دل پشوری۔۔از ڈاکتر ظہور اعوان۔۔۔روزنامہ اج پیشور

Dilkash

محفلین
تہیہ‘پہیہ او روپیہ
ایک دن میں اپنے ایک عزیز کے ہاں بیٹھا ہوا تھا کہ ٹیلی ویژن پر خبریں شروع ہوگئیں میرے عزیز کے ایک بچے نے مجھ سے پوچھا انکل یہ تہیہ کیا ہوتا ہے ؟ میرا دھیان خبروں کی طرف نہیں تھا ہم باتیں کررہے تھے ۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا بیٹے تہیہ ارادے کو کہتے ہیں مصمم اور پکا ارادہ جیسے قائد اعظم نے پاکستان بنانے کا تہیہ کیا اور پاکستان بنا ڈالا ۔

ماؤ نے نیا چین بنانے کا ارادہ کیا اور لانگ مارچ کے بعد بنا ڈالا ۔ بچہ حیران ہو کر میری طرف دیکھنے لگا ۔ پھر کہا انکل میں ان تہیوں کی بات نہیں کررہا ۔ یہ ہمارے ٹیلی ویژن پر ہمارے حکمران جو صبح و شام تہیہ کرتے رہتے ہیں یہ کیا ہوتاہے اب میں نے خبروں کی طرف کان دھرے وہاں تہیہ کو جملوں میں استعمال کیا جارہا تھا ۔کہیں اردو میں تو کہیں انگریزی میں‘ بچہ پھر کہنے لگا انکل یہ ہمارا تہیہ پایہ تکمیل تک کیوں نہیں پہنچتا ۔

میں نے کہا بیٹے ہمارا تہیہ موٹے کلے پانچے کی طرح کا تہیہ ہے اس کو گلانے کے لئے زبردست آنچ اور کچھ صبر کی ضرورت ہے ۔ ہمارے ہاں آنچ مہنگی ‘ صبر ناپید اور نیت مفقودہے ۔ تہیہ کے ساتھ ایک پہیہ بھی لگتا ہے جسے نیت اخلاص اور عمل اور وسائل کا پہیہ کہتے ہیں ۔ ہمارے پاس تہیے تو بے شمار ہیں ۔ منوں ٹنوں میں ۔ ہم چاہیں تو بوریاں بھر بھر ساری دنیا کو ایکسپورٹ کر سکتے ہیں مگر ہمارے پاس اس کو چلانے کا پہیہ نہیں ہے ۔ اس لئے جو حکمران آتا ہے وہ تہیہ ہی کرتا ہے ۔ ہلکی آواز کا بھاری اور تیز آواز کا اردو کا تہیہ انگریزی کا تہیہ ‘ پنجابی پشتو ‘ سندھی ‘ بلوچی ‘ تہیہ شیروانی پوش تہیہ ‘ پتلون نواز تہیہ ‘شلوار قمیض آشنا تہیہ ‘ تہیوں میں ہم خود کفیل ہیں ۔

برے کاموں اور بد اعمالیوں میں ہمارے جیسے تہیے کو کہیں نہ کہیں سے پیسے دستیاب ہو جاتے ہیں مثال کے طور پر ہم نے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ اس قوم کو بحیثیت قوم خواندہ نہیں بنانا ہے ۔ دنیا کے کسی ایک ملک میں اتنے ان پڑھ لوگ نہیں ہیں ۔ یہ ہمارا کامیاب تہیہ ہے ۔ پھر ہم نے تہیہ کر رکھا ہے کہ ہم دیانت سے کام نہیں لیں گے ‘ محنت نہیں کریں گے ‘ وقت کی پابندی نہیں کریں گے ‘ ہم اس تہیے میں بھی کامیاب ہیں ۔ ہم ہر یوم قائد اعظم اور پاکستان پر قائد اعظم کے نقش قدم پر نہ چلنے کا تہیہ کرتے ہیں ۔ ہم اس میں بھی کامیاب ہیں ہم اسلام کا نام بہت زیادہ لیتے ہیں مگر تہیہ کرر کھا ہے کہ اس دین مبین کے کسی ایک حکم پر پورا عمل نہیں کریں گے ۔

ہم نبیوں کے سردار محمد مصطفیٰ ؐ کے امتی ہونے کے دعویدار تو بنیں گے مگر آپؐ کے اسوہ پاک پر عمل نہیں کریں گے ۔ ہم اس میں کامیاب ہیں اس لئے ساری دنیا میں ذلیل و خوار ہیں ۔میں باتیں کررہا تھا اور بچہ میرے منہ کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ انکل جب ہم تہیہ کرکے اس پر عمل نہیں کرتے تو پھر بار بار ریڈیو ‘ ٹی وی پر تہیہ کیوں کرتے رہتے ہیں ۔ میں نے کہا بیٹا پہیہ ہمارے پاس نہیں صرف تہیہ ہے ہم اس پر گزارا کررہے ہیں ۔ پہئے کے لئے روپیہ بھی چاہئے وہ سب کا سب مالدار طبقہ کھا گیا ہے ۔ پھر پہیہ کو چلانے کے لئے سڑک چاہئے سو اس کے لئے ہم نے ایک عدد موٹر وے پچاس ارب روپے سے تعمیر کر لئے ہے پشاور‘ پنڈی موٹر وے بھی چند سال پہلے مکمل ہو چکی ہے ہم موٹر وے کے معاملے میں تہیہ کی منزل سے آگے گزر کر پہیہ کی منزل تک پہنچے ہے باقی تہیہ ہمارا سکھ چین خراب اور تکیہ کلام ہے۔

ہمارے بچے اب اس دور میں اتنے معصوم اور بے خبر بھی نہیں ۔ سچ مچ کا تہیہ کرنے والی دوسری قوموں کے تہیوں کی خبریں اور فلمیں وہ سٹیلائٹ نشریات کے ذریعے دیکھتے رہتے ہیں دنیا کے کسی ٹی وی سٹیشن پر تہیہ کرنے والوں سے ان کا پالا نہیں پڑتا ۔ وہاں وہ یہی دیکھتے ہیں کہ کچھ ہو گیا ہے ‘ کچھ ہورہاہے ‘صرف وہی دکھایا اور سنایا جاتا ہے جو تہیہ کے بعد عالم وجود میں آگیا ہے ۔ یہ نہیں کہ کام نے 2020ء میں عالم وجود میں آنا ہے تہیہ ہم یہاں 2010ء میں کر رہے ہیں ۔ صبح دوپہر شام کررہے ہیں ۔ وزیر سفیر ‘ صدر وزیر اعظم سیکرٹری ‘ افسر سب تہیہ کررہے ہیں ۔

پاکستان کو ٹمبکٹو بنا دیا جائے گا ایک تہیہ پاکستان کو دوڑنے بھاگنے والا شیر بنا دیا جائے گا ایک اور تہیہ ۔ انصاف ہر گھر کی دہلیز تک پہنچا دیا جائے گا ۔ ایک بڑا تہیہ ہم عدالتوں کا احترام کریں گے اور اس کام کے لئے بطور ہر اول دستہ طارق عزیز کو سپریم کورٹ بھیجا کریں گے ایک زبردست تہیہ ۔ ہم بجلی سستی کریں گے ۔ کرنٹ دار تہیہ ‘ہم ہر بچے کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں گے کہ با علم و با خبر تہیہ ‘ہم ہر گھر میں دودھ شہد اور لسی کی نہریں بہا دیں گے ۔ گلیوں میں مکھن پنیر ‘ ملائی اور کیچڑ چک چکا دیں گے ‘ تربتر تہیہ ۔ پرانے مسلمان تلواروں کے سائے میں پل کر جوان ہوتے تھے ‘ قرون اولیٰ کے مسلمان قرآن کے سائے میں پلتے تھے امریکہ و یورپ کے جوان محنت ‘ ذہانت ‘ دیانت کے سائبان تلے پلتے بڑھتے ہیں ۔

ہمارے بچے تہیوں کے شامیانے تلے سانس لیتے ہیں آہ ! ایسے تہیے اور اتنے تہیے کہ جن کا مطلب بھی ان کو معلوم نہیں یہی وجہ ہے کہ جب بچے نے مجھ سے پاکستانی تہیے کا مطلب پوچھا تو میں شرم سے پانی پانی ہوگیا ۔ میں جو بھی اسے کہتا اسے یقین کیسے آتا ۔ اس لئے کہ ہم نے اس بچے کو جھوٹ اور تہیوں کی نقلی چھاؤں میں پالا ہے ۔جب وہ حقیقت کی دھوپ میں نکلتا ہے تو اسے دوسری اقوام سڑکوں پر پہیہ دوڑاتی نظر آتی ہیں میرے بچے مجھ سے پاکستانی تہیہ بازوں کے بارے میں نہ پوچھ ۔ بس دیکھ اور تو بھی تہیہ کر تو نے کام اور محنت کرنی ہے ۔ تہیے ان کے لئے چھوڑ دے آ تو کام کر اور پاکستان کو مضبوط بنا
 

Dilkash

محفلین
آم اور ہیروئن
امریکن پاکستان کی ہر ایک چیز سے واقف تھے مگر پاکستان کے قلمی آموں کے ذائقے کے تصور سے محروم تھے‘ پیرس سے شکاگو جاتے ہوئے میری نشست ایک امریکن جواں سال خاتون کے ساتھ آ گئی‘ امریکن میل ملاپ میں انگریزوں جیسے کٹھور نہیں بلکہ ہائے ہو ہوتے ہی کھل جاتے ہیں۔ وہ خاتون بھی کوئی پروفیسر تھیں‘ آٹھ گھنٹے کا سفر تھا وہ اپنی لکھا پڑھی میں اور میں اپنی لکھت پڑھت میں مصروف رہا‘ بیچ بیچ میں باتیں بھی ہوتی رہیں۔

اس نے مجھ سے پوچھا آپ کے ملک کا سب سے لذیذ اور اعلیٰ پھل کون سا ہوتا ہے میں نے فی الفور کہہ دیا پھلوں کا سرتاج آم۔ امریکہ میں پاکستانی یا لاطینی امریکہ کے پھلوں سبزیوں کی آمد بند تھی اس لئے وہ خاتون میری بات کو نہ سمجھ سکی اور کہا آم میں آخر کون سی ایسی خوبی ہے۔ میں نے اپنی پاکستانی انگریزی میں اسے سمجھانے کی کوشش کی‘ میری انگریزی تمام ہو گئی مگر وہ قلمی آم کے مزے تک نہ پہنچ سکی۔ میں نے دل میں کہا خصماں نوں کھا اور اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔ اب کچھ ہفتے پہلے امریکی حکومت نے پاکستانی آم کی درآمد پر پابندی اٹھا دی‘ پاکستان میں سالانہ کوئی پندرہ لاکھ ٹن آم پیدا ہوتے ہیں‘ جب سے عربوں کے پاس جدید ٹیکنالوجی آئی اور وہ آم کے ذائقے سے آگاہ ہوئے ہیں ۔

ہمارے ملک کے ٹاپ کے آم ادھر جانے لگے ہیں‘ یہاں بقول شخصے وہ کچھ رہ جاتا ہے جو کچرا ہوتا ہے۔ خیر پاکستانی آموں کی پہلی کھیپ جب چلی تو اس میں پاکستانیت کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی تھی‘ پاکستانی فنکاروں نے کچھ آموں کو کھول کر اس میں سے گودا اور گٹھلی نکال کر اس میں سفید زہر یعنی ہیروئن کی پڑیاں بھر دیں‘ چونکہ ساری دنیا کی طرح پاکستان کا ڈرگ مافیا بھی زورآور ہے اس لئے اس خبر کو دبا دیا گیا‘ نہ نجی چینلوں پر سجنے والی دکانوں پر اس کا ذکر آیا۔ اب پتہ نہیں کہ آموں کی ترسیل رکتی ہے یا چلتی ہے کیونکہ اس کے بعد کوئی خبر سامنے نہیں آ سکی۔

پاکستانی لوگ دو نمبر کاموں میں اس قدر ماہر ہیں کہ ساری دنیا کی عقل کو دنگ کر رکھا ہے۔ ایک مرتبہ ایک پاکستانی محترمہ امریکہ جا رہی تھیں‘ رپورٹ تھی کہ وہ کچھ لے جا رہی ہے‘ دونوں ملکوں کے کسٹمز حکام نے بہت کوشش کی بکسے ادھیڑ کر دیکھے مگر ہیروئن برآمد نہیں ہوئی‘ آخر تھک ہار کر اس کے پاس گئے اور کہا مادام! آپ جیت گئیں‘ آپ صرف بتا دیں کہ آپ نے وہ مواد کہاں چھپا کے رکھا ہے‘ آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا۔ خاتون نے اس یقین دہانی پر سوئیٹر بننے کی سلائیاں آگے کر دیں جس کو اندر سے خول کر کے اس میں ہیروئن بھر دی گئی تھی‘ یوں محترمہ ان سلائیوں سے سوئیٹر بنتے بنتے امریکہ جا پہنچیں۔

ایک اور لطیفہ یہ مشہور ہے کہ ایک بزرگ جن کے دانت نہیں تھے وہ پوری نئی بتیسی بنوا کر اور اسے اندر سے خول کر کے اس میں ہیروئن بھر کر پھیرے لگاتے رہے۔ مردہ بچوں کے پیٹ چیر کر اور اس میں ہیروئن بھرنے کی باتیں تو پرانی ہو چکی ہیں۔ ہمارے پاکستانی ہمہ وقت اس قسم کی باتیں سوچتے اور متنوع ایجادات فرماتے رہتے ہیں۔

ایک طریقہ یہ بھی سنا گیا ہے کہ پاکستانی کسٹمز جو خالص پاکستانی ہے ان کو راضی کر کے یہاں سے ایک آدھ کلو ہیروئن روانہ کر دیتی ہے‘ کسی مسافر کے بکسے میں مطلوبہ چیز ڈال کر اس کا نام پتہ آگے ارسال کر دیا جاتا ہے‘ اگر وہ امریکن کسٹمز سے نکال کر اس بکسے کو لے جائے تو باہر مافیا کے غنڈے کھڑے ہوتے ہیں جو اس مسافر کے سر پر پستول رکھ کر اپنا مال نکلوا کر لے جاتے ہیں۔ اس موضوع پر اتنی کہانیاں مشہور ہیں کہ پوری الف لیلیٰ کی داستان لکھی جا سکتی ہے۔ اس مافیا کے نیٹ ورک ساری دنیا میں قائم ہیں جو ہر قسم کی واردات قتل و غارت کے لئے تیار ہوتے ہیں۔

امریکہ نے ایک دفعہ دنیا کی ساری افیون و ہیروئن خریدنے کی پیشکش کی تھی تاکہ اسے دواؤں میں استعمال کر سکے مگر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی کیونکہ وہ اس کی صرف میڈیسنل قیمت ادا کرنا چاہتا تھا جبکہ مارکیٹ میں اس کی قیمت اس سے سو گنا زیادہ تھی۔ ہیروئن کی اس تجارت میں چھوٹے بڑے ملکوں کے سربراہ تک شامل ہوتے اور اپنا حصہ وصول کرتے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ ہیروئن افغانستان میں پیدا ہوتی ہے اور اس سب کو پاکستان کے اندر سے گزار کر دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا اس مافیا کا ہی کام ہے جس کے سامنے حکومتیں بے بس ہیں‘ کسی کو پکڑو بھی تو ایک ٹیلی فون پر اسے چھوڑ دیا جاتا ہے۔

اب ہمارے پاکستانی بھائیوں کو اس کام کے لئے قلمی آم بھی دستیاب ہو گئے ہیں۔ بعض دانشوروں نے امریکی آمریت کا علاج بھی یہی بتایا ہے کہ وہاں گھر گھر ہیروئن پہنچنے دی جائے تاکہ وہ اس نشے میں دھت انجکشن پر انجکشن لگواتے رہیں اور پاکستان اور دنیا کے دوسرے ملکوں اور لوگوں کا پیچھا چھوڑیں۔
 

Dilkash

محفلین
نوسر بازوں کے کمالات
پاکستانی ٹھگوں نے آج کل ایک نیا سلسلہ ایجاد و رواں کیا ہے‘ آپ کو ایک فون آئے گا مبارک ہو آپ کا پانچ لاکھ کا انعام نکل آیا‘ یہ سنتے ہی ہر انسان کے اندر ایک بوڑھے و جواں لالچی پر طمع یا ایک سنسنی طاری ہو جاتی ہے اور آنکھوں پر لالچ کی پٹی مضبوطی سے بندھ جاتی ہے۔

آواز کہتی ہے آپ تین ہزار روپے کے موبائل فون کارڈ جا کر لے آئیں‘ فون کو کھلا رکھیں ورنہ انعام کینسل ہو جائے گا‘ لالچی آدمی فوراً بھاگتا ہوا قریبی دکان پر جاتا ہے اور کارڈ لے آتا ہے‘ فون اٹھاتا ہے تو لائن کھلی ہوتی ہے‘ آواز کہتی ہے کہ ایک ایک کارڈ کھرچیں اور نمبر ہمیں لکھواتے جائیں‘ دولت کے مسمریزم میں گرفتار شخص اب پوری طرح ان کی گرفت میں آ چکا ہوتا ہے۔ پھر آواز کہتی ہے آپ انتظار کریں ہماری ٹیم انعام لے کر آپ کے گھر پہنچنے والی ہے‘ آپ ایک گھنٹہ انتظار کر کے پھر ان کے نمبر کو ملاتے ہیں‘ جواب آتا ہے

انعام حاصل کرنے کی ایک اور شرط بھی ہے اب آپ دس ہزار روپے اس نمبر پر ایزی لوڈ کریں۔ آپ حیران ہو کر فون بند کر دیتے ہیں‘ تھوڑی دیر بعد جب آپ پھر اس نمبر کو ڈائل کرتے ہیں تو وہاں سے بھر بھر منہ گالیاں آپ کو ملتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ آپ تو الو کے پٹھے ہیں ہم تو نہیں۔ یہ کام بڑے تعلیم یافتہ اور سمجھ دار لوگوں کے ساتھ ہو چکا ہے اور ہو رہا ہے‘ مجھے فون آیا اور آواز نے شرائط گنوائیں تو میں نے کہہ دیا کہ پانچ میں سے ایک دو لاکھ آپ کا انعام ہے آپ باقی کی رقم بھجوا دیں‘ اس کے جواب میں آپ کو غلیظ گالیاں سننی پڑتی ہیں۔

یہ گھر گھر کی کہانی ہے جس کے ساتھ دھوکہ ہوتا ہے وہ شرم کے مارے کسی کو نہیں بتاتا ورنہ شہر کے آدھے لوگ اسی چکر میں ہزاروں لاکھوں روپے گنوا چکے ہیں مگر اس کا حل و توڑ نہیں۔ میں نے اس موضوع پر کالم پہلے بھی لکھا تھا مگر لوگ اسی طرح گرفتار ہوتے جاتے ہیں۔ یہ لالچ بہت بری بلا ہے‘ یہ جب دل‘ دماغ و آنکھوں پر سوار ہو جائے تو بڑے بڑے لوگوں کو پاگل کر دیتی ہے۔ یہ بات ایک دھوکے میں آئی خاتون نے خواتین کی ایک محفل میں سنائی تو پھپھولے پھوٹ اٹھے اور سب خواتین نے کہا کہ ان کے ساتھ یہ واقعہ بیت چکا ہے۔

یہ لوگ لاہور سے فون کرتے ہیں بعد میں اس نمبر کی شکایت وہاں کے بڑے حکام سے کی جائے تو وہ چپ سادھ لیتے ہیں یا کوئی دوسرا دوست ہوا تو وہ کہتا ہے ہور چوپو گنے۔ اب بھی وقت ہے‘ جب اس قسم کا فون آئے تو میرے والا جواب دیں اور جواب میں دو چار گالیاں سن کر چپکے سے فون بند کر دیں اور اپنے دس پندرہ ہزار روپے بچا لیں۔ شروع میں آوازیں مہذب انداز میں باتیں کرتی ہیں‘ جب وہ سمجھ جاتی ہیں مرغا مرغن بھی ہے اور پھنس بھی گیا ہے تو پھر حکم چلاتی ہیں‘ اگر آپ کہیں کہ اتنی رقم میرے پاس موجود نہیں ہے تو آواز کہتی ہے پھر آپ کا انعام یا لاٹری منسوخ۔

اس بات کا نوٹس عدلیہ یا حکومت کو ازخود لینا چاہئے کہ یہ مافیا کس قدر دیدہ دلیری سے شریف شہریوں کو لوٹ رہا ہے۔ دنیا جب سے بنی ہے لالچ کا کوئی علاج دریافت نہیں ہو سکا‘ یہ مت مار دیتی ہے‘ بھائی کو بھائی سے مرواتی ہے‘ اولاد اور بچوں میں نفاق پیدا کرتی ہے۔ نوسر بازی باقاعدہ ایک فن ہے اس لئے اب باقاعدہ ٹھگ لوگ حج کرنے بھی جاتے ہیں اور خوب رقم بٹور کے لاتے ہیں‘ بس میں سوار ہوں تو ساتھ ایک آدھ ٹھگ آ کر بیٹھ جائے گا‘ میٹھی گولیاں کھلائے گا‘ مٹھائی دے گا‘ جب آپ انٹاغفیل ہو جائیں تو وہ آپ کا سب اثاثہ لے کر کسی سٹاپ پر اتر جائے گا۔

بس کے اڈوں‘ ریلوے سٹیشنوں اور ایئر پورٹوں پر یہ مخلوق اپنے اپنے اڈے جمائے بیٹھی ہے‘ حال ہی میں خبر آئی ہے کہ ایک جیب کترا جہاز میں بھی پکڑا گیا ہے جسے 35 ہزار فٹ کی بلندی پر بھی خدا کا خوف نہیں ڈراتا۔ اس کا حل اپنے آپ کو ہوشیار رکھنا ہے‘ آپ کو فرشتوں کے روپ میں شیطان بھی قدم قدم پر ملتے رہیں گے۔

موبائل فون کے انعامات کے چکروں میں تو بالکل نہ آئیں‘ اپنی آدھی روکی سوکھی روٹی کھائیں اور لاکھوں کا حرص نہ کریں۔ جیب کتروں‘ اچکوں‘ ٹھگوں کا یہ قول ہے کہ جب تک بے وقوف بننے والے موجود رہیں گے ہمارا کاروبار جاری رہے گا‘ اس لئے یہ کاروبار پھل پھول رہا ہے‘ احمق بننے والے موجود ہیں اور احمق بنانے والے بے شمار ہیں۔ میں 20سال قبل امریکہ میں ایک کالے ٹھگ کے ہاتھوں ٹھگا گیا تھا اس وقت میرے حواس پر بھی لالچ کی پٹی بندھ گئی تھی جس کی ڈور کالے کے ہاتھ میں تھی‘ اس کے بعد توبہ کر کے کانوں کو ہاتھ لگا لیا۔
 

Dilkash

محفلین
ہاہاہا۔۔جی ھاں
اصل باڑہ خیبر ایجنسی تیراہ فاٹا ،نسلا افریدی ساکن پشاور حال دوھ۔۔۔۔۔۔۔۔ا
 
بہت عمدہ دلکش صاحب تیراہ کی کیا بات ہے ہم نے ایک مرتبہ تیراہ سے بڑھ وان کا پیدل سفر 5گھنٹے میں کیا تھا دوران سفر بہت عجیب و غریب واقعات پیش آئے تھے آپ نے تیراہ کا ذکر کیا تو ایک دم زہن میں پرانی یادیں قریبا 10سال پرانی روشن ہوئیں
 

Dilkash

محفلین
جناب اج کل نرے بابا کا نام او نشان بھی نہیں ہے او نہ کوئی زیارتوں ولیوں کا نام لے سکتا ہے۔
وہابی ازم نے پورے پاکستان کو یرگمال بنایا ہوا ہے۔

رحمان بابا ، میان چمکنو ،او داتا دربار پر حملے اسی ازم کے کارنامے ہیں۔

نرے بابا کوئی ولی اللہ تھا،پارٹیشن سے پہلے ہندوستان سے ایا تھا،اور کار خیر میں بڑہ چڑہ کر حصہ لیا۔
اج انکی درگاہ شدت پسندوں کی پناہ گاہ ہے
 
جناب نرے بابا 1600میں تشریف لائے تھے یہ دو بھائی تھے ایک تیراہ میں رک گئے اور ایک بھائی میرے جد امجد مدار اللہ پشاور تشریف لے آئے تھے۔
 

Dilkash

محفلین
اچھا۔۔
30-40 سال پھلے تک جو مجاور زندہ تھا وپ پھر کون تھا؟
یہ علاقہ ہمارا ہے گو میں خود نہیں گیا ھوں مگر علاقہ ہماری قوم کا ہے۔
ھمارا ابائی وط سنڈا پل تیراہ ہے جو یہاں نری بابا سے تقریبا 30-40 کلومیٹر اگے بالائی علاقہ ہے جو قوم سپاہ کا اخٰیری حد بندی ہے۔

اپکے جو جد امجد کا مزار ہے وہ پشاور میں کونسی جگہ پر ہے؟
 
Top