امیر مینائی دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے - امیر مینائی

جب سے بلبل تُو نے دو تنکے لیے
لوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لیے

مے نہ دی قرض اس نے دو دن کے لیے
جس نے توڑے ہم سے گن گن کے لیے

دن مرا روتا ہے میری رات کو
رات روتی ہے مری دن کے لیے

ہے جوانی خود جوانی کا سنگھار
سادگی گہنا ہے اس سِن کے لیے

پاک رکھا، پاک دامن سے حساب
بوسے بھی گن کے دیے گن کے لیے

کون ویرانے میں دیکھے گا بہار
پھول جنگل میں کھلے کن کے لیے

ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا
میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے

ذرّہ ذرّہ دُردِ مے کا زاہدو
دوربیں ہے چشمِ باطن کے لیے

وصل میں جھنجھلا کے وہ بولے کہ ہاں
کن کا جوبن اور ہے کن کے لیے

باغباں! کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی
بھیجنا ہے ایک کمسِن کے لیے

سب حسیں ہیں زاہدوں کو نا پسند
اب کوئی حور آئے گی ان کے لیے

جائیے سونپا خدا کو جائیے
تھا یہ سارا حسن ضامن کے لیے

ذبح کرنے میں بڑا مشّاق ہے
گھر ہو مسلخ میں موذن کے لیے

وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے

صبح کا سونا جو ہاتھ آتا امیرؔ
بھیجتے تحفہ موذِّن کے لیے​
 

فاتح

لائبریرین
جب سے بلبل تُو نے دو تنکے لیے
لوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لیے

مے نہ دی قرض اس نے دو دن کے لیے
جس نے توڑے ہم سے گن گن کے لیے

دن مرا روتا ہے میری رات کو
رات روتی ہے مری دن کے لیے

ہے جوانی خود جوانی کا سنگھار
سادگی گہنا ہے اس سِن کے لیے

پاک رکھا، پاک دامن سے حساب
بوسے بھی گن کے دیے گن کے لیے

کون ویرانے میں دیکھے گا بہار
پھول جنگل میں کھلے کن کے لیے

ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا
میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے

ذرّہ ذرّہ دُردِ مے کا زاہدو
دوربیں ہے چشمِ باطن کے لیے

وصل میں جھنجھلا کے وہ بولے کہ ہاں
کن کا جوبن اور ہے کن کے لیے

باغباں! کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی
بھیجنا ہے ایک کمسِن کے لیے

سب حسیں ہیں زاہدوں کو نا پسند
اب کوئی حور آئے گی ان کے لیے

جائیے سونپا خدا کو جائیے
تھا یہ سارا حسن ضامن کے لیے

ذبح کرنے میں بڑا مشّاق ہے
گھر ہو مسلخ میں موذن کے لیے

وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے

صبح کا سونا جو ہاتھ آتا امیرؔ
بھیجتے تحفہ موذِّن کے لیے​
آج سے 8 سال قبل ہم نے یہی غزل محفل میں ارسال کی تھی۔
لیکن اس میں کچھ اشعار کم تھے۔ آپ نے باقی ماندہ اشعار بھی شامل کر دیے۔ دو اشعار اب بھی کم ہیں اس میں جو یوں ہیں:
10 واں شعر
کیمیا گر آگ سا دیکھا نہیں
تار سونے کے دیے، تنکے لیے

16 واں
کھا گیا ہم ناتوانوں کو فراق
کھول کر منہ دیو نے تنکے لیے
 
تند مے اور ایسے کمسِن کے لیے
ساقیا! ہلکی سی لا اِن کے لیے

جب سے بلبل تُو نے دو تنکے لیے
ٹوٹتی ہیں بجلیاں ان کے لیے

ہے جوانی خود جوانی کا سنگھار
سادگی گہنا ہے اس سِن کے لیے

ساری دنیا کے ہیں وہ میرے سوا
میں نے دنیا چھوڑ دی جن کے لیے

وصل کا دن اور اتنا مختصر
دن گنے جاتے تھے اس دن کے لیے

باغباں! کلیاں ہوں ہلکے رنگ کی
بھیجنی ہیں ایک کمسِن کے لیے

کون ویرانے میں دیکھے گا بہار
پھول جنگل میں کھلے کن کے لیے

سب حسیں ہیں زاہدوں کو نا پسند
اب کوئی حور آئے گی اِن کے لئے

صبح کا سونا جو ہاتھ آتا امیرؔ
بھیجتے تحفہ موذِّن کے لیے

(امیر مینائی)​
 
Top