دنیا کو میں خواب دے رہا ہوں

دنیا کو میں خواب دے رہا ہوں
اور وہ بھی بے حساب دے رہا ہوں

اب کوئی تو زندگی سے پوچھے
میں کس کا حساب دے رہا ہوں

کس کس کا جواب دوں میں آخر
لو ایک جواب دے رہا ہوں

انسان نظر میں اب کہاں ہے
میں خود کو سراب دے رہا ہوں

کانٹے ہی دیے تھے جس نے مجھ کو
میں اُس کو گلاب دے رہا ہوں

ہر باب ہی روشنی ہے جس کا
میں ایسی کتاب دے رہا ہوں

کیوں سوچوں یہ سوچتا ہوں اکثر
کیوں خود کو عذاب دے رہا ہوں

جو مار ہی دے گا مجھ کو اِک دن
میں اس کو شباب دے رہا ہوں

یہ شعر مرے کہاں ہیں فرخؔ
صحرا کو چناب دے رہا ہوں

فرخ محمود
 
Top