دل جلے جب بھی کہیں جاں سے گزر جائیں گے - قمر الزماں قمر

کاشفی

محفلین
غزل
( قمر الزماں قمر)

دل جلے جب بھی کہیں جاں سے گزر جائیں گے
دور تک درد کے انگارے بکھر جائیں گے

تشنہ ہونٹوں کے لئے خون سے تر جائیں گے
اس طرح عرش پہ یہ خاک بسر جائیں گے

چاندنی دھوپ کی گرمی سے پگھل جائے گی
رات کے خواب سحر ہوتے بکھر جائیں گے

رشتہء جاں کو نہیں جنجر قاتل کی طلب
چاہنے والے فقط بات سے مر جائیں گے

اے دھنک شام کو چلمن کے مقابل سجنا
ان کے عارض پہ ترے رنگ نکھر جائیں گے

یاد کی ریت میں‌مٹنے کو ہیں ماضی کے نشاں
کارواں خواب کے اب دیکھ کدھر جائیں گے

تذکرہ جب بھی کہیں اہل جنوں کا ہوگا
وہ مرے نام پہ شرما کے ٹھہر جائیں گے

اجنبی ریت میں‌خوابوں‌ کے گھروندے ڈھا کر
صبح کے بھولے ہوئے شام کو گھر جائیں گے

ظلمتیں رات ڈھلے لوٹ چکیں نورِ قمر
آپ کیا لینے وہاں وقت سحر جائیں گے
 
Top