتدار پر براجمان ہوتے ہیں۔
میں عمران خان کی سیاست پر کسی اور تھریڈ پر بات کروں گا۔
ہاں نبیل بھائی میں خود اس سلسلے میں بات کرنا چاہتا ہوں میری کوشش ہے کہ ایک ایسا حلقہ قائم کروں جو تحریک انصاف سے میل کھاتا ہو اور پھر اسی پلیٹ فارم سے اس تحریک کا حصہ بنوں میرے بہت سے دوست میرے ساتھ اس سلسلہ میں متفق ہیں اللہ نے چاہا تو بہت جلد اس انسان کے ساتھ بہت سے لوگ ہوں گے
 
Top