دل کی ابیاض سے ہر سطر مٹائی جائے

سر الف عین
یاسر شاہ
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

اب کوئی بات نہ دنیا سے چھپائی جائے
میری روداد سرِعام سنائی جائے

صورتِ بخششِ اعمال یہی ہے یارو
آبِ زمزم سے مری روح دھلائی جائے

بخش دے قطرۂِ شبنم کو جو گوہر کا مقام
پنکھڑی ایسی گلِ دل میں لگائی جائے

صورتِ حال ترے شہر کی ناساز ہے اب
اک ملاقات کی امید بچائی جائے

تلخیوں کی وہی روداد مرے دوست کبھی
میرے اشکوں سے مرے دل پہ لکھائی جائے

کیوں گریزاں ہیں سبھی شہر کے باسی مجھ سے
اب منانے کو انھیں بزم سجائی جائے

جاں بلب کر دے مجھے ماضی کی تحریر ہراک
دل کی ابیاض سے ہر سطر مٹائی جائے

مجھ کو لے ڈوبی ہے سجاد یہ حُبِ دنیا
جاوداں زیست کی رہ کوئی بنائی جائے
 
صورتِ بخششِ اعمال یہی ہے یارو
آبِ زمزم سے مری روح دھلائی جائ
پہلے مصرعے میں یارو بھرتی کا معلوم ہوتا ہے.
دوسرے مصرعے میں "دھلائی جائے" گرامر کے حساب سے غلط ہے، یہاں "دھوئی یا دھلوائی جائے" کہنا چاہیے.

بخش دے قطرۂِ شبنم کو جو گوہر کا مقام
پنکھڑی ایسی گلِ دل میں لگائی
پنکھڑی کا قطرے کو گوہر بنا دینا مجہول سا بیان ہے. علاوہ ازیں پھول میں پنکھڑی لگانا بھی بامعنی بات نہیں لگتی.

صورتِ حال ترے شہر کی ناساز ہے اب
اک ملاقات کی امید بچائی جائے
دولخت لگتا ہے، مفہوم واضح نہیں ہے.

تلخیوں کی وہی روداد مرے دوست کبھی
میرے اشکوں سے مرے دل پہ لکھائی جائے
یہاں بھی لکھائی جائے گرامر کی رو سے درست نہیں.

جاں بلب کر دے مجھے ماضی کی تحریر ہراک
دل کی ابیاض سے ہر سطر مٹائی جائے
جاں بلب کرتی ہیں ماضی کی تحاریر مجھے؟؟؟
ویسے یہاں بھی مٹائی جائے کے بجائے مٹادی جائے زیادہ مناسب رہتا.

مجھ کو لے ڈوبی ہے سجاد یہ حُبِ دنیا
جاوداں زیست کی رہ کوئی بنائی جائے
جو مفہوم آپ ادا کرنا چاہ رہے ہیں وہ جاوداں زیست کی ترکیب سے ٹھیک طرح ادا نہیں ہوتا، بلکہ مصرع الجھ رہا ہے.

میرے خیال میں اگر آپ مطلعے میں آزاد قافیہ رکھیں تو یہی مضامین بہتر طریقے سے بیان ہو سکیں گے.
 
پہلے مصرعے میں یارو بھرتی کا معلوم ہوتا ہے.
دوسرے مصرعے میں "دھلائی جائے" گرامر کے حساب سے غلط ہے، یہاں "دھوئی یا دھلوائی جائے" کہنا چاہیے.


پنکھڑی کا قطرے کو گوہر بنا دینا مجہول سا بیان ہے. علاوہ ازیں پھول میں پنکھڑی لگانا بھی بامعنی بات نہیں لگتی.


دولخت لگتا ہے، مفہوم واضح نہیں ہے.


یہاں بھی لکھائی جائے گرامر کی رو سے درست نہیں.


جاں بلب کرتی ہیں ماضی کی تحاریر مجھے؟؟؟
ویسے یہاں بھی مٹائی جائے کے بجائے مٹادی جائے زیادہ مناسب رہتا.


جو مفہوم آپ ادا کرنا چاہ رہے ہیں وہ جاوداں زیست کی ترکیب سے ٹھیک طرح ادا نہیں ہوتا، بلکہ مصرع الجھ رہا ہے.

میرے خیال میں اگر آپ مطلعے میں آزاد قافیہ رکھیں تو یہی مضامین بہتر طریقے سے بیان ہو سکیں گے.
شکریہ راحل بھائی ہمیشہ سلامت رہیں
 
پہلے مصرعے میں یارو بھرتی کا معلوم ہوتا ہے.
دوسرے مصرعے میں "دھلائی جائے" گرامر کے حساب سے غلط ہے، یہاں "دھوئی یا دھلوائی جائے" کہنا چاہیے.


پنکھڑی کا قطرے کو گوہر بنا دینا مجہول سا بیان ہے. علاوہ ازیں پھول میں پنکھڑی لگانا بھی بامعنی بات نہیں لگتی.


دولخت لگتا ہے، مفہوم واضح نہیں ہے.


یہاں بھی لکھائی جائے گرامر کی رو سے درست نہیں.


جاں بلب کرتی ہیں ماضی کی تحاریر مجھے؟؟؟
ویسے یہاں بھی مٹائی جائے کے بجائے مٹادی جائے زیادہ مناسب رہتا.


جو مفہوم آپ ادا کرنا چاہ رہے ہیں وہ جاوداں زیست کی ترکیب سے ٹھیک طرح ادا نہیں ہوتا، بلکہ مصرع الجھ رہا ہے.

میرے خیال میں اگر آپ مطلعے میں آزاد قافیہ رکھیں تو یہی مضامین بہتر طریقے سے بیان ہو سکیں گے.

اب کوئی بات نہ دنیا سے چھپائی جائے
میری روداد سرِعام سنائی جائے

صورتِ بخششِ اعمال یہی ہو شاید
روح سے گرد گناہوں کی ہٹائی جائے

جو مجھے ذرۂِ خاکی سے بنا دے گوہر
راہ اب ایسی عبادت کی بنائی جائے

صورتِ حال ترے شہر کی ناساز ہوئی
وصل کی پیاس بھلا کیسے بجھائی جائے

تلخیوں کی وہی روداد مرے دوست کہیں
لکھ کے اشکوں سے مرے دل پہ لگائی جائے

کیوں گریزاں ہیں سبھی شہر کے باسی مجھ سے
اب منانے کو انھیں بزم سجائی جائے

جاں بلب کرتی ہیں ماضی کی تحاریر مجھے
دل کی ابیاض سے ہر سطر مٹائی جائے

مجھ کو لے ڈوبی ہے سجاد یہ حُبِ دنیا
مسندِ توبہ کسی طور بچھائی جائے

سر نظر ثانی فرما دیں
 

الف عین

لائبریرین
جو مجھے ذرۂِ خاکی سے بنا دے گوہر
راہ اب ایسی عبادت کی بنائی جائے
... عبادت کی راہ بنانا؟

صورتِ حال ترے شہر کی ناساز ہوئی
وصل کی پیاس بھلا کیسے بجھائی جائے
... صورت حال کا ناساز ہونا خلاف محاورہ ہے

تلخیوں کی وہی روداد مرے دوست کہیں
لکھ کے اشکوں سے مرے دل پہ لگائی جائے
.. روداد لگانا؟ خلاف محاورہ

کیوں گریزاں ہیں سبھی شہر کے باسی مجھ سے
اب منانے کو انھیں بزم سجائی جائے
.. زبردستی کا شعر لگتا ہے، کوئی وجہ گریزاں ہونے کا؟
باقی ٹھیک ہیں
 
جو مجھے ذرۂِ خاکی سے بنا دے گوہر
راہ اب ایسی عبادت کی بنائی جائے
... عبادت کی راہ بنانا؟

صورتِ حال ترے شہر کی ناساز ہوئی
وصل کی پیاس بھلا کیسے بجھائی جائے
... صورت حال کا ناساز ہونا خلاف محاورہ ہے

تلخیوں کی وہی روداد مرے دوست کہیں
لکھ کے اشکوں سے مرے دل پہ لگائی جائے
.. روداد لگانا؟ خلاف محاورہ

کیوں گریزاں ہیں سبھی شہر کے باسی مجھ سے
اب منانے کو انھیں بزم سجائی جائے
.. زبردستی کا شعر لگتا ہے، کوئی وجہ گریزاں ہونے کا؟
باقی ٹھیک ہیں
شکریہ سر
 
جو مجھے ذرۂِ خاکی سے بنا دے گوہر
راہ اب ایسی عبادت کی بنائی جائے
... عبادت کی راہ بنانا؟

صورتِ حال ترے شہر کی ناساز ہوئی
وصل کی پیاس بھلا کیسے بجھائی جائے
... صورت حال کا ناساز ہونا خلاف محاورہ ہے

تلخیوں کی وہی روداد مرے دوست کہیں
لکھ کے اشکوں سے مرے دل پہ لگائی جائے
.. روداد لگانا؟ خلاف محاورہ

کیوں گریزاں ہیں سبھی شہر کے باسی مجھ سے
اب منانے کو انھیں بزم سجائی جائے
.. زبردستی کا شعر لگتا ہے، کوئی وجہ گریزاں ہونے کا؟
باقی ٹھیک ہیں

جو مجھے ذرۂِ خاکی سے بنا دے گوہر
نسبتِ شعر بھی یوں تجھ سے بنائی جائے

بیچ ڈالا ہو جہاں شہر کے منصف نے ضمیر
کیا وہاں عدل کی زنجیر ہلائی جائے

نہ ہو شنوائی وہاں اپنی تو بہتر ہے یہی
ان کی آواز سے آواز ملائی جائے

تیرے جاتے ہی سبھی مجھ سے گریزاں جو ہوئے
آ کہ پھر ان کے لئے بزم سجائی جائے

سر قابلِ اصلاح اشعار کی جگہ نئے اشعار کہنے کی کوشش کی ہے نظر ثانی فرما دیجئے
 

الف عین

لائبریرین
پہلے دو اشعار ٹھیک ہیں لیکن تیسرے چوتھے میں سوالات آٹھ سکتے ہیں
کن کی آواز سے آواز؟
گریزاں ہونے کی وجہ؟
 
جو مجھے ذرۂِ خاکی سے بنا دے گوہر
نسبتِ شعر بھی یوں تجھ سے بنائی جائے

بیچ ڈالا ہو جہاں شہر کے منصف نے ضمیر
کیا وہاں عدل کی زنجیر ہلائی جائے

نہ ہو شنوائی وہاں اپنی تو بہتر ہے یہی
ان کی آواز سے آواز ملائی جائے

تیرے جاتے ہی سبھی مجھ سے گریزاں جو ہوئے
آ کہ پھر ان کے لئے بزم سجائی جائے

سر قابلِ اصلاح اشعار کی جگہ نئے اشعار کہنے کی کوشش کی ہے نظر ثانی فرما دیجئے

نہ ہو ان کے یہاں شنوائی تو بہتر ہے یہی
ان کی آواز سے آواز ملائی جائے

سر چوتھا شعر نکال دیتا ہوں
 
Top