دمِ مُردن ترے قدموں پر اگر سر ہوتا
دمِ مُردن ترے قدموں پر اگر سر ہوتا
حشر میں تاجِ کرامت مرے سر پر ہوتا
پھر تو کچھ حالِ مصیبت تجھے باوَر ہوتا
تیرے پہلو میں جو میرا دلِ مضطر ہوتا
کیا ہوا صدمے اٹھا کر جو ہوا دل پتھر
خوب ہوتا جو یہ پہلے ہی سے پتھر ہوتا
کیا کہوں طولِ شبِ ہجر ستم گر تجھ سے
کچھ نہ ہوتا تو تری زُلف سے بڑھ کر ہوتا
اُلفت زلف نے بچپن ہی سے پھانسا مجھ کو
ہوش ہوتے تو میں دیوانہ سمجھ کر ہوتا
غیر پر پھول وہ یوں پھینکے ہمارے آگے
ہائے یہ پھول نہ ہوتا کوئی پتھر ہوتا
قسمت بخت میں گردش تو لکھی تھی لیکن
خوب ہوتا جو تری بزم کا ساغر ہوتا
ہوتے بے خود تو وہ بہت خوب ہی کُھل کر ملتا
وصل ہو کر جو نہ ہوتا وہ نہ ہو کر ہوتا
تیشہ کے بھیس میں آتے نہ اگر حضرتِ عشق
کوہ کا کاٹنا فرہاد کو پتھر ہوتا
میرے دشمن بنے اَغیار کے وہ یار بنے
پھر کہو اُن سے مرا فیصلہ کیوں کر ہوتا
آپ کیا کہتے ہیں دشمن کے برابر ہے حسنؔ
خوب ہوتا جو میں دشمن کے برابر ہوتا
 
Top